نیابت خاصہ

ویکی شیعہ سے

نیابت خاصہ کے معنی امام کی طرف سے جہاں خود براه راست لوگوں سے رابطہ برقرار نہیں کر سکتے کسی خاص شخص کو اس کام کیلئے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں۔ مذکورہ حالت میں یہ امام یا پہلے نائب کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اس شخص کا تعارف کرائے۔ بعض علماء نیابت کو جانشینی مطلق کے معنی میں لیتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ صرف امام زمانہ(عج) کی غیبت صغری کے زمانے کے نائبین یعنی نواب اربعہ نائب خاص اور جانشین مطلق شمار ہوتے ہیں۔ اس نظریے کی بنا پر خود ائمہ کی زندگی میں حتی ان کے با اختیار نمائندے بھی نائب خاص شمار نہیں ہوتے کیونکہ امام کا لوگوں سے مکمل رابطہ منقطع نہیں ہوا اس بنا پر انہیں سفیر یا وکیل کہا جاتا ہے۔

غیبت صغری کے دوران امام زمانہ(ع) کے نائبین خاص چار افراد تھے جو بالترتیب یہ ہیں: عثمان بن سعید، محمد بن عثمان، حسین بن روح نوبختی اور علی بن محمد سمری‏۔

غیبت صغری کے شروع ہوتے ہی ائمہ علیہم السلام کے بعض اصحاب اور پیروکاروں نے امام مہدی (ع) کے نائب خاص ہونے کا جھوٹا دعوا کرنا شروع کیا جن میں سے بعض کا نام امام زمانہ (ع) کی ایک توقیع میں ذکر ہوا ہے جو ان جھوٹے دعویداروں سے لعن اور نفرین کی خاطر صادر ہوئی تھی۔ اس طرح کا جھوٹا دعوا غیبت صغری تک محدود نہیں بلکہ غیبت کبری میں بھی بعض افراد کی طرف سے باب الامام (امام تک پہنچنے کا راستہ) یا نائب خاص ہونے کا دعوا ہوا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

مفہوم شناسی

اصطلاح میں نائب، جانشین اور قائم مقام کو کہا جاتا ہے۔[1] ایک نظریے کے مطابق نائب کا لفظ باب اور جانشینی مطلق کے معنی میں صرف امام زمانہؑ نائبین خاص یعنی نواب اربعہ پر اطلاق ہوتا ہے جو غیبت صغری کے دوران امام اور آپ کے پیروکاروں کے درمیان رابطے کا کام کرتے تھے۔ اس بنا پر ائمہ کی زندگی میں ان کے وکلاء اور نمائندوں کو نائب نہیں کہا جاتا ہے۔ کیوں ائمہ کی زندگی میں بعض افراد کو اپنا وکیل یا نمائندہ مقرر فرمانے کے باوجود بھی ائمہ خود بھی اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہوتے اور مکمل طور پر ان کا اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطہ منقطع نہیں ہوتا تھا۔ اس بنا پر عصر حضور ائمہ میں حتی ائمہ کے بااختیار وکلاء اور نمائندے بھی نائب، جانشین اور قائم مقام مطلق شمار نہیں ہوتے ہیں۔[2]

چھٹی صدی ہجری کے شیعہ محدث، مفسر، متکلم، فقیہ، فلسفی اور مورخ قطب الدین راوندی کی طرف سے عثمان بن سعید کو امام حسن عسکری کے دور میں وکیل اور امام زمانہؑ کی غیبت کے دوران نائب کہنا مذکورہ نظریے کی صحت پر واضح دلیل ہے۔[3]

امام زمانہؑ کے نائبین خاص

غیبت صغری کے دوران چار شخص امام زمانہؑ کے نائب خاص کے عنوان سے ذکر ہوئے ہیں۔ یہ افراد یکے بعد دیگری امام زمانہؑ کی طرف سے نائب خاص کے طور پر ذکر ہوئے ہیں جو دور دراز علاقوں میں اپنے وکلاء تعیین کر کے شیعوں کے پیغامات اور مطالبات کو امام زمانہؑ تک پہنچا کر امامؑ سے جواب دریافت کر کے متعلقہ اشخاص تک پہنچاتے تھے۔[4]

عثمان بن سعید عمری امام زمانہ کے پہلے نائب خاص تھے۔[5] سنہ 265 ہجری میں ان کی رحلت کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان دوسرے نائب خاص متعین ہوئے۔ محمد بن عثمان چالیس سال تک نیابت خاصہ کے عہدے پر رہے۔[6] اسی طرح حسین بن روح نوبختی و علی بن محمد سمری‏ تیسرے اور چوتھے نائب خاص رہے ہیں جو بالترتیب 21 اور 3 سال تک نائب خاص کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔[7] 329 ھ کو غیبت صغری کا دور ختم ہوا یوں نیابت خاصہ کا دور پر اپنے اختتام کو پہنچا۔

نیابت خاصہ کے جھوٹے دعویدار

تاریخ میں ائمہ کے بعض اصحاب اور پیروکاروں نے امام زمانہؑ کے نائب خاص ہونے کا دعوا کیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ امام زمانہؑ کی ایک توقیع میں جو انہیں جھوٹے دعویداروں پر لعن کرنے اور ان سے اظہار بیزاری کی خاطر صادر ہوئی تھی، میں امامؑ نے بعض افراد کا نام لیا ہے۔

شلمغانی

محمد بن علی بن ابی العزاقر جو شلمغانی کے نام سے معروف تھا، امام حسن عسکریؑ کے اصحاب اور بغداد کے شیعہ محدثین میں شمار ہوتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حسین بن روح سے حسادت کی وجہ سے مسلک امامیہ سے منحرف ہوا اور امام کی طرف سے جھوٹی نیابت کا دعوا کیا۔ آخرکار امام زمانہؑ کی طرف سے جھوٹے دعویداروں کے ساتھ اظہار بیزاری کی خاطر صادر ہونے والی توقیع میں امامؑ نے صراحت کے ساتھ شلمغانی کا نام لیا ہے۔[8]

شریعی

ابومحمد حسن شریعی بھی امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے تھا۔ شریعی پہلا شخص ہے جس نے نیابت خاصہ کا دعوا کیا اور ائمہ معصومین کی طرف ناروا مطالب کی نسبت دیا کرتے تھے اور ائمہ کے حق میں غلو کرتے تھے۔ ان کا نام بھی امام زمانہؑ کی ایک توقیع میں آیا ہے اور امامؑ کی لعنت کا مستحق قرار پایا ہے۔[9]

محمد بن نصیر نمیری

محمد بن‌ نصیر نمیری نیز امام ‌عسکریؑ کے اصحاب میں سے تھا اور شریعی کے بعد انہوں نے بھی نیابت کا دعوا کیا۔ اس بے بنیاد دعوے کے بعد محمد بن عثمان عمری جو اس وقت امام زمانہؑ کا نائب خاص تھا، کی لعن اور بیزاری کا موجب قرار پایا۔[10]

محمد بن علی بن بلال

ابوطاہر محمد بن‌ علی‌ بن‌ بلال امام ہادیؑ کے اصحاب اور امام حسن عسکریؑ کے وکلاء میں سے تھا اور اپنے زمانے کے شیعہ فقیہ، متکلّم اور محدّث شمار ہوتے تھے۔ ان کا علمی مقام اس قدر تھا کہ امام زمانہؑ کے تیسرے نائب خاص حسین بن روح نوبختى بعض کلامی مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان کے شاگردوں میں شمار ہوتا تھا۔ ان کے علاوہ علی بن ابراہیم قمی نیز ان کے شاگردوں میں شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے محمّد بن عثمان بن سعید کی نیابت کو قبول نہیں کیا اور اپنے آپ کو امام کے نائب خاص کے طور پر پیش کیا۔[11]

احمد بن ہلال کرخی

احمد بن ہلال کرخی جو عبرتایی کے نام سے معروف ہے اور ہمارے دسویں و گیارہویں امام کے اصحاب میں شار ہوتے ہیں۔ شیخ طوسی نے ان کا نام بھی نیابت خاصہ کے جھوٹے دعویداروں میں ذکر کیا ہے۔[12] انہوں نے عثمان بن سعید کی نیابت کو تو قبول کیا لیکن ان کے بیٹے محمد بن عثمان کی نیابت کا انکار کیا۔ امام زمانہؑ کی طرف سے حسین بن روح نوبختی کے نام صادر ہونے والی ایک توقیع میں آپؑ نے محمد بن عثمان کی نیابت کو قبول نہ کرنے پر انہیں مورد لعن قرار دیا ہے۔[13] لیکن شیخ طوسی نے اپنی کتاب فہرست میں ان کا نام صرف غالیوں کے زمرے میں درج کیا ہے اور ان کی نیابت خاصہ کے دعویدار ہونے کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔[14] نجاشی بھی اس بات کے معتقد ہیں کہ احمد بن ہلال امام عسکریؑ کی طرف سے مورد لعن قرار پایا ہے۔ بن ہلال اور امام حسن عسکریؑ کے درمیان کچھ خطوط بھی رد و بدل ہوئے ہیں۔[15]

احمد بن ہلال کی نیابت خاصہ کے جھوٹے دعویداروں میں سے ہونے پر جو قرائن و شواہد میسر ہیں ان میں سے ایک امام زمانہؑ سے صادر ہونے والی ایک توقیع میں ان کا نام بھی نمیری، شریعی، شلمغانی اور بلالی کے ساتھ ذکر ہونا ہے۔ اگرچہ اس توقیع میں امام کی طرف سے ان افراد کی مذمت کی گئی ہے لیکن اس توقیع میں ان افراد کی طرف سے نیابت خاصہ کا دعوا کرنے کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے۔ ہاں اس توقیع میں مذکور باقی اشخاص نیابت خاصہ کے جھوٹے دعویدار تھے اس بنا پر یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ احمد بن ہلال نے بھی یہ دعوا کیا ہے۔[16]

حسین بن منصور حلاج

حسین بن منصور حلاج، تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے مشہور صوفیوں میں سے تھا۔ بنی عباس خلفاء کے ساتھ ان کے اختلافات اور اہل سنت فقہاء کی طرف سے ان کے قتل کے فتوے کے صادر ہونے کی وجہ سے بعض لوگ ان کے شیعہ ہونے یا کم از کم شیعوں کی طرف تمایل رکھنے کا خیال ظاہر کرتے ہیں۔[17] وہ شیعوں کو اپنے گرد جمع کرنا چاہتے تھے اور تصوف کی طرف تمایل رکھنے والے بعض شیعوں کو جمع کرنے میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئے۔[18] لیکن قم اور بغداد کے شیعہ علماء نے ان کی دعوت کو رد کیا۔[19]

حلاج کی طرف سے امام زمانہؑ کی نیابت اور وکالت کا جھوٹا دعوا سبب بنا کہ جب حلاج قم آئے اور وہاں کے لوگوں کو اپنی اطاعت کرنے کی دعوت دی تو شیخ صدوق کے والد علی‌ بن حسین بن بابویہ نے حلاج کے دعوت نامے کو پھاڑ دیا اور حلاج کو سختی سے منع کیا یہاں تک کہ اسے قم سے نکل جانے کو کہا اور اسے وہاں سے نکال دیا۔[20]

حلاج کی جانب سے بغداد کے شیعہ رہنما ابو سہل نوبختی کے نام ارسال کرنے والے خطوط ـ جن میں اپنے آپ کو امام زمانہؑ کا نائب خاص معرفی کرنے کے ساتھ ساتھ بغداد کے شیعوں کو اپنی اطاعت کرنے کی دعوت دی گئی تھی ـ کا واقعہ بھی اس شیعہ عالم دین کی مخالفت نیز کرامت اور معجزہ کے طور پر اپنی داڑھی کے سفید بالوں کو کالا کرنے میں حلاج کی ناکامی کی وجہ سے ختم ہو گیا۔[21]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابراہیم مصطفى و دیگران، معجم الوسیط، ص۹۶۱۔
  2. جباری، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمہ(علہیم السلام)، ج۱، ص۴۰۔
  3. قطب راوندی، خرائج و الجرائح، ج۳، ص۱۱۱۴۔
  4. رجوع کریں: جباری، سازمان وکالت، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۵۹۹.
  5. شیخ طوسی، الغیبہ، ص۲۱۹ـ۲۲۳۔
  6. شیخ طوسی، الغیبہ، ص۲۱۹۔
  7. شیخ طوسی، الغیبہ، ص۲۲۳۔
  8. شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، ص۲۵۷۔
  9. شیخ طوسی، الغیبۃ، ص۲۴۶۔
  10. شیخ طوسی، الغیبۃ، ص۲۴۷۔
  11. محمد بن علی بن بلال، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، شیخ طوسی، الغیبۃ، ص۲۴۸۔
  12. شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، نجف، المکتبۃ الادب الشرقیۃ، ص۲۴۸۔
  13. شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، نجف، المکتبۃ الادب الشرقیۃ، ص۲۴۸۔
  14. شیخ طوسی، الفہرست، تصحیح و تعلیق: محمد صادق باقر العلوم، نجف، المکتبۃ المرتضويۃ و مطبعتہا، ص۳۶۔
  15. نجاشی، رجال، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعہ لجامعۃ المدرسین بقم المشرفہ‏، ۱۳۶۵ش، ص۸۳۔
  16. شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، نجف، المکتبۃ الادب الشرقیۃ، ص۲۵۷۔
  17. محمد ہانی ملا زادہ، دانشنامہ جہان اسلام، ذیل مدخل «حلاج، حسین بن منصور»، ج۱۳، ص۸۴۲۔
  18. محسن‌ بن على تنوخى، نشوار المحاضرۃ و اخبار المذاکرۃ، تحقیق: مصطفی حسین عبدالہادی، ج۱، ص۱۱۶ و ۱۱۷۔
  19. محسن‌ بن على تنوخى، نشوار المحاضرۃ و اخبار المذاکرۃ، ج۱، ص۱۰۸۔
  20. شیخ طوسی، الغیبۃ، ص۲۵۱۔
  21. شیخ طوسی، الغیبۃ، ص۲۴۹ـ۲۵۱، احمد بن علی خطیب بغدادى، تاریخ بغداد او مدینۃ السلام، تحقیق: مصطفی عبدالقادرعطا، ج ۸، ص۱۲۲۔

مآخذ

  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ، بیروت، منشورات الفجر للطباعۃ و النشر و التوزیع، چاپ اول، بی‎تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، تصحیح و تعلیق: محمد صادق باقر العلوم، نجف، المکتبۃ المرتضويۃ و مطبعتہا، بی‎تا۔
  • قطب راوندی ابوالحسن سعید بن ہبۃ اللہ، خرائج و الجرائح، تحقیق: مؤسسہ الامام المہدی، قم، مؤسسہ الامام المہدی، ۱۴۰۹ھ۔
  • جباری، محمد رضا، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمہ(علہیم السلام)، قم، انشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
  • تنوخى، محسن‌ بن على، نشوار المحاضرۃ و اخبار المذاکرۃ، تحقیق: مصطفی حسین عبدالہادی، بیروت، دارالکتب العلميۃ، ۲۰۰۴ء۔
  • ملا زادہ، محمد ہادی، دانشنامہ جہان اسلام، زیر نظر غلام علی حداد عادل، تہران، بنیاد دائرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
  • خطیب بغدادى، احمد بن علی، تاریخ بغداد او مدینۃ السلام، تحقیق: مصطفی عبدالقادرعطا، بیروت، دارالکتب العلميۃ/منشورات محمد علی بیضون، چاپ اول، ۱۴۱۷ھ۔
  • ابراہیم مصطفى و دیگران، المعجم الوسیط، القاہرۃ، مجمع اللغۃ العربیۃ، ۱۹۶۵ء۔
  • احمد بن ہلال، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ۔