بیداء
بَیداء، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بنجر بیابان کا نام ہے۔[1] یہ بیابان مسجد شجرہ سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر مکہ کی طرف واقع ہے۔[2]
اس جگہے کا نام حدیث خَسفِ بَیداء (سر زمین بیداء کا دھنس جانا) میں ذکر ہوا ہے جسے شیعہ اور اہل سنت احادیث میں امام زمانہؑ کے ظہور کی علامتوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔[3]
امام باقرؑ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے کہ آخری زمانے میں جب سُفیانی کا لشکر سر زمین بیداء میں داخل ہو گا تو آسمان سے منادی کی آواز آئے گی: "اے بیابان! اس قوم کو نابود کرو"؛ اس کے بعد زمین سفیانی لشکر کو نگل لے گی اور تین اشخاص کے علاوہ باقی سب کے سب ہلاک ہونگے۔[4]
فقہی منابع کے مطابق اس بیابان میں نماز پڑھنا مکروہ ہے اور مستقبل میں یہاں پر خدا کی طرف سے عذاب نازل ہو گا۔[5]
حوالہ جات
- ↑ یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۱، ص۵۲۳۔
- ↑ شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۱۶۰-۱۶۱۔
- ↑ صنعانی، المصنف، بیتا، ج۱۱، ح۲۰۷۶۹؛ ابن ابیشیبہ، المصنف، ۱۴۰۹ق، ح۱۹۰۶۶؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۱ق، ج۸، ص۳۱۰؛ شیخ صدوق، خصال، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۳۰۳؛ نعمانی، الغیبۃ، مکتبۃ الصدوق، ص۲۵۷، ح۱۵۔
- ↑ نعمانی، الغیبۃ، مکتبۃ الصدوق، ص۲۷۹، باب۱۴، ح۶۷۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۸، ص۳۴۹۔
مآخذ
- شیخ صدوق، محمد بن علی، کتاب الخصال، بہ کوشش علیاکبر غفاری، قم، نشر اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۶ھ۔
- صنعانی، عبدالرزاق، المصنف، بہ کوشش حبیب الرحمن الاعظمی، بیجا، المجلس العلمی، بیتا۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، بیروت،دار التعارف، چاپ سوم، ۱۴۰۱ھ۔
- ابن ابیشیبہ، المصنف، تحقیق سعید اللحام، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۹ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، تہران،دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۲ہجری شمسی
- نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبہ، بہ کوشش علی اکبر غفاری، تہران، مکتبۃ الصدوق، بیتا۔
- ہاشمی شاہرودی، سید محمود، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہمالسلام، قم، مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، ۱۳۹۲ہجری شمسی
- یاقوت حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، ۱۹۹۵ء۔