نقبائے بنی اسرائیل
نقبائے بنی اسرائیل بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے بارہ نمائندے (اسباط بنی اسرائیل) حضرت یعقوب کی اولاد میں سے تھے۔ جو خدا کے حکم سے حضرت موسیٰ کے ذریعہ منتخب ہوئے۔ ان کا کام اس میثاق کی پاسداری تھا جو خدا کی طرف سے بنی اسرائیل کے لئے آیا تھا۔ اکثر مفسرین کے مطابق نقبا کا کام بیت المقدس کی جانب ہجرت کے لئے ظالم قوم کے بارے میں اطلاعات کو اکٹھا کرنا بھی تھا۔ البتہ بعض مفسرین کے مطابق ان میں سے کچھ افراد نے اس ذمہ داری میں حضرات موسی ؑ کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ فریقین کے مآخذ کے مطابق پیغمبر اکرمؐ سے روایت نقل ہوئی ہے ان کے جانشینوں کی تعداد بنی اسرائیل کے نقبا کی تعداد کے برابر ہے۔ یہ احادیث روایات کے مجموعے میں حدیث خلفائے اثنا عشر کے عنوان سے مشہور ہیں۔ شیعہ علما ان کو بارہ آئمہ کی امامت کو ثابت کرنے کے لیے استدلال کرتے ہیں۔
نقبا؛حضرت موسیٰؑ کے نمائندے
نقبائے بنی اسرائیل اپنی اپنی قوم میں حضرت موسی ؑ کے نمائندے تھے۔[1] بعض روایات کے مطابق خدا کے حکم سے حضرت موسی کے ذریعہ منتخب ہوئے۔[2] مفسرین کے مطابق نقبا بنی اسرائیل کے بارہ اسباط (حضرت یعقوب کے بیٹوں) میں تھے۔ [3] جنہیں ہر قبیلے سے ایک نمائندے کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ [4] لفظ’’نقبا‘‘ نقیب کی جمع ہے۔ [5] لغت میں نقیب دانا [6] اور اسرار سے آگاہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔[7] اس کے علاوہ کفالت [8] ،ضمانت اور امانت داری [9] کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ نقبا اپنی قوم کے بزرگوں میں سے تھے۔ [10] جن کی بات مانی جاتی تھی اور خاص مقام کے حامل تھے۔ [11] تفسیر کی بعض کتابوں میں نقبا کواپنی قوم کے بڑے، [12] سردار [13] یہاں تک کہ بادشاہ [14] بھی لکھا گیا ہے۔ کچھ کا یہ ماننا ہے کہ یہ لوگ بعد میں مقام نبوت تک بھی پہنچے۔ [15]بعض ان کے لئے عظیم مرتبے کے قائل ہیں اور ان کو صاحب کتاب سمجھتے ہیں اور عام پیغمبروں سے ان کا مقام بڑا اور اولوالعزم پیغمبر کے مقام سے کم مانتے ہیں۔ [16] قرآن میں ان کا مقام واضح طور پر بیان نہیں ہوا ہے۔ [17] اسی لیے اس بارے میں مختلف نظریات اور آرا بیان ہوئی ہیں۔ [18] سورہ مائدہ کی ۱۲ویں آیت میں ہے کہ خدا نے بنی اسرائیل میں سے بارہ نقبا کو منتخب کیا۔
نقبا کے فرائض
قرآن میں ہے کہ ان کا کام اس میثاق کی حفاظت کرنا تھا جو خدا نے بنی اسرائیل سے کیا تھا۔ [19]اسی طرح ایک اور کام جو حضرت موسیؑ نے اپنے نقبا کے ذمہ لگایا تھا وہ یہ تھا انہیں سر زمین بیت المقدس کا سفر کرناتھا۔ [20] وہاں انہیں یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ سر زمین کنعان [21] شامات [22] یا شام میں اریحا [23] جسے بعض اوقات عمالقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، [24] وہاں کی ظالم قوم کی اطلاعات اکٹھا کریں۔ [25] انہوں نے اپنے مشاہدات لکھے اور حضرت موسیؑ کے پاس آکر ان علاقوں کے لوگوں کی عظمت بیان کی۔ [26]اور حضرت موسیؑ نے انہیں اپنی قوم کے سامنے یہ اطلاعات بیان کرنے اور لوگوں کو ڈرانے سے منع فرمایا [27] لیکن وہ پھر بھی اپنی عوام کے پاس جاتے اور سب کچھ ان کے سامنے بیان کرتے۔ ان میں سے دو [28] یا زیادہ سے زیادہ پانچ افراد [29] کے علاوہ کسی نے حضرت موسیٰ کی بات پر عمل نہیں کیا۔خطا در حوالہ: Closing </ref>
missing for <ref>
tag
بعض دیگر مآخذ میں نقبا کے نام کچھ اختلاف کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں۔ [30]
پیغمبرؐ کے جانیشنوں کی بنی اسرائیل کے نقبا کے ساتھ تشبیہ
بہت سی روایات میں ذکر ہوئی ہے جیسے یہ کہ پیغمبرؐ نے اپنے جانیشنوں کی تعاد بنی اسرائیل کے نقبا کی تعداد کے برابر بیان کی ہے۔ [31] یہ روایات اثنا عشر روایات کے عنوان سے معروف ہیں جن میں پیغمبرؐ کے جانیشینوں کی تعداد بارہ اور سب کو قریش سے بتایا گیا ہے۔ [32] دوسری حدیث کے مطابق پیغمبرؐ نے اپنی قوم کی سرنوشت کو بنی اسرائیل کی مانند ہی بتایا ہے۔ [33] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ نے بیعت عقبہ میں انصار میں سے بارہ نقیبوں کو منتخب کیا تھا تاکہ مدینہ میں ان کے نمائندے بن کر رہیں۔ [34] سید محمد حسین طباطبائی نے تفسیر المیزان میں نقبا کو دین اسلام میں اولو الامر سے تشبیہ دی ہے اور انہیں بنی اسرئیل کے دنیوی اور دینی امور میں مرجع کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ [35]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ دینوری، الواضح، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۱۹۰۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۶۵۔
- ↑ ابن حموش، الہدایہ إلی بلوغ النہایہ، ۱۴۲۹ھ، ج۳، ص۱۶۳۹؛ میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۳، ص۵۷۔
- ↑ ثعالبی، تفسیر الثعالبی، ۱۴۱۸ھ، ج۲، ص۳۶۲؛ سیوطی، الدر المنثور، ج۲، ص۲۶۷۔
- ↑ راغب اصفہانی، مفردات راغب، کلمہ نقیب کے ذیل میں۔
- ↑ فراہیدی، العین، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۱۲۱؛ صاحب، المحیط فی اللغہ، ۱۴۱۴ھ، ج۲، ص۲۲۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۰۸۔
- ↑ ابن قتیبہ، تفسیر غریب القرآن، ۱۴۱۱ھ، ص۱۲۴؛ ابن عبیده، مجاز القرآن، ۱۳۸۱ھ، ج۱، ص۱۵۶؛ ثعلبی، الکشف و البیان تفسیر ثعلبی، ۱۴۲۲ھ، ج۴، ص۳۶۔
- ↑ ابن عبیده، مجاز القرآن، ۱۳۸۱ق، ج۱، ص۱۵۶؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ھ، ج۶، ص۹۵؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۳۶۹؛ ابن ہائم، التبیان، ۱۴۲۳ھ، ص۱۴۸۔
- ↑ ثعالبی، تفسیر الثعالبی، ۱۴۱۸ھ، ج۲، ص۳۶۲۔
- ↑ جرجانی، درج الدرر، ۱۴۳۰ھ، ج۱، ص۵۵۲۔
- ↑ طیب، اطیب البیان، ۱۳۶۹ش، ج۴، ص۳۱۹۔
- ↑ دیوبندی، تفسیر کابلی، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۵۲۔
- ↑ سمرقندی، بحر العلوم، ۱۴۱۶ھ، ج۱، ص۳۷۵؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۳۶۹؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۶۵۔
- ↑ آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ھ، ج۳، ص۲۶۰۔
- ↑ صادقی تہرانی، ترجمان فرقان، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۴۱۔
- ↑ مغنیہ، التفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ھ، ج۳، ص۳۰۔
- ↑ نقبائے بنی اسرائیل کے مقام و مرتبہ کے بارے میں مزید تفصیلات کے لئے رجوع کیجئے: عاملی، تفسیر عاملی، ۱۳۶۰ش، ج۳، ص۲۳۹۔
- ↑ ابن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ۱۴۲۳ھ، ج۱، ص۴۶۰؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ھ، ج۶، ص۹۵۔
- ↑ ابن حموش، الہدایہ إلی بلوغ النہایہ، ۱۴۲۹ھ، ج۳، ص۱۶۳۹؛ سمرقندی، بحر العلوم، ھ، ج۱، ص۳۷۵۔
- ↑ ثعلبی، الکشف و البیان، ۱۴۲۲ھ، ج۴، ص۳۶؛ زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۶۱۵؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، ۱۴۱۸ھ، ج۲، ص۱۱۸۔
- ↑ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ھ، ج۶، ص۹۶؛ میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۳، ص۵۸۔
- ↑ زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۶۱۵؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، ۱۴۱۸ھ، ج۲، ص۱۱۸؛ طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص۳۱۷۔
- ↑ جرجانی، درج الدرر، ۱۴۳۰ھ، ج۱، ص۵۵۲۔
- ↑ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ھ، ج۶، ص۹۶؛ سمرقندی، بحرالعلوم، ۱۴۱۶ھ، ج۱، ص۳۷۵؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۳۶۹؛ ابن حموش، الہدایہ، ۱۴۲۹ھ، ج۳، ص۱۶۴۰۔
- ↑ سمرقندی، بحر العلوم، ۱۴۱۶ھ، ج۱، ص۳۷۵؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۳۶۹؛ شعرانی، پژوہشہای قرآنی علامہ شعرانی، ۱۳۸۶ش، ج۱، ص۴۲۰۔
- ↑ زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۶۱۵۔
- ↑ سمرقندی، بحر العلوم، ۱۴۱۶ھ، ج۱، ص۳۷۵؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۳۶۹؛ جرجانی، درج الدرر، ۱۴۳۰ھ، ج۱، ص۵۵۲؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۶۵۔
- ↑ ابن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ۱۴۲۳ھ، ج۱، ص۴۶۱۔
- ↑ شعرانی، پژوہشہای قرآنی علامہ شعرانی، ۱۳۸۶ش، ج۱، ص۴۱۹۔
- ↑ خزاز رازی، کفایۃ الأثر، ۱۴۰۱ھ، ص۲۷؛ شیخ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۴۶۸؛ نعمانی، الغیبۃ، ۱۳۹۷ھ، ص۱۱۸؛ ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ۱۴۱۶ھ، ج۶، ص۳۲۱، ۴۰۶؛ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۴ھ، ج۱۰، ص۱۵۷؛ ابی یعلی، مسند ابی یعلی، ۱۴۰۴ھ، ج۸، ص۴۴۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۹۹۳ھ، ج۵، ص۳۲۰۔
- ↑ مؤسسہ معارف اسلامی، معجم الاحادیث الامام المہدی، ۱۴۲۸ھ، ج۳، ص۵۰۱۔
- ↑ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۲۰۳۔
- ↑ طبرانی، التفسیر الکبیر، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۳۶۹؛ اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ھ، ج۱، ص۵۵۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۵، ص۲۴۰۔
مآخذ
- ابن ابی زینب، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، نشر صدوق، ۱۳۹۷ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۶۲ش۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضره الفقیہ، تحقیق علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ھ۔
- ابن حموش، مکی، الہدایہ إلی بلوغ النہایہ، شارجہ، جامعة الشارقہ، ۱۴۲۹ھ۔
- ابن حنبل، احمد، مسند احمد بن حنبل، بیروت، موسسہ الرسالہ، ۱۴۱۶ھ۔
- ابن سلیمان، مقاتل، تفسیر مقاتل بن سلیمان، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۳ھ۔
- ابن قتیبہ، عبدالله بن مسلم، تفسیر غریب القرآن، بیروت، دار و مکتبہ الہلال، ۱۴۱۱ھ۔
- ابن ہائم، احمد بن محمد، التبیان فی تفسیر غریب القرآن، بیروت، دارالغرب الإسلامی، ۱۴۲۳ھ۔
- ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۴۰۸ھ۔
- ابو عبیده، معمر بن مثنی، ابن عبیده، مجاز القرآن، قاهره، مکتبہ الخانجی، ۱۳۸۱ھ۔
- ابی یعلی موصلی، احمد بن علی، مسند ابی یعلی، دمشق، دارالمأمون للتراث، تحقیق حسین سلیم أسد، ۱۴۰۴ھ۔
- اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ فی معرفۃ الأئمہ، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تبریز، بنیہاشمی، ۱۳۸۱ھ۔
- آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ھ۔
- بزار، احمد بن عمرو، مسند البزار، تحقیق محفوظ الرحمن زین الله، مدینہ، مکتبۃ العلوم و الحکم، ۱۹۹۳ھ۔
- بیضاوی، عبدالله بن عمر، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۱۸ھ۔
- سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، قم، مکتبہ آیتالله المرعشی نجفی، ۱۴۰۴ھ۔
- ثعالبی، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر الثعالبی مشہور به الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۱۸ھ۔
- ثعلبی، احمد بن محمد، الکشف و البیان المعروف تفسیر الثعلبی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۲ھ۔
- جرجانی، عبدالقاهر بن عبدالرحمن، درج الدرر فی تفسیر القرآن العظیم، عمان اردن، دارالفکر، ۱۴۳۰ھ۔
- حسنی واعظ، محمود بن محمد، دقائق التأویل و حقائق التنزیل، تہران، مرکز پژوہشی میراث مکتوب، ۱۳۸۱ش۔
- خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الأثر فی النص علی الأئمۃ الإثنی عشر، تحقیق عبداللطیف حسینی کوہکمری، قم، بیدار، ۱۴۰۱ھ۔
- دیوبندی، محمود حسن، تفسیر کابلی، تہران، نشر احسان، چاپ یازدہم، ۱۳۸۵ش۔
- دینوری، عبدالله بن محمد، الواضح فی تفسیر القرآن الکریم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ھ۔
- زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الأقاویل فی وجوه التأویل، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۷ھ۔
- سمرقندی، نصر بن محمد، تفسیر سمرقندی مشہور به بحرالعلوم، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۶ھ۔
- شعرانی، ابوالحسن، پژوہشہای قرآنی علامہ شعرانی در تفاسیر مجمع البیان، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۶ش۔
- صاحب، اسماعیل بن عباد، المحیط فی اللغہ، تحقیق محمد حسن آل یاسین، بیروت، عالم الکتب، ۱۴۱۴ھ۔
- صادقی تہرانی، محمد، ترجمان فرقان: تفسیر مختصر قرآن کریم، قم، شکرانہ، ۱۳۸۸ش۔
- طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۳۹۰ھ۔
- طبرانی، سلیمان بن احمد، التفسیر الکبیر: تفسیر القرآن العظیم، اربد اردن، دارالکتاب الثقافی، ۲۰۰۸ء۔
- طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی بن عبدالمجید السلفی، موصل، مکتبۃ العلوم والحکم، چاپ دوم، ۱۴۰۴ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، قم، حوزه علمیہ قم، مرکز مدیریت، ۱۴۱۲ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفہ، ۱۴۱۲ھ۔
- طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، ۱۳۶۹ش۔
- عاملی، ابراہیم، تفسیر عاملی، تہران، کتاب فروشی صدوق، ۱۳۶۰ش۔
- فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، قم، نشر هجرت، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ۔
- مغنیہ، محمد جواد، التفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الإسلامی، ۱۴۲۴ھ۔
- مدرسی طباطبائی، سید حسین، مکتب در فرایند تکامل، ترجمہ ہاشم ایزد پناه، تہران، انتشارات کویر، ۱۳۸۶ش۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیہ، چاپ دہم، ۱۳۷۱ش۔
- مؤسسہ معارف اسلامی، معجم الاحادیث الامام المہدی، قم، انتشارات مسجد مقدس جمکران، ۱۴۲۸ھ۔
- میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدة الابرار، تہران، امیر کبیر، چاپ پنجم، ۱۳۷۱ش۔
|
|