مندرجات کا رخ کریں

نجف

ویکی شیعہ سے
حرم حضرت علی‌ؑ
حرم حضرت علی‌ؑ
عمومی معلومات
عمومی معلومات۳۲°۰۱′۳۹″ شمالی ۴۴°۱۹′۵۹″ شرقی / ۳۲٫۰۲۷۳۷۶° شمالی ۴۴٫۳۳۳۱۱۶۵° شرقی / 32.027376; 44.3331165
ملکعراق
صوبہنجف
آبادی7.91000
نامنجف
زبانعربی
ادیاناسلام
مذہبشیعہ
مسلم آبادی100 فیصد
شیعہ آبادی100 فیصد
اماکن
زیارتگاہیںحرم امام علی (ع)، مقبرہ حضرت ہود، مقبرہ حضرت صالح۔
حوزہ علمیہحوزہ علمیہ نجف۔
مساجدمسجد شیخ انصاری، مسجد حنانہ، مسجد خضراء۔


نَجَف یا نجف اشرف، عراق میں شیعوں کے زیارتی شہروں میں سے ایک ہے جس میں روضہ امام علیؑ واقع ہے۔ اسلام سے پہلے بھی اس شہر میں لوگ بستے تھے؛ لیکن دوسری صدی ہجری میں امام علیؑ کی قبر مطہر پر قبہ و بارگاہ تعمیر ہونے کے بعد یہ ایک پر رونق شہر میں تبدیل ہو گیا اور بہت سے شیعوں نے اس شہر کی طرف رخ کر لیا۔ بعض بادشاہ جیسے عضد الدولہ دیلمی، شاہ اسماعیل صفوی، پہلا شاہ طہماسب صفوی اور بعض قاجاری بادشاہوں نے اس شہر کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس شہر کے حوزہ علمیہ کا شمار قدیمی ترین حوزات علمیہ میں ہوتا ہے۔ تاریخی مصادر کے مطابق شیخ طوسی نے پانچویں صدی ہجری میں اس کی بنیاد رکھی۔ بہت سے علما اور فقہا نے اس حوزہ میں تعلیم حاصل کی ہے جن میں شیخ مرتضی انصاری، آخوند خراسانی، سید محمد کاظم طباطبایی یزدی، سید محسن حکیم، سید ابو القاسم خوئی و سید علی سیستانی شامل ہیں۔

مسجد شیخ انصاری، مسجد حنانہ اور مسجد خضراء نجف کی معروف مساجد میں سے ہیں۔ نجف اشرف میں مختلف کتب خانے و چاپ خانے بھی ہیں جیسے حیدریہ کتب خانہ و چاپ خانہ، بحر العلوم کتب خانہ اور مرتضویہ چاپ خانہ ان میں سرفہرست ہیں۔

سنہ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق نجف شہر کی آبادی تقریبا 8 لاکھ ذکر ہوئی ہے جن میں تقریبا سب مسلمان اور شیعہ ہیں۔

محل وقوع

نجف، عراق کے زیارتی شہروں میں سے ایک ہے۔[1] یہ شہر صوبہ نجف کا مرکز ہے اور عراق دارالحکومت بغداد کے جنوب مغرب میں 161 کیلو میٹر پر اور کربلا کے جنوب مشرق میں 80 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[2] نجف صوبہ بننے سے پہلے یہ شہر صوبہ کربلا میں شامل تھا۔[3]

جغرافیایی اعتبار سے نجف کوفہ اور صحرا کے درمیان واقع ہے۔ نجف میں ہمیشہ سے پانی کی قلت رہی ہے لیکن اس کے باوجود ساتویں صدی ہجری میں اسی پانی سے 20 ہزار خرما کے درختوں کی آبیاری ہوتی تھی۔[4] بحیرہ نجف درحقیقت ایک دلدل ہے جو نجف کے جنوب اور مغرب میں واقع ہے۔[5]

عراق
موقعیت
مدفون ائمہؑ امام علیؑ امام حسینؑ امام کاظمؑ امام جوادؑ امام ہادیؑ امام عسکریؑ
اہم تاریخی واقعات جنگ جمل جنگ صفین جنگ نہروان صلح امام حسنؑ واقعہ کربلا قیام مختار قیام توابین قیام زید بن علی جنگ ایران و عراق انتفاضه شعبانیه بعثی حکومت کا سقوط داعش کا حملہ
مذہبی شہر کوفہ نجف کربلا سامرا حلہ
زیارتی مقامات
مراجع تقلید شیخ مرتضی انصاری مرزائے شیرازی سید محمد کاظم طباطبایی یزدی محمد تقی شیرازی سید محسن طباطبائی حکیم سید محمد صدر سید ابو القاسم خویی سید علی سیستانی سید محمد سعید حکیم بشیر نجفی محمد اسحاق فیاض
سیاست دان علما مهدی خالصی سید محمدباقر صدر سید مقتدی صدر سید محمد باقر حکیم سید عبد العزیز حکیم سید عمار حکیم محمد خالصی زاده
علمی مراکز حوزہ علمیہ نجف حوزہ علمیہ کربلا حوزہ علمیہ بغداد حوزہ علمیہ سامرا حوزہ علمیہ حلہ
شیعہ خاندان خاندان ابن فرات آل ابی الجعد آل ابی الجہم آل ابی سارہ آل ابی شعبہ آل ابی سبرہ آل ابی صفیہ آل اعین آل حیان تغلبی آل یقطین آل خرسان خاندان بحر العلوم خاندان ابن نما آل بریدی آل خاقانی آل ثوابہ خاندان جواہری خاندان حرز الدین خاندان حکیم
دار الحکومت بابل (دوران باستان) مدائن (دوره ساسانیان) کوفه (دوره بنی‌هاشم) سامرا (دوره بنی‌عباس) بغداد (دوره بنی‌عباس) حله (دوره مزیدیان) بغداد (پایتخت کنونی)
شیعہ تنظیمیں حزب الدعوۃ الاسلامیۃ مجلس اعلائے اسلامی عراق تحریک صدر جماعۃ العلماء فی النجف الاشرف
شیعہ حکومتیں حمدانیان مزیدیان آل بویه صفویان
مدفونان نجف میں مدفون افراد کربلا میں مدفون افراد کاظمین میں مدفون افراد بغداد میں مدفون افراد کوفہ میں مدفون افراد سامرا میں مدفون افراد
ویب سائٹس سایت رسمی دولت عراق سایت حزب الدعوه

وجہ تسمیہ

ابن منظور کا کہنا ہے کہ نجف کا لفظ اونچی اور مستطیل شکل کی جگہے کو کہا جاتا ہے جس کے اطراف میں پانی جمع ہوتا ہے لیکن اس کی سطح سے اونچا نہیں ہوتا ہے۔[6] شیخ صدوق نے امام صادقؑ کی ایک حدیث سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نجف لفظ کو "نی جف" سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں؛ "دریائے نی خشک ہو گیا" وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نجف میں تبدیل ہوگیا۔[7]

نجف کو اشراف کی صفت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے الحوزۃ العلمیۃ فی النجف الاشرف نامی کتاب میں کہا گیا ہے کہ اس کی وجہ اشرف المخلوقات میں سے امام علیؑ کا اس شہر میں دفن ہونا ہے۔[8]

اہمیت

کتاب "ماضی النجف و حاضرھا" (نجف کا ماضی اور حال) کے مصنف نے شہر نجف کے فضائل کے بارے میں بعض احادیث نقل کی ہیں۔[9] امام علیؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق وہ مکان جہاں سب سے پہلے خدا کی عبادت کی گئی وہ ظَہر الکوفہ (کوفہ کی پشت) تھی۔[10] اسی طرح آل محبوبہ نے امام صادقؑ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں انہوں نے نجف کی دوسرے شہروں پر برتری کا ذکر کیا ہے۔[11] ان روایات میں "نجف" کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بلکہ اسے "ظَہْرُ الْكَوفَہ" یعنی کوفہ کی پشت سے تعبیر کیا گیا ہے۔[12] تاریخی روایات کے مطابق "ظہر الکوفہ" سے مراد نجف ہے۔[13]

تاریخچہ

تاریخی واقعات اور احادیث کے مطابق نجف شہر کی ایک قدیم تاریخ ہے اور یہاں مشہور شخصیات اور افراد نے سکونت اختیار کی ہے۔[14] یہ شہر اسلام سے پہلے آباد تھا؛ لیکن امام علیؑ وہاں دفن ہونے اور ان کی قبر پر مقبرہ کی تعمیر کے بعد اس میں وسعت آئی۔

اسلام سے پہلے

اسلام سے پہلے دو نجف تھے، ایک نجف، کوفہ کا اور دوسرا نجف حیرہ کا؛[15] آج کا نجف، کوفہ کا نجف ہے جو پرانے نجف کا حصہ ہے اور اس میں حیرہ سمیت مختلف شہر اور دیہات شامل ہیں۔[16]

اسلامی فتوحات سے پہلے نجف میں متعدد عیسائی دَیر (صومعہ) تھے[17] اور جب اسے مسلمانوں نے فتح کیا تو یہ عرب آبادی والا خطہ بن گیا[18] جس میں بہت سارے باغات، کھجور کے باغات، نخلستان اور ندیاں تھیں۔ یقیناً مسلمانوں کا فتح کردہ نجف اس نجف سے مختلف تھا جہاں امام علیؑ کو دفن کیا گیا تھا۔[19]

امام علیؑ کے دفن ہونے کے بعد

امام علیؑ نجف کے نزدیک ثَوِیّہ نامی جگہ[20] دفن ہوئے۔[یادداشت 1] ثویہ بعد میں نجف کے نام سے مشہور ہوا۔ مآخذ "البلدان"، "تاریخ الام و الملوک" اور "الکامل فی التاریخ" جیسے بعض تاریخی مآخذ میں اس بات کی تائید ہوئی ہے۔[21]

امام علیؑ کے دفن کی جگہ 90 سال تک پوشیدہ رہی اور ائمہؑ کے محبوں اور اصحاب میں سے بعض لوگوں کو اس کا علم تھا یہاں تک کہ سنہ 135 ہجری میں امام صادقؑ نے امام علیؑ کے مدفن کو ظاہر کیا[22] اور نجف اہل بیتؑ کے ماننے والوں کے لئے زیارت گاہ بن گیا۔[23]

امام علیؑ کا حرم بننے کے بعد

سنہ 170 ہجری میں ہارون عباسی نے امام علیؑ کے مزار کی تعمیر کا حکم دیا اور بعض رکاوٹیں دور ہونے کی وجہ سے اس وقت کے شیعوں نے امام علیؑ کے حرم کی زیارت پر زیادہ توجہ دیا۔[24] اس کے بعد امام علیؑ کے حرم کے ارد گرد مکانات کی تعمیر شروع ہوئی اور وہاں پر بعض شیعہ آباد ہوئے پھر شہر میں توسیع ہوئی اور شیعہ آباد کاری جاری رہی یہاں تک کہ چوتھی صدی ہجری میں دوسرے شیعوں کے علاوہ 1900 علوی سادات بھی شہر میں آباد ہو گئے۔[25]

سنہ 370 ہجری میں عضد الدولہ دیلمی نے نجف میں متعدد انجینئروں اور معماروں کو جمع کیا اور ان سے ایک نیا شہر قائم کرنے کو کہا۔[26] عضد الدولہ نے پیسے دے کر اور مزدوروں کو مزدوری دے کر اس سلسلے میں ان کی مدد کی۔[27] انجینئرز اور معماروں کے ذریعے شہری ترقی مکمل ہونے کے بعد عضد الدولہ نے ایک شاندار جشن کے ساتھ نئے شہرِ نجف کا افتتاح کیا۔[28] اس کے بعد اس نے اس شہر میں بعض علما کو آباد کیا اور امام علیؑ کے روضہ کے لیے کچھ خادم مقرر کیا۔ اسی طرح شہر میں کئی ڈاکٹروں کو بھی ملازمت دی اور ان کی ماہانہ تنخواہ بھی مقرر کی۔[29]

شیخ طوسی نے بغداد چھوڑ کر پانچویں صدی ہجری کے وسط میں نجف کی طرف ہجرت کی۔ شیخ طوسی کے نجف کی طرف ہجرت کے بعد، یہ شہر شیعہ فقہاء کا علمی مرکز بن گیا؛ اگرچہ شیخ طوسی سے پہلے بھی بعض شیعہ علماء نے نجف میں سکونت اختیار کی تھی۔[30]

ساتویں اور آٹھویں صدی میں (شیعہ ایل خانوں اور جلایریوں کی حکمرانی کا دور)، نجف نے تہذیب، تمدن اور علمی اعتبار سے نمایاں ترقی کی اور اس نے ایک بڑی آبادی کو جگہ دی؛ کیونکہ ان حکومتوں نے اس شہر میں شیعہ مدرسے اور مساجد کی توسیع پر بہت پیسہ خرچ کیا۔[31]

صفوی دور میں، شاہ اسماعیل اور شاہ طَہماسِب نے نجف شہر میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے نہریں کھودیں اور فرات کا پانی شہر میں منتقل کیا۔[32] شاہ اسماعیل کا کھودا ہوا نہرِ شاہ اس دور کی یادگار ہے۔[33] اس دوران، ایک اہل سنت عثمانی بادشاہ، سلطان سلیمان قانونی نے، شیعہ صفوی بادشاہوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نجف کی آبادکاری میں بہت کوشش کی۔[34] قاجاریہ دَور میں سنہ 1217 ہجری میں وہابیوں کے حملوں کو روکنے کے لیے شہر کے گرد ایک مضبوط دیوار تعمیر کی گئی۔ یہ دیوار سنہ 1385ھ تک موجود تھی۔[35]

علمی مراکز

نجف اشرف کی پرانی تصویر کہ جس میں شہر کے اطراف میں دیوار موجود ہے۔ کچھ مورخین کے بقول یہ تصویر سنہ 1911ء میں لی گئی ہے۔

نجف شہر میں بہت سارے دینی مدرسے، کتاب خانے اور چاپ خانے موجود ہیں:

دینی مدرسے

نجف میں بہت سے دینی مدارس ہیں۔ اس شہر میں دینی علوم کے طلباء کی تعداد مختلف ادوار میں ایک ہزار سے دس ہزار تک رہی ہے۔[36] کتاب "مع علماء النجف" (علماء نجف کے ساتھ) کے مصنف نے نجف میں 41 دینی مدرسوں کا ذکر کیا ہے۔[37] نجف کا سب سے قدیمی مدرسہ، مدرسۃ المرتضویہ ہے۔[38] مدرسہ الصحن الکبری، امام علیؑ کے روضہ مبارک میں واقع ہے۔ یہ مدرسہ شاہ صفی کے حکم پر بنایا گیا۔[39] نجف کے دینی مدرسوں میں سے ایک مدرسہ غرویہ ہے۔ یہ مدرسہ بھی شاہ عباس اول کے حکم پر بنایا گیا تھا۔[40] نجف کے دیگر مدارس میں درج ذیل مدرسے شامل ہیں:[41]

لائبریریاں

نجف میں دینی مدارس، یونیورسٹیوں اور علماء کی موجودگی کی وجہ سے بہت سی لائبریریاں قائم ہوئی ہیں۔ الروضۃ الحیدریہ لائبریری نجف کے قدیم ترین کتب خانوں میں سے ایک ہے، اس کے قیام کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہے؛ لیکن شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لائبریری چوتھی صدی اور آل بویہ کے دَور میں بنی ہے۔[42] شہر نجف کے دیگر کتب خانوں میں امام امیر المومنین پبلک لائبریری کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ اس کتب خانے کی بنیاد سنہ 1373ھ میں کتاب الغدیر کے مصنف عبد الحسین امینی نے نجف کے الحویش محلے میں رکھی تھی۔[43] علامہ امینی نے اس کتب خانے کو آستان قدس رضوی کے لیے وقف کیا ہے۔[44] آیت اللہ سید محسن حکیم پبلک لائبریری، نجف کا ایک اور علمی اور ثقافتی مرکز ہے جسے سنہ 1377 ہجری میں شیعہ مرجع تقلید سید محسن حکیم نے ہندی مسجد کے ساتھ قائم کیا تھا۔[45] نجف کی دوسری بعض لائبریریاں درج ذیل ہیں:[46]

  • کتابخانہ بحرالعلوم
  • کتابخانہ شیخ جعفر
  • کتابخانہ طریحی
  • کتابخانہ نظام الدولہ
  • کتابخانہ نوری
  • کتابخانہ کاشف الغطا
  • کتابخانہ خوانساری
  • کتابخانہ قزوینی
  • کتابخانہ عمومی نجف

چاپ خانے

14ویں صدی ہجری کی تیسری دہائی میں کتابیں، رسائل اور اخبارات چھاپنے کے لیے مختلف پرنٹنگ ہاؤسز قائم ہوئے۔ ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:[47]

  • چاپخانہ حبل المتین
  • چاپخانہ علویہ
  • چاپخانہ حیدریہ
  • چاپخانہ مرتضویہ
  • چاپخانہ علمیہ

حوزہ علمیہ نجف

حوزہ علمیہ نجف کی بنیاد شیخ طوسی کے ہاتھوں سنہ 488 ہجری میں ان کی بغداد سے نجف کی طرف ہجرت کے بعد رکھی گئی۔ بغداد میں نسلی اور مذہبی جھڑپوں اور اپنی لائبریری اور درس و تدریس کی جگہ کو جلانے کے بعد شیخ طوسی نے بغداد چھوڑ دیا اور نجف کی طرف روانہ ہوئے۔[48]

حوزہ علمیہ نجف نے پوری تاریخ میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ مثال کے طور پر آٹھویں سے دسویں صدی ہجری کے دوران اس نے اپنا علمی مرکز کھو دیا اور عراق کا شہر حلہ شیعہ علماء کا علمی مرکز بن گیا۔ اس کے بعد مقدس اردبیلی کے زمانے میں حوزہ علمیہ نجف پھر سے شیعہ علمی مرکز بن گیا۔[49]

حوزہ علمیہ نجف کی عظیم شخصیات میں شیخ محمد حسن نجفی المعروف صاحب جواہر، سید محسن حکیم، حسین حلی، محمد حسین غروی نائینی، سید ابو الحسن اصفہانی، سید ابو القاسم خوئی،[50] سید علی سیستانی اور سید محمد باقر صدر شامل ہیں۔[51]

تاریخی آثار اور مقامات

نجف میں بہت سے مقبرے، مقامات، مساجد اور تاریخی یادگاریں ہیں۔ ان میں سب سے مشہور حرم امام علیؑ اور وادی السلام قبرستان ہیں۔

مقامات اور مقبرے

نجف کے وادی السلام قبرستان میں حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت نوح اور حضرت آدم سمیت متعدد انبیاء کے مقبرے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ مقام امام زین العابدینؑ، مقام امام مہدیؑ، مقام رقیہ بنت امام حسن مجتبیؑ اور مقام محمد حنفیہ بھی اسی قبرستان میں واقع ہیں۔[52]

مساجد

نجف میں بہت سی مساجد ہیں۔ شیخ مرتضی انصاری کی کوششوں سے حویش محلے میں روضہ امام علیؑ کے جنوب میں شیخ انصاری مسجد قائم ہوئی۔[53] ایک اور مسجد آیت اللہ حکیم لائبریری کے ساتھ واقع ہے جسے مسجدِ ہندی کہا جاتا ہے۔[54] اس مسجد کی تأسیس 13ویں صدی ہجری کے اوائل میں ہوئی اور مذہبی علوم کی تعلیم کی درسگاہ بن گئی۔[55] نجف کی چند دیگر مشہور مساجد درج ذیل ہیں:[56]

حرم حضرت علیؑ

امام علیؑ کا روضہ نجف میں امیر المومنینؑ کا محلِ دفن ہے۔ امام علیؑ کی تدفین کے بعد پہلی بار سنہ 135 ہجری میں آپ کا محل دفن منظر عام پر آگیا۔[57] اس قبر پر مختلف اوقات میں مختلف عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ عضد الدولہ دیلمی[58] اور شاہ صفی[59] ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے امام علیؑ کے مزار پر شاندار عمارت تعمیر کی۔

پندرہویں صدی ہجری میں روضہ امام علیؑ ایک بڑی عمارت کی شکل اختیار کرچکا ہے جس میں چار دروازے، پانچ ایوان، ایک بڑا صحن، ایک بارگاہ اور ایک ضریح شامل ہیں۔ عراق میں صدام کا تختہ الٹنے کے بعد سے مزار پر تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہوا۔ اسی سلسلے میں، صحن حضرت فاطمہؑ کے نام سے مغربی حصے میں ایک صحن بنایا گیا، جس سے مزار کا کل رقبہ ایک لاکھ چالیس ہزار مربع میٹر تک پھیل گیا۔

وادی السلام قبرستان

قبرستان وادی السلام

وادی السلام قبرستان نجف کے شمال میں واقع ہے اور شہر کے مشرق تک پھیلا ہوا ہے۔[60] امام علیؑ کی ایک روایت میں ہے: "کوئی بھی مومن جو زمین کے کسی حصے میں نہیں مرتا مگر اس کی روح کو وادی السلام میں داخل ہونے کے لیے کہا جاتا ہے؛ کیونکہ وادی السلام جنت کا ایک ٹکڑا ہے۔" اس قبرستان میں میت کو دفن کرنے کی فضیلت کے بارے میں منقول روایات کی وجہ سے بہت سے شیعہ اپنے مُردوں کو اس شہر میں دفن کرتے ہیں۔[61] کہا جاتا ہے کہ اس قبرستان میں میت کی تدفین امام علیؑ کے زمانے سے شروع ہوئی ہے۔[62] کتاب "موسوعۃ النجف" (انسائیکلوپیڈیا آف نجف) کے مطابق اس قبرستان میں سالانہ اوسطاً پندرہ سے بیس ہزار لوگ دفن ہوتے ہیں۔[63]

آبادی

سنہ 2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ نجف کی آبادی پندرہ لاکھ تھی جس میں سے تقریباً آٹھ لاکھ نجف شہر میں مقیم تھے۔[64] اس شہر میں امام علیؑ کا روضہ واقع ہونے کی وجہ سے نجف کی تقریباً پوری آبادی مسلمان اور شیعہ ہے۔[65] نجف کے کچھ باشندوں کا تعلق حجاز کے بدو قبائل سے ہے جبکہ کچھ کا تعلق عراقی قبائل سے ہے۔[66]

اعداد و شمار کے مطابق عام دنوں میں روزانہ پچاس ہزار زائرین نجف آتے ہیں اور خاص مواقع پر یہ تعداد بڑھ کر پندرہ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔[67] دنیا کے مختلف حصوں سے بہت سے تارکین وطن نجف کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔[68] نجف چونکہ آج ایک مذہبی شہر کے طور پر جانا جاتا ہے، اس لیے اس میں تھیٹر اور سینما گھر نہیں ہیں۔[69]

پرانے محلے

نجف کے سب سے مشہور محلے، المشرق، العمارۃ، البراق، اور الحویش ہیں۔[70]

المِشْراق محلہ: یہ محلہ نجف کا قدیم ترین رہائشی محلہ ہے۔ شیخ طوسی کا گھر اسی محلے میں واقع تھا۔ چونکہ اس محلے میں بہت سے طلباء اور علماء رہتے تھے، اس لیے اس کا پرانا نام "حی العلماء" تھا۔[71]

العمارۃ محلہ: اس محلے میں شیعہ علماء کے بہت سے خاندانوں کے گھر اور مقبرے ہیں، جیسے کاشف الغطاء خاندان، شیخ راضی خاندان، اور قزوینی خاندان۔[72] العمارہ محلہ امام علیؑ کے روضے کے مغرب میں واقع ہے۔[73]

البُراق محلہ: یہ محلہ امام علیؑ کے روضہ کے جنوب اور جنوب مشرقی جانب واقع ہے۔[74]

الحُوَیش محلہ: یہ محلہ دوسرے تین محلوں کی نسبت کچھ نیا اور امام علی کے روضہ سے دور ہے۔[75] یہ محلہ مزار کے جنوب اور جنوب مغربی اطراف میں واقع ہے۔[76]

گیلری

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. شرقی، النجف الاشرف، 2006ء، ص14 و 15۔
  2. شرقی، النجف الاشرف، 2006ء، ص14 و 15۔
  3. دجیلی، موسوعۃ النجف، 1993ء، ج1، ص105۔
  4. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج5، ص271۔
  5. احمدیان شالچی، «جغرافیای تاریخی نجف اشرف»،‌ ص96۔
  6. ابن منظور، لسان العرب، ذیل واژہ «نجف»۔
  7. شیخ صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج1، ص31۔
  8. غروی، الحوزۃ العلمیۃ، 1414ھ، ص13۔
  9. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص12-15۔
  10. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص12-15۔
  11. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص12-15۔
  12. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص12-15۔
  13. تمیمی، مشہد الامام، 1414ھ، ج1، ص59۔
  14. غروی، مع علماء النجف، 1998ء، ج1، ص13۔
  15. آل محبوبہ، ماضی نجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص5۔
  16. خلیلی، موسوعۃ العتبات المقدسۃ، 1987ء، ج1، ص27۔
  17. خلیلی، موسوعۃ العتبات المقدسہ،1407ھ، 1987ء، ج6، ص27-37۔
  18. آل محبوبۃ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص17۔
  19. آل محبوبۃ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص6 و 19۔
  20. أبو عبيد البكري، معجم ما استعجم من اسماء البلاد والمواضع، ج1، ص350۔
  21. غروی، مع علماء النجف، 1998ء، ج1، 14۔
  22. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427شمسی، ج2، ص31۔
  23. غروی، مع علماء النجف، 1998ء، ج1، ص16۔
  24. غروی، مع علماء النجف، ج1، ص17۔
  25. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص21۔
  26. دجیلی، موسوعۃ النجف الاشرف، 1993ء، ج1، ص14۔
  27. دجیلی، موسوعۃ النجف الاشرف، 1993ء، ج1، ص14۔
  28. دجیلی، موسوعۃ النجف الاشرف، 1993ء، ج1، ص14۔
  29. دجیلی، موسوعۃ النجف الاشرف، 1993ء، ج1، ص14۔
  30. جمال الدین، ملامح فی السیرۃ، 2003ء، ص12۔
  31. آل محبوبۃ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص22۔
  32. کاظمی دلیگانی، «اقدامات عمرانی شاہان صفوی»، ص
  33. کلیدار، تاریخ کربلا و حائر حسینی، 1389شمسی، ص342۔
  34. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص28-29۔
  35. حسینی جلالی، مزارات اہل البیت(ع)، 1415ھ، ص48۔
  36. خلیلی، موسوعہ العتبات، 1987ء، 7، ص191 و 192۔
  37. غروی، مع علماء‌ النجف، 1998ء، ج1، ص39-53۔
  38. غروی، مع علماء‌ النجف، 1998ء، ج1، ص39۔
  39. غروی، مع علماء‌ النجف، 1998ء، ج1، ص41۔
  40. غروی، مع علماء‌ النجف، ۱۹۹۸ء، ج۱، ص۴۲۔
  41. غروی، مع علماء‌ النجف، ۱۹۹۸ء، ج۱، ص۳۹-۵۳۔
  42. علوی، راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، 1389شمسی، ص149۔
  43. حکیمی، حماسہ غدیر، 1386شمسی، ص306-307۔
  44. حکیمی، حماسہ غدیر، 1386شمسی، ص319۔
  45. «آشنایی با کتابخانہ آیت‌اللہ حکیم»، ص32۔
  46. آل محبوبه، ماضی النجف و حاضرها، ۱۹۸۶ء، ج۱، ص۱۴۷-۱۷۳۔
  47. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص174-176۔
  48. غروی، مع علماء النجف، 1998ء، ج1، ص30۔
  49. خلیلی، موسوعۃ العتبات، 1987ء، ج7، ص57۔
  50. تاریخ حوزۃ النجف الاشرف
  51. شخصیۃ السید السیستانی وسیرتہ السیاسیۃ۔
  52. دجیلی، موسوعۃ النجف، 1993ء، ج1، ص420۔
  53. «خانہ آباد شیخ انصاری(رہ) در نجف»۔
  54. قمی، اماکن زیارتی و سیاحتی عراق، 1377شمسی، ص31۔
  55. تصاویر کمتر دیدہ شدہ از مسجد ہندی در نجف اشرف۔
  56. خلیلی، موسوعة العتبات، ۱۹۸۷ء، ج۶، ص۱۹۰۔
  57. حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427شمسی، ج2، ص31۔
  58. آل محبوبہ، ماضی النجف وحاضرہا، 1406ھ، ج1، ص43-45۔
  59. آل محبوبہ، ماضی النجف وحاضرہا، 1406ھ، ج1، ص48۔
  60. دجیلی، موسوعۃ النجف، 1993ء، ج1، ص407۔
  61. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص234۔
  62. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص234۔
  63. دجیلی، موسوعۃ النجف، 1993ء، ج1، ص477۔
  64. بالانفوجراف تقدیرات سکان محافظۃ النجف الاشرف حسب المناطق السکانیۃ لعام2017
  65. المعرفۃ: النجف
  66. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص400۔
  67. قریشی، «دراسۃ مقومات الجذب السیاحی»، ص240۔
  68. ایرانی، الشعراء العراقیون، 1392شمسی، ص205۔
  69. جمال الدین، ملامح فی السیرہ، 2003ء، ص17۔
  70. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، 399۔
  71. شافعی، «الأطراف الاربعۃ فی النجف الأشرف»۔
  72. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص23۔
  73. شافعی، «الأطراف الاربعۃ فی النجف الأشرف»۔
  74. شافعی، «الأطراف الاربعۃ فی النجف الأشرف»۔
  75. آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1986ء، ج1، ص23۔
  76. شافعی، «الأطراف الاربعۃ فی النجف الأشرف»۔

نوٹ

  1. البکری نے اس جگہ کا "ثَوِیّہ" نام دینے کے بارے میں کہا ہے کہ یہ پہلے ایک قید خانہ تھا جسے تُبَّع نے بنایا تھا اور جو بھی وہاں قید ہوتا تھا وہ مرنے تک وہیں رہتا تھا۔ وہ ثویہ کو حیرہ کے پیچھے اور کوفہ کے قریب سمجھتا ہے۔ البکری،معجم ما استعجم من اسماء البلاد والمواضع، 1403ھ، 1983ء، ج1، ص350.

مآخذ

  • «تصاویر کمتر دیدہ شدہ از مسجد ہندی در نجف اشرف»، خبرگزاری حج، تاریخ مشاہدہ: 22 دی 1397 ہجری شمسی۔
  • «خانہ آباد شیخ انصاری(رہ) در نجف»، خبرگزاری حوزہ، تاریخ اشاعت: 16 اسفند 1393، تاریخ مشاہدہ: 22 دی 1397 ہجری شمسی۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت،‌ دار الفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع، چاپ سوم، 1414ھ۔
  • احمدیان شالچی، نسرین، «جغرافیای تاریخ نجف اشرف»، در مجلہ مشکوۃ، شمارہ 68 و 69، پاییز و زمستان 1379۔
  • ایرانی، میثم، الشعراء العراقیون الملتزمون فی المہجر، تہران، دانشگاہ تہران، 1392ہجری شمسی۔
  • آل محبوبہ، باقر، ماضی النجف و حاضرہا، بیروت،‌ دار الأضواء،‌چاپ اول، 1986ء۔
  • تمیمی، محمد علی جعفر، مشہد الإمام و مدینۃ النجف، قم، منشورات الشریف الرضی، 1414ھ۔
  • جمال الدین، مصطفی، ملامح فی السیرۃ و التجربۃ الذاتیۃ، قم، المکتبۃ الأدبیۃ المختصۃ، 2003ء۔
  • جمال الدین، مصطفی، ملامح فی السیرۃ والتجربۃ الذاتیۃ، قم، المکتبۃ الأدبیۃ المختصۃ، 2003ء۔
  • حسینی جلالی، محمدحسین، مزارات اہل البیت(ع) و تاریخہا، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، 1415ھ۔
  • حکیمی، محمدرضا، حماسہ غدیر، قم، دلیل ما، 1386ہجری شمسی۔
  • خلیلی، جعفر، موسوعۃ العتبات المقدسۃ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1987ء۔
  • دجیلی، جعفر، موسوعۃ النجف الاشرف، بیروت،...، چاپ اول، 1993ء۔
  • شرقی، طالب علی، النجف الاشرف، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، 2006ء۔
  • شافعی، عبدالحسن، «الأطراف الأربعۃ فی النجف الأشرف»، در سایت الولایۃ، تاریخ مشاہدہ: 14 دی 1397، تاریخ اشاعت: 4 مئی‌ 2016۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، نجف، منشورات المکتبۃ الحیدریۃ، 1385ھ۔
  • علوی، سید احمد، راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، قم، معروف، 1389ہجری شمسی۔
  • غروی، سید محمود، الحوزۃ العلمیۃ فی النجف الأشرف، بیروت،‌ دار الأضواء، 1414ھ۔
  • غروی، محمد، مع علماء النجف، بیروت،‌ دار الثقلین، 1998ء۔
  • قریشی، زہیر عباس، «دراسۃ مقومات الجذب السیاحی الدینی الاسلامی فی مدینتی النجف الاشرف وکربلاء المقدسۃ»، در مجلہ الإدارۃ والاقتصاد، بغداد، دانشگاہ المستنصریہ، شمارہ 71، 2008ء۔
  • قمی، محمد رضا، اماکن زیارتی و سیاحتی عراق، تہران، نشر مشعر، 1377ہجری شمسی۔
  • کلیدار، عبدالجواد، تاریخ کربلا و حائر حسینی، ترجمہ مسلم صاحبی، تہران، مشعر، 1389ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیہ، 1365ہجری شمسی۔
  • یاقوت حموی، معجم البلدان، بیروت،‌ دار صادر، 1995ء۔