زیارت عاشورا

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر سلیس
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
زیارت عاشورا
کوائف
موضوع:امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کی زیارت‌
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام محمد باقرؑ
راوی:علقمہ بن محمد حضرمی
شیعہ منابع:کامل الزیاراتمصباح المتہجد
مونوگرافی:الدّر المنثور فی شرح زیارۃ العاشور • الدرۃ البیضاء فی شرح زیارۃ العاشورا • ذخیرۃ العباد لیوم المعاد • رسالۃ فی زیارۃ العاشوراء...
مخصوص وقت:روز عاشورا
مکان:حرم امام حسینؑ
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


دعا و مناجات

زیارت عاشورا وہ زیارت‌ ہے جسے عاشورا کے دن امام حسینؑ اور دیگر شہدائے کربلا کی زیارت کی خاطر پڑھی جاتی ہے۔ زیارت حدیث قدسی ہے جو امام محمد باقرؑ سے نقل ہوئی ہے۔ اس زیارت کی سند کو صحیح اور چھان بین سے بے نیاز قرار دی گئی ہے۔

احادیث کے مطابق اس زیارت کے بہت سارے آثار اور برکات ہیں۔ امام صادقؑ سے صفوان نے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: جب بھی کوئی حاجت پیش آئے تو اس زیارت اور اس کے بعد دعائے علقمہ کو پڑھ کر خدا سے اپنی حاجت طلب کرو تو وہ پوری ہوگی۔

بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ اس زیارت کا وہ حصہ جو لعن پر مشتمل ہے، وہ اس زیارت کے قدیمی‌ نسخوں میں موجود نہیں تھا۔ بعض شیعہ علماء نے اس کا جواب دیا ہے۔ زیارت عاشورا کے بارے میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں من جملہ ان میں ابو الفضل تہرانی کی کتاب شفاء الصدور اور سید عزالدین حسینی زنجانی کی کتاب شرح زیارت عاشورا کا نام لیا جا سکتا ہے۔

سند

زیارت عاشورا کا سب سے قدیم منبع کامل الزیارات ہے۔[1] ابن قولویہ نے اس کتاب میں زیارت عاشورا کو امام محمد باقرؑ سے نقل کیا ہے۔

تیرہویں صدی ہجری کے مجتہد، ابو المعالی محمّد کلباسی جنہوں نے زیارت عاشورا پر شرح بھی لکھی ہے، کے بقول شیخ طوسی نے اپنی کتاب مصباح المتہجد میں اس زیارت کو کسی اور سند کے ساتھ امام باقرؑ سے نقل کیا ہے۔[2] لیکن اس کے باوجود بعض معاصر مورخین کا خیال ہے کہ شیخ طوسی نے بھی زیارت عاشورا کو کامل الزیارات سے نقل کیا ہے۔ [3] حالانکہ زیارت عاشورا کے متن میں ابن قولویہ اور شیخ طوسی کے نقل میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ اسی طرح خود زیارت عاشورا کے مضامین سے یہ بات واضح اور آشکار ہو جاتی ہے کہ یا زیارت بنی امیہ کی حکومت کے آخری ادوار میں بیان ہوئی ہے[4]

زیارت عاشورا کے بعد ایک دعاء بھی نقل ہوئی ہے جسے دعائے علقمہ کہا جاتا ہے اور اس دعا کو علقمہ نے صفوان سے اور صفوان نے امام صادقؑ سے نقل کی ہے۔[5]

فضیلت اور اہمیت

زیارت عاشورا امام حسینؑ کی سب سے معروف زیارت ہے۔ یہ زیارت حدیث قدسی ہے اور خدا کی جانب سے معصوم کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔[6] شیعیان خاص کر شیعہ علماء سال کے مختلف ایام میں انفرادی یا اجتماعی طور پر اس زیارت کی قرائت کرتے ہیں۔[7] کہا جاتا ہے کہ اس زیارت کی قرأت پر مداومت کے بہت سارے آثار و برکات ہیں۔[8] تیرہویں اور چودہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین میرزا ابوالفضل تہرانی کے مطابق زیارت عاشورا حاجت روائی اور دنیوی و اخروی برکات کے حوالے سے اس قدر حیرت انگیز خواص پر مشتمل ہے جو قابل شمار نہیں ہے۔[9]

صفوان بن مہران نے امام صادقؑ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں امام فرماتے ہیں کہ آپ کے معصوم آباء و اجداد نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ جو شخص بھی اس زیارت اور اس کے بعد دعائے علقمہ کو دور یا امام حسین کے ضریح کے نزدیک سے پڑھے تو اس کی زیارت خدا کی بارگاہ میں قبول ہوگی، اس کی دعائیں مستجاب ہونگی، اس کی حاجات روا ہونگی، مورد شفاعت واقع ہوگا حتی دوسروں کی نسبت اس کی شفاعت بھی قابل قبول ہوگی اور اہل بہشت میں سے ہو گا۔[10] حدیث صفوان کے آخر میں آیا ہے کہ: اے صفوان جب بھی کوئی مشکل پیش آئے تو جہاں کہیں بھی ہو اس زیارت اور اس کے بعد دعائے علقمہ پڑھ کر خدا سے اپنی حاجت طلب کریں تو خدا کی جانب سے تمہاری حاجت پوری ہوگی۔[11]

معاصر مرجع تقلید آیت اللہ جواد تبریزی کہتے ہیں کہ اس زیارت کی فضیلت اور اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ شیعہ مایاناز علماء جیسے ابن قولویہ، شیخ طوسی، ابن مشہدی، سید ابن طاووس، علامہ حلی، شہید اول وغیرہ نے صدیوں سے اسے نقل کرتے آئیں ہیں۔[12]

ثواب

زیارت عاشورا کے بارے میں معصومین سے کئی احادیث نقل ہوئی ہیں۔ "علقمہ بن محمد حضر" امام محمد باقرؑ سے نقل کرتے ہیں: جو شخص زیارت عاشورا پڑھے اور اس کے بعد دو رکعت نماز ادا کرے تو اس کا ثواب یہ ہے کہ اس مومن کے دس لاکھ گناہ معاف کئے جاتے ہیں اور بہشت میں اس کے دس لاکھ درجے بڑھا دئے جاتے ہیں۔ اسی طرح زیارت عاشورا پڑھنے والا اس شخص کی مانند ہے جو امام حسینؑ کی رکاب میں شہادت کے عظیم مقام پر فائز ہوئے ہوں اور ان کے درجات میں شریک ہوگا اسی طرح تمام انبیاء اور ان تمام افراد کے ثواب میں شریک ہوگا جنہوں نے امام حسینؑ کی شہادت کے وقت زیارت کی ہیں۔[13]

چنانچہ علقمہ کہتے ہیں: امام باقرؑ نے زیارت عاشورا کو نقل کرنے کے بعد فرمایا: اے علقمہ: اگر اپنی زندگی میں ہر روز اس زیارت کے ذریعے امام حسینؑ کی زیارت کرسکو تو ایسا ضرور کرو، اگر ایسا کروگے تو تمہیں مذکورہ بالا تمام زیارتوں کا ثواب ملے گا۔[14]

مضامین

  • سلام: زیارت عاشورا کا آغاز امام حسینؑ پر سلام سے ہوتا ہے اور آپؑ کے باوفا اصحاب پر سلام کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ اسی طرح اس زیارت کا اختتام بھی امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب پر سلام سے ہوتا ہے۔
  • شیعہ تاریخ کی یاد آوری: زیارت عاشورا میں شیعوں پر روا رکھے جانے والے مظالم کو ضمیر متصل "كَ" اور "كُُم" کے ذریعے بیان کیا گیا ہے؛ ضمیر "كَُ" کا مرجع سیدالشہداؑ اور ضمیر "کُم" کا مرجع اہل بیتؑ ہیں۔ عبارت "أُمَّة اَسَسَتْ اَساسَ الظُّلمِ وَ الجُورِ عَلَیكمْ اَهلِ البَیتِ"، "‌اُمَّة دَفَعَتْكمْ عَنْ مَقامِكمْ واَزالَتْكمْ عَنْ مَراتِبِكمُ الَّتی رَتَّبَكمُ الله فیها"، "المُمهدِینَ لَهمْ بِا لتَمكین مِنْ قِتالِكمْ (ترجمہ: "ان لوگوں سے جنہوں نے آپ اہل بیت پر ظلم و جور کی بنیاد رکھی ہے۔۔۔ وہ لوگ جنہوں نے آپ کو اپنے منصب اور الہی عہدے اور منصب سے روکے رکھا اور آپ کو ان مراتب و مدارج سے محروم رکھا جو اللہ تعالی نے آپ کے لئے مقرر فرمائے تھے۔۔۔ وہ لوگ جو آپ کے خلاف لڑے اور آپ کو قتل کیا اور آپ کے خلاف لڑنے کے لئے ظلم و جور کے حکمرانوں کی اطاعت کی")" جو اس زیارت کے آغاز میں آئی ہے اور فقرہ "النّاصِبینَ لَكُم الْحَرْب (ترجمہ: ۔ اور "آپ کے خلاف جنگ بپا کرنے والے")َ جو اس زیارت کے درمیانی حصے میں آیا ہے ، وہ الفاظ و عبارات ہیں جن سے ـ رسول اللہؐ کے وصال کے بعد اہل بیتؑ کے خلاف ـ اسلام مخالف قوتوں کے تشدد آمیز اور غیر انسانی اقدامات کا اظہار ہوتا ہے۔ یا یہ فقرہ ـ کہ اُمة اَسْرَجَتْ وَالجَمَتْ وَ تَنَقَّبَتْ لِقِتالِك (ترجمہ: یعنی "وہ لوگ جنہوں نے گھوڑوں پر زینیں رکھ لیں اور باگیں کھینچ لیں اور آپ کی جنگ کے لئے نقاب پوش ہوئے")" ، ـ عاشورا کے حادثات و سانحات کی طرف اشارہ ہے۔ زیارت عاشورا میں دو اور فقرے ایسے ہیں جن میں سے ایک میں عاشورا کو امام حسینؑ کی شہادت پر بنی امیہ اور ہند جگر خوار کے اولادوں کی جبکہ دوسرے فقرے میں آل زیاد اور آل مروان کی خوشی کے دن کے طور پر معرفی کی گئی ہے۔
زیارت عاشورا
  • لعن: زیارت عاشورا میں امامت کے مد مقابل قوتیں ـ جو ائمۂ شیعہ اور ان کی حاکمیت کے خلاف دشمنی اور جنگ کی راہ پر چلے ہیں ـ لعنت کے مستحق ٹہری ہیں۔ اس زیارت میں بنو امیہ، آل زیاد اور آل مروان کو ظالم اور ستم گر جماعتوں اور عبیداللہ بن زیاد، عمر بن سعد اور شمر کو ظالم و ستم گر اشخاص کے طور پر معرفی کی ہیں۔ اہل بیت رسول اللهؐ پر ظلم و ستم روا رکھنا ان ظالم گروہوں اور اشخاص کی مشرتکہ خصوصیات میں سے ہیں۔ زیارت عاشورا میں جابجا مذکورہ گروہوں اور اشخاص پر لعنت بھیجنے کے ساتھ ساتھ پرزور انداز میں ان سے بیزاری کا اظہار کیا گیا ہے یہاں تک کہ زیارت کے دو اختتامی پیراگراف میں ان تمام ظالموں پر بھی لعنت بھیجی گئی ہے جنہوں نے تاریخ کے کسی بھی مرحلے میں محمد و آل محمدؐ پر ظلم روا رکھا ہو۔ ان لعنتوں کا مقصد یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو ـ خداوند متعال کی اطاعت کرتے ہوئے محمد و آل محمدؐ پر ظلم روا رکھنے والی قوتوں ـ یعنی اہل بیتؑ کے دشمنوں ـ سے برائت کا اظہار کرنا چاہئے اور اپنے راستے اور اہداف کو محمد و آل محمدؐ کے مکتب سے ہمآہنگ کرنا چـاہئے۔
  • مہدویت اور انتقام خون حسین: زیارت عاشورا کے دو فقرے ایسے ہیں جن میں اللہ تعالی سے التجا کی گئی ہے کہ اہل بیت میں سے امام منصور (یا ہدایت دینے والے اور ناطق بالحق (حق بولنے والے) کی قیادت و رہبری میں امام حسینؑ کے خون کا انتقام لینے کو ممکن بنا دیا جائے۔ ان جملوں سے امام مہدی علیہ السلام کے ظہور اور آپ(عج) کے توسط سے سیدالشہداؑ کے خون کا بدلہ لینے کی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو در واقع عقیدہ مہدویت کی طرف اشارہ ہے جو زمانۂ غیبت میں شیعہ تفکر کے ڈھانچہ کو تشکیل دیتا ہے۔
  • دعا: زیارت عاشورا میں ایک اور اہم دعاء اس مضمون کے ساتھ آتی ہے: "اللهم اَجْعَلْ مَحياي مَحيا محمدٍ وآل مُحمد وَمَماتي مَماتَ مُحمدٍ وَآل مُحمدٍ (ترجمہ: خداوندا! مجھے زندگی دے محمد و آل محمد کے مکتب پر اور مجھے موت دے محمد و آل محمد کے مکتب پر)"، ۔ اس دعاء میں جو مفہوم بیان ہوا ہے حقیقتت میں یہ دنیاوی اور اخروی سعادت کے حصول کی تمنا اور آرزو کو ظاہر کرتا ہے۔ زیارت عاشورا کی آخری عبارت ـ یعنی: "ثَبِّتْ لي قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَك مَعَ الْحُسَينِ وَاَصْحابِ الْحُسَينِ الَّذينَ بَذَلُوا مُهجَهمْ دُونَ الْحُسَينِ عليهالسلام"۔ میں بھی ـ اللہ تعالی سے درخواست و التجا ہے کہ وہ (سائل کو) حضرت سید الشہداءؑ اور اصحاب حسینؑ کی راہ میں ثابت قدمی عطا فرمائے ، وہ اصحاب جنہوں نے اپنی جانیں آپؑ کی خاطر قربان کردیں اور یہ دعاء درحقیقت سابقہ دعاء پر تاکید ہے۔

زیارت کے آخر میں لعنت کے بارے میں

بعض محققین نے زیارت عاشورا کے بعض عبارات کو معصومین سے منسوب ہونے میں شک و تردید کا اظہار کئے ہیں۔ سید مرتضی عسکری اور محمد ہادی یوسفی غروی، عبارت "اَللَّهُمَّ خُصَّ أَنْتَ أَوَّلَ ظَالِمٍ بِاللَّعْنِ مِنِّی وَ ابْدَأْ بِهِ أَوَّلاً ثُمَّ (الْعَنِ) الثَّانِی وَ الثَّالِثَ وَ الرَّابِعَ اللَّهُمَّ الْعَنْ یزِیدَ خَامِساً وَ الْعَنْ عُبَیدَ اللَّهِ بْنَ زِیادٍ وَ ابْنَ مَرْجَانَةَ وَ عُمَرَ بْنَ سَعْدٍ وَ شِمْراً وَ آلَ أَبِی سُفْیانَ وَ آلَ زِیادٍ وَ آلَ مَرْوَانَ إِلَی یوْمِ الْقِیامَةِ" کو معصومینؑ سے منقول نہیں سمجھتے اور اس بات کے معتقد ہیں کہ ابن قولویہ کی کتاب کامل الزیارات جس میں پہلی بار زیارت عاشورا کو نقل کیا گیا ہے، میں یہ عبارت موجود نہیں ہے۔[15]

اس کے باوجود آیت اللہ سید موسی شبیری زنجانی کے بقول علمائے امامیہ کا زیارت عاشورا کے سند کی وثاقت پر اجماع ہے اور سب کے سب اصل زیارت عاشورا کو قطعی اور مسلم سمجھتے ہیں۔[16] آیت اللہ شبیری اس بات کے بھی معتقد ہیں کہ زیارت عاشورا کی غیبی امداد کے علاوہ کتاب مصباح المتہجد میں درج شدہ سند بھی صحیح ہے۔ آپ اس زیارت کے سند کے دونوں واسطوں کو بیان فرماتے ہیں۔[17]

متن اور ترجمہ

متن ترجمه
اَلسَّلاَمُ عَلَیكَ یا أَبَا عَبْدِ اللهِ السَّلاَمُ عَلَیكَ یا ابْنَ رَسُولِ اللهِ (السَّلاَمُ عَلَیكَ یا خِیرَةَ اللهِ وَ ابْنَ خِیرَتِهِ) السَّلاَمُ عَلَیكَ یا ابْنَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ ابْنَ سَیدِ الْوَصِیینَ السَّلاَمُ عَلَیكَ یا ابْنَ فَاطِمَةَ سَیدَةِ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ السَّلاَمُ عَلَیكَ یا ثَارَ اللهِ وَ ابْنَ ثَارِهِ وَ الْوِتْرَ الْمَوْتُورَ السَّلاَمُ عَلَیكَ وَ عَلَی الْأَرْوَاحِ الَّتِی حَلَّتْ بِفِنَائِكَ عَلَیكُمْ مِنِّی جَمِیعاً سَلاَمُ اللهِ أَبَداً مَا بَقِیتُ وَ بَقِی اللَّیلُ وَ النَّهَارُ آپ پر سلام ہو اے ابا عبدا(ع)للہ آپ پر سلام ہو اے رسول خدا (ص)کے فرزند سلام ہوآپ پر اے امیر المومنین (ع)کے فرزند اور اوصیا کے سردار کے فرزند سلام ہوآپ پر اے فرزند فاطمہ (ع)جو جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں آپ پر سلام ہو اے قربان خدا اور قربان خدا کے فرزنداور وہ خون جس کا بدلہ لیا جانا ہے آپ پر سلام ہواور ان روحوں پر جو آپ کے آستانوں میں اتری ہیں آپ سب پرمیری طرف سے خدا کا سلام ہمیشہ جب تک میں باقی ہوں اور رات دن باقی ہیں


کتابیات

زیارت عاشورا کے بارے میں لکھی گئی بعض کتابیں درج ذیل ہیں:

  1. زاد المؤمنين، سيد محمد تقى نقوى ہندى، لکھنؤ: چاپخانہ نول كشور۔[18]
  2. زيارت عاشورا، نواب سيد حامد حسين خان۔[19]
  3. زيارت عاشورا كى تعليمات، جواد محدثى، مترجم: جعفرعلى نجم، قم: انتشارات عصمت، 1421ھ، 80 صفحات، رقعى۔
  4. زيارت جامعہ عاشورا، ترجمہ و تحقيق: سيد مرتضى حسين لکھنوی (1341 ـ 1407ہ)، پاكستان: شيخ اختر على بانگا۔
  5. شرح و ترجمہ زيارت عاشورا، سيد انصار حسين صدر الافاضل (متوفٰی 1387 ھ)۔
  6. شرح و ترجمہ زيارت عاشورا و علقمہ، سيد مقبول احمد، ط دہلى۔
  7. محرّم و عاشورا (ادعيہ، آداب و اعمال عاشورا)، شيخ محمد حسن بن ابوالقاسم نجفى كاشانى، بمبئى: 1359ھ۔
  8. ملا محمد بن مہدی بارفروشی (حاجی اشرفی)، شعائر الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام معروف بسئوال و جواب۔
  9. سبحانی، جعفر، سیمای فرزانگان، انتشارات موسسہ امام صادقؑ قم، چاپ چہارم۔ (سال ‎1388 ہجری شمسی)۔

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ص581۔
  2. طوسی، مصباح المتہجد، ص536۔
  3. زیارت عاشورا کے بارے میں علامہ عسکری کے موقف پر آقای یوسفی غروی کی تقریر
  4. زيارت عاشوراء کی حقیقت: تحریر حسن انصاری
  5. طوسی، مصباح المتہجد، ص543۔
  6. حسینی، زیارۃ عاشورا تحفۃ من السماء، ۱۴۳۶ق، ص۱۰۹۔
  7. ملکیان، مقدمہ شفاءالصدور، انتشارات اسوہ، ص۵۔
  8. مکارم شیرازی، کلیات مفاتیح نوین، ۱۳۹۰ش، ص۳۹۴۔
  9. حسینی زنجانی، شرح زیارت عاشورا، ۱۳۸۸ش، ص۳۲ و ۳۳۔
  10. طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۷۸۱.
  11. طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۷۸۲۔
  12. تبریزی، زیارت عاشورا فراتر از شبہہ، ۱۳۸۹ش، ص۹۶۔
  13. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ص۵۸۱
  14. طوسی، مصباح المتہجد، ص539۔
  15. مصاحبه با آیت اللہ محمدہادی یوسفی غروی، خبرگزاری شفقنا.
  16. شبیری زنجانی، استفتاء شمارہ ۴۳۸۳، تاریخ ثبت استفتاء ۱۳۸۶/۰۱/۳۰.
  17. شبیری زنجانی، جرعہ ای از دریا، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲
  18. الذريعۃ، ج12، ص11۔
  19. اماميہ مصنفين، ج1، ص452۔

مآخذ

  • ابن قولویہ، جعفر بن محمد بن جعفر بن موسی بن قولویہ قمی، کامل الزیارات، مترجم سید محمد جواد ذہنی، تہران، انتشارات پیام حق، 1377.
  • طوسی، محمد بن حسن طوسی، مصباح المتہجد، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1418ھ۔
  • انصاری قمی، مقالہ كتاب شناسى زيارت عاشورا، علوم حديث، شمارہ 23، بہار1381.
  • کلباسی، ابی المعالی کلباسی، شرح زیارت عاشورا، قم، شریعت، 1428ھ۔
  • خواجہ سروی، غلام رضا، سامانہ ہویت اسلامی: بازخوانی زیارت عاشورا، دانشگاہ اسلامی، ویژہ نامہ امام حسینؑ، زمستان 1381۔
  • حاج میرزا ابوالفضل تہرانی، شفاء الصدور فی شرح زیارۃ العاشور، تحقیق و پاورقی از سید ابراہیم شبیری زنجانی، انتشارات مرتضوی (تہران) چاپ دوم (سال 1383 ہجری شمسی)۔