بعثت
بعثت پیغمبرؐ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدؐ منتخب کیا تاکہ آپؐ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں۔ رسول خداؐ کو چالیس برس کی عمر میں غار حرا میں نبوت عطا ہوئی۔ بعثت پیغمبر خداؐ کو دین اسلام کی ابتدا اور حجاز میں بت پرستی کے خاتمے کا مقدمہ قرار دیا جاتا ہے۔ سب سے پہلی آیات جو نازل ہوئیں وہ سورہ علق کی ابتدائی آیات تھیں، اس کے بعد سورہ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں رسول خداؐ کو حکم دیا گیا کہ قیام کریں اور اپنی دعوت کا آغاز کریں۔
شیعہ عقیدے کے مطابق بعثت کی تاریخ 27 رجب ہے۔ اسی بنا پر شیعہ ثقافت میں یہ دن عیدِ مبعث کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس موقع پر جشن منائے جاتے ہیں۔
تعارف اور اہمیت
بعثتِ پیغمبرؐ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰؐ کو برگزیدہ فرمایا اور اُنہیں بھیجا تاکہ لوگوں کو دینِ اسلام کی طرف دعوت دیں۔[1] بعثتِ رسولؐ کو مؤمنین پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک شمار کیا گیا ہے۔ مفسرین کے مطابق قرآن کریم کی کئی آیات میں اس نعمت کا ذکر آیا ہے، جن میں سے سورہ آل عمران کی آیت 164 قابلِ ذکر ہے،[2] جہاں ارشاد خداوندی ہے: «اللہ نے ہمیشہ اہل ایمان پر یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا۔ جو ان کے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کرتا ہے۔ ان کو پاکیزہ کرتا ہے (ان کی اصلاح کرتا ہے) اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔» اسی طرح قرآن کی دیگر آیات میں بھی بعثتِ رسولؐ کا ذکر آیا ہے، جیسے: سورہ مائدہ آیت 19، سورہ فتح آیت 28 اور سورہ جمعہ آیت 2۔[3]
بعثت کے وقت جزیرہ نما عرب کے حالات
جعفر سبحانی کے مطابق، جب رسولِ خداؐ مبعوث بہ رسالت ہوئے، اُس وقت حجاز میں سب سے زیادہ رائج مذہب بت پرستی تھا۔ مدینہ میں صرف چند یہودی بستے تھے اور مسیحی زیادہ تر نجران کے علاقے میں رہتے تھے۔[4] اُس وقت چند افراد ایسے بھی موجود تھے جو دینِ توحید پر قائم تھے اور اُنہیں "حنیفان" کہا جاتا تھا۔[5] رسول خداؐ بھی انہی موحدین میں شامل تھے۔[6] ناصر مکارم شیرازی نے نہج البلاغہ کے خطبہ 89 کی شرح میں بیان کیا ہے کہ رسولِ خداؐ کی بعثت پچھلے انبیاء کے تقریباً 500 سے 600 سال بعد ہوئی۔[7] ناصر مکارم شیرازی نے مذکورہ خطبے سے استناد کرتے ہوئے اُس زمانے کی سماجی و ثقافتی صورتحال یوں بیان کی ہے: معاشرہ شدید انتشار اور بدامنی شکار تھا، بے مقصد اور خونریز جنگیں عام تھیں، لوگ غربت اور فاقہ کشی کی سختی میں گھیرے ہوئے تھے، ناامنی اور برے رسم و رواج جیسے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا اور حرام چیزوں کا استعمال کرنا عام رائج تھا۔[8]
رسالت کا آغاز
اسلامی تاریخ کے محقق اور تاریخ دان مہدی پیشوائی کے مطابق، رسولِ خداؐ باقاعدہ طور پر مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے ہی عالم غیب کے کچھ راز اُن پر آشکار کیے جاتے تھے اور غیبی پیغامات اُن کے کانوں تک پہنچتے تھے۔[9] علم تاریخ کے محقق محمد حسین رجبی نے امام علی نقیؑ کی ایک روایت سے استناد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رسول اکرمؐ بعثت سے قبل غار حرا جایا کرتے تھے، جہاں وہ آسمانوں میں اللہ کی قدرت اور رحمت کی نشانیوں کو دیکھ کر اُس کی عظمت پر غور کرتے اور پھر عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے۔[10] تاریخ نگاروں نے بیان کیا ہے کہ رسول خداؐ غارِ حرا ہی میں تھے کہ حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور سورہ علق کی ابتدائی آیات کو بطور آغازِ نبوت اُن پر نازل کیا۔ [11] اسی موقع پر آپؐ اللہ کے نبی کے طور پر مبعوث ہوئے[12] [13] اس کے بعد جب سورہ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو نبی کریمؐ نے اپنی دعوت کو اپنے گھرانے سے شروع کیا۔ سب سے پہلے آپؐ پر ایمان لانے والوں میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا، حضرت علیؑ اور زید بن حارثہ شامل تھے۔[14]
پیغمبر خداؐ اور فرشتۂ وحی کے مابین پہلا مکالمہ
کچھ تاریخ نگاروں نے رسولِ اکرمؐ کا جبرائیل کے ساتھ پہلا مکالمہ، خود نبی کریمؐ کے الفاظ میں نقل کیا ہے۔ محمد ابراہیم آیتی کے بقول، پہلی اور دوسری صدی ہجری کے مشہور مورخ ابن اسحاق نے اس واقعے کو یوں روایت کیا ہے:
رسول خداؐ نے فرمایا: جب میں سو رہا تھا تو جبرائیل دیباج (ریشم) پر لکھی ہوئی تحریر کے ساتھ میرے پاس آئے اور کہا: پڑھو۔ میں نے عرض کیا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ پس انہوں نے مجھے اس قدر زور سے بھینچا کہ میں نے گمان کیا میری جان نکل جائے گی۔ پھر مجھے چھوڑا اور کہا: پڑھو۔ میں نے پھر کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا؟ انہوں نے دوبارہ اس شدت سے مجھے دبایا کہ مجھے لگا میری موت واقع ہونے والی ہے۔ پھر چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو۔ میں نے کہا: کیا پڑھوں؟ اور یہ الفاظ میں نے محض اس لیے کہے تاکہ وہ مجھے چھوڑ دیں اور دوبارہ میرے ساتھ ایسا نہ کریں۔ انہوں نے کہا:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ. خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ. الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ. (پڑھو اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھو! اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے۔ وہ جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔)[15]
میں نے ان آیات کو پڑھا۔ پھر جبرائیل نے مجھے چھوڑ دیا اور واپس چلے گئے۔ میں خواب سے بیدار ہوا تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ آیات، تحریر کی مانند، پوری طرح میرے دل پر نقش ہو چکی ہیں۔ اس کے بعد میں باہر نکلا اور جب پہاڑ کے دامن میں پہنچا تو میں نے آسمان سے ایک آواز سنی جو کہہ رہی تھی: اے محمدؐ! تم خدا کے رسول ہو، اور میں جبرائیل ہوں۔
بعثت پیغمبر کا سال اور دن

تاریخِ اسلام اور تشیع کے ماہر سید جعفر مرتضی کے مطابق زیادہ تر مورخین کی رائے یہ ہے کہ رسول اکرمؐ چالیس برس کی عمر میں نبوت کے منصب پر فائز ہوئے۔[16] انہی میں سے یعقوبی (وفات: 300 ہجری) بھی ہیں جو لکھتے ہیں کہ پیغمبرخداؐ چالیس برس مکمل ہونے کے بعد مبعوث بہ رسالت ہوئے۔[17] تاہم، اس بارے میں دیگر اقوال بھی ملتے ہیں۔ سیرت ابن اسحاق (اس کتاب کے مصنف پہلی اور دوسری صدی ہجری میں زندہ تھے) نامی کتاب میں چالیس برس کے ساتھ ساتھ یہ قول بھی نقل ہوا ہے کہ رسول اکرمؐ 43 برس کی عمر میں مبعوث بہ رسالت ہوئے۔[18] ایک اور روایت کے مطابق پیغمبر خداؐ کی بعثت 45 برس کی عمر میں واقع ہوئی۔[19]
اس سلسلے میں شیعہ نقطۂ نظر کے مطابق مشہور قول یہ ہے کہ بعثت پیغمبرؐ 27 رجب کو ہوئی،[20] جبکہ اہل سنت کی مشہور رائے یہ ہے کہ یہ واقعہ ماہ رمضان میں پیش آیا۔[21] طبری کے مطابق، اہل سنت اس ماہ میں بعثت کے دن کے بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں۔[22] یعقوبی اور مسعودی (چوتھی صدی ہجری کے مورخ) اس سے الگ رائے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بعثت ربیع الاول میں ہوئی۔[23]
شیعی ثقافت میں بعثت کا مقام
شیعہ ثقافت میں، 27 رجب عیدِ مبعث کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس دن خوشی و مسرت کے ساتھ جشن منایا جاتا ہے۔ اس دن ایران[24] اور عراق[25] کے بعض علاقوں میں سرکاری سطح پر عام تعطیل ہوتی ہے۔
مبعث فارسی اشعارکے آئینے میں
کتب ادعیہ میں مبعث کی رات اور دن میں انجام دیے جانے والے مستحب اعمال کا ذکر ملتا ہے۔[27]
مونوگرافی
- تاریخ عصر بعثت، مصنف: محمدحسین رجبی؛
- جہان در عصر بعثت، مصنفین: محمد جواد باہنر و اکبر ہاشمی رفسنجانی؛
- تاریخ اسلام؛ عرصۂ دگراندیشی و گفتوگو (عصر بعثت)، مصنف: حسین علی زادہ و عبد المجید معادی خواہ؛
- ای جامہ بر سر کشیدہ برخیز؛ داستان بعثت پیامبر(ص)، مصنف: محمدرضا سرشار۔
حوالہ جات
- ↑ حائری، «بعثت»، ص275۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج2، ص875؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج3، ص157-158؛ فضل اللہ، من وحی القرآن، 1439ھ، ج3، ص461۔
- ↑ «برخى آيات مربوط بہ رسالت و بعثت پيامبر(ص)»، پایگاہ تخصصی قرآن کریم۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص63۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص64۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص205۔
- ↑ مکارم شیرازی، پيام امام اميرالمؤمنين(ع)، 1386شمسی، ج 3، ص618۔
- ↑ مکارم شیرازی، پيام امام اميرالمؤمنين(ع)، 1386شمسی، ج 3، ص618 - 624۔
- ↑ پیشوایی، تاریخ اسلام از جاہلیت تا رحلت پیامبر اسلام(ص)، 1382شمسی، ص127 و 128۔
- ↑ رجبی، تاریخ عصر بعثت، 1384شمسی، ص68۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص215۔
- ↑ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1369شمسی، ص85-86۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص215۔
- ↑ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1369شمسی، ص89۔
- ↑ سورہ علق، آیات 1 تا 5۔
- ↑ العاملی، الصحيح من سیرۃ النبی الأعظم، 1426ھ، ج2، ص289۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص22۔
- ↑ ابناسحاق، سیرہ ابناسحاق، 1398ھ/1978ء، ج1، ص134۔
- ↑ العاملی، الصحيح من سیرۃ النبی الأعظم، 1426ھ، ج2، ص289۔
- ↑ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1369شمسی، ص83؛ العاملی، الصحيح من سیرۃ النبی الأعظم، 1426ھ، ج2، ص290۔
- ↑ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1369شمسی، ص84۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1879ء، ج2، ص44۔
- ↑ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1369شمسی، ص83؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص22۔
- ↑ «لایحہ قانونی تعیین تعطیلات رسمی کشور»، مندرج در سایت مرکز پژوہشہای مجلس۔
- ↑ النجف تعطّل الدوام الیوم بمناسبۃ المبعث النبوی، مندرج در سایت بغداد الیوم۔
- ↑ بعثت رسول ص در شعر فارسی امروز
- ↑ قمی، مفاتیح الجنان، 1388شمسی، ص248-255۔
مآخذ
- «النجف تعطّل الدوام الرسمي غدًا الخميس»، مندرج در سایت بغداد الیوم، تاریخ درج مطلب: 2024/2/7ء، تاریخ بازدید: 14/4/ 2025ء۔
- آیتی، محمدابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام، تہران، دانشگاہ تہران، 1369ہجری شمسی۔
- ابناسحاق، محمد بن اسحاق، سیرہ ابناسحاق، بیروت، 1398ھ/1978ء۔
- انصاری، محمدرضا، «رجب»، در دانشنامہ دائرۃ المعارف تشیع (ج8)، قم، سعید محبی، 1379ہجری شمسی۔
- «برخی آيات مربوط بہ رسالت و بعثت پيامبرص»، پایگاہ تخصصی قرآن کریم، تاریخ بازدید 24 فروردین 1404ہجری شمسی۔
- «بعثت رسولص در شعر فارسی امروز قلب عالم و آدم حرای توست»، خبرگزاری مہر، تاریخ درج 5 اردیبہشت 1396شمسی، تاریخ بازدید 24 فروردین 1404ہجری شمسی۔
- پیشوایی، مہدی، تاریخ اسلام از جاہلیت تا رحلت پیامبر اسلام(ص)، قم، نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہہا، دفتر نشر معارف، 1382ہجری شمسی۔
- حائری، سیدمہدی، «بعثت»، در دانشنامہ دایرۃالمعارف تشیع (ج3)، قم، سعید محبی، 1380ہجری شمسی۔
- «دعای شب مبعث کلیات مفاتیح الجنان با ترجمہ استاد حسین انصاریان»، پایگاہ اطلاع رسانی استاد حسین انصاریان، تاریخ بازدید 24 فروردین 1404ہجری شمسی۔
- رجبی، محمدحسین، تاریخ عصر بعثت، قم، مرکز آموزش الکترونیکی دانشگاہ قرآن و حدیث، 1384ہجری شمسی۔
- «زیارت امیرالمومنین حضرت امام علی(ع) در شب و روز مبعث»، پایگاہ اطلاع رسانی استاد حسین انصاریان، تاریخ بازدید 24 فروردین 1404ہجری شمسی۔
- سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت؛ تجزیہ و تحلیل کاملی از زندگی پیامبر اکرم(ص)، قم، بوستان کتاب، چاپ بیست و یکم، 1385ہجری شمسی۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، 1879ء۔
- عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، قم، دارالحدیث، 1426ھ۔
- فضلاللہ، محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک للطباعۃ و النشر و التوزیع، چاپ سوم، 1439ھ۔
- قمی، عباس، مفاتیحالجنان، ترجمہ حسین انصاریان، قم، دار العرفان، 1388ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
- «لایحہ قانونی تعین تعطیلات رسمی کشور»، مرکز پژوہشہای مجلس شورای اسلامی، مصوب 8 تیرماہ 1359شمسی، تاریخ بازدید: 24 فروردین 1404ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الكتب الاسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
- یعقوبی، احمد بن ابییعقوب، تاریخالیعقوبی، بیروت، دار صادر، بیتا۔
