خطبہ اشباح

ویکی شیعہ سے
خطبہ اشباح
خطبہ اشباح
حدیث کے کوائف
موضوعخدا کی توصیف، فرشتوں، آسمانوں اور زمین و آدمؑ کی خلقت
صادر ازامام علیؑ
اصلی راویمسعدۃ بن صدقہ
اعتبارِ سندمعتبر
شیعہ مآخذالتوحیدنہج البلاغہ
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


خطبہ اَشباح، خدا شناسی کے موضوع پر نہج البلاغہ کے طولانی ترین خطبوں میں سے ایک ہے۔ ابن ابی الحدید اس خطبے کی ادبی اہمیت کے بیان میں عرب کے تمام فصیحوں کے کلام کو مٹی اور اس خطبے کو سونے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ سید بن طاووس اس خطبے کی اہمیت اور مرتبے کو مد نظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے معتبر ہونے میں کوئی شک و تردید نہیں ہے۔

یہ خطبہ شیعہ منابع کے علاوہ اہل‌ سنت منابع میں بھی نقل ہوا ہے۔ خطبہ اشباح میں مطرح ہونے والے مباحث میں سے بعض یہ ہیں: خدا کی صفات، قرآن کا خدا کے اسما و صفات کی شناخت کے لئے معیار ہونا، خدا کی ذات اور صفات پر انسان کو احاطہ نہ ہونا، فرشتوں کی خلقت اور ان کی خصوصیات اور خدا کا انسان کے تمام اسرار سے واقف ہونا۔

اس خطبہ کے بارے میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں من جملہ ان میں عبد العلی گویا کی کتاب "علیؑ و سالکین راہ شیطان (فوج مُقْتَحَم)" کا نام لیا جا سکتا ہے۔

اجمالی تعارف

خطبہ اشباح نہج‌ البلاغہ کے خطبوں میں سے ایک ہے جسے پرمغز اور حائز اہمیت خطبہ قرار دیا گیا ہے۔[1] نہج البلاغہ کے شارح ابن‌ ابی‌ الحدید اس خطبے کی فصاحت و بلاغت کو عرب کے ادیبوں کے کلام کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے انہیں مٹی جبکہ اس خطبے کو خالص سونے سے تشبیہ دیتے ہیں۔[2]

نہج البلاغہ کے مؤلف سید رضی کے مطابق یہ خطبہ کسی شخص کی درخواست پر دیا گیا ہے جس نے امام علیؑ سے درخواست کی تھی کہ اسے خدا کی اس طرح توصیف کریں کہ گویا خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔ اس روایت کے مطابق اس درخواست کو سننے کے بعد امام علیؑ بہت ناراض ہو گئے، لوگوں کو جمع کیا اور مسجد کوفہ کے منبر پر جا کر یہ خطبہ دیا۔[3] امام علیؑ کو اس درخواست پر کیوں غصہ آیا تھا؟ اس کی توضیح میں مختلف احتمالات مطرح کئے گئے ہیں؛ من جملہ یہ کہ مذکورہ شخص یہ خیال کر رہا تھا کہ خدا کی صفات بھی مخلوقات کی صفات کی مانند ہے تاکہ وہ خدا کو دیکھ سکے[4] دوسری بات یہ کہ ظہور اسلام کے سالوں سال گزرنے کے باوجود کیوں مسلمان اب تک خدا کی صفات سے آگاہ نہیں ہیں۔[5]

نہج البلاغہ کے مختلف نسخوں میں اس خطبے کا نمبر مختلف ہے:[6]

نسخہ کا نام خطبہ نمبر
المعجم المفہرس، صبحی صالح، ذیشان حیدر جوادی (اردو) 91
فیض الاسلام، شرح خوئی، ملاصالح، ابن‌ابی‌‌ الحدید 90
ابن میثم 88
عبدہ 87
ملافتح اللہ 97
فی ظلال، مفتی جعفر حسین (اردو) 89

نام

اس خطبہ کو "اَشْباح" نام رکھنے کے بارے میں مختلف احتمالات ذکر ہوئے ہیں:

  • «اشباح» فرشتوں سے کنایہ ہے کیونکہ اس خطبے کا ا یک حصہ فرشتوں کے بارے میں ہے؛[7]
  • اس خطبہ میں لفظ «اشباح» استعمال ہوا ہے (نہج البلاغہ کے علاوہ دوسری روایتوں کے مطابق[8][9]
  • شَبَح دور سے نظر آنے والی چیز یا شخص کو کہا جاتا ہے جو واضح اور مشخص نہ ہو، چونکہ اس خطبہ میں ایسی چیزوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے جو سننے والے کے لئے واضح اور آشکار نہیں تھی اس بنا پر اسے اشباح کا نام دیا گیا ہے۔[10]

مضمون

خطبہ اشباح میں بیان ہونے والے مطالب میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • خدا کی بعض صفات کا بیان؛
  • خدا کے اسما و صفات کی شناخت میں قرآن کا معیار ہونا؛
  • انسان کا خدا کی ذات اور صفات کی حقیقت سے مکمل آگاہ نہ ہونا؛
  • تخلیق کائنات میں خدا کی تدبیر؛
  • باعظمت آسمانوں کی خلقت؛
  • فرشتوں کی خلقت اور ان کی صفات اور خصوصیات؛
  • زمین اور حضرت آدم کی خلقت اور انبیاء کی نبوت؛
  • خدا کا انسان کے تمام اسرار سے واقف ہونا۔[11]

سند

کتاب فَرَجُ المَہموم کے مصنف سید بن طاووس کہتے ہیں کہ اس خطبے کے معتبر ہونے کے لئے اس کی سند کی چھان بین ضروری نہیں ہے کیونکہ اس خطبے کا متن اس قدر عظمت اور قدر و قیمت کا حامل ہے کہ سوائے معصومین کے کسی اور شخص سے ایسا خطبہ صادر ہونا امکان پذیر نہیں ہے۔[12] خطبہ اشباح امام علیؑ کے مشہور خطبات میں سے ہے جو سید رضی سے پہلے بھی مشہور تھا۔[13] یہ خطبہ شیعہ منابع جیسے شیخ صدوق کی کتاب التوحید[14] اور زیدی عالم دین یحیی بن حسین ہارونی کی کتاب "تیسیر المطالب"[15]) کے علاوہ اہل‌ سنت منابع جیسے العِقد الفَرید[16] و رَبیعُ الاَبرار[17]) میں بھی نقل ہوا ہے۔

کتاب مَصادِرُ نہج البلاغہ کے مصنف سید عَبدُ الزہراء الحسینی الخَطیب کے مطابق سید رضی نے اس خطبہ کو مَسْعَدَۃِ بنِ صَدَقہ کی کتاب «خُطَب امیرالمؤمنینؑ» سے نقل کیا ہے؛ کیونکہ ایک طرف سید رضی اس خطبہ کی ابتداء میں تصریح کی ہے کہ انہوں نے اسے مسعدۃ بن صدقہ کے توسط سے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے اور دوسری طرف سے مسعدہ کی «خُطَب امیرالمؤمنینؑ» نامی ایک مشہور کتاب تھی جو سید ہاشم بَحْرانی کی کتاب کتاب البُرہان کے زمانے تک موجود تھی۔[18]

خطبے کا متن اور ترجمہ

متن ترجمه
رَوی مَسْعدة بن صَدَقة عن الصادق، جعفر بن محمّد(علیهم السلام) أنّه قال: خَطب أمیرالمؤمنین(علیه‌السلام) بهذه الخطبة علی منبر الکوفة، و ذلک أنّ رجلا أتاه فقال له: یا أمیرالمؤمنین صِفْ لنا ربّنا مثلما نراه عیاناً لنزداد له حُبّاً و به معرفةً، فغضب و نادی: الصلاة جامعة، فاجتمع النّاس حتّی غصّ المسجد بأهله، فصعد المنبر و هو مُغضب متغیر اللون، فحمدالله و أثنی علیه و صلّی علی النبی(صلی الله علیه وآله) ثمّ قال:... یہ خطبہ اشباح کے نام سے مشہور ہے اور امیرالمومنین کے بلند پایہ خطبوں میں شمار ہوتا ہے اسے ایک سائل کے جواب میں ارشاد فرمایا تھا جس نے اپ سے یہ سوال کیا تھا کہ اپ خلاق عالم کے صفات کو اس طرح بیان فرمائیں کہ ایسا معلوم ہو جیسے ہم اسے اپنی انکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس پر حضرت غضب ناک ہو گئے اور فرمایا:
اَلْحَمْدُللهِ الَّذِی لاَیفِرُهُ الْمَنْعُ وَ الْجُمُودُ، وَلاَیکْدِیهِ الْاِعْطَاءُ وَ الْجُودُ; إِذْ كُلُّ مُعْط مُنْتَقِصٌ سِوَاهُ، وَ كُلُّ مَانِع مَذْمُومٌ مَا خَلاَهُ; وِ هُوَ الْمنَّانُ بِفَوائِدِ النِّعَمِ، وَ عَوائِدِ المَزِیدِ وَ الْقِسَمِ; عِیالُهُ الْخَلاَئِقُ، ضَمِنَ أَرْزَاقَهُمْ، وَ قَدَّرَ أَقْوَاتَهُمْ، وَ نَهَجَ سَبِیلَ الرَّاغِبِینَ إِلَیهِ، وَ الطَّالِبِینَ مَا لَدَیهِ، وَ لَیسَ بِمَاسُئِلَ بِأَجْوَدَ مِنْهُ بِمَا لَمْ یسْأَلْ. الأَوَّلُ الَّذِی لَمْ یكُنْ لَهُ قَبْلٌ فَیكُونَ شَیءٌ قَبْلَهُ، وَ الآخِرُ الَّذِی لَیسَ لَهُ بَعْدٌ فَیكُونَ شَیءٌ بَعْدَهُ، تمام حمد اس اللہ کے لیے ہے کہ جو فیض و عطا کے روکنے سے مال دار نہیں ہو جاتا اور جود و عطا سے کبھی عاجز و قاصر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اس کے سوا ہر دینے والے کے یہاں داد و دہش سے کمی واقع ہوتی ہے اور ہاتھ روک لینے پر انہیں برا سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ فائدہ بخش نعمتوں اور عطیوں کی فراوانیوں اور روزیوں (کی تقسیم) سے ممنون احسان بنانے والا ہے۔ ساری مخلوق اس کا کنبہ ہے۔ اس نے سب کی روزیاں مقرر کر رکھی ہیں۔ اس نے اپنے خواہش مندوں اور اپنی نعمت کے طلب گاروں کے لیے راہ کھول دی ہے۔ وہ دستِ طلب کے نہ بڑھنے پر بھی اتنا ہی کریم ہے جتنا طلب و سوال کا ہاتھ بڑھنے پر۔ وہ ایسا اول ہے جس کے لیے کوئی قبل ہے ہی نہیں کہ کوئی شئے اس سے پہلے ہو سکے، اور ایسا اخر ہے جس کے لیے کوئی بعد ہے ہی نہیں تاکہ کوئی چیز اس کے بعد فرض کی جاسکے۔
وَالرَّادِعُ أَنَاسِی الْاَبْصَارِ عَنْ أَنْ تَنَالَهُ أَوْ تُدْرِكَهُ، مَا اخْتَلَفَ عَلَیهِ دَهْرٌ فَیخْتَلِفَ مِنْهُ الحَالُ، وَ لاكَانَ فی مَكَان فَیجُوزَ عَلَیهِ الاِنتِقَالُ. وَلَوْ وَهَبَ مَا تَنَفَّسَتْ عَنْهُ مَعَادِنُ الْجِبَالِ، وَ ضَحِكَتْ عَنْهُ أَصْدَافُ الْبِحَارِ، مِنْ فِلِزِّ الُّجَینِ وَ الْعِقْیانِ، وَ نُثَارَةِ الدُّرِّ وَ حَصِیدِ الْمَرْجَانِ، مَا أَثَّرَ ذلِكَ فی جُودِهِ، وَ لاأَنْفَدَ سَعَةَ مَا عِنْدَهُ، وَ لَكَانَ عِنْدَهُ مِنْ ذَخَائِرِ الأَنْعَامِ مَا لاتُنْفِدُهُ مَطَالِبُ الأَنَامِ، لاَنَّهُ الْجَوَادُ الَّذِی لایغِیضُهُ سُؤَالُ السَّائِلینَ وَ لایبْخِلُهُ إلْحَاحُ المُلِحِّینَ. وہ انکھ کی پتلیوں کو (دور ہی سے ) روک دینے والا ہے کہ وہ اسے پاسکیں یا اس کی حقیقت معلوم کر سکیں۔ اس پر زمانہ کے مختلف دور نہیں گذرتے کہ اس کے حالات میں تغیر و تبدل پیدا ہو، وہ کسی جگہ میں نہیں ہے کہ اس کے لیے نقل و حرکت صحیح ہو سکے۔ اگر وہ چاندی اور سونے جیسے نفیس دھاتیں کہ جنہیں پہاڑوں کے معدن (لمبی لمبی) سانسیں بھر کر اچھال دیتے ہیں۔ اور بکھرے ہوئے موتی اور مرجان کی کٹی ہوئی شاخیں کہ جنہیں دریاؤں کی سیپیاں کھکھلا کر ہنستے ہوئے اگل دیتی ہیں، بخش دے تو اس سے اس کے جو دو عطا پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ اس کی دولت کا ذخیرہ اس سے ختم ہو سکتا ہے۔ اور اس کے پاس پھر بھی انعام و کرام کے اتنے ذخیرے موجود رہیں گے۔ جنہیں لوگوں کی مانگ ختم نہیں کر سکتی اس لیے کہ وہ ایسا فیاض ہے جسے سوالوں کا پورا کرنا مفلس نہیں بنا سکتا اور گِڑ گڑا کر سوال کرنے والوں کا حد سے بڑھا ہوا اصرار بخل پر امادہ نہیں کر سکتا۔
فَانْظُرْ أَیهَا السَّائِلُ: فَمَا دَلَّكَ الْقُرْآنُ عَلَیهِ مِنْ صِفَتِهِ فَائْتَمَّ بِهِ وَ اسْتَضِیءْ بِنُورِ هِدَایتِهِ، وَ مَا كَلَّفَكَ الشَّیطَانُ عِلْمَهُ مِمَّا لَیسَ فی الْكِتَابِ عَلَیكَ فَرْضُهُ، وَ لافِی سُنَّةِ النَّبِی(صلی الله علیه وآله) وَ أَئِمَّةِ الْهُدَی أَثَرُهُ، فَكِلْ عِلْمَهُ إِلَی اللهِ سُبْحانَهُ، فَإِنَّ ذلِكَ مُنْتَهَی حَقِّ اللهِ عَلَیكَ. وَ اعْلَمْ أَنَّ الرَّاسِخِینَ فِی الْعِلْمِ هُمُ الَّذِینَ أَغْنَاهُمْ عَنِ اقْتِحَامِ السُّدَدِ الْمَضرُوبَةِ دُونَ الْغُیوبِ، الإِقْرَارُ بِجُمْلَةِ مَا جَهِلُوا تَفْسِیرَهُ مِنَ الْغَیبِ الْمَحْجُوبِ، اسے (اللہ کی صفتوں کو) دریافت کرنے والے دیکھو! کہ جن صفتوں کا تمہیں قران نے پتہ دیا ہے (ان میں) تم اس کی پیروی کرو اور اسی کے نور ہدایت سے کسبِ ضیا کرتے رہو اور جو چیزیں کہ قران میں واجب نہیں اور نہ سنت پیغمبر و ائمہ ہُدیٰ میں ان کا نام و نشان ہے اور نہ صرف شیطان نے اس کے جاننے کی تمہیں زحمت دی ہے۔ اس کا علم اللہ ہی کے پاس رہنے دو، اور یہی تم پر اللہ کے حق کی آخری حد ہے۔ اور اس بات کو یاد رکھو کہ علم میں راسخ و پختہ لوگ وہی ہیں کہ جو غیب کے پردوں میں چھپی ہوئی ساری چیزوں کا اجمالی طور پر اقرار کرتے ( اور ان پر اعتقاد رکھتے ) ہیں اگرچہ ان کی تفسیر و تفصیل نہیں جانتے اور یہی اقرار انہیں غیب پر پڑے ہوئے پر دوں میں دراز گھسنے سے بے نیاز بنائے ہوئے ہے۔
فَمَدَحَ اللهُ - تَعَالَی - اعْتِرَافَهُمْ بِالْعَجْزِ عَنْ تَنَاوُلِ مَا لَمْ یحِیطُوا بِهِ عِلْماً، وَ سَمَّی تَرْكَهُمُ التَّعَمُّقَ فِیمَا لَمْ یكَلِّفْهُمُ الْبَحْثَ عَنْ كُنْهِهِ رُسُوخاً، فَاقْتَصِرْ عَلی ذلِكَ، وَلاتُقَدِّرْ عَظَمَةَ الله سُبْحَانَهُ عَلی قَدْرِ عَقْلِكَ فَتَكُونَ مِنَ الْهَالِكِینَ. اور اللہ نے اس بات پر ان کی مدح کی ہے کہ جو چیز ان کے احاطہ علم سے باہر ہوتی ہے۔ اس کی رسائی سے اپنے عجز کا اعتراف کر لیتے ہیں اور اللہ نے جس چیز کی حقیقت سے بحث کرنے کی تکلیف نہیں دی۔ اس میں تعمق و کاوش کے ترک ہی کا نام رسوخ رکھا ہے۔ لہذا بس اسی پر اکتفا کر و اور اپنے عقل کے پیمانہ کے مطابق اللہ کی عظمت کو محدود نہ بناؤ۔ اور نہ تمہارا شمار ہلاک ہونے والوں میں قرار پائے گا۔
هُوَ الْقَادِرُ الَّذِی إذَا ارْتَمَتِ الأَوْهَآمُ، لِتُدْرِكَ مُنْقَطَعَ قُدْرَتِهِ. وَ حَاوَلَ الْفِکْرُ الْمُبَرَّأُ مِنْ خَطَرَاتِ الْوَسَاوِسِ أَنْ یقَعَ عَلَیهِ فِی عَمِیقَاتِ غُیوبِ مَلَكُوتِهِ، وَ تَوَلَّهَتِ الْقُلُوبُ إِلَیهِ، لِتَجْرِی فِی كَیفِیةِ صِفَاتِهِ، وَ غَمَضَتْ مَدَاخِلُ الْعُقُولِ فِی حَیثُ لاتَبْلُغُهُ الصِّفَاتُ لِتَنَاوُلِ عِلْمِ ذَاتِهِ، رَدَعَهَا وَ هِی تَجُوبُ مَهَاوِی سُدَفِ الْغُیوبِ، مُتَخَلِّصَةً إِلَیهِ - سُبْحَانَهُ - فَرَجَعَتْ إِذْ جُبِهَتْ مَعْتَرِفَةً بِأَنَّهُ لاینَالُ بِجَوْرِ الاِعْتِسَافِ كُنْهُ مَعْرِفَتِهِ، وَ لاتَخْطُرُ بِبَالِ أُولِی الرَّوِیاتِ خَاطِرَةٌ مِنْ تَقْدِیرِ جَلاَلِ عِزَّتِهِ. وہ ایسا قادر ہے کہ جب اس کی قدرت کی انتہا معلوم کرنے کے لیے وہم اپنے تیر چلا رہا ہو اور فکر ہر طرح کے وسوسوں کے ادھیڑ بن سے آزاد ہو کر اس کے قلم و مملکت کے گہرے بھیدوں پر اگاہ ہونے کے درپے ہو، اور دل اس کی صفتوں کی کیفیت سمجھنے کے لیے والہانہ طور پر دوڑ پڑے ہوں اور ذاتِ الٰہی کو جاننے کے لیے عقلوں کی جستجو و تلاش کی راہیں حد بیان سے زیادہ دور تک چلی گئی ہوں تو اللہ اس وقت جب وہ غیب کی تیرگیوں کے گڑھوں کو عبور کر رہی ہوتی ہیں۔ ان سب کو (ناموں کے ساتھ) پلٹا دیتا ہے۔ چنانچہ جب اس طرح منہ کی کھا کر پلٹی ہیں تو انہیں یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ایسی بے راہ رویوں سے اس کی معرفت کا کھوج نہیں لگایا جا سکتا اور نہ فکر پیماؤں کے دلوں میں اس کی عزت کے تمکنت و جلال کا ذرا سا شائبہ آ سکتا ہے۔
اَلَّذی ابْتَدَعَ الْخَلْقَ عَلَی غَیرِ مِثَال امْتَثَلَهُ، وَ لامِقْدَار احْتَذَی عَلَیهِ، مِنْ خَالِق مَعْبُود كَانَ قَبْلَهُ، وَ أَرَانَا مِنْ مَلَكُوتِ قُدْرَتِهِ، وَ عَجَائِبِ مَا نَطَقَتْ بِهِ آثَارُ حِکْمَتِهِ، وَ اعْتِرَافِ الْحَاجَةِ مِنَ الْخَلْقِ إِلَی أَنْ یقِیمَهَا بِمِسَاكِ قُوَّتِهِ، مَا دَلَّنا بِاضْطِرَارِ قِیامِ الْحُجَّةِ لَهُ عَلَی مَعْرِفَتِهِ، فَظَهَرَتِ الْبَدائِعُ الَّتِی أَحْدَثَتْهَا آثَارُ صَنْعَتِهِ، وَ أَعْلاَمُ حِکْمَتِهِ، فَصَارَ كُلُّ مَا خَلَقَ حُجَّةً لَهُ وَ دَلِیلا عَلَیهِ; وَ إِنْ كَانَ خَلْقاً صَامِتاً، فَحُجَّتُهُ بِالتَّدْبِیرِ نَاطِقَةٌ، وَ دَلاَلَتُهُ عَلَی الْمُبْدِعِ قَائِمَةٌ. وہ وہی ہے کہ جس نے مخلوقات کو ایجاد کیا بغیر اس کے کہ کوئی مثال اپنے سامنے رکھتا اور بغیر اس کے کہ اپنے سے پہلے کسی اور خالق و معبود کی بنائی ہوئی چیزوں کا چربہ اتارتا اس نے اپنی قدرت کی بادشاہت اور ان عجیب چیزوں کے واسطہ سے کہ جن میں اس کی حکمت و دانائی کے اثار (منہ سے) بول رہے ہیں اور مخلوق کے اس اعتراف سے کہ وہ اپنے رکنے تھمنے میں اس کے سہارے کی محتاج ہے۔ ہمیں وہ چیزیں دکھائی ہیں کہ جنہوں نے قہراً دلیل قائم ہو جانے کے دباؤ سے اس کی معرفت کی طرف ہماری راہنمائی کی ہے اور اس پیدا کر دہ عجیب و غریب چیزوں میں اس کی صنعت کے نقش و نگار اور حکمت کے اثار۔ نمایاں اور واضح ہیں۔ چنانچہ ہر مخلوق اس کی ایک حجت اور ایک برہان بن گئی ہے۔ چاہے وہ خاموش مخلوق ہو۔ مگر اللہ کی تدبیر و کار سازی کی ایک بولتی ہوئی دلیل ہے اور ہستی صانع کی طرف اس کی راہنمائی ثابت و برقرا رہے۔
فَأَشْهَدُ أَنَّ مَنْ شَبَّهَكَ بِتَبَاینِ أَعْضَاءِ خَلْقِكَ، وَ تَلاَحُمِ حِقَاقِ مَفَاصِلِهِمُ الْمُحْتَجِبَةِ لِتَدْبِیرِ حِکْمَتِكَ، لَمْ یعْقِدْ غَیبَ ضَمِیرِهِ عَلَی مَعْرِفَتِكَ، وَ لَمْ یبَاشِرْ قَلْبَهُ الْیقِینُ بِأَنَّهُ لانِدَّ لَكَ، وَ كَأَنَّهُ لَمْ یسْمَعْ تَبَرُّؤَ التَّابِعِینَ مِنَ الْمَتْبُوعینَ إِذْ یقُولُونَ: (تَالله إِنْ كُنّا لَفِی ضَلال مُبِین * إِذْ نُسَوِّیكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِینَ)! كَذَبَ الْعَادِلُونَ بِكَ، إِذْ شَبَّهُوكَ بِأَصْنَامِهِمْ، وَ نَحَلُوكَ حِلْیةَ الْمَخْلُوقِینَ بِأَوْهَامِهِمْ، وَ جَزَّأُوكَ تَجْزِئَةَ الْمُجَسَّمَاتِ بِخَوَاطِرِهِمْ، وَ قَدَّرُوكَ عَلَی الْخَلْقَةِ المُخْتَلِفَةِ الْقُوَی، بِقَرائِحِ عُقُولِهِمْ. میں گواہی دیتا ہوں۔ کہ جس نے تجھے تیری ہی مخلوق سے ان کے اعضاء کے الگ الگ ہونے اور تیری حکمت کی کارسازیوں سے گوشت و پوست میں ڈھکے ہوئے ان کے جوڑوں سے سروں کے ملنے میں تشبیہہ دی۔ اس نے اپنے چھپے ہوئے ضمیر کو تیری معرفت سے وابستہ نہیں کیا اور اس کے دل کو یہ یقین چھوُ بھی نہیں گیا کہ تیرا کوئی شریک نہیں۔ گویا اس نے پیرو کاروں کا یہ قول نہیں سنا جو اپنے مقتداؤں سے بیزاری چاہتے ہوئے یہ کہیں گے کہ »خدا کی قسم! ہم تو قطعاً ایک کھلی ہوئی گمراہی میں تھے کہ جب ہم سارے جہاں کے پالنے والے کے برابر تمہیں ٹھہرایا کرتے تھے۔ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو تجھے دوسروں کے برابر سمجھ کر اپنے بتوں سے تشبیہہ دیتے ہیں اور اپنے وہم میں تجھ پر مخلوقات کی صفتیں جڑ دیتے ہیں اور اپنے خیال میں اس طرح تیرے حصے بخرے کرتے ہیں، جس طرح مجسم چیزوں کے جوڑ بند الگ الگ کئے جاتے ہیں۔ اور اپنی عقلوں کی سوجھ بوجھ کے مطابق تجھے مختلف قوتوں والی مخلوقات پر قیاس کرتے ہیں۔
وَ أَشْهَدُ أَنَّ مَنْ سَاوَاكَ بِشَیء مِنْ خَلْقِكَ فَقَدْ عَدَلَ بِكَ، وَ الْعَادِلُ بِكَ كَافِرٌ بِمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ مُحْكَمَاتُ آیاتِكَ، وَ نَطَقَتْ عَنْهُ شَوَاهِدُ حُجَجِ بَینَاتِكَ، وَ إِنَّكَ أَنْتَ اللهُ الَّذِی لَمْ تَتَنَاهَ فِی الْعُقُولِ، فَتَكُونَ فی مَهَبِّ فِکْرِهَا مُكَیفاً، وَلاَ فِی رَوِیاتِ خَوَاطِرِهَا فَتَكُونَ مَحْدُوداً مُصَرَّفاً. میں گواہی دیتا ہوں کہ جس نے تجھے تیری مخلوق میں سے کسی کے برابر جانا اس نے تیرا ہمسر بنا ڈالا۔ اور تیرا ہمسر بنانے والا تیری کتاب کی محکم آیتوں کے مضامین اور ان حقائق کا جنہیں تیری طرف کے روشن دلائل واضح کررہے ہیں منکر ہے۔ تو وہ اللہ ہے کہ عقلوں کی حد میں گھر نہیں کر سکتا ان کی سوچ بچار کی زد پر آکر کیفیات کو قبول کر لے اور نہ ان کے غور و فکر کی جو لانیوں میں تیری سمائی ہے کہ تو محدود ہو کر ان کے فکری تصرفات کا پابند بن جائے:
اس خطبہ کا ایک حصہ یہ ہے
قَدَّرَ مَاخَلَقَ فَأَحْكَمَ تَقْدِیرَهُ، وَ دَبَّرَهُ فَأَلْطَفَ تَدْبِیرَهُ، وَوَجَّهَهُ لِوِجْهَتِهِ فَلَمْ یتَعَدَّ حُدُودَ مَنْزِلَتِهِ، وَ لَمْ یقْصُرْ دُونَ الإِنْتِهاءِ إِلی غَایتِهِ، وَ لَمْ یسْتَصْعِبْ إِذْ أُمِرَ بِالمُضِی عَلَی إِرَادَتِهِ، فَكَیفَ وَ إِنَّمَا صَدَرَتِ الْاُمُورُ عَنْ مَشِیئَتِهِ؟ اس نے جو چیزیں پیدا کیں۔ ان کا ایک اندازہ رکھا۔ مضبوط و مستحکم، اور ان کا انتظام کیا، عمدہ و پاکیزہ، اور انہیں ان کی سمت پر اس طرح لگایا کہ نہ وہ اپنی آخری منزل کی حدوں سے اگے بڑھیں اور نہ منزل منتہا تک پہنچنے میں کوتاہی کی۔ جب انہیں اللہ کے ارادے پر چل پڑنے کا حکم دیا گیا، تو انہوں نے سرتابی نہیں کی اور وہ ایسا کر ہی کیوں کر سکتی تھیں۔ جب کہ تمام امور اسی کی مشیئت و ارادہ سے صادر ہوئے ہیں
اَلْمُنْشِیءُ أَصْنَافَ الأَشْیاءِ بِلاَ رَوِیةِ فِکْر آلَ إِلَیها، وَ لاقَریحَةِ غَرِیزَة أَضْمَرَ عَلَیهَا، وَ لاتَجْرِبَه أفادَهَا مِنْ حَوَادِثِ الدُّهُورِ، وَ لاشَرِیک أَعَانَهُ عَلَی ابْتِدَاعِ عَجَائِبِ الأُمورِ، فَتَمَّ خَلْقُهُ بِأَمْرِهِ، وَ أَذْعَنَ لِطَاعَتِهِ، وَ أَجَابَ إِلی دَعْوَتِهِ، لَم یعْتَرِضْ دُونَهُ رَیثُ الْمُبْطِیءِ، وَ لاأَنَاةُ الْمُتَلَكِّیءِ، فَأَقَامَ مِنَ الْاَشْیاءِ أَوَدَهَا، وَ نَهَجَ حُدُودَهَا، وَ لاَءَمَ بِقُدْرَتِهِ بَینَ مُتَضَادِّهَا، وَ وَصَلَ أَسْبَابَ قَرَائِنِهَا، وَ فَرَّقَهَا أَجْنَاساً مُخْتَلِفَات فِی الْحُدُودِ وَ الأَقْدَارِ، وَالْغرَائِز وَ الْهَیئَاتِ، بَدَایا خَلاَئِقَ أَحْكَمَ صُنْعَهَا، وَ فَطَرَهَا عَلَی مَا أَرَادَ وَ ابْتَدَعَهَا! وہ گوناکوں چیزوں کا موجد ہے بغیر کسی سوچ بچار کی طرف رجوع کئے اور بغیر طبیعت کی کسی جولانی کے کہ جسے دل میں چھپائے ہو اور بغیر کسی تجربہ کے کہ جو زمانہ کے حوادث سے حاصل کیا ہو اور بغیر کسی شریک کے کہ جو ان عجیب و غریب چیزوں کی ایجاد میں اس کا معین و مددگار رہا ہو چنانچہ مخلوق (بن بنا کر) مکمل ہو گئی اور اس نے اللہ کی اطاعت کے سامنے سر جھکا دیا اور (فوراً) اس کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے بڑھی۔ نہ کسی دیر کرنے والے کی سی سست رفتاری دامن گیر ہوئی اور نہ کسی حیل حجت کرنے والے کی سی سستی اور ڈھیل حائل ہوئی اس نے ان چیزوں کے ٹیڑھا پن کو سیدھا کر دیا اور ان کی حدیں معین کر دیں۔ اور اپنی قدرت سے ان متضاد چیزوں میں ہم رنگی و ہم آہنگی پیدا کی اور نفسوں کے رشتے (بدنوں سے) جوڑ دیئے اور انہیں مختلف جنسوں پر بانٹ دیا۔ جو اپنی حدوں، اندازیوں، طبیعتوں اور صورتوں میں جُدا جُدا ہیں۔ یہ نو ایجاد مخلوق ہے کہ جس کی ساخت اس نے مضبوط کی ہے اور اپنے ارادے کے مطابق اسے بنایا اور ایجاد کیا۔
اس خطبہ کا ایک حصہ آسمان کے وصف میں
وَ نَظَمَ بِلاَ تَعْلِیق رَهَوَاتِ فُرَجِهَا، وَ لاَحَمَ صُدُوعَ انْفِرَاجِهَا، وَ وَشَّجَ بَینَهَا وَ بَینَ أَزْوَاجِهِا، وَ ذَلَّلَ لِلْهَابِطِینَ بِأَمْرِهِ، والصَّاعِدینَ بِأَعْمَالِ خَلْقِهِ، حُزُونَةَ مِعْرَاجِهَا، وَ نَادَاهَا بَعْدَ إِذْ هِی دُخَانٌ، فَالْتَحَمَتْ (فالتجمت) عُرَی أَشْرَاجِهَا، وَفَتَقَ بَعْدَ الاِرْتِتَاقِ صَوَامِتَ أَبْوَابِهَا، وَأَقَامَ رَصَداً، مِنَ الشُّهُبِ الثَّوَاقِبِ عَلَی نِقَابِهَا، وَ أَمْسَكَهَا مِنْ أَنْ تَمُورَ، فِی خَرْقِ الْهَوَاءِ بِأَیدِهِ وَأَمَرَهَا أَنْ تَقِفَ مُسْتَسْلِمَةً لاَِمْرِهِ. اس نے بغیر (کسی چیز سے ) وابستہ کئے اس کے شگافوں کے نشیب و فراز کو مرتب کر دیا اور اس کے دراڑوں کی کشادگیوں کو ملادیا اور انہیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جکڑ دیا اور اس کے احکام کو لے کر اترنے والوں اور خلق کے اعمال کو لے کر چڑھنے والوں کے لیے اس کی بلندیوں کی دشوار گزاری کو اسان کر دیا ابھی وہ اسمان دھوئیں ہی کی شکل میں تھے۔ کہ اللہ نے انہیں پکار ا تو (فوراً) ان کے تسموں کے رشتے آپس میں متصل ہو گئے۔ اس نے ان کے بند دروازوں کو بستہ ہونے کے بعد کھول دیا اور ان کے سوراخوں پر ٹوٹتے ہوئے تاروں کے نگہبان کھڑے کر دیئے اور انہیں اپنے زور سے روک دیا کہ کہیں وہ ہوا کے پھیلاؤ میں ادھر نہ ہو جائیں اور انہیں مامور کیا کہ و ہ اس کے حکم کے سامنے سرجھکائے ہوئے اپنے مرکز پر ٹھہرے رہیں۔
وَ جَعَلَ شَمْسَهَا آیةً مُبْصِرَةً لِنَهَارِهَا، وَ قَمَرَهَا آیةً مَمْحُوَّةً مِنْ لَیلِهَا، وَ أَجْرَاهُمَا فِی مَنَاقِلِ مَجْرَاهُمَا، وَ قَدَّرَ سَیرَهُمَا فِی مَدَارِجِ دَرَجِهِمَا، لِیمِیزَ بَینَ ال‍لّیلِ وَ النَّهَارِ بِهِمَا، وَ لِیعْلَمَ عَدَدُ السِّنِینَ والْحِسَابُ بِمَقَادِیرِهِمَا، ثُمَّ عَلَّقَ فِی جَوِّهَا فَلَكَهَا، وَ نَاطَ بِهَا زِینَتَهَا، مِن خَفِیاتِ دَرَارِیهَا وَ مَصَابیحِ كَوَاكِبِهَا، وَرَمَی مُسْتَرِقِی السَّمْعِ بِثَوَاقِبِ شُهُبِهَا، وَ أَجْرَاها عَلَی أَذْلاَلِ تَسْخِیرهَا مِنْ ثَبَاتِ ثَابِتِهَا، وَ مَسِیرِ سَائِرِهَا، وَ هُبُوطِهَا وَ صُعُودِهَا، وَ نُحُوسِهَا وَ سُعُودِهَا. اس نے فلک کے سورج کو دن کی روشن نشانی اور چاند کو رات کی دھندلی نشانی قرار دیا ہے۔ اور انہیں ان کی منزلوں پر چلایا ہے اور ان کی گزرگاہوں میں ان کی رفتار مقرر کر دی ہے تاکہ ان کے ذریعہ سے شب وروز کی تمیز ہو سکے اور انہیں کے اعتبار سے برسوں کی گنتی اور (دوسرے) حساب جانے جا سکیں۔ پھر یہ کہ اس نے اسمانی فضا میں اس فلک کو اویزاں کیا اور اس میں اسی کی ارائش کے لیے منے منے موتیوں ایسے تارے اور چراغوں کی طرف چمکتے ہوئے ستارے اویزاں کیے اور چوری چھپے کان لگانے والوں پر ٹوٹتے ہوئے تاروں کے تیر چلائے اور ستاروں کو اپنے جبرو قہر سے ان کے ڈھرے پر لگایا کہ کوئی ثابت رہے اور کوئی سیار کبھی تاتار ہو۔ اور کبھی ابھار اور کسی میں نحوست ہو اور کسی میں سعادت۔
اس خطبہ کا ایک حصہ فرشتوں کے وصف میں
ثُمَّ خَلَقَ سُبْحانَهُ لإِسْكَانِ سَمواتِهِ، وَ عِمَارَةِ الصَّفِیحِ الأَعْلَی مِنْ مَلَكُوتِهِ، خَلْقاً بَدِیعاً مِنْ مَلاَئِكَتِهِ، وَ مَلأَ بهِمْ فُرُوجَ فِجَاجِهَا، وَ حَشَا بِهمْ فُتُوقَ أَجْوَائِها، وَ بَینَ فَجَوَاتِ تِلْكَ الْفُرُوجِ زَجَلُ الْمُسَبِّحِینَ مِنْهُمْ فِی حَظَائِرِ الْقُدُسِ، وَ سُتُرَاتِ الْحُجُبِ، وَسُرَادِقَاتِ الْمَجْدِ، وَوَرَاءَ ذلِكَ الرَّجِیجِ الَّذِی تَسْتَكُّ مِنْهُ الأَسْمَاعُ سُبُحَاتُ نُور تَرْدَعُ الأَبْصارَ عَنْ بُلُوغِهَا، فَتَقِفُ خَاسِئَةً عَلَی حُدُودِهَا. پھر اللہ سبحانہ نے اپنے اسمانوں میں ٹھہرانے اور اپنی مملکت کے بلند طبقات کو اباد کرنے کے لیے فرشتوں کی عجیب و غریب مخلوق پیدا کی ان سے اسمان کے وسیع راستوں کا گوشہ گوشہ بھر دیا اور اسی کی فضا کی وسعتوں کا کونا کونا چھلکا دیا اور ان وسیع اطراف کی پہنائیوں میں تسبیح کرنے والے فرشتوں کی اوازیں قدس و پاکیزگی کی چار دیواریوں اور عظمت کے گہرے حجابوں اور بزرگی و جلال کے سرپردوں میں گونجتی ہیں اور اس گونج کے پیچھے جس سے کان بہرے ہو جاتے ہیں۔ تجلیات نور کی اتنی فراونیاں ہیں کہ جو نگاہوں کو اپنے تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں۔ چنانچہ وہ ناکام ونامراد ہو کر اپنی جگہ پر ٹھہری رہتی ہیں۔
وَ أَنْشَأَهُمْ عَلَی صُوَر مُخْتَلِفَات، وَ أَقْدَار مُتَفَاوِتَات، (أُولِی أَجْنِحَة) تُسَبِّحُ جَلاَلَ عِزَّتِهِ، لاَینْتَحِلُونَ مَا ظَهَرَ فِی الْخَلْقِ مِنْ صُنْعِهِ، وَ لایدَّعُونَ أَنّهُمْ یخْلُقُونَ شَیئاً مَعَهُ مِمَّا انْفَرَدَ بِهِ، (بَلْ عِبَادٌ مُکْرَمُونَ * لایسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأمْرِهِ یعْمَلُونَ) جَعَلَهُمُ اللهُ فِیمَا هُنَالِكَ أَهْلَ الأَمَانَةِ عَلَی وَحْیهِ، وَ حَمَّلَهُمْ إِلی الْمُرْسَلِینَ وَدَائِعَ أَمْرِهِ وَ نَهْیهِ، وَعَصَمَهُمْ مِنْ رَیبِ الشُّبُهَاتِ، فَمَا مِنْهُمْ زَائِغٌ عَنْ سَبِیلِ مَرْضَاتِهِ، وَ أَمَدَّهُمْ بِفَوَائِدِ المَعُونَةِ، وَ أَشْعَرَ قُلُوبَهُمْ تَوَاضُعَ إِخْبَاتِ السَّكِینَةِ، وَ فَتَحَ لَهُمْ أَبْوَاباً ذُلُلا إِلی تَمَاجِیدِهِ، وَنَصَبَ لَهُمْ مَنَاراً وَاضِحَةً عَلَی أَعْلاَمِ تَوْحِیدِهِ. اللہ نے ان (فرشتوں) کو جُدا جُدا صورتوں اور الگ الگ پیمانوں پر پیدا کیا ہے۔ وہ بال و َپر رکھتے ہیں اور اس کے جلال و عزت کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ اور مخلوق میں جو اس کی صنعتیں اجاگر ہوئی ہیں۔ انہیں اپنی طرف نسبت نہیں دیتے اور نہ یہ ادعا کرتے ہیں کہ وہ کسی ایسی شے کو پیدا کر سکتے ہیں کہ جس کے پیدا کرنے میں وہ منفرد و یکتا ہے۔ بلکہ وہ اس کے معزز بندے ہیں جو کسی بات کے کہنے میں اس سے سبقت نہیں کرتے اور وہ اسی کے کہنے پر چلتے ہیں اللہ نے انہیں وہاں اپنی وحی کا امانتدار اور اپنے اوامر و نواہی کی ودیعتوں کا حامل بنا کر رسولوں کی طرف بھیجا ہے اور شک و شبہات کے لعزشوں سے انہیں محفوظ رکھا ہے۔ تو ان میں سے کوئی بھی اس کی رضاجوئی کی راہ سے کترانے والا نہیں۔ اور اس نے اپنی توفیق و اعانت سے ان کی دستگیری کی، اور خضوع و خشوع کی عجز و شکستگی سے ان کے دلوں کو ڈھانپ دیا ہے اور تسبیح و تقدیس کی سہولتوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے ہیں اور اپنی توحید کے نشانوں پر ان کے لئے روشن مینار نصب کیے ہیں ۔
لَمْ تُثْقِلْهُمْ مَوصِرَاتُ الآثَامِ، وَ لَمْ تَرْتَحِلْهُمْ عُقَبُ ال‍لّیالی وَ الأَیام، وَ لَمْ تَرْمِ الشُّكُوكُ بِنَوَازِعِهَا، عَزِیمَةَ إِیمَانِهمْ، وَ لَمْ تَعْتَرِكِ الظُّنُونُ عَلَی مَعَاقِدِ یقِینهِمْ، وَ لاقَدَحَتْ قَادِحَةُ الإِحَنِ فِیمَا بَینَهُمْ، وَ لاسَلَبَتْهُمُ الْحَیرَةُ مَا لاَقَ مِنْ مَعْرِفَتِهِ بِضَمائِرِهمْ، وَ مَا سَكَنَ مِنْ عَظَمَتِهِ وَ هَیبَةِ جَلاَلَتِهِ فِی أَثْنَاءِ صُدُورِهْم، وَ لَمْ تَطْمَعْ فِیهِمُ الْوَسَاوِسُ فَتَقْتَرِعَ بِرَینِهَا عَلی فِکْرِهمْ. نہ گناہوں کی گرانباریوں نے انہیں دبا رکھا ہے، نہ شب و روز کی گردشوں نے ان پر (سواری کے لیے ) پالان ڈالے ہیں اور نہ شکوک و شبہات نے ان کے ایمان کے استحکام پر تیر چلائے ہیں اور نہ ان کے یقین کی پختگیوں پر (اوہام و ) ظنون نے دھاوا بولا ہے۔ اور نہ ان کے درمیان کبھی کینہ و حسد کی چنگاریاں بھڑکی ہیں۔ اور نہ حیرانی و سراسیمگی ان کے دلوں میں سرائیت کی ہوئی معرفت اور ان کے سینے کی تہوں میں جمی ہوئی عظمت خداوندی و ہیبتِ جلال الٰہی کو چھین سکی ہے۔ نہ کبھی وسوسوں نے ان پر دندان ازا تیز کیا ہے، کہ ان کے فکروں کو زنگ و تکدر سے الودہ کردیں۔
وَ مِنْهُمْ مَنْ هُوَ فی خَلْقِ الْغَمَامِ الدُّلَّحِ، وَ فی عِظَمِ الْجِبَالِ الشُّمَّخِ، وَ فی قَتْرَةِ الظَّلاَمِ الْاَیهَمِ، وَ مِنْهُمْ مَنْ قَدْ خَرَقَتْ أَقْدَامُهُمْ تَخُومَ الأَرْضِ السُّفْلَی، فَهِی كَرَایات بِیض قَدْ نَفَذَتْ فِی مَخَارِقِ الْهَوَاءِ، وَ تَحْتَهَا رِیحٌ هَفَّافَةٌ تَحْبِسُهَا عَلَی حَیثُ انْتَهَتْ مِنَ الْحُدُودِ الْمُتَنَاهِیةِ، قَدْ اسْتَفْرَغَتْهُمْ أَشْغَالُ عِبَادَتِهِ، وَ وَصَلَتْ حَقَائِقُ الإِیمَانِ بَینَهُمْ وَ بَینَ مَعْرِفَتِهِ، وَ قَطَعَهُمُ الإِیقَانُ بِهِ إِلی الْوَلَهِ إِلیهِ، وَ لَمْ تُجَاوِزْ رَغَبَاتُهُمْ مَا عِنْدَهُ إِلی مَا عِنْدَ غَیرِهِ. ان میں کچھ وہ ہیں جو اللہ کے پیدا کردہ بوجھل بادلوں اور اونچے پہاڑوں کی بلندیوں اور گھٹا ٹوپ اندھیروں کی سیاہیوں کی صورتوں میں ہیں اور ان میں کچھ وہ ہیں جن کے قدم تحت الثریٰ کی حدوں کو چیر کر نکل گئے ہیں۔ تو وہ سفید جھنڈوں کے مانند ہیں جو فضا کی وسعت کو دیتے ہوئے اگے بڑھ گئے ہیں اور ان پھر یروں کے اخری سرے تک ایک ہلکی ہوا چل رہی ہے جو انہیں روکے ہوئے ہے۔ ان فرشتوں کو عبادت کو مشغولیتوں نے ہر چیز سے بے فکر بنا دیا۔ اور ایمان کے ٹھوس عقیدے ان کے لیے اللہ کی معرفت کا وسیلہ بن گئے ہیں اور یقین کا مل نے اوروں سے ہٹا کر اسی سے ان کی لو لگا دی ہے۔ اللہ کی طرف کی نعمتوں کے سوا کسی غیر کے عطا وانعام کی انہیں خواہش ہی نہیں ہوتی۔
قَدْ ذَاقُوا حَلاَوَةَ مَعْرِفَتِهِ، وَ شَرِبُوا بِالْكَأْسِ الرَّوِیةِ مِنْ مَحَبَّتِهِ، وَ تَمَكَّنَتْ مَنْ سُوَیدَاءِ قُلُوبِهِمْ وَ شِیجَةُ خِیفَتِهِ، فَحَنَوْا بِطُولِ الطَّاعَةِ اعْتِدَالَ ظُهُورِهِمْ، وَ لَمْ ینْفِذْ طُولُ الرَّغْبَةِ إِلَیهِ مَادَّةَ تَضَرُّعِهِمْ، وَ لاأَطْلَقَ عَنْهُمْ عَظِیمٌ الزُّلْفَةِ رِبَقَ خُشُوعِهمْ، وَ لَمْ یتَوَلَّهُمْ الإِعْجَابُ فَیسْتَکْثِرُوا مَا سَلَفَ مِنْهُمْ وَ لاتَرَكَتْ لَهُمُ اسْتِكَانَةُ الْاِجْلاَلِ نَصِیباً فِی تَعْظِیمِ حَسَنَاتِهمْ، وَ لَمْ تَجْرِ الْفَتَرَاتُ فِیهِمْ عَلَی طُولِ دُؤُبِهِمْ، وَ لَمْ تَغِضْ رَغَبَاتُهُمْ فَیخَالِفُوا عَنْ رَجَاءِ رَبِّهِمْ، وَ لَمْ تَجِفَّ لِطُولِ الْمُناجَاةِ أَسَلاَتُ أَلْسِنَتِهمْ، وَ لامَلَكَتْهُمُ الأَشْغَالُ فَتَنْقَطِعَ بِهَمْسِ الْجُؤَارِ، إِلَیهِ أَصْوَاتُهُمْ، وَ لَمْ تَخْتَلِفْ فِی مَقَاوِمِ الطَّاعَةِ مَنَاكِبُهُمْ، وَ لَمْ یثْنُوا إلَی رَاحَةِ التَّقْصِیرِ فِی أَمْرِهِ رَقَابَهُمْ، وَ لاتَعْدُو عَلَی عَزِیمَةِ جِدِّهِم بَلاَدَةُ الْغَفَلاَتِ، وَ لاتَنْتَضِلُ فِی هِمَمِهِمْ خَدَائِعُ الشَّهَوَاتِ. انہوں نے معرفت کے شیریں مزے چکھے ہیں اور اس کی محبت کے سیراب کرنے والے جام سے سرشار ہیں۔ اوران کے دلوں کی تہ میں اس کا خوف جڑپکڑ چکا ہے، تو انہوں نے لمبی چوڑی عبادتوں سے اپنی سیدھی کمریں ٹیڑھی کر لی ہیں اور ہمہ وقت اسی کی طلب میں لگے رہنے کے باوجود ان کے تضرع و عاجزی کے ذخیرے ختم نہیں ہوتے اور قرب الٰہی کی بلندیوں کے باوجود خوف و خشوع کے پھندے ان (کے گلے ) سے نہیں اترتے۔ نہ ان میں کبھی خود پشندی پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنے گزشتہ اعمال کو زیادہ خیال کرنے لگیں اور نہ جلال پر وردگار کے سامنے ان کے عجزو انکسار نے یہ موقع انے دیا ہے کہ وہ اپنی نیکیوں کو بڑا سمجھ سکیں۔ ان میں مسلسل تعب اٹھانے کے باوجود بھی سستی نہیں انے پاتی، اور نہ ان کی طلب و رغبت میں کبھی کمی پیدا ہوئی ہے کہ وہ اپنے پالنے والے کے توقعات سے روگرداں ہو جائیں اور نہ مسلسل مناجاتوں سے ان کی زبان کی نوکیں خشک ہوتی ہیں اور نہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ وہ دوسرے اشغال کی وجہ سے تضرع و زاری کی اوازوں کو دھیما کر لیں اور نہ عبادت کی صفوں میں ان کے شانے اگے پیچھے ہو جاتے ہیں اور نہ وہ ارام و راحت کی خاطر اس کے احکام کی تعمیل میں کوتاہی کر کے اپنی گردنوں کو ادھرسے ادھر کرتے ہیں نہ ان کی کوششوں کے عزم پر غفلت کی نادانیاں حملہ اور ہوتی ہیں، اور نہ ان کی (بلند) ہمتوں میں فریب دینے والے وسوسوں کا گزر ہوتا ہے۔
قَدْ اتَّخَذُوا ذَا الْعَرْشِ ذَخِیرَةً لِیوْمِ فَاقَتِهمْ، وَ یمَّمُوهُ عِنْدَ انْقِطَاعِ الْخَلْقِ إِلی المَخْلُوقِینَ بِرَغْبَتِهمْ، لایقْطَعُونَ أَمَدَ غَایةِ عِبَادَتِهِ وَ لایرْجِعُ بِهمِ الاِسْتِهْتَارُ بِلُزُومِ طَاعَتِهِ، إِلاَّ إِلَی مَوَادَّ مِنْ قُلُوبِهمْ غَیرِ مُنْقَطِعَة مِنْ رَجَائِهِ وَ مَخَافَتِهِ، لَمْ تَنْقَطِعْ أَسْبَابُ الشَّفَقَةِ مِنْهُمْ، فَینُوا فی جِدِّهِمْ، وَ لَمْ تَاْسِرْهُمُ الْاَطْمَاعُ فَیؤْثِروُا وَشیكَ السَّعْی عَلی اجْتِهَادِهِمْ. لَمْ یسْتَعْظِمُوا مَآ مَضَی مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوِ اسْتَعْظَمُوا ذلِكَ لَنَسَخَ الرَّجَاءُ مِنْهُمْ شَفَقَاتِ وَ جَلِهِمْ، وَ لَمْ یخْتَلِفُوا فِی رَبِّهِمْ بِاسْتِحْواذِ الشَّیطَانِ عَلَیهِمْ. وَ لَمْ یفَرِّقْهُمْ سُوءُ التَّقَاطُعِ، وَلاَ تَوَلاَّهُمْ غِلُّ التَّحَاسُدِ، وَ لاتَشَعَّبَتْهُمْ مَصَارِفُ الرِّیبِ، وَلاَ اقْتَسَمَتْهُمْ أَخْیافُ الْهِمَمِ، فَهُمْ أُسَرَاءُ إِیمَان لَمْ یفُكَّهُمْ مِنْ رِبْقَتِهِ زَیغٌ وَ لاعُدُولٌ وَلاَ وَنی وَلاَ فُتُورٌ، وَ لَیسَ فی أَطْبَاقِ السَّماءِ مَوْضِعُ إِهَاب إِلاَّ وَ عَلَیهِ مَلَکٌ سَاجِدٌ، أَوْ سَاع حَافِدٌ، یزْدَادُونَ عَلَی طُول اِلطَّاعَةِ بِرَبِّهمْ عِلْماً، وَ تَزْدَادُ عِزَّةُ رَبِّهِمْ فِی قُلُوبِهِمْ عِظَماً. انہوں نے احتیاج کے دن کے لیے صاحب عرش کواپنا ذخیرہ بنا رکھا ہے، اور جب دوسرے لوگ مخلوقات کی طرف اپنی خواہشوں کو لے کر بڑھتے ہیں تو یہ بس اسی سے لو لگاتے ہیں۔ وہ اس کی عبادت کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتے انہیں عبادت کا والہانہ شوق (کسی اور طرف لے جانے کے بجائے) ان کی قلبی امید و بیم کے ان ہی سرچشموں کی طرف لے جاتا ہے، جن کے سوتے کبھی موقوف نہیں ہوتے خوف کھانے کے وجود ختم نہیں ہوئے کہ وہ اپنی کوششوں میں سستی کریں اور نہ دنیا کے طمعوں نے انہیں جکڑ رکھا ہے کہ وہ دنیا کے لیے وقتی کوششوں کو اپنی اس جدوجہد پر ترجیح دیں اور نہ انہوں نے اپنے سابقہ اعمال کو کبھی بڑا سمجھا ہے، اور اگر بڑا سمجھتے تو پھر امیدیں خوف خدا کے اندیشوں کو ان (کے صفحہ دل) سے مٹا دیتیں۔ اور نہ شیطان کے ورغلانے سے ان میں باہم اپنے پروردگار کے متعلق کبھی کوئی اختلاف پیدا ہوا، اور نہ ایک دوسرے سے کٹنے (اور بگاڑ پیدا کرنے ) کی وجہ سے پراگندہ و متفرق ہوئے، اور نہ آپس میں حسد رکھنے کے سبب سے ان کے دلوں میں کینہ و بغض پیدا ہوا اور نہ شک و شبہات میں پڑنے کی وجہ سے تتر بتر ہوئے۔ اور نہ پست ہمتیوں نے ان پر کبھی قبضہ کیا۔ وہ ایمان کے پابند ہیں، انہیں اس کے بندھنوں سے کجی، روگردانی سستی یا کاہلی نے کبھی نہیں چھڑایا۔ سطح اسمان پر کھال کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں کوئی سجدہ کرنے والا فرشتہ یا تیزی سے تگ و دو کرنے والا ملک نہ ہو، پروردگار کی اطاعت کے بڑھنے سے ان کے علم میں زیادتی ہی ہوتی رہتی ہے اور ان کے دلوں میں اس کی عزت کی عظمت و جلالت بڑھتی ہی جاتی ہے۔
اس خطبہ کا ایک حصہ زمیں اور اس کے پانی پر بچھائے جانے کی کیفیت کے بارے میں
كَبَسَ الأَرْضَ عَلی مَوْرِ أَمْوَاج مُسْتَفْحِلَة، وَلُجَجِ بِحَار زَاخِرَة، تَلْتَطِمُ أَوَاذِی أَمْوَاجِهَا، وَ تَصْطَفِقُ مُتَقَاذِفَاتُ أَثْبَاجِها، وَ تَرْغُو زَبَداً كَالْفُحُولِ عِنْدَ هِیاجِهَا، فَخَضَعَ جِمَاحُ الْمَاءِ الْمُتلاَطِمِ لِثِقَلِ حَمْلِهَا، وَ سَكَنَ هَیجُ ارْتِمَائِهِ إِذْ وَطِئَتْهُ بِكَلْكَلِهَا، وَ ذَلَّ مُسْتَخْذِیاً، إِذْ تَمَعَّكَتْ عَلَیهِ بَكَوَاهِلِهَا، فَأَصْبَحَ بَعْدَ اصْطِخَابِ أَمْوَاجِهِ، سَاجِیاً مَقْهُوراً، وَ فِی حَكَمَةِ الذُّلِّ مُنْقَاداً أَسِیراً، وَ سَكَنَتِ الأَرْضُ مَدْحُوَّةً فِی لُجَّةِ تَیارِهِ، وَرَدَّتْ مِنْ نَخْوَةِ بَأْوِهِ وَ اعْتِلاَئِهِ، وَ شُمُوخِ أَنْفِهِ وَ سُمُوِّ غُلَوَائِهِ، وَ كَعَمَتْهُ عَلَی كِظَّةِ جَرْیتِهِ، فَهَمَدَ بَعْدَ نَزَقَاتِهِ، وَ لَبَدَ بَعْدَ زَیفَانِ وَثَبَاتِهِ. (اللہ نے ) زمین کو تہ و بالا ہونے والی مہیب لہروں اور بھر پور سمندروں کی انتہاہ گہرائیوں کے اوپر پاٹا جہاں موجیں موجوں سے ٹکرا کر تھپیڑے کھاتی تھیں اور لہریں لہروں کو دھیل کر گونج اٹھتی تھیں اور اس طرح پھین دے رہی تھیں جس طرح مستی و ہیجان کے عالم میں نر اونٹ۔ چنانچہ اس متلاطم پانی کی طغیانیاں زمین کے بھاری بوجھ کے دباؤ سے فرو ہو گئیں، اور جب اس نے اپنا سینہ اس پر ٹھک کر اسے روندا تو سارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا اور جب اپنے شانے ٹکا کر اس پر لوٹی، تو وہ ڈلتوں اور خواریوں کے ساتھ رام ہو گیا۔ کہاں تو اس کی موجیں دندنا رہی تھیں کہ اب عاجز و بے بس ہو کر تھم گیا، اور ذلت کی لگاموں میں اسیر ہو کر مطیع ہو گیا، اور زمین اس طوفان خیز پانی کے گہراؤ میں اپنا دامن پھیلا کر ٹھہر گئی اور اس کے اٹھانے اور سر اٹھانے کے غرور اور تکبر سے ناک اور اوپر چڑھانے اور بہاؤ میں تفوق و سر بلندی دکھانے کا خاتمہ کر دیا۔ اور اس کی روانی کی بے اعتدالیوں پر ایسے بند باندھے کہ وہ اچھلنے کو دنے کے بعد(بالکل بے دم) ہو کر ٹھہر گیا۔ اور جست و خیز کی سر مستیاں دکھا کر تھم گیا۔
فَلَمَّا سَكَنَ هَیجُ الْمَاءِ مِنْ تَحْتِ أَکْنَافِهَا، وَ حَمْلِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ الشُّمَّخِ الْبُذَّخِ عَلَی أَکْتَافِهَا، فَجَّرَ ینَابِیعَ الْعُیونِ مِنْ عَرَانِینِ أُنُوفِهَا، وَ فَرَّقَهَا فِی سُهُوبِ بِیدِهَا وَ أَخَادِیدِهَا، وَ عَدَّلَ حَرَكَاتِهَا بِالرَّسِیاتِ مِنْ جَلاَمِیدِهَا، وَ ذَوَاتِ الشَّنَاخِیبِ الشُّمِّ مِنْ صَیاخِیدِهَا، فَسَكَنَتْ مِنَ الْمَیدَانِ لِرُسُوبِ الْجِبَالِ فِی قِطَعِ أَدِیمهَا، وَ تَغَلْغُلِهَا مُتَسَرِّبَةً فِی جَوْبَاتِ خَیاشِیمِهَا، وَ رُكُوبِهَا أَعْنَاقَ سُهُولِ الأَرَضِینَ وَ جَرَاثِیمِهَا، وَ فَسَحَ بَینَ الْجَوِّ وَ بَینَها، وَ أَعَدَّ الْهَوَاءَ مُتَنَسَّماً لِسَاكِنِهَا، وَأَخْرَجَ إِلَیهَا أهْلَهَا عَلَی تَمَامِ مَرَافِقِها. جب اس کے کناروں کے نیچے پانی کی طغیانی کا زور و شور سکون پذیر ہوا۔ اور اس کے کاندھوں پر اونچے اونچے اور چوڑے چکلے پہاڑوں کا بوجھ لد گیا، تو (اللہ نے ) اس کی ناک کے بانسوں سے پانی کے چشمے جاری کر دیئے جنہیں دور دراز جنگلوں اور کھِدے ہوئے گڑھوں میں پھیلا دیا۔ اور پتھروں کی مضبوط چٹانوں اور بلند چوٹیوں والے پتھریلے پہاڑوں سے اس کی حرکت میں اعتدال پیدا کیا۔ چنانچہ اس کی سطح کے مختلف حصوں میں پہاڑوں کے ڈوب جانے اور اس کی گہرائیوں کی تہ میں گھس جانے اور اس کے ہموار حصوں کی بلندیوں اور پست سطحوں پر سوار ہو جانے کی وجہ سے اس کی تھرتھراہٹ جاتی رہی اور اللہ نے زمین سے لے کر فضائے بسیط تک پھیلاؤ اور وسعت رکھی اور اس میں رہنے والوں کو سانس لینے کو ہوا مہیا کی اور اس میں بسنے والوں کو ان کی تمام ضروریات کے ساتھ ٹھہرایا،
ثُمَّ لَمْ یدَعْ جُرُزَ الأَرْضِ الَّتِی تَقْصُرُ مِیاهُ الْعُیونِ عَنْ رَوَابِیهَا، وَ لاتَجِدُ جَدَاوِلُ الأَنْهَارِ ذَرِیعَةً إِلی بُلُوغِهَا، حَتَّی أَنْشَأَ لَهَا نَاشِئَةَ سَحَاب تُحْیی مَوَاتَهَا، وَ تَسْتَخْرِجُ نَبَاتَهَا أَلَّفَ غَمَامَهَا بَعْد افْتِرَاقِ لُمَعِهِ، وَ تَبَاینِ قَزَعِهِ، حَتَّی إِذَا تَمَخَّضَتْ لُجَّةُ الْمُزْنِ فِیهِ، وَ الْتَمَعَ بَرْقُهُ فِی كُفَفِهِ، وَ لَمْ ینَمْ وَمِیضُهُ فِی كَنَهْوَرِ رَبَابِهِ، وَ مُتَرَاكِمِ سَحَابِهِ، أَرْسَلَهُ سَحّاً مُتَدَارِکاً، قَدْ أَسَفَّ هَیدَبُهُ، تَمْرِیهِ الْجَنُوبُ دِرَرَ أَهَاضِیبِهِ، وَ دُفَعَ شَآبِیبِهِ. پھر اس نے چٹیل زمینوں کو کہ جن کی بلندیوں تک نہ چشموں کا پانی پہنچ سکتا ہے اور نہ نہروں کے نالے وہاں تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ رکھتے ہیں۔ یونہی نہیں رہنے دیا، بلکہ ان کے لیے ہوا پر اٹھنے والی گھٹائیں پیدا کیں جو مردہ زمین میں زندگی کی لیریں دوڑا دیتی ہیں۔ اور اس سے گھاس پات اگاتی ہیں، اس نے ابر کی بکھری ہوئی چمکیلی ٹکڑیوں اور پراگندہ بدلیوں کو یکجا کر کے ابر محیط بنایا، اور جب اس کے اندر پانی کے ذخیرے حرکت میں اگئے اور اس کے کناروں میں بجلیاں تڑپنے لگیں اور برق کی چمک سفید ابروں کی تہوں اور گھنے بادلوں کے اندر مسلسل جاری رہی تو اللہ نے انہیں موسلادھار برسنے کے لیے بھیج دیا۔ اس طرح کہ اس کے پانی سے بھرے ہوئے بوجھل ٹکڑے زمین پر مندڈلا رہے تھے اور جنوبی ہوائیں انہیں مسل مسل کر برسنے والے مینہ کی بوندیں اور ایک دم ٹوٹ پڑنے والی بارش کے جھالے برسا رہی تھیں۔
فَلَمَّآ أَلْقَتِ السَّحابُ بَرْكَ بِوَانَیهَا، وَ بَعَاعَ مَا اسْتَقَلَّتْ بِهِ مِنَ الْعِبْءِ المَحْمُولِ عَلَیهَا، أَخْرَجَ بِهِ مِنْ هَوَامِدِ الأَرْضِ النَّبَاتَ، وَ مِنْ زُعْرِ الْجِبَالِ الأَعْشَابَ، فَهِی تَبْهَجُ بِزِینَةِ رِیاضِهَا وَ تَزْدَهِی بِمَا أُلْبِسَتْهُ مِنْ رَیطِ، أَزَاهِیرِهَا، وَ حِلْیةِ مَا سُمِطَتْ بِهِ مِنْ نَاضِرِ أَنْوَارِهَا، وَ جَعَلَ ذلِكَ بَلاَغاً لِلْاَنَامِ، وَ رِزْقاً لِلْاَنْعَامِ، وَ خَرَقَ الْفِجَاجَ فِی آفَاقِهَا، وَ أَقَامَ المَنَارَ لِلسَّالِکینَ عَلَی جَوَادِّ طُرُقِهَا. جب بادلوں نے اپنا سینہ ہاتھ پیرؤں سمیت زمین پر ٹیک دیا اور پانی کا سارا لدا لدایا بوجھ اس پر پھینک دیا، تو اللہ نے اقتادہ زمینوں سے سر سبز کھیتیاں اگائیں اور خشک پہاڑوں پر ہرا بھرا سبزہ پھیلا دیا زمین بھی اپنے مرغزاروں کے باؤ سنگار سے خوش ہو کر جھومنے لگی اور ان شگوفوں کی اوڑھنیوں سے جو اسے اوڑھا دی گئی تھیں اور ان شگفتہ و شاداب کلیوں کے زیوروں سے جو اسے پہنا دیئے گئے تھے، اترانے لگی۔ اللہ نے ان چیزوں کو لوگوں کی زندگی کا وسیلہ اور چوپاؤں کا رزق قرار دیا ہے اور اسی نے زمین کی سمتوں میں کشادہ راستے نکالے ہیں، اور اس کی شاہراہوں پر چلنے والوں کے لیے روشنی کے مینار نصب کئے ہیں۔
فَلَمَّا مَهَدَ أَرْضَهُ، وَ أَنْفَذَ أَمْرَهُ، اخْتَارَ آدَمَ، علیه‌السلام، خِیرَةً مِنْ خَلْقِهِ، وَ جَعَلَهُ أَوَّلَ جِبِلَّتِهِ، وَ أَسْكَنَهُ جَنَّتَهُ، وَ أَرْغَدَ فِیهَا أُكُلَهُ، وَأَوْعَزَ إِلَیهِ فِیمَا نَهَاهُ عَنْهُ، وَ أَعْلَمَهُ أَنَّ فِی الإِقْدَامِ عَلَیهِ التَّعَرُّضَ لِمَعْصِیتِهِ، وَ الْمُخَاطَرَةَ بِمَنْزَلَتِهِ; فَأَقْدَمَ عَلَی مَا نَهَاهُ عَنْهُ - مُوَافَاةً لِسَابِقِ عِلْمِهِ - فَأَهْبَطَهُ بَعْدَ التَّوْبَةِ لِیعْمُرَ أَرْضَهُ بِنَسْلِهِ، وَ لِیقِیمَ الْحُجَّةَ بِهِ عَلَی عِبَادِهِ، و لَمْ یخْلِهِمْ بَعْدَ أَنْ قَبَضَهُ، مِمَّا یؤَكِّدُ عَلَیهِمْ حُجَّةَ رُبُوبِیتِهِ، وَ یصِلُ بَینَهُمْ وَ بَینَ مَعْرِفَتِهِ، بَلْ تَعَاهَدَهُمْ بِالْحُجَجِ عَلَی أَلْسُنِ الْخِیرَةِ مِنْ أَنْبِیائِهِ، وَ مُتَحَمِّلِی وَدَائِعِ رِسَالاَتِهِ، قَرْناً فَقَرْناً; حَتَّی تَمَّتْ بِنَبِینَا مُحَمَّد(صلی الله علیه وآله) حُجَّتُهُ، وَ بَلَغَ الْمَقْطَعَ عُذْرُهُ وَ نُذُرُهُ. جب اللہ نے فرشِ زمین بچھا لیا اور اپنا کام پورا کر لیا تو ادم علیہ السلام کو دوسری مخلوق کے مقابلہ میں برگزیدہ ہونے کی وجہ سے منتخب کر لیا اور انہیں نوع انسانی کی فرد اوّل قرار دیا۔ اور انہیں اپنی جنت میں ٹھرایا جہاں دل کھول کر ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا اور جس سے منع کرنا تھا۔ اس سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا، اور یہ بتا دیا تھا۔ اس کی طرف قدم بڑھانے میں عدول حکمی کی الائش ہے اور اپنے مربتہ کو خطرہ میں ڈالنا ہے۔ لیکن جِس چیز سے انہیں روکا تھا۔ انہوں نے اسی کا رخ کیا جیسا کہ پہلے ہی سے اس کے علم میں تھا۔ چنانچہ توبہ کے بعد انہیں جنت سے نیچے اتار دیا، تاکہ اپنی زمین کو ان کی اولاد سے اباد کرے اور ان کے زریعے بندوں پر حجت پیش کرے اللہ نے آدم کو اٹھا لینے کے بعد بھی اپنی مخلوق کو ایسی چیزوں سے خالی نہیں رکھا جو اس کی ربوبیت کی دلیلوں کو مضبوط کرتی رہیں۔ اور بندوں کے لیے اس کی معرفت کا ذریعہ بنی رہیں اور یکے بعد دیگرے ہر دور میں وہ اپنے برگزیدہ نبّیوں اور رسالت کے امانتداروں کی زبانوں سے حجت کے پہنچانے کی تجدیدکرتا رہا۔ یہاں تک کہ ہمارے نبی کے ذریعہ وہ حجت (پوری طرح) تمام ہو گئی اور حجت پورا کرنا اور ڈرا دیا جانا اپنے نقطۂ اختتام کو پہنچ گیا۔
وَ قَدَّرَ الأرْزَاقَ فَكَثَّرَهَا وَ قَلَّلَها، وَ قَسَّمَهَا عَلَی الضِّیقِ والسَّعَةِ فَعَدَلَ فِیهَا لِیبْتَلِی مَنْ أَرَادَ بِمَیسُورِهَا وَ مَعْسُورِهَا، وَ لِیخْتَبِرَ بِذلِكَ الشُّکْرَ وَ الصَّبْرَ مِنْ غَنِیهَا وَ فَقِیرِهَا. ثُمَّ قَرَنَ بِسَعَتِهَا عَقَابِیلَ فَاقَتِهَا، وَ بِسَلاَمَتِهَا طَوَارِقَ آفَاتِهَا، وَ بِفُرَجِ أَفْرَاحِهَا غُصَصَ أَتْرَاحِهَا، وَ خَلَقَ الآجَالَ فَأَطَالَهَا وَ قَصَّرَهَا، وَ قَدَّمَهَا وَ أَخَّرَهَا، وَ وَصَلَ بِالْمَوْتِ أَسْبَابَهَا، وَ جَعَلَهُ خَالِجاً لأَشْطَانِهَا، وَ قَاطِعاً لَمَرائِرِ أَقْرَانِهَا. اس نے روزیاں مقرر کر رکھی ہیں (کسی کے لیے ) زیادہ اور (کسی کے لیے ) کم اور اس کی تقسیم میں کہیں تنگی رکھی ہے اور کہیں فراخی اور یہ بالکل عدل کے مطابق تھا اس طرح کہ اس نے جس جس صورت سے چاہا امتحان لیا ہے۔ رزق کی اسانی یا دشواری کے ساتھ اور مال دار فقیر کے شکر اور صبر کو جانچا ہے۔ پھر اس نے رزق کی فراخیوں کے ساتھ فقرو فاقہ کے خطرے اور اس کی سلامتیوں میں نت نئی آفتوں کے دغدغے اور فراخی و وسعت کی شادمانیوں کے ساتھ غم و غصہ کے گلوگیر پھندے بھی لگا رکھے ہیں۔ اس نے زندگی کی (مخلف) مدّتیں مقرر کی ہیں۔ کسی کو زیادہ اور کسی کو کم، کسی کو اگے اور کسی کو پیچھے کر دیاہے اور ان مدّتوں کی رسیوں کی موت سے گرہ لگا دی ہے اور وہ موت ان کو کھینچے لیے جاتی ہے اور ان کے مضبوط رشتوں کو ٹکڑے کئے دیتی ہے۔
عَالِمُ السِّرِّ مِنْ ضَمَائِرِ الْمُضْمِرِینَ، وَ نَجْوَی الْمُتَخَافِتِینَ، وَ خَواطِرِ رَجْمِ الظُّنُونِ، وَ عُقَدِ عَزِیمَاتِ الْیقِینِ، وَ مَسَارِقِ إِیمَاضِ الْجُفُونِ، وَ مَا ضَمِنَتْهُ أَکْنَانُ الْقُلُوبِ، وَ غَیابَاتُ الْغُیوبِ، وَ مَا أَصْغَتْ لاِسْتِرَاقِهِ مَصَائِخُ الأَسْمَاعِ، وَ مَصَائِفُ الذَّرِّ، وَ مَشَاتِی الْهَوامِّ، وَ رَجْعِ الْحَنِینِ مِنَ الْمُولَهَاتِ، وَ هَمْسِ الأَقْدَامِ، وَ مُنْفَسَحِ الثَّمَرَةِ مِنْ وَلاَئِجِ غُلُفِ الأَکْمَامِ، وَ مُنْقَمَعِ الْوُحُوشِ مِنْ غِیرَانِ الْجِبَالِ وَ أَوْدِیتِهَا وَ مُخْتَبَاءِ الْبَعُوضِ بَینَ سُوقِ الأَشْجَارِ وَ أَلْحِیتِهَا، وَ مَغْرِزِ الأَوْرَاقِ مِنَ الأَفْنَانِ، وَ مَحَطِّ الأَمْشَاجِ مِنْ مَسَارِبِ الأَصْلاَبِ، وَ نَاشِئَةِ الْغُیومِ وَ مُتَلاَحِمِهَا، وَ دُرُورِ قَطْرِ السَّحَابِ فِی مُتَرَاكِمِهَا، وَ مَا تَسْفِی، الأَعَاصِیرُ بِذُیولِهَا، وَ تَعْفُو الأَمْطَارُ بِسُیولِهَا، وَ عَوْمِ بَنَاتِ الأَرضِ فِی كُثْبَانِ الرِّمَالِ. وہ بھید چھپانے والوں کی نیتوں، کھِسر پھِسر کرنے والوں کی سرگوشیوں، منطون اور بے بنیاد خیالوں، دل میں جمے ہوئے یقینی ارادوں، پلکوں (کے نیچے) کنگھیوں کے اشاروں، دل کی تہوں اور غیب کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہے اور (ان آوازوں کا سننے والا ہے ) جن کا کان لگا کر سننے کے لیے کانوں کے سراخوں کر جھکنا پڑتا ہے اور چیونٹیوں کے موسم گرما کے مسکنوں اور حشرات الارض کے موسمِ سرما بسر کرنے کے مقاموں سے اگاہ ہے اور پسر مردہ عورتوں کے (درود بھرے) نالوں کی گونج اور قدموں کی چاپ کا سننے والا ہے اور سبز پتیوں کے غلاموں کے اندرونی خولوں میں پھلوں کے نشوو نما پانے کی جگہوں اور پہاڑوں کی کھوؤں اور ان کے نشیبوں میں وحشی جانوروں کی پناہ گاہوں اور درختوں کے تنوں اور ان کے چھلکوں میں مچھروں کے سر چھپانے کے سوراخوں اور شاخوں میں پتیوں کے پھوٹنے کی جگہوں اور صلب کی گذر گاہوں میں نطفوں کے ٹھکانوں اور زمین سے اٹھنے والے ابر کے لکوں اور اپس میں جڑے ہوئے بادلوں اور تہ بہ تہ جمے ہوئے ابروں سے ٹپکنے والے بارش کے قطروں سے باخبر ہے۔ اور ریگ (بیابان) کے ذراّت جنہیں باد بگولوں نے اپنے دامنوں سے اڑایا ہے اور وہ نشانات جنہیں بارشوں کے سیلابوں نے مٹا ڈالا ہے اس کے علم میں ہیں، اور ریت کے ٹیلوں پر زمین کے کیڑوں کے چلنے پھرنے
وَ مُسْتَقَرِّ ذَوَاتِ الأَجْنِحَةِ بِذُرَا شَنَاخِیبِ الْجِبَالِ، وَ تَغْزِیدِ ذَوَاتِ الْمَنْطِقِ فِی دَیاجِیرِ الأَوْكَارِ، وَ مَا أَوْعَبَتْهُ الأَصْدَافُ، و حَضَنَتْ عَلَیهِ أَمْوَاجُ الْبِحَارِ، وَ مَا غَشِیتْهُ سُدْفَةُ لَیل، أَوْ ذَرَّ عَلَیهِ شَارِقُ نَهَار، وَ مَا اعْتَقَبَتْ عَلَیهِ أَطْبَاقُ الدَّیاجِیرِ، وَ سُبُحَاتُ النُّورِ; وَأَثَرِ كُلِّ خَطْوَة، وَ حِسِّ كُلِّ حَرَكَة، وَ رَجْعِ كُلِّ كَلِمَة، وَ تَحْرِیكِ كُلِّ شَفَة، وَ مُسْتَقَرِّ كُلِّ نَسَمَة، وَ مِثْقَالِ كُلِّ ذَرَّةِ، وَ هَمَاهِمِ كُلِّ نَفْس هَامَّة، وَ مَا عَلَیهَا مِنْ ثَمَرِ شَجَرَة، أَوْ ساقِطِ وَرَقَة; أَوْ قَرَارَةِ نُطْفَة، أَوْ نُقَاعَةِ دَم وَ مُضْغَة، أَوْ نَاشِئَةِ خَلْق وَ سُلاَلَة; لَمْ یلْحَقْهُ فِی ذلِكَ كُلْفَةٌ، وَ لااعْتَرَضَتْهُ فِی حِفْظِ مَا ابْتَدَعَ مِنْ خَلْقِهِ عَارِضَةٌ، وَ لااعْتَوَرَتْهُ فِی تَنْفِیذِ الأُمُورِ وَ تَدَابِیرِ الْمَخلُوقِینَ مَلاَلَةٌ وَ لافَتْرَةٌ، بَلْ نَفَذَهُمْ عِلْمُهُ، وَ أَحْصَاهُمْ عَدَدُهُ، وَ وَسِعَهُمْ عَدْلُهُ، وَ غَمَرَهُمْ فَضْلُهُ، مَعَ تَقْصِیرِهِمْ عَنْ كُنْهِ مَا هُوَ أَهْلُهُ. اور سربلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر بال و پر رکھنے والے طائروں کے نشیمنوں اور گھونسلوں کی اندھیاریوں میں چہچہانے والے پرندوں کى نعمتوں کو جانتا ہے اور جن چیزوں کو سیپیوں نے سمیٹ رکھا ہے اور جن چیزوں کو دریا کی موجیں اپنے پہلو کے نیچے دبائے ہوئے ہیں اور جن کو رات (کی تاریک چادروں ) نے ڈھانپ رکھا ہے اور جن پر دن کے سورج نے اپنی کرنوں سے نور بکھیرا ہے اور جن پر کبھی ظلمت کی تہیں جم جاتی ہیں اور کبھی نور کے دھارے بہہ نکلتے ہیں پہچانتا ہے۔ وہ ہر قدم کا نشان، ہر چیز کی حس و حرکت، ہر لفظ کی گونج، ہر ہونٹ کی جنبش، ہر جاندار کا ٹھکانا، ہر ذرے کا وزن اور ہر جی دار کی سسکیوں کی اواز اور جو کچھ بھی اس زمین پر ہے، سب اس کے علم میں ہے۔ وہ درختوں کا پھل ہو یا ٹوٹ کر گرنے والا پتہ، یا نطفے یا منجمد خون کا ٹھکانا اور لوتھڑا یا ( اس کے بعد) بننے والی مخلوق اور پیدا ہونے والا بچہ (ان چیزوں کے جاننے میں) اسے کلفت و تعب اٹھانا نہیں پڑی اور نہ اسے اپنی مخلوق کی حفاظت میں کوئی رکاوٹ درپیش ہوئی اور نہ اسے اپنے احکام کے چلانے اور مخلوقات کا انتظام کرنے سے سستی اور تھکن لاحق ہوئی بلکہ اس کا علم تو ان چیزوں کے اندر تک اترا ہو اہے اور ایک ایک چیز اس کے شمار میں ہے۔ اس کا عدل ہمہ گیر، اور اس کا فضل سب کے شامل حال ہے، اور اس کے ساتھ وہ اس کے شایان شان حق کی ادائیگی سے قاصر ہیں۔
اَلَّلهُمَّ أَنْتَ أَهْلُ الْوَصْفِ الْجَمِیلِ، والتَّعْدَادِ الْكَثِیرِ، إِنْ تُؤَمَّلْ فَخَیرُ مَأْمُول، وَ إِنْ تُرْجَ فَخَیرُ مَرْجُوٍّ.

اَلَّلهُمَّ وَ قَدْ بَسَطْتَ لی فِیمَا لاأَمْدَحُ بِهِ غَیرَكَ، وَ لاأُثْنِی بِهِ عَلَی أَحد سِوَاكَ، وَلاَ أُوَجِّهُهُ إِلَی مَعَادِنِ الْخَیبَةِ وَ مَوَاضِعِ الرِّیبَةِ، وَ عَدَلْتَ بِلِسَانی عَنْ مَدَائِحِ الآدمِیینَ; وَ الثَّنَاءِ عَلَی الْمَرْبُوبِینَ الْمَخْلُوقِینَ. اَلَّلهُمَّ وَ لِكُلِّ مُثْنٍ عَلَی مَنْ أَثْنَی عَلَیهِ مُثُوبَةٌ مِنْ جَزَاءٍ، أَوْ عَارِفَةٌ مِنْ عَطَاءٍ; وَ قَدْ رَجَوْتُكَ دَلِیلاً عَلَی ذَخَائِرِ الرَّحْمَةِ وَ كُنُوزِ الْمَغْفِرَةِ. اَلَّلهُمَّ وَ هذَا مَقَامُ مَنْ أَفْرَدَكَ بِالتَّوْحِیدِ الَّذِی هُوَ لَكَ، وَ لَمْ یَرَ مُستَحِقّاً لِهذِهِ المَحَامِدِ وَ الْمَمادِحِ غَیرَكَ; وَ بی‌فَاقَةٌ إِلَیكَ لایجْبُرُ مَسْكَنَتَهَا إلاَّ فَضْلُكَ، وَ لاینْعَشُ مِنْ خَلَّتِهَا إِلاَّ مَنُّكَ وَجُودُكَ، فَهَبْ لَنَا فِی الْمَقَامِ رِضَاكَ، وَ أَغْنِنَا عَنْ مَدِّ الأَیدِی إِلَی سِوَاكَ; «إِنَّكَ عَلَی كُلِّ شَیء قَدِیرٌ!».

اے خدا ! تو ہی توصیف و ثناء اور انتہائی درجہ تک سراہے جانے کا مستحق ہے۔ اگر تجھ سے آس لگائی جائے، تو تو دلوں کی بہتریں ڈھارس ہے اور اگرتجھ سے امیدیں باندھی جائیں، تو تو بہترین چشمہ امید ہے۔ تو نے مجھے ایسی قوت بیان بخشی ہے کہ جس سے تیرے علاوہ کسی کی مدح اور ستائش نہیں کرتا ہوں، اور میں اپنی مدح کا رخ کبھی ان لوگوں کی طرف نہیں موڑنا چاہتا جو نا امیدیوں کو مرکز اور بدگمانیوں کے مقامات ہیں، تو نے میری زبان کو انسانوں کی مدح اور درپردہ مخلوق کی تعریف و ثناء سے ہٹا لیا ہے۔ بار الٰہا! ہر ثناء گستُر کے لیے اپنے ممدُوح پر انعام و کرام اور عطاو بخشش پانے کا حق ہوتا ہے۔ اور میں تجھ سے امید لگائے بیٹھا ہوں یہ کہ تو رحمت کے ذخیروں اور مغفرت کے خزانوں کا پتہ دینے والا ہے۔ خدایا! یہ تیرے سامنے وہ شخص کھڑا ہے جس نے تیری توحید و یکتائی میں تجھے منفرد مانا ہے اور ان ستائشوں اور تعریفوں کا تیرے علاوہ کسی کو اہل نہیں سمجھا۔ میری احتیاج تجھ سے وابستہ ہے۔ تیری ہی بخششوں اور کامرانیوں سے اس کی بے نوائی کا علاج ہو سکتا ہے۔ اور ا سکے فقرو فاقہ کو تیرا ہی جود و احسان سہارا دے سکتا ہے ہمیں تو اسی جگہ پر اپنی خوشنودیاں بخش دے اور دوسروں کی طرف دستِ طلب بڑھانے سے بے نیاز کر دے تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔


مونوگراف

کتاب طبیعت در خطبہ اشباح، تحریر: محسن سترگی

خطبہ اشباح کے بارے میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں من جملہ ان میں درج ذیل آثار کا نام لیا جا سکتا ہے:

  • علیؑ و سالکین راہ شیطان (فَوج مُقْتَحَم)، تحریر، عبد العلی گویا: انتشارات دلیل ما نے اس کتاب کی تیسری ایڈیشن سنہ 1386ہجری شمسی کو 424 صفحات میں منتشر کیا ہے۔[19]
  • طبیعت در خطبہ اشباح نہج‌البلاغہ، تحریر، محسن سترگی: یہ کتاب سنہ 1392ہجری شمسی کو انتشارات دہسرا کی کوششوں سے رشت میں 160 صفحات میں منتشر ہویئ ہے۔[20]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنینؑ، 1386ہجری شمسی، ج4، ص16۔
  2. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج6، ص425۔
  3. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 91، ص124۔
  4. ہاشمی خویی، منہاج البلاعہ، 1400ھ، ج6، ص287۔
  5. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنینؑ، 1386ہجری شمسی، ج4، ص19۔
  6. دشتی، و کاظم محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، 1375ہجری شمسی، ص509۔
  7. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنینؑ، 1386ہجری شمسی، ج4، ص18۔
  8. ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، التوحید، 1398ھ، ص79۔
  9. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنینؑ، 1386ہجری شمسی، ج4، ص18۔
  10. شہیدی، ترجمہ نہج البلاغہ، 1378ہجری شمسی، ص471۔
  11. ملاحظہ کریں: نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 91، ص124-136۔
  12. سید ابن‌طاووس، فرج المہموم، 1368ھ، ص56۔
  13. الحسینی الخطیب، مصادر نہج البلاغہ، 1409ھ، ج2، ص164۔
  14. شیخ صدوق، التوحید، 1398ھ، ص48-56۔
  15. ہارونی، تیسیر المطالب، 1422ھ، ص287-289۔
  16. ابن‌عبد ربّہ، العقد الفرید، 1407ھ، ج4، ص196-198۔
  17. زمخشری، ربیع الابرار، 1412ھ، ج1، ص310-312۔
  18. الحسینی الخطیب، مصادر نہج البلاغہ، 1409ھ، ج2، ص164۔
  19. گویا، علیؑ و سالکین راہ شیطان، 1386ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ۔
  20. سترگی، طبیعت در خطبہ اشباح نہج البلاغہ، 1392ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ۔

مآخذ

  • اِبن‌عبد ربّہ، احمد بن محمد، العِقْدُ الفَرید، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1407ھ۔
  • الحسینی الخطیب، سید عبدالزہراء، مصادر نہج البلاغۃ وأسانیدہ، بیروت، دار الزہراء، 1409ھ۔
  • اِبن‌أبی‌الحدید، عبدالحمید بن ہِبۃُ‌اللہ، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد أبوالفضل إبراہیم، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • دشتی، محمد، و کاظم محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم، موسسہ فرہنگی تحقیقاتی امیرالمؤمنینؑ، 1375ہجری شمسی۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، رَبیعُ الاَبرار و نُصوص الأخبار، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1412ھ۔
  • سترگی، محسن، طبیعت در خطبہ اشباح نہج البلاغہ، رشت، دہسرا، 1392ہجری شمسی۔
  • سید ابن‌طاووس، فرج المہموم فى تاريخ علماء النجوم، قم، دار الذخائر، 1368ھ۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ترجمہ سیدجعفر شہیدی، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، 1377ہجری شمسی۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ترجمہ ناصر مکارم شیرازی، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌طالبؑ، 1384ہجری شمسی۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1398ھ۔
  • گویا، عبدالعلی، علیؑ و سالکین راہ شیطان، قم، دلیل ما، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیر‌المؤمنینؑ، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، 1386ہجری شمسی۔
  • ہارونی، یحیی بن حسین، تیسیر المطالب فی أمالی أبی‌طالب، صنعاء، مؤسسۃ الإمام زید بن علی الثقافیہ، 1422ھ۔
  • ہاشمی خویی، میرزا حبیب‌اللہ، منہاج البلاعۃ فی شرح نہج البلاغہ، تہران، مکتبۃ الاسلامیہ، 1400ھ۔