شلمغانی

ویکی شیعہ سے
(محمد بن علی شلمغانی سے رجوع مکرر)
شلمغانی
ذاتی کوائف
نام:محمد بن علی شَلمَغانی
کنیت:ابوجعفر
لقب:العَزاقِری
محل زندگی:عراق کے شہر واسط کے نواحی گاؤں شلمغان
وفات:323ھ
مذہب:شیعہ
حدیثی معلومات
نقل حدیث:امام حسن عسکریؑ
وثاقت:غلو کی طرف مائل ہونے سے پہلے ثقہ مانا جاتا تھا
تألیفات:التکلیف • ماہیۃ العصمۃ • البرہان و التوحید • نظم القرآن
شہرت:امام مہدی(ع) کے نائب خاص ہونے کا جھوٹا دعوا

محمد بن علی شلمغانی(متوفی: 323ھ)، العزاقری کے نام سے معروف، بغداد کے شیعہ محدثین میں سے تھا جنہوں نے امام زمانہؑ کے ئائب خاص ہونے کا جھوٹا دعوا کیا جس کی بنا پر امام زمانہ(عج) کی طرف سے ان کی ردّ میں توقیع صادر ہوئی۔ شلمغانی امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے تھا۔ علم رجال کے ماہرین کے مطابق شلمغانی آخر میں شیعہ عقیدے سے منحرف ہو کر غلو میں گرفتار ہوا۔ ان کے پیروکار شلمغانیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ امام زمانہ کے تیسرے نائب خاص حسین بن روح نے شلمغانی کے اعتقادات کو مسترد کر دیا اور امام مہدی علیہ السلام کی طرف ایک توقیع کے ذریعے شیعوں کو شلمغانی سے بے زاری اختیار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

کتاب «التکلیف» شلمغانی کی تحریر تھی جس کے دو یا تین مسئلوں کے علاوہ باقی تمام مسائل کو حسین بن روح کی تائید حاصل تھی۔ شیخ طوسی اور بعض دوسرے علماء کے مطابق منحرف ہونے سے پہلے تک شلمغانی کی کتابیں معتبر سمجھی جاتی تھیں اور شیعہ ان پر عمل کرتے تھے۔ شلمغانی کو عباسی حکمران راضی باللہ کے حکم سے گرفتار کر کے 323ھ کو قتل کر دیا گیا۔

اجمالی تعارف

شلمغانی عراق کے شہر واسط کے نواحی گاؤں شلمغان میں پیدا ہوا اور وہاں کے قاریوں میں سے ایک تھا۔[1] کچھ مدت بعد بغداد چلا گیا اور عباسیوں کے ساتھ ہو گیا اور وہاں دبیر (کاتب) کے عہدے پر مشغول رہا۔[2] یہ فقہائے امامیہ میں سے ایک تھا اور متعدد آثار کا حامل تھا کہ جو شیعہ فقہ و عقائد سے مربوط تھے۔ مسلک امامیہ ترک کرنے سے پہلے امامیہ میں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔[3]

شلمغانی امام حسن عسکریؑ کے اصحاب اور غیبت صغرا کے دوران شیعہ فقہا اور محدثین میں سے تھا۔[4] شیخ طوسی (متوفی: 460ھ) نے کتاب الغیبۃ میں شلمغانی کے بارے امام زمانہ‌ کے تیسرے نائب خاص حسین بن روح نوبختی کے دو نظریے بیان کئے ہیں۔[5] ایک قول کے مطابق حسین بن روح کے یہاں ان کا خاص مقام تھا اور شلمغانی ان کے اور لوگوں کے درمیان واسطہ تھا اور شیعوں کے مسائل شلمغانی کے ذریعے حسین بن روح تک پہنچتے تھے۔[6] دوسرے قول کی بنا پر حسین بن روح کے نزدیک ان کا ایسا کوئی مقام نہیں تھا بلکہ وہ دوسرے شیعہ فقہاء کی طرح ایک شیعہ فقیہ اور امام حسن عسکری کے اصحاب میں سے تھا۔[7]

شلمغانی العَزاقِری کے نام سے معروف تھا۔ عراق کں شہر واسط کے نزدیک شَلمَغان نامی گاؤں میں ان کی ولادت ہوئی۔[8] ان کی کُنیت ابوجعفر تھی۔[9] انہیں بنی عباس کے بیسویں حکمران راضی باللہ کے حکم سے گرفتار کیا گیا اور انہیں کے حکم سے 323ھ کو قتل کر دیا گیا۔[10]

شلمغانی کے رد میں امام زمانہ‌کی توقیع کا ایک حصہ

...شلمغانی ان افراد میں سے ہے، جنہیں خدا نے جلدی موت کا مزہ چکھایا اور انہیں مہلت نہیں دی۔ وہ اسلام سے منحرف اور انہوں نے اپنے آپ کو اسلام سے جدا کیا ہے اور دین خدا سے مرتد ہوا ہے۔۔۔میں ان پر لعنت بھیجتا ہوں اور ان پر خدا کی دائمی لعنت ہوں آشکار طور پر اور مخفی طور پر اور ہر وقت اور ہر جگہ پر۔ اسی طرح ان کے پیروکاروں پر بھی خدا کی لغنت ہو اس اعلان کے سننے کے بعد بھی ان کے ساتھ اپنا رابطہ برقرار رکھے ہوئے ہیں...

امام مہدیؑ، شیخ طوسی،کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص411۔

غلو اور امام زمانہ(عج) کی نیابت کا دعوا

کہا جاتا ہے کہ شلمغانی اس انتظار میں تھا کہ امام مہدی(عج) کی نیابت ان کو ملے گی۔[11] اسی بنا پر جب حسین بن روح امام زمانہ (عج) کا نائب مقرر ہوا تو ان کی مخالفت پر اتر آیا اور ان کی طرف جھوٹ کی نسبت دینے لگا۔[12]

اہل سنت مورخ ابن‌ اثیر (متوفی: 630ھ) کے مطابق شلمغانی عقیدے کے اعتبار سے منحرف ہوا اور وہ غلو میں گرفتار ہوا تھا۔[13] وہ اس بات کا معتقد تھا کہ‌خدا کی روح حضرت آدم میں حلول کر گئی ہے پھر ان کے بعد دوسرے انبیاء اور اوصیا سے ہوتی ہوئی یہ روح امام حسن عسکریؑ تک پہنچی ہے پھر امام حسن عسکریؑ کے بعد یہ روح خود شلمغانی میں حلول کر گئی ہے۔[14] اسی طرح شلمغانی اپنے آپ کو امام مہدیؑ کا نایب خاص مانتا تھا اور اس عقیدے کو اظہار کرنے کو واجب سجھتا تھا[15] یوں کچھ لوگوں نے ان کی پیروی کرنا شروع کیا جو شلمغانیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔[16]

شملغانی کی رد میں امام مہدیؑ کی توقیع

حسین بن روح جب شلمغانی کے عقیدے سے آگاہ ہوئے تو انہوں‌نے ان سے بے زاری کا اظہار کرتے ہوئے ان کو مورد لعن قرار دیا اور شیعوں کو بھی اس سے دوری اختیار کرنے کا حکم دیا۔[17] اسی طرح امام زمانہؑ کی طرف سے بھی شلمغانی کی رد میں ایک توقیع حسین بن روح تک پہنچی جس میں شلمغانی سے بے زاری کا اظہار کرتے ہوئے ان کو جھوٹا، منحرف اور مرتد قرار دیا گیا تھا اور شیعوں کو ان سے دوری اختیار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔[18]

علم رجال کے اعتبار سے شلمغانی کی حیثیت

توثیق

کتاب «خاندان نوبختی» میں عباس اقبال آشتیانی (متوفی: 1334ہجری شمسی) کے مطابق منحرف اور مرتد ہونے سے پہلے علمی مقام اور حسین بن روح کے یہاں ان کے مقام و مرتبے کی وجہ سے شلمغانی کی کتابیں شیعوں کے نزدیک معتبر جانی جاتی تھیں اور لوگ ان کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شلمغانی کے منحرف ہونے کے بعد لوگوں نے حسین بن روح سے ان کی کتابوں کے بارے میں سوال کیا تو حسین بن روح نے کہا اس نے جو کچھ ائمہ معصومین سے نقل کیا ہے ان پر عمل کریں اور جو کچھ انہوں نے اپنی طرف سے لکھا ہے ان کو چھوڑ دیں۔[19] اسی بنا پر بعض بعض کہتے ہیں کہ شلمغانی منحرف اور مرتد ہونے سے پہلے ثقہ تھا۔[20] شیخ طوسی بھی کتاب الفہرست میں کہتے ہیں کہ شلمغانی کے منحرف ہونے سے پہلے شیعہ ان کی کتابوں پر عمل کرتے تھے۔[21]

تألیفات

پانچویں صدی ہجری کے شیعہ ماہر علم رجال نجاشی نے اپنی کتاب شیعہ مصنفین کی فہرست میں شلمغانی کی 17 تألیفات کا ذکر کرتے ہیں۔[22] کتاب «التکلیف» ان کی انہی تألیفات میں سے ایک ہے[23]جو شیعہ ائمہؑ کی احادیث پر مشتمل تھی جسے انہوں نے منحرف ہونے سے پہلے تحریر کی تھی۔[24] شیخ طوسی (متوفی: 460ھ) کتاب الغیبۃ میں لکھتے ہیں کہ شیعوں کا ایک گروہ اس کتاب کو لے کر حسین بن روح کے پاس گئے انہوں نے اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد تأئید کی کہ دو یا تین مسئلوں کے علاوہ اس کتاب کے باقی مسائل کو انہوں نے ائمہؑ سے روایت کی ہے اور کوئی خلاف شرع مطلب اس کتاب میں موجود نہیں ہے۔[25] محمد تقی شوشتری (متوفی: 1415ھ) کتاب قاموس الرجال میں یہ احتمال دیتے ہیں کہ‌ کتاب فقہ الرضا جس کا ایک نسخہ‌ علامہ مجلسی کے زمانے میں موجود تھا، شلمغانی کی وہی کتاب «التکلیف» ہے۔[26]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. جاسم حسین؛تاریخ سیاسی غیبت امام زمان،ص:201
  2. یاقوت حموی؛معجم البلدان ج5ص288
  3. طوسی؛الغیبہ، صص158و221
  4. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص136۔
  5. شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص303 و ص408۔
  6. شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص303۔
  7. شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص408۔
  8. ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج8، ص290۔
  9. خویی، معجم رجال الحدیث، مؤسسۃ الخوئی الإسلامیۃ، ج18، ص50۔
  10. شیخ طوسی، الغیبۃ، 1411ھ، ص406 و 412۔
  11. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص136۔
  12. خویی، معجم رجال الحدیث، مؤسسۃ الخوئی الإسلامیۃ، ج18، ص52۔
  13. ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج8، ص290۔
  14. اقبال آشتیانی، خاندان نوبختی، 1345ھ، ص224-227۔
  15. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375ہجری شمسی، ص258۔
  16. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375ہجری شمسی، ص259۔
  17. شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص406۔
  18. شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص410-411۔
  19. اقبال آشتیانی، خاندان نوبختی، 1345ہجری شمسی، ص231-232۔
  20. خویی، معجم رجال الحدیث، مؤسسۃ الخوئی الإسلامیۃ، ج18، ص53۔
  21. شیخ طوسی، الفہرست، 1417ھ، ص224۔
  22. نجاشی، رجال النجاشی، 1365ہجری شمسی، ص378-379۔
  23. نجاشی، رجال النجاشی، 1365ہجری شمسی، ص378۔
  24. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص137۔
  25. شیخ طوسی، کتاب الغیبہ، 1411ھ، ص409۔
  26. تستری، قاموس الرجال، 1419ھ، ج9، ص448۔

مآخذ

  • ابن‌اثیر، على بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار الصادر، چاپ اول، 1385ھ۔
  • اقبال آشتیانی، عباس، خاندان نوبختی، تہران، کتابخانہ طہوری، 1345ہجری شمسی۔
  • تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1419ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت، 1416ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، قم، مؤسسۃ الخوئی الإسلامیۃ، بی‌تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبۃ، قم، دار المعارف الإسلامیۃ، چاپ اول، 1411ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، قم، مؤسسۃ نشر الفقاہۃ، چاپ اول، 1417ھ۔
  • صفری فروشانی، نعمت‌اللہ، غالیان (کاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، مشہد، آستان قدس رضوی، 1378ہجری شمسی۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مشکور، محمدجواد، فرہنگ فرق اسلامی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1375ہجری شمسی۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، تحقیق سید موسی شبیری زنجانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1365ہجری شمسی۔