قصی بن کلاب

ویکی شیعہ سے
قصی بن کلاب
کوائف
نامزید
پورا نامقصی بن کلاب بن مرہ
لقب/کنیتابو مغیرہ/قریش و مُجَمِّع
نسبقریشی
مشہور اقاربکلاب بن مرہ (والد)، عبد مناف، عبدالدار (بیٹے)
سکونتمکہ اور شام
آرامگاہجنۃ المعلی (مقبرہ حجون) مکہ
علمی معلومات
دیگر معلومات
منصبکعب بن لؤی کے پہلے فرزند جنہوں نے مکہ میں حکومت قائم کی


قُصَیّ بن کِلاب بن مُرَّة بن کَعْب، پیغمبر اکرم(ص) کے چوتھے جد امجد اور مکہ میں قریش کے پیشوا تھے۔ انھوں نے مکہ کو خزاعہ کے تسلط سے آزاد کرایا اور قریش کو ذلت کے بعد شرافت بخشی۔ کنواں کھودنا، بیت اللہ الحرام کے زائرین کو خدمت رسانی اور کعبہ کی تعمیر نو ان کی نمایاں خدمات ہیں۔ شہرت اور بہت زیادہ خدمات کے باوجود ان کی زندگی کے بارے کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں اور ان کی ولادت اور وفات کی تاریخیں بھی معلوم نہیں ہیں۔

قصی بن کلاب کا خاندان

قصی کے والد کے بظاہر دو ہی بیٹے (قصی اور زُہرہ) اور ایک بیٹی (نُعم) ہے جن کی والدہ فاطمه بنت سعد بن سَیَل تھیں جن کا تعلق یمنی قبیلے اَزْد کی شاخ "بنی جَدَرہ" سے تھا۔[1] قصی کا اس بھائی اور بہن کے علاوہ ماں کی طرف سے ایک دوسرا بھائی بنام "رِزاح" تھا جن کا والد "ربیعہ بن حرام" تھا۔[2]۔[3]

اولاد

مؤرخین نے لکھا ہے کہ ان کی اولاد میں عبد مَناف یا مُغیرہ، عبداللہ یا عبدالدار، عبدالعُزّی اور عبد بن قصی شامل ہیں۔[4]۔[5]۔[6]۔[7]

مذکور ہے کہ قصی ساسانی سلطنت کے بادشاہ بہرام گور (438 یا 439 عیسوی) کے زمانے میں گذرے ہیں۔[8]۔[9]

زیادہ تر مؤرخین نے لکھا ہے کہ قصی کا اصل نام "زید" تھا۔[10]۔[11]۔[12]

قصی کی وجۂ تسمیہ

ان کو قصی کا نام دیئے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ان کی والدہ فاطمہ نے اپنے شوہر کلاب بن مرہ کی وفات کے بعد ربیعہ بن حرام کے ساتھ نکاح کیا جو قبیلہ بنوعُذْرہ سے تعلق رکھتا تھا اور اعمال حج بجا لانے کے لئے مکہ آیا تھا اور ربیعہ فاطمہ اور شیرخوار قصی کو اپنے ساتھ منطقۂ شام میں واقع اپنی سرزمین لے گیا۔

قصی بلوغت کے زمانے یا اس سے کچھ پہلے تک وہیں رہے اور پھر قضاعہ کے حجاج کے ایک قافلے کے ہمراہ حرام مہینوں میں سے ایک کے دوران مکہ واپس آئے۔[13]۔[14]۔[15] چونکہ "زید" اس دوران اپنے وطن مکہ اور اپنی قوم سے دور ہوئے تھے لہذا انہیں "قصی" کہا گیا یعنی وہ شخص جو اپنے وطن سے دور ہے۔[16]۔[17]۔[18]

قصی کے القاب

قریش

ان کا ایک لقب قریش ہے اور اس لقب کی وجہ بیان کرتے ہوئے متعدد احتمالات دیئے گئے ہیں۔ ابن جوزی نے اس بارے میں چھ احتمالات ذکر کئے ہیں،[19] ایک احتمال یہ ہے کہ لقب قصی ہی اس لقب کا موجب ہے کیونکہ قصی کو قریش کا قرشی کہا جاتا تھا۔ ان کے اس لقب کا سبب یہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ مکہ پر مسلط تھے اور نیک اور پسندیدہ اقدامات انجام دے چکے تھے یا یہ کہ وہ نیک اور پسندیدہ اوصاف و خصال کو اپنے اندر جمع کرچکے تھے؛ کیونکہ قریش کے معنی "جمع" کے ہیں۔

مُجَمِّع

قصی کو "مُجَمَّع" ـ بمعنی جمع کنندہ ـ بھی کہا گیا کیونکہ انھوں نے مکہ پر مسلط ہونے کے بعد اس علاقے کے ریاست اور سربراہی سنبھالی اور قریش کو اطراف کے پہاڑوں اور دروں سے بلوا کر مکہ میں جمع کیا۔[20]۔[21]۔[22]۔[23]۔[24]

قبیلۂ خزاعہ کے ساتھ جنگ

قصی کے مکہ میں قیام پذیر ہونے کے بعد، مکہ کے آخری خزاعی امیر اور کعبہ کے متولی حُلَیل بن حُبشیّہ سے اس کی بیٹی "حُبّی" کا رشتہ مانگا۔ حلیل نے اس کو طاقتور و مقتدر، صاحب لیاقت و تدبیر اور اصل و نسب پا کر اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کرایا۔[25]۔[26]

قصی کی اولاد بڑھ گئی، مال و ثروت میں اضافہ ہوا اور عظیم شرافت کے مالک ہوئے تو حلیل کا انتقال ہوا۔[27] حلیل نے موت سے قبل قصی کو اپنے پاس بلوایا اور بیت اللہ الحرام کی ولایت اور کعبہ کی کلید داری ان کے سپرد کردی لیکن حلیل کی موت کے بعد، قبیلہ خزاعہ نے کعبہ کی کنجی ـ جو حبی کے پاس تھی ـ ان سے حاصل کرلی اور قصی کی راہ میں حائل ہوا۔ قصی نے اپنا حق لینے کے لئے قریش اور بنو کنانہ اور اپنے سوتیلے بھائی رزاح اور اس کے حامیون سے مدد مانگی اور آخرکار اس کشمکش میں کامیاب ہوئے۔[28]۔[29]۔[30]

[یہ بھی] کہا گیا ہے کہ قصی کو خزاعہ کے خلاف جنگ میں قیصر روم کی حمایت حاصل تھی۔[31]۔[32] ایک قول یہ بھی ہے کہ حلیل کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے ابوغُبْشان مُحتَرِش نے مکہ میں ریاست پائی لیکن خانہ کعبہ کو ایک اونٹنی اور شراب کے ایک کنستر کے بدلے قصی کے سپرد کیا۔[33]۔[34]

قصی اور مکہ کے مناصب

قصی نے مکہ کے اہم مناصب یعنی حجابت (پردہ داری)، سقایت (حاجیوں کو پانی دینا)، رفادت (جمع شدہ اموال سے قریش کو کھلانا پلانا)، دار الندوہ، اور لواء (جنگوں میں پرچم برداری) کو سنبھالا اور وہ کَعب بن لُؤَیّ میں پہلے فرد تھے جنہوں نے ریاست اور فرمانروائی سنبھالی اور قریش میں شرافت اور ان کی ریاست کے بعد یہ مناصب ان کی اولاد میں باقی رہے۔[35]۔[36]

قصی کی خدمات

کنواں کھودنا اور مکہ کو آب رسانی

قصی نے مکہ کے عوام اور حجاج کے لئے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ کھال کے حوض بنائے اور "بئر میمون" (میمون کے کنویں) اور دیگر کنؤوں سے جو مکہ کے باہر تھے، ان کی پانی کی ضروریات پوری کرتے تھے تا کہ مکہ، [منٰی|مِنٰی]] اور عرفات میں لوگوں کو سیراب کر سکیں۔[37]۔[38]

نیز انھوں نے پہلی بار مکہ میں ایک کنواں کھدوایا اور اور اس کا نام عَجول رکھا۔ یہ کنواں قصی کی حیات کے آخر تک باقی رہا۔ بعد میں یہ کنواں بلا استعمال رہا اور بعد میں ام ہانی بنت ابی طالب کے گھر میں واقع ہوا اور اخرکار مسجد الحرام کا حصہ بنا۔ مکہ میں پانی کی قلت کی بنا پر عجول کا کنواں بظاہر بہت اہمیت رکھتا تھا اور قریش کے علاوہ حجاج بھی اس کے پانی سے فائدہ اٹھاتے تھے۔[39]۔[40]۔[41]۔[42]۔[43]۔[44] ایک قول یہ ہے کہ قصی نے خُمّ اور بَذَّر کے کنویں بھی کھدوائے۔[45]

زائرین بیت اللہ الحرام کو کھانا کھلانا

علاوہ ازیں، قصی بیت اللہ الحرام کے زائرین کو بھی کھانا کھلاتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ یہ اللہ کے مہمان ہیں اور قریش ـ جو بیت اللہ کے پڑوسی ہیں ـ کو انہیں کھلانے پلانے کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ وہ قریش کو یہ کام سرانجام دینے کی دعوت دیتے اور ترغیب دلاتے تھے اور ان کے تعاون سے اشیائے خورد و نوش فراہم کرتے تھے۔[46]۔[47]

قصی پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کے بعد، حجاج کی راہنمائی کے لئے حرم کی حدود کو علائم نصب کرکے از سر نو واضح کردیا۔[48]۔[49]

مکہ میں قریش کو شرافت بخشنا

قریش مکہ میں آنے سے قبل نواحی دروں میں سکونت پذیر تھے۔ قصی نے قریش کی زعامت سنبھالی تو شہر مکہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور ہر حصے میں قریش کی ایک جماعت پر بسایا۔[50]۔[51] قصی نے قریش کو ہدایت کی کہ اپنے گھر کعبہ کے اطراف میں تعمیر کریں۔ چنانچہ قریش کے گھر کعبہ کے چار اطراف میں تعمیر ہوئے۔ کعبہ سے گھروں کا فاصلہ مطاف (مقام طواف) کی مسافت جتنا تھا۔[52]

قصی نے قریشیوں کا مقام نسب کی ترتیب سے متعین کیا۔ بعض خاندانوں کو درے میں بسایا جنہیں قیش بطاح یا اباطح کہا گیا اور بعض خاندانوں کو درے کے باہر بسایا جنہیں قریش ظاہری یا ظواہر کہا گیا۔[53] یوں قصی نے پہلی بار قریش کو متحد اور یک جہت کیا اور انہیں احترام اور شان و شوکت بخشی[54] وہ قریشیوں کے بغیر دوسرے افراد سے جو مکہ میں داخل ہوتے تھے، 10 فیصد مالیہ وصول کرتے تھے۔[55]

دار الندوہ کی تاسیس

قصی نے مسجد الحرام کی مجاورت میں شام کی سمت (شمال کی طرف) ایک گھر دارالندوہ کے نام سے بنایا جس کا دروازہ مسجد الحرام کی طرف کھلتا تھا اور قریش اہم معاملات اور بنیادی فیصلوں منجملہ جنگ اور اختلافات کی صورت میں قضاوت اور عقد و ازدواج جیسے امور کے لئے اس میں اجتماع کرتے تھے اور صرف ان افراد کو اس میں صلاح مشورے کے لئے داخلے کی اجازت ہوتی تھی جن کی عمریں 40 یا اس سے زیادہ ہوتی تھی۔ البتہ یہ ضابطہ قصی کی اولاد پر نافذ العمل نہ تھا۔[56]۔[57]۔[58]۔[59]۔[60]

مشعر الحرام کی تاسیس

قصی نے مُزْدَلِفَہ میں مشعر الحرام کی بنیاد رکھی جو کہ حجاج کے وقوف اور بیتوتہ کا مقام تھا اور وہاں آگ جلائی تا کہ عرفات سے مزدلفہ جانے والے افراد بھٹکنے سے محفوظ رہیں۔ یہ رسم ظہور اسلام کے بعد بھی جاری رہی۔[61]۔[62]۔[63]۔[64]

کعبہ کی تعمیر نو

کہا گیا ہے کہ قصی پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد کعبہ کی تعمیر نو کی اور اسے مسقف کیا۔[65]۔[66]۔[67]۔[68]۔[69]۔[70] انھوں نے کعبہ کی دیواروں کی لمبائی کو اٹھارہ ذراع تک بڑھا دی جبکہ قبل ازاں ان کی لمبائی 9 ذراع تھی اور ان کی اونچائی 25 ذراع قرار دی اور اس کے اوپر کھجور کی لکڑی نیز "دَوم" کی لکڑی کی چھت تعمیر کی۔ جبکہ کعبہ کی ساخت قبل ازاں ایسی نہ تھی۔[71]۔[72]

قصی کا احترام اور ان کی منزلت

قریش قصی کی حیات کے زمانے میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کے لئے بہت زیادہ احترام کے قائل تھے اور ان کے احکامات کی تعمیل اور ان کے اقدامات کی پیروی کو احکام دین کی طرف واجب سمجھتے تھے۔[73]۔[74]

حتی کہ قصی کی وفات اور ظہور اسلام کے بعد ـ جب مشرکین پیغمبر اکرم(ص) کی مخالفت کررہے تھے ـ آپ(ص) سے مطالبہ کرتے تھے کہ [معجزے کے طور پر] قصی کو زندہ کریں تا کہ وہ ان کے ساتھ آپ(ص) نبوت اور روز قیامت کی صحت کے بارے میں مشورہ کریں۔[75]۔[76] قصی نے وفات سے قبل حج اور مکہ کے فرائض اور مناصب اپنے فرزندوں کو سونپ دیئے اور شہر کے انتظام اور حج کے معاملات ـ جنہیں وہ منظم اور منضبط کرچکے تھے ـ کو بھی ان کے سپرد کیا۔[77]۔[78]

وفات

قصی مکہ میں ہی وفات پاگئے اور انہیں کوہ حَجون کے دامن میں سپرد خاک کردیا گیا،[79] اور پھر بھی ان کی تکریم و تعظیم کی جاتی تھی اور ان کی قبر کی زیارت کی جاتی تھی۔ بعدازاں قریش اپنے مردوں کو حجون میں ہی دفنا دیتے تھے جو مکہ کا پہلا قبرستان تھا۔[80]۔[81]

قصی کی خصوصیات

قصی عقلمندی اور باریک بینی، سچائی، سخاوت اور پاکدامنی میں اپنے زمانے کے لوگوں پر فوقیت رکھتے تھے[82] اور شیعہ اثناعشریہ کے مطابق پیغمبر اکرم(ص) کے دوسرے آباء و اجداد کی مانند مؤمن اور یکتا پرست تھے۔[83]۔[84]۔[85] قصی پروردگار یکتا پر ایمان کامل رکھتے تھے اور لات و عُزّٰی اور دوسرے بتوں کی پرستش سے اجتناب کرتے تھے اور عرب عوام کو غیر اللہ کی بندگی سے باز رکھتے تھے۔[86]

کتب اور منابع میں بعض حکمت آمیز اقوال ان سے منسوب کئے گئے ہیں۔ وہ اپنی اولاد سے مخاطب ہوکر کہتے تھے کہ "جس نے پست فطرت اور رذیل انسان کو تعظیم دی وہ اس کی رذالت میں شریک ہوا، اور جو شخص برے عمل کو نیک سمجھے اس کے بھونڈے پن میں شریک ہوا ہے، تمہاری بزرگواری اور عظمت اگر کسی کی اصلاح نہ کرسکے تو اس کی ذلت کو اس کے سامنے آشکار کردو، کیونکہ دوائی درد کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکتی ہے"۔[87]

وہ اپنے فرزندوں سے کہا کرتے تھے کہ "اپنے حقیقی "خود" کو عزیز و محترم رکھو تا کہ ان کی قوم و قبیلہ بھی ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئیں، اپنی قوم پر ظلم نہ کرو ورنہ نیست و نابود ہوجاؤگے۔ خیانت سے پرہیز کرو کیونکہ یہ خیانت خدا کے سامنے انجام پاتی ہے اور شرمندگی اور ملامت کا سبب بنتی ہے"۔[88] کہا کرتے تھے: "شراب نوشی سے پرہیز کرو، کیونکہ اگر فرض کیا جائے کہ یہ بدن کی اصلاح کرتی ہے، بے شک ذہن کو خراب اور فاسد کردیتی ہے۔[89]۔[90]۔[91]

حوالہ جات

  1. ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص109ـ 110۔
  2. ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص124۔
  3. سمعانی، الانساب، ج2، ص194۔
  4. ابن کلبی، ص26۔
  5. ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص110ـ 111۔
  6. قس بلاذری، کتاب جمل من انساب الاشراف، ج1، ص59، 65۔
  7. یعقوبی، تاریخ، ج1، ص239۔
  8. ابو هلال عسکری، الاوائل، ص25۔
  9. مقدسی، البدء والتاریخ، ج4، ص126۔
  10. ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج1، ص67۔
  11. یعقوبی، تاریخ، ج1، ص237۔
  12. طبری، تاریخ، ج2، ص254۔
  13. ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص124۔
  14. ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج1، ص67۔
  15. ازرقی، اخبار مکه و ماجاء فیها من الآثار، 1403، ج1، ص104ـ 105۔
  16. بلاذری، کتاب جمل من انساب الاشراف، ج1، ص55۔
  17. یعقوبی، تاریخ، وہیں۔
  18. سهیلی، الروض الانف، ج2، ص33ـ 34۔
  19. ابن الجوزى، المنتظم، ج2، ص230۔
  20. ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج1، ص71ـ 72۔
  21. ابن قتیبه، المعارف، ص117، 641۔
  22. طبری، تاریخ، ج2، ص256۔
  23. سمعانی، الانساب، ج4، ص485۔
  24. ابن اثیر، ج2، ص27۔
  25. ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص122ـ 123۔
  26. ازرقی، اخبار مکه و ماجاء فیها من الآثار، ج1، ص105۔
  27. ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص123۔
  28. ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص123ـ 124، 130ـ 131۔
  29. ازرقی، اخبار مکه و ماجاء فیها من الآثار، ج1، ص105ـ 107۔
  30. سهیلی، الروض الانف، ج2، ص28ـ 29، 32- 33، 45ـ 46۔
  31. ابن قتیبه،المعارف، ص640ـ 641۔
  32. قس جوادعلی، ج4، ص39۔
  33. بلاذری، کتاب جمل من انساب الاشراف، ج1، ص56۔
  34. مسعودی، مروج الذهب، ج2، ص175۔
  35. ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص131ـ 132۔
  36. ابن حبیب، کتاب المحبر، ص164ـ 165۔
  37. ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج1، ص73۔
  38. صالحی شامی، ج1، ص275۔
  39. فاکهی، اخبار مکة فی قدیم الدهر وحدیثه، ج2، ص173۔
  40. فاکهی، وہی ماخذ، ج4، ص97۔
  41. بلاذری، فتوح البلدان، ص48۔
  42. بلاذری، کتاب جمل من انساب الاشراف، ج1، ص58۔
  43. یاقوت حموی، فتوح البلدان، ذیل لفظ "العَجول" ص87۔
  44. ابن ضیاء، ص67۔
  45. فاکهی، اخبار مکة فی قدیم الدهر و حدیثہ، ج4، ص98ـ 99؛۔
  46. ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج1، ص72ـ 73۔
  47. بلاذری، کتاب جمل من انساب الاشراف، ج1، ص58۔
  48. ازرقی، اخبار مکہ و ما جاء فیها من الآثار، ج2، ص129۔
  49. فاکهی، اخبار مکة فی قدیم الدهر و حدیثہ، ج2، ص273، ج5، ص225۔
  50. ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص131ـ 132۔
  51. یعقوبی، تاریخ، ج1، ص240۔
  52. حلبی، السیرة الحلبیة، ج1، 19، ص297۔
  53. مسعودی، مروج الذهب، ج2، ص176ـ 177۔
  54. یعقوبی، تاریخ، ج1، ص240۔
  55. مسعودی، مروج الذهب، ج2، ص176۔
  56. ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص132۔
  57. ازرقی، اخبار مکہ و ما جاء فیها من الآثار، ج1، ص109۔
  58. ازرقی، وہی ماخذ، ج2، ص109۔
  59. بلاذری، کتاب جمل من انساب الاشراف، ج1، ص58ـ 59۔
  60. ابن کثیر، البدایة والنهایة، ج2، ص207۔
  61. ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج1، ص72۔
  62. ابن حبیب، کتاب المحبر، ص236، 319۔
  63. طبری، تاریخ، ج2، ص265۔
  64. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ج3، ص266۔
  65. ما وردی، الاحکام السلطانیة والولایات الدینیة، ص418ـ 419۔
  66. قس ابن درید، کتاب الاشتقاق، ص155۔
  67. بعد ازتُبَّع۔
  68. طبرانی، کتاب الاوائل، ص63: بعد از کلاب بن مره۔
  69. فاکهی، اخبار مکة فی قدیم الدهر و حدیثہ، ج5، ص138: قریش ـ احتمالاً مراد قصی ہیں ـ جرہم اور عمالقہ کے بعد۔
  70. قلقشندی، مآثر الانافة فی معالم الخلافة، ج4، ص250: عمالقہ اور بعدازاں جرہم کے بعد۔
  71. یعقوبی، تاریخ، ج1، ص240۔
  72. قلقشندی، مآثر الانافة فی معالم الخلافة، ج4، ص250ـ 251۔
  73. ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج1، ص70، یعقوبی، تاریخ، وہی حوالہ۔
  74. بلاذری، کتاب جمل من انساب الاشراف، ج1، ص59۔
  75. طبرسی، مجمع البیان، ج9 ص111۔
  76. ابوحیان غَرناطی، تفسیر البحرالمحیط، ذیل سورہ دخان۔
  77. یعقوبی، تاریخ، ج1، ص241۔
  78. ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص136ـ 137۔
  79. حجون مکہ کے بالائی حصے میں واقع ہے؛ رجوع کریں: یاقوت حموی، فتوح البلدان، ذیل لفظ "الحجون"۔
  80. فاکهی، اخبار مکة فی قدیم الدهر وحدیثه، ج4، ص58ـ 59۔
  81. بلاذری، کتاب جمل من انساب الاشراف، ج1، ص59۔
  82. بلاذری، کتاب جمل من انساب الاشراف، ج1، ص55۔
  83. مفید، تصحیح اعتقادات الامامیة، ص139۔
  84. مجلسی، بحار الانوار، ج12، ص49۔
  85. مجلسی، وہی ماخذ، ج15، ص117۔
  86. شهرستانی، الملل والنحل، ج2، ص248۔
  87. یعقوبی، تاریخ، ج1، ص241۔
  88. سیوطی، المزهر فی علوم اللغة و انواعها، ج1، ص163ـ 164۔
  89. ابن عبد ربه، العقد الفرید، ج8، ص52۔
  90. ابن بابویه، الامالی، ص51ـ 52۔
  91. سیوطی، المزهر فی علوم اللغة و انواعها، ج1، ص164۔

مآخذ

  • ابن اثیر، الکامل في التاریخ۔
  • ابن الجوزى (م 597)، المنتظم فى تاريخ الأمم و الملوك، تحقيق محمد و مصطفی عبد القادر عطا، بيروت، دار الكتب العلمية، ط الأولى، 1412ہجری/1992عیسوی.
  • محمد بن علی ابن بابویہ، الامالی، قم 1417 ہجری۔
  • محمد بن حبیب، کتاب المحبر، چاپ ایلزه لیختن شتیتر، حیدر آباد دکن 1361 ہجری۔
  • محمد بن حسن ابن درید، کتاب الاشتقاق، چاپ عبدالسلام محمد هارون، بغداد 1399 ہجری/ 1979عیسوی۔
  • ابن سعد، الطبقات الكبرى، ط دار صادر بيروت۔
  • محمد بن احمد بن ضیاء مکی حنفی، تاریخ مکة المشرفة و المسجدالحرام والمدینة الشریفة والقبرالشریف، چاپ علاء ابراهیم ازهری و ایمن نصر، بیروت 1424 ہجری/ 2004 عیسوی۔
  • یوسف ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفة الأصحاب، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت 1412 ہجری/1992 عیسوی۔
  • احمد بن عبد ربہ، العقد الفرید، چاپ مفید محمد قمیحہ، بیروت 1404 ہجری۔
  • عبدالله ابن قتیبہ، المعارف، چاپ ثروت عکاشہ، قاهره 1960 عیسوی۔
  • اسماعیل ابن کثیر، البدایة والنهایة، بیروت 1407 ہجری/1986 عیسوی۔
  • هشام بن محمد بن کلبی، جمهرة النَسَب، چاپ ناجی حسن، بیروت 1407 ہجری /1986 عیسوی۔
  • عبدالملک ابن هشام، السیرة النبویة، چاپ مصطفی سقا ابراهیم ابیاری و عبدالحفیظ شلبی، قاهره 1355 ہجری/ 1936 عیسوی۔
  • ابو حیان غرناطی، محمد بن یوسف، تفسیر البحر المحیط، چاپ عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت 1422ہجری/2001عیسوی۔
  • ابو هلال عسکری، الاوائل، طنطا (مصیر) 1408 ہجری۔
  • ازرقی، اخبار مکہ و ما جاء فیها من الآثار، چاپ رشدی صالح ملحس، بیروت 1416 ہجری۔
  • احمد بن یحیی بلاذری، فتوح البلدان، چاپ دخویہ، لیدن 1866، فرانکفورت 1413 ہجری / 1992 عیسوی۔
  • احمد بن یحیی بلاذری، کتاب جمل من انساب الاشراف، چاپ سهیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت 1417 ہجری/ 1997 عیسوی۔
  • جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بیروت 1413 ہجری/1993 عیسوی۔
  • علی بن برهان الدین حلبی، السیرة الحلبیة، بیروت 1400 ہجری۔
  • السمعاني، عبد الكريم بن محمد بن منصور التميمي، الانساب، دار الجنان، بيروت-لبنان، الطبعة الاولى 1408 ہجری/1988 عیسوی۔
  • عبدالرحمن بن عبدالله سهیلی، الروض الانف، چاپ عبدالرحمان وکیل، قاهره 1410 ہجری/1990 عیسوی۔
  • عبدالرحمان سیوطی، المزهر فی علوم اللغة و انواعها، چاپ محمد احمد جاد المولی، علی محمد بجاوی و محمد ابوالفضل ابراهیم، قاهره، دار احیاء المکتب الغربیہ، بی تا.
  • محمد بن عبدالکریم شهرستانی، الملل والنحل، چاپ محمد سید کیلانی، بیروت دار المعرفہ
  • محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الهدی والرشاد فی سیرة خیر العباد، چاپ عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت 1414 ہجری / 1993 عیسوی۔
  • سیلمان بن احمد طبرانی، کتاب الاوائل، چاپ محمد شکور بن محمد حاجی امریر، بیروت 1408 ہجری/1987 عیسوی۔
  • الفضل بن الحسن الطبرسي، مجمع البيان في تفسير القران، مؤسسة الاعلمي للمطبوعات بيروت - 1415 ہجری/1995 عیسوی۔
  • طبری، تاریخ (بیروت).
  • محمد بن اسحاق فاکهی، اخبار مکة فی قدیم الدهر و حدیثہ، چاپ عبدالملک بن عبدالله بن دهیش، بیروت 1419 ہجری/1998 عیسوی۔
  • قلقشندی، احمد، مآثر الانافة فی معالم الخلافة، کویت، 1985 عیسوی۔
  • علی بن ماوردی، الاحکام السلطانیة والولایات الدینیة، چاپ محمد جاسم حدیثی، بغداد 1422 ہجری/2001 عیسوی۔
  • مسعودی، مروج الذهب (بیروت).
  • محمد بن محمد مفید، تصحیح اعتقادات الامامیة، چاپ حسین درگاهی، بیروت 1414 ہجری/1993 عیسوی۔
  • مطهر بن طاهر مقدسی، البدء والتاریخ، چاپ کلمان هوار، پاریس 1899ـ 1916، چاپ افست تهران 1962 عیسوی/1341 ہجری شمسی۔
  • ياقوت بن عبد الله الحموي الرومي البغدادي، معجم البلدان، دار إحياء الثراث العربي بيروت - لبنان، 1399 ہجری/1979 عیسوی۔

بیرونی ربط