ولایت تکوینی

ویکی شیعہ سے

وِلایتِ تَکوِینی موجودات اور کائنات پر دخل و تصرف کی ماورایی طاقت کو کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ولایت تکوینی سے مراد ہر چیز پر اللہ کا تصرف اور تمام موجودات کے امور کی تدبیر ہے۔ شیعہ مذہب میں ولایت تکوینی کا مسئلہ رسول اللہؐ اور ائمہ معصومینؑ کے بارے میں بیان ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ عرفان اسلامی کے مسائل میں سے بھی ہے۔ شیعہ علما کے ہاں رسول اللہؐ اور ائمہ معصومینؑ کے لیے ولایت تکوینی ایک مسلّم امر ہے لیکن ولایت تکوینی کے دائرے کے بارے میں دو نظریات پائے جاتے ہیں۔

پہلے نظرئے کے مطابق پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کی ولایت تکوینی عام نہیں جو سب کو شامل کرے بلکہ خاص امور سے مربوط ہے؛ جیسے دوسروں کے باطن کی خبر اور کائنات میں خارق العادہ دخل و تصرف کی طاقت۔ دوسرے نظریے کے مطابق پوری کائنات کے امور من جملہ موجودات کا زندہ ہونا اور مرنا، ان کی ولایت میں ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے کائنات کو فیض پہنچا رہا ہے۔

تعریف

ولایت تکوینی کائنات اور موجودات میں ایک خارق العادہ تصرف کی قدرت کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز میں تصرف کی قدرت رکھتا ہے اور کائنات کے موجودات کے امور کی تدبیر کی طاقت رکھتا ہے،[1] یا کوئی انسان جو معنوی کمال کو پہنچ چکا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کائنات میں خلاف معمول تبدیلی لے آتا ہے۔[2]

ولایت تکوینی کی بعض مثالیں مندرجہ ذیل ہیں: انبیاء اور ائمہ معصومین کے معجزے اور کرامات، طی الارض جیسے خلاف معمول کام،[3] پانی پر چلنا،[4] دوسروں کے باطن کو جاننا،[5] حیوانات سے بات کرنا،[6] بدن کا انسانی روح سے خالی ہونا[7] اور روح کی طاقت سے فطرت میں تصرف کرنا[8]

ولایت تکوینی کیا ہے؟

اسلامی مآخذ میں ولایتِ تکوینی کا مسئلہ انسان کے بارے میں ذکر ہوا ہے جس میں یہ سوال کہا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسان ولایت تکوینی رکھ سکتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب اگر ہاں میں ہو تو پھر اس کا دائرہ کار کہاں تک ہے؟[9]

ولایت تکوینی کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اللہ سے دعا مانگے اور اللہ تعالی اس کی دعا قبول کر کے خارق العادہ کام انجام دے؛[10] بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کی بندگی کے ذریعے ایسی معنوی قدرت حاصل کرے جس کے ذریعے خود فطرت اور طبیعت میں تصرف کر سکے، البتہ یہ تصرف اللہ تعالی کی اجازت سے ہوگی۔[11]

مسئلے کا منشاء

مرتضی مطہری (1920-1979ء) کا کہنا ہے کہ ولایت تکوینی کا مسئلہ عرفانی مسئلہ بھی ہے اور شیعوں کے ہاں دینی مسئلہ بھی ہے؛ لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عرفان اسلامی نے اسے شیعوں سے لیا ہے۔[12]

شیعہ اماموں سے بعض احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ کو «تفویض» ہونے کا ذکر آیا ہے۔ ان میں سے بعض احادیث میں تفویض کو قبول کیا گیا ہے[13] اور بعض میں اسے رد کیا گیا ہے۔[14]

تحقیقات کے مطابق تکوینی ولایت پہلی بار تیسری صدی ہجری میں عرفان اسلامی میں ولایت کے عنوان سے بیان ہوئی۔ اس کے بعد سے ہمیشہ اسلامی عرفان میں بیان ہوتی تھی یہاں تک کہ محیی‌ الدین عربی (560-638) تک پہنچ گئی اور انہوں نے اس کی تفصیل سے تشریح کی۔[15] اسی تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پہلی بار ولایت اور تکوین کا مرکب لفظ معاصر صدیوں میں شیعہ علما کے ادبیات میں بیان ہوا ہے۔[16]

پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کی ولایت تکوینی

شیعہ علما کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہؐ اور ائمہ معصومینؑ کے پاس ولایت تکوینی ہے لیکن اس کے حدود اور اختیارات کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے:

ایک گروہ کا کہنا ہے کہ معصومینؑ طبیعت اور فطرت میں بعض تصرفات کرسکتے ہیں؛ لیکن یہ تصرفات عمومی نہیں ہیں اور بعض استثنائی موارد کے ساتھ مختص ہے۔ مرتضی مطہری، صافی گلپایگانی اور جعفر سبحانی اسی گروہ میں سے ہیں۔[17]

ان کے مطابق ولایت تکوینی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر چیز معصومینؑ کو تفویض اور ان کے حوالے ہوئی ہو اور کائنات کی مدیریت ان کے اختیار میں ہو اور اللہ تعالی کی طرف سے خلق کرتے ہوں اور موت اور حیات دیتے ہوں۔[18] شیخ صدوق اور شیخ مفید مخلوقات کے امور کو رسول خداؐ اور ائمہ معصومین کی طرف تفویض ہونے کو غالیوں کا عقیدہ سمجھتے ہوئے اسے رد کرتے ہیں۔[19]

ان کے مقابلے میں محمد حسین غروی اصفہانی اور سید محمد حسین حسینی تہرانی جیسے بعض علما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ اور ائمہ معصومینؑ ہر چیز پر ولایت تکوینی رکھتے ہیں اور کائنات کے لئے واسطہ فیض ہیں۔[20]

مونوگراف

عربی اور فارسی زبان میں ولایت تکوینی کے بارے میں لکھی جانے والی بعض کتابیں درج ذیل ہیں:

  1. ولایت تکوینی، حسن‌ زادہ آملی؛
  2. الولایةُ التکوینیة و التشریعیة، سید جعفر مرتضی عاملی؛
  3. ولایةُ ولیِّ المعصوم(ع)، محمد مؤمن قمی؛
  4. اثباتُ الولایةِ العامةِ للنَّبیِّ و الائمہ(ع)، سید علی حسینی میلانی؛
  5. الولایةُ التکوینیةُ بینَ الکتابِ و السنة، ہشام شری العاملی؛
  6. الولایةُ التکوینیةُ بینَ القرآنِ و البرہان، ضیاء السید عدنان الخبّاز القطیفی؛
  7. الولایتانِ التکوینیةِ و التشریعیةِ عندَ الشیعة‌ِ و اہلِ السنة، اثر محمد علی حلو.

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج6، ص 12.
  2. سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاہ علم و فلسفہ، 1385شمسی، ص26.
  3. رحیمی، «بررسی تطور تاریخی ولایت تکوینی از حکیم ترمذی تا ابن‌عربی در متون منثور عرفانی»، ص82.
  4. رحیمی، «بررسی تطور تاریخی ولایت تکوینی از حکیم ترمذی تا ابن‌عربی در متون منثور عرفانی»، ص82.
  5. مطہری، مجموعہ‌آثار، 1375شمسی، ج3، ص285-286.
  6. رحیمی، «بررسی تطور تاریخی ولایت تکوینی از حکیم ترمذی تا ابن‌عربی در متون منثور عرفانی»، ص82.
  7. سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاہ علم و فلسفہ، 1385شمسی، ص49 و 50.
  8. سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاہ علم و فلسفہ، 1385شمسی، ص49 و 50.
  9. ملاحظہ کریں: مطہری، مجموعہ‌آثار، 1375شمسی، ج3، ص285-286؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 1393شمسی، ص82، 99-100؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاہ علم و فلسفہ، 1385شمسی، ص26.
  10. صافی گلپایگانی، سلسلہ‌مباحث امامت و مہدویت، 1391شمسی، ج1، ص43.
  11. ملاحظہ کریں: مطہری، مجموعہ‌آثار، 1375شمسی، ج3، ص285؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاہ علم و فلسفہ، 1385شمسی، ص26.
  12. مطہری، مجموعہ‌آثار، 1375شمسی، ج3، ص289.
  13. ربانی گلپایگانی، علی، «نقش فاعلی امام در نظام آفرینش»، ص20-25.
  14. ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص100.
  15. رحیمی، «بررسی تطور تاریخی ولایت تکوینی از حکیم ترمذی تا ابن‌عربی در متون منثور عرفانی»، ص۷۵.
  16. رحیمی، «بررسی تطور تاریخی ولایت تکوینی از حکیم ترمذی تا ابن‌عربی در متون منثور عرفانی»، ص۷۳.
  17. مطہری، مجموعہ‌آثار، 1375شمسی، ج3، ص285-286؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 1393شمسی، ص99-100؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاہ علم و فلسفہ، 1385شمسی، ص51.
  18. مطہری، مجموعہ‌آثار، 1375شمسی، ج3، ص286؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 1393شمسی، ص98؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاہ علم و فلسفہ، 1385، ص51.
  19. شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص97، 100؛ شیخ مفید، سلسلۃ مؤلفات الشیخ المفید، 1414ھ، ج5، ص134.
  20. غروی اصفہانی، حاشیة کتاب المکاسب، 1427ھ، ج2، ص379؛ حسینی تہرانی، امام‌شناسی، ج5، 1418ھ، ص114.

مآخذ

  • ربانی گلپایگانی، علی، «نقش فاعلی امام در نظام آفرینش»، در انتظار موعود شمارہ 29، 1388ہجری شمسی۔
  • رحیمی، جعفر، «بررسی تطور تاریخی ولایت تکوینی از حکیم ترمذی تا ابن‌عربی در متون منثور عرفانی»، در مطالعات عرفانی، شمارہ 20، 1393ہجری شمسی۔
  • حسینی تہرانی، سیدمحمدحسین، امام‌شناسی، مشہد، انتشارات علامہ طباطبایی، 1418ھ۔
  • سبحانی، جعفر، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاہ علم و فلسفہ، قم، مؤسسہ امام صادق، 1385ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، بیروت، دارالمفید، 1414ھ۔
  • صافی گلپایگانی، لطف‌اللہ، سلسلہ‌مباحث امامت و مہدویت، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت‌اللہ العظمی صافی گلپایگانی، 1391ہجری شمسی۔
  • صافی گلپایگانی، لطف‌اللہ، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت‌اللہ العظمی صافی گلپایگانی، 1393ہجری شمسی۔
  • غروی اصفہانی، محمدحسین، حاشیةالمکاسب، قم، ذوی‌القربیٰ، 1427ھ۔
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، تہران، صدرا، 1375ہجری شمسی۔