نقبائے بنی اسرائیل

ویکی شیعہ سے

نقبائے بنی اسرائیل حضرت یعقوب کی اولاد میں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے بارہ نمائندے (اسباط بنی اسرائیل) تھے جو خدا کے حکم سے حضرت موسیٰ کے ذریعہ منتخب ہوئے تھے۔ ان کا کام اس میثاق اور عہد و پیمان کی پاسداری تھا جو خدا نے بنی اسرائیل کے ساتھ باندھا تھا۔ اسی طرح بیت المقدس کی جانب ہجرت کے وقت اس ظالم اور ستمگر قوم کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا بھی نقبائے بنی اسرائیل کی ذمہ داری تھی۔ حضرت موسی نے ان سے درخواست کی تھی کی مذکورہ معلومات کے بارے میں اس قوم کو کچھ نہ بتایا جائے لیکن ان میں سے اکثر نے حضرت موسی کے اس حکم کی خلاف ورزی کی۔

شیعہ اور اہل سنت منابع میں پیغمبر اکرمؐ سے مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں آپ کی جانشینوں کی تعداد بنی اسرائیل کے نقبا کی تعداد کے برابر قرار دی ہے۔ یہ احادیث حدیث خلفائے اثنا عشر کے عنوان سے مشہور ہیں۔ شیعہ علما ائمہ معصومین کی امامت کو ثابت کرنے کے لیے ان احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔

نقبا؛حضرت موسیٰ کے نمائندے

نقبائے بنی اسرائیل میں سے ہر ایک اپنی قوم میں حضرت موسی ؑ کے نمائندے تھے۔[1] بعض روایات کے مطابق یہ نمائندے خدا کے حکم سے حضرت موسی کے ذریعہ منتخب ہوئے تھے۔[2] مفسرین کے مطابق نقبا بنی اسرائیل کے بارہ اسباط (حضرت یعقوب کے بیٹوں) میں تھے۔ [3] جنہیں ہر قبیلے سے ایک نمائندے کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ [4]

لفظ’’نقبا‘‘ نقیب کی جمع ہے۔ [5] لغت میں نقیب دانا [6] اور اسرار سے آگاہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔[7] اس کے علاوہ کفالت [8] ،ضمانت اور امانت داری [9] کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔

نقبا اپنی قوم کے بزرگوں اور موثر افراد میں سے تھے۔ [10] جن کی بات مانی جاتی تھی اور یہ خاص مقام کے حامل تھے۔ [11] تفسیر کی بعض کتابوں میں نقبا کو اپنی قوم کے بڑے، [12] سردار [13] یہاں تک کہ بادشاہ [14] بھی لکھا گیا ہے۔ کچھ کا یہ ماننا ہے کہ یہ لوگ بعد میں مقام نبوت تک بھی پہنچے۔ [15]بعض ان کے لئے عظیم مرتبے کے قائل ہیں اور ان کو صاحب کتاب سمجھتے ہیں اور عام پیغمبروں سے ان کا مقام بڑا اور اولوالعزم پیغمبر کے مقام سے کم مانتے ہیں۔ [16]

قرآن میں ان کا مقام واضح طور پر بیان نہیں ہوا ہے۔ [17] اسی لیے اس بارے میں مختلف نظریات اور آرا بیان ہوئی ہیں۔ [18] سورہ مائدہ کی 12ویں آیت میں ہے کہ خدا نے بنی اسرائیل میں سے بارہ نقبا کو منتخب کیا۔

پیغمبر اکرمؐ کی جانیشنوں کی نقبائے بنی اسرائیل سے تشبیہ

پیغمبر اکرمؐ سے منقول احادیث میں آپ کی جانشینوں کی تعداد نقبائے بنی‌ اسرائیل کی تعداد کے برابر بیان ہوئی ہے۔[19] یہ احادیث حدیث اثنا عشرہ خلیفہ کے نام سے مشہور ہیں جن میں پیغمبر اکرمؐ کی جانشینوں کی تعداد بارہ اور سب کو قریش میں سے قرار دئے ہیں۔[20] شیعہ علماء ائمہ معصومین کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے ان احادیث سے استناد کرتے ہیں۔[21] ایک اور حدیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اپنی قوم کی کے مقدر کو بھی بنی اسرائیل جیسا قرار دیا ہے۔[22] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ نے بیعت عَقَبہ میں انصار میں سے بارہ نقیب منتخب کئے تاکہ یہ لوگ مدینہ میں آپ کے نمائندے قرار پائیں۔[23]

علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں نقبا کو دین اسلام میں اولوالاَمر کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے ان کو بنی‌ اسرائیل کے دینی اور دنیوی امور کے مرجع قرار دیا ہے۔[24]

نقبا بنی اسرائیل کے وظائف اور ذمہ داریاں

قرآن کے مطابق نقبائے بنی اسرائیل کی ذمہ داری اس میثاق اور عہد و پیمان کی حفاظت تھی جو خدا نے بنی اسرائیل کے ساتھ باندھا تھا۔ [25]اسی طرح حضرت موسیؑ نے ان کو سر زمین بیت المقدس کا سفر کرنے[26] اور اس ظالم اور سمتگر قوم کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی جو سر زمین کنعان[27]، شامات[28] یا شام میں اریحا [29] [یادداشت 1] [30] میں آباد تھی۔[31] انہوں نے اپنے مشاہدات نوٹ کرنے کے بعد حضرت موسیؑ کے پاس آکر ان علاقوں کے لوگوں کی عظمت بیان کی۔[32]حضرت موسیؑ نے انہیں اپنی قوم کے سامنے یہ اطلاعات بیان کرنے اور لوگوں کو ڈرانے سے منع فرمایا[33] لیکن ان میں سے دو [34] یا زیادہ سے زیادہ پانچ افراد[35] کے علاوہ کسی نے حضرت موسیٰ کی بات پر عمل نہیں کیا۔[36]

نقبا کے نام

مفسرین قرآن میں ثعلبی نے اپنی قران کی تفسیر میں نقبا کے نام کا ذکر کیا ہے جو کہ اس طرح ہیں :

  1. شامل ابن ران
  2. شاقاط ابن حوری
  3. کالب ابن یوقنا
  4. مقایل ابن یعوسف
  5. یوشع ابن نون
  6. زنطم ابن ارقون
  7. مدی ابن عدی
  8. جدی ابن قامن
  9. ییانون ابن ملکیا
  10. نفتالی محر ابن وقسی
  11. حمائل ابن حمل
  12. سابور ابن ملکیا [37]

بعض دیگر مآخذ میں نقبا کے نام کچھ اختلاف کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں۔ [38]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. دینوری، الواضح، 1424ھ، ج1، ص190۔
  2. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج3، ص265۔
  3. ابن حموہجری شمسی، الہدایہ إلی بلوغ النہایہ، 1429ھ، ج3، ص1639؛ میبدی، کشف الاسرار، 1371ہجری شمسی، ج3، ص57۔
  4. ثعالبی، تفسیر الثعالبی، 1418ھ، ج2، ص362؛ سیوطی، الدر المنثور، ج2، ص267۔
  5. راغب اصفہانی، مفردات راغب، کلمہ نقیب کے ذیل میں۔
  6. فراہیدی، العین، 1409ھ، ج2، ص121؛ صاحب، المحیط فی اللغہ، 1414ھ، ج2، ص22۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج4، ص308۔
  8. ابن قتیبہ، تفسیر غریب القرآن، 1411ھ، ص124؛ ابن عبیدہ، مجاز القرآن، 1381ھ، ج1، ص156؛ ثعلبی، الکشف و البیان تفسیر ثعلبی، 1422ھ، ج4، ص36۔
  9. ابن عبیدہ، مجاز القرآن، 1381ق، ج1، ص156؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج6، ص95؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008ء، ج2، ص369؛ ابن ہائء، التبیان، 1423ھ، ص148۔
  10. ثعالبی، تفسیر الثعالبی، 1418ھ، ج2، ص362۔
  11. جرجانی، درج الدرر، 1430ھ، ج1، ص552۔
  12. طیب، اطیب البیان، 1369ہجری شمسی، ج4، ص319۔
  13. دیوبندی، تفسیر کابلی، 1385ہجری شمسی، ج2، ص52۔
  14. سمرقندی، بحر العلوء، 1416ھ، ج1، ص375؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008ء، ج2، ص369؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج3، ص265۔
  15. آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج3، ص260۔
  16. صادقی تہرانی، ترجمان فرقان، 1388ہجری شمسی، ج2، ص41۔
  17. مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج3، ص30۔
  18. نقبائے بنی اسرائیل کے مقام و مرتبہ کے بارے میں مزید تفصیلات کے لئے رجوع کیجئے: عاملی، تفسیر عاملی، 1360ہجری شمسی، ج3، ص239۔
  19. خزاز رازی، کفایۃ الأثر، 1401ق، ص27؛ شیخ صدوق، الخصال، 1362ش، ج2، ص468؛ نعمانی، الغیبۃ، 1397ق، ص118؛ ابن‌حنبل، مسند احمد بن حنبل، 1416ق، ج6، ص321، 406؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1404ق، ج10، ص157؛ ابی‌یعلی، مسند ابی‌یعلی، 1404ق، ج8، ص444؛ بزار، مسند بزار، 1993ق، ج5، ص320.
  20. مؤسسہ معارف اسلامی، معجم الاحادیث الامام المہدی، 1428ق، ج3، ص501.
  21. ملاحظہ کریں: صمدی، «امامت اثنی عشر»، ص430.
  22. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ق، ج1، ص203.
  23. طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008م، ج2، ص369؛ اربلی، کشف الغمۃ، 1381ق، ج1، ص55.
  24. طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج5، ص240.
  25. ابن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، 1423ھ، ج1، ص460؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج6، ص95۔
  26. ابن حموہجری شمسی، الہدایہ إلی بلوغ النہایہ، 1429ھ، ج3، ص1639؛ سمرقندی، بحر العلوء، ھ، ج1، ص375۔
  27. ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج4، ص36؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج1، ص615؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، 1418ھ، ج2، ص118۔
  28. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج6، ص96؛ میبدی، کشف الاسرار، 1371ہجری شمسی، ج3، ص58۔
  29. زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج1، ص615؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، 1418ھ، ج2، ص118؛ طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، 1412ھ، ج1، ص317۔
  30. جرجانی، درج الدرر، 1430ھ، ج1، ص552۔
  31. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج6، ص96؛ سمرقندی، بحرالعلوء، 1416ھ، ج1، ص375؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008ء، ج2، ص369؛ ابن حموہجری شمسی، الہدایہ، 1429ھ، ج3، ص1640۔
  32. سمرقندی، بحر العلوء، 1416ھ، ج1، ص375؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008ء، ج2، ص369؛ شعرانی، پژوہش‌ہای قرآنی علامہ شعرانی، 1386ہجری شمسی، ج1، ص420۔
  33. زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج1، ص615۔
  34. سمرقندی، بحر العلوء، 1416ھ، ج1، ص375؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008ء، ج2، ص369؛ جرجانی، درج الدرر، 1430ھ، ج1، ص552؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج3، ص265۔
  35. ابن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، 1423ھ، ج1، ص461۔
  36. مکمل داستان اور اس کے جزئیات اور ظالموں کی خصوصیات جاننے کے لئے دیکھئے:: ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج4، ص36۔
  37. ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج4، ص36۔
  38. شعرانی، پژوہش‌ہای قرآنی علامہ شعرانی، 1386ہجری شمسی، ج1، ص419۔

نوٹ

  1. بعض اوقات اسے عمالقہ سے تعبیر کیا گیا ہے

مآخذ

  • ابن ابی‌ زینب، محمد بن ابراہیء، الغیبہ، تحقیق علی‌ اکبر غفاری، تہران، نشر صدوق، 1397ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علی‌ اکبر غفاری، قء، جامعہ مدرسین، 1362ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق علی‌ اکبر غفاری، قء، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
  • ابن حموہجری شمسی، مکی، الہدایہ إلی بلوغ النہایہ، شارجہ، جامعۃ الشارقہ، 1429ھ۔
  • ابن حنبل، احمد، مسند احمد بن حنبل، بیروت، موسسہ الرسالہ، 1416ھ۔
  • ابن سلیمان، مقاتل، تفسیر مقاتل بن سلیمان، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1423ھ۔
  • ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلء، تفسیر غریب القرآن، بیروت،‌ دار و مکتبہ الہلال، 1411ھ۔
  • ابن ہائء، احمد بن محمد، التبیان فی تفسیر غریب القرآن، بیروت، دارالغرب الإسلامی، 1423ھ۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • ابو عبیدہ، معمر بن مثنی، ابن عبیدہ، مجاز القرآن، قاہرہ، مکتبہ الخانجی، 1381ھ۔
  • ابی‌ یعلی موصلی، احمد بن علی، مسند ابی‌ یعلی، دمشق، دارالمأمون للتراث، تحقیق حسین سلیم أسد، 1404ھ۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ فی معرفۃ الأئمہ، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تبریز، بنی‌ہاشمی، 1381ھ۔
  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیء، تحقیق علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • بزار، احمد بن عمرو، مسند البزار، تحقیق محفوظ الرحمن زین اللہ، مدینہ، مکتبۃ العلوم و الحکء، 1993ھ۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1418ھ۔
  • سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، قء، مکتبہ آیت‌اللہ المرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • ثعالبی، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر الثعالبی مشہور بہ الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1418ھ۔
  • ثعلبی، احمد بن محمد، الکشف و البیان المعروف تفسیر الثعلبی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • جرجانی، عبدالقاہر بن عبدالرحمن، درج الدرر فی تفسیر القرآن العظیء، عمان اردن، دارالفکر، 1430ھ۔
  • حسنی واعظ، محمود بن محمد، دقائق التأویل و حقائق التنزیل، تہران، مرکز پژوہشی میراث مکتوب، 1381ہجری شمسی۔
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الأثر فی النص علی الأئمۃ الإثنی عشر، تحقیق عبداللطیف حسینی کوہکمری، قء، بیدار، 1401ھ۔
  • دیوبندی، محمود حسن، تفسیر کابلی، تہران، نشر احسان، چاپ یازدہء، 1385ہجری شمسی۔
  • دینوری، عبداللہ بن محمد، الواضح فی تفسیر القرآن الکریء، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1424ھ۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الأقاویل فی وجوہ التأویل، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ سوء، 1407ھ۔
  • سمرقندی، نصر بن محمد، تفسیر سمرقندی مشہور بہ بحرالعلوء، بیروت، دارالفکر، 1416ھ۔
  • شعرانی، ابوالحسن، پژوہش‌ہای قرآنی علامہ شعرانی در تفاسیر مجمع البیان، قء، بوستان کتاب، 1386ہجری شمسی۔
  • صاحب، اسماعیل بن عباد، المحیط فی اللغہ، تحقیق محمد حسن آل‌ یاسین، بیروت، عالم الکتب، 1414ھ۔
  • صادقی تہرانی، محمد، ترجمان فرقان: تفسیر مختصر قرآن کریء، قء، شکرانہ، 1388ہجری شمسی۔
  • طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوء، 1390ھ۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، التفسیر الکبیر: تفسیر القرآن العظیء، اربد اردن، دارالکتاب الثقافی، 2008ء۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی بن عبدالمجید السلفی، موصل، مکتبۃ العلوم والحکء، چاپ دوء، 1404ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، قء، حوزہ علمیہ قء، مرکز مدیریت، 1412ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوء، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفہ، 1412ھ۔
  • طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلاء، چاپ دوء، 1369ہجری شمسی۔
  • عاملی، ابراہیء، تفسیر عاملی، تہران، کتاب‌ فروشی صدوق، 1360ہجری شمسی۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، قء، نشر ہجرت، چاپ دوء، 1409ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، التفسیر الکاشف، قء، دارالکتاب الإسلامی، 1424ھ۔
  • مدرسی طباطبائی، سید حسین، مکتب در فرایند تکامل، ترجمہ ہاشم ایزد پناہ، تہران، انتشارات کویر، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیہ، چاپ دہء، 1371ہجری شمسی۔
  • مؤسسہ معارف اسلامی، معجم الاحادیث الامام المہدی، قء، انتشارات مسجد مقدس جمکران، 1428ھ۔
  • میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدۃ الابرار، تہران، امیر کبیر، چاپ پنجء، 1371ہجری شمسی۔