خاصِفُ‌ النَّعْل، (جوتی گانٹھنے والا، کفش دوز) شیعوں کے پہلے امام حضرت علیؑ کے القاب میں سے ایک لقب ہے۔[1] یہ لقب حدیث خاصف النعل سے ماخوذ ہے جس میں پیغمبر خداؐ نے امام علی کو اس لقب سے یاد کیا ہے؛ کیونکہ اس وقت امام علیؑ رسول خداؐ کا جوتا گانٹھ رہے تھے۔[2]

شیعوں کے پہلے امام
امام علی علیہ السلام
حیات طیبہ
یوم‌ الدارشعب ابی‌ طالبلیلۃ المبیتواقعہ غدیرمختصر زندگی نامہ
علمی میراث
نہج‌البلاغہغرر الحکمخطبہ شقشقیہبغیر الف کا خطبہبغیر نقطہ کا خطبہحرم
فضائل
آیہ ولایتآیہ اہل‌الذکرآیہ شراءآیہ اولی‌الامرآیہ تطہیرآیہ مباہلہآیہ مودتآیہ صادقینحدیث مدینہ‌العلمحدیث رایتحدیث سفینہحدیث کساءخطبہ غدیرحدیث منزلتحدیث یوم‌الدارحدیث ولایتسدالابوابحدیث وصایتصالح المؤمنینحدیث تہنیتبت شکنی کا واقعہ
اصحاب
عمار بن یاسرمالک اشترسلمان فارسیابوذر غفاریمقدادعبید اللہ بن ابی رافعحجر بن عدیمزید


خصف کا مطلب ہے چیزوں کو جمع کرنا اور انہیں ایک دوسرے سے جوڑنا[3] اور جو شخص پھٹے جوتوں کے ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے اسے اپنی پہلی والی شکل دے دے اسے خاصف النعل (جوتے کو گانٹھنےوالا) کہتے ہیں۔[4] امام علیؑ کا پیغمبر خداؐ کے جوتوں کی مرمت کرنے کو آپؑ کی عاجزی[5] اور سادگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔[6]

وہ روایات جن میں پیغمبر خداؐ نے امام علیؑ کو خاصف النعل کے عنوان سے یاد کیا ہے، ان میں سے ہرایک امامؑ کے ایک یا ایک سے زیادہ فضائل کو بیان کرتی ہے؛ مذکورہ فضائل میں سے امام علیؑ کی امامت و خلافت اور مشرکوں اور ظالموں سے ان کی جنگ بھی ہے۔[7] یہ روایات شیعہ قدیمی کتب احادیث میں پائی جاتی ہیں، جیسے کتب اربعہ[8] اسی طرح اہل سنت کی صحاح،[9] مسانید[10] اور سنن[11] میں اس مضمون کی حامل کی روایات آئی ہیں۔ شیعہ اور سنی محدثین میں سے بعض ان روایات کو صحیح و معتبر مانتے ہیں۔[12] سید عبد الحسین شرف‌ الدین اور جعفر کاشف‌ الغطاء جیسے شیعہ علماء ان احادیث کو متواتر مانتے ہیں۔[13]

شیعہ اور سنی احادیث کے منابع مآخذ میں جو روایتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک روایت جس میں پیغمبرؐ نے امام علیؑ کو خاصف النعل کے لقب سے یاد کیا ہے، یہ ہے: ایک دفعہ پیغمبر خداؐ نے اپنے اصحاب کے اجتماع میں فرمایا: «إِنَّ مِنْکمْ مَنْ یقَاتِلُ عَلَی تَأْوِیلِ ہَذَا الْقُرْآنِ کمَا قَاتَلْتُ عَلَی تَنْزِیلہ؛‌ تم میں سے کوئی ہے جو میرے بعد قرآن کی تاویل کے لیے جنگ کرے، جس طرح میں نے قرآن کے نزول کے وقت جہاد کیا تھا۔» حاضرین میں سے کچھ نے پوچھا کہ کیا وہ وہی اشخاص ہیں؟ پیغمبر خداؐ ان کو نفی میں جواب دیتے ہوئے ایک ایسے شخص کی طرف اشارہ کیا جو جوتوں کو گانٹھ رہے تھے۔ اس وقت امام علیؑ پیغمبر اسلام کے جوتوں کو گانٹھ رہے تھے۔[14]

حوالہ جات

  1. سبط بن جوزی، تذکرۃالخواص، 1418ھ، ص16؛ مقدس اردبیلی، حدیقۃ الشیعۃ، 1383شمسی، ج1، ص16؛ شیعی سبزواری، راحۃ الارواح، 1378شمسی، ص86.
  2. بحرانی، غایۃ المرام، 1422ھ، ج6، ص285؛ اربلی، کشف‌ الغمۃ، 1381ھ، ج1، ص335؛ علامہ حلی، نہج‌ الحق، 1982ء، ص220، ابن‌ شہرآشوب مازندرانی، مناقب آل ابی‌ طالبؑ، 1379ھ، ج3، ص44.
  3. ابن‌ منظور، لسان‌ العرب، بیروت، ج9، ص71.
  4. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج8، ص35.
  5. عطیہ، علی علیہ‌السلام خاصف نعل النبی صلی‌اللہ‌علیہ‌ وآلہ، 1436ھ، ص13.
  6. مکارم شیرازی، پیام امام امیر المومنینؑ، 1385شمسی، ج2، ص303.
  7. بحرانی، غایۃ المرام، 1422ھ، ج6، ص285؛ اربلی، کشف‌ الغمۃ، 1381ھ، ج1، ص335؛ علامہ حلی، نہج‌ الحق، 1982ء، ص220؛ ابن‌ شہرآشوب مازندرانی، مناقب آل ابی‌ طالبؑ، 1379ھ، ج3، ص44.
  8. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص11-12؛ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، 1407ھ، ج4، ص116.
  9. ترمذی، سنن ترمذی، 1419، ج5، ص452.
  10. ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، 1416ھ، ج17، ص391.
  11. نسائی، سنن‌النسائی، 1411ھ، ج5، ص127-128.
  12. ملاحظہ کیجیے: ترمذی، سنن ترمذی، 1419، ج5، ص452؛ مقدس اردبیلی، حدیقۃ الشیعۃ، 1383شمسی، ج1، ص232.
  13. شرف‌ الدین، المراجعات، 1426ھ، ص319؛ کاشف‌الغطاء، کشف‌الغطاء، 1422ھ، ج1، ص37.
  14. ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، 1416ھ، ج17، ص391، ج18، ص296. با کمی اختلاف در: شیخ مفید، الإفصاح فی الإمامۃ، 1413ھ، ص135؛ طبری، المسترشد فی امامۃ علی بن ابی طالبؑ، 1415ھ، ص357؛ سید بن طاووس، الطرائف، 1400ھ، ج1، ص70.

مآخذ

  • ابن‌ حنبل، احمد بن محمد، مسند الإمام أحمد بن حنبل، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1416ھ۔
  • ابن‌ شہرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب علیہم السلام، قم، علامہ، 1379ھ۔
  • ابن‌ منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دارصادر، چاپ سوم، بی‌تا۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، تبریز، بنی‌ہاشمی، 1381ھ۔
  • بحرانی، سید ہاشم غایۃ المرام و حجۃ الخصام فی تعیین الإمام من طریق الخاص و العام، بیروت، مؤسسۃ التأریخ العربی، 1422ھ۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، الجامع الصحیح و ہو سنن الترمذی، قاہرہ، دارالحدیث، 1419ھ۔
  • سبط بن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص من الأمۃ فی ذکر خصائص الأئمۃ، قم، منشورات الشریف الرضی، 1418ھ۔
  • سید بن طاووس حسنی، علی بن موسی، الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف، قم، خیام، 1400ھ۔
  • شرف الدین، سید عبدالحسین، المراجعات، قم، المجمع العالمی لأہل البیت، چاپ دوم، 1426ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن الحسن، تہذیب الأحکام، تحقیق خرسان، تہران، ‌دار الکتب الإسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الإفصاح فی الإمامۃ، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، 1413ھ۔
  • شیعی سبزواری، ابو سعید، راحۃ الأرواح، تہران، میراث مکتوب، چاپ دوم، 1378ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، تفسیر المیزان، قم، جامعہ مدرسین، 1417ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر بن رستم، المسترشد فی إمامۃ أمیر المؤمنینؑ، قم، مؤسسۃ الواصف، 1415ھ۔
  • عطیہ، ماجد بن احمد، علی علیہ‌السلام خاصف نعل النبی صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ، کربلا، العتبۃ الحسینیۃ المقدسۃ، 1436ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، بیروت، دارالکتاب اللبنانی، 1982ء۔
  • کاشف الغطاء، شیخ جعفر، کشف الغطاء عن مبہمات الشریعۃ الغراء، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1422ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الکافی، تہران، ‌ دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، حدیقۃ الشیعۃ، قم، انتشارات انصاریان، چاپ سوم، 1383ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمومنینؑ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1385ہجری شمسی۔
  • نسائی، احمد بن علی، السنن الکبری، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، منشورات محمد علی بیضون، 1411ھ۔