ولایت تشریعی
ولایت تشریعی دینی امور میں تشریع یا قانون بنانے کو کہا جاتا ہے۔ ولایت تشریعی سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہؐ اور ائمہؑ کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے خود شرعی احکام اور قوانین وضع کریں۔ البتہ اس مسئلے میں شیعہ علما کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے: بعض اس کو مانتے ہیں جبکہ بعض اس کا انکار کرتے ہیں اور تشریع کا حق صرف اللہ تعالی کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں۔
ولایت تشریعی کے ایک اور معنی بھی ہیں اور اسے تمام شیعہ علما مانتے ہیں۔ وہ معنی یہ ہیں کہ رسول اللہؐ اور ائمہؑ انسانوں کی جان اور مال پر اختیار رکھتے ہیں اور انکے فرامین کی اطاعت کرنا سب پر فرض ہے۔
حدیث کی کتابوں میں ولایت تشریعی کے پہلے معنی یعنی «دینی امور کا رسول اللہؐ اور ائمہ معصومینؑ کو تفویض کرنا» ذکر ہوا ہے۔
ولایت تشریعی کے دو معنی
ولایت تشریعی، تکوینی ولایت کے مقابلے میں ہے اور شیعہ ادبیات میں ولایت تشریعی کے دو معنی ہیں: پہلا معنی یہ کہ دوسروں کی جان اور مال پر تصرف کا حق رکھنا اور دوسرا معنی قانون بنانے کا حق ہے۔
ولایت یعنی حق تصرف
ولایت تشریعی کا ایک معنی پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے لوگوں کی جان اور مال پر مکمل اختیار رکھتے ہیں اور ان میں تصرف کرسکتے ہیں؛ مثلا وہ لوگوں کے مال کو بیچ سکتے ہیں اور لوگوں پر ان کی اطاعت فرض ہے۔[1] شیعہ علما ولایت تشریعی کے اس معنی کو پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کے لئے مانتے ہیں یعنی وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ لوگوں کی جان اور مال پر پورا اختیار رکھتے ہیں اور لوگوں کے دینی اور دنیوی امور ان کی سرپرستی میں ہیں اور ان کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔[2]
ولایت یعنی قانونگذاری کا حق
ولایت تشریعی کا دوسرا معنی دینی امور میں قانون بنانے کا حق ہے؛ یعنی عبادی، معیشتی، سیاسی اور حقوقی احکام کی تشریع کرنا[3]دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہیں کہ دینی معاملات سے متعلق کسی بھی موضوع کے بارے میں شرعی حکم صادر کرنے کا اختیار ہو یعنی یہ کہہ سکیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام.[4] ولایت تشریعی کے یہ معنی «اللہ کی طرف سے رسول اللہؐ اور ائمہؑ کو تفویض کرنا» کے عنوان سے ذکر ہوا ہے.[5]
تفویض میں اختلاف
ائمہ علیہم السلام کو قانون بنانے کا حق ہونے کے بارے میں شیعہ علما کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے؛ یعنی کیا خدا کے علاوہ پیغمبرؐ اور ائمہؑ کو دینی امور تشریع کا حق ہے یا نہیں؟۔ دوسرے لفظوں میں، کیا اللہ تعالی نے پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کو دینی امور میں قانون بنانے کا حق دیا ہے یا نہیں؟ اور انہیں یہ اختیار «تفویض» کیا ہے یا نہیں؟۔[6]
جعفر سبحانی اور صافی گلپایگانی جیسے بعض علما کا کہنا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی بھی انسان کو شرعی قانون بنانے کا حق حاصل نہیں ہے اور یہ حق اللہ تعالے کے ساتھ خاص ہے اور اللہ نے اس حق کو کلی طور پر کسی کو بھی تفویض نہیں کیا ہے؛[7] لیکن بعض روایتوں کے مطابق صرف چند مخصوص موارد میں اللہ نے رسول اللہؐ کو تشریع کی اجازت دی ہے ہم صرف انہی موارد میں رسول خداؐ کی ولایت تشریعی کو مانتے ہیں۔[8] ان علما کے مقابلے میں غروی اصفہانی، سید جعفر مرتضی عاملی اور حسینی تہرانی جیسے علما اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ دینی تمام امور میں ولایت تشریعی رکھتے ہیں۔[9]
مخالفین کے دلائل
پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کو اللہ کی طرف سے شرعی امور تفویض ہونے کے مخالفین نے درج ذیل دلائل پیش کئے ہیں:
- «إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّـہ؛ حکم کرنا اللہ سے مخصوص ہے»[10]
- «جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہ کافر ہے»[11]
- «پس ان کے درمیان جس طرح اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح حکم کرو۔»[12]
- امام باقرؑ: «حکم کی دو قسمیں ہیں: اللہ کا حکم اور اہل جاہلیت کا حکم۔»[13][14]
وہ احادیث جو ایک طرح سے تفویض کی تائید کرتی ہیں ان کے بارے میں شیعہ علما کا یہ گروہ کہتا ہے کہ احکام کو اللہ تعالی نے تشریع کیا ہے اور اسے وحی کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ تک پہنچایا ہے البتہ اس کی بعض جزئیات کو پیغمبر اکرمؐ کے اختیار میں رکھا ہے البتہ وہ بھی الہام کے ذریعے سے بیان ہوتے ہیں۔[15] مثال کے طور پر کسی روایت میں آیا ہے کہ اللہ نے یومیہ نماز کو دو رکعت کی صورت میں واجب کیا ہے؛ لیکن پیغمبر نے ظہر، عصر اور عشا کی نماز میں دو رکعت اور مغرب کی نماز میں ایک رکعت کا اضافہ کیا جسے اللہ تعالی نے منظور فرمایا۔[16]
حامیوں کے دلائل
ولایت تشریعی کے موافق اور حامیوں نے بعض ایسی احادیث سے استناد کیا ہے جن میں دینی امور پیغمبراکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کو تفویض ہونے کی بات آئی ہے۔ سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ یہ روایات بکثرت اور متواتر ہیں۔[17] حدیث کی بعض کتابوں کا کچھ حصہ، رسول اللہؐ اور ائمہ معصومینؑ کو دین کے امور تفویض ہونے کے بارے میں مختص ہے۔ ان میں کلینی کی کتاب کافی میں «امر دین کا رسول اللہ اور ائمہؑ کو تفویض ہونا» کے باب میں دس احادیث نقل ہوئی ہیں۔[18] اسی طرح صَفّار کی کتاب بصائرالدرجات میں دو باب اس مسئلے سے مختص ہیں۔[19]
بعض علما کا کہنا ہے کہ دینی امور کا رسول اللہؐ اور ائمہؑ کو تفویض ہونے سے مراد ولایت تشریعی، یعنی دینی احکام میں تشریع کا حق رکھنا مراد ہے؛[20]ان میں سے بعض احادیث درج ذیل ہیں:
- امام صادقؑ: «اللہ تعالی نے اپنے رسول کی تربیت اپنی محبت سے کی اور پھر فرمایا: «تم خُلق عظیم پر فائز ہو» اور پھر انہیں تفویض کیا۔۔۔ اور فرمایا: «جو بھی رسول کی اطاعت کرے گویا اس نے مجھ اللہ کی اطاعت کی ہے۔» رسول اللہ نے علی کو تفویض کی اور انہیں امین قرار دیا۔۔۔ ہم تم اور اللہ کے مابین واسطہ ہیں۔ اللہ نے کسی کو بھی ہمارے امر کی مخالفت میں خیر اور اچھائی قرار نہیں دیا ہے۔»[21]
- امام صادقؑ: «اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کی تربیت کی اور اچھی تربیت کی اور جب ادب میں ان کو کمال تک پہنچایا تو فرمایا: «یقینا تم خُلق عظیم کے پیکر ہو۔» پھر دین اور امت کے امور ان کے سپرد کیے تاکہ وہ بندوں کےمعاملات کا انتظام و انصرام کرسکے...»[22]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ حسینی میلانی، الولایۃ التشریعیہ، 1432ھ، ص49.
- ↑ حسین میلانی، الولایة التشریعیه، ۱۴۳۲ق، ص۴۹؛ صافی گلپایگانی، سلسلهمباحث امامت و مهدویت، ۱۳۹۱ش، ج۱، ص۱۰۵-۱۰۷.
- ↑ صافی گلپایگانی، سلسلہمباحث امامت و مہدویت، 1391شمسی، ج1، ص97.
- ↑ سبحانی، ولایت تشریعى و تکوینی از دیدگاہ علم و فلسفہ، 1385شمسی، ص19.
- ↑ ملاحظہ کریں: مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص348؛عاملی، الولایۃ التکوینیہ و التشریعیہ، 1428ھ، ص60-63.
- ↑ ملاحظہ کریں: مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص348؛ سبحانی، مفاہیمالقرآن، 1421ھ، ج1، ص610؛ صافی گلپایگانی، سلسلہمباحث امامت و مہدویت، 1391شمسی، ج1، ص99، 101؛ غروی اصفہانی، حاشیۃ کتاب المکاسب، 1427ھ، ج2، ص379؛ عاملی، الولایۃ التکوینیہ و التشریعیہ، 1428ھ، ص60-63
- ↑ سبحانی، مفاہیمالقرآن، 1421ھ، ج1، ص610؛ صافی گلپایگانی، سلسلہمباحث امامت و مہدویت، 1391شمسی، ج1، ص99، 101.
- ↑ سبحانی، ولایت تشریعى و تکوینی از دیدگاہ علم و فلسفہ، 1385شمسی، ص20-21؛ صافی گلپایگانی، سلسلہمباحث امامت و مہدویت، 1391شمسی، ج1، ص101-102.
- ↑ غروی اصفہانی، حاشیۃ کتاب المکاسب، 1427ھ، ج2، ص379؛ عاملی، الولایۃ التکوینیہ و التشریعیہ، 1428ھ، ص60-63؛ حسینی تہرانی، امامشناسی، ج5، 1418ھ، ص114، 179.
- ↑ سورہ یوسف، آیہ 40، 67؛ سورہ انعام، آیہ 57.
- ↑ سورہ مائدہ، آیہ 44.
- ↑ سورہ مائدہ، آیہ 48.
- ↑ کلینی، کافی، 1407ھ، ج6، ص407.
- ↑ سبحانی، مفاہیمالقرآن، 1421ھ، ج1، ص606-612.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۵، ص۳۴۸.
- ↑ سبحانی، ولایت تشریعى و تکوینی از دیدگاہ علم و فلسفہ، 1385شمسی، ص21.
- ↑ عاملی، الولایۃ التکوینیہ و التشریعیہ، 1428ھ، ص61.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص265-268.
- ↑ صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص378، 383.
- ↑ عاملی، الولایۃ التکوینیہ و التشریعیہ، 1428ھ، ص60-63.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص265.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص266؛ عاملی، الولایۃ التکوینیہ و التشریعیہ، 1428ھ، ص62.
مآخذ
- حسینی تہرانی، سیدمحمدحسین، امامشناسی، مشہد، انتشارات علامہ طباطبایی، 1418ھ۔
- حسینی میلانی، علی، الولایۃ التشریعیہ، قم، الحقایق، چاپ اول، 1432ھ۔
- سبحانی، جعفر، مفاہیمالقرآن، بہقلم جعفر الہادی، قم، مؤسسہ امام صادق، 1421ھ۔
- سبحانی، جعفر، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاہ علم و فلسفہ، قم، مؤسسہ امام صادق، 1385ہجری شمسی۔
- صافی گلپایگانی، لطفاللہ، سلسلہمباحث امامت و مہدویت، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیتاللہ العظمی صافی گلپایگانی، 1391ہجری شمسی۔
- صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آلمحمّد(ص)، تحقیق و تصحیح محسن کوچہباغی، قم، کتابخانہ آیتاللہ مرعشی النجفی، چاپ دوم، 1404ھ۔
- عاملی، سیدجعفر مرتضی، الولایۃ التکوینیۃ و التشریعیۃ، مرکز الاسلامی للدراسات، چاپ دوم، 1428ھ۔
- غروی اصفہانی، محمدحسین، حاشیۃالمکاسب، قم، ذویالقربیٰ، 1427ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔