فہرست آیات مہدویت

ویکی شیعہ سے

آیات مہدویت قرآن مجید کی وہ آیات ہیں جن کی تفسیر میں مہدویت سے مربوط مطالب جیسے: ظہور، قیام، غیبت اور حکومت حضرت مہدی(عج) کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ ان آیات کی تفسیر یا تاویل میں اہلبیتؑ کی روایت سے استناد ہوا ہے۔

ردیف متن و ترجمہ آیہ نمبر تفسیر
1 وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ‌ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ‌ أَنَّ الْأَرْ‌ضَ يَرِ‌ثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ
اور ہم نے ذکر (توراۃ یا پند و نصیحت) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔
انبیاء 105 امام باقرؑ سے منقول ہے کہ صالحون سے مراد آخر الزمان میں امام زمانہؑ کے اصحاب ہیں۔[1]
2 وَنُرِ‌يدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْ‌ضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِ‌ثِينَ
اور ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جنہیں زمین میں کمزور کر دیا گیا تھا اور انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں (زمین کا) وارث قرار دیں۔
قصص 5 امام علیؑ کی ایک حدیث میں الذین استضعفوا، کی تفسیر آل محمدؑ سے ہوئی ہے کہ حضرت مہدیؑ اپنے دشمنوں کو خوار کریں گے۔[2]
3 وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ...
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح جانشین بنائے گا؛...؛...
نور 55 شیخ طوسی کے بقول، اہل بیتؑ سے روایت ہوئی ہے کہ یہ آیت حضرت مہدیؑ کے بارے میں ہے۔[3]
4 ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَ‌يْبَ ۛ فِيهِ ۛهُدًى لِّلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ...
یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس (کے کلام اللہ ہونے) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ (یہ) ہدایت ہے ان پرہیزگاروں کے لیے۔ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور پورے اہتمام سے نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ (میری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔
بقره 1-3 امام صادقؑ سے روایت منقول ہے کہ یہ آیت حضرت قائم اور ان کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کسی باہمی وعدہ یا عہد و پیمان کے بغیر جمع ہونگے۔[4]
5 ... أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ...
تم جہاں بھی ہوگے اللہ تم سب کو (جزا و سزا کے لئے ایک جگہ) لے آئے گا۔
بقره 148 امام صادقؑ سے روایت منقول ہے کہ یہ آیت حضرت قائم اور ان کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کسی باہمی وعدہ یا عہد و پیمان کے بغیر جمع ہونگے۔[5]
6 وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ...
اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے خوف و خطر، اور کچھ بھوک (و پیاس) اور کچھ مالوں، جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ساتھ ...
[[سورہ بقرہ|بقرہ 155 امام صادقؑ نے ایک روایت میں ظہور کی نشانیاں بیان کرنے کے بعد اس آیت کی تلاوت کی۔[6]
7 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُ‌وا وَصَابِرُ‌وا وَرَ‌ابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو! صبر و تحمل سے کام لو۔ اور (کفار کے) مقابلہ میں پامردی دکھاؤ۔ اور (خدمت دین کے لیے) کمربستہ رہو۔ تاکہ تم فوز و فلاح پاؤ (اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جاؤ)۔
آل عمران 200 امام باقرؑ کی ایک روایت میں امام زمانہ کا انتظار کرنے والوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک مرابطہ کا ذکر ہوا ہے۔[7]
8 وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّ‌سُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَ‌فِيقًا
جو اللہ اور رسول(ص) کی اطاعت کرے گا۔ تو ایسے لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے خاص انعام کیا ہے۔ یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہ بہت اچھے رفیق ہیں۔
نساء 69 امام صادقؑ کی ایک حدیث میں، حسن اولئک رفیقاً سے امام زمانہ تفسیر کیا ہے۔ [8]
9 هُوَ الَّذِي أَرْ‌سَلَ رَ‌سُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَ‌هُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِ‌هَ الْمُشْرِ‌كُونَ
وہ (اللہ) وہی ہے جس نے ہدایت اور دینِ حق دے کر اپنے رسول کو بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک اسے ناپسند ہی کریں۔
توبہ 33
صف 9
امام مہدی کی حکومت کا عالمی ہونا[9]
10 وَذَكِّرْ‌هُم بِأَيَّامِ اللَّـهِ
اور انہیں اللہ کے مخصوص دن یاد دلاؤ
ابراہیم 5 امام باقرؑ سے روایت ہوئی ہے کہ اللہ تعالی کے ایام، تین دن ہیں: جس دن قائم قیام فرماینگے، رجعت کا دن اور روز قیامت. [10]
11 قَالَ رَ‌بِّ فَأَنظِرْ‌نِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِ‌ينَ إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ
اس نے کہا کہ اے میرے رب! مجھے اس دن تک مہلت دے جب لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا بے شک تو مہلت پانے والوں میں سے ہے۔ (جنہیں) وقتِ معلوم تک مہلت دی گئی ہے۔
حجر 36-38 امام صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق اس آیت میں وقت معلوم سے مراد قائم آل محمدؐ کا قیام ہے۔[11]
12 وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْ‌آنَ الْعَظِيمَ
اور بلاشبہ ہم نے آپ کو دہرائی جانے والی سات آیتیں عطا کی ہیں اور قرآنِ عظیم بھی۔
حجر 87 قرآن العظیم کی امام زمانہ سے تفسیر کی گئی ہے۔[12]
13 ...وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِ‌ف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورً‌ا
...اور جو شخص ناحق قتل کیا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قصاص کا) اختیار دے دیا ہے پس چاہیئے کہ وہ قتل میں حد سے آگے نہ بڑھے ضرور اس کی مدد کی جائے گی۔
اسراء 33 بعض روایات کے مطابق یہ آیت امام حسینؑ اور ان کے خونخواہ حضرت مہدیؑ کے بارے میں ہے۔[13]
14 وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
اور کہیئے! کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ یقیناً باطل تو تھا ہی مٹنے والا۔
اسراء 81 اس آیت کی تفسیر کے بارے میں امام باقرؑ سے منقول ہے کہ جب امام قائمؑ قیام کریں گے تو باطل حکومت نابود ہوگی۔ [14]
15 يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا
جو کچھ لوگوں کے آگے ہے (آنے والے حالات) اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے (گزرے ہوئے واقعات) وہ سب کچھ جانتا ہے مگر لوگ اپنے علم سے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
طہ 110 امام صادقؑ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ «وَمَا خَلْفَهُمْ»، سے مراد حضرت مہدی سے متعلق اخبار ہیں۔[15]
16 وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا
اور ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں عزم و ثبات نہ پایا۔
طہ 115 امام باقرؑ کی ایک روایت کے مطابق اس آیت کی تفسیر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام سے اپنی ربوبیت، پیغمبر اکرمؐ کی نبوت، شیعہ ائمہؑ کی امامت کا عہد لیا نیز اس بات کا بھی پیمان لیا کہ مہدیؑ کے ذریعے دین کی نصرت ہوگی، ان کے توسط حکومت آشکار ہوگی اور دشمنوں سے انتقال لےگا۔[16]
17 قُلْ كُلٌّ مُّتَرَ‌بِّصٌ فَتَرَ‌بَّصُوا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَ‌اطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَىٰ
آپ کہہ دیجئے! کہ ہر ایک اپنے (انجام کا) انتظار کر رہا ہے سو تم بھی انتظار کرو۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ سیدھی راہ والے کون ہیں؟ اور ہدایت یافتہ کون ہیں۔
طہ 135 امام کاظمؑ کی ایک روایت میں صراط السوی (درمیانی راستہ) سے مراد حضرت قائم کو قرار دیا ہے اور ہدایت اسے ملے گی جس نے ان کی اطاعت کی ہے۔[17]
18 وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ
اور ہم جزا و سزا کے دن کو جھٹلاتے تھے۔ یہاں تک کہ یقینی چیز (موت) ہمارے سامنے آگئی۔
مدثر 46-47 یوم الدین کو روز قائم سے اور یقین کو حضرت مہدیؑ کے ظہور سے تفسیر کیا ہے۔[18]
19 وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَ‌ةً وَبَاطِنَةً
اور اپنی سب ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں
لقمان 20 امام موسی کاظمؑ کی ایک روایت میں باطنی نعمت کو امام غائب سے تفسیر کیا ہے۔[19]
20 وَلَئِن جَاءَ نَصْرٌ‌ مِّن رَّ‌بِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ
اور اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے کوئی مدد پہنچ جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم (بھی) تو تمہارے ساتھ تھے۔
عنکبوت 10 امام صادقؑ سے مروی ہے کہ اللہ کی مدد اور نصرت سے مراد حضرت قائمؑ ہیں۔[20]
21 وَيُرِ‌يدُ اللَّـهُ أَن يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ‌ الْكَافِرِ‌ينَ لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِ‌هَ الْمُجْرِ‌مُونَ
اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام و احکام کے ذریعہ سے حق کو ثابت کر دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔ تاکہ حق کو حق کرکے اور باطل کو باطل کرکے دکھا دے اگرچہ مجرم لوگ اس بات کو کتنا ہی ناپسند کریں (یعنی خدا چاہتا تھا کہ تمہاری مسلح گروہ سے مڈبھیڑ ہو)۔
انفال 7-8 امام باقر کی ایک روایت میں باطل کو نابود کرنے والے سے مراد امام زمان لیا ہے۔[21]
22 إِنَّ اللَّـهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي
خدا ایک نہر کے ساتھ تمہاری آزمائش کرنے والا ہے (دیکھو) جو شخص اس سے پانی پی لے گا اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہ ہوگا
بقرہ 249 اس آیت کے ذیل میں امام صادقؑ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ امام زمانہؑ کے یار و انصار سے بھی طالوت کے یار و انصار کی طرح امتحان لیا جائے گا۔[22]
23 وَالْعَصْرِ‌ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ‌
قَسم ہے زمانے کی۔ یقیناً (ہر) انسان گھاٹے میں ہے۔
عصر امام صادقؑ کی ایک روایت میں ذکر ہوا ہے کہ اس آیت میں عصر سے مراد حضرت قائمؑ کے ظہور اور خروج کا وقت ہے۔[23]
24 وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ
اور یہی نہایت (صحیح اور) درست دین ہے۔
بینہ 25 امام صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق «دِينُ الْقَيِّمَة» سے مراد حضرت مہدیؑ ہیں۔[24]
25 سَلَامٌ هِىَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ‌
وہ (رات) سراسر سلامتی ہے طلوعِ صبح تک۔
قدر 5 امام صادقؑ کی ایک حدیث کے مطابق «مَطْلَعِ الْفَجْر» کو حضرت مہدیؑ کے طلوع فجر سے تعبیر کیا ہے۔[25]
26 وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّی
اور قَسم ہے دن کی جب کہ وہ روشن ہو جائے۔
لیل 2 اس آیت کے ذیل میں، ائمہؑ کی بعض روایات کے مطابق دن سے مراد امام زمانہؑ کا ظہور ہے۔[26]
27 وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا
دن کی جب وہ اس (سورج) کو خوب روشن کر دے۔
شمس 3 امام صادقؑ کی ایک کے مطابق اس آیت میں دن سے مراد حضرت قائمؑ ہیں۔ [27]
28 وَالْفَجْرِ
قَسم ہے صبح کی۔
فجر 1 اس آیت میں امام صادقؑ نے فجر کی تفسیر امام زمانہؑ سے کیا ہے۔ [28]
29 وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ
قَسم ہے بُرجوں (قلعوں) والے آسمان کی۔
بروج 1 رسول اکرمؐ سے منقول ہے کہ اس آیت میں بروج سے مراد ائمہؑ ہیں جن میں سب سے پہلا امام علیؑ اور آخری امام مہدیؑ ہیں۔[29]
30 هَلْ أَتَاک حَدِیثُ الْغَاشِیةِ وُجُوهٌ یوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ تَصْلَیٰ نَارًا حَامِیةً
کیا تمہیں (کائنات پر) چھا جانے والی (مصیبت یعنی قیامت) کی خبر پہنچی ہے؟ اس دن کچھ چہرے ذلیل (اترے ہوئے) ہوں گے۔ سخت محنت کرنے والے (نڈھال اور) تھکے ماندے ہوں گے۔ وہ دہکتی ہوئی آگ میں پڑیں گے (اور جھلسیں گے)۔
غاشیہ 1-4 امام صادقؑ کی ایک روایت میں اس آیت کو حضرت مہدیؑ سے تفسیر کیا ہے۔[30]
31 فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوَارِ‌ الْكُنَّسِ
تو نہیں! میں قَسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے۔ سیدھے چلنے اور چھپ جانے والے ستاروں کی۔
تکویر 15-16 امام باقرؑ کی ایک روایت کے مطابق یہ آیت امام زمانہؑ کی غیبت اور ظہور کی طرف اشارہ کرتی ہے۔[31]
32 فَذَٰلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ‌ عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ غَيْرُ‌ يَسِيرٍ‌
تو وہ دن بڑا سخت دن ہوگا۔ اور کافروں پر آسان نہ ہوگا
مدثر 10-9 امام صادقؑ سے منقول ہے کہ یہ آیت امام زمانہؑ کی غیبت اور ظہور کی طرف اشارہ کرتی ہے۔[32]
33 حَتَّىٰ إِذَا رَ‌أَوْا مَا يُوعَدُونَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِرً‌ا وَأَقَلُّ عَدَدًا
(یہ لوگ اپنی کجروی سے باز نہیں آئیں گے) یہاں تک کہ جب وہ وہ چیز (عذاب) دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ وعید کیا جا رہا ہے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ مددگار اور تعداد کی حیثیت سے کون زیادہ کمزور ہے۔
جن 24 امام کاظمؑ کی ایک روایت میں اس آیت سے مراد، امام زمانہ اور ان کے اصحاب لیا ہے۔[33]
34 خَاشِعَةً أَبْصَارُ‌هُمْ تَرْ‌هَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۚ ذَٰلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ
ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی (اور) ان پر ذلت و رسوائی چھائی ہوگی۔ یہی وہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ وعید کیا جاتا تھا۔
معارج 44 اس آیت کی تفسیر میں امام باقرؑ فرماتے ہیں کہ روز موعود سے مراد، حضرت مہدیؑ کے خروج اور ظہور کا دن ہے[34]
35 وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ
اور جو جزا و سزا کے دن کی تصدیق کرتے ہیں۔
معارج 26 امام باقرؑ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں: روز جزا سے مراد حضرت قائم کے ظہور اور خروج کا دن ہے۔[35]
36 قُلْ أَرَ‌أَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرً‌ا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ
آپؐ کہیے! کیا تم نے غور کیا ہے کہ اگر تمہارا پانی زمین کی تہہ میں اترجائے تو پھر تمہارے لئے (شیریں پانی کا) چشمہ کون لائے گا؟
ملک 30 ائمہؑ احادیث میں اس آیت کو حضرت مہدی کے ظہور اور عالمی عدالت سے تفسیر ہوئی ہے۔[36]
37 يُرِ‌يدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ‌ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِ‌هِ وَلَوْ كَرِ‌هَ الْكَافِرُ‌ونَ
یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (پھونکوں) سے بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو کامل کرکے رہے گا اگرچہ کافر لوگ ناپسند ہی کریں۔
صف 8 «اللہ اپنے نور کو کامل کرکے رہے گا» کے بارے میں امام موسی کاظمؑ سے منقول ہے کہ حضرت قائمؑ کی ولایت کمال کے مرحلے تک پہنچے گی۔[37]
38 اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي الْأَرْ‌ضَ بَعْدَ مَوْتِهَا
خوب جان لو کہ اللہ زمین کو زندہ کرتا ہے اس کی موت کے بعد۔
حدید 17 امام باقرؑ کی روایت میں حضرت مہدیؑ کے توسط زمین زندہ کرنے سے تفسیر ہوئی ہے۔[38]
39 يُعْرَ‌فُ الْمُجْرِ‌مُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ
مجرم اپنے چہروں (اپنی علامتوں) سے پہچان لئے جائیں گے اور پھر پیشانیوں اور پاؤں سے پکڑے جائیں گے (اور جہنم میں پھینک دئیے جائیں گے)۔
الرحمن 41 قیام کے دوران اللہ تعالی امام زمانہ کو چہروں کی شناخت عطا کرتا ہے۔[39]
40 فَوَرَ‌بِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنطِقُونَ
پس قَسم ہے آسمان و زمین کے پروردگار کی کہ یہ بات حق ہے جیسے کہ تم بو لتے ہو۔
ذاریات 23 امام زین العابدینؑ کی ایک روایت میں «حق» کو امام زمانہ کے قیام سے تفسیر کیا ہے۔[40]
41 وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِ‌يبٍ يَوْمَ يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُرُ‌وجِ
اور غور سے سنو اس دن کا حال جب ایک منادی بہت قریب سے ندا دے گا۔ جس دن سب لوگ ایک زوردار آواز کو بالیقین سنیں گے وہی دن (قبروں سے) نکلنے کا ہوگا۔
ق 41-42 امام صادقؑ کی ایک حدیث میں صیحہ کو امام زمانہ کے نام سے اور یوم الخروج کو قیام امام زمانہ سے تفسیر کیا ہے۔[41]
42 لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
اگر وہ (اہلِ ایمان) الگ ہو جاتے تو ہم ان (اہلِ مکہ) میں سے کافروں کو دردناک سزا دیتے۔
فتح 25 امام صادقؑ کی ایک روایت میں اس آیت سے مراد منافقوں اور کفار کی سزا کو ان کے صلب میں موجود مومن افراد کے ظہور تک موخر ہونے کو لیا ہے۔[42]
43 قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُ‌وا لِلَّذِينَ لَا يَرْ‌جُونَ أَيَّامَ اللَّـهِ لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
ا(اے رسول(ص)) ایمان والوں سے کہیے! کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو اللہ کے (خاص) دنوں کی امید نہیں رکھتے تاکہ اللہ ایک قوم کو اس کے ان سارے اعمال کا بدلہ دے جو وہ کیا کرتے تھے۔
جاثیہ 14 امام صادقؑ کی ایک حدیث میں امام زمانہ کے قیام کے دن کو ایام الله قرار دیا ہے۔[43]
44 هَلْ يَنظُرُ‌ونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُ‌ونَ
کیا یہ لوگ بس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ اچانک ان پر آجائے کہ انہیں خبر بھی نہ ہو۔
زخرف 66 «ساعةَ بغتةً» سے مراد امام باقرؑ کی ایک روایت میں امام زمانہؑ کا ظہور اور قیام لیا ہے۔[44]
45 وَلَمَنِ انتَصَرَ‌ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ
اور جو شخض بھی ظلم کے بعد بدلہ لے اس کے اوپر کوئی الزام نہیں ہے۔
شوری 41 تفسیر قمی میں امام باقرؑ سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں آیت کی تفسیر امام زمانہ اور اصحاب کا بنی امیہ ، جھٹلانے والے اور ناصبیوں سے انتقام لینے سے کیا ہے۔[45]
46 مَن كَانَ يُرِ‌يدُ حَرْ‌ثَ الْآخِرَ‌ةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْ‌ثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِ‌يدُ حَرْ‌ثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِن نَّصِيبٍ
جوشخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کردیتے ہیں اور جو (صرف) دنیا کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس میں سے اسے کچھ دے دیتے ہیں مگر اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
شوری 20 مَا لَهُ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِن نَّصِيبٍ یعنی حضرت مہدی کی حکومتِ حق میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ [46]
47 سَنُرِ‌یهِمْ آیاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنفُسِهِمْ حَتَّیٰ یتَبَینَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُ
ہم انہیں نشانیاں دکھائیں گے آفاق و کائنات میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (اللہ) بالکل حق ہے۔
فصلت 53 امام باقرؑ کی ایک روایت میں اس آیت کو امام زمانہ کے خروج اور ظہور سے تفسیر کیا ہے۔[47]
48 لِّنُذِیقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْی فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا
تاکہ ہم انہیں زندگانئِ دنیا میں ذلت آمیز عذاب کا مزہ چکھائیں
فصلت 16 «عذاب الخزی» سے مراد ، امام زمانہ کے قیام سے پہلے سرکش مخالفوں پر دنیوی عذاب لیا ہے۔ [48]
49 وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَینَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَیٰ عَلَی الْهُدَیٰ فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا کانُوا یکسِبُونَ
رہے ثمود! ہم نے ان کی راہنمائی کی مگر انہوں نے ہدایت پر اندھے پن (گمراہی) کو ترجیح دی۔ پس ان کو ذلت کے عذاب کی کڑک نے پکڑ لیا ان کے کرتوتوں کی پاداش میں جو وہ کیا کرتے تھے۔
فصلت 17 امام صادقؑ اس آیت میں ثمود کو شیعہ ایک گروہ [ جس طرح ثمود نے وحی کے حقایق کو سرکشی کے ذریعے تکذیب کیا] اور صاعقہ کو ظہور کے وقت تلوار کی عقوبت سے تفسیر کیا ہے۔[49]
50 وَأَشْرَ‌قَتِ الْأَرْ‌ضُ بِنُورِ‌ رَ‌بِّهَا
اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے چمک اٹھے گی
زمر 69 امام صادقؑ سے منقول ہے کہ زمین کے پروردگار، یعنی زمین کے امام کے ظہور کے بعد لوگ آپ کے نور سے مستفید ہونگے اور دوسروں سے بےنیاز ہونگے۔[50]
51 وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِینٍ
اور تمہیں کچھ مدت کے بعد اس کی خبر معلوم ہو جائے گی۔
ص 88 امام باقرؑ کی ایک روایت میں «وَلَتَعْلَمُنَّ» سے مراد حضرت قائمؑ کے خروج کا وقت ہے۔ [51]
52 وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَ‌اهِيمَ
اور انہی (نوح‌‌ؑ) کے پیروکاروں میں سے ابراہیمؑ بھی تھے۔
صافات 83 ائمہؑ اور خاص کر حضرت مہدیؑ اور ان کے شیعوں کی صفات کے بارے میں۔[52]
53 وَلَوْ تَرَ‌ىٰ إِذْ فَزِعُوا فَلَا فَوْتَ وَأُخِذُوا مِن مَّكَانٍ قَرِ‌يبٍ
اور کاش تم دیکھو کہ جب یہ لوگ گھبرائے ہوئے (پریشان حال) ہوں گے لیکن بچ نکلنے کا کوئی موقع نہ ہوگا اور وہ قریبی جگہ سے پکڑ لئے جائیں گے۔
سبا 51 بحار الانوار میں پیغمبر اکرمؐ اور امام باقرؑ سے بعض روایات نقل ہوئی ہیں کہ جن میں ان آیات کے مصادیق میں سے ایک امام مہدیؑ کے قیام کے دوران سفیانیوں کا خروج ہے۔[53]
54 قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنفَعُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا إِيمَانُهُمْ وَلَا هُمْ يُنظَرُ‌ونَ
آپ کہئے کہ فتح (فیصلہ) والے دن کافروں کو ان کا ایمان لانا کوئی فائدہ نہ دے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔
سجدہ 29 امام صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق فتح اور کامیابی کے دن سے مراد وہ دن ہے جس دن حضرت مہدیؑ پر دنیا پیش کی جائے گی۔[54]
55 وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ‌ لَعَلَّهُمْ يَرْ‌جِعُونَ
اور ہم انہیں (قیامت والے) بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزہ چکھائیں گے تاکہ یہ باز آجائیں۔
سجده 21 امام صادقؑ کی ایک روایت میں عذاب اکبر سے مراد آخری زمانے میں حضرت قائمؑ کا تلوار سے خروج کرنا ہے۔[55]
56 وَیوْمَئِذٍ یفْرَ‌حُ الْمُؤْمِنُونَ
اور اس دن اہلِ ایمان خوش ہوں گے۔
روم 4 امام صادق‌‌ؑ کی ایک روایت کے مطابق اس آیت سے مراد، اس دن مومنوں کا حضرت قائمؑ کے قیام اور ظہور پر خوشحال ہونا ہے۔[56]
57 إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتاریں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں۔
شعراء 4 امام باقرؑ سے منقول ہے کہ یہ آیت قائم آل محمدؐ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کا نام آسمان کی جانب سے اعلان ہوگا۔[57]
58 أَفَرَ‌أَيْتَ إِن مَّتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ . ثُمَّ جَاءَهُم مَّا كَانُوا يُوعَدُونَ . مَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يُمَتَّعُونَ
کیا تم دیکھتے ہو کہ اگر ہم انہیں کئی سال تک فائدہ اٹھانے کا موقع دیں۔ پھر ان پر وہ عذاب آجائے جس سے انہیں ڈرایا جاتا تھا۔ تو وہ سب ساز و سامان جس سے وہ فائدہ اٹھاتے رہے تھے انہیں کوئی فائدہ نہ دے گا۔
شعراء 205-207 در روایتی از امام صادق (ع) در تفسیر این آیه، « ما كَانُوا يُوعَدُون» به ظهور و قیام امام زمان و « ما كَانُوا يُمَتَّعُون» به بنی‌امیه تفسیر شده‌است.[58]
59 اللَّـهُ نُورُ‌ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ مَثَلُ نُورِ‌هِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّ‌يٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَ‌ةٍ مُّبَارَ‌كَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْ‌قِيَّةٍ وَلَا غَرْ‌بِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ‌ ۚ نُّورٌ‌ عَلَىٰ نُورٍ‌ ۗ يَهْدِي اللَّـهُ لِنُورِ‌هِ مَن يَشَاء
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال یہ ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو (اور) چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو۔ اور (وہ) قندیل گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے (اور وہ چراغ) زیتون کے بابرکت درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہے۔ جو نہ شرقی ہے نہ غربی قریب ہے کہ اس کا تیل خود بخود بھڑک اٹھے اگرچہ آگ نے اسے چھوا بھی نہ ہو۔ یہ نور بالائے نور ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔
نور 35 امامؑ کی ایک روایت میں « يَهْدِي اللَّـهُ لِنُورِ‌هِ مَن يَشَاء» کو حضرت مہدیؑ سے تفسیر کیا ہے۔[59]
60 الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُ‌وا بِالْمَعْرُ‌وفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ‌ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ‌
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ (اختیار) میں ہے۔
حج 41 بعض روایات میں اس آیت کو امام مہدیؑ اور ان کے یار و انصار سے تفسیر کیا ہے۔[60]
61 وَيَقُولُونَ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّ‌بِّهِ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّـهِ فَانتَظِرُ‌وا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِ‌ينَ
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان (پیغمبر(ص)) پر ان کے پروردگار کی طرف سے (ان کی مطلوبہ) کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوتی؟ کہہ دیجیئے کہ غیب کا علم اللہ سے مخصوص ہے سو تم انتظار کرو۔ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔
یونس 20 امام صادقؑ کی ایک روایت میں غیب سے مراد حضرت مہدی لیا ہے۔[61]
62 أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُ‌وا السَّيِّئَاتِ أَن يَخْسِفَ اللَّـهُ بِهِمُ الْأَرْ‌ضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُ‌ونَ
کیا وہ لوگ جو (پیغمبر(ص) کے خلاف) بری تدبیریں اور ترکیبیں کر رہے ہیں وہ اس بات سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان پر ایسے موقع سے عذاب آجائے جہاں سے انہیں وہم و گمان بھی نہ ہو؟
نحل 45 اس آیت کے تفسیر کے بارے میں امام صادقؑ کی ایک روایت میں آل محمدؐ کے ایک مرد اور 313 ان کے ساتھیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔[62]
63 أَتَىٰ أَمْرُ‌ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِ‌كُونَ
اللہ کا حکم (عذاب) آگیا ہے پس تم اس کے لئے جلدی نہ کرو وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔
نحل 1 ائمہؑ کی روایات میں امر اللہ سے مراد، امام زمانہ کا ظہور لیا ہے۔[63]
64 حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّ‌سُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُ‌نَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا يُرَ‌دُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِ‌مِينَ
یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہونے لگے اور خیال کرنے لگے کہ (شاید) ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تو (اچانک) ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی پس جسے ہم نے چاہا وہ نجات پا گیا اور مجرموں سے ہمارا عذاب ٹالا نہیں جا سکتا۔
یوسف 110 حضرت علیؑ کی ایک روایت میں ذکر ہوا ہے کہ غیبت کے دوران مومنوں کی حالت بہت سخت ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالی کی نصرت (ظہور امام زمانہ) کے ذریعے سے مشکلات دور ہونگی۔[64]
65 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ
اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمان روائی کے حقدار ہیں)۔
نساء 59 اس آیت کی تفسیر میں پردہ غیب میں موجود امام کے فائدے کو بادل کے پیچھے موجود سورج سے تشبیہ دی گئی ہے کہ لوگ سورج کی روشنی سے مستفید ہوتے ہیں اگرچہ وہ بال کے پیچھے چھپا ہے۔[65]
66 وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ طَوْعًا وَكَرْ‌هًا وَإِلَيْهِ يُرْ‌جَعُونَ
جو آسمانوں میں ہیں یا زمین میں ہیں سب خوشی سے یا ناخوشی سے (چار و ناچار) اسی کی بارگاہ میں سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں اور بالآخر سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
آل عمران 83 امام صادقؑ کی ایک روایت میں اس آیت کو امام زمانہ کے ظہور اور آپ کے توسط سب کی ہدایت ہونے کی طرف اشارہ ہے۔[66]
67 يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَ‌بِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرً‌ا ۗ قُلِ انتَظِرُ‌وا إِنَّا مُنتَظِرُ‌ونَ
جس دن تمہارے پروردگار کی بعض مخصوص نشانیاں آجائیں گی تو اس دن ایسے شخص کو ایمان لانا کوئی فائدہ نہیں دے گا جو پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اور اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ کمائی ہوگی۔ ان سے کہو کہ تم بھی انتظار کرو۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔
انعام 158 امام صادقؑ کی روایت کے مطابق «یوم یأتی بعض آیات ربک» میں یوم سے مراد ظہور امام زمانہ کا دن ہے۔[67]
68 وَمِن قَوْمِ مُوسَىٰ أُمَّةٌ یهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ یعْدِلُونَ
اور موسیٰ کی قوم میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو لوگوں کو حق کے راستہ پر چلاتا ہے اور حق کے ساتھ منصفانہ فیصلہ کرتا ہے۔
اعراف 159 امام صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق حضرت موسی کی قوم کے بعض مومنین حضرت مہدی کے یار و انصار میں سے ہونگے۔[68]
69 قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ
لوط نے کہا کاش مجھے تمہارے مقابلہ کی طاقت ہوتی یا یہ کہ میں کسی مضبوط پایہ کا سہارا لے سکتا۔
هود 80 امام صادقؑ نے قُوَّۂ کو حضرت قائم کی طاقت اور رکن شدید کو آپؑ کے یار و انصار سے تفسیر کیا ہے۔[69]
70 أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ نَصْرِ‌هِمْ لَقَدِيرٌ‌
ان مظلوموں کو (دفاعی جہاد کی) اجازت دی جاتی ہے جن سے جنگ کی جا رہی ہے اس بناء پر کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے۔ اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔
حج 39 امام صادقؑ اس آیت کو حضرت قائم کے بارے میں قرار دیتے ہیں کیونکہ جب امام حسینؑ کی خونخواہی کے لیے قیام کریں گے۔[70]
71 إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَأَكِيدُ كَيْدًا فَمَهِّلِ الْكَافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا
بےشک وہ (کافر لوگ) کچھ چالیں چل رہے ہیں۔ اور میں بھی (ان کیخلاف) ایک چال چل رہا ہوں۔ تو (اے رسولؐ) ان (کافروں) کو مہلت دے دیجئے ان کو تھوڑی سی مہلت دے دیجئے۔
طارق 15-17 امام صادقؑ سے منقول ہے کہ کافروں کو مہلت دینے سے مراد یہ ہے کہ امام کے ظہور اور خروج تک ان کو مہلت دی جائے گی۔[71]
72 أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ‌ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْ‌ضِ ۗ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللَّـهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ
کون ہے جو مضطر و بے قرار کی دعا و پکار کو قبول کرتا ہے۔ جب وہ اسے پکارتا ہے؟ اور اس کی تکلیف و مصیبت کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟ نہیں - بلکہ یہ لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
نمل 62 بعض روایات میں یہ آیت حضرت مہدیؑ کے قیام سے تفسیر ہوئی ہے۔ اور مضطر سے مراد بھی امام زمانہ لیا ہے۔[72]

حوالہ جات

  1. استرآبادی، تأویل الآیات الظاہرہ، 1409ھ، ص327.
  2. طوسی، الغیبہ، 1411ق، ص184.
  3. طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج7، ص457.
  4. کلینی، الکافی، 1407ق، ج8، 313.
  5. کلینی، الکافی، 1407ق، ج8، 313.
  6. مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج52، ص229.
  7. نعمانی، الغیبہ، 1397ق، ص199.
  8. قمی، تفسیر القمی، 1404ق، ج1، ص142-143.
  9. فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ق، ج2، ص338.
  10. بحرانی، البرهان، 1374ش، ج3، ص286.
  11. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ق، ج2، ص242.
  12. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ق، ج2، ص250.
  13. ابن قولویہ، کامل الزیارات، 1356ش، ص63.
  14. کلینی، الکافی، 1407ق، ج8، ص287.
  15. قمی، تفسیر القمی، 1404ق، ج2، ص65.
  16. صفار قمی، بصائر الدرجات، 1404ق، ج1، ص70.
  17. استرآبادی، تأویل الآیات الظاہرہ، 1409ق، ص317.
  18. کوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ق، ص658.
  19. صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص368.
  20. قمی، تفسیر القمی، 1404ق، ج2، ص149.
  21. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ق، ج2، ص50.
  22. نعمانی، الغیبہ، 1397ق، ص316.
  23. صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص656.
  24. استرآبادی، تأویل آیات الظاہرہ، 1409ق، ص801.
  25. استرآبادی، تأویل آیات الظاہرہ، 1409ق، ص794.
  26. قمی، تفسیر القمی، ج2، ص425.
  27. استرآبادی، تأویل آیات الظاہرہ، 1409ق، ص778.
  28. استرآبادی، تأویل آیات الظاہرہ، 1409ق، ص778.
  29. مفید، الاختصاص، 1413ق، ص224.
  30. کلینی، الکافی، 1407ق، ج8، ص50.
  31. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص341.
  32. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص343.
  33. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص343.
  34. استرآبادی، تأویل الآیات الظاہرہ، 1409ق، ص701.
  35. کلینی، الکافی، 1407ق، ج8، ص287.
  36. عروسی حویزی، نور الثقلین، 1415ق، ج5، ص387.
  37. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص432.
  38. عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1415ق، ج5، ص242.
  39. صفار قمی، بصائر الدرجات، 1404ق، ج1، ص356.
  40. استرآبادی، تأویل الآیات الظاہرہ، 1409ق، ص596.
  41. قمی، تفسیر القمی، 1404ق، ج2، ص327.
  42. عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1415ق، ج5، ص70.
  43. استرآبادی، تأویل الآیات الظاہرہ، 1409ق، ص558-559
  44. استرآبادی، تأویل الآیات الظاہرہ، 1409ق، ص552.
  45. قمی، تفسیر القمی، 1404ق، ج2، ص278.
  46. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص436.
  47. نعمانی، الغیبه، 1397ق، ص269.
  48. نعمانی، الغیبه، 1397ق، ص269.
  49. استرآبادی، تأویل الآیات الظاہرہ، 1409ق، ص777.
  50. فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ق، ج4، ص331.
  51. کلینی، الکافی، 1407ق، ج8، ص287.
  52. استرآبادی، تأویل الآیات الظاہرہ، 1409ق، ص486.
  53. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ق، ج2، ص57.
  54. استرآبادی، تأویل الآیات الظاہرہ، 1409ق، ص438.
  55. بحرانی، البرہان، 1374ش، ج4، ص401.
  56. طبری، دلائل الامامہ، 1413ق، ص464-465.
  57. استرآبادی، تأویل الآیات الظاہرہ، 1409ق، ص383-384.
  58. یزدی حائری، الزام الناصب، 1422ق، ج1، ص79.
  59. قمی، تفسیر القمی، 1404ق، ج2، ص103.
  60. قمی، تفسیر القمی، 1404ق، ج2، ص87.
  61. صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج1، ص18.
  62. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ق، ج1، ص65-66.
  63. نعمانی، الغیبہ، 1397ق، ص198.
  64. طبری، دلائل الامامہ، 1413ق، ص471.
  65. خزاز قمی، کفایه الاثر، 1401ق، ص54-55.
  66. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ق، ج1، ص13.
  67. صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص357.
  68. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ق، ج2، ص32.
  69. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ق، ج2، ص157.
  70. حایری یزدی، الزام الناصب، 1422ق، ج2، ص277.
  71. قمی، تفسیر القمی، 1404ق، ج2، ص416.
  72. عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1415ق، ج4، ص94.

منابع

  • ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، تصحیح عبدالحسین امینی، نجف، دار المرتضویہ، 1356ش.
  • استرآبادی، علی، تأویل الآیات الظاہرہ فی فضائل العترۃ الطاہرہ، تصحیح حسین ولی، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1409ھ۔
  • بحرانی، سید ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ بعثہ، 1374ش.
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الاثر فی النص علی الائمۃ الاثنی عشر، تصحیح عبداللطبف کوہمری، بیدار، قم، 1401ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، 1395ھ۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد، تصحیح محسن بن عباسعلی کوچہ باغی، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، تصحیح قسم الدراسات الاسلامیہ مؤسسہ البعثہ، قم، بعثت، 1413ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق احمد قصیر عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ للحجہ، تصحیح عباداللہ تہرانی و علی احمد ناصح، قم، دار المعارف الاسلامیہ، 1411ھ۔
  • عروسی حویزی، عبدعلی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1415ھ۔‏
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعۃ العلمیہ، 1380ھ۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن بن شاہ مرتضی، تفسیر الصافی، تصحیح حسین اعلمی، تہران، مکتبۃ الصدر، 1415ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تصحیح طیب موسوی جزایری، قم، دار الکتاب، 1404ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تصحیح کاظم محمد، تہران، مؤسسہ الطبع و النشر فی وزارۃ الارشاد الاسلامی، 1410ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمود محرمی زرندی، قم، المؤتمر العالمی لالفیہ الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ للنعمانی، تصحیح علی اکبر غفاری،‌ تہران، نشر صدوق‌، 1397ھ۔
  • یزدی حایری، علی، الزام الناصب فی اثبات الحجہ الغائب، تصحیح عاشور علی، بیروت، موسسہ الاعلمی، 1422ھ۔