امامت، دینی اور دنیوی امور میں پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی میں اسلامی معاشرے کی قیادت و رہبری کے الہی نظام کو کہا جاتا ہے۔ امامت شیعوں کے بنیادی اعتقادات اور شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اہم اختلافی مسائل میں سے ہے۔ شیعوں کے یہاں امامت کی اہمیت کی بنا پر ان کو امامیہ بھی کہا جاتا ہے۔

شیعہ
اصول دین (عقائد)
بنیادی عقائدتوحیدعدلنبوتامامتمعاد یا قیامت
دیگر عقائدعصمتولایتمہدویت: غیبتانتظارظہوررجعتبداء • ......
فروع دین (عملی احکام)
عبادی احکامنمازروزہخمسزکاتحججہاد
غیر عبادی احکامامر بالمعروف اور نہی عن المنکرتولاتبرا
مآخذ اجتہادقرآن کریمسنت (پیغمبر اور ائمہ کی حدیثیں)عقلاجماع
اخلاق
فضائلعفوسخاوتمواسات • ...
رذائلكبرعُجبغرورحسد • ....
مآخذنہج البلاغہصحیفۂ سجادیہ • .....
اہم اعتقادات
امامتمہدویترجعتبداشفاعتتوسلتقیہعصمتمرجعیت، تقلیدولایت فقیہمتعہعزاداریمتعہعدالت صحابہ
شخصیات
شیعہ ائمہامام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام باقرؑامام صادقؑامام کاظمؑامام رضاؑامام جوادؑامام ہادیؑامام عسکریؑامام مہدیؑ
صحابہسلمان فارسیمقداد بن اسودابوذر غفاریعمار یاسر
صحابیہخدیجہؑفاطمہؑزینبؑام کلثوم بنت علیاسماء بنت عمیسام ایمنام سلمہ
شیعہ علماادباعلمائے اصولشعراعلمائے رجالفقہافلاسفہمفسرین
مقدس مقامات
مسجد الحراممسجد النبیبقیعمسجدالاقصیحرم امام علیمسجد کوفہحرم امام حسینؑحرم کاظمینحرم عسکریینحرم امام رضاؑ
حرم حضرت زینبحرم فاطمہ معصومہ
اسلامی عیدیں
عید فطرعید الاضحیعید غدیر خمعید مبعث
شیعہ مناسبتیں
ایام فاطمیہمحرّم ، تاسوعا، عاشورا اور اربعین
اہم واقعات
واقعۂ مباہلہغدیر خمسقیفۂ بنی ساعدہواقعۂ فدکخانۂ زہرا کا واقعہجنگ جملجنگ صفینجنگ نہروانواقعۂ کربلااصحاب کساءافسانۂ ابن سبا
الکافیالاستبصارتہذیب الاحکاممن لایحضرہ الفقیہ
شیعہ مکاتب
امامیہاسماعیلیہزیدیہکیسانیہ

امامت کی ضرورت اور وجوب میں مسلمان فرقوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس کی نوعیت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اشاعرہ کے مطابق امامت شرعا واجب ہے جبکہ بعض معتزلہ اسے وجوب عقلی مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عقلی اعتبار سے لوگوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے لئے کوئی نہ کوئی امام معین کریں۔ ان کے مقابلے میں شیعہ کہتے ہیں کہ امامت واجب عقلی ہے اور امام کو معین کرنا خدا پر واجب ہے۔ یعنی عقلی اعتبار سے خدا پر واجب ہے کہ وہ اپنی حکمت کے مطابق امام تعیین کریں اور اس کا ترک کرنا قبیح ہے۔

شیعوں کے مطابق امامت ایک الہی منصب ہے جسے خدا اپنے برگزیدہ اور منتخب افراد کو عطا کرتا ہے۔ شیعہ امامت کو دین کی تکمیل اور پیغمبر اکرمؐ کے بعد انسانوں کی ہدایت اور رہبری کا تسلسل قررا دیتے ہیں۔

امامیہ اور بعض دوسرے اسلامی فرقوں کے مطابق امام کو معصوم اور تمام انسانی فضائل میں سب سے افضل ہونا ضروری ہے۔ امامیہ اس بات کے‌ قائل ہیں‌ کہ امام کا انتخاب خدا یا پیغمبر اکرمؐ یا سابقہ امام کی طرف سے واضح اور صراحت کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امام علیؑ اور ان کے دوسرے ائمہؑ معصوم اور تمام انسانی فضائل میں اپنے زمانے میں سب سے افضل تھے اسی بنا پر یہ ہستیاں امت کے امام شمار کئے جاتے ہیں۔

امامیہ اسلامی معاشرے کی قیادت اور رہبری، الہی حدود اور احکام کا نفاذ، دینی اقدار کا تحفظ اور دینی معاملات میں محوریت اور مرجعیت جیسے امور کو امامت کے فلسفے اور اہداف میں شمار کرتے ہیں۔

اہمیت اور مقام

امامت کا مسئلہ اسلامی فرقوں‌ کے درمیان انتہائی اہم اختلافی اور بحث‌ برانگیز مسائل میں سے ہے۔[1] امامیہ کے یہاں امامت پیغمبر اسلامؑ کی نبوت کا تسلسل اور اس کی بقا و استمرار کا سبب ہے اور امام انہی وظائف کو انجام دیتے ہیں جو پیغمبر اکرمؑ کے عہدے پر تھے۔[2]امامت پر عقیدہ رکھنا امامیہ کے یہاں اصول دین میں سے ہے اسی بنا پر ان کے یہاں یہ مسئلہ ایک کلامی مسئلہ شمار ہوتا ہے؛[3] حالانکہ بعض اشاعرہ، معتزلہ[4]اور دیگر اہل سنت مذاہب امامت کو فروع دین اور فقہی مسائل میں شمار کرتے ہیں۔[5]

محمد حسین کاشف‌ الغطاء اپنی کتاب اصل الشیعۃ و اصولہا میں امامت پر عقیدہ رکھنے کو ان اصولوں میں سے قرار دیتے ہیں جن کی بنا پر شیعہ دیگر اسلامی فرقوں سے متمایز ہوتا ہے۔[6] اسی بنا پر بارہ اماموں کی امامت پر عقیدہ رکھنے والے امامیہ کے نام سے بھی مشہور ہیں[7] اور جو شخص اس پر عقیدہ نہ‌ رکھے وہ تشیع کے دائرے سے خارج ہو جاتا ہے۔[8]

علامہ حلی کتاب مِنہاجُ الكِرامۃ فی معرفۃِ الاِمامہ کے مقدمے میں امامت کے مسئلے کو سب سے اہم مسائل اور ارکان ایمان میں شمار کرتے ہیں جس کا ادراک ہمیشہ کے لئے بہشت کے نعمات سے بہرہ مند ہونے‌ اور عذاب خداوندی سے نجات کا سبب بنتا ہے۔[9]

کلینی کتاب الکافی میں امام رضاؑ سے امامت کی اہمیت کے بارے میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں۔[10] اس حدیث میں امامت کو مقام انبیاء، میراث اوصیاء، خلافت الہی، پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی، دین کا محافظ، اصلاح دنیا، مسلمانوں کا رہبر، مؤمنین کی عزت و وقار، اسلام کی مظبوط جڑ اور بلند و سرسبز شاخ قرار دیا گیا ہے۔[11]

امامت الہی منصب

سورہ بقرہ کی آیت نمبر 124 کے مطابق جب حضرت ابراہیم امامت کے مقام پر فائز ہوئے تو انہوں نے اپنی نسل کے لئے بھی اس مقام کی درخواست کی جس پر خدا نے فرمایا: «لاینالُ عَہدی الظّالِمینَ؛ (ترجمہ: میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔)[12] اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ اس آیت میں «عہد» سے مراد امامت ہے۔[13] اسی بنا پر امامیہ اس بات کے قائل ہیں کہ امامت ایک الہی منصب ہے جسے خدا اپنے بعد منتخب اور برگزیدہ افراد کے لئے عطا کرتا ہے۔[14]

امامت دین کی تکمل کا ذریعہ

امامیہ آیت اکمال اور آیت تبلیغ نیز ان آیات کے ذیل میں ائمہ معصومینؑ سے منقول احادیث[15] کی روشنی میں امامت کو دین کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔[16] ان کے مطابق آیت اکمال دین عید غدیر کے دن پیغمبر اکرمؐ کی جانب سے امام علیؑ کو امام اور اپنا جانشین منتخب کرنے کے بعد نازل ہوئی ہے اور اسی کے‌ ذریعے دین اسلام کی تکمیل کی خبر دی گئی ہے۔[17]

اسی طرح آیت تبلیغ سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امامت کا منصب اس قدر بلند اور اہمیت کا حامل ہے اگر پیغمبر اکرمؐ اسے ابلاغ نہ‌کرتے تو گویا آپ نے رسالت کا کوئی کام انجام نہ دیا ہوتا اور آپ کی پوری زحمات ختم ہو چکی ہوتیں۔[18]

امامت ہدایت نبوی کا تسلسل

امامیہ آیت ہادی اور اس کے ذیل میں وارد ہونے والی احادیث[19] سے استناد کرتے ہوئے امامت کو پیغمبر اکرمؐ کے بعد انسانوں کی ہدایت کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔[20] اہل‌ سنت مفسر محمد بن جریر طبری (متوفی 310ھ) اپنی تفسیری کتاب میں ابن‌ عباس سے ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق جب آیت ہادی نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمؐ نے ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر فرمایا: «میں ڈرانے والا اور خبردار کرنے والا ہوں» پھر اپنے دست مبارک سے حضرت علیؑ کے کاندے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: «اے علی آپ ہدایت‌ کرنے والا ہے اور میرے بعد ہدایت پانے والے آپ کے دست مبارک سے ہدایت پائیں گے۔»[21]

مفہوم‌ شناسی

محقق لاہیجی کہتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کے یہاں مورد قبول تعریف[22] کے مطابق امامت دینی اور دنیوی امور میں پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی میں لوگوں کی قیادت و رہبر کو کہا جاتا ہے۔[23]

امامت کی اور بھی تعریفیں کی گئی ہیں، مثلا اہل سنت متکلم سیف‌ الدین آمدی (575-622ھ) امامت کی تعریف میں کہتے ہیں: «شرعی قوانین کے نفاذ اور معاشرے کی تحفظ کے لئے پغمبر اکرمؑ کی جانشینی میں کسی شخص یا اشخاص کی اس طرح پیروی کرنا کہ اس کی پیروی کرنا تمام امت پر واجب ہو۔»[24] اشعری مذہب کے متکلم میر سید شریف جرجانی (740-816ھ) کتاب شرح المواقف اور اشعری مذہب کے متکلم اور فقیہ تفتازانی (722-792ھ) شرح المقاصد میں اسی تعریف کو قبول کرتے ہیں۔[25] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ امامت دین کی تحفظ اور معاشرے کی سیاسی قیادت میں پیغمبر اکرم کی جانشینی کو کہا جاتا ہے۔[26]

آیت اللہ‌ مکارم شیرازی کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا تعریفوں کی بنا پر امامت دنیوی حکومتوں کی طرح ایک ظاہری منصب لگتا ہے جسے دینی اور مذہبی رنگ دے کر پیغمبر اکرمؑ کی جانشینی کا عنوان دیا گیا ہے؛ حالانکہ امامیہ کے مطابق امامت ایک الہی منصب ہے اور امام کا انتخاب خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور امام کے انتخاب میں لوگوں کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔[27] قاضی نوراللہ تستری جیسے بعض علماء امامت کی یوں تعریف کرتے ہیں: «امام ایک الہی اور خدادادی منصب ہے جو نبوت کے علاوہ تمام انسانی کمالات اور فضائل جو اس منصب کے‌ لئے ضروری ہے، کا حامل ہے۔»[28]

امامت کی ضرورت اور امام معین کرنے کا طریقہ

امامت کی ضرورت اور وجوب کے سلسلے میں شیعہ اور دیگر اسلامی فرقوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے؛[29] لیکن وجوب کی نوعیت اور امام کو معین کرنے کے طریقے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[30] البتہ کہا جاتا ہے کہ بعض معتزلی متکلمین اور خوارج کا ایک گروہ امامت کے وجوب کے ہی قائل نہیں ہیں۔[31] دوسرے فرقے امامت کو واجب تو سمجھتے ہیں لیکن واجب عقلی ہے یا واجب شرعی اس بارے میں اختلاف پایا جاتاہے۔[32] بصرہ کے جبائی (معتزلہ میں سے ابوعلی جبایی کے پیروکار)، اہل حدیث اور اشاعرہ امامت کو واجب شرعی سمجھتے ہیں نہ عقلی۔[33] ان کے مقابلے میں معتزلہ، ماتریدیہ اور اباضیہ امامت کو واجب عقلی سمجھتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ امام کو معین کرنا لوگوں کی ذمہ داری ہے۔[34]

امامیہ امامت کو واجب عقلی سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام کو معین کرنا عقلا خدا پر واجب ہے۔[35] یہاں پر خدا پر واجب ہونے کا مطلب وجوب فقہی نہیں ہے بلکہ وجوب کلامی ہے جو حسن و قبح عقلی کی بحث پر موقوف ہے؛ یعنی عقلی طور پر خدا کی حکمت کا تقاضا ہے کہ اس کام کو انجام دیا جائے اور اس کا ترک کرنا عقلی طور پر حکمت خداوندی کے خلاف اور قبیح ہے۔[36]

امامت لطف ہے

امامیہ امام کا خدا کی طرف سے معین کرنا واجب ہونے پر قاعدہ لطف کے ذریعے استدلال کرتے ہیں۔[37] قاعدہ لطف کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ کام جو انسانوں کو خدا کی اطاعت اور بندگی سے نزدیک کرے اور ان کو گناہوں اور خدا کی معصیت سے دور کرے اس کام کو انجام دینا خدا پر ضروری اور واجب ہے اور خدا اس کام کو ضرور انجام دیتا ہے؛[38] مثلا دینی احکام کی تشریع اور ان کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے انبیاء کو مبعوث کرنا۔[39] اس قاعدے کے مطابق امام کا ہونا لطف ہے؛ کیونکہ امام کے ذریعے لوگ خدا کی اطاعت سے نزدیک ہوتے ہیں اور ایسے امور کے انجام دینے سے پرہیز کرتے ہیں جس سے خدا نے نہی اور ممانعت کی ہو۔[40] اس بنا پر امام کو معین کرنا خدا پر واجب ہے۔[41]

امام کی خصوصیات

امامت کے عہدے پر فائز ہونے والی شخصیت یعنی امام[42] میں درج ذیل خصوصیات کا ہونا ضروری ہے:

عصمت

امامیہ اور اسماعیلیہ اس بات کے قائل ہیں کہ امام کو معصوم ہونا چاہئے[43] اور اپنے اس مدعا کو ثابت کرنے کے لئے وہ مختلف دلائل پیش کرتے ہیں جن میں برہان امتناع تسلسل(تسلسل کا محال ہونا)، امام کے ذریعے دین اور شریعت کا تحفظ، امام کی اطاعت کا واجب ہونا، امام کے نصب اور معین کرنے کا مقصد فوت ہونا، گناہ کا ارتکاب امام کو لوگوں کی نظروں سے گرا دینے کی دیتا ہے[44]

اسی طرح کہتے ہیں کہ امام کو تمام ظاہری عیوب جیسے جلدی بیماریوں، حسب و نسب میں موجود عیوب اور بے ہودہ، کم ارزش اور ایسے کاموں میں مصروف ہونا جس سے لوگوں میں منافرت پیدا ہوتا ہو اور لوگ اس سے دوری اختیار کرتے ہوں، سے بھی منزہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ امور امام کے لطف ہونے کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔[45]

افضلیت

امامیہ اور مُرجِئہ، مُعتزلہ اور زیدیہ کے بعض گروہ کے نزدیک امام کو علم، دین، کرامت، شجاعت اور تمام انسانی ظاہری اور باطنی فضائل میں اپنے زمانے کے تمام انسانوں سے افضل ہونا ضروری ہے؛[46] کیونکہ اگر فضیلت میں امام دوسروں کے برابر ہو تو اسے بعنوان امام انتخاب کرنا ایک تو ترجیح بلا مُرَجِّح (دو مساوی چیزوں میں سے ایک کو بغیر کسی دلیل کے انتخاب کرنا) ہے جوکہ عقلی طور پر قبیح سمجھا جاتا ہے اور اگر افضلیت کے اعتبار سے امام دوسروں سے پست ہو تو افضل کے اوپر مفضول کو مقدم کرنا لازم آتا ہے جوکہ عقلی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔[47] دوسری طرف سے بعض قرآنی آیات جیسے سورہ یونس کی آیت نمبر 35 اور سورہ زمر کی آیت نمبر 9 بھی افضل کی پیروی اور متابعت کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔[48]

نص کی بنیاد پر معین ہونا

امامیہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امام کو خدا یا پیغمبر اکرمؐ یا سابقہ امام کی جانب سے واضح اور صریح الفاظ میں منتخب ہونا چاہئے جسے اصطلاح میں «نَصِّ جَلی» کہا جاتا ہے۔[49] اس بات پر درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں:

  • امام کی خصوصیات میں سے ایک معصوم ہونا ہے اور عصمت ایک باطنی امر ہے جس سے خدا یا وہ جسے خدا آگاہ کرے کے علاوہ کوئی آگاہ نہیں ہو سکتا۔ اس بنا پر ضروری ہے کہ نص کے ذریعے امام کی معرفی کی جائے۔[50]
  • پیغمبر اکرمؐ معمولی امور میں بھی اپنی امت کی رہنمائی فرماتے تھے اور جب بھی ایک یا دو دن کے لئے بھی مدینے سے باہر تشریف لے جاتے تو کسی نہ کسی کو اپنا جانشین معین کرتے تاکہ وہ مسلمانوں کے امور کی نگرانی کر سکے، ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ خلافت اور اپنی رحلت کے بعد جانشینی جیسے اہم کام کو مہمل چھوڑ دیئے ہوں اور کسی کو اس کام کے لئے معین نہ کئے ہوں؟ پس پیغمبر اکرمؐ کی سیرت عملی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے بعد امت کی رہبری اور قیادت کے لئے امام کو معین فرمایا ہے اور نص کے ذریعے لوگوں کو اس کی معرفی کی ہیں[51]
  • ائمہ معصومین سے بعض احادیث نقل ہوئی ہیں جو نص کے ذریعے امام کو معین کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔[52]

بنی‌ عباس اور ان کے پیروکار کہتے ہیں کہ امام نص معتبر، میراث یا پیغمبر اکرمؐ سے منسوب ہونے کے ذریعے ثابت ہوتا ہے۔[53] زیدیہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر حضرت فاطمہ(س) کی نسل سے کوئی شخص لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے یا امر بالمعروف اور شریعت کو نافذ کرنے کیلئے تلوار اٹھائے تو اس کی امامت صحیح ہے۔ ان کے علاوہ باقی اسلامی فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ امام یا نص کے ذریعے معین ہوتا ہے یا معاشرے کے اہل حل و عقد (علماء و زعماء) کے معین کرنے کے ذریعے ثابت ہوتا ہے۔[54]

فلسفہ امامت

امامت کا فلسفہ اور اس کے اہداف سے متعلق مختلف نظریات بیان کئے گئے ہیں۔[55] معتزلہ شرعی احکام اور حدود وغیرہے کے نفاذ کو امامت کا مقصد اور ہدف قرار دیتے ہیں۔[56] ماتُریدیہ و اشاعرہ درج بالا امور کے علاوہ اسلامی فوج کی قیادت، اسلامی ممالک کے حدود اربعہ کی حفاظت، اسلامی افواج کو مسلح کرنا، مفسدین اور باغیوں سے مقابلہ کرنا، مظلومین کی حمایت اور ظالموں کو سرکوب کرنا، معاشرے میں پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کرنا، جنگی غنائم کی تقسیم وغیرہ جن کی ذمہ داری معاشرے کے ہر فرد پر عائد نہیں ہوتی، کو بھی امام کے اہداف اور مقاصد میں شامل کرتے ہیں۔[57]

امامیہ درج بالا تمام امور کے علاوہ[58] دوسرے اسلامی فرقوں کے برخلاف شریعت کی تبیین اور پیغمبر اکرمؐ کے بعد دینی مرجعیت کو بھی امام کے اہم مقاصد اور اہداف میں شمار کرتے ہیں۔[59] کاشف‌ الغطاء امام کے ذریعے شریعت کی تبیین اور امام کا مسلمانوں کی دینی مرجعیت کے عہدے پر فائز ہونے کے لئے یوں استدلال کرتے ہیں: جس طرح عقلی طور پر احکام الہی تک رسائی کے لئے ان احکام کو جعل کرنے اور انہیں لوگوں تک پہنچانے والے کا ہونا ضروری ہے اسی طرح ان احکام کو بیان کرنے والے کا ہونا بھی ضروری ہے اور ان میں سے ہر ایک کے فقدان کا لازمہ احکام الہی سے آگاہ نہ ہونا ہے۔[60] اسی طرح بہت ساری مجمل اور متشابہ آیات اور روایات موجود ہیں جن کی وضاحت اور بیان کے لئے ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ان کی تفصیلات سے آگاہ ہو۔[61]

امام کی ضرورت کو روشن کرنے والے امور میں سے ایک جو امامت کے فلسفے میں بھی شمار ہوتا ہے وہ شریعت کا تحفظ ہے۔[62] امام کے ذریعے دین تبدیل اور تحریف ہونے سے محفوظ رہ سکتا ہے؛ کیونکہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ دشنموں کی دشمنیوں کے باعث دین کا صحیح حالت میں باقی رہنا اور اسے صحیح طور پر سمجھنا مشکل ہوتا جائے گا جو اس دین کو تحریف کی طرف لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح کم از کم قرآن کو سمجھے میں عام انسانوں کی غلطی کا امکان ہے جس کی بنا پر ایک ایسے شخص یا اشخاص کی ضرورت باقی رہتی ہے جو اس طرح کے اشبتاہات اور غلطیوں سے پاک اورمبرا ہوں اور اس کا وجود دوسروں کی غلطی اور اشتباہ کی تشخیص کا معیار قرار پائے اور یہ شخص پیغمبر اکرمؐ کا جانشین اور امام ہی ہو سکتا ہے جو کہ خود پیغمبر اکرمؐ کی طرح معصوم ہوتا ہے۔[63]

امام علیؑ کی امامت

شیعوں کے مطابق امام علیؑ پیغمبر اکرمؐ کا فلافصل جانشین اور آپ کے بعد مسلمانوں کا امام ہیں۔[64] شیعہ اس ادعا کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی مختلف آیات جیسے آیت تبلیغ، آیہ ولایت، آیہ مودت، آیہ اولی الامر، آیہ اِکمال دین، آیہ تطہیر اور آیہ صادقین سے استدلال کرتے ہیں۔[65] علامہ حلی کتاب نہج الحق و کشف الصدق میں امام علیؑ کی امامت اور پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی 84 آیات سے استدلال کرتے ہیں۔[66] شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے امام علیؑ کی امامت اور فلافصل جانشینی پر واضح اور صریح نص (نص جلی) موجود ہے۔ اس ضمن میں وہ شیعہ اور اہل سنت منابع میں موجود بہت سی متواتر احادیث جیسے حدیث غدیر، حدیث منزلت اور حدیث ثقلین وغیرہ سے تمسک کرتے ہیں۔[67]

امامیہ اسی طرح بعض حدیثی اور تاریخی نصوص سے تمسک کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد امت میں علم، شجاعت، عدالت اور دوسرے انسانی فضائل میں امام علیؑ سب سے افضل تھے، اس بنا پر صحابہ میں صرف حضرت علیؑ تھے جو پیغمبر اکرمؐ کا جانشین اور خلیفہ بننے کے لائق اور مستحق تھے۔[68]

دوسرے ائمہؑ کی امامت

امامیہ کے مطابق امامت کے منصب پر امام علیؑ کے بعد امام حسنؑ پھر امام حسینؑ پھر ان کے بعد ان کی نسل سے 9 ہستیاں امام سجادؑ، امام باقرؑ، امام صادقؑ، امام کاظمؑ، امام رضاؑ، امام جوادؑ، امام ہادیؑ، امام حسن عسکریؑ اور حضرت مہدیؑ فائز ہوئے ہیں۔[69]

امامیہ متکلمین دوسرے شیعہ ائمہ کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے حدیث بارہ خلیفہ[70] اور ایسی متواتر احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں ان ائمہ کی امامت پر بطور معین اور مشخص الگ الگ تصریح کی گئی ہے۔[71] امامیہ کے مطابق عصمت اور افضل ہونا امام کے جملہ شرائط میں سے ہیں اور اس سلسلے میں نقل ہونے والی احادیث اور نصوص کو مد نظر رکھتے ہوئے شیعہ امام علیؑ کے بعد آنے والے ان کے تمام ائمہؑ کو معصوم اور علم و دوسرے تمام انسانی فضائل میں اپنے زمانے کے تمام انسانوں سے افضل سمجھتے ہیں۔۔[72]

کتابیات

امامت کے موضوع پر تحریر کی گئی بعض کتابیں درج ذیل ہیں:

  • اَلاِفصاح فی الاِمامہ، تألیف شیخ مفید: مصنف نے اس کتاب میں امامت کی تعریف، شناخت کی ضرورت، خدا اور پیغمبر اکرمؑ کے نزدیک امام علی کی امامت اور افضلیت، ابوبکر کی امامت کے ادعا کا باطل ہونا اور ان کی افضلیت کو مسترد کرنا، ابوبکر کی امامت پر امت کے اجماع کا نہ ہونا جیسے موضوعات سے بحث کی ہیں۔[73]
  • اَلشَافی فی الامامۃ، نوشتہ سیدِ مرتضی: یہ کتاب قاضی عبدالجبار معتزلی کی کتاب «المُغنی مِنَ الحِجاج فی الامامہ» میں امامت کے بارے میں کئے گئے اعتراضات اور شبہات کے جواب میں تحریر کی گئی ہے۔[74]یہ کتاب تصنیف کے دور اور اس کے بعد والی صدیوں میں شیعہ اور اہل سنت علما کی توجہ کا مرکز قرار پائی اور اس تنقید یا اس کے خلاصے کے طور پر مختلف کتابیں بھی تحریر کی گئی ہیں جن میں تلخیص‌ الشافی، نوشتہ شیخ طوسی است۔[75]
  • مِنہاجُ الکِرامۃ فی معرفۃِ الاِمامہ، تصنیف: علامہ حلی: علامہ حلی نے اس کتاب میں سب سے پہلے امامت سے متعلق عمومی مسائل جیسے تعریف اور اس کی ضرورت وغیرہ کو بیان کیا ہے اس کے بعد امام علیؑ اور دوسرے ائمہ کی امامت کو ثابت کیا ہے۔[76] کہا جاتا ہے کہ ابن‌ تیمیہ نے کتاب مِنہاجُ السُّنۃِ النَّبویۃ کو اس کتاب کی در میں تحریر کیا ہے۔[77] حوزہ علمیہ قم کے استاد اور شیعہ علم کلام کے محقق سید علی حسینی میلانی نے کتاب منہاج الکرامہ پر ایک شرح لکھی ہے جس میں ابن‌ تیمیہ کے نظریات کو رد کیا ہے۔ یہ کتاب «شرح منہاج الکرامۃ» کے عنوان سے 5 جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔[78]
  • امامت و رہبری، تصنیف: مرتضی مطہری: یہ کتاب شہید مطہری کی 6 تقریروں کا مجموعہ ہے جسے انہوں نے سنہ 1349 ہجری شمسی میں امامت کے موضوع پر اسلامی ڈاکٹروں کی تنظیم کے اراکین سے خطاب کیا ہے۔[79]
  • الاِمامۃُ العُظمی عندَ اَہلِ السُّنۃِ و الجَماعہ، تصنیف: عبداللہ دمیجی از عالمان اہل سنت: مصنف نے اس کتاب میں امامت کی تعریف اور اس کے وجوب اور ضرورت سے بحث کرنے کے بعد امامت کے بارے میں اہل سنت کا نظریہ بیان کیا ہے۔[80]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص24؛ میلانی، «مقدمہ»، در کتاب دلائل الصدق، تألیف محمدحسن مظفر، 1422ھ، ص26۔
  2. سبحانی، خدا و امامت، 1362ہجری شمسی، ص9؛ طاہرزادہ، مبانی نظری نبوت و امامت، 1392ہجری شمسی، ص75۔
  3. میلانی، الإمامۃ فی أہم الكتب الكلامیۃ وعقیدۃ الشیعۃ الإمامیۃ، 1413ھ، ص22۔
  4. برای نمونہ نگاہ کنید بہ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص232؛ جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص344۔
  5. سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج1، ص295-296۔
  6. کاشف‌الغطاء، اصل الشیعۃ و اصولہا، مؤسسۃ الامام علی(ع)، ص221۔
  7. کاشف‌الغطاء، اصل الشیعۃ و اصولہا، مؤسسۃ الامام علی(ع)، ص212۔
  8. کاشف‌الغطاء، اصل الشیعۃ و اصولہا، مؤسسۃ الامام علی(ع)، ص212۔
  9. علامہ حلی، منہاج الكرامۃ فی معرفۃ الإمامۃ، 1379ہجری شمسی، ص27۔
  10. کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج1، ص491-492۔
  11. کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج1، ص491-492۔
  12. سورہ بقرہ، آیہ 124۔
  13. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: تفسیر طبری، طبری، 1415ھ، ج2، ص511؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج4، ص43؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج1، ص377۔
  14. مطہری، امامت و رہبری، 1390ہجری شمسی، ص131۔
  15. نمونہ‌ کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج1، ص289 و ج15، ص80۔
  16. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج3، ص274؛ طباطبایی، المیزان، 1418ھ، ج5، ص174؛ مطہری، امامت و رہبری، 1390ہجری شمسی، ص121-125۔
  17. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج3، ص274؛ طباطبایی، المیزان، 1418ھ، ج5، ص174۔
  18. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج3، ص382؛ علامہ حلی، منہاج الكرامۃ فی معرفۃ الإمامۃ، 1379ہجری شمسی، ص117؛ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج4، ص314-316۔
  19. نموہ کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج1، ص471-473۔
  20. نمونہ کے لئے ملاحظہ‌کریں: طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص15؛ طباطبایی، المیزان، 1418ھ، ج11، ص305 و ص327-328۔
  21. طبری، تفسیر طبری، 1415ھ، ج16، ص357۔
  22. محقق لاہیجی، گوہر مراد، 1383ہجری شمسی، ص462۔
  23. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: بحرانی، القواعد المرام، 1406ھ، ص174؛ فاضل مقداد، شرح الباب الحادی عشر، 1427ھ، ص40؛ علامہ مجلسی، حق الیقین، انتشارات اسلامیہ، ج1، ص36۔
  24. آمدی، أبكار الأفكار فی أصول الدين، 1423ھ، ج5، ص121۔
  25. جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص345؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص232۔
  26. دمیجی، الامامۃ العظمی عند اہل السنۃ و الجماعۃ، دار طیبۃ، ص28۔
  27. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج9، ص20۔
  28. تستری، إحقاق الحق و إزہاق الباطل، 1409ھ، ج2، ص300۔
  29. دمیجی، الامامۃ العظمی عند اہل السنۃ و الجماعۃ، دار طیبۃ، ص45-46؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر شیعہ‌شناسی، 1385ہجری شمسی، ص217۔
  30. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص490؛ علامہ مجلسی، کشف الیقین، انتشارات اسلامیہ، ج1، ص36۔
  31. دمیجی، الامامۃ العظمی عند اہل السنۃ و الجماعۃ، دار طیبۃ، ص45-46؛ علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص490۔
  32. علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص490؛ بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، 1406ھ، ص175۔
  33. علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص490۔
  34. طوسی، قواعدالعقائد، 1413ھ، ص110؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص235؛ طوسی، تلخیص المحصل، 1405ھ، ص406؛ جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص345۔
  35. علامہ حلی، کشف المراد، ص490؛ بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، 1406ھ، ص175؛ علامہ مجلسی، کشف الیقین، انتشارات اسلامیہ، ج1، ص36۔
  36. مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج4، ص311۔
  37. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: طوسی، تلخیص المحصل، 1405ھ، ص426؛ بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، 1406ھ، ص175؛ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج4، ص253۔
  38. ربانی گلپایگانی، القواعد الکلامیہ، 1392ش/1435ھ، ص106؛ فخرالدین رازی، المحصل، 1411ھ، ص481-482۔
  39. ربانی گلپایگانی، القواعد الکلامیۃ، 1392ش/1435ھ، ص114-116۔
  40. طوسی، تلخیص المحصل، 1405ھ، ص426۔
  41. طوسی، تلخیص المحصل، 1405ھ، ص426؛ بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، 1406ھ، ص175۔
  42. بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، 1406ھ، ص174۔
  43. شیخ مفید، اوائل المقالات، انتشارات دانشگاہ تہران، ص39؛ علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص492۔
  44. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص492-494؛ شعرانی، شرح تجرید الاعتقاد، 1376ہجری شمسی، ص510-511۔
  45. بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، 1406ھ، ص180۔
  46. شیخ مفید، اوائل المقالات، انتشارات دانشگاہ تہران، ص39-40؛ علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص495؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، 1405ھ، ص336۔
  47. علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص495؛ بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، 1406ھ، ص180۔
  48. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص495؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، 1405ھ، ص336؛ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج4، ص234۔
  49. علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص495؛ بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، 1406ھ، ص181؛ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج4، ص234۔
  50. علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص496؛ شعرانی، شرح فارسی تجرید الاعتقاد، 1376ہجری شمسی، ص513۔
  51. علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص496؛ شعرانی، شرح فارسی تجرید الاعتقاد، 1376ہجری شمسی، ص513۔
  52. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج23، ص68-69؛ حائری، الإمامۃ وقیادۃ المجتمع، 1416ھ، ص64-65۔
  53. علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص495؛ شعرانی، شرح فارسی تجرید الاعتقاد، 1376ہجری شمسی، ص513۔
  54. علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص495-496؛ شعرانی، شرح فارسی تجرید الاعتقاد، 1376ہجری شمسی، ص513-514۔
  55. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: قاضی عبدالجبار، المغنی، 1962م، ج1، ص39؛ تفتازانی، شرح العقائد النسفیۃ، 1407ھ، ص97؛ علامہ حلی، الفین، 1405ھ، ص26-29۔
  56. نمونہ کےلئے ملاحظہ کریں: قاضی عبدالجبار، المغنی، 1962م، ج1، ص39؛ قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسہ، 1422ھ، ص509۔
  57. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: تفتازانی، شرح العقائد النسفیۃ، 1407ھ، ص97؛ باقلانی، تمہید الاوائل و تلخیص الدلائل، 1407ھ، ص477-478۔
  58. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، الفین، 1405ھ، ص26-29۔
  59. بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، 1406ھ، ص178؛ مطہری، امامت و رہبری، 1390ہجری شمسی، ص29-32۔
  60. کاشف الغطاء، کشف الغطاء، 1420ھ، ج1، ص64۔
  61. کاشف الغطاء، کشف الغطاء، 1420ھ، ج1، ص64۔
  62. علامہ حلی، کشف المراد؛ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج4، ص217۔
  63. علامہ حلی، کشف المراد؛ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج4، ص217۔
  64. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل المقالات، انتشارات دانشگاہ تہران، ص39-40؛ سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1410ھ، ج4، ص311۔
  65. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدق، 1982م، ص172-175؛ فاضل مقداد، إرشاد الطالبین، 1405ھ، ص341۔
  66. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدق، 1982م، ص172-211۔
  67. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: امینی، الغدیر، 1416ھ، ج1، ص152-184 و ج3، ص200-201 و ج7، ص125 و ج10، ص259۔
  68. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف المراد؛ بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، 1406ھ، ص183-186؛ فاضل مقداد، إرشاد الطالبین، 1405ھ، ص352-374۔
  69. شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ص93؛ علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص397؛ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1379ہجری شمسی، ص198-199۔
  70. برای نمونہ نگاہ کنید بہ شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1413ھ، ج4، ص180؛ بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، 1406ھ، ص190۔
  71. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1413ھ، ج1، ص253؛ علامہ حلی، کشف المراد، ص539؛ بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، 1406ھ، ص190؛ فاضل مقداد، إرشاد الطالبین، 1405ھ، ص375۔
  72. علامہ حلی، کشف المراد، 1437ھ، ص539-540؛ فاضل مقداد، إرشاد الطالبین، 1405ھ، ص374-375۔
  73. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شیخ مفید، الافصاح فی الامامۃ، 1413ھ، ص79 و ص90 و ص131 و ص139 و ص229 و ص231۔
  74. سیدمرتضی، الشافی فی الامامۃ، 1410ھ، ج1، ص33۔
  75. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج13، ص8۔
  76. حسین مبارک، «مقدمہ»، در کتاب منہاج الکرامۃ فی معرفۃ الامامۃ، تألیف علامہ حلی، ص24-25۔
  77. حسینی میلانی، شرح منہاج الکرامۃ فی معرفۃ الامامۃ، 1428ھ، ج1، ص113۔
  78. حسینی میلانی، شرح منہاج الکرامۃ فی معرفۃ الامامۃ، 1428ھ، ج1، ص113۔
  79. انتشارات صدرا، «مقدمہ»، در کتاب امامت و رہبری، تألیف مرتضی مطہری، ص7۔
  80. دمیجی، الامامۃ العظمی عند اہل السنۃ و الجماعۃ، دار طیبۃ، ص13-14۔

مآخذ

  • آمدی، سیف الدین، أبکار الأفکار فی أصول الدین، قاہرہ، دار کتاب، 1423ھ۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر، 1416ھ۔
  • باقلانی، محمد بن طیب، تمہید الاوائل و تلخیص الدلائل، لبنان، مؤسسۃ الكتب الثقافیۃ، چاپ اول، 1407ھ۔
  • بحرانی، علی، منار الہدی فی النص علی امامۃ الائمۃ الإثنی عشر(ع)، تحقیق عبد الزہراء خطیب‏، بیروت، دار المنتظر، 1405ھ۔
  • بحرانی، ابن‌میثم، قواعد المرام فی علم الکلام، قم، مكتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1406ھ۔
  • تستری، قاضی نوراللہ، إحقاق الحق و إزہاق الباطل، قم، مكتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • تفتازانی، سعدالدین، شرح المقاصد، قم، الشریف الرضی، 1409ھ۔
  • تفتازانی، سعد الدین، شرح العقاید النسفیہ، قاہرہ، مکتبۃ الکلیات الازہریۃ، 1407ھ۔
  • جرجانی، میر سیدشریف، شرح المواقف، قم، الشریف الرضی، 1325ھ۔
  • حائری، سیدکاظم، الإمامۃ وقیادۃ المجتمع، قم، مکتب آیت‌اللہ سیدکاظم حائری، 1416ھ۔
  • حسینی میلانی، سیدعلی، شرح منہاج الکرامۃ فی معرفۃ الامامۃ، تہران، مرکز پژوہشی ميراث مکتوب، 1428ھ۔
  • دمیجی، عبداللہ، الامامۃ العظمی عند اہل السنۃ و الجماعۃ، ریاض، دار طیبۃ، بی‌تا۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، القواعد الکلامیہ، قم، مؤسسہ امام صادق، چاپ چہارم، 1392ہجری شمسی/1435ھ۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، 1385ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، خدا و امامت، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1362ہجری شمسی۔
  • سید مرتضی، علم الہدی، الشافی فی الامامۃ، تحقیق: عبدالزہرا حسینی خطیب، تہران، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1410ھ۔
  • شعرانی، ابوالحسن، شرح تجرید الاعتقاد، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، چاپ ہشتم، 1376ہجری شمسی۔
  • شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، قم، الشریف الرضی، چاپ سوم، 1364ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، كنگرہ شیخ مفید، 1414ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الافصاح فی الامامۃ، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، تحقیق: مہدی محقق، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، بی‌تا۔
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، 1395ھ۔
  • طاہرزادہ، اصغر، مبانی نظری نبوت و امامت، اصفہان، لب المیزان، 1392ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1353ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، شیعہ در اسلام، قم، انتشارات بوستان کتاب، 1379ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1415ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تفسیر طبری، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1415ھ۔
  • طوسی، نصیرالدین، تلخیص المحصل، بیروت، دار الاضواء، 1405ھ، چاپ دوء۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، الألفیین، قم، مؤسسہ اسلامیہ، 1423ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد قسم الاہیات، تعلیقہ جعفر سبحانی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ دوم، 1382ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، الفین، کویت، مکتبۃ الفین، 1405ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ شانزدہم، 1437ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، منہاج الکرامۃ فی معرفۃ الإمامۃ، تحقیق: عبدالرحیم مبارک، مشہد، مؤسسہ پژوہش و مطالعات عاشورا، 1379ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، چاپ اول، 1982ء۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، حق الیقین، تہران، انتشارات اسلامیہ، بی‌تا۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، ارشاد الطالبین الی نہج المسترشدین، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1405ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، شرح الباب الحادی عشر، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1427ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، المحصل، عمان، دارالرازی، 1411ھ۔
  • فیاض لاہیجی، گوہر مراد، تہران، نشر سایہ، 1383ہجری شمسی۔
  • قاضی عبدالجبار، المغنی فی أبواب التوحید والعدل، الإمامۃ، قاہرہ، الدار المصریہ، 1962ء۔
  • قاضی عبدالجبار، عبدالجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسۃ، تعلیہ احمد بن حسین ابی‌ہاشم، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، 1422ھ۔
  • کاشف الغطاء، شیخ جعفر، كشف الغطاء عن مبہمات الشريعۃ الغراء، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1420ھ۔
  • کاشف‌الغطاء، محمدحسین، اصل الشیعۃ و اصولہا، قم، مؤسسۃ الامام علی(ع)، بی‌تا۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، دار الحدیث، 1387ہجری شمسی۔
  • محقق حلی، المسلک فی أصول الدین و الرسالۃ الماتعیۃ، تحقیق رضا استادی، مشہد، مجمع البحوث الإسلامیۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
  • مظفر، محمدحسین، دلائل الصدق لنہج الحھ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1422ھ۔
  • مطہری، مرتضی، امامت و رہبری، قم، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، قم، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ نہم، 1386ہجری شمسی۔
  • میلانی، سیدعلی، «مقدمہ»، در کتاب دلائل الصدق لنہج الحھ، تألیف محمدحسن مظفر، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1422ھ۔
  • میلانی، سیدعلی، الإمامۃ فی أہم الکتب الکلامیۃ وعقیدۃ الشیعۃ الإمامیۃ، قم، الشریف الرضی، 1413ھ۔
  • نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، تلخیص المحصل، بیروت، دار الاضواء، چاپ دوم، 1405ھ۔
  • نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، قواعدالعقائد، تحقیق: علی‌حسن خازم، دار الغربۃ، بیروت، 1413ھ۔