آخر الزمان

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


آخر الزمان دنیا کا آخری دورہ ہے جس کی طرف تمام الہی ادیان نے اشارہ کیا ہے۔ اسلام میں لفظ آخر الزمان رسول خدا(ص) کا اطلاق بعثت رسول(ص) کے زمانے پر بھی ہوتا ہے [اور آپ(ص) کو نبی اخر الزمان کہا جاتا ہے] اور منجی موعود امام مہدی(عج) کے ظہور کے زمانے پر بھی ہوتا ہے۔

رائج نظریات و اعتقادات میں آخر الزمان عجیب و غریب واقعات و حادثات کا زمانہ ہے۔ اس دور کی اہم ترین خصوصیت لوگوں میں دینداری کا زوال ہے جس کے بعد ایک نجات دہندہ کا ظہور ہوگا۔

آخر الزمان کے نجات دہندہ کے ظہور کا زمانہ نامعلوم ہے، اور صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ قیامت سے قبل (یا قرب قیامت) کا زمانہ زمانہ ہے اور یہ ایام قیامت سے متصل ہونگے۔ [1]

آخرالزمان از زبان امیر(ع)

عن أبي عبد الله (عليه السلام) [قال] قال أمير المؤمنين (ع): ليأتين على الناس زمان يظرف فيه الفاجر ويقرب فيه الماجن ويضعف فيه المنصف، قال: فقيل له: متى ذاك يا أمير المؤمنين؟ فقال: إذا اتخذت الامانة مغنما. والزكاة مغرما. والعبادة استطالة. والصلة منا، قال: فقيل: متى ذلك يا أميرالمؤمنين؟ فقال: إذا تسلطن النساء وسلطن الاماء وأمر الصبيان۔
ترجمہ: امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا: بےشک لوگوں پر وہ وقت آئے گا جب وہ فاجروں اور گنہگاروں کا خاص احترام کریں گے، چغل خوروں اور بدزبانوں کو اپنا مقرب بنائیں گے، باانصاف افراد کو کمزور سمجھیں گے۔ سوال ہوا: یہ کب ہوگا؟ فرمایا: جب امانت کو غنیمت سمجھا جائے، (امانت میں خیانت رائج ہو)، اور زکٰوۃ کو نقصان سمجھا جائے، عبادت کو اپنے اوپر بوجھ تصور کیا جاتا ہے اور اپنوں کو صلہ، ان پر احسان سمجھا جائے۔ سوال ہوا: یا امیرالمؤمنین! یہ کب ہوگا؟ فرمایا: جب عورتیں (خاندانی، سیاسی اور سماجی معاملات پر) تسلط پائیں، اور جب کنیزیں برتری پائیں اور لڑکے حکمران ہوجائیں۔

حضرت علیؑ، الكافي ج8 ص69۔بحار ج52 ص265۔

قرآن کی روشنی میں

آخر الزمان کے دو حصے

مفسرین کے مطابق، قرآن میں آخرالزمان کے دو مرحلے ہیں: ایک وہ، جب صالحین کی حکومت بپا ہوگی اور زمین و آسمان اپنی نعمتیں انسان کی نذر کریں گے۔ اس زمانے میں رسول خدا(ص) اور امیرالمؤمنین(ع) جیسے اولیائے کامل کی رجعت سے دنیا بہترین صورت اپنائے گی اور مطلوبہ معاشرے کی تمام خواہشیں پوری ہونگی؛ ایک طویل عرصے کے دوران پوری دنیا میں مکمل امن اور عدل قائم ہوگا اور انسانوں کو حصول کمال کے یکسان مواقع فراہم ہونگے تا کہ وہ ان تمام مراتب و مدارج پر فائز ہوجائیں جو خلقت انسان کا تقاضا ہیں۔ کمیت کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ لوگ اصحاب یمین میں شامل ہونگے دستیاب الہی کمالات حاصل کرکے جنت کے حقدار بنیں گے[2] لیکن کیفیت کے لحاظ سے سابقون کے رتبے تک نہیں پہنچیں گے کیونکہ سابقون نہایت مشکل حالات اور مختلف قسم کے فتنوں اور مصائب میں ان مدارج و مراتب اور کمال مطلق پر فائز ہوئے ہیں[3] جبکہ اس دور میں کمال مطلق تک پہنچنے کی دوڑ میں شریک مؤمنین کو تمام تر سہولتیں فراہم ہونگی۔
آخر الزمان کا دوسرا حصہ وہ ہے جب یہ دنیا دوسری دنیا میں بدل جائے گی اور منہدم ہونے والے اور پگھل جانے والی اور دھنکی ہوئی اون (یا روئی) میں بدلنے والی دنیا[4]۔[5] سے ایک نئی زمین برآمد ہوگی اور پگھلی ہوئی چاندی کی صورت اختیار کرنے والے والے جلے ہوئے آسمان[6] سے دوسرا آسمان عالم وجود میں آئے گا[7] یہ اس دنیا کے آخری ایام کی قرآنی تصویر کشی ہے۔

لفظ "آخر الزمان" قرآن میں نہیں آیا تاہم قرآن میں ایسی کئی آیات ہیں جو انسانی معاشروں کے مستقبل کے تناظر میں نازل ہوئی ہیں اور وعدہ دیا گیا ہے کہ بنی نوع انسان کی مستقبل کی زندگی میں توحید اور عدل کی حکومت قائم ہوگی، روئے زمین پر صالحین کی خلافت و وراثت ہوئی اور باطل پر حق کا غلبہ ہوگا:

  • ...إِنَّ الأَرْضَ لِلّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
    ترجمہ: بیشک زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بناتا ہے، اور آخرت پرہیز گاروں ہی کے لئے ہے۔[8]
  • وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُواْ يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا۔
    ترجمہ: اور ہم نے مستضعفین (اور استحصال زدگان) زمین کے مشرق اور مغرب کے تمام اطراف پر ـ جنہیں ہم نے برکت عطا کی تھی ـ اقتدار کا مالک بنایا۔[9]
  • وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ٭ إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغاً لِّقَوْمٍ عَابِدِينَ۔
    ترجمہ: اور بے شک ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا کہ زمین کے ورثہ دار میرے نیک بندے ہوں گے ٭ بلاشبہ اس میں ایک پیغام ہے ان کے لیے جو عبودیت خالق کا احساس رکھتے ہوں۔[10]
  • وَقُلْ جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقاً۔
    ترجمہ: اور کہئے کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا یقیناً باطل تو مٹنے والا ہی ہے۔[11]
  • وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ ٭ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ...۔
    ترجمہ: اور ہمارا مقصود یہ ہے کہ احسان کریں ان پر جن کا دنیا میں استحصال کیا گیا ہے اور ان ہی کو پیشوا قرار دیں، ان ہی کو تصرف اور زمین کا وارث قرار دیں ٭ اور ان ہی کو زمین میں اقتدار عطا کریں۔[12]
  • وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔
    ترجمہ: اللہ کا وعدہ ہے تم میں ان افراد سے جو باایمان ہیں اور نیک اعمال کرتے رہے ہیں کہ وہ انہیں روئے زمین پر خلیفہ قرار دے گا جس طرح انہیں خلیفہ بنایا تھا جو ان کے پہلے تھے اور ضرور اقتدار عطا کرے گا ان کے اس دین کو جو اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ضرور بدل دے گا انہیں ان کے ہر خوف کو امن و اطمینان میں؛ وہ میری عبادت کریں گے اس طرح کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور جو اس کے بعد کفر اختیار کرے تو یہی فاسق لوگ ہوں گے۔[13]
  • وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّـكُم مِّنْ أَرْضِنَآ أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ ٭ وَلَنُسْكِنَنَّـكُمُ الأَرْضَ مِن بَعْدِهِمْ ذَلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ ٭ وَاسْتَفْتَحُواْ وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ۔
    ترجمہ: اور کافروں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ ہم تم کو اپنی سر زمین نے نکال دیں گے اور نہیں تو ضرور تم ہمارے مذہب میں واپس آؤ گے تو اللہ نے وحی بھیجی ان پر کہ ہم ان ظالموں کو ہلاک کر دیں گے ٭ اور تمہیں ساکن کر دیں گے اس سر زمین پر ان کے بعد یہ صلہ ہے اس کے لیے جو میری بارگاہ میں [جوابدہ بن کر] کھڑے ہونے کا تصور رکھے اور وہ میری تہدید سے ڈرے ٭ اور انہوں نے فتح و ظفر کی دعا کی اور ناکام ہوا ہر سر کش عناد رکھنے والا۔[14]
  • وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً۔
    ترجمہ: اور اہل کتاب میں کوئی نہیں ہے مگر یہ کہ وہ ضرور ان پر ان کے مرنے سے پہلے ایمان لے آئیگا، اور روز قیامت وہ ان سب کے خلاف گواہ ہوں گے۔[15]
  • وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الْأَوَّلِينَ ٭ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيهِم مُّنذِرِينَ ٭ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِينَ ٭ إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ۔
    ترجمہ: حالاں کہ ان کے پہلے والے زیادہ تر لوگ گمراہ ہی تھے ٭ اور بے شک ہم نے ان میں خوف دلانے والے (پیغمبر) بھیجے تھے ٭ تو دیکھو کیا انجام ہوا ان کا جنہیں خوف دلایا گیا تھا ٭ سوا اللہ کے ان بندوں کے جو نکھارے ہوئے ہیں۔[16]
  • وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ۔
    ترجمہ: اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہے اور عبادت بالکل اللہ کی ہونے لگے اب اگر وہ باز آجائیں تو یقینا اللہ دیکھنے والا ہے اس کا جو وہ کرتے ہیں۔[17]
  • هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ۔
    ترجمہ: وہ وہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہر دین کے مقابلے میں غالب کرکے رہے، چاہے مشرکین کو کتنا ہی ناپسند ہو۔[18]
  • هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيداً۔
    ترجمہ: وہ وہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو صحیح رہنمائی اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے اس لئے کہ اسے ہر دین پر غالب کرے اور اللہ سے بڑھ کر کون گواہ ہو گا۔[19]
  • كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ۔
    ترجمہ: اللہ نے لکھ دیا ہے کہ ضرور بالضرور میں اورمیرے پیغمبر غالب آئیں گے، یقینا اللہ طاقتور ہے، غالب آنے والا۔[20]
  • الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ۔
    ترجمہ: وہ جنہیں ہم اگر اقتدار عطا کریں زمین میں تو وہ نماز کی پابندی کریں گے اور زکوٰة دیں گے اور نیک باتوں کی ہدایت کریں گے اور برے کاموں سے روکیں گے اور اللہ کے ہاتھ میں تمام باتوں کا انجام ہے۔[21]

مذکورہ بالا آیات کے علاوہ بھی قرآن میں امت اسلامی کے مستقبل اور آخر الزمان اور پوری دنیا پر اسلام کی حاکمیت اور باطل کی فیصلہ کن شکست کے بارے میں متعدد آیات نازل ہوئی ہیں۔

قرآن مجید میں آخرالزمان کے مختلف واقعات کی تصویر کشی کی گئی ہے جیسے:
عالمی جنگ (سورہ کہف کی آیات 98 و 99)، سفیانی کا خروج (سورہ سبا آیت 51)، زمین سے بولتے ہوئے چلنے پھرنے والے کا خروج، (سورہ نمل آیت 81)، آخرالزمان میں اسلام اور مؤمنین کی حاکمیت (سورہ نور 55 اور سورہ انبیاء آیت 105)، آسمان سے حضرت عیسی علیہ السلام کا اترنا (سورہ نساء 159، زخرف آیت 57 تا 61)، لوگوں میں سے ایک جماعت کا دنیا میں رجعت کرنا (پلٹ آنا) (سورہ انبیاء 96 اور کہف آیات 94 تا 99)، آخر الزمان میں شیعیان اہل بیت(ع) کا اجتماع (سورہ بقرہ آیت 148) اور آخر الزمان میں عدل اور امن و صلح کی بحالی (سورہ نور آیت 55)۔[22] قرآن میں حق کی فتح اور مؤمنین کی حاکمیت اور عدل و انصاف کے قیام اور اسلام کے غلبۂ کامل کے بارے میں متعدد وعدے دیئے گئے ہیں جو پورے نہیں ہوئے ہیں جبکہ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ یہ وعدے ضرورے پورے ہونگے۔

احادیث کی روشنی میں

اصحاب مہدی(عج)

امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا:
إنه يأخذ البيعة عن اصحابه علي ان لا يسرقوا ولا يزنوا ولا يسبوا مسلماً ولا يقتلوا محرماً ولا يتهكوا حريماً محرماً ولا يهجموا منزلاً ولا يضربوا احداً إلا بالحق ولا يكنزوا ذهباً وفضة ولا براً ولا شعيراً ولا يأكلوا مال اليتيم ولا يشهدوا بما يعلمون ولا يخربوا مسجداً ولا يشربوا مسكراً ولا يلبسوا الخز ولا الحرير ولا يتنمطوا بالذهب، ولا يقطعوا طريقاً، ولا يخيفوا سبيلاً ولا يفسقوا بغلام، ولا يحبسوا طعاماً من بر او شعير ويرضون بالقليل ويشتمون علي الطيب ويكرهون النجاسة ويامرون بالمعروف وينهون عن المنكر ويلبسون الخشن من الثياب ويتوسدون التراب علي الخدود ويجاهدون في الله حق جهاده ويشترط علي نفسه لهم ان يمشي حيث يمشون ويلبس كما يلبسون ويركب كما يركبون ... ويملأ الأرض بعون الله عدلاً كما ملئت جوراً يعبد الله حق عبادته ولا يتخذ حاجباً ولا بواباً۔
ترجمہ: اصحاب حضرت مہدی(عج) کے ساتھ بیعت کریں گے کہ زنا نہ کریں گے مسلمان کو دشنام نہ دیں گے، احرام بستہ شخص کو قتل نہ کریں گے، قابل احترام حدود اور چاردیواریوں اور صاحب حرمت اشخاص کی بےحرمتی نہ کریں، گھروں پر حملہ نہ کریں گے، کسی کو بغیر حق زد و کوب نہ کریں گے، سونا، چاندی، گندم اور جو، ذخیرہ نہ کریں گے، یتیم کا مال نہ کھائیں گے، سونے کا کمر بند استعمال نہ کریں گے، جن چيزوں کو نہ جانیں ان کی گواہی نہ دیں گے، کسی مسجد کو ویراں نہ کریں گے، نشہ آور اشیاء استعمال نہ کریں گے، اور خز و حریر (ریشم) نہ پہنیں گے، سونا استعمال نہ کریں گے، قطع طریق (ڈاکہ زنی) نہ کریں گے، راستوں کو بدامن نہ بنائیں گے، لواطت اور ہم جنس بازی نہ کریں گے، اشیاء خورد و نوش کی ذخیرہ اندوزی نہ کریں گے، قلیل پر راضی ہونگے (کفایت شعار ہونگے)، عطریات استعمال کریں گے، نجاستوں کو ناپسند کریں گے اور پلیدیوں اور برائیوں سے پرہیز کریں گے، لوگوں کو نیکی کا حکم دیں کے اور برائیوں سے باز رکھیں گے۔ کھردرا لباس پہنیں گے، مٹی کو تکیہ قرار دیں گے، اللہ کے راہ میں جہاد کا حق ادا کریں گے۔ (دوسری جانب سے امام مہدی (عج)) اپنے اوپر بھی شرط رکھیں گے کہ ان ہی کی طرح آمد و رفت کریں گے، ان ہی کی طرح لباس پہنیں گے، ان ہی طرح سواری کریں گے... اور دنیا کو اللہ کی مدد سے عدل و انصاف سے پر کریں گے جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی اور اللہ کی عبادت میں اس کا حق ادا کریں گے اور کوئی حاجب و دربان نہ رکھیں گے۔

آخرالزمان کی اصطلاح اسلامی روایات و احادیث میں دو معانی میں استعمال ہوئی ہے:

پیغمبر اسلامؐ کا زمانہ

ابتداء میں آخرالزمان کا اطلاق آغاز نبوت سے وقوع قیامت تک کے زمانے پر ہوتا ہے اور بعض روایات میں رسول اللہ(ص) کو نبی آخر الزمان(ص) کی صفت سے متصف کیا گیا ہے۔[23]

آنحضرت کے اس وصف کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ حضرت محمد(ص) خاتم الانبیاء ہیں اور آپ(ص) کی شریعت، کامل و جامع ہونے کی بنا، پر اس عالم کے اختتام تک معتبر اور جاری و ساری ہے۔

امام مہدی(عج) کا زمانۂ ظہور

اسلامی روایات و احادیث میں آخر الزمان کا دوسرا اطلاق[24] اس زمانے پر ہوتا ہے جب عالم انسانیت کے نجات دہندہ مہدی موعود(عج) ظہور کریں گے[25] اور وقت کے تین مراحل میں تین اہم واقعات رونما ہونگے:

الف)۔ شدید آزمائشیں اور آخرالزمان کے فتے۔[26] منجملہ جنگ قرقیسیا

ب)۔ منجی (نجات دہندہ) کا ظہور اور حق و باطل کے درمیان جنگ و نزاع۔[27]

ج)۔ باطل پر حق کا غلبہ اور اس دنیا کا سنہری دور۔[28]

ظہور اور قیامت کی نشانیوں میں فرق

قرآن میں[29] اور احادیث و روایات میں ایک مشابہ اصطلاح اشراط الساعہ پڑھنے کو ملتی ہے اور اشراط الساعہ ان واقعات کے مجموعے کا نام ہے جن کا ظہور، وقوع قیامت پر منتج ہوتا ہے۔[30]

اہل سنت اور بعض [شیعہ کتب حدیث]] میں ظہور مہدی(عج) کی علامتیں اور قرب قیامت کی علامتوں کے ساتھ مخلوط ہوگئی ہیں اور کبھی تو حتی ظہور مہدی(عج) کو قیامت کی علامت سمجھا گیا ہے۔

اہل سنت کی کتب حدیث میں "اشراط الساعہ" کے عنوان سے مستقل ابواب درج کئے گئے ہیں۔[31] اور اگرچہ ان روایات اور علامات قیامت سے متعلق روایات میں مشترکہ عبارات و معانی بھی بہت ہیں لیکن اخر الزمان کا مسئلہ واضح طور پر قیامت سے الگ رکھا گیا ہے کیونکہ آخر الزمان اسی دنیا کا اختتامی مرحلہ ہے جبکہ اشراط الساعہ قیامت کے بپا ہونے کی علامتیں ہیں۔

وقت کا تعین

اس واقعے کی صحیح اور دقیق تاریخ کی طرف روایات و احادیث میں نہ صرف کوئی اشارہ نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے لئے کسی تاریخ کے تعین کی تردید ہوئی ہے اور تاریخ کا تعین کرنے والوں کو جھٹلایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ عجلت کرنے والے ہالکین میں سے ہیں اور جو تسلیم و تعبد کی راہ پر گامزن ہیں وہ نجات پانے والے ہیں۔[32]

اصولی طور پر نجات دہندہ کے وقت ظہور کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور یہ علم بھی علم غیب کے زمرے میں ہے۔ امام رضا(ع) رسو اللہ(ص) سے روایت کرتے ہیں کہ موعود کے قیام اور ظہور کا وقت قیامت کی مانند ہے جس کا علم خدا کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے اور ناگہانی طور پر رونما ہوگا۔[33]

علائم

اسلامی احادیث میں اس دور کے لئے علائم بیان ہوئے ہیں جو علائمِ آخرالزمان کے عنوان سے مشہور ہیں اور اس لحاظ سے ظہور کے علائم کو قیامت کی علامتوں سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جس طرح کہ قیامت کی اپنی علامتیں ہیں (جنہیں اشراط الساعہ کہا جاتا ہے)، ظہور کی بھی اپنی علامتیں ہیں جو قیامت سے پہلے رونما ہونگی۔[34]

بعض کتب میں یہ علائم علائم ظہور کے عنوان سے مشہور ہیں[35] اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دور کا ایک اہم واقعہ نجات دہندہ کا ظہور ہے۔

بعض مشہور علامتیں

  • سفیانی کا ظہور؛[36]
  • سید حسنی کا ظہور اور حکومت و اقتدار پر بنو عباس کا اختلاف؛[37]
  • رمضان المبارک میں کے وسط میں سورج گرہن اسی مہینے کے آخر میں چاند گرہن؛[38]
  • مغرب سے سورج کا طلوع ہونا؛[39]
  • نفس زکیہ کا قتل؛[40]
  • مسجد کوفہ کا ویراں ہونا، سید یمانی کا خروج، لوگوں کا خون اور مال حلال قرا دیا جانا؛[41]۔[42]
  • دجّال کا خروج[43] جس کا ذکر احادیث میں آیا ہے اور وہ چالیس روز تک روئے زمین پر رہے گا؛[44]۔[45] اور بہت سے سست ایمان عناصر اس کی طرف مائل ہوجائیں گے اور اس کا سبب وہ خارق العادہ اعمال ہیں جو اس سے سرزد ہونگے۔[46]
  • جنگوں اور کشت و خون کا ظاہر ہونا اور حق کی نشانیاں ناپید ہوجانا؛[47]
  • دنیا میں بڑے مفاسد اور برائیوں کا ظاہر ہوجانا؛[48]
  • لوگوں کا ناقص العقل ہوجانا؛[49]
  • افراتفری اور لاقانونیت کا پھیلاؤ اور لوگوں کا ایمان سست ہوجانا؛[50]
  • معاشروں کا انتظام و انصرام نااہل اور نالائق لوگوں کے ہاتھ میں چلے جانا؛ مردوں کا بیویوں کا مطیع ہوجانا، مال دنیا کی تکریم و تعظیم کا رواج اور ناامنی؛[51]
  • عرب میں مختلف قسم کے فتنے ظاہر ہونا؛[52]
  • عورتوں اور بچوں کے درمیان حیا کا ناپید ہوجانا؛[53]
  • ربا (اور سود) کا رواج؛[54]
  • دنیا میں عظیم قتلوں اور فتنوں کا ظہور؛[55]
  • مرد کا عورت سے اور عورت کا مرد سے بےنیاز ہوجانا (ہمجنس بازی کا رواج)؛[56]
  • شراب نوشی کا رواج اور (مردوں کے درمیان) حریر (ریشم) کا لباس پہننے کا رواج؛[57]

ان علائم میں بعض حتمی علائم کی طرف اشارہ ہوا ہے جبکہ زیادہ تر علائم غیر حتمی ہیں۔ حتمی علائم وہ ہیں جن کا ظاہر ہونا ظہور کے لئے شرط ہے۔

حتمی علائم:

ظہورِ مُنجی (نجات دہندہ) کے بعد

ان نشانیوں کے ظاہر ہونے کے بعد مُنجی کے ظہور کی باری آتی ہے جو آخر الزمان کے اہم ترین واقعات میں سے ہے۔[66]۔[67]

  • ً ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے اور اس کو جڑ سے اکھاڑ ڈالنا؛[68]
  • ‏گناہ، ظلم، جور، فساد اور برائی کے گھٹن زدہ صورت حال سے نجات، انسان کی دائمی خواہشوں اور آرزؤوں میں سے ہے اور اس دور میں یہ خواہش پوری ہوجائے گی جیسا کہ امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا: اصحاب حضرت مہدی(عج) کے ساتھ بیعت کریں گے کہ زنا نہ کریں گے مسلمان کو دشنام نہ دیں گے، احرام بستہ شخص کو قتل نہ کریں گے، قابل احترام حدود اور چاردیواریوں اور صاحب حرمت اشخاص کی بےحرمتی نہ کریں، گھروں پر حملہ نہ کریں گے، کسی کو بغیر حق زد و کوب نہ کریں گے، سونا، چاندی، گندم ذخیرہ نہ کریں گے، یتیم کا مال نہ کھائیں گے...؛[69]
  • پوری دنیا میں حقیقی اسلام کا نفاذ اور خدائے واحد کی حقیقی پرستش اور یکتا پرستی کا رواج؛[70]
  • دین کا فروغ اور دینداری کا عام ہوجانا[71]
  • دینی فضائل و اقدار پر عمل، اور دین کے احکام و اوامر کی تعمیل و نفاذ کا اہتمام؛[72]
  • عدل و مساوات کا قیام، حتی کہ پورے معاشروں میں اموال کو یکسان طور پر تقسیم کیا جائے گا؛[73]۔[74]
  • امن و صلح کا قیام؛ یہاں تک کہ لوگوں کی جان و مال اور حیثیت دوسروں کے تجاوز اور جارحیت سے محفوظ ہوگی؛[75] اور منجی(عج) کے واسطے سے تمام راستے پرامن ہوجائیں گے۔[76]۔[77]
  • عام لوگوں کی آسائش اور فلاح و بہبود کا یقینی ہوجانا؛[78] یہاں تک کہ روئے زمین پر موجود تمام اشیاء خورد و نوش بنی نوع انسان کی دسترس میں ہونگی اور لوگ آسانی سے ان سے اسفادہ کریں گے گے۔[79]
  • پوری دنیا میں تعمیر و ترقی کا رواج؛ [80]۔[81]
  • لوگوں کے درمیان محبت، دوستی اور خلوص کا رواج، یہاں تک کہ ایک فرد اپنے دینی بھائی کی ثروت سے اپنی ضرورت کے مطابق اٹھائے گا اور اس کے اس عمل پر کوئی ممانعت نہ ہوگی۔[82]
  • انسانی عقل ارتقاء و کمال کی منازل طے کرے گی اور انسان اللہ کی تعلیمات سے فیضیاب ہونے کی اہلیت حاصل کرے گا؛[83]
  • علم و دانش کو اپنے تمام پہلؤوں میں کمال اور فروغ ملے گا اور بنی نوع بشر اللہ کی کامل ترین نعمتوں سے بہرہ ور ہونگے؛[84]
  • کتاب اللہ اور سنتِ رسول(ص) پر مکمل طور پر عمل ہوگا۔[85]۔[86]

یہ ان واقعات میں سے ہیں جو منجی آخر الزمان کے ظہور کے زمانے میں رونما ہونگے اور یہ واقعات اس دور کی خصوصیات میں شمار ہوتے ہیں۔

حضرت عیسی(ع) کی رجعت

احادیث کے مطابق نجات دہندہ کے عصر ظہور کے اہم واقعات میں سے ایک حضرت عیسی(ع) کا آسمان سے نزول ہے۔[87] ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی(ع) آخر الزمان کے عالمی انقلاب میں حاضر ہونگے اور کردار ادا کریں گے اور قسط و عدل کے قیام میں امام مہدی(عج) کا ہاتھ بٹانے کے لئے آسمان سے اتر آئیں گے؛ تاہم [[حضرت مہدی(عج) کے پرچم تلے کردار ادا کریں گے اور مستقل طور پر کوئی کام نہیں کریں گے؛ اور اس بات کی علامت یہ حدیث یہ ہے کہ "حضرت عیسی(ع) آسمان سے سرزمین فلسطین میں اتریں گے اور حضرت مہدی(عج کو سلام کریں گے اور آپ(عج) کی امامت میں نماز ادا کریں گے اور دجال کو ہلاک کرنے میں آپ(عج) کی مدد کریں گے"۔[88]

رجعت

دنیا کے سنہری دور میں ظہور مہدی(عج) اور آپ(عج) کے اقدامات کے بعد دیگر اہم واقعات میں ایک واقعہ رجعت کا ہے۔ رجعت سے مراد صالحین کی ایک جماعت اور برکردار اور ظالم و معاند افراد کی ایک جماعت کا زندہ ہوکر اس دنیا میں پلٹ آنا ہے۔

رجعت معروف و مشہور [[شیعہ عقائد میں سے ہے اور اس کے مختصر اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ ظہور حضرت مہدی(عج) کے بعد اور قیامت سے پہلے مؤمنین کی ایک خالص جماعت اور نہایت برے کفار اس دنیا میں واپس پلٹ کر آئیں گے؛ اول الذکر جماعت کمال الہی تک پہنچے گی اور مؤخر الذکر جماعت کو سختی سے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

تفسیرنمونہ میں احادیث کی رو سے اشارہ کیا گیا ہے کہ رجعت عام نہیں ہے بلکہ صرف خالص مؤمنوں کی ایک جماعت اور معاند اور ظالم کے ایک گروہ تک محدود ہے۔ اور لگتا ہے کہ اول الذکر گروہ کی رجعت ان کے کمال کا حلقہ مکمل کرنے کے لئے اور دوسرے گروہ کی رجعت اس دنیا میں بھی سزا پانے کے لئے ہے۔[89]

شیعہ اکابرین میں سے سید مرتضی کہتے ہیں: "خداوند متعال حضرت مہدی(عج) کے ظہور کے بعد دنیا سے اٹھنے والے افراد کی ایک جماعت کو دنیا میں لوٹا دے گا تاکہ آپ(عج) کی نصرت کا ثواب کمائیں اور آپ کی عالمی حکومت حق کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں؛ نیز خداوند متعال نہایت سخت دشمنوں کی ایک جماعت کو بھی لوٹا دے گا تا امام مہدی(عج) ان سے انتقام لیں اور انہيں قرار واقعی سزا دیں"۔

رجعت کا عقیدہ مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے ہے لیکن اس کی خصوصیات اور جزوی اور ذيلی مسائل کے سلسلے میں علمائے شیعہ کے درمیان اختلاف ہے۔

بعض روایات میں امیرالمؤمنین(ع) اور امام حسین(ع) کی رجعت کی طرف اشارے ہوئے ہيں اور بعض دیگر روایات میں فرمایا گیا ہے کہ رسول اللہ(ص) اور انبیائے سلف بھی رجعت کریں گے۔ انبیاء(ع) اور ائمہ(ع) کے علاوہ بعض صالح افراد بھی رجعت کریں گے۔ [90]

رجعت کی ایک دلیل زمین سے ایک چلنے پھرنے والے کا برآمد ہونا ہے جیسا کہ خداوند متعال کا ارشاد ہے: اور جب ان پر حکم آ جائے گا تو ان کے لیے ہم زمین میں سے ایک چلنے پھرنے والا برآمد کریں گے جو ان سے بات کرے گا اس بنا پر کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔ [91]

متعدد روایات میں تاکید و تصریح ہوئی ہے کہ دابۃ الارض ایک متحرک اور غیر معمولی انسان ہیں جو آخر الزمان میں ظاہر ہونگے اور ان کا ایک بنیادی کام منافقین کو مؤمنین سے الگ کرنا ہوگا اور وہ منافقین پر نشان لگائیں گے۔[92]

تمام مسلمانوں کا عقیدہ اور اللہ کا وعدہ ہے کہ قیامت کے روز تمام انسان زندہ ہوکر اٹھیں گے چنانچہ اس آیت کا تعلق قبل از قیامت اور اسی دنیا سے ہے۔ اور اس آیت کا تعلق نفخ صور سے قبل کے زمانے کی طرف اشارہ ہے۔

مفسرین نے احادیث کی رو سے تصریح کی ہے کہ دابۃ الارض حضرت امام علی(ع) ہیں۔[93]۔[94]

رجعت کا امکان

واضح رہے کہ قرآن میں ایسی آیات ہیں جن سے مرنے کے بعد اس دنیا میں پلٹ کر آنے کا امکان واضح ہے۔ حضرت عزیر(ع)[95] اور اصحاف کہف[96] کے دنیا میں لوٹ آنے کے واقعات نیز حضرت عیسی(ع) کی رجعت کا الہی وعدہ[97] اس امکان کی دلیلیں ہیں۔

آخر الزمان دوسرے ادیان میں

آخر الزمان کے موضوع پر اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان میں بھی بحث ہوئی ہے گوکہ انھوں نے اس موضوع کو مختلف صورت میں پیش کیا ہے۔

عیسائیت میں

عیسائیوں کے ہاں اس دور کی بات ہوتی ہے جب حضرت عیسی(ع) کی واپسی ہوگی۔ کتاب مقدس میں حضرت عیسی(ع) کی رجعت کی طرف 300 سے زیادہ مرتبہ اشارہ ہوا ہے اور کئی مستقل ابواب کا تعلق اسی موضوع سے ہے۔ [98]۔[99]۔[100]

حتی کہ کچھ لوگوں نے دعوی کیا ہے کہ رجعت مسیح کے صحیح ادراک کا ماخذ کتاب مقدس ہے۔ [101] عیسائی عقیدے کے مطابق مسیح(ع) آخر الزمان میں دوبارہ پلٹ کر آئیں گے اور اپنے نجات کو منصوبے کو مکمل کریں گے۔[102]۔[103] ان کا خیال ہے کہ حضرت مسیح(ع) کی واپسی کے بعد دنیا سعادت سے روشناس ہوجائے گی اور اس نجات دہندہ! کے ظہور کے بعد دنیا مکمل صلح و آشتی کا گہوارہ بنے گی[104] اور جنگ اور خونریزی کا مکمل خاتمہ ہوگا اور کوئی امت دوسری امت کے خلاف تلوار نہيں کھینچے گی۔[105]

عیسائی تعلیمات اور کتاب مقدس کے مطابق اس دور میں باطل پر حق کا غلبہ مکمل طور پر واضح و آشکار ہے[106] اور ان کے خیال میں نجات دہندہ حضرت عیسی(ع) ہی ہیں[107] اور حضرت عیسی(ع) ہی ہیں جو اس دنیا کے اختتام کو بہت قریب دیکھتے تھے اور لوگوں کو توبہ کرنے کی دعوت دیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ "صرف وہ لوگ بخشے جائیں گے اور فلاح یافتہ ہونگے جو اس دن کے آن پہنچنے سے قبل اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کریں گے اور اللہ کی رحمت سے مستفیض و مستفید ہونے کے لائق و حقدار ہونگے۔[108]۔[109]

نیز کتاب مسیح میں منجی کے ظہور ـ یعنی حضرت عیسی(ع) کے نزول کے لئے کچھ نشانیاں بھی ذکر ہوئی ہیں جن میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

  • مسیح(ع) ایسے زمانے میں ظہور کریں گہ جب لوگ مجرم ہونگے اور دنیا پر ظلم چھایا ہوا ہوگا؛[110]
  • دنیا کی قومیں اور مملکتیں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہونگی اور مختلف علاقوں میں قحط اور زلزلوں جیسے واقعات رونما ہونگے؛[111]
  • مصائب کے بعد سورج تاریک ہوجائے گا اور چاند مزید روشنی نہیں دے گا؛[112]۔[113]
  • حضرت عیسی(ع) کے ظہور سے قبل دجال ظہور کرے گا۔[114]۔[115]

دین یہود میں

دین یہود میں بھی "آخری ایام" یا "خدا کا دن" (یوم یہوہ) کی طرف بار بار اشارہ ہوا ہے اور یہ وہ دور ہے جب یہود کی قومی عظمت اپنی انتہا تک پہنچے گی اور گنہگار نیست و نابود ہوجائیں گے[116] اور ایک "یسی" (حضرت داؤد(ع) کے باپ) کی نسل سے ایک بادشاہ ـ جس پر خدا کی روح قرار پائی ہے ـ اور صاحب حکمت اور خدا کا خوف رکھنے والا ہے ـ ظہور کرے گا اور دنیا کو عدل اور خیر و برکت سے پر کرے گا؛ اور حالت یہ ہوگی کہ بھیڑیا دنبے کے ساتھ رہے گا اور چیتا بکرے کے ساتھ ایک مقام پر آرام کرے گا۔[117]۔[118]۔[119]۔[120]۔[121]۔[122]

خدا کا دن وہ دن ہے جب دنیا کی تاریخ کی حرکت انتہا اور غایت اور کمال تک پہنچے گی۔[123]

اس روشن مستقبل کا دارومدار "ماشیح" کی شخصیت پر ہے جو یہودی عقیدے کے مطابق خدا کی طرف سے اس حیرت انگیز دور کا آغاز کرنے پر مامور ہونگے۔ "تلمود" میں سو سے زائد مرتبہ ماشیح کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[124]

عام (یہودی) عقیدہ یہ ہے کہ "ماشیح" بادشاہ داؤد کی نسل سے ہوگا اور یہودی علماء کے ادبیات میں "بن داؤد" کے نام سے مشہور ہے۔[125]

ماشیح کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے اور کتاب مقدس کی وہ آیات ـ جو علمائے یہود کی تفسیر کے مطابق ماشیح کی طرف اشارہ کرتی ہیں ـ ان ناموں کو متعین و مشخص کرتی ہیں جیسے "شیلو"[126] "بینون"[127] "حنینا"[128] "منحم بن حیزقیا"۔[129]

ماشیح کے ظہور کا زمانہ سیاسی پریشانیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی جنگوں کے بموجب متعین ہوگا۔ جیسا کہ کہا گیا ہے:

جب دیکھو کہ حکومتیں آپس میں لڑتی ہیں ماشیح کی آمد کے منتظر رہو، کیونکہ ابراہیم کے زمانے میں بھی ایسا ہی ہوا اور جب حکومتیں آپس میں لڑنے لگیں تو ان کے لئے نجات حاصل ہوئی۔[130] ماشیح کی آمد سختیوں اور مشقتوں کے ساتھ ہوگی اور ان کے ظہور سے قبل دنیا بھر میں فساد اور لاقانونیت کی انتہا ہوگی اور زندگی کی مشکلات اور سختیاں ناقابل برداشت ہوں گی۔[131]۔[132] ممالک اور حکومتوں کے درمیان یہ جنگیں "گوگ و ماگوگ" (یاجوج و ماجوج) کی جنگوں کے نام سے مشہور ہونگی۔[133]۔[134]

ماشیح کے دور کے مشہور وقائع حسب ذیل ہیں:

  • بیمار شفایاب ہونگے؛[135]
  • میوہ دار درخت پر ثمر ہونگے؛[136]
  • ویرانیاں آباد ہونگی؛[137]
  • یروشلم کی تعمیر نو ہوگی؛[138]
  • پورے عالم فطرت میں صلح و امن قائم ہوگا؛[139]
  • دنیا بھر میں گریہ و زاری اور آہ و نالہ کا خاتمہ ہوگا؛[140]
  • دنیا سے موت کا خامہ ہوگا۔[141]

علمائے یہود نے اس دور کی مدت کے بارے میں مختلف نظریات دیئے ہیں جو کچھ یوں ہیں: 40 سال، 70 سال، 100 سال، 400 سال،600 سال، 1000 سال، 2000 سال، 7000 سال۔[142]

دین زردشت میں

دین زردشت میں بھی آخر الزمان کے مصلح و نجات دہندہ کے ظہور پر تاکید ہوئی ہے۔

زردشتی دین میں یہ مسئلہ ان کے اپنے خاص عقائد کی رو سے خاص انداز میں زیر بحث آیا ہے۔ اس دین کے مطابق: ایک کیہانی یا کائناتی قوت یا "خیر کی روح" بعنوان "آہورا مزدا" اور ایک متضاد آسمانی قوت یا "شر کی روح" بعنوان "اہریمن" خودنمائی کرتی ہیں۔ تاریخ کے آغاز سے آخرالزمان تک یہ دو نام باہمی جنگ و نزاع میں مصروف ہیں اور اس زمانے میں خیر شر پر غلبہ پائے گی اور صلح و پاکیزگی اور آہورا مزدا کی سربلندی کا دور شروع ہوگا اور "سوشیانس" کی آمد کے ساتھ ہی آخر الزمان کا آغاز ہوگا۔[143]

زردشت کے اشعار "گاتوں" یا "گاہان" کے ایک کے ایک فقرے میں ایک مرد کی بات ہے جو مستقبل میں آئے گا اور راہ نجات کو پا لے گا۔[144] نیز ان کی گاتوں میں ہمیں کئی بار لفظ سوشیانت (یا سودرسان) ملتا ہے جو وہی زردشتیوں کا نجات دہندہ ہے۔[145] لفظ "فرشوکرتی" (دنیا کی کامل سازی) بھی ایک لفظ ہے جو گاہان یا گاتوں میں[146] مذکور ہے اور اس کا اشارہ آخر الزمان کی طرف ہے یعنی وہ زمانہ جب اہریمن اور اہریمنی قوتیں کمزور پڑ جائیں گی اور شکست کھائیں گی اور یہ عالم اپنے ابتدائی کمال کی طرف پلٹ جائے گا۔ (گات‌ها یسناوهات)۔

لہذا سوشیانس اور سوشیانت وہی شخص ہے جو اس دنیا کے اختتام پر ظہور کرے گا اور سوشیانت کا نام "پیروز گر" اور "استوت ارت" (وہی جس کی زندگی کے فیض سے تمام انسان فنا ناپذیر ہوجائیں گے[147]) بھی ہے۔[148] اوستا میں لفظ "سوشیانت" کم از کم آٹھ بار اور "استوت ارت" کا لفظ دو بار آیا ہے۔

ظہور کے بعد "دنیا کی تجدید اور پلیدیوں اور ظلمتوں کا خاتمہ" اس مصلح موعود کے اقدامات میں سے ہیں۔[149]

اس مصلح موعود کے انصار و اعوان کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ وہ نیک اندیش ہیں، نیک گفتار اور نیک کردار ہیں اور ان کا دین بھی نیک ہے اور کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے۔[150]

حوالہ جات

  1. ظہور کا زمانہ صرف اللہ کے علم میں ہے جس طرح کہ قیام قیامت کا علم بھی صرف اسی کے پاس ہے۔
  2. واقعہ،آیات 38۔40۔
  3. واقعہ آیات 13۔14۔
  4. سورہ معارج آیت 9۔
  5. سورہ قارعہ آیت 5۔
  6. سورہ معارج آیت 8۔
  7. سورہ ابراہیم آیت 48۔
  8. سورہ اعراف آیت 128۔
  9. سورہ اعراف آیت 137۔
  10. سورہ انبیاء آیات 105ـ 106۔
  11. سورہ اسراء آیت81۔
  12. سورہ قصص آیت 5۔6۔
  13. سورہ نور آیت55۔
  14. سورہ ابراهیم آیات 13ـ 15۔
  15. سورہ نساء آیت105۔
  16. سورہ صافات آیت 171ـ 173۔
  17. سورہ انفال آیت39۔
  18. سورہ توبه آیت33۔
  19. سورہ فتح آیت28۔
  20. سورہ مجادله آیت21۔
  21. سورہ حج آیت41۔
  22. ان آیات کی تاویل و تفسیر اور ان کے ذیل میں منقولہ احادیث و روایات کے لئے مجمع البیان میں متعلقہ آیات کی تفسیر کا مطالعہ کریں۔
  23. بحارالانوار، ج9، ص286۔۔
  24. حاکم نیسابوری، المستدرک على الصحیحین، ج4، ص491، اربلی، کشف الغمّه، ج3، ص265، يوسف بن يحيي مقدسي، عقد الدرر، ص91۔
  25. صحیح ترمذى، ج2، ص46۔
  26. تفسیر قمى، ج2، ص307۔
  27. کشف الغمّه، ج3، ص266 و 267۔
  28. کشف الغمّه،ج3، ص262 و 263۔
  29. سورہ محمد آیت81۔
  30. طباطبائی، المیزان، ج8، ص236۔
  31. بحار، ج52، ص181، صحیح مسلم، ج4، ص2248۔
  32. کلینی، الکافى، ج1، ص368۔
  33. موسوى اصفهانى، مکیال المکارم، ج2، ص160۔
  34. صدوق، کمال الدین وتمام النعمة، ص588۔
  35. طوسی، کتاب الغیبة، ص340۔
  36. کتاب الغیبة، ص304۔
  37. کشف الغمّة، ص247 و 251۔
  38. بحارالانوار، ج6، ص303۔
  39. حق الیقین فى معرفة اصول الدین، ص126۔
  40. کمال الدین، ج2، ص649۔
  41. الإمام المهدى من المهد إلى الظهور، ص311۔
  42. کشف الغمّه ص247۔
  43. بحارالانوار، ج52، ص181؛ صحیح مسلم، ج4، ص2221۔
  44. غزنوى حنفى، اصول الدین، ص201۔
  45. بیهقى، شعب الایمان ،ج1، ص308۔
  46. الملاحم والفتن، ص97۔
  47. الزام الناصب، ص102 اور بعد کے صفحات۔
  48. مشارق انوار الیقین، ص72۔
  49. کتاب الفتن، ص36۔
  50. ابن اثیر، النهایة فى الفتن والملاحم، ص40 41۔
  51. قمی، علی ابراہیم، تفسیر قمى، ج2، ص307۔
  52. کتاب الفتن، ص27۔
  53. تفسیر قمى، ج2، ص307۔
  54. رجب البرسی، مشارق انوار الییقن فى اسرار امیرالمؤمنین، ص72۔
  55. اصول الدین، ص206۔
  56. المستدرک، ج4، ص484۔
  57. کتاب الفتن، ص63۔
  58. صدوق، ج2، ص650۔
  59. طوسي، الغيبة ص267۔
  60. نعماني، الغيبة، صص169 و 172۔
  61. جلسي، بحار الانوار ج52، ص204۔
  62. طبرسي، اعلام الوري، ص426۔
  63. صافي گلپايگاني، منتخب‏الاثر، صص439 و 455۔
  64. غيبت نعماني ص162۔
  65. بحار الانوار ج52، ص248۔
  66. المیزان، ج7، ص391۔
  67. کتاب الفتن، ص60۔
  68. ینابیع المودة، ج2، ص528۔
  69. صافی گلپایگانی، منتخب الأثر، ص474۔
  70. البرهان فى تفسیر القرآن، ج2، ص121۔
  71. مجمع البیان، ج3، ص25۔
  72. منتخب الاثر، ص475۔
  73. نورالابصار، ص347۔
  74. بحارالانوار، ج51، ص74۔
  75. نهج البلاغه، خطبه 131۔
  76. الإرشاد، ج2، ص381۔
  77. کتاب الغیبة، ص468۔
  78. عقد الدرر، ص211۔
  79. حاکم نیسابوری، المستدرک، ج4، ص558۔
  80. امالى، ص231۔
  81. منتخب الأثر، ص168۔
  82. بحارالانوار ج52، ص372۔
  83. منتخب الاثر، ص483۔
  84. الخرائج والجرائح، ج2، ص841۔
  85. کافى، ج8، ص396۔
  86. عقد الدرر، ص74۔
  87. مشارق انوار الیقین، ص74۔
  88. بحارالانوار، ج51، ص485۔
  89. تفسیر نمونه، ج 15، ص559۔
  90. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج 15، ص 555۔
  91. سورہ نمل آیت 82۔
  92. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج 15، ص 552۔
  93. حسینى استرآبادى، تأویل الآیات الظاهرة، ص399 و 400۔
  94. مجلسی، بحارالانوار، ج39، ص243۔
  95. سورہ بقرہ آیت 159۔
  96. سورہ کہف آیات 19 اور 20۔
  97. سورہ زخرف آیت 61۔
  98. انجیل متى24 و 25۔
  99. انجیل مرقس 13۔
  100. انجیل لوقا 21۔
  101. الٰہیات مسیحى، ص327۔
  102. یوحنا 4:42۔
  103. عبرانیان9:28۔
  104. اشعیا2:7۔
  105. اشعیا2:4۔
  106. یوحنا4: 42۔
  107. اشعیا2:7 مرقس9:11ـ 13۔
  108. مرقس1:14ـ 15۔
  109. متى 3:2و6۔
  110. اشعیا 48:11۔
  111. متى24:7 به بعد۔
  112. متى24:29۔
  113. لوقا21: 23ـ 25۔
  114. یوحنا2:18۔
  115. تسالونیکیان1:7ـ 8۔
  116. عاموس5:18ـ 20، 2:12ـ 17۔
  117. عاموس11: 1ـ8۔
  118. هوشع2:20ـ 25۔
  119. میکاه5:2ـ6۔
  120. ارمیا 23:5ـ6۔
  121. حزقیال 11:17ـ20۔
  122. ملاکى3:1ـ6 و 4:5۔
  123. اشعیاء52:13 و 53:12۔
  124. خدا، جهان، انسان و ماشیح در آموزه هاى یهود (ماشیح تعلیمات میں)، ص257۔
  125. خدا، جهان، انسان و ماشیح در آموزه هاى یهود، ص259۔
  126. پیدایش 49:10۔
  127. مزامیر داود72:17۔
  128. ارمیاء16:13۔
  129. ارمیاء1:16۔
  130. پیدایش14۔
  131. اشعیاء60:21۔
  132. حزقیال38 و 39۔
  133. اشعیاء60:21۔
  134. ۔حزقیال38 و 39۔
  135. حزقیال47:9۔
  136. حزقیال47:9۔
  137. حزقیال16:55۔
  138. اشعیا54:11 و 12۔
  139. اشعیاء11: 6، 7، 8۔
  140. اشعیا65:19۔
  141. اشعیاء25:8۔ نیز پسیقتارباتى، 152 ب، یروشلمى تعنیت 6 دال، سنهدرین97 الف، برشیت ربا43:4، عوودازارا 3 ب، تنحوماعقو7، پساجیم88الف بحوالہ: خدا، جهان، انسان و ماشیح در آموزه هاى یهود۔
  142. خدا، جهان، انسان و ماشیح در آموزه هاى یهود، ص273۔
  143. ناس، جان، تاریخ جامع ادیان، ص318۔
  144. گات‌ها یسن43، بند3۔
  145. همان، یسن45 بند11۔
  146. سین30 بند9۔
  147. پورداود، فروهر، ص15.۔
  148. اوستا، ج1، ص405ـ 430۔
  149. اوستا، ج1، ص487۔
  150. اوستا زامیاد یشت، بند 95۔

مآخذ

  • «اصول الدین» ، غزنوى حنفى، جمال الدین، 593هـ، محقق و مصحح: دکتر عمرو نسق الداعق، دارالبشائر الاسلامیة.
  • «اصول کافی» ، کلینی، محمد بن یعقوب، مترجم آیت اللّه محمدباقر کمره اى.
  • «الارشاد» ، شیخ مفید، 1413هـ، تحقیق مؤسسه آل البیت(علیهم السلام)، المؤتمر الألفیة الشیخ المفید، 1413هـ.
  • «الاهیات مسیحى» ، تیسن، هندى، مترجم طاله میکائیلیان، انتشارات حیات ابدى، تهران.
  • «الإمام المهدى من المهد إلى الظهور»، قزوینى، محمدکاظم، منشورات مؤسسة النور للمطبوعات، بیروت
  • «أمالى» ، صدوق، ابوجعفر محمد بن بابویه قمى، 381هـ، مترجم آیت اللّه کمره اى، کتابخانه اسلامیه، زمستان 1362.
  • «اوستا» ، ...، گزارش و پژوهش دکتر جلیل دوستخواه، انتشارات مروارید، تهران 1370.
  • «بحارالانوار» ، مجلسى، محمدباقر، مؤسسه الوفاء، بیروت 1403.
  • «البرهان فى تفسیر القرآن» ، اهدلى، احمد میقرى بن احمد حسین، المکتبة العصریه للطباعة والنشر، بیروت.
  • «تاریخ جامع ادیان» ، ناس، جان، مترجم على اصغر حکمت، انتشارات پیروز، 1354.
  • «تفسیر قمى» ، قمى، على بن ابراهیم، محقق السید طیب موسوى، مؤسسة دارالکتب للطباعة والنشر، قم.
  • «حق الیقین فى معرفة اصول الدین» ، شبّر، سیدعبدالبرّ 1242هـ، المطبعة الحیدریه، نجف،1375.
  • «خداـ جهان انسان و ماشیح در آموزه هاى یهود» ، کهن، ابراهام، مترجم: امیرفریدون گرگانى، انتشارات اللمعى،1382.
  • «الخرائج والجرائح» ، راوندى، قطب الدین، 573هـ، مؤسسه امام مهدى (عج) 1409هـ.ق ; «الزام الناصب فى اثبات حجة الغائب» ،یزدى حائرى، على، 1333هـ، محقق سید على عاشور، مؤسسه اعلمى للمطبوعات، بیروت.
  • «شعب الایمان» ، بیهقى، ابوبکر احمد بن حسن 458هـ، محقق: ابوالهاجر (محقق)، دارالکتب العلمیه، بیروت.
  • «صحیح ترمذى» ، ترمذى، دارالفکر للطباعة والنشر، بیروت1403.
  • «صحیح مسلم» ، قشیرى نیشابورى، مسلم بن حجاج، 651هـ، دارالکتب العلمیة، بیروت.
  • «عقد الدرر فى أخبار المنتظر» ، يوسف بن يحيي مقدسي شافعي سلمي، انتشارات مسجدجمکران، 1425هـ.
  • «الغیبه» ، طوسى، ابوجعفر محمد بن حسن، 460هـ، مترجم شیخ محمد رازى، انتشارات کتابفروشى اسلامیه، 1350.
  • «الفتن» ، خزاعى مروزى، نعیم بن حمّاد، 229هـ، دارالکتب العلمیه، بیروت، لبنان.
  • «فروهر»، پورداوود ابراهیم، تهران: 1374ش.
  • «کتاب مقدس» ، ... ترجمه تفسیرى شامل عهد قدیم و عهد جدید.
  • «کشف الغمّة فى معرفة الأئمّة» ، اربلى، ابوالفتح، مکتبة بنى هاشم، تبریز1381.
  • «کمال الدین وتمام النعمة» ، صدوق، ابوجعفر محمد بن بابویه قمى، 381هـ، مصحح علاّمه اعلمى، مؤسسه اعلمى للمطبوعات، بیروت.
  • «گات ها یا سروده هاى زردشت» ، ... مترجم بزرگمهر کیانى، انتشارات جام 1382.
  • «المستدرک على الصحیحین» ، الحاکم النیشابورى، محمد بن عبداللّه، محقق: مصطفى عبدالقادر عطا، دارالکتب العلمیه ، بیروت.
  • «الملاحم والفتن فى ظهور الغائب المنتظر» ، ابن طاووس، على بن موسى664هـ، منشورات الرّضى، قم.
  • «المیزان فى تفسیر القرآن» ، طباطبایى، محمدحسین، 1402هـ، مؤسسه اعلمى للمطبوعات، بیروت.
  • «مجمع البیان» ، طبرسى، فضل بن حسن548هـ، مکتبة العلمیة الإسلامیة، تهران.
  • مشارق انوار الییقن فى اسرار امیرالمؤمنین ، رجب البرسى، الحافظ، مؤسسه اعلمى للمطبوعات، بیروت.
  • «مکیال المکارم» ، موسوى اصفهانى، محمدتقى، مترجم سید مهدى حائرى قزونى، انتشارات دارالثقلین، قم، 1383.
  • «منتخب الأثر» ، صافى گلپایگانى، لطف اللّه، ناشر مکتب المؤلف 1422هـ.
  • النهایة فى الفتن والملاحم ، ابن اثیر دمشقى، 774 هـ، دارالجلیل، بیروت.
  • «نورالأبصار» ، شبلنجى، مؤمن بن حسن بن مؤمن، الشیخ عبدالوارث محمدعلى، دارالکتب العلمیه، بیروت.
  • «نهج البلاغه» ، سید رضى، مترجم محمّد دشتى، انتشارات صحفى، قم 1379.
  • «ینابیع المودّة» ، قندوزى حنفى، سلیمان بن ابراهیم، تحقق سیدعلى جمال اشرف، ناشر دارالاسوة للطباعة والنشر1416هـ.
  • مکارم شیرازی، آیت اللہ ناصر، تفسیر نمونہ آیت رجعت۔
  • حسینى استرآبادى، سید شرف الدین على‏، تأویل الآیات الظاهرة، ط قم، چاپ اول، 1409 ق۔