عام الفیل اس سال کو کہا جاتا ہے جس سال یمن کے بادشاہ ابرہہ نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا۔ چونکہ ابرہہ کا لشکر ہاتھیوں پر سوار تھے اسی لئے اس سال کو عام الفیل کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے سورہ فیل میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مورخین کے مطابق یہ واقعہ سنہ 570 عیسوی کو پیش آیا اور مشہور قول کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی ولادت بھی اسی سال ہوئی ہے۔

عام الفیل کے واقعے میں اصحاب فیل پر ابابیل پرندوں کے حملے کا منظر

لشکر تیار کرنے کی وجہ

 
مسیر حرکت سپاہ ابرہہ از یمن تا مکہ

جب یمن کی حکومت ابرہہ کے ہاتھ آئی تو اس نے دیکھا کہ لوگ دور اور نزدیک سے اس شہر میں ایک خاص عزت اور احترام کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور اس عزت کی وجہ کعبہ ہے، اسی لئے صنعاء شہر میں ایک کلیسا بنایا اور حبشہ کے بادشاہ کو خط لکھا جس میں یوں تحریر کیا: (میں ایک ایسا کلیسا بنوا رہا ہوں جس کی مانند ابھی تک کسی نے نہیں دیکھا۔ اور اس کلیسا کے تیار ہوتے ہی کعبہ کے زائرین کو اس کی طرف لے جاؤں گا۔)[1]

لوگوں نے اس کا زیادہ احترام نہ کیا حتی کے بنی فقیم کے ایک فرد نے ابرہہ کے اس کلیسے میں پیشاب کر کے اس کی بے حرمتی کی، ابرہہ جو کہ ایک مناسب فرصت کی تلاش میں تھا تا کہ کعبہ کو خراب کرے، اس بے حرمتی وجہ سے اس نے ایک لشکر تیار کیا اور 14 ہاتھی کے ہمراہ مکہ کی جانب حرکت کی تا کہ کعبہ کو خراب کرے اور لوگوں کی توجہ صرف یمن کی جانب ہو جائے۔[2]

ابرہہ کا مقابلہ

یمن کے دو بزرگوار ذونفر اور نفیل بن حبیب خثعمی اس لشکر کے مقابلے کے لئے اٹھے لیکن ابرہہ کے ہاتھوں ان دونوں کو شکست ہوئی۔[3]

حضرت عبدالمطلب کو پیغام

جب ابرہہ کا لشکر مکہ کے قریب پہنچا تو، ابرہہ نے ایک پیک مکہ کی جانب روانہ کیا تا کہ مکہ کے بزرگ کے ساتھ گفتگو کرے اور انکو مکہ کی تخریب کے بارے میں بتائے۔ اس نے مکہ کے بزرگوار، عبدالمطلب کو پیغام بھیجا (میں مکہ میں لوگوں کو کوئی نقصان پہنچانے نہیں آیا بلکہ صرف کعبہ کی عمارت کو خراب کرنے آیا ہوں)[4]

عبدالمطلب نے ابرہہ کے پیک کو واپس بھیجا اور کہا جا کر ابرہہ کو کہہ دو کہ ہماری کسی قسم کی جنگ ابرہہ کے ساتھ نہیں کیونکہ ہماری جنگ کے لئے کوئی تیاری نہیں ہے اور اگر خانہ کعبہ کو خراب کرنے کی نیت سے آیا ہے تو اسے کہہ دو کہ یہ گھر خدا اور اس کے خلیل ابراہیم(ع) کا گھر ہے اگر وہ اپنے اور اپنے خلیل کے گھر کی خود حفاظت کرنا چاہے گا تو کرے گا اگر نہیں چاہے گا تو نہیں کرے گا ہم اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔[5]

عبدالمطلب کی ابرہہ سے ملاقات

ابرہہ کے لشکر نے قریش کے کچھ اونٹ چوری کئے تھے۔ عبدالمطلب ابرہہ کے پاس گئے اور درخواست کی کہ ہمارے 200 اونٹ جن کو تمہارے لشکر نے چوری کئے گئے ہیں ان کو واپس لوٹایا جائے۔ جس کے نتیجے میں ابرہہ کی عزت اور بھی خراب ہوئی اور ابرہہ نے عبدالمطلب سے کہا میں نے سوچا تھا کہ تم مکے کی تعظیم اور حرمت کی خاطر مجھ سے بات کرنے آئے ہو لیکن تم نے تو اونٹ واپش لوٹانے کے علاوہ کوئی درخواست مجھ سے نہیں کی۔[6]

عبدالمطلب نے جواب میں کہا: انا ربّ الابل و للبیت ربّ یمنعه ترجمہ: میں اونٹوں کا مالک ہوں، کعبہ کا مالک بھی ہے جو خود اپنے گھر کی حفاظت کرے گا۔[7]

ابرہہ نے غرور سے کہا: (کوئی مجھے اپنے مقصد سے نہیں روک سکتا) اور حکم دیا کہ اس کے اونٹ کو واپس لوٹا دیں۔[8][یادداشت 1]

قریش کا مکے سے خارج ہونا

جب عبدالمطلب نے اپنے اونٹ واپس لوٹا لئے تو اہل مکہ کی جانب آکر حکم دیا کہ اپنے مال کے ہمراہ پہاڑوں کے اوپر چلے جائیں۔[9] جب شہر مکہ خالی ہو گیا، تو حضرت عبدالمطلب کعبہ کے نزدیک جاکر کعبہ کے غلاف کو ہاتھ میں لیا اور دعا اور گریہ وزاری میں مشغول ہو گئے اور کہا:

خدایا! تمہارے بندے نے اپنے گھر کو آباد اور تمہارے گھر کو ویران اور خراب کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو خود اپنے گھر کی حفاظت فرما اور اپنے گھر کی شوکت کو اس کے گھر کی شوکت سے کم نہ ہوںے دے۔ لیکن اگر دشمن تیرے گھر اور ہمارے قبلے کو خراب کر دے تو خود ہمیں بتا کہ اس کے بعد ہم کس جگہ پر تیری عبادت کریں۔ [10]

ابرہہ کے لشکر پر ابابیل کا حملہ

جیسے ہی ابرہہ کے لشکر نے کعبہ کی جانب حرکت کی خداوند نے آسمان سے ابابیل نام کے پرندوں کو حکم دیا تا کہ وہ اپنی چونچ میں پتھر لے کر ابرہہ کے لشکر پر حملہ کریں اور انکو ہلاک کر دیں۔[11] اچانک آسمان پر اندھیرا چھا گیا اور پرندوں کا ایک بہت بڑا لشکر ظاہر ہو گیا۔ ہر ایک کی چونچ میں ایک چھوٹا پتھر تھا اور وہ پتھر کو پھیںک رہے تھے جس کو بھی یہ پتھر لگتا تھا وہی پر ہلاک ہوجاتا تھا بہت کم تعداد میں لوگ زندہ بچے جو یمن کی طرف زخمی اور خون آلود حالت میں لوٹ گئے۔ [12]

قرآن نے اس واقعہ کو سورہ فیل کے نام سے یاد کیا ہے۔ عام الفیل کے واقعہ کے بعد قریش کو اعراب میں خاص منزلت اور مقام و عزت حاصل ہوئی۔[13]

حوالہ جات

  1. کلبی، الأصنام، 1364ش، ص142
  2. دینوری، اخبارالطوال، 1371ش، ص92
  3. مقریزی، إمتاع ‏الأسماع، 1420ھ، ج4، ص74
  4. مراجعہ کریں: سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ہجری شمسی، ص125.
  5. مراجعہ کریں: سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ہجری شمسی، ص125.
  6. مقدسی، البدء و التاریخ، بور سعید، ج3، ص187۔
  7. مقدسی، البدء و التاریخ، بور سعید، ج3، ص187.
  8. سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ش، ص126.
  9. سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ہجری شمسی، ص126.
  10. مقدسی، آفرینش‏ و تاریخ، 1374ش، ج‏1، ص532
  11. طبرسی، مجمع البیان، 1415ق، ج10، ص444.
  12. ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفه، ج1، ص53
  13. سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ش، ص134.

نوٹ

  1. وإن للبيت ربا سيمنعه ، قال : ما كان ليمتنع منى ، قال : أنت وذاك .سیره ابن هشام ج1 ص33.یہاں دو نکتے کی طرف اشارہ ہے ایک یہ کہ (سیمنعه) کہا ہے (یمنعه) کی جگہ جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا مستقبل قریب میں کعبہ کا دفاع کرے گا اور دوسرا نکتہ ابرہہ کے مقابلے میں عبدالمطلب کا ردعمل ہے، ابرہہ کو یقین تھا کہ کعبہ پر ان کے حملے میں کوئی انہیں نہیں روک سکے گا اس کے جواب میں عبدالمطلب نہ کہا کہ خدا خود اپنے گھر کی خود حفاظت کرے گا یہ ان کے خدا پر اعتقاد کی طرف اشارہ ہے.‌[حوالہ درکار]

مآخذ

  • ابن هشام، السیرة النبویة، بیروت، دار المعرفة، بی‌تا.
  • دینوری، ابوحنیفه احمد بن داود، اخبارالطوال، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، تهران، نشر نی، چاپ چهارم، 1371ش.
  • سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، قم، بوستان کتاب، چاپ بیست و یکم، 1385ش.
  • کلبی، ابوالمنذر هشام بن محمد، كتاب الأصنام (تنكيس الأصنام)، تحقيق احمد زكى باشا، القاهرة، افست تهران (همراه با ترجمه)، نشر نو، چاپ دوم، 1364ش.
  • مقدسی، مطهر بن طاهر، آفرینش و تاریخ، ترجمه محمد رضا شفیعی کدکنی، تهران، آگه، چاپ اول، 1374ش.
  • مقدسی، مطهر بن طاهر، البَدْء و التاریخ، بور سعید، مکتبة الثقافة الدینة، بی‌تا.
  • مقریزی، تقى‌الدين أحمد بن على، إمتاع الأسماع بما للنبى من الأحوال و الأموال و الحفدة و المتاع، تحقيق محمد عبد الحميد النميسى، بيروت، دار الكتب العلمية، ط الأولى، 1420ق.