زرارۃ ابن اعین

ویکی شیعہ سے
(زرارۃ بن اعین سے رجوع مکرر)
زرارۃ ابن اعین
ذاتی کوائف
نام:عَبدرَبّہ بن اَعْیَن بن سُنسُن شَیبانی کوفی
کنیت:ابوعلی یا ابوالحسن
لقب:زُرارَہ
نسب:خاندان آل اعین
تاریخ پیدائش:تقریبا 70ھ
وفات: 148ھ امام صادقؑ کی شہادت کے بعد
مشہوراقارب:بکیر بن اعینحمران بن اعین • حسن بن زرارة • حسین بن زرارة
مذہب:شیعہ
صحابی:امام باقرؑامام صادقؑ
حدیثی معلومات
نقل حدیث:امام باقرؑ و امام صادقؑ
ان کے راوی:ابان بن تغلبجمیل بن دراجهشام بن سالم جوالیقیعبدالله بن بکیرعبدالله بن مسکان و ...
وثاقت:از اصحاب اجماع
احادیث کی تعداد:تقریبا 3000 ہزار حدیث (1200 کے قریب حدیث بلاواسطہ معصوم سے)
تألیفات:الاستطاعۃ و الجبر و العہود
شہرت:پانچویں اور چھٹے امام کے خاص صحابی


زرارۃ بن اعین بن سُنسُن شَیبانی کوفی (تقریبا 70۔150 ھ)، امام باقر ؑ، امام صادق ؑ و امام کاظم ؑ کے خاص اصحاب، بزرگ ترین شیعہ فقہاء و متکلمین اور اصحاب اجماع میں سے تھے۔ امام صادق ؑ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: اگر زرارہ نہ ہوتے تو میرے والد گرامی کی احادیث مٹ جاتیں۔ امام صادق نے ان کو بہشت کی بشارت دی اور انہیں مخبتین، اوتاد الارض، السابقون السابقون و ... میں سے شمار کیا ہے۔ زرارہ کا تعلق عرب کے نامور خاندان آل اعین سے ہے اور اس خاندان کے بہت سارے افراد ائمہ کے اصحاب، شیعہ راویوں اور فقہا میں سے ہیں۔ اگرچہ زرارہ نے بہت ساری کتابیں تالیف کی ہیں لیکن رجالی کتابوں میں صرف الاستطاعہ و الجبر و العہود نامی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب کا ذکر نہیں ملتا ہے۔

نام و کنیت

ان کا اصلی نام عبد ربہ (اپنے مالک کا غلام) اور لقب زرارہ تھا۔ جیسا کہ ایک روایت میں وہ خود یوں نقل کرتے ہیں:

امام صادقؑ نے مجھ سے کہا: اے زرارہ بہشت کے ناموں میں تمہارا نام "الف" کے بغیر (زرّہ) ہے۔ میں نے کہا: مولا میں آپ پر قرباں جاؤں میرا اصلی نام (عبد ربہ) اور لقب زرارہ ہے ۔[1]

ان کی کنیت ابو علی یا ابو الحسن ذکر ہوئی ہے۔[2]

نسب

زرارہ کا تعلق معروف خاندان آل اعین سے ہے۔ خاندان اعین اعین بن سنسن سے منسوب ہے۔ اس خاندان نے دوسرے شیعہ خاندانوں کی بنسبت طولانی ترین علمی خدمات انجام دیں ہیں۔ آل اعین کے افراد کوفی اور اکثر کوفہ شہر میں مقیم تھے۔[3]

زرارہ کے دادا سنسن ایک عیسائی راہب تھے اور طبیعی طور پر ان کے بیٹے اعین بھی عیسائی تھے لیکن اعین نے مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہو کر قبیلہ بنی شیبان میں جانے کے بعد اسلام قبول کیا۔ شستری اعین کو اہل سنت مذہب سمجھتے ہیں اور ان کی اولاد بھی ان کی پیروی میں اہل سنت ہی تھی پھر ان میں سے بعض شیعہ ہوئے۔[4]

ان کی کنیت ابو علی یا ابو الحسن ذکر ہوئی ہے۔

مقام علمی

ابن ندیم کتاب الفہرست میں زرارہ کو فقہ، حدیث، علم کلام اور شیعہ مذہب کی پہچان جانتا ہے۔ نجاشی اپنی رجال میں زرارہ کو اپنے زمانے کے نامور اور پائے کے شیعہ استاد کے طور پر معرفی کرتے ہیں کہ جو قرآن کے قاری، فقیہ، متکلم، شاعر اور ادیب بھی تھے جن میں تمام دینی خصوصیات اور اخلاقی فضائل جمع تھے اور وہ سچے، با وثوق اور اپنے زمانے کے تمام اصحاب سے افضل تھے۔ زرارہ اصحاب اجماع میں سے ہیں کہ جن کے بارے میں شیعہ دانشمندوں کا نظریہ ہے کہ یہ لوگ جو بھی روایت کریں وہ سچ اور صحیح ہے۔ امام جعفر صادقؑ نے انہیں اپنے برترین اصحاب میں سے شمار کیا ہے۔[5]

احادیث کی تعداد

معجم رجال الحدیث نامی کتاب کے مطابق تقریبا 2094 سے زیادہ احادیث زرارہ کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں اور مفتاح الکتب الاربعہ نامی کتاب کے مطابق کتب اربعہ کی ان روایتوں کی تعداد 1254 احادیث ہیں جنہیں زرارہ نے براہ راست معصومین سے نقل کیا ہے۔[6]

شاگرد

شیعہ متکلمین میں سے اکثر کا شمار ان کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ رایوں نے انکی تعداد سو سے بھی زیادہ نقل کی ہے جن میں: موسی بن بکر واسطی، ابان بن تغلب حریزی، حنان بن سدیر، جمیل بن دراج، ہشام بن سالم، ابن بکیر، ابن مسکان، ابو خالد، ثعلبہ بن میمون، علی بن عطیہ، عمر بن اذنیہ، محمد بن حمران، حریز، حسن بن موسی شامل ہیں۔[7]

بیٹے اور بھائی

عبیداللہ، عبداللہ، حسن، حسین، یحیی اور رومی زرارہ کے بیٹے تھے۔

  • حسن بن زرارہ امام باقر و امام صادقؑ کے اصحاب اور شیعہ علماء، فقہاء اور محدثین میں سے تھے۔
  • حسین بن زرارہ امام صادق کے صحابی اور باوثوق شیعہ روات میں سے تھے۔[8]

امام صادق نے ان دو بھائیوں کے بارے میں فرمایا: الحسن و الحسین احاطہما اللہ و کلاہما و رعاہما و حفظہما بصلاح ابیہما کما حفظ الغلامین۔[9] خدا حسن اور حسین کی انکے والد ماجد کے نیک اور صالح ہونے کی بنا پر حمایت کرتا ہے اور انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھتا ہے جس طرح حضرت خضر نے ان دو یتیموں کی حفاظت کی ہے۔

  • عبیداللہ بن زراہ، بعض منابع میں عبید ذکر ہوا ہے، امام باقر و امام صادق کے اصحاب میں سے تھے۔ آپ ممتاز شخصیت اور بلند و بالا مقام کے حامل تھے۔ حدیثی و روائی منابع میں انکا تذکرہ ملتا ہے جو انکے امام صادق کے ساتھ زیادہ معاشرت اور رفت و آمد کی عکاسی کرتا ہے۔[10]
  • نجاشی نے عبداللہ بن زرارہ کا نام شیعہ مصنفین میں سے شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی کئی تالیفات ہیں اور وہ امام صادق کے اصحاب میں سے تھے۔[11]
  • رومی بن زرارہ کے بارے میں ہے کہ امام صادق و امام کاظمؑ سے روایت نقل ہوئی ہے اور آپ ثقہ تھے۔ نجاشی نے بھی انہیں صاحب کتاب و تألیف جانا ہے۔[12]
  • محمد بن زرارہ امام صادق کے اصحاب میں سے تھے۔ یہ امام صادق اور اپنے باپ زرارہ بن اعین سے روایت نقل کرتے ہیں اور ان کا شمار راویوں میں ہوتا ہے۔[13]
  • یحیی بن زرارہ بھی امام صادق کے اصحاب میں سے تھے اور ان سے بہت ساری روایتیں نقل ہوئی ہیں۔ صاحب اصول و تصانیف تھے۔[14]
  • زرارہ کے بھائیوں میں سے مالک اور قعنب کے علاوہ عبدالرحمن بن اعین، بکیر بن اعین اور حمران بن اعین سب کے سب بزرگان اور علماء میں سے تھے۔[15]
  • زرارہ کے ایک اور بھائی عبد الملک بن اعین بھی ہیں جن کی قبر کی امام صادقؑ نے زیارت کی اور ان کیلئے طلب مغفرت کی۔[16] عبدالملک بن اعین کا ضریس نامی بیٹا بھی ثقہ راویوں میں سے ہے۔[17]
اصحاب اجماع

اصحاب امام باقرؑ
1. زُرارَۃ بن اَعین
2. مَعروفِ بنِ خَرَّبوذ
3. بُرَید بن معاویہ
4. ابوبصیر اَسَدی یا (ابوبصیر مرادی)
5. فُضَیل بن یسار
6. محمد بن مُسلِم

اصحاب امام صادقؑ
1. جَمیل بن دَرّاج
2. عبداللہ بن مُسکان
3. عبداللہ بن بُکَیر
4. حَمّاد بن عثمان
5. حماد بن عیسی
6. اَبان بن عثمان

اصحاب امام کاظمؑ و امام رضاؑ
1. یونس بن عبد الرحمن
2. صَفوان بن یحیی
3. اِبن اَبی عُمَیر
4. عبداللہ بن مُغَیرِہ
5. حسن بن محبوب یا (حسن بن علی بن فَضّال، فَضالَۃ بن ایوب و عثمان بن عیسی)
6. احمد بن ابی نصر بزنطی

زرارہ آئمہ کی نظر میں

زرارہ کے بارے میں اہل بیت اطہار ؑ سے دو قسم کی روایتیں نقل ہوئی ہیں:

پہلی قسم کی روایات

بعض روایات میں انکی مدح کی گئی ہے۔ زرارہ کی مدح میں آئمہ سے تواتر کی حد تک احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں کبھی انہیں اوتاد الارض، اعلامِ دین، سابقین اور مقربین میں سے ایک شمار کیا گیا ہے۔ کبھی انہیں مخبتین اور کبھی انہیں دین کے نگہبان اور شریعت کے حلال و حرام کے امین کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض روایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

  • امام صادقؑ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: لولا زرارة لقلت ان احادیث ابی ‏ستذہب اگر زرارہ نہ ہوتے تو میں کہہ سکتا تھا کہ میرے پدر بزرگوار کی احادیث محو ہو جاتیں۔[18]
  • جمیل بن دراج نے امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: چار شخصیتیں زمین کا وزن اور دین کا پرچم ہیں جن میں زرارہ بن اعین اور محمد بن مسلم ہیں۔[19]
  • سلیمان بن خالد نے امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے ذکر اور میرے پدر بزرگوار کی احادیث کو زندہ کرنے والوں میں زرارہ، ابو بصیر، محمد بن مسلم اور برید بن معاویہ عجلی کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو میرے پدر بزرگوار کی احادیث سے استنباط اور ہمارا ذکر کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ لوگ دین کی حفاظت کرنے والے اور حلال و حرام پر میرے پدر بزرگوار کے امین اور دنیا اور آخرت میں ہماری طرف سبقت لینے والے یہی لوگ ہیں۔[20]
  • جمیل بن دراج نے روایت کی ہے: میں نے سنا ہے کہ امام صادق فرماتے تھے کہ برید بن معاویہ عجلی، ابو بصیر لیث بن بختری، محمد بن مسلم اور زراره ان مخبتین کو بہشت کی بشارت دے دو۔ یہ چاروں حلال اور حرام پر خدا کی امین ہیں اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو نبوت کے آثار محو ہو جاتے۔

٭داوود بن سرحان امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا: میرے پدر بزرگوار کے اصحاب سب اچھے اور ہمارے لئے زینت ہیں چاہے وه زنده ہوں یا اس دنیا سے چلے گئے ہوں اور یہ وہ لوگ زراره، محمد بن مسلم، لیث مرادی و برید بن معاویہ عجلی ہیں۔ یہ چاروں عدل و سچائی پر پایدار و استوار ہیں اور یہ لوگ سابقین اور مقربین میں سے ہیں۔ ٭امام موسی کاظم نے فرمایا: جب قیامت برپا ہو گی تو منادی ندا دے گا: محمد بن عبدالله رسول خدا کے حواری کہاں ہیں جنہوں نے عہد و پیمان نہیں توڑا اور انکی پیروی کی ہے؟ اچانک سلمان، ابوذر اور مقداد کھڑے ہوں گے۔ منادی دوباره ندا دے گا: علی ابن ابی طالب وصی رسول خدا کے حواری کہاں ہیں؟ عمرو بن حمق خزاعی،محمد بن ابی ‏بکر، میثم تمار اور اویس قرنی کھڑے ہوں گے۔ پھر امامؑ نے تمام آئمہ معصومین ؑ، اور انکے حواریین میں سے ایک ایک کا نام لیا اور آخر میں فرمایا: اس وقت منادی ندا دے گا: کہاں ہیں محمد بن علی اور جعفر بن محمد کے حواری؟ اس وقت عبدالله بن شریک عامری، زرارة بن اعین، برید بن معاویہ عجلی، محمد بن مسلم، ابو بصیر، عبدالله بن ابی ‏یعفور، عامر بن عبدالله، اور حمران بن اعین کھڑے ہوں گے۔

دوسری قسم کی روایات

زراره کی نسبت یہ روایات مذمت اور قدح کا اظہار کرتی ہیں۔ شیعہ محدثین ان روایات کو تقیہ پر حمل کرتے ہوئے کہتے ہیں که ایسی روایات زراره کی جان کی حفاظت کی خاطر صادر ہوئی ہیں اور یہ بات بعض احادیث سے بھی سمجھ آتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم ان میں سے دو حدیثوں کی طرف اشاره کرتے ہیں:

  • حضرت امام صادقؑ نے عبدالله بن زراره سے فرمایا: اپنے والد کو سلام کہنا کہ تمہاری نسبت میری عیب جوئی اور بدگوئی تمہاری حفاظت و دفاع کی خاطر ہے، کیونکہ ہمارے دشمن ہر اس شخص کو جو ہمارا محبوب اور مقرب ہو کسی قسم کی اذیت و آزار پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے ہیں اور ہماری دوستی پر اس کی سرزنش کرتے ہیں۔ جن کی ہم مذمت اور عیب جوئی کرتے ہیں ہمارے دشمن ان کی مدح و ستائش کرتے ہیں۔ چونکہ تم لوگ ہمارے ساتھ محبت اور دوستی میں مشہور ہو اور اس وجہ سے ہمارے دشمنوں کی توجہ کا مرکز اور لوگوں میں مورد سرزنش قرار پاتے ہو، اس لئے میں نے یہ اراده کیا ہے کہ تمہاری مذمت و عیب جوئی کروں تاکہ لوگ دین اور مذہب کے حوالے سے تمہاری مدح و ستائش کریں اور دشمنوں کی نظریں تم سے دور ہو جائیں۔ کیونکہ خداوند متعال کلام مجید میں‌ ارشاد فرماتا ہے:
اما السفینة فکانت لمساکین یعملون فی البحر فاردت ان اعیبها و کان وراء هم ملک یاخذ کل سفینة غصیا۔
لیکن کشتی دریا میں محنت مزدوری کرنے والے مسکینوں کی تھی۔ پس میں نے ان کی حفاظت کیلئے کشتی کو معیوب کرنے کا اراده کیا تاکہ اس ظالم بادشاه کی منتظر حریص نگاہوں سے یہ کشتی دور رہے جو تمام سالم کشتیوں کو غصب کر رہا تھا۔ اس مثال کو سمجھو، خدا تم پر رحمت نازل کرے، یقینی طور پر تم میرے نزدیک تمام لوگوں اور میرے والد محترم کے تمام اصحاب سے زیاده محبوب ہو کیونکہ تم امامت کے بحر بے کراں کی بہترین کشتی ہو اور ایک ظالم اور غاصب حکمران تمہارا پیچھا کر رہا ہے جو سالم کشتیوں کو غصب کرنے کے درپے ہے۔ خدا کی رحمت ہو تم پر زندگی میں تمہاری کشتی میں سوار لوگوں کو ظلم و ستم سے نجات دیتے ہو، تم پر تمہاری زندگی اور تمہاری موت پر بھی اللہ کی رحمت ہو۔ تمہارے بیٹے حسن اور حسین نے تمہارا خط مجھ تک پہنچایا خدا انکی رعایت کرے اور انہیں بھی انکے والد کی نیک نامی کی سبب اپنی حفاظت میں رکھے۔
  • کشی کہتے ہیں: محمد بن قولویہ اپنی سند کے ساتھ حسین بن زراره سے نقل کرتے ہیں: امام صادق سے عرض کیا کہ میرے والد نے آپ کو سلام پہنچایا ہے اور کہا ہے کہ خدا مجھے آپ پر قربان کرے، آپ کے پاس سے آنے والے لوگوں سے پتہ چلا کہ آپ نے میرے بارے میں کچھ باتیں فرمائی ہیں جنہوں نے مجھے کچھ غمگین کیا ہے۔ امام صادق نے فرمایا: اپنے والد کو میری طرف سے سلام پہنچانے کے بعد کہو: خدا کی قسم! میں تمہارے لئے دنیا اور آخرت کی خیرخواہی چاہتا ہوں اور خدا کی قسم میں تم سے راضی ہوں پس لوگوں کی اس طرح کی باتوں پر غمگین نہ ہوں۔

شیعہ علماء کی نظر میں

علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال نامی کتاب میں زرارہ کے بارے میں کہتے ہیں: زرارہ اپنے زمانے کے شیعوں میں ایک بلند پایہ انسان تھے جو اپنے ہم عصروں اور ہم پلہ افراد پر فضیلت رکھتے تھے۔ وہ قرآن کے قاری، فقیہ، متکلم، شاعر اور ادیب تھے۔ ان میں تمام دینی و اخلاقی فضیلتیں جمع تھیں اور ثقہ افراد میں شامل تھے نیز جو چیز بھی وہ نقل کرتے تھے اس میں سچے تھے۔[21] نجاشینے بھی ایسی ہی ان کی توصیف بیان کی ہے جیسا کہ خلاصۃ الاقوال سے نقل ہوئی ہے لیکن نجاشی کی عبارت میں ثقہ کا لفظ ذکر نہیں ہوا ہے۔[22]

شیخ طوسی اپنی رجالی کتاب میں امام موسی کاظمؑ کے اصحاب کے باب میں کہتے ہیں: زرارة بن اعین شیبانی، ثقہ افراد میں شمار ہوتے ہیں اور انہوں نے امام محمد باقر اور امام جعفر صادقؑ سے روایت نقل کی ہے۔[23] ابو غالب زراری اپنے پوتے محمد بن عبداللہ کے نام لکھے ہوئے ایک خط میں زرارہ کے بارے میں یوں کہتے ہیں: وہ سفید چہرے اور تنو مند جسم کے مالک تھے اور ان کی پیشانی پر سجدے کے آثار نمایاں تھے۔ ہر جمعے کو جب نماز جمعہ کے قصد سے گھر سے باہر نکلتے تو لوگ انکے راستے میں اکٹھے ہوتے اور ان کے نورانی چہرے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ وہ فقہ اور حدیث میں نامور شیعہ امامیہ اشخاص میں سے تھے۔ علم کلام میں بھی اپنا لوہا منوا چکے تھے۔ مناظروں میں کسی کی ہمت نہیں تھی جو انہیں شکست دے سکے لیکن عبادت میں ہمیشہ مشغول رہنے کی وجہ سے وہ علم کلام سے دور رہے۔ شیعہ متکلمین کے بہت سارے گروہ راہ و روش میں ان کے شاگرد رہے ہیں انہوں نے 70 یا 90 سال زندگی کی۔ آل اعین کے بہت زیادہ فضائل ہیں۔ جو کچھ میں ان کے بارے میں لکھا ہے ان کے فضائل اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

شیعہ بزرگان میں سے ابن ابی ‏عمیر نقل کرتے ہیں کہ جب وقت بلند پایہ شیعہ فقیہ اور محدث جمیل بن دراج سے کہا: آپ کی مجلس کتنی بہترین مجلس ہے اور آپکے پاس بیٹھنا کس قدر باعث زینت ہے! تو انہوں نے کہا: ہاں۔ لیکن خدا کی قسم! ہم زرارہ کے مقابلے میں ان پہلی جماعت کے بچوں کی طرح ہیں جو اپنے استاد کے سامنے بیٹھے ہوں۔[24]

وفات

اکثر محدثین زرارہ کی وفات کو سنہ 148 ہجری قمری میں امام صادقؑ کی شہادت کے دو ماہ یا اس سے کمتر یا بیشتر عرصے کے بعد ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام صادقؑ کی شہادت کے وقت زرارہ بیمار تھے پھر اسی بیماری میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔[25] لیکن بعض محدثین نے زرارہ کی وفات کو سنہ 150 ھ میں ذکر کیا ہے۔[26]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. زراری، ابو غالب، تاریخ آل اعین، ص۳۵.
  2. ابن ‏ندیم، الفہرست، ص۳۰۹-۳۰۸.
  3. ابو غالب زراری، مقدمہ مصحح، ص«‌د ».
  4. تستری، قاموس الرجال، ج۲، ص۱۷۲.
  5. مہری، سید محمد جواد، یاران امامان زرارة بن اعین.
  6. باقری بیدہندی، ناصر، اصحاب اجماع، فصلنامہ علوم حدیث، شماره۹.
  7. باقری بیدہندی، ناصر، اصحاب اجماع، فصلنامہ علوم حدیث، شماره۹.
  8. تاریخ آل زراره، ص۸۸.
  9. کشی، رجال، ص۱۳۹.
  10. تاریخ آل زراره، ص۹۲.
  11. نجاشی، رجال،ص۲۲۳ .
  12. نجاشی، رجال،ص۱۱۶ .
  13. تاریخ آل زراره، ص۹۵.
  14. تاریخ آل زراره، ص۹۶.
  15. کشی، اختیار معرفہ الرجال، ص۱۶۱.
  16. کشی، اختیار معرفہ الرجال، ص۱۷۵.
  17. ) کشی، اختیار معرفہ الرجال، ص۳۱۳.
  18. طوسی، فہرست، ص۱۴۲، کشی، رجال (اختیار معرفہ الرجال)، ص۱۲۲.
  19. کشی، رجال (اختیار معرفہ الرجال)، ص۲۳۸.
  20. شیخ مفید، اختصاص، ص۶۶؛ کشی، رجال، ص۱۲۴؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۷، ص۳۹۰.
  21. علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال، ص۳۸.
  22. نجاشی، رجال، ص۱۲۵.
  23. طوسی، رجال، ص۳۵۰.
  24. کشی، رجال، ص۱۲۳.
  25. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ص۱۴۳؛ شوشتری، نورالله، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۳۴۵؛ قمی، شیخ عباس، سفینۃ البحار، ج۱، ص۵۴۸.
  26. نجاشی، رجال، ص۱۲۵؛ علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال، ص۳۸.

مآخذ

  • ابن ‏ندیم، محمد بن اسحاق، الفہرست، دار المعرفہ، بیروت، ۱۳۹۸ق.
  • باقری بیدہندی، ناصر، اصحاب اجماع، فصلنامہ علوم حدیث، شمارہ۹.
  • تستری، محمد تقی، قاموس الرجال، دفتر نشر اسلامی، قم، ۱۴۱۰ق.
  • علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال، تحقيق جواد القيومى الاصفہانى، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامي التابعہ لجماعۃ المدرسين. بی‌تا.
  • زراری، ابو غالب، تاریخ آل اعین، تحقیق: سید محمد رضا حسینی جلالی، مرکز البحوث و التحقیقات الاسلامیہ، قم، ۱۳۶۹ش.
  • شوشتری، نور اللہ، مجالس المؤمنین، تہران، انتشارات اسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۳۷۷ش.
  • شیخ طوسی، الرجال، تحقيق جواد القيومى الاصفہانى، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامي التابعہ لجماعۃ المدرسين. بی‌تا.
  • شیخ طوسی، الفہرست، نجف اشرف، مکتبۃ المرتضویۃ، بی‌تا.
  • قمی، شیخ عباس، سفینۃ البحار، قم، انتشارات اسوہ، ۱۴۱۴ق.
  • کشی، اختیار معرفۃ الرجال معروف بہ رجال کشی، تصحیح: حسن مصطفوی، نشر دانشگاہ مشہد، ۱۳۹۰ق.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، موسسہ الوفاء، بیروت، ۱۹۸۳م.
  • شیخ مفید، الاختصاص، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامي التابعہ لجماعۃ المدرسين. بی‌تا.
  • موحد ابطحی، سید محمد علی، تاریخ آل زرارہ، اصفہان، ۱۴۰۰ق.
  • موسوی ابطحی، محمد علی، در رسالہ فی آل اعین، اصفہان، ۱۳۹۹ق.
  • مہری، سید محمد جواد، یاران امامان زرارۃ بن اعین، نشریہ پاسدار اسلام، شمارہ ۵۰، ۱۳۶۴ش.
  • نامہ دانشوران ناصری، قم، دار الفکر.
  • نجاشی، الرجال، المحقق:السيّد موسى الشبيري الزنجاني، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامي، بی‌تا.