خطبہ طالوتیہ
خطبہ طالوتیہ | |
---|---|
حدیث کے کوائف | |
موضوع | غصب خلافت کے واقعے میں امام علیؑ کی حمایت نہ کرنے پر لوگوں کی مزمت |
صادر از | امام علیؑ |
اصلی راوی | ابو الہیثم بن تیہان |
شیعہ مآخذ | الکافی |
مشہور احادیث | |
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل |
خطبہ طالوتیہ امام علیؑ کے ان خطبوں میں سے ایک ہے جس میں آپ نے پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد غصب خلافت کے واقعے میں لوگوں کی سر زنش کی اور اس غفلت کے برے انجام کی طرف خبردار کیا۔ اس خطبے میں امام علیؑ اشارہ کرتے ہیں کہ اگر آپ کے لئے اصحاب طالوت کی تعداد کے برابر بھی ساتھ دینے والے میسر ہوتا تو آپ لوگوں کو اس گمراہی سے نجات دیتے جس میں یہ لوگ مبتلا ہوئے ہیں۔
امام علیؑ اس خطبہ میں خدا کی بعض صفات کی وضاحت کرتے ہوئے دوسرے ادیان پر دین اسلام کی فوقیت اور برتری کو بیان کرتے ہیں اور اپنے آپ کو پیغمبر اکرمؐ کا وصی اور جانشین معرفی کرتے ہیں جس کی اطاعت اور پیری کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ امام علیؑ اس خطبہ میں عاقبت بخیری اور دنیوی اور اخروی نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کو اہل بیتؑ کی پیروی اور اطاعت کے ثمرات میں شمار کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ظلمت اور گمراہی میں مبتلا ہونا، علم کی راہ کا مسدود ہونا اور لوگوں میں اختلاف ایجاد ہونے کو اہل بیتؑ سے دوری کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
کُلینی نے اس خطبہ کو اپنی کتاب الکافی میں ابن تیہان سے نقل کیا ہے۔ علامہ مجلسی کے مطابق خطبہ طالوتیہ اگرچہ علم رجال کے معیار کے مطابق ضعیف احادیث میں سے ہے، لیکن اس میں موجود فصاحت و بلاغت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے امام علیؑ کی طرف نسبت دی جا سکتی ہے۔
تعارف، زمان اور پس منظر
کہا جاتا ہے کہ خطبہ طالوتیہ[1] امام علیؑ کے ان خطبوں میں سے ہے جس میں آپ نے پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد مدینہ میں ارشاد فرمایا۔[2] اس خطبہ کا طالوتیہ کے نام سے مشہور ہونے کی علت اس میں اصحاب طالوت کی طرف اشارہ کرنا بیان کی گئی ہے۔[3] امام علیؑ اس خطبہ میں غصب خلافت کے واقعے میں اپنی حمایت کرنے میں سستی دکھانے کی وجہ سے لوگوں کو مورد سر زنش قرار دیتے ہیں اور اس سستی کے برے انجام کی طرف لوگوں کو خبردار کرتے ہیں۔[4] علامہ طہرانی اس خطبہ کو پیغمبر کرمؐ کی رحلت کے بعد امام علی کی طرف سے اپنی خلافت (ولایت اور امامت) کے لئے مسلحانہ قیام نہ کرنے کی واضح دلیل قرار دیتے ہیں جو پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان سے بچنے کے لئے اعوان انصار کے فقدان کی صورت میں تلوار نہ اٹھانے اور خاموشی اختیار کرنے کی وصیت کے عین مطابق تھا۔[5]
سند
کُلینی نے خطبہ طالوتیہ کو کتاب روضۃ الکافی میں ابو الہیثم بن تیہان کے توسط سے امام علیؑ سے نقل کیا ہے۔[6] کتاب مراۃ العقول میں علامہ مجلسی کے مطابق خطبہ طالوتیہ اگرچہ علم رجال کے معیار کے مطابق ضعیف احادیث میں سے ہے، لیکن اس خطبہ میں موجود فصاحت و بلاغت کو مد نظر رکھتے ہوئے بعید نظر آتا ہے کہ یہ خطبہ کسی غیر معصوم کا ہو لھذا اس بنا پر اسے امام علیؑ کی طرف نسبت دی جا سکتی ہے۔[7]
مضامین
امام علیؑ نے خطبہ طالوتیہ میں خدا کی حمد ثنا کے ساتھ ساتھ خدا کے بعض اسماء و صفات خدا[8] اور پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کا اقرار کرتے ہوئے[9] خود کو پیغمبر اکرمؐ کا وصی اور امت کا صاحب علم و دانش قرار دیتے ہیں جس کی اطاعت اور پیروی کرنے کا لوگوں کو حکم دیا گیا تھا۔[10] اس خطبہ میں جہاں امامؑ اہل بیتؑ کی پیروی کرنے کے مثبت اور اچھے تنائج کی طرف لوگوں کی توجہ مبزول کراتے ہیں[11] تو دوسری طرف و غصب خلافت کے واقعہ میں امام کی حمایت کرنے میں لوگوں کی اور کاہلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے[12] اہل بیتؑ سے روگردانی اختیار کرنے کے برے انجام سے بھی لوگوں کو خبردار کراتے ہیں۔[13] آخر میں امام علیؑ اس نکتہ پر تأکید کرتے ہیں کہ اگر آپ کو اصحاب طالوت کی تعداد یا جنگ بدر میں اصحاب پیغمبرؐ کی تعداد کے برابر بھی اعوان انصار میسر آتا تو آپ لوگوں کو صحیح راستے کی طرف لوٹا دیتے اور دین میں پیدا ہونے والی انحراف کا سد باب کرتے۔[14]
خطبہ طالوتیہ کے مضامین درج ذیل ہیں:
- خدا کی صفت حَی (زندہ ہونا) کی وضاحت
- خدا کا بے مثل اور بلا شبیہ ہونے کا بیان
- کائنات پر خدا کی دائمی سلطنت چاہے خلقت سے پہلے ہو یا کائنات کی نابودی کے بعد
- خدا کا زمان و مکان سے مبرا ہونا
- انسان میں خدا کے کنہ ذات کو درک کرنے صلاحیت کا نہ ہونا
- خدا کا بصیر، سمیع اور قدیر ہونا
- پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کی گواہی اور اسلام کا دوسرے تمام ادیان پر فوقیت
- مسلمانوں کا دھوکہ کھانا اور ہوائے نفسانی کی پیروی کرنا اور ولایت و امامت اہل بیتؑ کے واضح اور روشن راستے پر نہ چلنا
- اہل بیتؑ کی اطاعت اور پیروی دنیوی اور اخروی نعمتوں اور عاقبت بخیری کا ذریعہ
- اہل بیتؑ کی پیروی نہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کا صراط مستقیم سے دوری اور ان پر علم کا دروازہ بند ہونا اور ان میں اختلاف پیدا ہونا۔[15]
خطبہ کے بعد کے واقعات
ابن تیہان کی روایت کے مطابق خطبہ طالوتیہ کے اختتام اور امام علیؑ کا مسجد سے خارج ہونے کے بعد رات کے وقت 360 نفر نے آپ کی بیعت کی اور آپ کا غصب شدہ حق ملنے تک ثابت قدم رہنے کا عہد کیا۔ امام نے ان سے فرمایا کہ کل صبح سب اپنے سر کے بال منڈوا کر مدینہ کے اطراف میں احجار الزیت نامی مقام پر حاضر ہو جائیں، لیکن ان میں سے صرف ابوذر، مقداد، حُذیفہ بن یمان، عمار یاسر اور سلمان فارسی کے کوئی ایک بھی مقررہ وعدہ گاہ پر حاضر نہیں ہوئے۔ راوی کے مطابق جب امامؑ نے یہ حالت دیکھی تو خدا کی بارگاہ میں شکایت کی اور تأکید فرمایا پیغمبر اکرمؐ کی وصیت اور سفارش کی وجہ سے مسلمانوں کے اس طرز عمل پر صبر کریں گے۔[16]
متن اور ترجمہ
متن | ترجمہ سید ہاشم رسولی محلاتی |
عَنْ أَبِی الْہَیْثَمِ بْنِ التَّیِّہَانِ أَنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَؑ خَطَبَ النَّاسَ بِالْمَدِینَۃِ فَقَالَ |
ابی الہیثم بن تیہان سے مروی ہے کہ امیر مؤمنین حضرت علی علیہ السّلام نے مدینہ میں لوگوں کو خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا: |
الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کَانَ حَیّاً بِلَا کَیْفٍ وَ لَمْ یَکُنْ لَہُ کَانٌ وَ لَا کَانَ لِکَانِہِ کَیْفٌ وَ لَا کَانَ لَہُ أَیْنٌ وَ لَا کَانَ فِی شَیْءٍ وَ لَا کَانَ عَلَی شَیْءٍ وَ لَا ابْتَدَعَ لِکَانِہِ مَکَاناً وَ لَا قَوِیَ بَعْدَ مَا کَوَّنَ شَیْئاً وَ لَا کَانَ ضَعِیفاً قَبْلَ أَنْ یُکَوِّنَ شَیْئاً |
تعریف اس خدا کے لئے ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور حی ہے لیکن (اس کے زندہ ہونے کی) اس کی نوعیت معلوم نہیں، اور اس کا موجود ہونا پیدا ہونے کے معنی میں نہیں ہے، اور اس کے موجود ہونے کی نوعیت معلوم نہیں ہے، انہ اس کے لئے کوئی زمان و مکان ہے، اور نہ وہ کسی چیز کے اندر ہے اور نہ کسی چیز کے اوپر، اور نہ اس نے اپنے لئے کوئی جگہ بنائی ہے، کسی چیز کو پیدا کرنے کے بعد نہ اس میں کوئی نئی قدرت آتی ہے، اور نہ کسی چیز کو خلق کرنے سے پہلے اس میں کسی چیز کی کمی پائی جاتی تھی۔ |
وَ لَا کَانَ مُسْتَوْحِشاً قَبْلَ أَنْ یَبْتَدِعَ شَیْئاً وَ لَا یُشْبِہُ شَیْئاً وَ لَا کَانَ خِلْواً عَنِ الْمُلْکِ قَبْلَ إِنْشَائِہِ وَ لَا یَکُونُ خِلْواً مِنْہُ بَعْدَ ذَہَابِہِ کَانَ إِلَہاً حَیّاً بِلَا حَیَاۃٍ وَ مَالِکاً قَبْلَ أَنْ یُنْشِئَ شَیْئاً وَ مَالِکاً بَعْدَ إِنْشَائِہِ لِلْکَوْنِ وَ لَیْسَ یَکُونُ لِلَّہِ کَیْفٌ وَ لَا أَیْنٌ وَ لَا حَدٌّ یُعْرَفُ وَ لَا شَیْءٌ یُشْبِہُہُ وَ لَا یَہْرَمُ لِطُولِ بَقَائِہِ وَ لَا یَضْعُفُ لِذُعْرَۃٍ |
وہ مخلوقات کی تخلیق سے پہلے (تنہائی سے) خوفزدہ نہیں تھا، اور نہ وہ کسی چیز کے ساتھ شباہت رکھتا ہے۔ وہ نہ مخلوقات کی تخلیق سے پہلے حکومت اور بادشاہی سے بے بہرہ تھا، اور نہ سب کے جانے کے بعد ایسا ہوگا۔ خدا معبود اور حی ہے، نہ عارضی زندگی کے ساتھ (تاکہ زندگی اس کی ذات پر عارض ہو)، وہ کسی کی تخلیق سے پہلے بھی حاکم اور مالک تھا ، اور کائنات کی تخلیق کے بعد بھی وہ مالک ہے۔ اس کی نہ کوئی شکل و صورت ہے اور نہ اس کا کوئی مکان۔ اور اس کے لیے نہ کوئی حد و اندازہ ہے جس سے اس کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکے اور نہ کسی شئ سے اسے تشبیہ دی جا سکتی ہے اور نہ زیادہ دیر رہنے کی بنا پر وہ بوڑھا اور فرسودہ ہوگا اور نہ کسی کے خوف سے اس میں کوئی کمزوری آئے گی۔ |
وَ لَا یَخَافُ کَمَا تَخَافُ خَلِیقَتُہُ مِنْ شَیْءٍ وَ لَکِنْ سَمِیعٌ بِغَیْرِ سَمْعٍ وَ بَصِیرٌ بِغَیْرِ بَصَرٍ وَ قَوِیٌّ بِغَیْرِ قُوَّۃٍ مِنْ خَلْقِہِ لَا تُدْرِکُہُ حَدَقُ النَّاظِرِینَ وَ لَا یُحِیطُ بِسَمْعِہِ سَمْعُ السَّامِعِینَ إِذَا أَرَادَ شَیْئاً کَانَ بِلَا مَشُورَۃٍ وَ لَا مُظَاہَرَۃٍ وَ لَا مُخَابَرَۃٍ وَ لَا یَسْأَلُ أَحَداً عَنْ شَیْءٍ مِنْ خَلْقِہِ أَرَادَہُ لا تُدْرِکُہُ الْأَبْصارُ وَ ہُوَ یُدْرِکُ الْأَبْصارَ وَ ہُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ |
اور خدا مخلوقات کی طرح کسی سے نہیں ڈرتا، وہ بغیر کان کے سننے والا اور بغیر آنکھ کے دیکھنے والا ہے، اور اپنی مخلوقات کی توانائی کے بغیر قدرت رکھنے والا ہے، نہ دیکھنے والوں کی آنکھیں اسے دیکھ سکتیں ہیں اور نہ سننے والوں کے کانوں میں اسے احاطہ کیا جا سکے گا (یعنی کان کے ذریعے اس کے اوصاف سن کر اس کی کنہ حقیقت تک پہنچ نہیں سکتا)۔ جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرے تو کسی کے مشورے اور مدد کی ضرورت نہیں ہے اور نہ کسی سے کوئی پیشگی اطلاع لینے کی ضرورت ہے، اور اپنے مخلوقات کے بارے میں جس چیز کا ارادہ کرے اس حوالے سے کسی سے کوئی سوال کرتا ہے، دیکھنے والی آنکھیں اسے دیکھ نہیں سکتیں لیکن وہ ان آنکھوں سے واقف ہیں اور خدا کی ذات ناپیدا اور دانا ہے۔ |
وَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ وَ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَ رَسُولُہُ أَرْسَلَہُ بِالْہُدی وَ دِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ* فَبَلَّغَ الرِّسَالَۃَ وَ أَنْہَجَ الدَّلَالَۃَ ص- |
اور میں گواہی دیتا ہوں کی خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی شریک ہے، اور گواہی دیتا ہوں محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے جسے خدا نے لوگوں کی رہنمائی کے لئے سچے دین کے ساتھ مبغوث کیا ہے تاکہ یہ دین تمام ادیان پر کامیابی حاصل کرے اگرچہ مشرکین کو یہ پسند نہ آئے۔ پس آنحضرت نے اپنی رسالت کی ذمہ داری ادا کی اور لوگوں تک اپنا پیغام پہنچایا اور راستے کو آشکار اور واضح دکھا دیا - ان پر اور ان کی آل پر خدا کا درود و سلام ہو- |
أَیُّہَا الْأُمَّۃُ الَّتِی خُدِعَتْ فَانْخَدَعَتْ وَ عَرَفَتْ خَدِیعَۃَ مَنْ خَدَعَہَا فَأَصَرَّتْ عَلَی مَا عَرَفَتْ وَ اتَّبَعَتْ أَہْوَاءَہَا وَ ضَرَبَتْ فِی عَشْوَاءِ غَوَایَتِہَا وَ قَدِ اسْتَبَانَ لَہَا الْحَقُّ فَصَدَّتْ عَنْہُ وَ الطَّرِیقُ الْوَاضِحُ فَتَنَکَّبَتْہُ |
اے فریب دینے پر دھوکہ کھانے والی امت، دھوکہ دینے والے کے دھوکے کو پہنچننے کے بعد بھی اسی فریب پر مصر رہی اور خواہشات نفسانی کی پیروی کی اور حقیقت آشکار ہونے کے بعد بھی اس کی پیروی کرنے سے سرپیچی کرتے ہوئے گمراہی اور ظلمت پر باقی رہنے کو ترحیج دی اور واضح اور آشکار راستے پر چلنے سے باز رہی۔ |
أَمَا وَ الَّذِی فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَ بَرَأَ النَّسَمَۃَ لَوِ اقْتَبَسْتُمُ الْعِلْمَ مِنْ مَعْدِنِہِ وَ شَرِبْتُمُ الْمَاءَ بِعُذُوبَتِہِ وَ ادَّخَرْتُمُ الْخَیْرَ مِنْ مَوْضِعِہِ وَ أَخَذْتُمُ الطَّرِیقَ مِنْ وَاضِحِہِ وَ سَلَکْتُمْ مِنَ الْحَقِّ نَہْجَہُ لَنَہَجَتْ بِکُمُ السُّبُلُ وَ بَدَتْ لَکُمُ الْأَعْلَامُ وَ أَضَاءَ لَکُمُ الْإِسْلَامُ فَأَکَلْتُمْ رَغَداً وَ مَا عَالَ فِیکُمْ عَائِلٌ وَ لَا ظُلِمَ مِنْکُمْ مُسْلِمٌ وَ لَا مُعَاہَدٌ |
اس خدا کی قسم جس نے دانے کو چیر کر مخلوقات (حیوان و انسان) تخلیق کی، اگر علم و دانش کو اس کے معدن اور منبع سے لے لیتے، اور پانی کو صاف و شفاف پیی لیتے، اور خیر و نیکی کو اس کے اصل مقام سے حاصل کر لیتے، اور راستے کے روشن حصے پر چلنے لگتے، اور حق اور صحیح راستے پر قدم رکھتے، تو تمام راستے تمہارے لئے روشن اور واضح ہو جاتے اور تمام نشانیاں تمہارے لئے آشکار ہو جاتیں اور اسلام تمہارے لئے واضح اور آشکار ہو جاتے اور تم آسودہ زندگی بسر کرتے، اور تمہارے درمیا کوئی مصیبت میں گرفتار نہ ہوتے اور نہ کسی مسلمان یا غیر مسلم پر جو تمہارا ہم پیمان ہو ظلم و ستم ڈھائے جاتے، |
وَ لَکِنْ سَلَکْتُمْ سَبِیلَ الظَّلَامِ فَأَظْلَمَتْ عَلَیْکُمْ دُنْیَاکُمْ بِرُحْبِہَا وَ سُدَّتْ عَلَیْکُمْ أَبْوَابُ الْعِلْمِ فَقُلْتُمْ بِأَہْوَائِکُمْ وَ اخْتَلَفْتُمْ فِی دِینِکُمْ فَأَفْتَیْتُمْ فِی دِینِ اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَ اتَّبَعْتُمُ الْغُوَاۃَ فَأَغْوَتْکُمْ وَ تَرَکْتُمُ الْأَئِمَّۃَ فَتَرَکُوکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ تَحْکُمُونَ بِأَہْوَائِکُمْ إِذَا ذُکِرَ الْأَمْرُ سَأَلْتُمْ أَہْلَ الذِّکْرِ فَإِذَا أَفْتَوْکُمْ قُلْتُمْ ہُوَ الْعِلْمُ بِعَیْنِہِ |
لیکن تم لوگوں نے راستے کے تاریک حصے پر چلنا شروع کیا، پس دنیا اپنی تمام وسعتوں کے باوجود تم پر تاریک ہو گیا، اور تم پر علم و دانش کا دروازہ بند ہوگیا، پس تم نے اپنی خواہشات کے مطابق زبان کھولی، اور دین میں اختلاف کا راستہ اپنایا اور نادانستہ طور پر دین خدا میں فتوا دینا شروع کیا، اور گمراہ لوگوں کی پیروی کی جنہوں نے تمہیں گمراہ کر دیا، اپنے اماموں اور پیشواوں کو چھوڑ دیا جس پر انہوں نے بھی تمہیں چھوڑ دیا، جس کی بنا پر تمہاری یہ حالت ہو گئی ہے کہ اپنی پسند کے مطابق حکم کرتے ہو، لیکن جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو تم اہل ذکر سے اس سے متعلق پوچھتے، جب وہ اس کا جواب دیتے تو تم عاجزی کے ساتھ یہی کہتے کہ ہاں حقیقت یہی ہے، |
فَکَیْفَ وَ قَدْ تَرَکْتُمُوہُ- وَ نَبَذْتُمُوہُ وَ خَالَفْتُمُوہُ رُوَیْداً عَمَّا قَلِیلٍ تَحْصُدُونَ جَمِیعَ مَا زَرَعْتُمْ وَ تَجِدُونَ وَخِیمَ مَا اجْتَرَمْتُمْ وَ مَا اجْتَلَبْتُمْ وَ الَّذِی فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَ بَرَأَ النَّسَمَۃَ لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّی صَاحِبُکُمْ وَ الَّذِی بِہِ أُمِرْتُمْ وَ أَنِّی عَالِمُکُمْ وَ الَّذِی بِعِلْمِہِ نَجَاتُکُمْ وَ وَصِیُّ نَبِیِّکُمْ وَ خِیَرَۃُ رَبِّکُمْ وَ لِسَانُ نُورِکُمْ وَ الْعَالِمُ بِمَا یُصْلِحُکُمْ فَعَنْ قَلِیلٍ رُوَیْداً یَنْزِلُ بِکُمْ مَا وُعِدْتُمْ وَ مَا نَزَلَ بِالْأُمَمِ قَبْلَکُمْ وَ سَیَسْأَلُکُمُ اللَّہُ عَزَّ وَ جَلَّ عَنْ أَئِمَّتِکُمْ مَعَہُمْ تُحْشَرُونَ وَ إِلَی اللَّہِ عَزَّ وَ جَلَّ غَداً تَصِیرُونَ |
پس کیا ہوا کہ (اس اقرار اور اعتراف کے باوجود) ان کو چھوڑ دیا؟ اور ان کو ترک کر دیا اور ان کی مخالفت کی؟ پس منتظر رہو بہت جلد جو کچھ تم نے بویا ہے اسے کاٹو گے، اور تمہارے جرائم کے برے انجام سے تم دوچار ہونگے، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو چھیر کر جانداروں کو خلق فرمایا، تم اچھی طرح جان گئے ہو کہ تمہارا حقیقی حاکم جس کی اطاعت پر تم لوگ مأمور ہو وہ میں ہوں، اور میں ہوں تمہارے درمیان دین کا حقیقی علم رکھنے والا اور تمہار نجات جس کے علم و دانش سے وابستہ ہے وہ میں ہوں، میں تمہارے نبی اور خدا کے برگزیدہ ہستی کا وصی میں ہوں، میں ہوں زبان نور (یعنی رسول خدا یا قرآن) اور تمہاری مصلحتوں کو جاننے والا میں ہوں، عنقریب تم اس مقام پر پہنچو گے جس کا تم کو وعدہ دیا گیا ہے، اور جو کچھ تم سے پہلے والی امتوں پر گذر گئی ہے، اور عنقریب خدا تم سے تمہارے اماموں اور پیشواؤں کے بارے میں سوال کرے گا، تمہیں خدا ان کے ساتھ محشور کرے گا، اور کل محشر کو خدائے عز و جل کی طرف سب نے لوٹ کر جانا ہے، |
أَمَا وَ اللَّہِ لَوْ کَانَ لِی عِدَّۃُ أَصْحَابِ طَالُوتَ أَوْ عِدَّۃُ أَہْلِ بَدْرٍ وَ ہُمْ أَعْدَاؤُکُمْ لَضَرَبْتُکُمْ بِالسَّیْفِ حَتَّی تَئُولُوا إِلَی الْحَقِّ وَ تُنِیبُوا لِلصِّدْقِ فَکَانَ أَرْتَقَ لِلْفَتْقِ وَ آخَذَ بِالرِّفْقِ اللَّہُمَّ فَاحْکُمْ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَ أَنْتَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ- |
ہان (خدا کی قسم) اگر اصحاب طالوت کی تعداد کے برابر یا اہل بدر کی تعداد کے برابر ساتھ دینے والے ہوتے اور وہ تمہارے ہمطراز ہوتے تو میں ہر حالت میں تلوار سے تم کو اس وقت تک مارتا جب تک تم حق کی طرف پلٹ کر نہ آتے اور سچائی کو اختیار نہ کرتے، اور یہ کام دین میں پیدا ہونے والے اختلاف کے شگاف کو بند کرنے کے لئے بہتر اور رفق و مدارا کے ساتھ زیادہ موافق ہوتا۔ خدایا آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما کہ آپ سب سے بہتر فیصلہ دینے والا ہے۔ |
قَالَ ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْمَسْجِدِ فَمَرَّ بِصِیرَۃٍ فِیہَا نَحْوٌ مِنْ ثَلَاثِینَ شَاۃً فَقَالَ وَ اللَّہِ لَوْ أَنَّ لِی رِجَالًا یَنْصَحُونَ لِلَّہِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لِرَسُولِہِ بِعَدَدِ ہَذِہِ الشِّیَاہِ لَأَزَلْتُ ابْنَ آکِلَۃِ الذِّبَّانِ عَنْ مُلْکِہِ |
راوی کہتا ہے: اس کے بعد آنحضرت مسجد سے باہر چلے گئے اور ایک چار دیواری میں پہنچ گئے جس میں تقریبا 30 بھیڑیں تھیں، اس وقت آپ نے فرمایا: خدا کی قسم اگر میرے لئے ان بھیڑوں کی تعداد کے برابر حمایت کرنے والے مرد میسر آتے جو خدا اور اس کے رسول کی خاطر میرا ساتھ دیتے تو ہر حالت میں مکھی کھانے والی عورت کے بیٹے کو حکومت اور فرمانروائی سے ہتا دیتا۔ |
قَالَ فَلَمَّا أَمْسَی بَایَعَہُ ثَلَاثُمِائَۃٍ وَ سِتُّونَ رَجُلًا عَلَی الْمَوْتِ فَقَالَ لَہُمْ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ ع اغْدُوا بِنَا إِلَی أَحْجَارِ الزَّیْتِ مُحَلِّقِینَ وَ حَلَقَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ ع فَمَا وَافَی مِنَ الْقَوْمِ مُحَلِّقاً إِلَّا أَبُو ذَرٍّ وَ الْمِقْدَادُ وَ حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ وَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ وَ جَاءَ سَلْمَانُ فِی آخِرِ الْقَوْمِ فَرَفَعَ یَدَہُ إِلَی السَّمَاءِ فَقَالَ- اللَّہُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِی کَمَا اسْتَضْعَفَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ ہَارُونَ اللَّہُمَّ فَإِنَّکَ تَعْلَمُ ما نُخْفِی وَ ما نُعْلِنُ وَ ما یَخْفی عَلَیْکَ شَیْءٍ فِی الْأَرْضِ وَ لا فِی السَّماءِ ۔۔۔ تَوَفَّنِی مُسْلِماً وَ أَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ |
جب شام ہو گئی تو 360 آدمیوں نے آپ کی بیعت کی (جان جانے تک ثابت قدم رہنے کا وعدہ دیا) امیر المؤمنین علیہ السّلام نے ان سے کہا: کل صبح سب کے سب سروں کو منڈوا کر «احجار الزیت» (مدینہ کے اطراف میں ایک جگہے کا نام) میں حاضر ہو جائیں (اور بال منڈوانے کا حکم ان کی وفاداری کو آزمانے کے لئے دیا تھا)۔ خود امیر المؤمنین علیہ السّلام نے بھی بال منڈوایا لیکن دوسرے دن ان 360 میں سے سوائے ابوذر، مقداد، حذیفۃ بن یمان، عمار بن یاسر اور سلمان کے سوا کوئی مقررہ جگہنے پر حاضر نہ ہوا۔ علی علیہ السّلام (نے جب یہ دیکھا) نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر فرمایا: خدایا ان لوگوں نے مجھے ذلیل کیا، جس طرح بنی اسرائیل نے حضرت ہارون کو خوار کیا ہے۔ خدایا آپ بخوبی جانتے ہیں جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ہم آشکار کرتے ہیں، اور آسمان اور زمین میں آپ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے، مجھے مسلمان رہ کر اس دنیا سے اٹھا لے اور نیک اور صالح افراد کے ساتھ مجھے محشور فرما۔ |
أَمَا وَ الْبَیْتِ وَ الْمُفْضِی إِلَی الْبَیْتِ- [وَ فِی نُسْخَۃٍ وَ الْمُزْدَلِفَۃِ] وَ الْخِفَافِ إِلَی التَّجْمِیرِ- لَوْ لَا عَہْدٌ عَہِدَہُ إِلَیَّ النَّبِیُّ الْأُمِّیُّ ص لَأَوْرَدْتُ الْمُخَالِفِینَ خَلِیجَ الْمَنِیَّۃِ وَ لَأَرْسَلْتُ عَلَیْہِمْ شَآبِیبَ صَوَاعِقِ الْمَوْتِ وَ عَنْ قَلِیلٍ سَیَعْلَمُونَ۔ |
خانہ کعبہ اور اس کی طرف آنے والوں (یا خانہ کعبہ کی طرف ہاتھ بڑھانے والے)- کی قسم ایک اور نسخے میں ہے کہ آپ نے فرمایا: مزدلفۃ اور رمی جمرہ کے لئے دوڑنے والوں کی قسم- اگر پیغمبر امی مجھے وصیت اور سفارش نہ کی ہوتی تو میں ہر صورت میں اپنے مخالفین کو موت کے دریا میں گرا دیتا تیز بارش کی طرح موت کو ان کے سروں پر گرا دیتا کہ وہ جلد ہی اس بات سے واقف ہو جاتے۔ |
حوالہ جات
- ↑ حسینی طہرانی، امامشناسی، 1426ھ، ج10، ص151-152۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص31-33۔
- ↑ مازندرانی، شرح الکافی، 1382ھ، ج11، ص270۔
- ↑ حسینی طہرانی، امامشناسی، 1426ھ، ج10، ص151-152؛ پاکنیا، «ابوہیثم ابن تیہان انصاری» ص83۔
- ↑ حسینی طہرانی، امامشناسی، 1426ھ، ج10، ص157۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص31-33۔
- ↑ مجلسی، مراۃ العقول، 1404ھ، ج25، ص70۔
- ↑ مازندرانی، شرح الکافی، 1382ھ، ج11، ص271-274۔
- ↑ مازندرانی، شرح الکافی، 1382ھ، ج11، ص274۔
- ↑ مازندرانی، شرح الکافی، 1382ھ، ج11، ص279۔
- ↑ مازندرانی، شرح الکافی، 1382ھ، ج11، ص276-278۔
- ↑ حسینی طہرانی، امامشناسی، 1426ھ، ج10، ص151-152۔
- ↑ مازندرانی، شرح الکافی، 1382ھ، ج11، ص275-276۔
- ↑ مازندرانی، شرح الکافی، 1382ھ، ج11، ص279-280۔
- ↑ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ص70-76؛ مازندرانی، شرح الکافی، 1382ھ، ج11، ص276-278؛ ابنقاریاغدی، البضاعۃ المزجاۃ، 1429ھ، ج1، ص358-380۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص33۔
مآخذ
- ابنقاریاغدی، محمدحسین، البضاعۃ المزجاۃ (شرح کتاب الروضۃ من الکافی)، تحقیق حمید احمدی جلفایی، قم، دارالحدیث، چاپ اول، 1429ھ۔
- پاکنیا، عبدالکریم، «ابوہیثم ابن تیہان انصاری: الگوی رشادت (بخش دوم)»، در نشریہ فرہنگ کوثر، شمارہ 48* 1379ہجری شمسی۔
- حسینی طہرانی، محمدحسین، امامشناسی، مشہد، نشر علامہ طباطبایی، 1426ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علىاكبر غفارى و محمد آخوندى، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- مازندرانی، محمدصالح بن احمد، شرح الکافی، تصحیح ابوالحسن شعرانی، تہران، المکتبۃ الإسلامیۃ، چاپ اول، 1382ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، بہتحقیق: ہاشم رسولی محلاتی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ دوم، 1404ھ۔