شب ضربت امام علی علیہ السلام

ویکی شیعہ سے
شب ضربت امام علیؑ کی نقاشی، یوسف عبدی نژاد کے قلم سے

شبِ ضَربَتِ امام علی‌ؑ 18 رمضان کی شام اور 19 رمضان کی رات کو کہا جاتا ہے۔ 19 رمضان 40ھ کو صبح سویرے شیعوں کے پہلے امام، حضرت علیؑ تلوار کی وار سے زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ مسجد کوفہ میں ابن ملجم مرادی کے ہاتھوں رونما ہوا اور اسی سے 21 رمضان کو امام علیؑ شہید ہوئے۔

امام علیؑ پر ضربت

شیعوں کے پہلے امام
امام علی علیہ السلام
حیات طیبہ
یوم‌ الدارشعب ابی‌ طالبلیلۃ المبیتواقعہ غدیرمختصر زندگی نامہ
علمی میراث
نہج‌البلاغہغرر الحکمخطبہ شقشقیہبغیر الف کا خطبہبغیر نقطہ کا خطبہحرم
فضائل
آیہ ولایتآیہ اہل‌الذکرآیہ شراءآیہ اولی‌الامرآیہ تطہیرآیہ مباہلہآیہ مودتآیہ صادقینحدیث مدینہ‌العلمحدیث رایتحدیث سفینہحدیث کساءخطبہ غدیرحدیث منزلتحدیث یوم‌الدارحدیث ولایتسدالابوابحدیث وصایتصالح المؤمنینحدیث تہنیتبت شکنی کا واقعہ
اصحاب
عمار بن یاسرمالک اشترسلمان فارسیابوذر غفاریمقدادعبید اللہ بن ابی رافعحجر بن عدیمزید


امام علیؑ، 19 رمضان کو اپنی بیٹی ام‌کلثوم کے ہاں مدعو تھے۔[1] ابن‌ سعد امام حسن مجتبیؑ سے نقل کرتے ہیں کہ اس رات پیغمبر اکرمؐ امام علیؑ کے خواب میں آتے ہیں اور امیرالمومنین اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہؐ آپؑ کو کہتے ہیں کہ لوگوں کے لئے بدعا کرتے ہوئے یوں کہیں: «اے اللہ ان لوگوں کے بدلے میں اچھے لوگ مجھے دیں اور میری جگہ ان پر بدترین شخص مسلط کریں»[2] یہ روایت نہج البلاغہ میں نقل ہوئی ہے۔[3]

امام علیؑ کے قاتل

ابن سعد، الطبقات الکبری میں لکھتے ہیں کہ ابن‌ملجم مرادی، بَرَک بن عبیداللہ تمیمی اور عمرو بن بکر تمیمی نے معاویہ اور عمرو بن عاص کو قتل کرنے کا آپس میں عہد کیا۔ ابن‌ ملجم کوفہ آیا اور قطام بنت شجنہ بن عدی سے ملا، اس سے رشتے کی درخواست کی۔ قطام نے اپنے حق مہر میں سے کچھ حضرت علیؑ کا قتل قرار دیا اور ابن ملجم نے کہا کہ میں اسی لئے ہی کوفہ آیا ہوں۔ 19 رمضان کی رات کو اس نے اشعث بن قیس کندی کے ہاں گزاری۔ اپنی تلوار کو زہر سے آلودہ کیا اور 19 رمضان کی صبح سویرے مسجد کوفہ میں امام علیؑ پر تلوار کی وار کی۔ اس کام میں شبیب بن بجرہ اشجعی بھی ابن ملجم کے ساتھ تھا۔[4] کَشف الغُمَّہ سے منقول ایک روایت کے مطابق ابن ملجم کی تلوار کی ضربت امام علیؑ کے سر پر ٹھیک اسی جگہ لگی جہاں پر جنگ خندق میں عمرو بن عبدود کی تلوار کی ضربت لگی تھی۔[5]

ضربت کا وقت

امام علیؑ پر ضربت لگنے کے وقت کے بارے میں روایات مختلف ہیں، بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ جیسے آپ مسجد میں داخل ہوئے ضربت لگی،[6] جبکہ بعض دیگر روایات کے مطابق اس وقت ضربت لگی جب امام علیؑ لوگوں کو نماز کے لئے جگا رہے تھے۔[7] میثم تمار سے منقول ہے کہ جب امام علیؑ نماز میں مشغول تھے اس وقت آپ کے سر پر ضربت لگی اور جعدہ بن ہبیرہ[یادداشت 1] نے امام کی جگہ نماز پڑھائی، جبکہ بعض روایات کے مطابق امام علیؑ نے ہی نماز کو مختصر کر کے آخر تک پہنچایا۔[8][یادداشت 2]شیعہ علما میں سے شیخ طوسی، اور اہل‌سنت علما میں سے ابن‌عساکر، ابن‌ عبد البر اور متقی ہندی نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔[9]

فزت و رب الکعبہ

تفصیلی مضمون: فزت و رب الکعبہ

فُزْتُ و ربِّ الکَعبَةِ (ترجمہ: کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔) تاریخی کتابوں کے نقل کے مطابق اس جملے کو امام علیؑ نے آپؑ پر ضربت لگنے کے بعد کہا۔ ابن‌ابی‌الدنیا نے اپنی کتاب مقتل الامام امیرالمومنین میں،[10] ابن‌عساکر نے تاریخ مدینہ دمشق میں[11] اور سید رضی نے خصائص الائمہ میں[12] اس جملے کو نقل کیا ہے۔

انیسویں رات کے اعمال

تفصیلی مضمون: 19رمضان

رمضان کی انیسویں رات ان راتوں میں سے ایک ہے جس کے بارے میں شیعہ شب قدر ہونے کا احتمال دیتے ہیں۔ شیعہ اس رات شب قدر کے اعمال بجا لاتے ہیں اور امام علیؑ کی عزاداری منعقد کرتے ہیں۔ اس رات کے مخصوص اعمال میں سے ایکاللہم الْعَنْ قَتَلَةَ اَمیرِالمؤمنین (ترجمہ: «اے اللہ امیر المومنینؑ کے قاتلوں پر لعنت بھیج») کا جملہ ہے.[13]

نوٹ

  1. جعدہ بن ہبیرہ مخزومی امام علیؑ کے بھانجے (ام ہانی کے بیٹے) اور آپؑ کے مورد اطمینان اور آپ کی حکومت کے افراد میں سے تھے۔ انہیں ایک فقیہ، دانشمند، دلیر جنگجو اور زبردست سخنور کہا گیا ہے۔ امام علیؑ نے بصرہ کی جنگ کے بعد انہیں خراسان بھیجا۔(محمدی ری‌شہری، موسوعة الامام علی بن ابی‌طالب(ع)، ج3، ص272.)
  2. جبکہ بعض نقل کے مطابق امام حسن مجتبیؑ نے نماز تکمیل کو پہنچایا اور امام علیؑ نے نماز بیٹھ کر اشارے سے آخر تک پوری کردی۔[و تأخر عن الصف وتقدم الحسن فصلى بالناس وأميرالمؤمنين يصلي إيماءاً من جلوس] مجلسی، بحارالانوار،1403ھ، ج42، ص283

حوالہ جات

  1. حسینی مطلھ، شہید تنہا، 1386ھ، ص114
  2. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج3، ص 26
  3. فيض الاسلام اصفہانى، على‌نقى، نہج البلاغہ، ج1، ص165، قصار 69
  4. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج3، ص 25-28
  5. اربلی، كشف الغمة، ج1، ص416.
  6. ابن‌ابی الدنیا، مقتل امام امیرالمومنین، 1411ھ، ص29، 35.
  7. ابن‌ابی‌الدنیا، مقتل امام امیرالمومنین، 1411ھ، ص 28، 33
  8. ابن‌ابی‌الدنیا، مقتل امام امیرالمومنین، 1411ھ، ص30.
  9. .جعفریان، تاریخ خلفا، 1387ش، ص.339.
  10. ابن‌ابی‌الدنیا، مقتل امام امیرالمومنین، 1411ھ، ص39.
  11. ابن‌عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، 1415ھ، ج42، ص561.
  12. سید رضی، خصائص الائمہ، 1406ھ، ص63.
  13. عباس قمی، مفاتیح الجنان، بخش اعمال شب قدر، اعمال مخصوص شب 19.

مآخذ

  • ابن‌ابی‌الدنیا، عبداللہ بن محمد، مقتل الامام امیرالمومنین علی بن ابی‌طالب، قم، مجمع احیاء الثقافة الاسلامیة، 1411ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1418ھ۔
  • ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، دار الفکر، 1415ھ۔
  • جعفریان، رسول، تاریخ خلفا، قم، انتشارات دلیل ما، 1387 ہجری شمسی.
  • حسینی مطلق، سید محمدرضا، شہید تنہا، قم، انتشارات کوثر کویر، 1386ھ۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، خصائص الائمہ، مشہد، آستان قدس رضوی، 1406ھ۔
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان.