علی بن جعفر الصادق

ویکی شیعہ سے
علی بن جعفر الصادق
کنیتابوالحسن
وفاتسنہ 210ھ یا سنہ 220ھ یا سنہ 225ھ
مدفنقم یا مدینہ یا سمنان
والدامام جعفر صادقؑ
اولاد13بیٹے اور 7بیٹیاں
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


علی بن جعفر الصادق، المعروف علی عُرَیضی امام جعفر صادقؑ کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ آپ نے اپنے بھائی امام موسی کاظمؑ اور امام رضاؑ سے کچھ روایات نقل کی ہیں۔ آپ کی تحریر کردہ ایک کتاب بھی ہے جس کا عنوان "مسائلُ علیِ بن جعفر" ہے؛ اس میں آپ نے اپنے سوالات اور امام کاظمؑ کے جوابات بیان کیے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں رہنے والے حسینی سادات اپنے شجرہ نسب کو آپ سے ملاتے ہیں۔ عُریض، قم اور سمنان میں آپ سے منسوب مقبرے موجود ہیں۔

پیدائش

علی بن جعفر امام جعفر صادقؑ کی اولاد میں سے ایک ہیں۔ آپ کی والدہ کنیز تھی۔[1] کہتے ہیں کہ امام جعفر صادقؑ(سنہ148ھ) کی شہادت کے وقت آپ کی عمر دوسال تھی۔ [2] کتاب "تنقیح المقال فی علم الرجال" کے مطابق آپ نے اپنے والد امام صادقؑ سے روایات نقل کی ہیں۔[3] ایران میں مدفون امام زادوں کے بارے میں لکھی کتاب "انوار پراکنده (کتاب)" میں آپ کی اپنے والد سے روایت نقل کرنے کو مد نظررکھتے ہوئے اندازے کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش کو سنہ 134ھ یا135ھ قرار دی گئی ہے۔[4]

علی بن جعفر کی کنیت ابو الحسن ہے۔[5] آپ عُرَیض[یادداشت 1] کے رہنے والے تھے[6] اسی لیے آپ کو عُرَیضی[7] اور آپ کے بیٹوں اور پوتوں کو عُرَیضیّون[8] کہتے تھے۔

شریک حیات اور اولاد

شیخ عباس قمی کے مطابق محمد بن عبد الله باہر کی بیٹی فاطمہ آپ کی شریک حیات تھی۔[9] تاریخ میں آپ کی اولاد کی تعداد میں 13 بیٹے اور 7 بیٹیاں ثبت ہیں[10]

آپ کے بیٹوں کے نام محمد، حسن، احمد شعرانی، جعفر اصغر، حسین، جعفر اکبر، عیسی، قاسم، علی، عبدالله، محمد اصغر، احمد اصغر اور محسن تھے۔[11] آپ کی بیٹیاں کلثوم، عِلیه، ملیکه، خدیجه، حمدونه، زینب اور فاطمه تھیں.[12]

جنوب مشرقی ایشیا میں رہائش پذیر سادات حسینی کے جد

کہا جاتا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک جیسے انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور اور جنوبی تھائلینڈ میں رہنے والے حسینی سادات علی بن جعفر کے بیٹے احمد بن عیسی بن محمد کی نسل سے ہیں۔[13] ان علاقوں میں اسلام کی ترویج کے سلسلے میں انہی سادات نے بڑا کردار ادا کیا۔[14] علی بن جعفر کی اولاد کی ان علاقوں کی طرف ہجرت کا انگیزہ تبلیغ اسلام اور تجارت بتایا جاتا ہے۔[15] محدث قمی کا کہنا ہے کہ علی بن جعفر کے چار بیٹوں محمد، احمد شعرانی، حسن اور جعفر سے ان کی نسل آگے بڑھی ہے۔[16]

اماموں کی ہمراہی

وفات کے وقت علی بن جعفر کا فرمان

میرے والد کی وفات سے ایک سال قبل جبکہ اہل بیتؑ ان کے پاس جمع تھے؛ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو امامت کو تسلیم کرنے کے برابر کسی اور چیز کی تاکید نہیں کی۔ لیکن لوگوں نے کسی اور چیز کا انکار نہیں کیا جس طرح سے انہوں نے امامت کا انکار کیا»

کتاب، مسائلُ علیِ بن جعفر و مُستَدرَکاتُها، ص39.

شیخ طوسی نے علی بن جعفر کو اصحاب امام کاظمؑ،[17] اور امام رضاؑ[18] میں شمار کیا ہے۔ منقول ہے کہ علی بن جعفر نے 4دفعہ امام کاظمؑ کے ساتھ عمرہ انجام دیا۔[19]

حسن بن فضال سے منقول حدیث کے مطابق امام کاظمؑ نے امام رضاؑ کی امامت علی بن جعفر کے سامنے بیان کی تو آپ نے اسے تسلیم کی۔[20] اسی طرح زکریا بن یحیٰ نے نقل کیا ہے کہ علی بن جعفر نے امام سجادؑ کے پوتے حسن بن حسین بن علی بن حسین سے گفتگو کرتے ہوئے امام رضاؑ کی امامت کا تذکرہ کیا۔[21] الکافی میں منقول ایک روایت کے مطابق علی بن جعفر امام محمد تقیؑ کو ان کے بچپنے میں نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے، جب اصحاب نے اس سے متعلق استفسار کیا تو آپ نے امام جوادؑ کی امامت سے متعلق بات کی۔[22]

علی بن جعفر نے امام ہادیؑ کو بھی درک کیا ہے اور اسی دوران ہی آپ کی وفات ہوئی ہے۔[23]

رجالی لحاظ سے مقام و مرتبہ

ابن‌داوود نے اپنی کتاب رجال میں علی بن جعفر کو ممدوحین میں شمار کیا ہے۔[24] نیز شیخ مفید کہتے ہیں کہ علی بن جعفر نے امام کاظمؑ سے بکثرت احادیث روایت کی ہیں، نقل روایت میں ایک ٹھوس طریقہ کار اپنایا ہوا تھا اور نہایت درجہ فضیلت و تقوی کے حامل تھے۔[25] شیخ طوسی نے آپ کی وثاقت کی توصیف کی ہے۔[26]

علی بن جعفر نے اپنے والد،[27] امام کاظمؑ[28] اور امام رضاؑ[29] سے حدیث نقل کی ہے۔ اسی طرح زید بن علی فرزند حسین ذوالدَّمعہ، سفیان بن عیینہ، محمد بن مسلم، عبدالملک بن قُدامه اور امام جعفر صادقؑ کے خادم معتب سے بھی روایت نقل کی ہے۔[30]

راویان

کتاب مسائل علی بن جعفر کے تحقیق‌ شده نسخے میں آپ کے 43 راویوں کا نام ذکر کیا گیا ہے۔ منجملہ احمد بن ابی نصر بزنطی، عبد العظیم حسنی، حسین بن موسی بن جعفرؑ اور یونس بن عبدالرحمان آپ کے راوی شمار ہوتے ہیں۔[31]

آثار

ایران کے شہر سمنان میں مقبرہ علی بن جعفر
مدینہ کے قصبہ عُریض میں مسجد اور مقبرہ علی بن جعفرؑ

احمد بن علی نجاشی نے علی بن جعفر کی مسائل حلال و حرام سے متعلق ایک کتاب کا ذکر کیا ہے۔[32] نیز شیخ طوسی دو کتابیں «المناسک» اور «مسائلُ لِاَخیهِ موسی الکاظم» آپ سے منوسب کی ہیں۔[33] علی بن جعفر نے اپنی کتاب "مسائل علی بن جعفر" میں امام کاظمؑ سے اپنے سوالات اور امام کے جوابات نقل کیے ہیں۔[34] "مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث" نے ان سوالات کو علی بن جعفر کی دیگر روایات سمیت کتاب «مسائلُ علیِ بن جعفر و مُستَدرَکاتُها» میں جمع اور اس کی اشاعت کی ہے۔[35]

وفات

علی بن جعفر کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ شمس‌ الدین ذہبی[36] اور آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت مورخ عبد الله یافعی[37] نے آپ کی تاریخ وفات 210ھ بتائی ہے؛ لیکن کتاب "انوار پراکنده" میں امام جوادؑ (شهادت:220ھ) کی روایت کے مطابق آپ کی وفات کی تاریخ سنہ220ھ بیان ہوئی ہے اس کے مطابق آپ نے 85 سال کی عمر میں وفات پائی ہے۔[38]

علی بن جعفر سے منسوب مقبرے

3مقامات؛ عُریض، قم اور سمنان میں علی بن جعفر سے منسوب مقبرے موجود ہیں:

  • عریض: محدث نوری (1254-1320ھ) نے اپنی کتاب مُستَدرَک‌الوسائل کے خاتمے میں کہا ہے کہ علی بن جعفر کا مقبرہ مدینہ سے نزدیک ایک دیہات عریض میں ہے۔[39] سنہ2002ء میں سعودی عرب حکومت نے اس مقبرے کو منہدم کردیا۔[40]اعیان الشیعۃ کے مولف سید محسن امین اور علامہ حسن زاده آملی [41] بھی کہتے ہیں کہ علی بن حسین کا مقبرہ عریض میں ہے۔
  • قم: شیعہ عالم دین محمد تقی مجلسی (1003-1070ھ) کے مطابق علی بن جعفر کا مقبرہ قم کے باغ بہشت میں ہے۔ ان کے بقول اہل قم کی دعوت پر علی بن جعفر قم کی طرف ہجرت کی۔[42] محدّث قمّی لکھتے ہیں: قبر علی بن جعفر کے محل وقوع کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ قم یا عریض میں ہے۔ لہذا احتمال یہی ہے کہ جو مقبرہ قم میں ہے وہ ان کے پوتے جعفر کا مقبرہ ہے جو کہ علی بن جعفر کے چھوٹے بیٹے کی اولاد میں سے ہے۔[43] مدرسی طباطبایی بھی کہتے ہیں کہ علی بن جعفر کا مقبرہ قم میں ہے۔[44] محدث نوری نے امکان ظاہر کیا ہے کہ قم میں جو مقبرہ علی بن جعفر سے منسوب ہے وہ ان کے یا جعفر کَذّاب کے پوتے کا ہے۔[45]
  • ایران کے سمنان شہر میں بھی ایک مقبرہ علی بن جعفر سے منسوب ہے۔[46]

نوٹ

  1. عریض؛ مدینہ کے نزدیک ایک گاؤں کا نام ہے جو امام صادقؑ کی ملکیت میں تھا اور امام کی وصیت کے مطابق یہ جگہ علی بن جعفر کے قبضے میں دے دی۔ (قمی، تاریخ قم، 1361ہجری شمسی، ص224.)

حوالہ جات

  1. ابن‌طباطبا، منتقله الطالبیه، 1388ہجری شمسی، ص224.
  2. قمی، تاریخ قم، 1361ہجری شمسی، ص224.
  3. مامقانی، تنقیح‌المقال، مؤسسه آل البیت، مقدمه2، ص638.
  4. فقیه بحرالعلوم، انوار پراکنده، 1376ہجری شمسی، ج، ص238.
  5. نجاشی، رجال النجاشی، مؤسسة النشر الاسلامی، ص251.
  6. نجاشی، رجال النجاشی، مؤسسة النشر الاسلامی، ص251.
  7. قمی، تاریخ قم، 1361ہجری شمسی، ص224.
  8. ابن‌عنبه، عمدة الطالب، 1380ھ، ص242.
  9. قمی، منتهی‌الآمال، ج2، ص59.
  10. رجایی، المعقبون، 1385ہجری شمسی، ج2، ص49-4.
  11. رجایی، المعقبون، 1385ہجری شمسی، ج2، ص49-4.
  12. رجایی، المعقبون، 1385ہجری شمسی، ج2، ص4.
  13. بارانی، «بررسی نقش تشیّع در ورود و گسترش اسلام به آسیای جنوب شرقی»، ص254.
  14. بارانی، «بررسی نقش تشیع در ورود و گسترش اسلام به آسیای جنوب شرقی»، ص254.
  15. بارانی، «بررسی نقش تشیّع در ورود و گسترش اسلام به آسیای جنوب شرقی»، ص257.
  16. قمی، منتهی الآمال، 1331ہجری شمسی، ج2، ص.
  17. طوسی، رجال الطوسی، 1373ہجری شمسی، ص339.
  18. طوسی، رجال الطوسی، 1373ہجری شمسی، ص359.
  19. حمیری، قرب‌الاسناد، مؤسسة آل البیت علیهم السلام لإحیاء التراث، ص486.
  20. شیخ طوسی، کتاب الغیبة، 1411ھ، ص42..
  21. مفید، الارشاد، 1443ھ، ج2، ص275.
  22. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج، ص322.
  23. ابن‌عنبه، عمدة الطالب، 1380ہجری شمسی، ص241.
  24. ابن‌داود، کتاب الرجال، 1392ھ، ص136.
  25. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص214.
  26. طوسی، فهرست، 1417ھ، ص151.
  27. برقی، رجال، جامعة طهران، ص25؛ طوسی، رجال الطوسی، 373ہجری شمسی، ص339.
  28. طوسی، رجال الطوسی، 1373ہجری شمسی، ص339.
  29. علی بن جعفر، پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه.
  30. علی بن جعفر، مسائل علی بن جعفر و مستدرکاتها، المؤتمر العالمی للامام الرضا(ع)، ص55-57.
  31. علی بن جعفر، مسائل علی بن جعفر و مستدرکاتها، المؤتمر العالمی للامام الرضا(ع)، ص58-65.
  32. نجاشی، رجال النجاشی، مؤسسة النشر الاسلامی، ص252.
  33. طوسی، فهرست، 47ھ، ص151.
  34. شیخ طوسی، رجال الطوسی، 1373ہجری شمسی، ص339.
  35. «مسائل علی بن جعفر(ع) و مستدرکاتها»، حدیث نت.
  36. ذهبی، العبر فی خبر، دارالکتب العلمیه، ج، ص282.
  37. یافعی، مرآة الجنان، 1417ھ، ج2، ص37.
  38. فقیه بحرالعلوم، انوار پراکنده، 1376ہجری شمسی، ج، ص238-239.
  39. محدث نوری، خاتمه مستدرک الوسایل، مؤسسة آل البیت لاحیا التراث، ج4، ص487.
  40. «عُرَیْض نزهتگاه امامان علیهم السلام و مقبره علی بن جعفر علیه السلام»، ص3.
  41. https://library.tebyan.net/fa/Viewer/Text/68405/6
  42. مجلسی، روضة المتقین، 1406ھ، ج4، ص191.
  43. قمی، منتهی الآمال، کتابفروشی علمیه اسلامیه، 1331ہجری شمسی، ج2، ص.110
  44. مدرسی طباطبایی، تربت پاکان، 1335ہجری شمسی، ص44.
  45. محدث نوری، خاتمه مستدرک الوسایل، مؤسسة آل البیت لاحیا التراث، ج4، ص487.
  46. محدث نوری، خاتمه مستدرک الوسایل، مؤسسة آل البیت لاحیا التراث، ج4، ص487.

مآخذ

  • ابن داوود، حسن بن علی، کتاب الرجال، قم، الشریف الرضی، 1392ھ/1972ء.
  • ابن‌طباطبا، ابراهیم بن ناصر بن طباطبا، منتقله الطالبیه، نجف اشرف، منشورات المطبعه الحیدریه، 1388ہجری شمسی.
  • ابن‌عنبه، احمد بن علی، عمدة الطالب فی انساب آل ابی‌طالب، نشر شریف رضی، 1380ھ.
  • بارانی، محمدرضا و محمدعلی ربانی، «بررسی نقش تشیّع در ورود و گسترش اسلام به آسیای جنوب شرقی»، فصلنامه شیعه‌شناسی، ش50، 3941ہجری شمسی.
  • برقی، رجال البرقی، منشورات جامعة طهران، بی‌تا.
  • حمیری، عبدالله بن جعفر، قرب الاسناد، تحقیق مؤسسة آل البیت علیهم السلام لإحیاء التراث، قم، بی‌تا.
  • خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، مرکز نشر آثار شیعه، 3691ہجری شمسی.
  • ذهبی، شمس‌الدین، العبر فی خبر عن غبر، تحقیق ابوهاجر محمد السعید بن بسیونی زغلول، بیروت، دارالکتب العلمیة، بی‌تا.
  • رجایی، سید مهدی، المعقبون من آل ابی طالب، موسسه عاشورا، قم، 3851ہجری شمسی.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبة للحجة، تصحیح عبدالله تهرانی و علی‌احمد ناصح، قم، دارالمعارف الاسلامیه، 1411ھ.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الفهرست، تحقیق جواد قیومی، الطبعة الاولی، 1417ھ.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، تحقیق جواد قیومی اصفهانی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، 1373ہجری شمسی.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، تصحیح: مؤسسة آل‌البیت، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ.
  • علی بن جعفر، مسائل علی بن جعفر و مستدرکاتها، تحقیق: مؤسسة آل البیت، قم، المؤتمر العالمی للامام الرضا(ع)، بی‌تا.
  • علی بن جعفر، پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه، تاریخ انتشار: 1400/9/17.
  • فقیه بحرالعلوم، محمدمهدی، انوار پراکنده، قم، انتشارات مسجد مقدس جمکران، چاپ اول، 1376ہجری شمسی.
  • قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، تصحیح سید جلال‌الدین تهرانی، تهران، توس، 1361ہجری شمسی.
  • قمی، شیخ عباس، منتهی الآمال فی تواریخ النبی و الآل، تعریب سید هاشم میلانی، قم، جماعة المدرسین، بی‌تا.
  • قمی، شیخ عباس، منتهی الآمال، تهران،کتابفروشی علمیه اسلامیه، 1331ہجری شمسی.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دارالکتب الاسلامیه، 1407ھ.
  • مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال فی علم الرجال، تحقیق محمدرضا مامقانی و محی‌الدین مامقانی، مؤسسة آل البیت لاحیاء التراث، چاپ نجف، 1350ھ.
  • مجلسی، محمدتقی، روضه المتقین فی شرح من لا یحضره الفقیه، تصحیح حسین موسوی کرمانی و علی‌پناه اشتهاردی، قم، مؤسسه فرهنگی اسلامی کوشانبور، چاپ دوم، 1406ھ.
  • مدرسی طباطبایی، سید حسین، تربت پاکان، قم، مطبعة مهر، 1335ہجری شمسی.
  • مسائل علی بن جعفر و مستدرکاتها، مؤسسة آل البیت، 1409ھ.
  • «مسائل علی بن جعفر(ع) و مستدرکاتها»، حدیث‌نت، مشاهده 20 اردیبهشت 1420ہجری شمسی.
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، تصحیح مؤسسة آل البیت علیهم السلام، قم، کنگره شیخ مفید، 1413ھ.
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، تحقیق سید موسوی شبیری زنجانی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، بی‌تا.
  • نوری میرزاحسین، خاتمة مستدرک الوسائل، قم، مؤسسة آل البیت لاحیا التراث، بی‌تا.
  • یافعی، عبدالله بن اسعد، مرآة الجنان و عبرة الیقظان فی معرفة ما یعتبر من حوادث الزمان، بیروت، دارالکتب العلمیة، 1417ھ/1997ء.