حدیث کساء پیغمبر خدا، علی، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام کی فضیلت میں وارد ہونے والی حدیث کو کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ زوجۂ رسول ام المؤمنین ام سلمہ کے گھر میں رونما ہوا۔ آیت تطہیر کے نزول کے وقت رسول اللہؐ اونی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور حضرت امام علی ،حضرت فاطمہ ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام بھی اس چادر تلے موجود تھے ۔ اس چادر کو "کساء" کہا جاتا تھا۔ ائمۂ شیعہ نے بارہا اپنی فضیلت اور امت مسلمہ پر ان کے حق خلافت کے اثبات کے لئے اس حدیث کا حوالہ دیا ہے۔

حدیث کساء
حدیث کساء
حدیث کساء کے مفہوم کی عکاسی
حدیث کساء کے مفہوم کی عکاسی
حدیث کے کوائف
موضوعپنج تن کی فضیلت میں
صادر ازپیغمبر اسلامؐ
اصلی راویام سلمہ
اعتبارِ سندخبر مستفیض
شیعہ مآخذتفسیر قمی، تفسیر فرات کوفی، البرہان فی تفسیر القرآن
قرآنی تائیداتآیہ تطہیر
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل

کساء کے لغوی معنی

کساء عربی میں ایک قسم کی عبا کو کہا جاتا ہے جو کندھوں پر ڈالی جاتی ہے، یہ لفظ اوڑھنے اور بچھونے کے معنی میں بھی آیا ہے۔ لیکن اس حدیث میں لفظ "کساء" سے مراد عبا یا چوغا جیسا کپڑا ہے جو لباس کے اوپر پہنا جاسکتا ہے۔[1]

واقعے کی کیفیت

کساء کے سلسلے میں واردہ احادیث میں سے کسی حدیث میں بھی اس حدیث کو مکمل طور پر نقل نہیں کیا گیا ہے اور ہر حدیث نے اس کا کچھ حصہ نقل کیا ہے۔ جو کچھ یہاں ذکر کیا جاتا ہے درحقیقت خلاصہ ہے تمام روایات کا جن کے مجموعے سے واقعہ کساء کی مکمل تصویر کشی کی گئی ہے۔

پیغمبر اسلامؐ اپنی زوجہ جناب ام سلمہ کے گھر میں ـ اپنے بعض افراد خاندان کے بارے میں ـ اللہ کا ایک اہم پیغام وصول کرتے ہیں۔ چنانچہ اپنی زوجہ کو حکم دیتے ہیں کہ کسی کو بھی گھر میں داخلے کی اجازت نہ دیں۔ دوسری طرف سے اسی روز آپؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ(س) اپنے والد ماجدؐ کے لئے "عصیدہ"[2] نامی مناسب غذا تیار کرنے کا ارادہ کرتی ہیں؛ آپ(س) یہ غذا ایک چھوٹے سے سنگی دیگچے میں تیار کرتی ہیں اور اس کو ایک طبق (رکابی) پر رکھتی ہیں اور والد کی خدمت میں پیش کرتی ہیں۔

ام سلمہ کہتی ہیں: "میں فاطمہ(س) کو نہ روک سکی"۔

رسول اللہؐ اپنی بیٹی سے فرماتے ہیں: جاکر اپنے شریک حیات اور دو بیٹوں کو بھی لے کر آؤ۔

حضرت فاطمہ(س) گھر لوٹ کر جاتی ہیں اور اپنے شریک حیات اور اپنے دو اطفال حسن اور حسین کو والد ماجد کی خدمت میں حاضر کرتی ہيں۔

حضرت فاطمہ(س) اپنے خاوند اور بچوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہوتی ہيں تو ام سلمہ رسول اللہؐ کے اشارے پر ایک گوشے میں نماز میں مصروف ہوئیں۔

رسول خداؐ علی(ع)، حضرت فاطمہ(س) اور دو بیٹوں حسن(ع) اور حسین(ع) کے ساتھ بیٹی کے بچھائے ہوئے دسترخوان پر بیٹھ جاتے ہیں۔ رسول اللہؐ خیبری کساء (اہلیان خیبر کے ہاتھوں بُنے ہوئے کپڑے سے بنی عبا) کو اپنے داماد، بیٹی اور بیٹوں کے سر پر ڈال دیتے ہیں اور دائیں ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور رب متعال کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: "بار پروردگارا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ پس تو ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور کر اور انہیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے"۔

بعدازاں جبرائیل امین نازل ہوتے ہیں اور اللہ کے بیغام پر مبنی یہ آیت (یعنی آیت تطہیر) پڑھ کر سنائی، جہاں ارشاد ہوتا ہے:

"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا"
ترجمہ: اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر گناہ کو دور رکھے اے اس گھر والو! اللہ تمہیں پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔[3]

ام المؤمنین ام سلمہ آگے بڑھیں اور کساء کا ایک گوشہ اٹھایا مگر رسول اللہؐ نے کساء ان کے ہاتھ سے کھینچ لی اور انہیں اہل بیت(ع) کے چھوٹے مگر با عظمت اجتماع میں داخل نہیں ہونے دیا۔

ام سلمہ عرض گزار ہوئیں: [[یا رسول اللہؐ! کیا میں اہل بیت کے زمرے میں نہیں ہوتی؟

رسول اللہؐ نے فرمایا: اے ام سلمہ! تم خیر اور نیکی کے راستے پر ہو؛ تم پیغمبر کی زوجات میں سے ہو۔ [4]

واقعۂ کساء ام سلمہ کے گھر میں

علامہ حلی کہتے ہیں: آیت تطہیر کا ام سلمہ کے گھر میں نزول، ایسے مسائل میں سے ہے جس پر امت اسلام کا اجماع ہے اور یہ حدیث تواتر کے ساتھ ائمہ اطہار(ع) اور متعدد صحابہ سے نقل ہوئی ہے۔[5]

بےشک آیت تطہیر اور واقعۂ کساء ام سلمہ کے گھر میں رونما ہوا ہے۔

ابن حجر کہتے ہیں: یہ آیت (آیت تطہیر) ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے۔[6]

اصحاب حدیث سے منقول ہے کہ "اس آیت کے بارے میں عمر سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: "اس کے بارے میں عائشہ سے پوچھو"۔ چنانچہ ام المؤمنین عائشہ سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:

"یہ آیت میری بہن ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے چنانچہ جاؤ اور ام المؤمنین ام سلمہ سے پوچھو کیونکہ وہ اس بارے میں مجھ سے زیادہ آگہی رکھتی ہے"۔[7]

سیوطی اپنی تفسیر دُرُّ المنثور میں ابن ابن مردویہ سے نقل کرتے ہیں کہ "ام سلمہ نے کہا: آیت "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ ..." میرے گھر میں نازل ہوئی۔[8]

واقعۂ کساء کی سند

یہ واقعہ سند کے لحاظ سے کسی صورت بھی خدشہ پذیر نہیں ہے۔ بڑے اور نامی گرامی محدثین نے اس واقعے کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے؛ یہ حدیث اصطلاحاً مستفیض ہے اور حتی وسیع تحقیق کرکے اس کے بارے میں تواتر کا دعوی کیا جاسکتا ہے۔ یہ واقعہ اسلامی معاشرے میں اس قدر معروف و مشہور ہے کہ اس کے رونما ہونے کے دن کو "یوم کساء" کا نام دیا گیا اور جو خمسۂ طیبہ ـ جو اس دن اللہ کی عنایت خاصہ سے بہرہ ور ہوئے اصحاب کساء کہلائے۔[9]

طبری اپنی کتاب دلائل الإمامۃ میں لکھتے ہیں: "مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت تطہیر کے نزول کے وقت پیغمبرؐ؛ علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام) کو مدعو کیا اور انہیں یمانی کساء اوڑھا دی اور یوں دعا فرمائی:

"اَللهُمَّ هٰؤُلاءِ أهلي فَأذهِب عَنهُم الرِّجسَ وَطَهِّرهُم تَطهِیراً"۔
بار خدایا! یہ میرے اہل بیت (اور میرے اہل خانہ) ہیں پس تو ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور رکھ اور انہیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے"۔[10]

شیعہ کتب میں

تفاسیر

یہ حدیث تفسیر قمی،[11] تفسیر فرات کوفی،[12] اور البرهان فی تفسیر القرآن[13] میں نقل ہوئی ہے۔

کتب حدیث

حدیث کساء اصول کافی میں،[14] اور امالیِ شیخ طوسی[15] میں نقل ہوئی ہے۔

کتب اہل سنت

کتب حدیث

حدیث کساء صحیح مسلم یوں نقل ہوئی ہے: عائشہ کہتی ہیں: "ایک دن رسول خداؐ باہر آئے جبکہ ایک سیاہ اون سے بُنی ہوئی منقش عبا کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے حسن آئے اور آپؐ نے انہیں عبا میں جگہ دی اور پھر حسین آئے اور آپؐ نے انہیں بھی عبا میں جگہ دی؛ بعدازاں فاطمہ(س) آئیں اور عبا میں چلی گئیں اور آخر میں امام علی(ع) آئے اور آپؐ نے انہیں بھی اپنی عبا میں جگہ دی اور فرمایا:

"إنّما یُریدُ اللّه‏ُ لِیُذْهِبَ عَنْکُم الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطْهِیراً"۔[16]

ابن حجر صواعق المحرقہ میں لکھتے ہیں: "سند صحیح سے ہم تک پہنچا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ایک کساء ان چار افراد (علی، فاطمہ، حسن اور حسین) کے سر پر ڈال دی اور اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا: بار خدایا! یہ میرے اہل بیت اور میرے خاص قرابتدار ہیں، پلیدی کو ان سے دور فرما اور انہیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے"۔[17]

ابن اثیر اپنی کتاب اسد الغابہ[18] اور احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند[19] میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ابن تیمیہ نے [[منہاج السنہ[20] میں لکھا ہے کہ یہ صحیح السند احادیث میں سے ہے جس کو احمد بن حنبل اور ترمذی نے ام سلمہ سے نقل کیا ہے اور مسلم نے بھی اپنی صحیح میں اس کو عائشہ سے نقل کیا ہے۔

کتب تفسیر

زمخشری الکشاف میں،[21] فخر رازی اپنی کتاب تفسیر الکبیر میں اور وہ دونوں قرطبی[22]، ابن کثیر[23] اور سیوطی[24] سے اپنی تفاسیر میں حدیث کساء کو نقل کیا ہے۔ قُرطُبیّ[25] آیت تطہیر کی تفسیر کے ضمن میں امّ سلمہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "آیت تطہیر نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلوایا اور انہیں خیبری کساء اوڑھا دی الی آخر۔

حدیث کے حوالے

یہاں صرف ان مؤلفین کی فہرست پیش کی گئی ہے جنہوں نے حدیث کساء کو آیت تطہیر کے شان نزول میں نقل کیا ہے اور پنجتن پاک کے نام لے کر ان کے حوالے سے روایت بیان کی ہے۔ یاد رہے کہ یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔

  • ولی الدین محمد ابن عبداللہ الخطیب الامری تبریزی[26]
  • فخر الدین رازی[27]
  • جلال الدین سیوطی[28]
  • احمد بن محمد بن حنبل شیبانی المعروف بہ احمد بن حنبل[29]
  • احمد ابن شعیب نسائی[30]
  • محمد ابن جریر طبری[31]
  • احمد بن حسین بن علی بیہقی[32]
  • حاکم ابو عبداللہ محمد ابن عبداللہ نیشاپوری[33]
  • شہردار بن شيرويہ، دیلمی[34]
  • احمد بن علی ثابت خطیب بغدادی۔[35]
  • محمود ابن عمر زمخشری[36]
  • علی ابن حسین ابن عبداللہ ابن عساکر دمشقی[37]
  • یوسف الواعظ ابن عبداللہ المعروف بہ ابن جوزی[38]
  • محمد بن احمد الذہبی[39]
  • احمد ابن حجر المکی[40]
  • محمد ابن علی شوکانی[41]
  • شہاب الدین محمود آلوسی[42]

ائمہ(ع) کا حدیث کساء سے استدلال

حضرت علی(ع) کا استدلال

حضرت علی(ع) نے رسول اللہؐ کے وصال کے بعد اپنے حق خلافت و جانشینی کے دلائل دیتے ہوئے ایک موقع پر ابوبکر کے ساتھ مناظرہ کرتے ہوئے واقعۂ کساء کی یادآوری کرائی اور فرمایا: "کیا آیت تطہیر میرے اور میرے خاندان اور بیٹوں کی شان میں نازل ہوئی یا تمہارے اور تمہارے خاندان کے حق میں؟
خلیفہ نے کہا: بےشک یہ آیت آپ اور آپ کے خاندان کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دلاتا ہوں کہہ دو کہ کیا اس دن رسول اللہؐ نے رسول اللہؐ نے مجھے اور میرے خاندان کو بلوایا ـ اور فرمایا کہ "خداوندا! یہ میرے افراد خاندان ہیں جو تیری طرف کے راستے پر گامزن ہیں نہ کہ دوزخ کی طرف جانے والے راستے پر ـ یا آپؐ نے تمہیں بلوایا؟۔[43]
خلیفہ کے تعین کے لئے خلیفۂ ثانی نے شوری تشکیل دی تو امیرالمؤمنین نے حکومت اور پیغمبرؐ کی جانشینی کے سلسلے میں اپنے استحقاق کے اثبات کے لئے حدیث کساء سے استناد و استشہاد کیا۔[44]
ایک موقع پر صحابہ رسولؐ ایک دوسرے پر فخر فروشی اور تفاخر کرنے لگے تو امیرالمؤمنین)(ع) نے اپنے اور اپنے خاندان کی فضیلت کرتے ہوئے حدیث کساء کا حوالہ دیا۔[45]

امام حسن(ع) کا استدلال

معاویہ کے ساتھ امام حسن(ع) کی صلح کے بعد، معاویہ نے تقریر کی تو امام حسن(ع) نے خطبہ دیا اور اہل بیت کی شان میں آیت مباہلہ کا حوالہ دینے کے بعد اپنے اور اہل بیت(ع) کی فضیلت بیان کرنے کے لئے حدیث کساء سے استدلال کیا۔[46]

مفاتیح الجنان کی آخری حدیث

شیخ عباس قمی کی مشہور عالم کتاب دعا مفاتیح الجنان کی آخری حدیث ـ جو حدیث کساء کے عنوان سے مشہور ہے ـ فریقین کی کسی بھی معتبر کتاب میں منقول نہیں ہے اور حتی کہ بحار الانوار میں اس کو نقل نہیں کیا گیا ہے حالانکہ اس کتاب کا مقصد ہی اہل بیت(ع) سے منسوب احادیث کو جمع کرنا تھا۔
مرحوم مغفور شیخ عباس قمی اپنی کتاب منتہی الآمال میں لکھتے ہیں کہ "حدیث کساء" متواتر حدیثوں میں سے ہے لیکن جو حدیث "حدیث کساء" کےعنوان سے ہمارے درمیان رائج ہے، اس کیفیت کے ساتھ معتبر اور معروف کتب اور اصول حدیث اور محدثین کے مجامعی متقنہ میں نقل نہیں ہوئی ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث کتاب منتخب کے خطائص میں سے ہے۔[47]
جس طرح کہ جناب محدث قمی نے نقل کیا ہے یہ حدیث پہلی بار بغیر سند کے، منتخب طریحی میں نقل ہوئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ صدر اول سے تقریبا ایک ہزار سال تک یہ حدیث [اس کیفیت سے] کتب حدیث میں نہیں دیکھی جاسکی ہے۔
بہت سے شیعہ اکابرین حدیث ـ منجملہ کلینی رازی، شیخ طوسی، شیخ مفید، شیخ طبرسی اور ابن شہر آشوب ـ نے اس حدیث کو اسی کیفیت سے ـ عبارات میں مختصر اختلاف کے ساتھ ـ نقل کیا ہے جس طرح کہ اس مضمون کے آغاز میں منقول ہے اور یہ عبارات رائج حدیث کساء کی عبارت سے مختلف ہیں۔[48]

حدیث کساء، کتب اور شرحیں

بعض شیعہ علماء نے حدیث کساء کی سند کے سلسلے میں مستقل رسالے تالیف کئے ہیں اور اس کے اعتبار کے اثبات کے لئے اقدام کیا ہے؛ جیسے:

  1. سند حدیث کساء، تالیف: آیت اللہ مرعشی نجفی، مطبوعہ 1356ہجری قمری؛
  2. آیۃ التطہیر فی الخمسۃ اہل الکساء، تالیف: محیی الدین موسوی غریفی، مطبوعہ 1377ہجری قمری؛
  3. حدیث الکساء عند اہل السنہ، تالیف: سید مرتضی عسکری، طبع اول 1395ہجری قمری، اور طبع دوئم بمع شیعہ مآخذ، 1402ہجری قمری؛
  4. سند حدیث شریف کساء، تالیف: علی اکبر مہدی پور، چاپ 1410 ہجری قمری۔

نیز حدیث شریف کساء پر مختلف شرحیں بھی لکھی گئی ہیں؛ جیسے:

  1. التحفۃ الکسائیۃ، تالیف: شیخ بافقی یزدی (متوفٰی 1310ہجری قمری)؛
  2. کشف الغطاء عن حدیث الکساء، تالیف: شیخ علی آل عبدالغفار کشمیری (متوفٰی 1345ہجری قمری).

نیز عربی، فارسی، اردو، ترکی، لُری اور دیگر زبانیں بولنے اور لکھنے والے شعراء نے بھی اس حدیث کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔[49]

متن اور ترجمہ

متن ترجمه
عَنْ فاطِمَهَ الزَّهْراَّءِ عَلَیْهَا السَّلامُ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ قالَ سَمِعْتُ فاطِمَهَ اَنَّها قالَتْ دَخَلَ عَلَىَّ اَبى رَسُولُ اللَّهِ فى بَعْضِ الاْیّامِ فَقالَ السَّلامُ عَلَیْکِ یا فاطِمَهُ فَقُلْتُ عَلَیْکَ السَّلامُ قالَ اِنّى اَجِدُ فى بَدَنى ضُعْفاً فَقُلْتُ لَهُ اُعیذُکَ بِاللَّهِ یا اَبَتاهُ مِنَ الضُّعْفِ فَقَالَ یا فاطِمَهُ ایتینى بِالْکِساَّءِ الْیَمانى فَغَطّینى بِهِ فَاَتَیْتُهُ بِالْکِساَّءِ الْیَمانى فَغَطَّیْتُهُ بِهِ وَصِرْتُ اَنْظُرُ اِلَیْهِ وَاِذا وَجْهُهُ یَتَلاَْلَؤُ کَاَنَّهُ الْبَدْرُ فى لَیْلَهِ تَمامِهِ وَکَمالِهِ جابر بن عبدالله انصاری بی بی فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا)بنت رسول الله ﷺ سے روایت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ میں جناب فاطمة ا لزہراء (سلام اللہ علیھا) سے سنا ہے کہ وہ فرما رہی تھیں کہ ایک دن میرے بابا جان جناب رسول خدا میرے گھر تشریف لائے اور فرمانے لگے: ” سلام ہو تم پر اے فاطمہ(ع)“ میں نے جواب دیا:”آپ پر بھی سلام ہو“۔ پھر آپ نے فرمایا:” میں اپنے جسم میں کمزوری محسوس کررہا ہوں“ میں نے عرض کی:” باباجان خدا نہ کرے جو آپ میں کمزوری آئے“ آپ نے فرمایا:”اے فاطمہ(ع)! مجھے ایک یمنی چادر لاکر اوڑھا دو“ تب میں یمنی چادر لے آئی اور میں نے وہ بابا جان کو اوڑھادی اور میں دیکھ رہی تھی کہ آپکاچہرہ مبارک چمک رہا ہے جس طرح چودھویں رات کو چاند پوری طرح چمک رہا ہو،


متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. عسگری، مرتضی، حدیث الکساء من طُرق الفریقین۔
  2. وہ غذا جو آٹے اور گھی کو ملا کر تیار ہوتی ہے؛ ابن منظور، لسان العرب، ج3 ص291۔
  3. سورہ احزاب آیت 33۔
  4. ری شہری، اہل بیت(ع) در قرآن و حدیث، ج1، ص38۔
  5. علامہ حلی، نہج الحق وکشف الصدق، ص 174۔
  6. ابن حجر، صواعق المحرقہ، ص 144۔
  7. مفید، الفصول المختارة، ص122۔
  8. سیوطی، الدر المنثور، ج5، ص376۔
  9. ری شہری، اہل بیت(ع) در قرآن و حدیث، ج1، ص38۔
  10. طبری، دلائل الإمامۃ، ص21۔
  11. قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج2، ص193۔
  12. فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ص111 و 337 تا 332۔
  13. بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، ج2، ص106۔
  14. کلینی،کافی، ج2، ص8۔
  15. طوسی، الأمالی، ص368 و ص565۔
  16. مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج15، ص190۔
  17. ابن حجر، صواعق المحرقہ، ص143۔
  18. ابن الأثیر، أسد الغابۃ ج4، ص29۔
  19. احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج7، ص415۔
  20. ابن تیمیہ، منہاج السنہ، ج5، ص13۔
  21. الزمخشری، تفسیر الکشاف، ذیل آیت 61، سوره آل عمران۔
  22. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج14، ص183۔
  23. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ج6، ص 369۔
  24. سیوطی، الدرالمنثور، ج5، ص376۔
  25. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج14، ص183۔
  26. الامری التبریزی، مشکوۃ المصابیح۔
  27. فخر رازی، تفسیر کبیر۔
  28. سیوطی، الدر المنثور۔
  29. ابن حنبل، مسند، ج1 ص331، ط مصر۔
  30. نسائی، الخصائص، ص4۔
  31. طبری، تفسیر، ج22 ص5۔ط مصر۔
  32. بیہقی، سنن الکبری ج2 ص149۔
  33. حاکم نیشابوری، مستدرک علی الصحیحین، ج2، صص 416،146،159،172۔
  34. دیلمی، مسند الفردوس (الفردوس الكبير)، ابن حجر میں صواعق نے اس کا حوالہ دیا ہے۔
  35. بغدادی، خطیب، تاریخ بغداد، ج10۔
  36. کشاف (زمخشری) جلد اول صفحہ 193۔ از علامہ محمود ابن عمر الزمخشری۔
  37. ابن عساکر، تاریخ دمشق۔
  38. ابن جوزی، تذکرۃ خواص الامہ۔
  39. الذہبی، تلخیص المستدرک۔
  40. صواعق المحرقہ۔
  41. الشوکانی، فتح القدیر۔
  42. الآلوسی، تفسیر روح المعانی۔
  43. ابن‌بابویه، خصال (فارسی ترجمہ:) جعفری ج2، ص335۔
  44. ابن‌بابویه، الخصال، ج2، ص561 ۔
  45. ابن‌بابویه،کمال الدین و تمام النعمة، ج1، ص278۔
  46. طوسی، الأمالی، ص559۔
  47. عباس قمی، منتهی الامال ج1، ص820۔
  48. ری شهری اهل بیت(ع) در قرآن و حدیث ج1، ص42 ۔
  49. دائرة المعارف تشیع، ج6، ص188۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • محمد محمد ری شہری اہل بیت(ع) در قرآن و حدیث، ترجمہ رضا شیخی و حمیدرضا آژیر، دارالحدیث، 1379ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف بن مطہر، نہج الحق و کشف الصدق، دارالکتاب اللبنانی، بیروت، 1982عیسوی۔
  • ابن حجر، احمدبن محمد ابن علی ابن حجر ہیثمی، صواعق المحرقہ، مکتبۃ القاہرة، مصر، 1385ہجری قمری۔
  • مفید، محمد بن محمد بن النعمان، دفاع از تشیع ترجمہ الفصول المختاره، مترجم آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، محقق حسن زاده صادق، زمانی نژاد علی اکبر، انتشارات مومنین، قم، 1377ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جرير بن رستم، دلائل الإمامۃ، محقق قسم الدراسات الاسلامیۃ موسسۃ البعثۃ، بعثت، قم، 1413ہجری قمری۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسير قمی، محقق، موسوی جزایری طیب، دارالکتاب، قم 1404۔
  • کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات کوفی، محقق کاظم محمد، موسسۃ الطبع و النشر فی وزارة الارشاد الاسلامی، تہران، 1410ہجری قمری۔
  • بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر قرآن، محقق قسم الدراسات الاسلامیہ موسسہ البعثۃ، موسسہ البعثۃ، قم، 1374ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمدبن یعقوب، الکافی، دارالحدیث، قم، 1429ہجری قمری۔
  • طوسی، محمد بن حسن، امالی، محقق موسسۃالبعثۃ، دارالثقافہ، قم، 1414ہجری قمری۔
  • مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، دارالمعرفہ، بیروت،1423ه، 2003عیسوی۔
  • ابن تیمیہ، احمد بن عبد الحليم، منہاج السنہ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، بی تا، بی جا۔
  • ابن بابویہ (صدوق)، محمّد بن على، خصال، ترجمہ جعفری یعقوب، نسیم کوثر، قم، 1372ہجری شمسی۔
  • ابن بابویہ (صدوق)، محمّد بن على، الخصال، محقق غفاری علی اکبر، جامعہ مدرسین، قم 1362ہجری شمسی۔
  • ابن بابویہ (صدوق)، محمّد بن على، کمال الدین و تمام النعمۃ، محقق غفاری علی اکبر، اسلامیہ، تہران، 1395ہجری شمسی۔
  • شیخ عباس قمی، منتہی الامال، موسسہ انتشارات ہجرت، قم، 1372ہجری شمسی۔
  • ابن منظور، جمال الدین محمد بن مکرم، نشر ادب الحوزه، قم، 1405ق، 1363ہجری شمسی۔
  • بحرانی، سید ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیرالقرآن، محقق قسم الدراسات الاسلامیہ موسسۃ البعثۃ، موسسۃ البعثۃ، قم، 1374ہجری شمسی۔
  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم محمد، اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابۃ، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1377ه۔
  • احمد بن محمد بن حنبل، مسند احمدبن حنبل، داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1991م، 1412ه۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور فی تفسیرالماثور، دارالکتب العلمیہ، لبنان، 1421ه، 2000عیسوی۔
  • الزمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج1، نشر البلاغہ، الطبعۃ الثانیۃ، قم، 1415 ہجری قمری۔
  • قرطبی، محمدبن احمد انصاری، الجامع لاحکام القرآن، داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1985م، 1405ه۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمرو، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق محمد حسین شمس الدین، دارالکتب العلیمیۃ منشورات محمد علی بیضون، بیروت، 1419ہجری قمری۔
  • دائره المعارف تشیع، جلد ششم، نشر شہید سعید محبی، تہران 1380ہجری شمسی۔