مندرجات کا رخ کریں

حضرت عیسی کا نزول

ویکی شیعہ سے

حضرت عیسیٰؑ کا نزول امام مہدیؑ کے ظہور کے دور کے حتمی واقعات میں سے ایک ہے۔ مسلمان اور عیسائی آخری زمانے میں عیسی علیہ السلام کی واپسی پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ مسئلہ انجیل کے متعدد مقامات پر مذکور ہے اور بعض قرآنی مفسرین کے مطابق، قرآن کی بعض آیات میں بھی آخر الزمان میں حضرت عیسی کے نزول کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

شیعہ احادیث میں حضرت عیسیٰؑ کی واپسی کا مقصد امام مہدی (عج) کی مدد کرنا قرار دیا گیا ہے؛ جبکہ اہل سنت روایات کے مطابق نزول کے بعد حضرت عیسیٰؑ اپنا تعارف امام مہدیؑ کے وزیر کے طور پر کراتے ہیں۔ شیعہ اور اہل سنت مصادر میں مختلف مقامات حضرت عیسیٰ نازل ہونے کی جگہ کے طور پر بیان ہوئے ہیں جن میں مکہ، دمشق اور بیت المقدس قابل ذکر ہیں۔

شیعہ اور اہل سنت دونوں کی احادیث مستفیضہ کے مطابق حضرت عیسیٰؑ آسمان سے نازل ہونے کے بعد بارہویں امام کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے۔ بعض دوسری روایات میں دجال کا قتل اور یاجوج و ماجوج کے قتل کی نسب حضرت عیسیٰؑ کی طرف دی گئی ہے؛ حوزہ علمیہ قم کے محقق نجم الدین طبسی کا خیال ہے کہ بنی امیہ نے اہل بیتؑ سے بغض اور نفرت وجہ سے ان معاملات کو حضرت عیسیؑ کی طرف منسوب کرکے انہیں مہدی موعود کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

عیسی علیہ السلام کی واپسی کے بارے میں مختلف کتابیں اور مضامین لکھے گئے ہیں؛ جن میں میرتقی حسینی گرگانی کی کتاب "نزول مسیح و ظہور موعود" اور مجید یعقوب زادہ کی کتاب "نقش حضرت مسیح ؑ در دولت مہدوی" (مہدوی ریاست میں حضرت عیسیٰؑ کا کردار) شامل ہیں۔

اہمیت اور مقام

حضرت عیسیؑ کے نزول کو امام مہدی (عج) کے ظہور کے دور کے حتمی واقعات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔[1] اگرچہ حضرت عیسیؑ کے زندہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں مسلمان علماء کے مابین سب کا نظریہ ایک جیسا نہیں ہے، ان میں سے اکثر ان کے زندہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔[2] کتاب عصر ظہور میں علی کورانی کا کہنا ہے کہ امام زمانہ (عج) کے ظہور کے وقت حضرت عیسیٰؑ کے نزول پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔[3] کچھ محققین کا خیال ہے کہ اس مسئلے پر مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں میں بھی اتفاق رائے ہے؛[4] لیکن عیسائیت میں، اسلام کے برعکس، حضرت عیسیٰؑ کو منجی موعود کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔[5]

ظہور کے زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بارے میں اہل سنت مصادر میں 28[6] اور شیعہ منابع میں 30 روایتیں ملتی ہیں، جنہیں المیزان کے مصنف سید محمد حسین طباطبائی نے خبر مستفیض قرار دیا ہے۔[7]

آسمانی کتابوں میں حضرت عیسیؑ کا نزول

بعض مفسرین نے سورہ آل عمران کی آیات 46 اور سورہ نساء کی 159 آیات کو حضرت عیسیٰؑ کے ظہور کے وقت پر تطبیق دیا ہے؛ جیسا کہ یہ مسئلہ انجیل کے مختلف حصوں میں بھی واضح طور پر بیان ہوا ہے:

سورہ آل عمران آیت نمبر 46

تفسیر نمونہ کے مصنف ناصر مکارم شیرازی کے مطابق، اس احتمال کا امکان ہے کہ آیت مجیدہ: وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَ کَہْلًا وَ مِنَ الصَّالِحِینَ( ترجمہ: اور وہ گہوارے میں بھی لوگوں سے باتیں کرے گا۔ اور ادھیڑ عمر میں بھی۔ اور نیکوکاروں میں سے ہوگا۔ " )حضرت عیسیؑ کے نزول کی ایک پیشین گوئی ہو؛[8] کیونکہ «کَھل» کا لفظ عربی میں ادھیڑ عمر کے مرد کے لئے استعمال ہوتا ہے،[9] اور دوسری طرف کہا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ 32 سال[10] یا 33 سال کی عمر میں آسمان پر تشریف لے گئے ہیں۔[11] امام صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ 33 سال کی عمر میں آسمان پر تشریف لے گئے۔[12] پس حضرت عیسیؑ آسمان کی طرف جانے سے پہلے درمیانی عمر کو نہیں پہنچے تھے؛ اس وجہ سے ان کی درمیانی عمر مستقبل میں معلوم ہوگی اور روایات کے مطابق وہ امام زمانہؑ کے ظہور کے وقت ہوگی۔[13] بعض محققین کے مطابق حضرت عیسی کی گفتگو اور ان کی باتیں دو موقعوں پر بہت اہمیت کی حامل ہے: 1۔ جب ان کی والدہ حضرت مریم کی عزت اور ساکھ خطرے میں تھی اور وہ اپنی والدہ کو ناروا الزامات سے پاک کرنا چاہتے تھے۔ 2۔ جب حضرت مہدی (عج) کا ظہور ہوگا اور حضرت عیسیٰؑ اہل کتاب کو ان کی پیروی کے لیے بلائیں گے۔[14]

سورہ نساء آیت نمبر 159

شیعہ مفسرین میں سے محمد حسین طباطبائی اور محمد صادقی تہرانی کا کہنا ہے کہ آیت مجیدہ وَ إِن مِّنْ أَہْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ وَ يَوْمَ الْقِيَامَۃِ يَكُونُ عَلَيْہِمْ شَہِيدًا؛ (ترجمہ:اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں، جو اپنی موت (یا ان کی موت) سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور وہ قیامت کے دن ان کے خلاف گواہ ہوں گے؛[15] سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت عیسی کی وفات سے پہلے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے اور یہودی ان کی نبوت کو تسلیم کریں گے نیز عیسائی ان کی الوہیت کو ماننا چھوڑ دیں گے؛ کیونکہ حضرت مسیحؑ امام زمانہؑ کے ظہور کے وقت آسمان سے آ کر امام کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے اور یہ اہل کتاب کی ہدایت کا باعث بنے گا۔[16] امام باقرؑ کی ایک حدیث میں اس آیت کو عصر ظہور میں حضرت عیسیؑ کے نزول پر بھی تطبیق دیا گیا ہے۔[17]

انجیل میں

حضرت عیسیؑ کے نزول کو عیسائیوں میں "«second coming» (یعنی/دوسرا ظہور) " کے نام سے جانا جاتا ہے[18] اور انجیل کی متعدد جگہوں پر ان کے نزول کا تذکرہ ملتا ہے۔[19] بعض محققین کے مطابق، حضرت عیسیؑ کی واپسی کا موضوع انجیل میں تین سو سے زیادہ بار اور کئی پورے ابواب میں مذکور ہے (جیسے متی 24 اور 25 اور مرقس 13)۔[20] انجیل کے مطالعے کی بنیاد پر عیسائیوں کا خیال ہے کہ مسیح آخری زمانے میں واپس آ کر نجات کا منصوبہ مکمل کریں گے اور اس وقت دنیا میں مکمل امن قائم ہو جائے گا، جس میں کوئی جنگ یا قتل و غارت نہیں ہوگی۔[21] نیز دنیا میں ظلم و ستم کا پھیلنا، مختلف جگہوں پر قحط اور زلزلوں کا آنا، سورج اور چاند کو گرہن لگنا اور دجال کا ظہور، انجیل میں حضرت عیسیٰؑ کے نزول کی نشانیوں کے طور پر ذکر ہوئے ہیں۔[22]

نزول کا زمان اور مکان

امام صادقؑ کی ایک حدیث میں دمشق کو حضرت عیسیؑ کے نزول کی جگہ قرار دیا گیاہے۔[23] لیکن محمد تقی مجلسی نے اپنی کتاب لوامع صاحبقرانی میں نزول کی جگہ مکہ کو قرار دیا ہے۔[24] اہل سنت احادیث میں مختلف مقامات کو نزول کی جگہ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے جن میں بیت المقدس[25] اور دمشق کے مشرقی دروازے پر سفید پل شامل ہیں۔[26]

حضرت عیسیٰؑ کے نزول کا صحیح وقت احادیث میں نہیں بتایا گیا ہے، لیکن بعض محققین نے احتمال دیا ہے کہ یہ امام زمانہ کے ظہور کے آغاز میں واقع ہوگا۔[27] چھٹی صدی ہجری کے مفسرین ابوالفتوح رازی اور طبرسی نے سورہ زخرف کی آیت نمبر 61 [یادداشت 1]کو حضرت مسیحؑ کے نزول پر تطبیق دیا ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیحؑ کا نزول قیامت کے قیام کی شرائط اور نشانیوں میں سے ایک ہے؛ پس مسیحؑ کا نزول قیامت سے پہلے ہو گا۔[28] یہ تفسیر بعض اہل سنت روایات میں بھی نظر آتی ہے،[29] جسے امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے وقت حضرت عیسیٰؑ کے نزول پر تطبیق دی گئی ہے؛[30] کیونکہ حضرت مہدیؑ کا ظہور بھی آخری زمانے میں ہوگا۔[31]

نزول کے بعد حضرت عیسیؑ کے اقدامات

امام صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق عیسیٰ مسیح کے نزول کا مقصد امام مہدیؑ کی مدد کرنا ہے۔[32] بعض روایات میں حضرت عیسیٰؑ کو حضرت مہدی کے خزانچی کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔[33]بعض اہل سنت روایات کے مطابق حضرت مسیح نے اپنا تعارف امام زمانہ علیہ السلام کے وزیر کے طور پر کرایا ہے[34] جو قاضی کا عہدہ سنبھالیں گے۔[35] صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق حضرت عیسیٰؑ اپنے نزول کے بعد عیسائیوں کی صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے (سور کا گوشت کھانے کی ممانعت کا طرف اشارہ ہے[36]) اور ان کی آمد کے ساتھ ہی عیسائیوں پر جزیہ لگا دیں گے اور آپ کے آنے سے لوگ اتنے بے نیاز ہونگے کہ کوئی بھی ان سے پیسے نہیں لیں گے۔[37] نیز شیعہ اور اہل سنت کی بعض روایات کے مطابق عصر ظہور کے دوران حضرت عیسیٰؑ درج ذیل اقدامات انجام دیں گے:

نماز میں امام زمانہؑ کی اقتداء کرنا

متعدد شیعہ اور اہل سنت روایات کے مطابق حضرت عیسیٰؑ نماز میں امام زمانہؑ کی اقتدا کریں گے۔[38] بعض محققین کے مطابق شیعہ منابع میں حضرت مسیحؑ کا امام مہدیؑ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے بارے میں چودہ روایات ذکر ہوئی ہیں۔.[39] اگرچہ حضرت عیسیؑ کا امام زمانہؑ کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے مربوط روایات میں کوئی اور معرفتی کردار کو واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے؛[40] تاہم، محققین نے ان روایتوں کے مضمون کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے بارے میں کچھ نکات بیان کئے ہیں:

  • امام مہدیؑ کی سیاسی اور مذہبی مرجعیت کی تصریح؛[41]
  • عیسائیوں کا امام زمانہؑ کے سامنے تسلیم ہونا اور ان کا اسلام قبول کرنا؛[42]
  • علی کورانی کے مطابق، حضرت مسیح، امام زمانہ کی اقتداء ایسے وقت میں کرتے ہیں جب رومی امام علیہ السلام کے ساتھ اپنا معاہدہ توڑ دیں گے، اور حضرت عیسیٰؑ اپنے اس کام سے ان کے خلاف موقف اختیار کرتے ہیں۔[43]

دجال کا قتل

امام صادقؑ کی ایک حدیث کے مطابق دجال حضرت عیسیٰؑ کے ہاتھوں مارا جائے گا۔[44] الزام الناصب نامی کتاب میں مروی روایت کے مطابق امام زمانؑ اپنے لشکر کی کمان حضرت مسیحؑ کے حوالے کریں گے اور وہ سرزمین حجاز میں دجال کو قتل کریں گے۔[45] مسیحؑ کے ہاتھوں دجال کا قتل ہونا، اہل سنت منابع میں بھی ملتا ہے۔[46] اسی طرح بعض شیعہ حدیثی مصادر میں دجال کے قتل کو امام مہدی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔[47] محققین کا کہنا ہے کہ دجال کا حضرت مسیحؑ کے ہاتھوں قتل ہونے اور امام مہدیؑ کے ہاتھوں قتل ہونے میں کوئی تضاد نہیں ہے؛ کیونکہ حضرت عیسیٰؑ، دجال کو حضرت مہدیؑ کے حکم پر ہی قتل کریں گے۔ اس وجہ سے اس کے قتل کو دونوں سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔[48] ایک اہل سنت روایت کے مطابق حضرت عیسیٰؑ فلسطین میں دجال کو قتل کرنے کے لئے امام زمانہؑ کی مدد کریں گے۔[49]

یأجوج و مأجوج کا قتل

شیعہ مفسرین علی بن ابراہیم قمی اور طبرسی کے مطابق، اللہ تعالی نے سورہ الانبیاء کی آیت نمبر 96 میں یاجوج و ماجوج کا ظہور اور ان کی بغاوت کو آخری زمانے کے واقعات میں سے ایک کے طور پر بیان کیا ہے۔[50] عہد عتیق اور عہد جدیدمیں بھی آخر الزمان میں ان کے خروج کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[51] بعض اہل سنت روایات کے مطابق یاجوج و ماجوج حضرت عیسیٰؑ کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔[52]

امویوں کا حضرت عیسیٰ کو مہدی کے طور پر متعارف کرانا

حوزہ علمیہ کے محقق نجم الدین طبسی کا کہنا ہے کہ اگرچہ ظہور کے زمانے میں حضرت عیسیٰؑ کا نزول یقینی ہے، لیکن بنی امیہ نے اہل بیتؑ کی دشمنی میں ایسی من گھڑت احادیث جعل کی ہیں جن میں حضرت عیسیؑ کو امام مہدی کے طور پر معرفی کرایا گیا ہے تاکہ مہدی موعود کا اہل بیتؑ سے انتساب کی نفی ہوجائے اور حضرت مسیح ہی کو مہدی موعود معرفی کرسکیں۔[53] جیسے "لا مہدی الّا عیسی بن مریم؛ عیسی بن مریم کے سوا اور کوئی مہدی نہیں یعنی مہدی وہی عیسی بن مریم ہیں»[54] اور اس جیسی دیگر جعلی احادیث،[55]

کتاب نزول مسیح و ظہور موعود

طبسی کے مطابق، امویوں نے امام مہدیؑ سے مرکزی کردار سلب کر کے حضرت عیسی کو ظہور کے واقعات میں مرکزی کردار کے مالک کے طور پر معرفی کرانے کی بہت کوشش کی ہے چنانچہ انہوں نے دجال اور یاجوج و ماجوج کے قتل کی نسبت کو بھی امام زمانہ کے بجائے حضرت عیسیؑ کی طرف دی ہے، جس طرح سے نزول کی جگہ کو مکہ کے بجائے بیت المقدس متعارف کرایا ہے۔[56]

مونوگراف

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے موضوع پر مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • نزول مسیح و ظہور موعود؛ یہ کتاب میر تقی حسینی گرگانی نے فارسی زبان میں لکھی ہے اور بوستان کتاب پبلشنگ ہاؤس نے شائع کی ہے۔[57]
  • نقش حضرت مسیح ؑ در دولت مہدوی؛(مہدوی حکومت میں حضرت عیسیٰؑ کا کردار)؛ مجید یعقوب زادہ نے اس کتاب کو چار ابواب میں مرتب کیا ہے اور اسے موعود عصر پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب فارسی میں لکھی گئی ہے۔[58]
  • نزول عیسی بن مریم آخرالزمان؛ یہ کتاب دسویں صدی ہجری کے ایک اہل سنت عالم دین جلال الدین سیوطی نے عربی میں لکھی ہے۔ یہ کتاب دار الکتب العلمیہ پبلشنگ ہاؤس بیروت نے 1405ھ میں شائع کی ہے۔[59]

حوالہ جات

  1. قزوینی، امام مہدی (عج) از ولادت تا ظہور، 1387ش، ص678.
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص568.
  3. کورانی، عصر الظہور، 1430ق، ص245.
  4. نصیری؛ منصوری، «کیفیت سنجی و تحلیل کارآمدی بازگشت عیسی ؑ از منظر عہدین و منابع اسلامی»، ص252.
  5. اقلیدی نژاد، «آخرین نبرد در آخرالزمان»، ص74.
  6. کورانی و دیگران، معجم الاحادیث الامام مہدی (عج)، 1428ق، ج2، ص399-493.
  7. طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج5، ص144.
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص550.
  9. فراہیدی، العین، 1410ق، ذیل کہل؛ ابن منظور، لسان العرب، 1414ق، ذیل کہل.
  10. طبری، تاریخ الطبری، 1387ق، ج1، ص585.
  11. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ق، ج2، ص95.
  12. قمی، تفسیر القمی، 1363ش، ج2، ص270.
  13. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص749؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص550.
  14. بخشی، «بررسی و تبیین نقش عیسی ؑ در دوران پس از ظہور امام زمان ع»، ص103.
  15. سورہ نساء، آیہ 159
  16. طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج5، ص134-135؛ صادقی تہرانی، الفرقان فی تفسیر القرآن، 1365ش، ج7، ص439.
  17. قمی، تفسیر القمی، 1363ش، ج1، ص158.
  18. «بازگشت عیسی ؑ در آخرالزمان باور مشترک مسلمانان و مسیحیان»، خبرگزاری تسنیم.
  19. کتاب مقدس، کتاب لوقا، باب 13، آیہ 35؛ کتاب یوحنا، باب 14، آیہ 3؛ اعمال رسولان، باب 1، آیہ 11، باب 2، آیہ 31؛ نامہ بہ عبرانیان، باب 9، آیہ 28.
  20. اصغری، «آخرالزمان»، ص29.
  21. اصغری، «آخرالزمان»، ص29.
  22. اصغری، «آخرالزمان»، ص29.
  23. قمی، تفسیر القمی، 1363ش، ج2، ص270 و 271.
  24. مجلسی اول، لوامع صاحبقرانی، 1414ق، ج3، ص285.
  25. ابن حماد، الفتن، 1423ق، ص381.
  26. ابن حماد، الفتن، 1423ق، ص386؛ الکورانی، عصر الظہور، 1408ق، ج1، ص307.
  27. بخشی، «بررسی و تبیین نقش حضرت عیسیؑ در دوران پس از ظہور امام زمانؑ»، ص118.
  28. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج9، ص82؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان، 1408ق، ج17، ص181.
  29. بخاری، صحیح البخاری، 1422ق، ج3، ص136؛ نیشابوری، صحیح المسلم، دار احیاء التراث العربی، ج4، ص2221.
  30. آلوسی، روح المعانی، 1415ق، ج13، ص95.
  31. بخشی، «بررسی و تبیین نقش حضرت عیسیؑ در دوران پس از ظہور امام زمان(عج)»، ص114-115.
  32. صدوق، الامالی، 1376ش، ص218.
  33. بحرانی، حلیۃ الابرار، 1411ق، ج6، ص429.
  34. ابن حماد، الفتن، 1423ق، ص387.
  35. صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص135.
  36. عسقلانی، فتح الباری، 1379ق، ج4، ص414.
  37. بخاری، صحیح البخاری، 1422ق، ج3، ص136.
  38. محمدی ری شہری و دیگران، دانشنامہ امام مہدی بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، 1393ش، ج9، ص13-26.
  39. بخشی، «بررسی و تبیین نقش حضرت عیسیؑ در دوران پس از ظہور امام زمانؑ»، ص117.
  40. بخشی، «بررسی و تبیین نقش حضرت عیسیؑ در دوران پس از ظہور امام زمانؑ»، ص114-116.
  41. جواہری، «بررسی پیش بینی ہای قرآن و حدیث دربارہ مہدی (عج) و مسیح ؑ، توافق یا تقابل»، ص283.
  42. کارگر، مہدویت (دوران ظہور)، 1388ش، ص70 و 71.
  43. کورانی، عصر الظہور، 1430ق، ص247.
  44. قمی، تفسیر القمی، 1363ش، ج2، ص271.
  45. حائری یزدی، الزام الناصب، 1403ق، ج2، ص171 و 172.
  46. مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج4، ص2258.
  47. شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج2، ص336.
  48. کارگر، مہدویت (دوران ظہور)، 1388ش، ص30.
  49. سیوطی، الحاوی للفتاوی، 1424ق، ج2، ص103.
  50. قمی، تفسیر القمی، 1363ش، ج2، ص76؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج7، ص101.
  51. عہد عتیق، کتاب حزقیال نبی، باب 38، فقرہ 2 و 3؛ عہد جدید، مکاشفہ یوحنا، باب 20، فقرہ 7-9.
  52. ابن عساکر، تاریخ دمشق، 1415ق، ج1، ص228؛ ابن حجر، القول المختصر، 1428ق، ص94.
  53. طبسی، «درس مہدویت».
  54. ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، 1419ق، ج4، ص639.
  55. ابن حماد، الفتن، 1423ق، ص265.
  56. طبسی، «درس مہدویت».
  57. حسینی گرگانی، نزول مسیح و ظہور موعود، 1390ہجری شمسی۔
  58. یعقوب زادہ، نقش حضرت مسیح ؑ در دولت مہدوی، 1398ہجری شمسی۔
  59. سیوطی، نزول عیسی بن مریم آخر الزمان، دار ابن خلدون.

نوٹ

  1. «وَإِنَّہُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمْتَرُ نَّ بِہَا وَاتَّبِعُونِ ۚ ہَـٰذَا صِرَ اطٌ مُّسْتَقِيمٌ؛ و ہمانا آن، نشانہ اى براى [فہم ] رستاخيز است، پس زنہار در آن ترديد مكن، و از من پيروى كنيد؛ اين است راہ راست!»

مآخذ

  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
  • ابو الفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان، مشہد، بنیاد پژوہش ہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • ابن حماد، نعیم، الفتن، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1423ھ۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق، بی جا، دار الفکر، 1415ھ۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔
  • ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، بیروت، دار المعرفۃ، 1419ھ۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار الصادر، 1414ھ۔
  • اصغری، محمد جواد، «آخرالزمان»، در دانشنامہ کلام اسلامی، قم، موسسہ امام صادق ؑ، 1387ہجری شمسی۔
  • اقلیدی نژاد، علی، «آخرین نبرد در آخرالزمان»، در مجلہ معرفت، شمارہ 59، آبان 1381ہجری شمسی۔
  • الکتاب المقدس، ترجمہ بولس باسیم، بیروت، دار المشرق، 1988م.
  • «بازگشت عیسی ؑ در آخرالزمان باور مشترک مسلمانان و مسیحیان»، در سایت خبرگزاری تسنیم، تاریخ اشاعت: 4 دی 1397ش، تاریخ مشاہدہ: 20 خرداد 1401ہجری شمسی۔
  • بحرانی، سید ہاشم بن سلیمان، حلیۃ الابرار فی احوال محمد و آلہ الاطہار، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، 1411ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، دار طوق النجاۃ، 1422ھ۔
  • بخشی، سعید،«بررسی و تبیین نقش حضرت عیسیؑ در دوران پس از ظہور امام زمانؑ»، در مجلہ مشرق موعود، شمارہ 53، بہار 1399ہجری شمسی۔
  • جواہری، محمدرضا، «بررسی پیش بینی ہای قرآن و حدیث دربارہ مہدی (عج) و مسیح ؑ، توافق یا تقابل»، در مجلہ مشرق موعود، شمارہ 41، بہار 1396ہجری شمسی۔
  • حائری یزدی، علی، الزام الناصب فی اثبات الحجۃ الغائب، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، 1403ھ۔
  • حسینی گرگانی، میرتقی، نزول مسیح و ظہور موعود، قم، بوستان کتاب، 1390ہجری شمسی۔
  • سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، نزول عیسی بن مریم آخرالزمان، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1405ھ۔
  • سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الحاوی للفتاوی، بیروت، دار الفکر، 1424ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، تہران، اسلامیہ، 1395ھ۔
  • صادقی تہرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات فرہنگ اسلامی، 1365ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، 1376ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، دار التراث، 1387ھ۔
  • طبسی، نجم الدین، «درس مہدویت»، در سایت مدرسہ فقاہت، تاریخ اشاعت: 19 فروردین 1391ش، تاریخ مشاہدہ: 20 خرداد 1401ہجری شمسی۔
  • عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری، بیروت، دار المعرفۃ، 1379ھ۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، قم، دار الہجرۃ، 1410ھ۔
  • قزوینی، محمد کاظم، امام مہدی ؑ از ولادت تا ظہور، قم، نشر الہادی، 1387ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دار الکتاب، 1363ہجری شمسی۔
  • کارگر، رحیم، مہدویت (دوران ظہور)، قم، دفتر نشر معارف، 1388ہجری شمسی۔
  • کورانی، علی و دیگران، معجم الاحادیث الامام مہدی ؑ، قم، انتشارات مسجد مقدس جمکران، 1428ھ۔
  • الکورانی العاملی، علی، عصر الظہور، 1408ق، بی جا، بی نا.
  • مجلسی اول، محمد تقی، لوامع صاحبقرانی، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، 1414ھ۔
  • محمدی ری شہری، محمد و دیگران، دانشنامہ امام مہدی بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، قم، دار الحدیث، 1393ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
  • نصیری، مبشرہ؛ منصوری، محمد ہادی، «کیفیت سنجی و تحلیل کارآمدی بازگشت عیسی ؑ از منظر عہدین و منابع اسلامی»، در مجلہ مشرق موعود، شمارہ 42، تابستان 1396ہجری شمسی۔
  • نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح المسلم، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی تا.
  • یعقوب زادہ، مجید، نقش حضرت مسیح ؑ در دولت مہدوی، تہران، نشر موعود عصر، 1398ہجری شمسی۔