دجال اس شخص یا موجود کا نام ہے جسے بعض احادیث میں امام مہدی علیہ السلام کے بڑے دشمنوں میں شمار کیا گیا ہے۔ دجال سخت اور قحط کے زمانے میں ظاہر ہو گا۔ ایک جماعت کو دھوکا دے کر اپنے ساتھ ملا لے گا اور آخر کار امام زمانہ(عج) کے ہاتھوں مارا جائے گا۔

بعض شیعہ احادیث کے مطابق دجال کا ظاہر ہونا امام مہدیؑ کے ظہور کی نشانیوں میں سے ہے۔ دجال کے ظاہری خدوخال صرف اہل سنت راویوں سے نقل شده احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔ بائیں آنکھ کا پیشانی‌ کے درمیان ہونا، سحر اور جادو گری میں مہارت رکھنا وغیرہ اس کی علامات ذکر کی گئی ہیں۔

خروج

شیعہ حدیثی مصادر میں صرف چند احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق دجال کے خروج کو صیحہ آسمانی، خروج سفیانی اور خروج یمانی کے ساتھ امام زمانہؑ کے علائم ظہور میں سے قرار دیا گیا ہے؛[1] جیسا کہ علامہ مجلسی نے بھی اسے ذکر کیا ہے۔[2] لیکن اہل سنت حدیثی مآخذوں میں موجود احادیث کی بنا پر دجال کے خروج کو قیامت برپا ہونے کی نشانیوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔[3]

شیعہ حدیثی مصادر میں امام مہدیؑ کے ظہور سے پہلے دجال کے خروج اور اس کے فتنوں کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے بلکہ صرف امام زمانہؑ یا حضرت عیسی کے ہاتھوں اس کی ہلاکت کی بات ہوئی ہے۔[4] اہل سنت کے مصادر و مآخذ میں دجال کے فتنے، اس کےچہرے اور اس کے پیروکاروں وغیرہ میں سے میں سے کسی ایک کی طرف شیعہ روایات میں کوئی اشارہ نہیں کی گیا ہے۔ شیخ صدوق نے پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق دجال کا ذکر گذشتہ امتوں میں ہے جبکہ اس کا وجود آئندہ زمانے میں ہو گا۔[5]

احادیث کے مطابق دجال کا ظہور سختی اور قحط کے زمانے میں ہو گا اور وہ ایک جماعت کو فریب دے کر اپنے ساتھ ملا لے گا۔[6] دجال کے خروج کی جگہ بعض غیرقطعی احادیث کے مطابق اصفہان[7] یا خراسان[8] ذکر ہوا ہے۔

خصوصیات

اکثر اہل سنت راویوں کی احادیث میں آیا ہے کہ دجال الوہیت کا دعوا کرے گا ، وہ قتل و غارت اور فتنہ و فساد کا موجب بنے گا۔ اس کی بائیں آنکھ پیشانی‌ کے درمیان ایک ستارے کی طرح چمکتی ہو گی اور اس کے اندر خون کا ایک داغ ہو گا۔ وہ عظیم الجثہ، طاقتور، عجیب و غریب ہیکل کا مالک اور سِحْر اور جادو گری میں مہارت رکھنے والا ہو گا۔ اس کے سامنے ایک سیاہ پہاڑ ہو گا لیکن اسے روٹی کا پہاڑ دیکھیں گے اور اس کے پیچھے ایک سفید پہاڑ ہو گا جو جادو کی وجہ سے لوگوں کی آنکھوں میں بہتا ہوا پانی نظر آئے گا۔ وہ گرجدار آوزا میں پکارے گا: "اے میرے بندو! میں تمہارا عظیم و والا مقام پروردگار ہوں"۔[9]

احادیث کے مطابق دجال کوفہ یا بیت المقدس کے قریب امام زمانہؑ کے ہاتھوں تختہ دار پر لٹکایا جائے گا۔[10] ایک اور نقل کے مطابق دجال شام میں ہلاک ہو گا۔[11]

دجال کا لفظ عبرانی زبان اور یہودیت میں خدا کے دشمن کو کہا جاتا ہے اور دو لفظ "دج" یعنی دشمن اور "ال" یعنی خدا کی ترکیب سے وجود میں آیا ہے۔[12]

نوعیت

دجال ایک فرد ہے یا تحریک اس سلسلے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں۔ شیعہ مرجع تقلید سید محمد صدر (شہادت ۱۳۷۷ش) اپنی کتاب تاریخ الغیبۃ الکبری میں کہتے ہیں کہ دوسرے نظریے کے مطابق دجال ایک علامتی لفظ ہے جو ہر کفر آمیز اور سیاسی و اقتصادی منحرف تحریک کی طرف اشارہ ہے۔ انہوں نے دجال کی عمر کی طرف اشارہ کرنے والی احادیث کو اس نظریے پر دلیل قرار دیتے ہیں۔[13] اسی طرح شیعہ مرجع تقلید آیت‌ اللہ مکارم شیرازی کے مطابق دجال کسی خاص فرد میں منحصر نہیں بلکہ دجال ایک کلی عنوان ہے جو ہر اس منافق اور دھوکہ باز شخص کو شامل کرتا ہے جو لوگوں کی توجہ مرکوز کرنے کے لئے ہر قسم کے ذرایع استعمال کرتا ہے۔ آپ کے مطابق یہ مطلب لفظ دجال کے لغوی معنی اور بعد حدیثی منابع سے سمجھ میں آتا ہے۔[14]

حوالہ جات

  1. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: حر عاملی، اثبات الہداۃ، ۱۴۲۵ق، ج۵، ص۳۵۴، ح۴۶۔
  2. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۱۹۳۔
  3. ترمذی، سنن الترمذی، ۱۳۹۵ق، ج۴، ص۵۰۷-۵۱۹۔
  4. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۱۹۴ و ۳۰۸۔
  5. الدَّجَّالَ اسْمُہُ فِی الْأَوَّلِینَ وَ یخْرُجُ فِی الْآخِرِینَ (شیخ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۴۵۷-۴۵۸، ح۲)۔
  6. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۱۹۴ و ۳۰۸۔
  7. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۱۹۴۔
  8. ابن طاووس، الملاحم و الفتن، ۱۴۱۶ق، ص۱۲۶۔
  9. قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۸ش، باب ۱۴، فصل ۷، ص۸۷۳-۸۷۴
  10. حائری، الزام الناصب، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۱۷۲۔
  11. نوری، نجم الثّاقب، ۱۳۸۳ش، ص۱۸۵۔
  12. محمدپور، «بررسی تطبیقی دجال در ادیان ایران باستان و ادیان ابراہیمی»، ص۸۴-۸۵ و ۹۱؛ خزائلی، اعلام قرآن، ۱۳۸۷ش، ص۴۷۸-۴۷۹۔
  13. صدر، موسوعۃ الامام المہدی(ع)، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۴۸۴۔
  14. مکارم شیرازی، حکومت جہانی مہدی(عج)، ۱۳۸۶ش، ص۱۷۱-۱۷۲۔

مآخذ

  • ابن طاووس، علی بن موسی، الملاحم و الفتن: التشریف بالمنن فی التعریف بالفتن، قم، مؤسسہ صاحب الأمر، ۱۴۱۶ھ۔
  • ترمذی، محمد بن عسیی، سنن الترمذی، تحقیق و تعلیقہ احمد محمد شاکر و محمد فؤاد عبدالباقی و ابراہیم عطوۃ عوض، مصر، شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، ۱۳۹۵ھ/۱۹۷۵ء۔
  • حائری، علی، الزام الناصب، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات،‌ ۱۴۲۲ھ۔
  • حرّ عاملی، محمد بن حسین، اثبات الہداۃ: بالنصوص و المعجزات، با مقدمہ سید شہاب الدین مرعشی نجفی، تصحیح علاءالدین اعلمی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۲۵ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۶۲ش۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • قمی، عباس، منتہی الآمال، قم، موسسہ انتشارات ہجرت، ۱۳۷۸ش۔
  • محمدپور، خیرالنساء و معصومہ زندیہ، «بررسی تطبیقی دجال در ادیان ایران باستان و ادیان ابراہیمی»، در فصلنامہ مطالعات قرآنی، ش۷، پاییز ۱۳۹۰ش۔
  • نوری، حسین، نجم الثّاقب: مشتمل بر احوال امام غائب حضرت بقیۃ اللہ صاحب العصر والزمان، با مقدمہ میرزای شیرازی، قم، انتشارات مسجد جمکران، ۱۳۸۳ش۔