رمضان

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
ویکی شیعہ سے
ماہ رمضان
عمومی معلومات
مکمل نامماہ رمضان
دوسرے اسامیرمضان المبارک،‌ رمضان المعظم
پچھلا مہینہشعبان
اگلا مہینہشوال
دینی رسومات
اعمال اور رسوماتہزار رکعت نماز، شب بیداری، اعتکاف، ماہ رمضان کی نمازیں۔
دعائیںماہ رمضان میں داخل ہونے کی دعا، رمضان کی یومیہ مختصر دعائیں، دعائے افتتاح، دعائے سحر،‌ دعائے ابوحمزہ ثمالی، دعائے مجیر، دعائے جوشن کبیر۔
شرعی احکامواجب روزہ،‌ استہلال، روز قدس، کفارہ جمع
مناسبتیں اور واقعاتنزول قرآن، غزوہ بدر، فتح مکہ،‌ ولایت عہدی امام رضا (ع)، شب ضربت‌ امام علیؑ، معراج۔
مربوطہ آیاتسورہ بقرہ آیہ 185
عرف عام میں
عرفی رسوماتافطاری دینا، خاص کھانے اور مٹھایاں پکانا، سحر خوانی۔


رَمَضان یا رَمَضان المُبارَک قمری سال کا نواں مہینہ ہے جس میں مسلمانوں پر روزہ رکھنا واجب ہے۔ بعض آیات کے مطابق قرآن کریم اسی مہینے میں نازل ہوا ہے۔ شب قدر بھی اسی مہینے میں ہے۔ شیعوں کے پہلے امام حضرت علی علیہ السلام اسی مہینے کی اکیس تاریخ کو شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔

اس مہینے کی اہم ترین عبادت‌ میں روزہ رکھنا، قرآن مجید کی تلاوت، شب قدر میں شب بیداری کرنا، دعا و استغفار، مؤمنین کو افطاری دینا اور فقیروں اور حاجتمندں کی مدد کرنا شامل ہے۔

مسلمان اس مہینے کو عبادت کا مہینہ قرار دیتے ہوئے اس کے لئے نہایت احترام اور قدر و منزلت کے قائل ہیں۔ مؤمنین رجب و شعبان کے مہینوں میں روزہ رکھنے اور دیگر عبادتوں کے ذریعے اس مہینے میں داخل ہونے کیلئے پیشگی تیاری کرتے ہیں تاکہ اس مہینے کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہو سکیں۔

وجہ تسمیہ اور معانی

"رَمَضان" سورج کی شدید حرارت کے معنی میں ہے[1] اور قمری سال کے نویں مہینے کو کہا جاتا ہے[2] جس میں مسلمانوں پر روزہ رکھنا واجب ہے۔[3]

قرآن کریم[4] اور بعض دوسری آسمانی کتابیں اس مہینے میں نازل ہوئی ہیں۔[5] لفظ "رمضان" خدا کے اسماء میں سے ایک ہے۔[6] رمضان المبارک کو اسلامی معاشرے کے مذہبی تشخص کی علامت سمجھا جاتا ہے۔[7]

رمضان کا لفظ قرآن میں ایک دفعہ آیا ہے[8] اور یہ واحد مہینہ ہے جس کا نام قرآن میں آیا ہے:[9]

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیهِ الْقُرْآنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَینَاتٍ مِّنَ الْهُدَیٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْیصُمْهُ ۖ


ماہ رمضان وہ (مقدس) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں رہنمائی اور حق و باطل میں امتیاز کی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جو اس (مہینہ) میں (وطن میں) حاضر ہو (یا جو اسے پائے) تو وہ روزے رکھے۔... .[10]



سورہ بقرہ: آیت 185

اسی طرح سورہ قدر میں شب قدر کو نزول قرآن کی رات قرار دی گئی ہے اور مفسرین کے مطابق شب قدر ماہ رمضان میں واقع ہے۔[11]

ماہ رمضان کی فضیلت

رمضان 1446
ہفتہ
اتوار
پیر
منگل
بدھ
جمعرات
جمعہ

پیغمبر اکرمؐ نے خطبہ شعبانیہ میں اس مہینے کی فضیلتیں بیان کی ہیں من جملہ یہ کہ: اس مہینے میں لوگوں کو خدا کی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے۔ شب قدر اس مہینے میں واقع ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس مہنے کی ایک رات شب بیداری اور نماز پڑھنا دوسرے مہینوں میں 70 رات نماز پڑھنے کے برابر ہے۔ یہ مہینہ صبر کا مہنیہ ہے اور اس کا ثواب بہشت ہے۔ یہ مہینہ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مؤمن کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس مہینے میں کسی مؤمن کو افطاری دینا ایک مؤمن غلام کو آزاد کرنے کے برابر ہے۔[12] اسی طرح آپؐ اس مہینے کو ایسا مہینہ قرار دیتے ہیں کہ اگر اس کی صحیح شناخت ہو جائے تو انسان تمام سال ماہ رمضان ہونے کی تمنا کرتا؛ [یادداشت 1] پیغمبر اکرمؐ کے مطابق ماہ رمضان جہنم کے دروازے بند کرنے، بہشت کے دروازے کے کھولنے اور شیاطین کو زنجیروں میں جھکڑے جانے کا مہینہ ہے۔[یادداشت 2]

پیغمبر اکرمؐ کی احادیث کے علاوہ دوسرے معصومینؑ کی متعدد احادیث میں بھی ماہ رمضان کے فضائل نقل ہوئے ہیں۔ من جملہ کچھ خصوصیات درج ذیل ہیں:

امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث کی روشنی میں ماہ رمضان میں اچھے اخلاق (حسن خلق) کا مظاہرہ کرنا پل صراط پر ثابت قدمی کا باعث بنتا ہے۔[یادداشت 10]

پہلی اور آخری تاریخ کا تعیّن

روئیت ہلال کی کوشش

ماہ رمضان کی پہلی تاریخ نیز دوسرے قمری مہینوں کی طرح درج ذیل طریقوں میں سے کسی ایک کے ذریعے ثابت ہوتی ہے:

  1. خود شخص کو چاند نظر آئے۔
  2. ایک گروہ جس نے چاند دیکھا ہے ان کے کہنے پر یقین اور اطمینان پیدا ہوجائے۔
  3. دو عادل مردوں کی گواہی جبکہ دونوں کی باتوں میں کوئی تضاد نہ ہو۔
  4. پہلے مہینے کے 30 دن پورے ہوں۔
  5. (بعض مراجع کے مطابق) حُکم حاکم شرع[13]

بعض احادیث میں ماه رمضان کو ہمیشہ 30 دن کا قرار دیا گیا ہے[14] اور قدیم فقہاء کا ایک گروہ بھی اسی نظریے کا قائل تھا۔[15] اس کے مقابلے میں بعض روایات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ماہ رمضان بھی دوسرے قمری مہینوں کی طرح کبھی 30 اور کبھی 29 دن کا ہوتا ہے۔[16] اور اکثر فقہاء بھی اسی نظریے کے قائل ہیں۔[17]

اعمال

ماه رمضان مسلمانوں کی عبادت کا سب سے اہم مہینہ ہے۔ احادیث میں اس مہینے کے حوالے سے مختلف عبادتوں کا تذکرہ ملتا ہے ان اعمال میں سے بعض کو اعمال مشترک یعنی ماہ رمضان کے تمام دنوں اور راتوں میں انجام دینے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ بعض اعمال مخصوص ایام کے ساتھ مختص ہیں۔ جیسے شب قدر کے اعمال وغیرہ۔

ماہ مبارک رمضان کے تمام دنوں کی مشترکہ دعائیں درج ذیل ہیں:

« یا عَلِیُ یا عَظیمُ یا غَفُورُ یا رحیمُ أنْتَ الرَّبُّ العظیمُ الَذی لیس کَمِثْلِهِ شَی ءٌ و هُوَ السَّمیعُ الْبَصیرُ وَ هذا شَهْرٌ عَظَّمْتَهُ و کَرَّمْتَهُ و شَرَّفْتَهُ و فَضَّلْتَهُ عَلَی الشُّهُورِ و هُوَ الشَّهْرُ الَّذی فَرَضْتَ صِیامَهُ عَلَی و هُوَ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذی أَنْزَلْتَ فِیهِ الْقُرانَ هُدی لِلنّاسِ و بَیناتٍ مِنَ الْهُدی و الْفُرْقانِ و جَعَلْتَ فیهِ لَیلَةَ الْقَدْرِ و جَعَلْتَها خَیرا من أَلْفِ شَهْرٍ فَیاذَ الْمَنِّ و لا یمَنُّ عَلَیکَ مُنَّ عَلَی بِفَکاکِ رَقَبَتی مِنَ النّارِ فیمَنْ تَمُنُّ عَلَیه وَ أَدْخِلْنی الْجَنَّة بِرَحْمتِکَ یا أرْحَم الرّاحِمِینَ[18][یادداشت 11] »

روزہ

روزہ، اذان صبح سے اذان مغرب تک بعض امور منجملہ کھانے اور پینے سے اجتناب کرنے کو کہا جاتا ہے۔[19] ماہ رمضان میں روزہ رکھنے اور اس کے بہت سے احکام سورہ بقرہ میں آیا ہے۔[20]

ماہ مبارک رمضان میں روزہ کا واجب ہونا اسلامی تعلیمات کے لازمی امور میں سے قرار دیا جاتا ہے جس کا انکار کرنے والا مرتد ہو جاتا ہے۔[21]

قرآن اور اہل‌ بیتؑ کی احادیث میں روزہ رکھنے کے بہت سارے فوائد کا ذکر ملتا ہے من جملہ ان میں تقوا،[22] امتحان اور آزمائیش کا ذریعہ اور اخلاص کا معیار،[23] قیامت کی بھوک اور پیاس یاد،[24] اور افطار کے وقت دعا کی قبولیت[25] قابل ذکر ہیں۔

شب قدر

کربلا بین الحرمین میں شب قدر کو قرآن سر پر رکھنے کا عمل

شیعہ شب قدر کو ماہ مبارک رمضان کی 19، 21 اور 23ویں رات میں سے ایک قرار دیتے ہیں اور 23 رمضان کی رات شب قدر ہونے کا احتمال دوسری دو راتوں سے زیادہ ہے۔[26] جبکہ اہل‌ سنت 27 رمضان کی رات کو شب قدر ہونے پر زیادہ تاکید کرتے ہیں۔[27]

شیعہ ہر سال مساجد، امام بارگاہوں، ائمہ یا امامزادوں کے حرم یا اپنے اپنے گھروں میں شب قدر کے اعمال بجا لاتے ہیں اور پوری رات سحری کے وقت تک شب بیداری کر کے عبادت میں بسر کرتے ہیں۔[28] عموما ان راتوں میں وعظ و نصیحت کی مجالس، نماز جماعت، دعائے افتتاح، دعائے ابوحمزہ ثمالی، دعائے جوشن کبیر اور قرآن سر پر رکھنے کا عمل اجتماعی یا انفرادی طور پر انجام دیتے ہیں۔[29]

مستحب نمازیں

مشہور شیعہ فقہاء رمضان المبارک کی مستحب نمازوں کی تعداد ہزار رکعت تک بتاتے ہیں جنہیں دو دو رکعت کی صورت میں پڑھی جاتی ہیں۔[30] ان نمازوں کی ترتیب کچھ اس طرح ہیں: ماہ رمضان کی پہلی تاریخ سے بیسویں تاریخ تک ہر رات 20 رکعت اور بیسویں تاریخ سے آخری تاریخ تک ہر رات 30 رکعت پڑھی جائے اور تینوں شب قدر کی راتوں میں سو سو رکعت اس پر پر اضافہ کیا جائے تو ان کی مجموعی تعداد 1000 رکعت بن جاتی ہیں۔[31]

اہل سنت ماہ رمضان کی ہر رات 20 مستحب نمازیں پڑھتے ہیں۔ اصطلاح میں ان نمازوں کو نماز تراویح کہا جاتا ہے۔[32] اہل سنت خلیفہ دوم کی پیروی کرتے ہوئے ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں جبکہ ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کو بدعت قرار دیتے ہیں۔[33]

آخری عشرے کا اعتکاف

پیغمبر اکرمؐ نے شروع میں رمضان المبارک کے پہلے عشرے کو اس کے بعد دوسرے عشرے کو اور آخر میں تیسرے عشرے کو اعتکاف کے لے انتخاب فرمایا، اس کے بعد عمر کی آخری لمحات تک ماہ رمضان کے تیسرے اور آخری عشرے میں اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے۔[34]

جنگ بدر ماہ رمضان میں لڑی گئی جس کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ اس سال اعتکاف میں نہیں بیٹھ سکے اس وجہ سے آنحضرتؐ اگلے سال ماہ رمضان میں 20 دن معتکف ہوئے؛ دس دن اسی سال کی نیت سے اور دس دن پچھلے سال کی قضا کی نیت سے۔[35]

اہم واقعات

یوم القدس

امام خمینی نے فلسطین کے مسئلے کی حمایت میں ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کا نام دیا۔ مسلمان ہر سال اس دن مختلف ملکوں میں فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت میں ریلیاں نکالتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. راغب، مفردات ألفاظ القرآن‏، 1412ق، ص366۔
  2. قرشی، قاموس قرآن، 1412ق، ج3، ص123۔
  3. بستانى‏، فرہنگ ابجدى‏، 1375ش، ص443۔
  4. سورہ بقرہ، آیت نمبر 185۔
  5. کلینی، الکافی، ج2، ص628۔
  6. میزان الحکمہ، روایت 7442۔
  7. «ماہ مبارک رمضان نمادی از ہویت دینی جامعہ اسلامی است».۔
  8. بقرہ، آیہ 185۔
  9. قرائتی، تفسير نور، 1383ق، ج1، ص287۔
  10. سورہ بقرہ، آیہ 185.
  11. سروش، «رمضان و قرآن»، کانال تلگرام عبدالکریم سروش۔
  12. صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، ج1، حدیث 53۔
  13. مقاله استهلال و نظرات فقهی پیرامون آن، مجله ره توشه، شماره 102، شهریور 1390.
  14. وسائل الشیعہ، ج10، ص268-274
  15. الإقبال، ج1، ص33-35
  16. وسائل الشیعہ، ج10، ص261-268
  17. الحدائق الناضرۃ، ج13، ص270-271 ؛ مصباح الہدی، ج8، ص384
  18. سید بن طاووس، الإقبال بالأعمال الحسنة، 1376ش، ج1، ص80.
  19. «احكام روزہ»۔
  20. سورہ بقرہ، آیات 183-185، و آیہ 187 ۔
  21. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی(محشی)، 1419ق، ج3، ص521۔
  22. سورہ بقرہ، آیہ 183۔
  23. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، ص512، ح252۔
  24. حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ق، ج10، ص9، ح12701.
  25. علامہ مجلسی، بحار الانوار، بیروت، ج93، ص255، ح33۔
  26. صدوق، الخصال، 1362ش، ص519۔
  27. طباطبایی، تفسیر المیزان، 1363ش، ج20، ص566۔
  28. مجیدی خامنہ، «شب‌ہای قدر در ایران»، ص21۔
  29. مجیدی خامنہ، «شب‌ہای قدر در ایران»، ص22۔
  30. «تراویح»۔
  31. جواہر الکلام، ج12، ص187-190۔
  32. «چرا شیعیان نماز تراویح نمی خوانند؟»۔
  33. «تراویح»۔
  34. «اعتکاف دہہ آخر ماہ رمضان»۔
  35. شیخ صدوق، من لا يحضرہ الفقيہ، 1413ق، ج2، ص184۔

نوٹ

  1. حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: لو یعلم العبد ما فی رمضان لود ان یکون رمضان السنة؛ اگر کوئی خدا کا بندہ یہ جان لیتا کہ ماہ رمضان میں کیا چیز رکھی گئی ہے [یعنی اس مہینے میں کتنی برکتیں ہیں] تو یہ پورا سال ماہ رمضان ہونے کی تمنا کرتا۔ بحار الانوار، ج93، ص346۔
  2. حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: إذا استَهَلَّ رَمَضانُ غُلِّقَت أبوابُ النارِ، و فُتِحَت إبوابُ الجِنانِ، و صُفِّدَتِ الشَّیطانُ...۔ میزان الحکمہ، روایت 7453۔
  3. امام صادق (علیہ‌السلام): مَن لَم یغفَر لَهُ فی شهرِ رمضانَ لَم یغفَر لَهُ إلی مِثلِهِ مِن قابِلٍ الّا أن یشهَدَ عَرَفَةَ... میزان الحکمہ، روایت 7461۔
  4. امام علی علیہ‌السلام: شهر رمضان شهر الله و شعبان شهر رسول الله و رجب شهری... ماہ رمضان خدا کا، شعبان رسول خدا کا اور رجب میرا مہینہ ہے۔ وسائل الشیعہ، ج7، ص266، ح 23
  5. حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: هو شهر اوله رحمة و اوسطه مغفرة و اخره عتق من النار... ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس کی ابتداء رحمت اس کا درمیان مغفرت اور اس کا انتہاء جہنم کی آگ سے نجات پانا ہے۔ بحار الانوار، ج93، ص342.
  6. حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: إنَّما سُمِّی الرَّمَضانُ لأنَّهُ یرمَضُ الذُّنوبَ... ماہ رمضان کو اس لئے رمضان کہا جاتا ہے کہ اس میں انسانوں کے گناہ جلائے جاتے ہیں۔ میزان الحکمہ، روایت 7441.
  7. حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: إنَّ أبوابَ السَّماءِ تُفتَحُ فی أوَّلِ لَیلَةٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ و لاتُغلَقُ إلی آخِرِ لَیلَةٍ مِنهُ... آسمان کے دروازے ماہ رمضان کی پہلی رات کو کھول دئیے جاتے ہیں اور اس مہنے کی آخری رات تک یہ دروازے بند نہیں کیے جاتے ہیں۔ بحارالأنوار - ج96 - ص344.
  8. حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ اللّه عَزَّوَجَلَّ وَ هُوَ شَهرٌ یضاعِفُ اللّه فیهِ الحَسَناتِ وَ یمحو فیهِ السَّیئاتِ وَ هُوَ شَهرُ البَرَکةِ... ماه رمضان، خدا کا مہنہ ہے جس میں خدا نیکیوں میں اضافہ اور گناہوں کو ختم کر دیتا ہے اور یہ اس مہینے کی برکت سے ہے۔ بحار الانوار(ط-بیروت) ج93، ص340.
  9. امام محمد باقر علیہ‌السلام: لکل شیء ربیع و ربیع القرآن شهر رمضان... هر چیز کی کوئی نہ کوئی بہار ہوا کرتی ہے اور قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے۔ کافی (ط-الاسلامیہ) ج2، ص630.
  10. شیخ صدوق (رَحمَة‌ُ اللہ) نے معتبر سند کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ سے روایت کی ہے کہ: أَیهَا النَّاسُ مَن حَسَّنَ مِنکُم فِی هَذَا الشَِهرِ خُلُقَهُ کَانَ لَهُ جَوَازٌ عَلَی الصِّرَاطِ یومَ تَزِلُّ فِیهِ الأَقدَامُ وَ مَن خَفَّفَ فِی هَذَا الشَّهرِ عَمَّا مَلَکَت یمِینُهُ خَفَّفَ اللهُ عَلَیهِ حِسَابَهُ وَ مَن کَفَّ فِیهِ شَرَّهِ کَفَّ اللهُ عَنهُ غَضَبَهُ یومَ یلقَاهُ "اے لوگو! تم میں سے جو شخص بھی اس مہینے میں اپنے اخلاق کی اصلاح کرے گا تو جس دن پل صراط سے لوگوں کے قدم پھسل جائیں گے اسے پل صراط سے عبور کرنے کا پروانہ مل جائے گا۔ اور تم میں سے جو بھی اپنے غلاموں یا کنیزوں کے ساتھ نرمی سے برتاؤ کرے خداوند عالم قیامت کے دن اس کے حساب و کتاب میں آسانی کرے گا۔ أمالی شیخ صدوق، ص154؛ روضۃ الواعظین، ج2، ص346۔
  11. اے عظمت والی ذات، اے بزرگوار، اے بخشنے والی اور مہربان ذات! آپ ہی پروردگار ہے اور تجھ سا کوئی نہیں ہے اور اپنے مخلوقات کی گفتار اور کردار سے مکمل آشنا ہے۔ یہ مہینہ جسے تو نے عظمت اور بزرگی دی ہے اور دوسرے مہینوں پر اسے کرامت اور شرف دی ہے اور اس مہینے میں میرے اوپر روزہ واجب کیا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں تو نے قرآن کو لوگوں کی ہدایت، اور ہدایت کے راستے کی نشاندہی اور حق کو باطل سے ممتاز کرنے کیلئے نازل کیا ہے اور شب قدر کو اس مہینے میں قرار دیا ہے اور اس رات کو ہزار مہینوں پر فوقیت دی ہے۔ پس اے منت والی ذات خدا! تجھ پر کسی کی منت نہیں ہے ان تمام لوگوں کے درمیان جن کو تو نے عطا کی ہے میرے اوپر بھی منت کرکے مجھے جہنم کی آگ سے نجات دے اور ہمیشہ رہنے والی بہشت میں مجھے پہنچا دے تیری بے پایان رحمت کا واسطہ اے سب سے زیادہ مہربان ہستی۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • علامہ مجلسی محمد باقر، بحار الانوار، دار الکتب اسلامیۃ، تہران، 1362ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، انتشارات دایرۃ المعارف فقہ اسلامی۔
  • محمدی ری شہری، میزان الحکمہ، انتشارات دارالحدیث۔
  • سید بن طاووس، الاقبال باعمال الحسنہ، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی۔
  • بحرانی، شیخ یوسف، الحدائق الناضرہ، دارالکتب الاسلامیہ۔
  • آملی، میرزا محمد تقی، مصباح الہدی فی شرح عروۃ الوثقی۔
  • محمدی ری شہری، شہراللہ فی الکتاب و السنّۃ (و ترجمہ فارسی: شہر خدا)، انتشارات دار الحدیث۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب‏، کافی، دار الکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، امالی، نشر صدوق، 1367ہجری شمسی۔
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن‏، وسائل الشیعہ، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام‏، قم، 1409ھ۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق، داغر، اسعد، قم، دار الہجرۃ، چاپ دوم، 1409ھ۔

بیرونی روابط