ذو الثفنات

ویکی شیعہ سے
امام محمد باقر علیہ السلام

وَ لَقَدْ کانَ تَسْقُطُ مِنْهُ کلَّ سَنَةٍ سَبْعُ ثَفِنَاتٍ مِنْ مَوَاضِعِ سُجُودِهِ لِکثْرَةِ صَلَاتِهِ وَ کانَ یجْمَعُهَا فَلَمَّا مَاتَ دُفِنَتْ مَعَه؛ ترجمہ: امام سجاد علیہ السلام کے مواضع سجدہ سے ہر سال سات گھٹے کاٹے جاتے تھے۔ اس لئے کہ آپ کثرت سے نماز پڑھا کرتے تھے۔ آپ ان گھٹوں کو جمع کرتے تھے۔ جب آپ کی شہادت ہوئی تو انہیں آپ کے ساتھ دفن کیا گیا۔

علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1404 ھ، ج 46، ص 61

ذوالثًفِنات گٹھے کے مالک کے معنی میں ہے۔ یہ شیعوں کے چوتھے امام، امام زین العابدین علیہ السلام کے القاب میں سے ہے۔

امام سجاد علیہ السلام کو کثرت سجدہ کے سبب پیشانی[1] اور دیگر مواضع سجدہ پر پر گٹھے پڑ جایا کرتے تھے اس لئے انہیں ذوالثفنات کہا جاتا تھا۔[2] ان کے مواضع سجدہ پر اونٹ کے زانو کی مانند گھٹے پڑ جایا کرتے تھے۔[3] ثَفِنہ کے معنی اونٹ کے زانو اور سینہ پر گٹھے کے ہیں۔[4]

بحار الانوار میں منقول روایت کے مطابق امام علی بن الحسین کے مواضع سجدہ پر گھٹے کثرت نماز کی وجہ سے پڑ جایا کرتے تھے۔[5] تیسری صدی ہجری کے مورخ یعقوبی کے بقول: آپ دن بھر میں 1000 رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔[6] اسی طرح سے علل الشرایع میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول روایت کے مطابق، آپ سال میں دو بار ان گھٹوں کو کٹوا کر اپنے بدن سے جدا کیا کرتے تھے۔[7] اس لئے کہ وہ گھٹے نماز میں سجدہ میں آپ کی پیشانی کو زمین تک پہچنے میں مانع ہوا کرتے تھے۔[8] آپ ان گھٹوں کو جمع کرتے تھے۔ جب آپ کی شہادت ہوئی، ان کٹے ہوئے گھٹوں کو آپ کے ساتھ دفن کیا گیا۔[9]

اسی طرح سے عبد اللہ بن وہب راسبی[10] جو خوارج کے رہبروں میں تھا اور علی بن عبد اللہ بن عباس[11] بھی ذوالثفنات مشہور تھے۔[12]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۰۳
  2. صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۲۳۳
  3. طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۸۰.
  4. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۷۸(ذیل واژه ثفن)
  5. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴۶، ص۶۱.
  6. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۰۳.
  7. صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۲۳۳.
  8. خصیبی، الهدایة الکبری، ۱۴۱۹ق، ص۲۱۴.
  9. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۴ق، ج۴۶، ص۶۱.
  10. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۴ق، ج۲، ص۳۶۰؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۷۵.
  11. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۸ق، ج۴، ص۷۱.
  12. ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۷۹؛ مدرس تبریزی، ریحانة الادب، ۱۳۶۹ش، ج۱، ص۲۵۵.

مآخذ

  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، تحقیق: احمد فارس، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۴ق.
  • ابن ابی‌ الحدید، عبدالحمید بن هبة الله، شرح نهج البلاغة، قم، انتشارات کتابخانه آیت‌ الله مرعشی، ۱۴۰۴ق.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف (ج۲)، تحقیق: محمد باقر محمودی، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، ۱۹۷۴ء/۱۳۹۴ق.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف (ج۴)، تحقیق: عبدالعزیز الدوری، بیروت، جمعیة المستشرقین الألمانیة، ۱۹۷۸ء/۱۳۹۸ق.
  • خصیبی، حسین بن حمدان، الهدایة الکبری، بیروت، البلاغ، ۱۴۱۹ق.
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، تحققیق: سید محمد صادق بحر العلوم، نجف، منشورات المکتبة الحیدریة، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۶ء.
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، قم، مؤسسہ آل البیت، ۱۴۱۷ق.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمد أبو الفضل ابراهیم، بیروت، دار التراث، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ء.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، بیروت، مؤسسة الوفاء، ۱۴۰۴ق.
  • مدرس تبریزی، میرزا محمدعلی، ریحانة الادب، تهران، تهران، انتشارات خیام، ۱۳۶۹ش.
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌ یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا.
ٗ