عمار بن یاسر
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | عمار بن یاسر بن عامر |
کنیت | ابو یقظان |
محل زندگی | مکہ، مدینہ |
مہاجر/انصار | مہاجرین |
شہادت | ربیع الثانی سنہ 37 ہجری |
کیفیت شہادت | جنگ صفین |
مدفن | رقہ (شام) |
دینی معلومات | |
اسلام لانا | سابقین اسلام |
جنگوں میں شرکت | تمام غزوات، جنگ جمل، جنگ صفین |
وجہ شہرت | صحابی رسول خدا (ص) و امام علی ؑ |
دیگر فعالیتیں | آزار مشرکین، سورہ نحل کی 106 ویں آیت کا نزول، امیرالمؤمنین علی ؑ کے پہلے شیعہ؛ مخالف خلفاء اور واقعہ سقیفہ بنی ساعد |
عمار بن یاسر (شہادت سنہ 37 ہجری) عمار یاسر کے نام سے مشہور، پیغمبر اسلام ؐ کے صحابی، سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے، امام علی ؑ کے قریبی ساتھی اور اولین شیعوں میں سے ہیں۔ ان کے والدین یاسر اور سمیہ اولین شہدائے اسلام ہیں۔ وہ مدینہ کی طرف ہجرت میں آنحضرت (ص) کے ہمراہ تھے۔ مسجد قبا کی تعمیر میں شامل تھے اور وہ پیغمبر اکرم ؐ کے تمام غزوات میں شریک رہے۔ آنحضرت (ص) سے عمار کی فضیلت میں روایات نقل ہوئی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ بہشت ان کی مشتاق ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد عمار نے حضرت علی ؑ کی حمایت کرتے ہوئے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا۔ وہ خلیفہ دوم کے زمانہ کوفہ کے گورنر اور اس شہر میں سپاہ اسلام کے سردار تھے۔ عثمان کے دور خلافت میں ان کے مخالقین میں سے تھے اور کئی بار ان پر اعتراض کیا۔
حضرت علیؑ کی خلافت کے دوران آپ ان کے نزدیک ترین افراد میں سے تھے اور جنگ صفین میں امام علیؑ کی رکاب میں لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ پیغمبر اکرم ؐ نے ایک حدیث میں ان کی شہادت کے بارے میں فرمایا تھا: عمار کو ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔
عمار یاسر کا روضہ شام کے شہر رقہ میں اویس قرنی کے ساتھ واقع ہے۔ ان کے مقبرہ کو سنہ 2014 ء میں دہشت گرد گروہ داعش نے مکمل طور پر تباہ کر دیا۔
حسب و نسب
عمار بن یاسر بن عامر کی کنیت ابو یقظان اور ان کا قبیلہ بنی مخزوم کا ہم پیمان تھا۔[1] عمار یاسر کا حسب و نسب عنس بن مالک کے خاندان سے ملتا ہے جن کا تعلق قبیلہ قحطان سے تھا اور یمن میں مقیم تھے۔ یاسر بن عامر، عمار کے والد جوانی میں مکہ مکرمہ آئے اور وہیں پر مقیم ہو گئے اور قبیلہ بنی مخزوم کے ابو حذیفہ نامی شخص سے ہم پیمان ہو گئے۔[2]
ان کی والدہ سمیہ بنت خباط[3] اسلام کی پہلی شہید خاتون ہیں۔[4] عمار، ان کے بھائی عبد اللہ، ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ کو مشرکین قریش نے نہایت ہی ظلم و بربریت کا شکار بنایا تا کہ وہ اسلام سے منھ موڑ لیں۔ سمیہ اور یاسر ان ہی مظالم کی وجہ سے اس دنیا سے چل بسے۔[5]
صحابی پیغمبر (ص)
روایت کے مطابق جس وقت عمار نے اسلام قبول کیا اس وقت تقریبا 30 لوگوں سے زیادہ افراد نے اسلام قبول نہیں کیا تھا جبکہ ایک اور روایت کے مطابق وہ اسلام قبول کرنے والے پہلے سات لوگوں میں سے تھے۔[6] مشرکین نے عمار کو بھی پیغمبرؐ کی شان میں ناروا الفاظ ادا کرنے پر مجبور کیا۔ جب یہ خبر پیغمبر اکرمؐ تک پہنچی تو آپ نے عمار کے عذر کو قبول کیا اور ان سے فرمایا اگر دوبارہ مجبور کیا گیا تو دوبارہ بھی اسی طرح کرنا۔ اسی واقعہ کے بعد یہ آیت نازل ہوئی: مَن کفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِیمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُکرِ هَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَانِ وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ترجمہ: جو کوئی اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کرے سوائے اس صورت کے کہ اسے مجبور کیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (کہ اس پر کوئی پکڑ نہیں ہے) لیکن جو کشادہ دلی سے کفر اختیار کرے (زبان سے کفر کرے اور اس کا دل اس کفر پر رضامند ہو) تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ [7][8]
بعض روایات کے مطابق عمار یاسر کا شمار مہاجرین حبشہ میں بھی ہوتا ہے۔[9] اسی طرح جب پیغمبر اسلام نے مدینہ ہجرت کی تو اس وقت عمار یاسر بھی آپؐ کے ہمراہ تھے اور مسجد قبا کی تعمیر میں رسول اللہ کا ساتھ دیا۔[10] آپ مدینے میں پیغمبر اکرؐم کے نزدیک ترین افراد میں سے تھے اور صدر اسلام کی تمام جنگوں میں شرکت کی۔[11]
عمار کے فضایل کے سلسلہ میں آنحضرت (ص) سے بعض روایات نقل ہوئی ہیں جیسے: بہشت علیؑ، عمار، سلمان اور بلال کی مشتاق ہے۔[12] اسی طرح ایک اور روایت میں پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: عمار حق کے ساتھ ہے اور حق عمار کے ساتھ، حق جہاں بھی ہو عمار حق کے گرد چکر لگاتا ہے۔ عمار کے قاتل جہنمی ہیں۔[13]
خلفاء کا دور
عمار یاسر، سلمان، مقداد اور ابوذر کو پیغمبر اکرمؐ کے دور میں ہی امام علیؑ کے ساتھ دوستی اور محبت رکھنے کی وجہ سے ان کے شیعوں میں شمار کیا جاتا تھا۔[14]
عمار یاسر نے خلافت پر حضرت علیؑ کے حق کی حمایت کرتے ہوئے شروع سے ہی ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا۔[15] آپ نے خلیفہ اول کے زمانے میں جنگ یمامہ میں شرکت کی تھی اور اسی جنگ میں آپ کے کان کٹ گئے تھے۔[16]
عمر کی خلافت کے دور میں کوفہ کے گورنر اور مسلمان سپاہیوں کے کمانڈر بھی تھے۔[17] آپ کی کمانڈ میں جنگ نہاوند لڑی گئی جس کے نتیجے میں ایران کے بعض علاقے فتح ہوئے۔[18] لیکن کچھ عرصہ بعد آپ اس منصب سے معزول ہو گئے۔ تاریخ میں ان کی معزولی کی کوئی وجہ مذکور نہیں ہے لیکن بعض روایات میں لوگوں کی عدم رضایت اور لوگوں کی طرف سے عمر کو عمار یاسر کے عزل کرنے کی درخواست وغیرہ کو ان کی معزولی کی وجہ کے طور پر بیان کی کیا گیا ہے۔ ان اعتراضات اور عدم رضایت کی وجہ کیا تھی؟ واضح طور پر بیان نہیں ہوا صرف ایک روایت میں عمار یاسر کی سیاست سے عدم آشنائی کو اس کی وجہ بتائی گئی ہے۔[19]
خلیفہ سوم کے دور میں آپ اور خلیفہ کے درمیان کئی دفعہ شدید بحثیں ہوئیں ان میں سے ایک مورد ابوذر کے شہر بدر کرنے کے خلاف اٹھائے جانے والا اعتراض ہے۔ اس حوالے سے آپ اور خلیفہ کے درمیان شدید بحث ہوئی جس میں عثمان کے حکم پر آپ پر تشدد بھی کیا گیا۔ عثمان، عمار یاسر کو بھی مدینہ سے شہر بدر کرنا چاہتا تھا لیکن بنی مخزوم اور امام علیؑ کی مخالفت کی وجہ سے انہیں اپنے فیصلے سے منصرف ہونا پڑا۔[20] بعض روایات میں اس واقعے کو عمار یاسر اور اہل کوفہ کی طرف سے ولید بن عقبہ جسے عثمان نے کوفہ کا والی بنایا تھا، کی شرابخواری اور بی بندوباری کے خلاف احتجاج کے موقع پر ذکر کیا گیا ہے۔[21] جبکہ بعض دوسری روایات میں اس واقعے کو عثمان کے بیت المال کی تقسیم کی نوعیت پر ہونے اعتراض کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے۔[22]
عثمان کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں عمار یاسر بھی عثمان کے مخالفین کے ساتھ تھے۔ آپ مصر میں مخالفین کے ساتھ شامل ہو گئے اور مدینے میں عثمان کو محاصرہ کرنے کے واقعے میں آپ بھی شریک تھے۔[23]
خلافت امیرالمومنینؑ
عمار یاسر حضرت علیؑ کی خلافت کے حامیوں میں سے تھے۔ عمر کے بعد خلیفہ تعیین کرنے والی چھ رکنی کمیٹی کے رکن عبدالرحمان بن عوف کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں آپ نے عبدالرحمان کو مشورہ دیا تھا کہ حضرت علیؑ کو منتخب کریں تاکہ لوگ تفرقہ کا شکار نہ ہوں۔ [24] عثمان کے قتل کے بعد عمار یاسر ان افراد میں سے تھے جو لوگوں کو حضرت علیؑ کی بیعت کی طرف دعوت دیتے تھے۔[25]
آپ نے حضرت علیؑ کی حکومت کے دوران مختلف جنگوں جیسے جنگ جمل و جنگ صفین میں شرکت کی۔ جنگ جمل میں امام علیؑ کے لشکر کے بائیں بازو کی کمانڈ آپ کے ہاتھ میں تھی۔[26] جنگ صفین میں بھی آپ امام علیؑ کے لشکر کی کمانڈ کر رہے تھے۔[27]
شہادت
عمار یاسر ماہ صفر [28] یا ربیع الثانی سنہ 37 ہجری کو جنگ صفین میں شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے۔ عمار کی شہادت کے بعد امام علیؑ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔[29] شہادت کے وقت آپ کی عمر 90 سال سے اوپر بتائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں بعض نے 93، بعض نے 91 اور بعض نے 92 سال ذکر کیا ہے۔[30]
جنگ صفین میں معاویہ کے ہاتھوں عمار کی شہادت، معاویہ کی سرزنش اور اس جنگ میں امام علیؑ کی حقانیت کی ایک دلیل کے طور پر تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ کیونکہ پیغمبر اکرمؐ نے ایک مشہور حدیث میں فرمایا تھا کہ عمار کو ایک باغی (یعنی امام عادل کی اطاعت سے خارج ہونے والا) گروہ قتل کرے گا۔[31] ابن عبدالبر اس حدیث کو متواتر اور صحیح ترین احادیث میں سے قرار دیتے ہیں۔[32] کہا گیا ہے کہ خزیمہ بن ثابت جنگ جمل اور صفین دونوں میں شامل تھے لیکن کسی پر تلوار نہیں چلائی لیکن جب جنگ صفین میں معاویہ کے ہاتھوں عمار کی شہادت واقع ہوئی تو کہا: اب گمراہ گروہ میرے لئے آشکار ہو گیا ہے، یہ کہہ کر امام علیؑ کی رکاب میں لڑے یہاں تک کہ شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔[33]
عمار یاسر کا مقبرہ
آپ کا مقبرہ آپ کے محل شہادت یعنی شام کے شہر رقہ میں واقع ہے۔[34] ان کی قبر کے اوپر اینٹوں اور سیمینٹ سے تعمیر شدہ ایک گنبد موجود تھا۔[35] یہ زیارتگاہیں صفین کے چند شہداء من جملہ عمار یاسر، اویس قرنی اور ابی بن قیس کے مزارات ہیں۔ یہ زیارت گاہ 20 سال پہلے صرف دو چھوٹے کمروں پر مشتمل تھی جو عمار یاسر اور اویس قرنی کی قبر کے اوپر بنائی ہوئی تھی۔ لیکن ایران کی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی کی سفارش پر شام کے سابق صدر حافظ الاسد کی اجازت سے زیارت گاہ کی زمین خریدی گئی اور اس پر موجودہ زیارتگاہ کا ڈھانچہ بنایا گیا۔ پھر کئی سال اسی حالت پر چھوڑ دی گئی یہاں تک کہ سنہ 2004 میں حکومت ایران کی طرف سے روضہ کی تعمیر کی گئی۔[36]
تخریب حرم عمار
21 رمضان سنہ 1434 ھ شب قدر کے ایام میں تکفیریوں کے ایک گروہ نے شام میں صوبہ رقہ پر قبضہ کیا اور عمار یاسر و اویس قرنی کے حرم پر راکٹ سے حملہ کیا جو اس حرم کے صحن میں جا گرا اور اسے خراب کر دیا اس کے علاوہ پے در پے اس حرم کی دیواروں پر حملہ کے ذریعے اس کی دیواروں کو بھی منہدم کر دیا گیا ہے۔[37]
24 جمادی الاول سنہ 1435 ھ کو ایک بار پھر تکفیری گروہ داعش نے بمب دھماکے کے ذریعے عمار یاسر اور اویس قرنی کے حرم کے میناروں کو بم سے اڑا دیا۔ داعش نے دوسرے مرحلے میں 15 رجب سنہ 1435 ہجری کو اس زیارتگاہ کو مکمل طور پر منہدم کر دیا۔[38]
حوالہ جات
- ↑ ابن اثیر، أسد الغابۃ، ۲۰۰۱، ج۴، ص۴۳.
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۲۰۰۱، ج۳، ص۳۰۸
- ↑ ابن اثیر، أسد الغابة، ۲۰۰۱، ج۴، ص۴۳.
- ↑ ابن اثیر، الکامل، ۱۳۷۰ش، ص۸۸۵.
- ↑ الامین، اعیان الشیعۃ، ۱۴۲۰، ج۱۳، ص۲۸.
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۲۰۰۱، ج۴، ص۳۰۹
- ↑ سورہ نحل، آیت ۱۰۶
- ↑ ابن اثیر، أسد الغابہ، ۲۰۰۱، ج۴، ص۳۰۹؛الامین، اعیان الشیعۃ، ۱۴۲۰، ج۱۳، ص۲۸
- ↑ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱۳۸۳، ج۱، ص۲۲۰.
- ↑ ابن الأثیر، أسد الغابۃ، ۲۰۰۱، ج۴، ص۴۶.
- ↑ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۱۰۹
- ↑ ابن عبد البرّ، الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب، ۱۴۱۵، ج۳، ص۲۲۹.
- ↑ الامینی، الغدیر، ۱۳۹۷، ج۹، ص۲۵
- ↑ النوبختی، فرق الشیعہ، ۱۴۰۴، ص۱۸؛ شہابی، ادوار فقہ، ۱۳۶۶، ج۲، ص۲۸۲.
- ↑ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ آیتی، ج۱، ص۵۲۴.
- ↑ ابن عبدالبرّ، الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب، ۱۴۱۵، ج۳، ص۲۲۸.
- ↑ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷، ج۴، ص۱۴۴
- ↑ ابن قتیبہ، اخبار الطوال، ۱۳۶۸، ص۱۲۸
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۴، ص۲۷۴
- ↑ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ آیتی، ج۲، ص۱۷۳
- ↑ ابن قتیبہ دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸، ج۱، ص۵۱
- ↑ مقدسی، البدء و التاریخ، ج۵، ص۲۰۲
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۴، ج۵، ص۵۴۹
- ↑ مقدسی، البدء و التاریخ، ج۵، ص۱۹۱
- ↑ الطوسی، الأمالی، ۱۴۱۴، ص۷۲۸.
- ↑ المفید، الجمل، قم، ص۱۷۹.
- ↑ البلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۴، ج۲، ص۳۰۳.
- ↑ طبری، تاریخ الأمم، ۱۳۸۷ق، ج۱۱، ص۵۱۱.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج ۳، ص۲۶۲.
- ↑ ابن عبدالبرّ، الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب، ۱۴۱۵، ج ۳، ص۲۳۱.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج ۳، صص ۲۵۱-۲۵۳.
- ↑ ابن عبدالبرّ، الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب، ۱۴۱۵، ج ۳، ص۲۳۱.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ج ۳، ص۲۵۹.
- ↑ حرزالدین، مراقد المعارف، ج۲، ص۱۰۰
- ↑ قائدان، اماکن زیارتی سیاحتی سوریہ، ۱۳۸۱، ص۱۹۸
- ↑ خامہ یار، "شام میں اہل بیتؑ کے چاہنے والوں کی زیارت گاہیں"، ص۴۰
- ↑ نے عمار یاسر و اویس قرنی کے مزارات کو منہدم کر دیا۔ خبرگزاری مشرق۔
- ↑ شامر میں عمار یاسر کا مزار خراب کر دیا گیا خبرگزاری حج و زیارت۔
مآخذ
- ابن هشام الحمیری، السیرة النبویة، ج۱، تحقیق: محمد محیی الدین عبد الحمید، مصر، مکتبة محمد علی صبیح و أولاده، ۱۳۸۳ق-۱۹۶۳ء
- امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج۹، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۳۹۷-۱۹۷۷ء
- ابن اثیر، علی بن احمد، أسد الغابة فی معرفه الصحابہ، ج۴، بیروت، دار المعرفہ، ۲۰۰۱ء
- ابن اثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، ترجمہ محمد حسین روحانی، تهران، اساطیر، چاپ اول، ۱۳۷۰ش.
- ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، بیروت، دار صادر، بیتا.
- ابن قتیبہ دینوری، احمد بن داود، اخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر مراجعه جمال الدین شیال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش.
- ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، تحقیق و تعلیق: علی محمد معوض، عادل احمد عبد الموجود، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۱۵ق./۱۹۹۵ء
- امین، السید محسن، اعیان الشیعة، ج۱۳، حققہ و اخرجہ و علق علیہ حسن الامین، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۲۰ق ـ۲۰۰۰ء
- بلاذری، احمد بن یحی بن جابر، انساب الاشراف، تحقیق: محمد باقر محمودی، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۴ق-۱۹۷۴ء
- حرزالدین، محمد، مراقد المعارف، قم، منشورات سعید بن جبیر، ۱۹۹۲ء
- خامہ یار، احمد، «زیارتگاههای اهل بیت و اصحاب در سوریہ»، وقف میراث جاویدان، شماره ۷۶، سال ۱۳۹۰
- شهابی، محمود، ادوار فقہ، تهران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۶۶ش.
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراهیم، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ء
- طوسی، محمد بن حسن بن علی بن حسن، الأمالی، تحقیق: قسم الدراسات الإسلامیة - مؤسسة البعثة، قم، دار الثقافة للطباعة والنشر والتوزیع، ۱۴۱۴ق.
- قائدان، اصغر، اماکن زیارتی سیاحتی سوریہ، تهران، نشر مشعر، ۱۳۸۰ش.
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، محقق محمد باقر محمودی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۳ق.
- مفید، محمد بن محمد، الجمل، قم، مکتبة الداوری، بیتا.
- مقدسی، محمد بن طاهر، البدء و التاریخ، بور سعید، مکتبة الثقافة الدینیة، بیتا.
- نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعة، بیروت، دار الاضواء، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۴ء
- یعقوبی، ابن واضح احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمد ابراهیم آیتی، تهران، انتشارات علمی و فرهنگی، ۱۳۷۸ش.
- داعش مرقد عمار یاسر و اویس قرنی را منفجر کرد، سایت خبری مشرق، تاریخ انتشار: ۶ فروردین ۱۳۹۳ش.
- زيارتگاه عمار ياسر در سوريہ تخريب شد، خبرگزاری حج و زیارت.
- آشنایی با اسوهها ۷: عمار یاسر، پاتوق کتاب فردا.