رسالۃ الحُقوق امام سجادؑ کی ایک طولانی حدیث ہے۔ جس میں انسان کے ذمہ 50 حقوق کو بیان کیا گیا ہے۔ ان حقوق میں خدا کا حق، انسان کے بدن کے اعضاء کا حق، رشتہ داروں کے حقوق نیز نماز، روزہ اور صدقہ کے حقوق شامل ہیں۔ سب سے قدیم مآخذ جن میں رسالۃ الحقوق کا تذکرہ آیا ہے ان میں: ابن ‌شُعبہ حَرّانی، (متوفی 381 ھ) کی کتاب تُحَف‌ العقول، اور شیخ صدوق (متوفی 382 ھ) کی تین کتابیں خصال، من لا یَحضُرُہُ الفقیہ اور اَمالی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

رسالۃ الحقوق
حدیث کے کوائف
موضوعانسان کے حقوق و ذمہ داریوں کا بیان
صادر ازامام سجادؑ
شیعہ مآخذتحف العقول، الخصال، من لا یحضرہ الفقیہ
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل

علم حدیث کے ماہرین اس حدیث کو اس کے راویوں کے معتبر ہونے اور معبتر کتابوں میں اس حدیث کا تذکرہ آنے کی وجہ سے معتبر حدیثوں میں شمار کرتے ہیں۔ اس رسالہ کا کئی زبانوں میں ترجمہ اور شرحیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔

اجمالی تعارف

رسالۃ الحقوق امام سجادؑ کی ایک حدیث ہے جس میں انسان کے ذمہ جو حقوق ہیں ان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان حقوق میں خدا حق، پیشواؤں کے حقوق، رشتہ دراوں کے حقوق اور اعضائے بدن کے حقوق شامل ہیں۔[1]

کتاب خصال میں شیخ صدوق کے مطابق امام سجادؑ نے اس حدیث کو خطوط کی شکل میں اپنے ایک صحابی کے لئے تحریر فرمایا ہے۔ شیخ صدوق کے مطابق اس حدیث کی ابتداء میں یوں آیا ہے: "یہ خط علی بن حسین کی جانب سے اپنے ایک صحابی کے نام ہے"۔[2]

حدیث کا اعتبار اور مآخذ

علم حدیث‌ کے ماہرین رسالۃ الحقوق کے سند کے تسلسل اور معتبر کتابوں میں تذکرہ ہونے کی بنا پر اس حدیث کو معتبر حدیثوں میں شمار کرتے ہیں۔[3] اس حدیث کو ابو حمزہ ثمالی نے امام سجادؑ سے نقل کی ہیں اور علم رجال کے شیعہ علماء ابو حمزہ ثمالی کو "شیعوں کی برگزیدہ شخصیت"، "ثقہ" اور "معتمد" سمجھتے ہیں۔[4]

سب سے قدیم حدیثی مآخذ جن میں یہ حدیث بطور کامل نقل ہوئی ہیں یہ ہیں: ابن‌ شُعبہ حَرّانی (متوفی 381 ھ) کی کتاب تُحَف‌العقول،[5] شیخ صدوق (متوفی 382 ھ) کی تین کتابیں خصال،[6] من لا یَحضُرُہُ الفقیہ[7] اور اَمالی،[8]۔

مُستَدرَک‌ الوسایل میں محدث نوری کے مطابق سید بن طاووس (589-664 ھ) بھی اس حدیث کو اپنی کتاب فلاح ‌السائل میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے شیخ کلینی کی کتاب رسائل‌ الائمہ سے نقل کئے ہیں۔[9] البتہ یہ مطلب کتاب فلاح‌ السائل کی شایع شدہ نسخے میں موجود نہیں؛ لیکن مستدرک الوسائل کی مصححین کہتے ہیں کہ یہ مطلب اس کتاب کے غیر مطبوع نسخے میں موجود ہے۔[10] دوسرا نکتہ یہ کہ شیخ کلینی کی کتاب رسائل ‌الائمۂ اس وقت نابود ہو چکی ہے۔[11]

مآخذ میں اختلاف

حدیثی مآخذ میں اس حدیث کا متن مختلف عبارتوں کے ساتھ آیا ہے۔ من جملہ یہ کہ تُحَف‌ العقول اور خصال میں یہ حدیث زیادہ مفصل‌ طور پر نقل ہوئی ہے اور ساتھ ساتھ ایک مقدمہ‌ پر بھی مشتمل ہے جس میں اس حدیث کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔[12] یہ مقدمہ کتاب من لا یَحضُرُہُ الفقیہ اور اَمالی میں موجود نہیں ہے۔[13] اسی طرح کتاب امالی میں یہ حدیث انسان کے اوپر اپنے حقوق سے شروع ہوتی ہے؛[14] دوسرے کتابوں کی برخلاف جن میں یہ حدیث حق‌اللہ سے شروع ہوتی ہے۔[15]

حقوق کی تعداد

رسالۃ الحقوق میں بیان ہونے والے حقوق کی تعداد کتاب تحف ‌العقول میں 50 ہیں۔ اس کتاب میں اس حدیث کے آخری حصے میں یوں آیا ہے: "یہ پچاس حق ہیں..."۔[16] جبکہ شیخ صدوق کے نسخے میں یہ عبارت موجود نہیں ہے؛[17] اگرچہ شیخ صدوق خود بھی ان حقوق کی تعداد پچاس قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ آپ نے کتاب خصال میں اس حدیث کو یوں عنوان دیا ہے: "وہ پچاس حقوق جسے علی بن الحسین نے اپنے اصحاب کے لئے تحریر فرمایا"۔[18]

‏بعض معاصر مصنفین جنہوں نے رسالۃ الحقوق کے متن کو نقل کئے ہیں، ان حقوق کی تعداد اکیاون بیان کئے ہیں۔[19] اس بات کی علت یوں ذکر کرتے ہیں کہ کتاب تُحَف‌ العقول میں حج کا حق ذکر نہیں ہوا ہے؛ حالانکہ یہ چیز شیخ صدوق کی روایت میں آیا ہے۔[20] علم حدیث کے ایک ماہر نے اس بارے میں جو تجزیہ پیش کیا ہے اس کے مطابق حج کا حق‌ اس حدیث کا حصہ تھا جو تُحَف‌ العقول میں قلم سے رہ گیا ہے؛ ان تمام باتوں کے باوجود حقوق کی تعداد پچاس ہی ہیں اور مذکورہ مصنفین نے تحقوق کی تعداد گنتے وقت ایک حق کو زیادہ لکھ دیئے ہیں۔[21]

مضامین

رسالۃ الحقوق میں موجود پچاس حقوق کو سات قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے:

  1. خدا کا حق
  2. اعضائے بدن کے حقوق: زبان، کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں، پیٹ، اور شرم گاہ وغیرہ۔
  3. افعال کے حقوق: نماز، حج، روزہ، صدقہ اور قربانی۔
  4. پیشواؤں کے حقوق: حاکم، معلم، مالک (مالک کا حق غلام پر)۔
  5. رعیت کے حقوق: عام لوگوں (حاکموں پر عام لوگوں کے حقوق)، شاگرد، ہمسر، غلام (مالک پر غلام کا حق)۔
  6. رشتہ داروں کے حقوق: ماں، باپ، بہن، بھائی اور اولاد کے حقوق۔
  7. متفرق حقوق‌: اس غلام پر آپ کے حقوق جسے آپ نے آزادی دلا دی ہے، وہ غلام جسے آپ نے آزاد کیا ہے اس کا حق، نیکی‌ کرنے والے کا حق، مؤذن کا حق، امام جماعت کا حق، ہمنشین کا حق، ہمسایہ کا حق، دوست کا حق، شریک کا حق، مال کا حق، مقروض کا حق، معاشر کا حق، مدعی کا حق، مدعا علیہ کا حق، مشورت‌ کرنے والے کا حق، مشورت‌ لینے والے کا حق، نصیحت‌ کرنے والے کا حق، نصیحت‌ لینے والے کا حق، بڑوں کے حقوق، چھوٹوں کے حقوق، درخواست کرنے والے کا حق، جس سے درخواست کی گئی ہے اس کا حق، بدی کرنے والے کا حق، آپ کو خوشحال کرنے والے کا حق، ہم‌ مذہب کا حق، اہل ‌ذِمّہ کا حق۔ [22]

شروحات اور ترجمے

ترجمے

اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے:

زبان مترجم توضیحات
۱ شعر فارسی حسن راحتی سبزواری
۲ فارسی سید ابراہیم میانجی
۳ مالایو کامل زہیری و حسن عسکری پیشکش: معاونت امور بین‌ الملل مجمع جہانی اہل ‌بیت، رقعی، تعداد: 3000
۴ تایلندی محمد شریف پیشکش: معاونت امور بین‌ الملل مجمع جہانی اہل ‌بیت، چاپ اول، 1390 شمسی، تعداد: 3000
۵ تاگالوگ (مانیل) زینب ہاویر پیشکش: معاونت امور بین‌ الملل مجمع جہانی اہل‌ بیت، وزیری، چاپ اول، 1391 شمسی، تعداد: 3000
۶ تاجیکی ح. حکیم جان پیشکش: معاونت امور بین ‌الملل مجمع جہانی اہل ‌بیت، چاپ اول، 1391 شمسی، تعداد: 3000
۷ ارمنی مترجمین پیشکش: معاونت امور بین‌ الملل مجمع جہانی اہل ‌بیت، چاپ اول، 1393 شمسی، تعداد: 3000
۸ اردو نثار احمد زین پوری پیشکش: معاونت امور بین‌ الملل مجمع جہانی اہل‌ بیت، چاپ اول، 1393 شمسی، تعداد: 3000
۹ ہندی مترجمین پیشکش: معاونت امور بین‌ الملل مجمع جہانی اہل ‌بیت، چاپ اول، 1393 شمسی، تعداد: 3000
۱۰ امہری (اتیوپی) پیشکش: معاونت امور بین ‌الملل مجمع جہانی اہل ‌بیت، چاپ اول، 1393 شمسی، تعداد: 3000
۱۱ صربی الکساندر دراگویچ پیشکش: معاونت امور بین ‌الملل مجمع جہانی اہل‌ بیت، چاپ اول، 1390 شمسی، تعداد: 1000

شروحات

اس رسالے کے بعض شروحات:

  • آیینہ حقوق: حقوق از دیدگاہ امام سجادؑ شرح رسالۃ الحقوق امام سجادؑ، تألیف قدرت اللہ مشایخی: ترجمہ نثار احمد زین‌ پوری.
  • رسالۃ حقوق امام سجادؑ شرح علی محمد حیدری نراقی.
  • ترجمہ و شرح رسالۃ الحقوق امام سجادؑ، محمد سپہری.
  • حقوق اخلاقی بر اساس رسالہ الحقوق امام سجادؑ و ۱۵۰ نکتہ آموزندہ و سازندہ، علی مشفقی پور طالقانی: با ہمکاری و کوشش محمد رضا مشفقی ‌پور.
  • راہ و رسم زندگی از نظر امام سجادؑ، عنوان اصلی: رسالہ الحقوق، ترجمہ و تنظیم علی غفوری.
  • حقوق اسلامی شامل وظایف فردی و اجتماعی بر اساس رسالہ الحقوق امام زین العابدینؑ، علی اکبر ناصری.
  • تاملات فی رسالہ الحقوق للامام علی بن الحسینؑ، محمد تقی المدرسی.
  • تفصیل الحقوق: شرح روائی علی رسالہ الحقوق للامام السجادؑ، محمد حسین الرمزی الطبسی؛ التصحیح والتنظیم ابناء المولف.
  • رسالۃ الحقوق، شارح قبانچی، حسن بن علی.

اسی طرح کتاب شناسی امام سجاد، صحیفہ سجادیہ و رسالہ حقوق توسط مجمع جہانی اہل بیت کے عنوان سے ایک کتاب چاپ ہوئی ہے جس میں رسالۃ الحقوق امام سجاد سے مربوط کتابوں کو معرفی کیا گیا ہے۔

متن اور ترجمہ



رسالہ حقوق کا متنترجمہ:نثار زینپوری
اعْلَمْ رَحِمَكَ اللَّہُ أَنَّ لِلَّہِ عَلَيْكَ حُقُوقاً مُحِيطَةً بِكَ فِي كُلِّ حَرَكَةٍ حركتہا [تَحَرَّكْتَہَا أَوْ سَكَنَةٍ سَكَنْتَہَا أَوْ مَنْزِلَةٍ نَزَلْتَہَا أَوْ جَارِحَةٍ قَلَبْتَہَا أَوْ آلَةٍ تَصَرَّفْتَ بِہَا بَعْضُہَا أَكْبَرُ مِنْ بَعْضٍ وَ أَكْبَرُ حُقُوقِ اللَّہِ عَلَيْكَ مَا أَوْجَبَہُ لِنَفْسِہِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مِنْ حَقِّہِ الَّذِي ہُوَ أَصْلُ الْحُقُوقِ وَ مِنْہُ تَفَرَّعَ ثُمَّ مَا أَوْجَبَہُ عَلَيْكَ لِنَفْسِكَ مِنْ قَرْنِكَ إِلَى قَدَمِكَ عَلَى اخْتِلَافِ جَوَارِحِكَ فَجَعَلَ لِبَصَرِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِسَمْعِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِلِسَانِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِيَدِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِرِجْلِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِبَطْنِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِفَرْجِكَ عَلَيْكَ حَقّاً فَہَذِہِ الْجَوَارِحُ السَّبْعُ الَّتِي بِہَا تَكُونُ الْأَفْعَالُ جان لو کہ تمہارے اوپر بزرگ و برتر خدا کے کچھ حقوق ہیں خواہ انہیں تم حرکت و جنبش میں انجام دو یا سکون و آرام میں، اس منزل میں جس میں تم اترے ہو، یا اس عضو کے ساتھ جس کو تم نے بدال ہے یا ان اقدار کے ساتھ جس کو بروئے کار الئے ہو ان حقوق میں سے بعض، بعض حقوق سے بڑے ہیں۔ تمہارے اوپر خدا کے بڑے حقوق وہ ہیں جو اس نے اپنے لیے تمہارے اوپر واجب کئے ہیں۔ اس کے بعد بدن کے اعضا کو مد نظر رکھتے ہوئے سر سے پیر تک کے لیے کچھ حقوق واجب کیے ہیں کچھ حقوق تمہارے اوپر تمہاری آنکھ کے ہیں، اور تمہارے اوپر کچھ حقوق تمہارے کان کے ہیں، تمہارے اوپر کچھ حقوق تمہاری زبان کے ہیں، تمہارے اوپر کچھ حقوق تمہارے ہاتھ کے ہیں، تمہارے اوپر کچھ حقوق تمہارے پیر کے ہیں، تمہارے اوپر کچھ حقوق تمہارے شکم کے ہیں تمہارے اوپر کچھ حقوق تمہاری شرمگاہ کے ہیں یہ سات اعضا ہیں کہ جن سے اعمال انجام پذیر ہوتے ہیں۔
ثُمَّ جَعَلَ عَزَّ وَ جَلَّ لِأَفْعَالِكَ حُقُوقاً فَجَعَلَ لِصَلَاتِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِصَوْمِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِصَدَقَتِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِہَدْيِكَ عَلَيْكَ حَقّاً وَ لِأَفْعَالِكَ عَلَيْكَ حَقّاً ثُمَّ تَخْرُجُ الْحُقُوقُ مِنْكَ إِلَى غَيْرِكَ مِنْ ذَوِي الْحُقُوقِ الْوَاجِبَةِ عَلَيْكَ وَ أَوْجَبُہَا عَلَيْكَ حَقّاً أَئِمَّتُكَ ثُمَّ حُقُوقُ رَعِيَّتِكَ ثُمَّ حُقُوقُ رَحِمِكَ فَہَذِہِ حُقُوقٌ يَتَشَعَّبُ مِنْہَا حُقُوقٌ فَحُقُوقُ أَئِمَّتِكَ ثَلَاثَةٌ أَوْجَبُہَا عَلَيْكَ حَقُّ سَائِسِكَ بِالسُّلْطَانِ ثُمَّ حَقُّ سَائِسِكَ بِالْعِلْمِ ثُمَّ حَقُّ سَائِسِكَ بِالْمِلْكِ وَ كُلُّ سَائِسٍ إِمَامٌ اس کے بعد خداوند عالم نے تمہارے اوپر تمہارے اعمال و افعال کے حقوق رکھے ہیں چنانچہ تمہاری نماز، روزے اور تمہاری زکٰوۃ کا تمہارے اوپر حق ہے اور دیکھو تمہارے کاموں کے بھی تمہارے اوپر کچھ حقوق ہیں۔ اب تم اپنے جسم و جان سے باہر بکلو اور جن کے حقوق تمہارے اوپر ہیں ان کی طرف جاؤ۔ ان حقوق میں سے واجب ترین حق تمہارے ائمہ کا ہے اس کے بعد تمہاری رعیت اور تمہارے رشتہ داروں کا ہے، پھر انہیں حقوق سے دوسرے حقوق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ تمہارے اوپر تمہارے ائمہ کے تین حق ہیں، پھر ان میں سے تمہارے اوپر واجب ترین حق اس شخص کا ہے جو تمہارے اوپر سیاسی غلبہ و برتری رکھتا ہے اور جس کے ہاتھ میں تمہارے امور کی باگ ڈور ہوتی ہے اور اس کے بعد اس شخص کا حق ہے کہ جس کے اختیار میں تمہارا علمی نظم و نسق ہوتا ہے پھر اس شخص کا حق ہے کہ جس کے اختیار میں ملکی نظام ہے اور ہر نظم و نسق امام کے اختیار میں ہے۔ تمہارے اوپر تمہارے ما تحتوں کے بھی تین حقوق ہیں، ان میں سے واجب ترین حق اس کا ہے جو تمہارے زیر تسلط ہے.
وَ حُقُوقُ رَعِيَّتِكَ ثَلَاثَةٌ أَوْجَبُہَا عَلَيْكَ حَقُّ رَعِيَّتِكَ بِالسُّلْطَانِ ثُمَّ حَقُّ رَعِيَّتِكَ بِالْعِلْمِ فَإِنَّ الْجَاہِلَ رَعِيَّةُ الْعَالِمِ وَ حَقُّ رَعِيَّتِكَ بِالْمِلْكِ مِنَ الْأَزْوَاجِ وَ مَا مَلَكْتَ مِنَ الْأَيْمَانِ وَ حُقُوقُ رَحِمِكَ كَثِيرَةٌ مُتَّصِلَةٌ بِقَدْرِ اتِّصَالِ الرَّحِمِ فِي الْقَرَابَةِ فَأَوْجَبُہَا عَلَيْكَ حَقُّ أُمِّكَ ثُمَّ حَقُّ أَبِيكَ ثُمَّ حَقُّ وُلْدِكَ ثُمَّ حَقُّ أَخِيكَ ثُمَّ الْأَقْرَبُ فَالْأَقْرَبُ وَ الْأَوَّلُ فَالْأَوَّلُ ثُمَّ حَقُّ مَوْلَاكَ الْمُنْعِمِ عَلَيْكَ ثُمَّ حَقُّ مَوْلَاكَ الْجَارِي نِعْمَتُہُ عَلَيْكَ ثُمَّ حَقُّ ذِي الْمَعْرُوفِ لَدَيْكَ ثُمَّ حَقُّ مُؤَذِّنِكَ بِالصَّلَاةِ ثُمَّ حَقُّ إِمَامِكَ فِي صَلَاتِكَ ثُمَّ حَقُّ جَلِيسِكَ ثُمَّ حَقُّ جَارِكَ ثُمَّ حَقُّ صَاحِبِكَ ثُمَّ حَقُّ شَرِيكِكَ ثُمَّ حَقُّ مَالِكَ ثُمَّ حَقُّ غَرِيمِكَ الَّذِي تُطَالِبُہُ ثُمَّ حَقُّ غَرِيمِكَ الَّذِي يُطَالِبُكَ ثُمَّ حَقُّ خَلِيطِكَ ثُمَّ حَقُّ خَصْمِكَ الْمُدَّعِي عَلَيْكَ ثُمَّ حَقُّ خَصْمِكَ الَّذِي تَدَّعِي عَلَيْہِ ثُمَّ حَقُّ مُسْتَشِيرِكَ ثُمَّ حَقُّ الْمُشِيرِ عَلَيْكَ‏ ثُمَّ حَقُّ مُسْتَنْصِحِكَ ثُمَّ حَقُّ النَّاصِحِ لَكَ ثُمَّ حَقُّ مَنْ ہُوَ أَكْبَرُ مِنْكَ ثُمَّ حَقُّ مَنْ ہُوَ أَصْغَرُ مِنْكَ ثُمَّ حَقُّ سَائِلِكَ ثُمَّ حَقُّ مَنْ سَأَلْتَہُ ثُمَّ حَقُّ مَنْ جَرَى لَكَ عَلَى يَدَيْہِ مَسَاءَةٌ بِقَوْلٍ أَوْ فِعْلٍ أَوْ مَسَرَّةٌ بِذَلِكَ بِقَوْلٍ أَوْ فِعْلٍ عَنْ تَعَمُّدٍ مِنْہُ أَوْ غَيْرِ تَعَمُّدٍ مِنْہُ ثُمَّ حَقُّ أَہْلِ مِلَّتِكَ عَامَّةً ثُمَّ حَقُّ أَہْلِ الذِّمَّةِ ثُمَّ الْحُقُوقُ الْحَادِثَةُ بِقَدْرِ عِلَلِ الْأَحْوَالِ وَ تَصَرُّفِ الْأَسْبَابِ فَطُوبَى لِمَنْ أَعَانَہُ اللَّہُ عَلَى قَضَاءِ مَا أَوْجَبَ عَلَيْہِ مِنْ حُقُوقِہِ وَ وَفَّقَہُ وَ سَدَّدَہُ پھر ان لوگوں کا حق ہے جو تمہارے علم کے زیر تسلط ہیں بیشک جاہل عالم کی رعیت ہے پھر ان کا حق ہے جو ملکیت کے لحاظ سے تمہارے زیر تسلط ہیں جیسے عورتوں، غالموں اور کنیزوں کا حق۔ عزیزوں اور رشتہ داروں کے حقوق تمہارے اوپر بہت زیادہ ہیں جو ایک دوسرے سے اتنے ہی متصل ہیں جتنا تمہارے اور ان کے درمیان، رحم میں قربت ہے۔ تمہارے اوپر تمہاری ماں کا واجب ترین حق ہے، پھر تمہارے باپ کا حق ہے اس کے بعد اوالد کا حق ہے۔ پھر تمہارے بھائی کا حق ہے جو جتنا قریب ہے اس کا اتنا ہی حق ہے۔ جو اول ہے وہی اول ہے۔ اس کے بعد تمہارے آزاد کرنے والے اور تمہارے ولی نعمت کا حق ہے پھر اس موال کا حق ہے جس کی نعمتیں ابھی تک جاری ہیں اس کے بعد ان لوگوں کا حق ہے جنہوں نے تمہارے ساتھ نیک سلوک کیا ہے۔ پھر اس موذن کا حق ہے جو تمہیں آواز اذان سے نماز کی طرف متوجہ کرتا ہے اس کے بعد پیشنماز کا حق ہے، پھر تمہارے ہم نشین کا حق ہے اس کے بعد تمہارے شریک کا حق ہے اس کے بعد تمہارے ہمسفر و ہمراہ کا حق ہے پھر تمہارے مقروض کا حق ہے، پھر تمہارے رفیق کا حق ہے، اس کے بعد تمہارے دشمن کا حق ہے جس نے تمہارے خالق دعو ٰی کیا ہے اس کے بعد اس شخص کا حق ہے جو تمہیں مشورہ دیتا ہے اور پھر اس شخص کا حق ہے جو تم سے وعظ و نصیحت کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کا حق ہے جو تم سے بڑا ہپے پھر اس کا حق ہے جو تم سے چھوٹا ہے پھر تم سے سوال کرنے والے کا حق ہے، اس کے بعد اس شخص کا حق ہے جس سے تم سوال کرتے ہو۔ پھر اس کا حق ہے جس پر تمہاری طرف سے زیادتی و بدسلوکی ہوئی ہے خواہ قول و فعل کا اس نے مذاق اڑایا ہو، جان بوجھ کر ایسا کیا ہو یا غفلت کی وجہ سے۔ پھر تمہارے اوپر تمہارے ہم مذہب لوگوں کا حق ہے اس کے بعد تمہارے اوپر اس کافر ذمی کا حق ہے جو اسالم کی پناہ میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ پھر وہ حقوق ہیں جو زندگی کے اسباب بدلنے سے وجود پذیر ہوتے ہیں۔ لہذا خوش نصیب ہے جو شخص جو کی خدا نے ان حقوق کی ادائیگی میں مدد کی جو اس پر واجب کئے تھے اور اس سلسلہ میں اس کی توفیق دی اور اسے ثابت قدم رکھا۔
فَأَمَّا حَقُّ اللَّہِ الْأَكْبَرُ فَأَنَّكَ تَعْبُدُہُ لَا تُشْرِكُ بِہِ شَيْئاً فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ بِإِخْلَاصٍ جَعَلَ لَكَ عَلَى نَفْسِہِ أَنْ يَكْفِيَكَ أَمْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ يَحْفَظَ لَكَ مَا تُحِبُّ مِنْہَا

1. خدا کا حق

خدا کا حق جو کہ تمام حقوق سے بڑا ہے وہ یہ ہے کہ تم اسی کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دو۔ جب تم خلوص کے ساتھ اس کی عبادت کرو گے تو خدا نے بھی اپنے اوپر لزم کر لیا ہے کہ وہ دنیوی اور اخروی چیزوں میں تمہاری کفایت کرے اور تمہارے لیے تمہاری محبوب و پسندیدہ چیزوں کو محفوظ رکھے۔
وَ أَمَّا حَقُّ نَفْسِكَ عَلَيْكَ فَأَنْ تَسْتَوْفِيَہَا فِي طَاعَةِ اللَّہِ فَتُؤَدِّيَ إِلَى لِسَانِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى سَمْعِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى بَصَرِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى يَدِكَ حَقَّہَا وَ إِلَى رِجْلِكَ حَقَّہَا وَ إِلَى بَطْنِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى فَرْجِكَ حَقَّہُ وَ تَسْتَعِينَ بِاللَّہِ عَلَى ذَلِكَ

2. نفس کا حق

تمہارے نفس کا تم پر یہ حق ہے کہ اسے بھرپور طریقہ سے راہ خدا میں مشغول رکھو اگر تم نے ایسا کیا تو گویا تم نے اپنی زبان کا حق، اپنے کان کا حق، اپنی آنکھ، ہاتھ، پاوں اور شکم و شرمگاہ کا حق ادا کر دیا اور دیکھو ان کے حقوق کی ادائیگی میں خدا سے مدد طلب کرتے رہو۔
وَ أَمَّا حَقُّ اللِّسَانِ فَإِكْرَامُہُ عَنِ الْخَنَى وَ تَعْوِيدُہُ الْخَيْرَ وَ حَمْلُہُ عَلَى الْأَدَبِ وَ إِجْمَامُہُ إِلَّا لِمَوْضِعِ الْحَاجَةِ وَ الْمَنْفَعَةِ لِلدِّينِ وَ الدُّنْيَا وَ إِعْفَاؤُہُ عَنِ الْفُضُولِ الشَّنِعَةِ الْقَلِيلَةِ الْفَائِدَةِ الَّتِي لَا يُؤْمَنُ ضَرَرُہَا مَعَ قِلَّةِ عَائِدَتِہَا وَ يُعَدُّ شَاہِدُ الْعَقْلِ وَ الدَّلِيلُ عَلَيْہِ وَ تَزَيُّنُ الْعَاقِلِ بِعَقْلِہِ [وَ] حُسْنُ سِيرَتِہِ فِي لِسَانِہِ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ

3. زبان کا حق

زبان کا حق یہ ہے کہ اسے گالی گلوچ سے محفوظ رکھو اور اسے نیک و شائستہ بات کہنے کا عادی بناؤ اسے با ادب بناؤ اسے ضرور اور دین و دنیا کے فائدے کے عالوہ بندہی رکھو اور زیادہ چلنے، بے فائدہ بولنے سے روکو کہ تم اس کے نقصان سے محفوظ نہیں ہو اور اس کا فائدہ کم ہے، زبان عقل کا گواہ اور اس کی دلیل سمجھی جاتی ہے اور عقلمند کا عقل کے زیر سے آراستہ ہونا اس کی خوش بیانی ہے، مدد تو بس خدائے بزرگ و برتر ہی کی طرف سے ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ السَّمْعِ فَتَنْزِيہُہُ عَنْ أَنْ تَجْعَلَہُ طَرِيقاً إِلَى قَلْبِكَ إِلَّا لِفُوَّہَةٍ كَرِيمَةٍ تُحْدِثُ فِي قَلْبِكَ خَيْراً أَوْ تَكْسِبُكَ خُلُقاً كَرِيماً فَإِنَّہُ بَابُ الْكَلَامِ إِلَى الْقَلْبِ يُؤَدِّي إِلَيْہِ ضُرُوبُ الْمَعَانِي عَلَى مَا فِيہَا مِنْ خَيْرٍ أَوْ شَرٍّ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

4. کان کا حق

کان کا حق یہ ہے کہ تم اسے) ہر چیز کے لیے( اپنے دل کا راستہ بننے سے دور رکھو، ہاں اسے اس بہترین بات کے لیے دل کا راستہ بناو جو تمہارے دل میں پیدا ہوجو تمہیں بہترین اخالق سے آراستہ کرتے کیونکہ کان دل کا راستہ ہے اور وہ بہترین معافی کو درک کرتا ہے کان دل تک خیر یا شر کو پہنچاتا ہے اور طاقت و قوت صرف خدا کی ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ بَصَرِكَ فَغَضُّہُ عَمَّا لَا يَحِلُّ لَكَ وَ تَرْكُ ابْتِذَالِہِ إِلَّا لِمَوْضِعِ عِبْرَةٍ تَسْتَقْبِلُ بِہَا بَصَراً أَوْ تَسْتَفِيدُ بِہَا عِلْماً فَإِنَّ الْبَصَرَ بَابُ الِاعْتِبَارِ

5. آنکھ کا حق

آنکھ کا حق تم پر یہ ہے کہ اس کو اس چیز سے بند کر لو جو تمہارے لیے حالل و روا نہیں ہے اور آنکھ سے وہی دیکھو جس سے عبرت ہو اور جس سے تم بینا ہو جاو جہاں سے تم کوئی علم حاصل کر سکو کیونکہ آنکھ عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ رِجْلَيْكَ فَأَنْ لَا تَمْشِيَ بِہِمَا إِلَى مَا لَا يَحِلُّ لَكَ وَ لَا تَجْعَلَہَا مَطِيَّتَكَ فِي الطَّرِيقِ الْمُسْتَخِفَّةِ بِأَہْلِہَا فِيہَا فَإِنَّہَا حَامِلَتُكَ وَ سَالِكَةٌ بِكَ مَسْلَكَ الدِّينِ وَ السَّبْقِ لَكَ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

6. پیر کا حق

تمہارے پیروں کا حق یہ ہے کہ ان سے اس چیز کی طرف نہ جاو جو تمہارے لیے حالل نہیں ہے اور انہیں اس راستہ کے لیے اپنی سواری نہ بناو جو چلنے والے کی سبکی کا باعث ہوتا ہے کیونکہ وہ تمہیں اٹھاتے ہیں اور دین کا طرف لے جاتے ہیں اور تمہارے آگے بڑھنے کا سبب ہوتے ہیں اور خدا کے عالوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ يَدِكَ فَأَنْ لَا تَبْسُطَہَا إِلَى مَا لَا يَحِلُّ لَكَ فَتَنَالَ بِمَا تَبْسُطُہَا إِلَيْہِ مِنَ اللَّہِ الْعُقُوبَةَ فِي الْآجِلِ وَ مِنَ النَّاسِ بِلِسَانِ اللَّائِمَةِ فِي الْعَاجِلِ وَ لَا تَقْبِضَہَا مِمَّا افْتَرَضَ اللَّہُ عَلَيْہَا وَ لَكِنْ تُوَقِّرُہَا بِہِ تَقْبِضُہَا عَنْ كَثِيرٍ مِمَّا لَا يَحِلُّ لَہَا وَ تَبْسُطُہَا بِكَثِيرٍ مِمَّا لَيْسَ عَلَيْہَا فَإِذَا ہِيَ قَدْ عُقِلَتْ وَ شُرِّفَتْ فِي الْعَاجِلِ وَجَبَ لَہَا حُسْنُ الثَّوَابِ مِنَ اللَّہِ فِي الْآجِلِ

7. ہاتھ کا حق

ہاتھ کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ اسے اس چیز کی طرف نہ بڑھاؤ جو تمہارے لیے حلال نہیں ہے )کیونکہ اگر ایسا کرو گے تو( آخرت میں خدا کے عقاب میں مبتال ہو گے اور دنیا میں بھی لوگوں کی مالمت سے محفوظ نہیں رہو گے اور اسے اس چیز سے نہ روکو جو خدا نے اس پر واجب کی

ہے اور اس کا احترام اس طرح کرو کہ ان سے بہت سے ایسے کام انجام نہ دو جو اس کے لیے حالل نہیں ہیں اور ان کو ان چیزوں کے لیے کھولو جن میں ان کا نقصان نہیں ہے پھر اگر اس دنیا میں ہاتھ حرام سے باز رہے یا عقل و شرافت سے کام لیا تو آکرت میں ان کے لیے ثواب ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ بَطْنِكَ فَأَنْ لَا تَجْعَلَہُ وِعَاءً لِقَلِيلٍ مِنَ الْحَرَامِ وَ لَا لِكَثِيرٍ وَ أَنْ تَقْتَصِدَ لَہُ فِي الْحَلَالِ وَ لَا تُخْرِجَہُ مِنْ حَدِّ التَّقْوِيَةِ إِلَى حَدِّ التَّہْوِينِ وَ ذَہَابِ الْمُرُوَّةِ فَإِنَّ الشِّبَعَ الْمُنْتَہِيَ بِصَاحِبِہِ إِلَى التُّخَمِ مَكْسَلَةٌ وَ مَثْبَطَةٌ وَ مَقْطَعَةٌ عَنْ كُلِّ بِرٍّ وَ كَرَمٍ وَ إِنَّ الرأي [الرِّيَّ الْمُنْتَہِيَ بِصَاحِبِہِ إِلَى السُّكْرِ مَسْخَفَةٌ وَ مَجْہَلَةٌ وَ مَذْہَبَةٌ لِلْمُرُوَّةِ

8. شکم کا حق

تمہارے شکم کا حق یہ ہے کہ اسے قلیل و کثیر حرام کا ظرف نہ بناو بلکہ حالل میں سے بھی اسے اس کے اندازہ کے مطابق دو اسے تقویت کی حد سے نکال کر شکم سیری اور بے مروتی کی حد تک نہ پہنچاؤ اور جب وہ بھوک و پیاس میں مبتال ہو تو اسے قابو میں رکھو کیونکہ شکم سیری،

سستی و کسالت کا باعث ہوتی ہے اور ہرنیک و مستحسن کام کی انجام دہی ہے )انسان کو( باز رکھتی ہےاور جو مشروب اپنے پینے والے کو مست کر دے وہ اس کی سبکی، نادانی اور بے مرورتی کا سبب ہوتا ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ فَرْجِكَ فَحِفْظُہُ مِمَّا لَا يَحِلُّ لَكَ وَ الِاسْتِعَانَةُ عَلَيْہِ بِغَضِّ الْبَصَرِ فَإِنَّہُ مِنْ أَعْوَنِ الْأَعْوَانِ وَ ضَبْطُہُ إِذَا ہَمَّ بِالْجُوعِ وَ الظَّمَإِ وَ كَثْرَةِ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَ التَّہَدُّدِ لِنَفْسِكَ بِاللَّہِ وَ التَّخْوِيفِ لَہَا بِہِ وَ بِاللَّہِ الْعِصْمَةُ وَ التَّأْيِيدُ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِہِ ثُمَّ حُقُوقُ الْأَفْعَالِ

9. شرمگاہ کا حق

تمہارے اوپر تمہاری شرمگاہ کا حق یہ ہے کہ اسے اس چیز سے محفوظ رکھو جو تمہارے لیے حالل نہیں ہے اور اس سلسلے میں تم آنکھ کو بند کر کے مدد حاصل کرو کہ یہ بترین مددگار ہے۔دوسرے موت کو یاد کر کے اور اپنے نفس کو خود خدا سے ڈرا کر مدد حاصل کرو اور اس سلسلے میں عصمت و تحفظ اور تائید خدا ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اور اس کی طاقت و قوت کے عالوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔
فَأَمَّا حَقُّ الصَّلَاةِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّہَا وِفَادَةٌ إِلَى اللَّہِ وَ أَنَّكَ قَائِمٌ بِہَا بَيْنَ يَدَيِ اللَّہِ فَإِذَا عَلِمْتَ ذَلِكَ كُنْتَ خَلِيقاً أَنْ تَقُومَ فِيہَا مَقَامَ الذَّلِيلِ الرَّاغِبِ الرَّاہِبِ الْخَائِفِ الرَّاجِي الْمِسْكِينِ الْمُتَضَرِّعِ الْمُعَظِّمِ مَنْ قَامَ بَيْنَ يَدَيْہِ بِالسُّكُونِ وَ الْإِطْرَاقِ وَ خُشُوعِ الْأَطْرَافِ وَ لِينِ الْجَنَاحِ وَ حُسْنِ الْمُنَاجَاةِ لَہُ فِي نَفْسِہِ وَ الطَّلَبِ إِلَيْہِ فِي فَكَاكِ رَقَبَتِكَ الَّتِي أَحَاطَتْ بِہَا خَطِيئَتُكَ وَ اسْتَہْلَكَتْہَا ذُنُوبُكَ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

10. نماز کا حق

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نماز تمہیں خدا کے حضور میں پہنچاتی ہے اور نماز میں تم خدا کے سامنے کھڑے ہوتے ہو جب تم اس بات کی طرف متوجہ ہو جاو کہ تم خدا کے سامنے ہو تو تمہیں اس طرح کھڑا ہونا چاہیے جس طرح ذلیل، عاجز، مشتاق، حیران و خوف زدہ، امیدوار، محتاج، گریہ و زاری کرنے واال کھڑا ہوتا ہے اور جس کے سامنے تم کھڑے ہو اس کی عظمت کو سمجھتے ہوئے ساکن، سرجھکائے اعضا کے خشوع و فروتنی کے ساتھ اس کی عظمت کا لحاظ

رکھو اور اپنے دل میں اس سے بہترین طریقہ مناجات و دعا کے ذریعہ اپنی گردن کو ان خطاؤں سے آزاد کرنے کی التماس کرو جو اس کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ان گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کرو اور کوئی طاقت و قوت نہیں سوائے خدا کے۔
وَ أَمَّا حَقُّ الصَّوْمِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّہُ حِجَابٌ ضَرَبَہُ اللَّہُ عَلَى لِسَانِكَ وَ سَمْعِكَ وَ بَصَرِكَ وَ فَرْجِكَ وَ بَطْنِكَ لِيَسْتُرَكَ بِہِ مِنَ النَّارِ وَ ہَكَذَا جَاءَ فِي الْحَدِيثِ الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ فَإِنْ سَكَنَتْ أَطْرَافُكَ فِي حَجَبَتِہَا رَجَوْتَ أَنْ تَكُونَ مَحْجُوباً وَ إِنْ أَنْتَ تَرَكْتَہَا تَضْطَرِبُ فِي حِجَابِہَا وَ تَرْفَعُ جَنَبَاتِ الْحِجَابِ فَتَطَّلِعُ إِلَى مَا لَيْسَ لَہَا بِالنَّظْرَةِ الدَّاعِيَةِ لِلشَّہْوَةِ وَ الْقُوَّةِ الْخَارِجَةِ عَنْ حَدِّ التَّقِيَّةِ لِلَّہِ لَمْ يُؤْمَنْ أَنْ تَخْرِقَ الْحِجَابَ وَ تَخْرُجَ مِنْہُ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

11. روزہ کا حق

روزہ کا حق یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ روزہ ایک پردہ ہے جو خدا نے تمہاری زبان، تمہارے کان، تمہاری آنکھ، تمہاری شرمگاہ اور تمہارے پیٹ پر ڈال دیا ہے کہ اس کے ذریعے تمہیں آگ سے بچائے پھر اگر تم نے روزہ نہ رکھا )یا چھوڑ دیا( تو تم نے اپنے اوپر پڑے ہوئے خدا کے پردہ کو چاک کر ڈاال، اسی طرح حدیث میں بھی بیان ہوا ہے روزہ جہنم سے بچنے کے لیے تمہاری زرہ ہے۔ اگر اس پردہ سے تمہارے اعضا و جوارح کو آرام ملتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں یہ امید ہو گئی ہے کہ تم پردے میں ہو اور اگر تم نے اس پردہ کا پاس و لحاظ نہ کیا تو اتم نے اس کے پردے میں خلل و رخنہ ڈال دیا اور جب تم نے پردہ اٹھایا تو تمہاری نگاہ اس چیز کو دیکھے گی کہ جس کو تمہیں نہیں دیکھنا چاہیے وہ شہوت کو بھڑکانے والی ہے وہ تمہیں خدا کی پناہ سے نکال دے گی۔ اور جہاں پردہ چاک ہو جائے اور تم اس سے باہر نکل جاو ت وہاں تمہیں خود کو محفوظ نہیں سمجھنا چاہیے قوت و طاقت خدا ہی کی ہے۔
حَقُّ الحَجِّ أن تَعلَمَ أنَّہُ وِفادَةٌ إلى رَبِّكَ و فِرارٌ إلَيہِ مِن ذُنوبِكَ و بِہِ قَبولُ تَوبَتِكَ و قَضاءُ الفرضِ الَّذي أوجَبَہُ اللّہ ُ عَلَيكَ

12.حج کا حق

حج کا حق یہ ہے تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تمہارے پروردگار کی طرف ایک سفر اور تمہارا اپنے گناہوں سے اس کی طرف فرار ہے حج کے وسیلہ سے تمہاری توبہ قبول ہوتی ہے اور تم اس عمل کے ذریعے اس واجب کو انجام دیتے ہو جس کو خدا نے تم پر الزم قرار دیا ہے۔[یادداشت 1]
وَ أَمَّا حَقُّ الصَّدَقَةِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّہَا ذُخْرُكَ عِنْدَ رَبِّكَ وَ وَدِيعَتُكَ الَّتِي لَا تَحْتَاجُ إِلَى الْإِشْہَادِ فَإِذَا عَلِمْتَ ذَلِكَ كُنْتَ بِمَا اسْتَوْدَعْتَہُ سِرّاً أَوْثَقَ بِمَا اسْتَوْدَعْتَہُ عَلَانِيَةً وَ كُنْتَ جَدِيراً أَنْ تَكُونَ أَسْرَرْتَ إِلَيْہِ أَمْراً أَعْلَنْتَہُ وَ كَانَ الْأَمْرُ بَيْنَكَ وَ بَيْنَہُ فِيہَا سِرّاً عَلَى كُلِ حَالٍ وَ لَمْ يَسْتَظْہِرْ عَلَيْہِ فِيمَا اسْتَوْدَعْتَہُ مِنْہَا إِشْہَادَ الْأَسْمَاعِ وَ الْأَبْصَارِ عَلَيْہِ بِہَا كَأَنَّہَا أَوْثَقُ فِي نَفْسِكَ وَ كَأَنَّكَ لَا تَثِقُ بِہِ فِي تَأْدِيَةِ وَدِيعَتِكَ إِلَيْكَ ثُمَّ لَمْ تَمْتَنَّ بِہَا عَلَى أَحَدٍ لِأَنَّہَا لَكَ فَإِذَا امْتَنَنْتَ بِہَا لَمْ تَأْمَنْ أَنْ يكون [تَكُونَ بِہَا مِثْلَ تَہْجِينِ حَالِكَ مِنْہَا إِلَى مَنْ مَنَنْتَ بِہَا عَلَيْہِ لِأَنَّ فِي ذَلِكَ دَلِيلًا عَلَى أَنَّكَ لَمْ تُرِدْ نَفْسَكَ بِہَا وَ لَوْ أَرَدْتَ نَفْسَكَ بِہَا لَمْ تَمْتَنَّ بِہَا عَلَى أَحَدٍ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ.

13. صدقے کا حق

صدقہ کا حق، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تمہارے پروردگار کے پاس تمہارا ذخیرہ اور امانت ہے کہ جس کے لیے گواہ النے کی ضرورت نہیں ہے اور جب تمہیں یہ معلوم ہو گیا تو جو صدقہ تم مخفی طور پر دو گے اس سے تم اس صدقہ کی بہ نسبت زیادہ مطمئن رہو گے جو تم کھلم کھالا دیتے ہو۔ تمہارے شایان یہی ہے کہ جو تم نے آشکارا طور پر کیا ہے اب اسے چھپا کر انجام دو، بہر حال تم اس طرح صدقہ دو کہ اسے نہ کان سنیں اور نہ آنکھیں دیکھیں بلکہ سر بستہ طور پر دو اور تمہیں اس پر یہ اعتماد رہے کہ وہ تمہاری طرف پلٹ کر آئے گا اس شخص کی مانند نہ ہو جاو کہ جو صدقہ کے واپس لوٹنے پر اعتماد نہیں رکھتا ہے۔ پھر اپنے صدقے کے ذریعے کسی پر احسان نہ جتاو کیونکہ وہ تمہارا ہی ہے اگر اس پر احسان جتاو گے تو تم محفوظ نہیں رہو گے۔ بلکہ اسی بد حالی میں مبتلا ہو گے جس میں وہ شخص مبتلا ہے جس پر تم نے احسان جتایا ہے کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تم نے یہ نہیں چاہا کہ وہ مال تمہارا رہے اگر تم یہ چاہتے ہو کہ وہ تمہارے لیے باقی رہے تو کسی پر احسان نہ جتاتے طاقت صرف خدا کی ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ الْہَدْيِ فَأَنْ تُخْلِصَ بِہَا الْإِرَادَةَ إِلَى رَبِّكَ وَ التَّعَرُّضَ لِرَحْمَتِہِ وَ قَبُولِہِ وَ لَا تُرِدْ عُيُونَ النَّاظِرِينَ دُونَہُ فَإِذَا كُنْتَ كَذَلِكَ لَمْ تَكُنْ مُتَكَلِّفاً وَ لَا مُتَصَنِّعاً وَ كُنْتَ إِنَّمَا تَقْصِدُ إِلَى اللَّہِ وَ اعْلَمْ أَنَّ اللَّہَ يُرَادُ بِالْيَسِيرِ وَ لَا يُرَادُ بِالْعَسِيرِ كَمَا أَرَادَ بِخَلْقِہِ التَّيْسِيرَ وَ لَمْ يُرِدْ بِہِمُ التَّعْسِيرَ وَ كَذَلِكَ التَّذَلُّلُ أَوْلَى بِكَ مِنَ التَّدَہْقُنِ لِأَنَّ الْكُلْفَةَ وَ الْمَئُونَةَ فِي الْمُتَدَہْقِنِينَ فَأَمَّا التَّذَلُّلُ وَ التَّمَسْكُنُ فَلَا كُلْفَةَ فِيہِمَا وَ لَا مَئُونَةَ عَلَيْہِمَا لِأَنَّہُمَا الْخِلْقَةُ وَ ہُمَا مَوْجُودَانِ فِي الطَّبِيعَةِ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

14. قربانی کا حق

قربانی کا حق یہ ہے کہ تم اسے اپنے پروردگار کے لیے خالص کرو اور اسے اس کی رحمت و قبولیت کے لیے پیش کرو لوگوں کے کھانے کے لیے نہیں، اگر تم اس طرح قربانی کرو گے تو خود کو زحمت میں نہیں ڈالو گے اور نہ تکلف کرو گے کیونکہ اس سے تمہارا مقصد قربانی ہے۔ جان لو کہ تم خداوند عالم بارگاہ میں آسانی سے باریاب ہو گے اور زحمت و مشقت کی ضرورت نہیں ہوگی جیسا کہ خدا نے بندوں کی تکلیف کو آسان کر دیا ہے انہیں سختی میں مبتال نہیں کرنا چاہا۔ اسی طرح اس کی بارگاہ میں تمہارا فروتنی و انکساری کرنا تمہارے لیے تکبر کرنے سے بہتر ہے کیونکہ کلفت و مشقت، جاہ و منصب کے بھوکے لوگوں کے لیے ہے لیکن فروتنی اور درویش منشی میں نہ تو کوئی تکلیف ہے اور نہ ہی کوئی خرچ، کیونکہ ی فطرت و سرشت کے مطابق ہے اور طبیعت میں موجود ہے اور طاقت و قوت صرف خدا کی ہے۔
ثُمَّ حُقُوقُ الْأَئِمَّةِحکمرانوں کے حقوق
فَأَمَّا حَقُّ سَائِسِكَ بِالسُّلْطَانِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّكَ جُعِلْتَ لَہُ فِتْنَةً وَ أَنَّہُ مُبْتَلًى فِيكَ بِمَا جَعَلَہُ اللَّہُ لَہُ عَلَيْكَ مِنَ السُّلْطَانِ وَ أَنْ تُخْلِصَ لَہُ فِي النَّصِيحَةِ وَ أَنْ لَا تُمَاحِكَہُ وَ قَدْ بُسِطَتْ يَدُہُ عَلَيْكَ فَتَكُونَ سَبَبَ ہَلَاكِ نَفْسِكَ وَ ہَلَاكِہِ وَ تَذَلَّلْ وَ تَلَطَّفْ لِإِعْطَائِہِ مِنَ الرِّضَى مَا يَكُفُّہُ عَنْكَ وَ لَا يُضِرُّ بِدِينِكَ وَ تَسْتَعِينُ عَلَيْہِ فِي ذَلِكَ بِاللَّہِ وَ لَا تُعَازِّہِ وَ لَا تُعَانِدْہُ فَإِنَّكَ إِنْ فَعَلْتَ ذَلِكَ عَقَقْتَہُ وَ عَقَقْتَ نَفْسَكَ فَعَرَّضْتَہَا لِمَكْرُوہِہِ وَ عَرَّضْتَہُ لِلْہَلَكَةِ فِيكَ وَ كُنْتَ خَلِيقاً أَنْ تَكُونَ مُعِيناً لَہُ عَلَى نَفْسِكَ وَ شَرِيكاً لَہُ فِيمَا أَتَى إِلَيْكَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

15. حاکم کا حق

پیشوائے حکومت کا تم پر یہ حق ہے کہ تم اس کے لیے آزمائش و امتحان کا سبب قرار دئے گئے ہو اور اس کا جا تسلط تم ہے وہ بھی اس کے ذریعے آزمایا جاتا ہے۔ لہذا اس کی بات کو تم خلوص کے ساتھ سنو اور اس سے اس وقت جھگڑا نہ کرو جب وہ تمہارے اوپر تسلط رکھتا ہو کہ اس صورت میں تم اپنیا ور اس کی ہالکت کا سبب بنو گے اس کے ساتھ اتنی نرمی اور فروتنی سے پیش آو کہ اس کی رضا حاصل کر لو تاکہ وہ تمہارے دین کو کوئی نقصان نہ پہنچائے اور اس سلسلے میں تم خدا سے مدد طلب کرو اس پر برتری حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو اور اس سے دشمنی نہ کرو اگر ایسا کرو گے تو اسے بھی نقصان پہنچاو گے اور خود کو بھی، اسے اپنی طرف سے متنفر کرو گے اور اسے معرض ہالکت میں پہنچاو گے۔ تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم ضرر میں اس کے معاون ہو جاو اور وہ جو بھی تمہارے ساتھ کرے اس کے شریک ہو جاو۔ اور خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ سَائِسِكَ بِالْعِلْمِ فَالتَّعْظِيمُ لَہُ وَ التَّوْقِيرُ لِمَجْلِسِہِ وَ حُسْنُ الِاسْتِمَاعِ إِلَيْہِ وَ الْإِقْبَالُ عَلَيْہِ وَ الْمَعُونَةُ لَہُ عَلَى نَفْسِكَ فِيمَا لَا غِنَى بِكَ عَنْہُ مِنَ الْعِلْمِ بِأَنْ تُفَرِّغَ لَہُ عَقْلَكَ وَ تُحَضِّرَہُ فَہْمَكَ وَ تُذَكِّيَ لَہُ قَلْبَكَ وَ تُجَلِّيَ لَہُ بَصَرَكَ بِتَرْكِ اللَّذَّاتِ وَ نَقْضِ الشَّہَوَاتِ وَ أَنْ تَعْلَمَ أَنَّكَ فِيمَا أَلْقَى رَسُولُہُ إِلَى مَنْ لَقِيَكَ مِنْ أَہْلِ الْجَہْلِ فَلَزِمَكَ حُسْنُ التَّأْدِيَةِ عَنْہُ إِلَيْہِمْ وَ لَا تَخُنْہُ فِي تَأْدِيَةِ رِسَالَتِہِ وَ الْقِيَامِ بِہَا عَنْہُ إِذَا تَقَلَّدْتَہَا وَ لَا حَوْلَ‏ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

16. استاد کا حق

تمہارے اوپر معلم و استاد کا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کرو اور اس کی درسگاہ کا احترام کرو اور اس کے درس کو غور سے سنو اور ہمہ تن گوش رہو، اس کی مدد کرو تاکہ وہ تمہیں اس چیز کی تعلیم دے جس کی تمہیں ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں تم اپنی عقل کو آمادہ کرو اور اپنے فہم و شعور اور دل کو اس کے سپرد کر دو اور لذتوں کو چھوڑ کر اور خواہشوں گھٹا کر اپنی نظر کو اس پر مرکوز کر دو۔ تمہیں یہ جان لینا چاہیے کہ جو چیز وہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اس میں تم اس کے قاصد ہو چنانچہ تمہارے اوپر الزم ہے کہ اس چیز کی تم دوسروں کو تعلیم دو اور اس فرض کو تم بخوبی ادا کرو اور اس کا پیغام پہنچانے میں خیانت نہ کرو اور جس چیز کو تم نے اپنے ذمہ لیا ہے اس پر عمل کرو اور طاقت و قوت صرف خدا کی طرف سے ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ سَائِسِكَ بِالْمِلْكِ فَنَحْوٌ مِنْ سَائِسِكَ بِالسُّلْطَانِ إِلَّا أَنَّ ہَذَا يَمْلِكُ مَا لَا يَمْلِكُہُ ذَاكَ تَلْزَمُكَ طَاعَتُہُ فِيمَا دَقَّ وَ جَلَّ مِنْكَ إِلَّا أَنْ تُخْرِجَكَ مِنْ وُجُوبِ حَقِّ اللَّہِ فَإِنَّ حَقَّ اللَّہِ يَحُولُ بَيْنَكَ وَ بَيْنَ حَقِّہِ وَ حُقُوقِ الْخَلْقِ فَإِذَا قَضَيْتَہُ رَجَعْتَ إِلَى حَقِّہِ فَتَشَاغَلْتَ بِہِ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

17. مولا کا حق

لیکن اس شخص کا حق جو تم پر سلطنت رکھتا ہے (مالک کا حق، بادشاہ کے حق کی مانند ہے) وہ بادشاہ ہی کی مانند ہے مگر یہ کہ مالک خاص حق رکھتا ہے جو بادشاہ نہیں رکھتا اور اس کا یہ مخصوص حق ہر کم و بیش میں تم پر اس کی اطاعت کو لازم کرتا ہے۔ بشرطیکہ اس کا حق خدا کے واجب حق کے برخلاف نہ ہو اور تمہارے اور خدا کے حق کے درمیان حائل نہ ہو۔ اگر ایسا ہو تو خدا کا حق مقدم ہے اور جب تم حدا کا حق ادا کرود گے تو پھر مالک کے حق کی نوبت ہے اس کو ادا کرو۔ خدا کی طاقت و قوت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔

ثُمَّ حُقُوقُ الرَّعِيَّةِرعیت کے حقوق
فَأَمَّا حُقُوقُ رَعِيَّتِكَ بِالسُّلْطَانِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّكَ إِنَّمَا اسْتَرْعَيْتَہُمْ بِفَضْلِ قُوَّتِكَ عَلَيْہِمْ فَإِنَّہُ إِنَّمَا أَحَلَّہُمْ مَحَلَّ الرَّعِيَّةِ لَكَ ضَعْفُہُمْ وَ ذُلُّہُمْ فَمَا أَوْلَى مَنْ كَفَاكَہُ ضَعْفُہُ وَ ذُلُّہُ حَتَّى صَيَّرَہُ لَكَ رَعِيَّةً وَ صَيَّرَ حُكْمَكَ عَلَيْہِ نَافِذاً لَا يَمْتَنِعُ مِنْكَ بِعِزَّةٍ وَ لَا قُوَّةٍ وَ لَا يَسْتَنْصِرُ فِيمَا تَعَاظَمَہُ مِنْكَ إِلَّا بِاللَّہِ بِالرَّحْمَةِ وَ الْحِيَاطَةِ وَ الْأَنَاةِ وَ مَا أَوْلَاكَ إِذَا عَرَفْتَ مَا أَعْطَاكَ اللَّہُ مِنْ فَضْلِ ہَذِہِ الْعِزَّةِ وَ الْقُوَّةِ الَّتِي قَہَرْتَ بِہَا أَنْ تَكُونَ لِلَّہِ شَاكِراً وَ مَنْ شَكَرَ اللَّہَ أَعْطَاہُ فِيمَا أَنْعَمَ عَلَيْہِ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

18. رعیت کا حق

لیکن جب رعیت پر تمہاری حکومت ہو تو اس وقت تمہارے اوظر اس کے یہ حقوق ہیں، تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تم نے اپنی زیادہ طاقت سے انہیں اپنی رعیت بنالیا ہے تو یہ ان کی کمزوری و عاجزی تھی جس نے انہیں رعیت کی جگہ پہنچا دیا تو اس کا کیا حق ہے کہ جس کے ضعف و ذلت نے تمہیں اتنا بے نیاز کر دیا کہ اسے تمہاری رعیت بنا دیا اور اس پر تمہارے حکم کو نافذ کردیا، اب وہ اپنی طاقت و عزت کے ساتھ تمہارے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا، اسے تمہارے ترحم و حمایت اور صبر و تسلی کے علاوہ تمہاری جو بات ناگوار گزرتی ہے تو اس میں وہ خدا ہی سے مدد چاہتا ہے اور جب تمہیں یہ معلوم ہو کہ خدا نے تمہیں کتنی عزت او قوت عطا کی ہے کہ جس کے ذریعہ تم دوسروں پر غالب آگئے تو اس وقت تمہارا کیا فریضہ ہے؟ سوائے اس کے کہ تم خدا کے شکر گزار ہوجاؤ اور جو خدا کا شکر ادا کرتا ہے خدا اس کو زیادہ نعمت عطا کرتا ہے۔ اور خدا کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ رَعِيَّتِكَ بِالْعِلْمِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّ اللَّہَ قَدْ جَعَلَكَ لَہُمْ قَيِّماً فِيمَا آتَاكَ مِنَ الْعِلْمِ وَ وَلَّاكَ مِنْ خِزَانَةِ الْحِكْمَةِ فَإِنْ أَحْسَنْتَ فِيمَا وَلَّاكَ اللَّہُ مِنْ ذَلِكَ وَ قُمْتَ بِہِ لَہُمْ مَقَامَ الْخَازِنِ الشَّفِيقِ النَّاصِحِ لِمَوْلَاہُ فِي عَبِيدِہِ الصَّابِرِ الْمُحْتَسِبِ الَّذِي إِذَا رَأَى ذَا حَاجَةٍ أَخْرَجَ لَہُ مِنَ الْأَمْوَالِ الَّتِي فِي يَدَيْہِ رَاشِداً وَ كُنْتَ لِذَلِكَ آمِلًا مُعْتَقِداً وَ إِلَّا كُنْتَ لَہُ خَائِناً وَ لِخَلْقِہِ ظَالِماً وَ لِسَلَبِہِ وَ غَيْرِہِ مُتَعَرِّضاً

19. شاگرد کا حق

لیکن تمہاری علمی رعیت، شاگردوں کا حق یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ خدا نے تمہیں جو علم عطا کیا ہے اور حکمت کا جو خزانہ تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں شاگردوں کا سرپرست بنایا ہے اپہر اگر تم نے اس سرپرستی کے حق کو اچھی طرح ادا کردیا اور ان کے لیے مہربانی خزانچی اور خیرخواہ مولا قرار پائے جو کہ صابر خدا خواہ ہے جب وہ کسی ضرورت مند کو دیکھتا ہے تو وہ ااپنے پاس موجود اموال میں سے اسے دیتا ہے تم رشدیافتہ اور باایمان خادم ہو ورنہ خدا کے خیانتکار ارو اس کی مخلوق کے لیے ظالم اور عزت و نعمت کے سلب ہونے کا سبب ہو۔

وَ أَمَّا حَقُّ رَعِيَّتِكَ بِمِلْكِ النِّكَاحِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّ اللَّہَ جَعَلَہَا سَكَناً وَ مُسْتَرَاحاً وَ أُنْساً وَ وَاقِيَةً وَ كَذَلِكَ كُلُّ أَحَدٍ مِنْكُمَا يَجِبُ أَنْ يَحْمَدَ اللَّہَ عَلَى صَاحِبِہِ وَ يَعْلَمَ أَنَّ ذَلِكَ نِعْمَةٌ مِنْہُ عَلَيْہِ وَ وَجَبَ أَنْ يُحْسِنَ صُحْبَةَ نِعْمَةِ اللَّہِ وَ يُكْرِمَہَا وَ يَرْفُقَ بِہَا وَ إِنْ كَانَ حَقُّكَ عَلَيْہَا أَغْلَظَ وَ طَاعَتُكَ لَہَا أَلْزَمَ فِيمَا أَحْبَبْتَ وَ كَرِہْتَ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً فَإِنَّ لَہَا حَقَّ الرَّحْمَةِ وَ الْمُؤَانَسَةِ وَ مَوْضِعُ السُّكُونِ إِلَيْہَا قَضَاءُ اللَّذَّةِ الَّتِي لَا بُدَّ مِنْ قَضَائِہَا وَ ذَلِكَ عَظِيمٌ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

20. شریک حیات کا حق

نکاح کے ذریعہ جو حق تمہارے اوپر مسلم ہوگیا ہے وہ یہ ہے کہ تم یہ جان لو کہ اسے خدا نے تمہارے لیے باعث سکون و آرام اور مونس و انیس اور نگہبان قرار دیا ہے اسی طرح تم دونوں پر یہ فرض ہے کہ اپنے شریک حیات کے وجود پر خدا کا شکر ادا کرے اور یہ جان لے کہ یہ خدا کی نعمت ہے جو اس نے اسے عطا کی ہے اس لئے ضرور ہے کہ وہ خدا کی نعمت کی قدر کرے اور اس کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اگر تمہاری شریک حیات پر تمہارا حق زیادہ سخت ہے اور جو تم پسند کرتے ہو اور جو پسند نہیں کرتے اس میں اس پر تمہاری طاعت زیادہ لازم ہے بس اس میں گناہ نہ ہو۔ لیکن اس کا بھی تم پر یہ حق ہے کہ تم اس کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آؤ اور وہ بھی اس لذت اندوزی کے لیے تمہارے لیے مرکز سکون ہے کہ جس سے مفر نہیں ہے اور یہ بجائے خود بہت بڑا حق ہے۔ اور خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔

وَ أَمَّا حَقُّ رَعِيَّتِكَ بِمِلْكِ الْيَمِينِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّہُ خَلْقُ رَبِّكَ وَ لَحْمُكَ وَ دَمُكَ وَ أَنَّكَ تَمْلِكُہُ لَا أَنْتَ صَنَعْتَہُ دُونَ اللَّہِ وَ لَا خَلَقْتَ لَہُ سَمْعاً وَ لَا بَصَراً وَ لَا أَجْرَيْتَ لَہُ رِزْقاً وَ لَكِنَّ اللَّہَ كَفَاكَ ذَلِكَ بِمَنْ سَخَّرَہُ لَكَ وَ ائْتَمَنَكَ عَلَيْہِ وَ اسْتَوْدَعَكَ إِيَّاہُ لِتَحْفَظَہُ فِيہِ وَ تَسِيرَ فِيہِ بِسِيرَتِہِ فَتُطْعِمَہُ مِمَّا تَأْكُلُ وَ تُلْبِسَہُ مِمَّا تَلْبَسُ وَ لَا تُكَلِّفَہُ مَا لَا يُطِيقُ فَإِنْ كَرِہْتَہُ خَرَجْتَ إِلَى اللَّہِ مِنْہُ وَ اسْتَبْدَلْتَ بِہِ وَ لَمْ تُعَذِّبْ خَلْقَ اللَّہِ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

21. غلام کا حق

تمہارے مملوک اور غلام کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چائیے کہ وہ تمہارے پروردگار ہی کا پیدا کیا ہوا ہے وہ بھی تمہاری ہی طرح گوشت اور خون رکھتا ہے تم اس لیے اس کے مالک نہیں ہو کہ تم نے اسے پیدا کیا ہے بلکہ اسے خدا نے پیدا کیا ہے اور نہ تم نے اس کو کان اور آنکھ عطا کی ہے اور نہ اسکی روزی تمہارے ہاتھ میں ہے بلکہ اس سلسلے میں خدا نے تمہاری مدد کی ہے کہ اسے تمہارے تابع کردیا اور تم کو اس کا امین قرار دیا اور اسے تمہارے سپرد کردیا تاکہ تم اسکی حفاظت کرو اور اس کے ساتھ اسی جیسا سلوک کرو اسے وہی کھانا کھلاؤ جو تم کھآتے ہو اور وہی کپڑا پہناؤ جو تم پہنتے ہو اور اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دو اگر وہ تمہیں پسند نہیں ہے تو تم اس کی ذمہ داری سے بری ہوجاؤ جو خدا کی طرف سے تم پر عائد ہوئی ہے اور اس کو دوسرے سے بدل لو خدا کی مخلوق کو تکلیف نہ دو، کہ خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ الرَّحِمِرشتہ دار کا حق
فَحَقُّ أُمِّكَ أَنْ تَعْلَمَ أَنَّہَا حَمَلَتْكَ حَيْثُ لَا يَحْمِلُ أَحَدٌ أَحَداً وَ أَطْعَمَتْكَ مِنْ ثَمَرَةِ قَلْبِہَا مَا لَا يُطْعِمُ أَحَدٌ أَحَداً وَ أَنَّہَا وَقَتْكَ بِسَمْعِہَا وَ بَصَرِہَا وَ يَدِہَا وَ رِجْلِہَا وَ شَعْرِہَا وَ بَشَرِہَا وَ جَمِيعِ جَوَارِحِہَا مُسْتَبْشِرَةً بِذَلِكَ فَرِحَةً موبلة [مُؤَمِّلَةً مُحْتَمِلَةً لِمَا فِيہِ مَكْرُوہُہَا وَ ألمہ و ثقلہ و غمہ [أَلَمُہَا وَ ثِقْلُہَا وَ غَمُّہَا حَتَّى دَفَعَتْہَا عَنْكَ يَدُ الْقُدْرَةِ وَ أَخْرَجَتْكَ إِلَى الْأَرْضِ فَرَضِيَتْ أَنْ تَشْبَعَ وَ تَجُوعَ ہِيَ وَ تَكْسُوَكَ وَ تَعْرَى وَ تُرْوِيَكَ وَ تَظْمَأَ وَ تُظِلَّكَ وَ تَضْحَى وَ تُنَعِّمَكَ بِبُؤْسِہَا وَ تُلَذِّذَكَ بِالنَّوْمِ بِأَرَقِہَا وَ كَانَ بَطْنُہَا لَكَ وِعَاءً وَ حِجْرُہَا لَكَ حِوَاءً وَ ثَدْيُہَا لَكَ سِقَاءً وَ نَفْسُہَا لَكَ وِقَاءً تُبَاشِرُ حَرَّ الدُّنْيَا وَ بَرْدَہَا لَكَ وَ دُونَكَ فَتَشْكُرُہَا عَلَى قَدْرِ ذَلِكَ وَ لَا تَقْدِرُ عَلَيْہِ إِلَّا بِعَوْنِ اللَّہِ وَ تَوْفِيقِہِ

22. ماں کا حق

ماں کا حق یہ ہے کہ تم جان لو اس نے خوشی خوشی تمہارا بار اٹھایا اور تمہیں آفتوں سے دور رکھ کے جنم دیا۔ پس ان زحمتوں کی قدر کرتے ہوئے اپنی ماں کا شکر ادا کرو۔ یہ شکر اور قدردانی خدا کی مدد اور توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ماں کا حق یہ ہے کہ تم جان لو اس نے اپنا خون جگر تمہیں پلایا ہے جب کہ اس طرح کوئی فداکاری نہیں کرتا۔ تو ان زحمتوں کی قدر کرتے ہوئے اپنی ماں کا شکر ادا کرو۔ یہ شکر اور قدردانی خدا کی مدد اور توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ماں کا حق یہ ہے کہ تم جان لو خود بھوکی رہی مگر تمہیں شکم سیر کیا، اس کے پاس کپڑے نہیں تھے مگر تمہیں گرمی و سردی سے محفوظ رکھا، خود پیاسی رہی مگر تمہیں سیراب کیا اور خود دھوپ میں جلتی رہی مگر تمہیں سائے میں رکھا۔ تو ان زحمتوں کی قدر کرتے ہوئے اپنی ماں کا شکر ادا کرو۔ یہ شکر اور قدردانی خدا کی مدد اور توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ماں کا حق یہ ہے کہ تم جان لو اس نے اپنی نیندیں حرام کرکے تمہیں سکون کی نیند سونے دیا۔ پس ان زحمتوں کی قدر کرتے ہوئے اپنی ماں کا شکر ادا کرو۔ یہ شکر اور قدردانی خدا کی مدد اور توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ أَبِيكَ فَتَعْلَمُ أَنَّہُ أَصْلُكَ وَ أَنَّكَ فَرْعُہُ وَ أَنَّكَ لَوْلَاہُ لَمْ تَكُنْ فَمَہْمَا رَأَيْتَ فِي نَفْسِكَ مِمَّا يُعْجِبُكَ فَاعْلَمْ أَنَّ أَبَاكَ أَصْلُ النِّعْمَةِ عَلَيْكَ فِيہِ وَ احْمَدِ اللَّہَ وَ اشْكُرْہُ عَلَى قَدْرِ ذَلِكَ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

23. باپ کا حق

تمہارے اوپر تمہارے باپ کا حق یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہاری اصل و بنیاد ہے اور تم اس کی شاخ اور فرع ہو اگر وہ نہ ہوتے تو تمہارا وجود نہ ہوتا پس جب تم اپنے اندر کوئی ایسی چیز دیکھو کہ جو تمہیں خود پسندی میں مبتلا کردے تو اس وقت تم یہ خیال کرو کہ اس نعمت کا سبب تمہارا باپ ہے اور اس پر خدا کا شکر اور ثنا کرو اور خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ وَلَدِكَ فَتَعْلَمُ أَنَّہُ مِنْكَ وَ مُضَافٌ إِلَيْكَ فِي عَاجِلِ الدُّنْيَا بِخَيْرِہِ وَ شَرِّہِ وَ أَنَّكَ مَسْئُولٌ عَمَّا وُلِّيتَہُ مِنْ حُسْنِ الْأَدَبِ وَ الدَّلَالَةِ عَلَى رَبِّہِ وَ الْمَعُونَةِ لَہُ عَلَى طَاعَتِہِ فِيكَ وَ فِي نَفْسِہِ فَمُثَابٌ عَلَى ذَلِكَ وَ مُعَاقَبٌ فَاعْمَلْ فِي أَمْرِہِ عَمَلَ الْمُتَزَيِّنِ بِحُسْنِ أَثَرِہِ عَلَيْہِ فِي عَاجِلِ الدُّنْيَا الْمُعَذِّرِ إِلَى رَبِّہِ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَہُ بِحُسْنِ الْقِيَامِ عَلَيْہِ وَ الْأَخْذِ لَہُ مِنْہُ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

24. اولاد کا حق

تمہارے اوپر بیٹے کا حق یہ ہے کہ تم یہ جان لو کہ وہ تمہارا ہی ہے دنیا میں تمہی سے وابستہ ہے اور اس کا خیرو شر بھی تمہاری ہی طرف منسوب ہوتا ہے اور یہ ذمہ داری تمہاری ہے کہ اسے ادب سکھاؤ، اس کے پروردگا کی طرف اس کی راہنمائی کرو اور اس کی اطاعت میں اس کی مدد کرو اگر تم اس ذمہ داری کو پورا کرو گے تو ثواب پاؤ گے اور اگر اس کی انجام دہی میں کوتاہی کروگے تو سزا پاؤ گے۔ پس اس کے لیے اس طرح نیک عمل کرو کہ اس کا حسن و جمال دنیا میں آشکار ہوجائے اور اس کی جو بہترین سرپرستی تم نے کی ہے اور جو نتیجہ تم نے حاصل کیا ہے وہ خدا کی بارگاہ میں تمہارے اور اس کے درمیان ایک عذر ہوجائے۔ لاقوۃ الا باللہ
وَ أَمَّا حَقُّ أَخِيكَ فَتَعْلَمُ أَنَّہُ يَدُكَ الَّتِي تَبْسُطُہَا وَ ظَہْرُكَ الَّذِي تَلْتَجِي إِلَيْہِ وَ عِزُّكَ الَّذِي تَعْتَمِدُ عَلَيْہِ وَ قُوَّتُكَ الَّتِي تَصُولُ بِہَا فَلَا تَتَّخِذْہُ سِلَاحاً عَلَى مَعْصِيَةِ اللَّہِ وَ لَا عُدَّةً لِلظُّلْمِ بِخَلْقِ اللَّہِ وَ لَا تَدَعْ نُصْرَتَہُ عَلَى نَفْسِہِ وَ مَعُونَتَہُ عَلَى عَدُوِّہِ وَ الْحَوْلَ بَيْنَہُ وَ بَيْنَ شَيَاطِينِہِ وَ تَأْدِيَةَ النَّصِيحَةِ إِلَيْہِ وَ الْإِقْبَالَ عَلَيْہِ فِي اللَّہِ فَإِنِ انْقَادَ لِرَبِّہِ وَ أَحْسَنَ الْإِجَابَةَ لَہُ وَ إِلَّا فَلْيَكُنِ اللَّہُ آثَرَ عِنْدَكَ وَ أَكْرَمَ عَلَيْكَ مِنْہُ

25. بھائی کا حق

تمہارے بھائی کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ تمہارا ہاتھ ہے اور تمہارے لیے پشت پناہ ہے کہ جہاں تم پناہ گیزیں ہوتے ہو وہ تمہاری عزت ہے کہ جس پر تم اعتماد کرتے ہو اور وہ تمہاری قوت ہے کہ جس کے ذریعہ تم حملہ کرتے ہو پس اسے دا کی معصیت و نافرمانی کا ذریعہ و حربہ نہ بناؤ اور اس کے وسیلہ سے خدا کی مخلوق پر ظلم نہ کرو تم اس کے حق میں اس کی مدد کرو اور اس کے دشمن کے خلاف اس کی نصرت کرو اس کے اور شیطان کے درمیان حائل ہوجاؤ اور اسے نصیحت کرنے میں پورا حق ادا کرو اور اسے خدا کی طرف بلاؤ پھر اگر وہ اپنے پروردگار کا مطیع ہوجائے اور اس کے حکم کو تسلیم کرے تو ٹھیک، ورنہ تمہارے نزدیک خدا کو مقدم ہونا چاہئے اور اسے تمہارے لیے عظیم ہونا چاہئے۔

وَ أَمَّا حَقُّ الْمُنْعِمِ عَلَيْكَ بِالْوَلَاءِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّہُ أَنْفَقَ فِيكَ مَالَہُ وَ أَخْرَجَكَ مِنْ ذُلِّ الرِّقِّ وَ وَحْشَتِہِ إِلَى عِزِّ الْحُرِّيَّةِ وَ أُنْسِہَا وَ أَطْلَقَكَ مِنْ أَسْرِ الْمَلَكَةِ وَ فَكَّ عَنْكَ حَلَقَ الْعُبُودِيَّةِ وَ أَوْجَدَكَ رَائِحَةَ الْعِزِّ وَ أَخْرَجَكَ مِنْ سِجْنِ الْقَہْرِ وَ دَفَعَ عَنْكَ الْعُسْرَ وَ بَسَطَ لَكَ لِسَانَ الْإِنْصَافِ وَ أَبَاحَكَ الدُّنْيَا كُلَّہَا فَمَلَّكَكَ نَفْسَكَ وَ حَلَّ أَسْرَكَ وَ فَرَّغَكَ لِعِبَادَةِ رَبِّكَ وَ احْتَمَلَ بِذَلِكَ التَّقْصِيرَ فِي مَالِہِ فَتَعْلَمَ أَنَّہُ أَوْلَى الْخَلْقِ بِكَ بَعْدَ أُولِي رَحِمِكَ فِي حَيَاتِكَ وَ مَوْتِكَ وَ أَحَقُّ الْخَلْقِ بِنَصْرِكَ وَ مَعُونَتِكَ وَ مُكَانَفَتِكَ فِي ذَاتِ اللَّہِ فَلَا تُؤْثِرْ عَلَيْہِ نَفْسَكَ مَا احْتَاجَ إِلَيْكَ أَبَدا

26. آزاد کرنے والے کا حق

لیکن جس مولا نے تمہیں نعمت سے نوازا ہے اور تمہیں آزاد کیا ہے اس کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ تم کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس نے تمہیں آزادی دلانے کے لئے اپنا مال خرچ کیا اور تمہیں غلامی کی ذلت و وحشت سے نکال کر حریت و آزادی کی عزت میں پہنچا دیا، ملکیت کی اسیری سے تمہیں آزاد کیا اور تمہیں غلامی کی زنجیر سے نجات دلائی، تمہارے لیے عدل کی زبان کھولی اور ساری دینا کو تمہارے لیے مباح کردیا اور تمہیں، تمہارے نفس کا مالک بنادیا اور تمہیں زندان سے رہا کرایا اور تمہیں تمہارے پروردگار کی عبادت کے لیے آسودہ خاطر کیا، خود مالی خرچ برداتش کیا جان لو کہ وہ تمہاری حیات و ممات میں تمہارے سارے عزیزوں سے زیادہ تم سے قریب ہے پس وہ راہ خدا میں سب سے زیادہ تمہاری مدد و کمک کا سمتحق ہے جب تک اسے ضرورت ہے اسے اپنے اوپر مقدم کرو۔

وَ أَمَّا حَقُّ مَوْلَاكَ الْجَارِيَةِ عَلَيْہِ نِعْمَتُكَ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّ اللَّہَ جَعَلَكَ حَامِيَةً عَلَيْہِ وَ وَاقِيَةً وَ نَاصِراً وَ مَعْقِلًا وَ جَعَلَہُ لَكَ وَسِيلَةً وَ سَبَباً بَيْنَكَ وَ بَيْنَہُ فَبِالْحَرِيِّ أَنْ يَحْجُبَكَ عَنِ النَّارِ فَيَكُونَ فِي ذَلِكَ ثَوَابُكَ مِنْہُ فِي الْآجِلِ وَ يَحْكُمَ لَكَ بِمِيرَاثِہِ فِي الْعَاجِلِ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَہُ رَحِمٌ مُكَافَاةً لِمَا أَنْفَقْتَہُ مِنْ مَالِكَ عَلَيْہِ وَ قُمْتَ بِہِ مِنْ حَقِّہِ بَعْدَ إِنْفَاقِ مَالِكَ فَإِنْ لَمْ تَخَفْہُ خِيفَ عَلَيْكَ أَنْ لَا يَطِيبَ لَكَ مِيرَاثُہُ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

27. آزاد شدہ کا حق

و غلام تم نے آزاد کردیا اس کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا نے تمہیں اس کا حمایت کرنے والا، پشت پناہ اور مددگار بنایا ہے اور اسے تمہارے اور اپنے درمیان وسیلہ قرار دیا ہے۔ سزاوار ہے کہ وہ تمہیں جہنم سے نجات عطا کرے اور اس کا یہ ثواب آخرت میں تمہیں نصیب ہو اور دینا میں بھی اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو تمہی اس کے وارث ہو کیونکہ تم نے اس پر پیسہ خرچ کیا ہے اور اس کو آزاد کیا ہے اور اس کے حق کو قائم کیا ہے اگر تم ان چیزوں کا خیال نہیں رکھو گے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی میراث تمہارے لئے پاک نہیں ہوگی۔ ولا قوۃ الا باللہ

وَ أَمَّا حَقُّ ذِي الْمَعْرُوفِ عَلَيْكَ فَأَنْ تَشْكُرَہُ وَ تَذْكُرَ مَعْرُوفَہُ وَ تَنْشُرَ بِہِ الْقَالَةَ الْحَسَنَةَ وَ تُخْلِصَ لَہُ الدُّعَاءَ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَ اللَّہِ سُبْحَانَہُ فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ كُنْتَ قَدْ شَكَرْتَہُ سِرّاً وَ عَلَانِيَةً ثُمَّ إِنْ أَمْكَنَكَ مُكَافَاتُہُ بِالْفِعْلِ كَافَأْتَہُ وَ إِلَّا كُنْتَ مُرْصِداً لَہُ مُوَطِّناً نَفْسَكَ عَلَيْہَا

28. احسان کرنے والے کا حق

جس نے تم پر احسان کیا ہے اس کا تم پر یہ حق ہے کہ اس کا شکریہ ادا کرو اور اس کا ذکر خیر کرو اور اس کی اچھی باتوں کو پھیلاؤ اور اس کے لئے خلوص کے ساتھ خدا سے دعا کرو کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو گویا تم نے کھلم کھلا اور خفیہ طور پر اس کا شکریہ ادا کیا پھر اگر تمہاری استطاعت میں ہو تو اس کا بدلہ دو ورنہ اس کے انتظار میں رہو اور اس کام کے لیے خود کو تیار رکھو۔
وَ أَمَّا حَقُّ الْمُؤَذِّنِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّہُ مُذَكِّرُكَ بِرَبِّكَ وَ دَاعِيكَ إِلَى حَظِّكَ وَ أَفْضَلُ أَعْوَانِكَ عَلَى قَضَاءِ الْفَرِيضَةِ الَّتِي افْتَرَضَہَا اللَّہُ عَلَيْكَ فَتَشْكُرَہُ عَلَى ذَلِكَ شُكْرَكَ لِلْمُحْسِنِ إِلَيْكَ وَ إِنْ كُنْتَ فِي بَيْتِكَ مُتَّہَماً لِذَلِكَ لَمْ تَكُنْ لِلَّہِ فِي أَمْرِہِ مُتَّہِماً وَ عَلِمْتَ أَنَّہُ نِعْمَةٌ مِنَ اللَّہِ عَلَيْكَ لَا شَكَّ فِيہَا فَأَحْسِنْ صُحْبَةَ نِعْمَةِ اللَّہِ بِحَمْدِ اللَّہِ عَلَيْہَا عَلَى كُلِّ حَالٍ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

29. مؤذن کا حق

لیکن مؤذن کا حق تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہیں تمہار پروردگار کو یاد دلانے والا ہے اور تمہیں تمہارے حصہ کی طرف بلانے والا ہے اور جو فریضہ خدا نے تم پر واجب کیا ہے اس میں وہ تمہارا بہترین مددگار ہے تمہیں اس کی قدر اسی طرح کرنا چاہئے جس طرح تم اپنے محسن کی قدر کرتے ہو اگر تم اپنے گھر میں اس سے بدگمان ہو تو اس کے اس کام میں بدگمانی نہ کرو جو کہ وہ خدا کے لیے کررہا ہے اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ خدا کی طرف سے تمہارے لیے ایک نعمت ہے پس اللہ کی نعمت کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ہر حال میں اس پر خدا کا شکر ادا کرو۔ لا قوۃ الا باللہ

وَ أَمَّا حَقُّ إِمَامِكَ فِي صَلَاتِكَ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّہُ قَدْ تَقَلَّدَ السِّفَارَةَ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَ اللَّہِ وَ الْوِفَادَةَ إِلَى رَبِّكَ وَ تَكَلَّمَ عَنْكَ وَ لَمْ تَتَكَلَّمْ عَنْہُ وَ دَعَا لَكَ وَ لَمْ تَدْعُ لَہُ وَ طَلَبَ فِيكَ وَ لَمْ تَطْلُبْ فِيہِ وَ كَفَاكَ ہَمَّ الْمُقَامِ بَيْنَ يَدَيِ اللَّہِ وَ الْمَسْأَلَةِ لَہُ فِيكَ وَ لَمْ تَكْفِہِ ذَلِكَ فَإِنْ كَانَ فِي شَيْ‏ءٍ مِنْ ذَلِكَ تَقْصِيرٌ كَانَ بِہِ دُونَكَ وَ إِنْ كَانَ آثِماً لَمْ تَكُنْ شَرِيكَہُ فِيہِ وَ لَمْ‏يَكُنْ لَكَ عَلَيْہِ فَضْلٌ فَوَقَى نَفْسَكَ بِنَفْسِہِ وَ وَقَى صَلَاتَكَ بِصَلَاتِہِ فَتَشْكُرُ لَہُ عَلَى ذَلِكَ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

30. امام جماعت کا حق

لیکن پیش نماز کا تم پر یہ حق ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس نے تمہارے اور خدا کے درمیان رابطہ کی اور تمہیں تمہارے پروردگار کی طرف لے جانے کی ذمہ داری قبول کی ہے اس موقعہ پر وہ تمہاری ترجمانی کرتا ہے اس کی طرف سے تم کچھ بھی نہیں کہتے ہو، وہ تمہارے لئے دعا کرتا ہے تم اس کے لیے دعا نہیں کرتے ہو تمہارے لئے طلب کرتا ہے، تم اس کے لیے طلب نہیں کرتے اس نے خدا کی بارگاہ میں کھڑے ہونے اور تمہارے لئے اس سے سوال کرنے کو اپنے ذمہ لیا ہے جبکہ تم نے اس کی طرف سے کوئی چیز اپنے ذمہ نہیں لی ہے۔ اگر اس کام میں کوئی نقص ہوگا تو اس کا خمیازہ اسی کو بھگتنا پڑے گا نہ کہ تم کو اگر وہ گناہ کریگا تو اس کے گناہ میں تم اس کے شریک نہیں ہو اور اسے تم پر برتری نہیں ہے۔ وہ تمہاری سپر بن گیا ہے اور اپنی نماز کو اس نے تمہاری نماز کی سپر بنادیا ہے۔ لہذا اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ ولاحول و لاقوۃ الا باللہ

وَ أَمَّا حَقُّ الْجَلِيسِ فَأَنْ تُلِينَ لَہُ كَنَفَكَ وَ تُطِيبَ لَہُ جَانِبَكَ وَ تُنْصِفَہُ فِي مجاواة [مُجَارَاةِ اللَّفْظِ وَ لَا تُغْرِقَ فِي نَزْعِ اللَّحْظِ إِذَا لَحَظْتَ وَ تَقْصِدَ فِي اللَّفْظِ إِلَى إِفْہَامِہِ إِذَا لَفَظْتَ وَ إِنْ كُنْتَ الْجَلِيسَ إِلَيْہِ كُنْتَ فِي الْقِيَامِ عَنْہُ بِالْخِيَارِ وَ إِنْ كَانَ الْجَالِسَ إِلَيْكَ كَانَ بِالْخِيَارِ وَ لَا تَقُومَ إِلَّا بِإِذْنِہِ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

31. ہمنشین کا حق

ہمنشین کا حق یہ ہے کہ اس کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔ خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرو اور اسے خوش آمدید کہو۔ اور اس سے گفتگو کے دوران انصاف سے کام لو اس سے یک بیک توجہ نہ ہٹاؤ اور اس سے گفتگو میں تمہارا مقصد اسے سمجھانا ہو، اگر اس ہمنشینی میں تم نے پہل کی ہے اور اس کے ہمنشین بنے ہو تو تمہیں اختیار ہے کہ جس وقت چاہو اٹھو لیکن اگر اس نے تم سے ہمنشینی کا آغاز کیا ہے تو اختیار اس کو ہے مگر یہ کہ تم اس سے اجازت حاصل کرو۔ ولاقوۃ الا باللہ

وَ أَمَّا حَقُّ الْجَارِ فَحِفْظُہُ غَائِباً وَ كَرَامَتُہُ شَاہِداً وَ نُصْرَتُہُ وَ مَعُونَتُہُ فِي الْحَالَيْنِ جَمِيعاً لَا تَتَبَّعْ لَہُ عَوْرَةً وَ لَا تَبْحَثْ لَہُ عَنْ سَوْأَةٍ لِتَعْرِفَہَا فَإِنْ عَرَفْتَہَا مِنْہُ مِنْ غَيْرِ إِرَادَةٍ مِنْكَ وَ لَا تَكَلُّفٍ كُنْتَ لِمَا عَلِمْتَ حِصْناً حَصِيناً وَ سِتْراً سَتِيراً لَوْ بَحَثَتِ الْأَسِنَّةُ عَنْہُ ضَمِيراً لَمْ تَتَّصِلْ إِلَيْہِ لِانْطِوَائِہِ عَلَيْہِ لَا تَسْتَمِعْ عَلَيْہِ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُ لَا تُسْلِمْہُ عِنْدَ شَدِيدَةٍ وَ لَا تَحْسُدْہُ عِنْدَ نِعْمَةٍ تُقِيلُہُ عَثْرَتَہُ وَ تَغْفِرُ زَلَّتَہُ وَ لَا تَذْخَرْ حِلْمَكَ عَنْہُ إِذَا جَہِلَ عَلَيْكَ وَ لَا تَخْرُجْ أَنْ تَكُونَ سِلْماً لَہُ تَرُدُّ عَنْہُ لِسَانَ الشَّتِيمَةِ وَ تُبْطِلُ فِيہِ كَيْدَ حَامِلِ النَّصِيحَةِ وَ تُعَاشِرُہُ مُعَاشَرَةً كَرِيمَةً وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

32. ہمسایہ کا حق

ہمسایہ کا حق یہ ہے کہ اس کی عدم موجود گی میں اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرو اور اس کی موجودگی میں اس کا احترام کرو اور ہرحال میں اسکی مدد و معاونت کرو اس کے راز کی ٹوہ میں نہ رہو اور اس کی کمزوریوں کی تلاش میں نہ رہو پھر اگر نہ چاہتے ہوئے بھی آسانی سے تمہیں اس کی کمزوری معلوم ہو جائے تو تم اس کے لیے محکم و مضبوط قلعہ اور ایسا ضخیم و دبیز پردہ بن جاؤ کہ اگر اسے نیزوں سے بھی تلاش کیا جائے تو بھی اس کا سراغ نہ ملے کیونکہ وہ پیچیدہ اور مستور ہے۔ اور اس کے خلاف باتوں پر کان نہ دھرو کہ اس کو خبر تک نہ ہو اور اسے سختیوں اور مشکلات میں چھوڑ کر الگ نہ ہوجاؤ اور جب اس کے پاس کوئی نعمت دیکھو تو اس پر حسد نہ کرو۔ اس کی لغزشوں سے درگزر اور اس کے گناہوں سے چشم پوشی کرو اور اگر وہ تمہارے بارے میں جہالت کر بیٹھے تو تم اسے برداشت کرو اور اس کے ساتھ مسالمت و صلح آمیز برتاؤ کرو، اس پر سب و شتم نہ کرو اور اگر کسی ناصح نے اسے دھوکا دیا ہے تو تم اس کا سدباب کرو اس کے ساتھ شریف کی طرح بسر کرو۔ ولاقوۃ الا باللہ

وَ أَمَّا حَقُّ الصَّاحِبِ فَأَنْ تَصْحَبَہُ بِالْفَضْلِ مَا وَجَدْتَ إِلَيْہِ سَبِيلًا وَ إِلَّا فَلَا أَقَلَّ مِنَ الْإِنْصَافِ وَ أَنْ تُكْرِمَہُ كَمَا يُكْرِمُكَ وَ تَحْفَظَہُ كَمَا يَحْفَظُكَ وَ لَا يَسْبِقَكَ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَہُ إِلَى مَكْرُمَةٍ فَإِنْ سَبَقَكَ كَافَأْتَہُ وَ لَا تُقَصِّرَ بِہِ عَمَّا يَسْتَحِقُّ مِنَ الْمَوَدَّةِ تُلْزِمْ نَفْسَكَ نَصِيحَتَہُ وَ حِيَاطَتَہُ وَ مُعَاضَدَتَہُ عَلَى طَاعَةِ رَبِّہِ وَ مَعُونَتَہُ عَلَى نَفْسِہِ فِيمَا يَہُمُّ بِہِ مِنْ مَعْصِيَةِ رَبِّہِ ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْہِ رَحْمَةً وَ لَا تَكُونُ عَلَيْہِ عَذَاباً وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

33. ساتھی کا حق

لیکن تمہارے رفیق اور ساتھی کا حق یہ ہے کہ جہاں تک تم سے ہوسکے اس کے ساتھ بخشش و فضل کرتے رہو اور اگر یہ نہ کرسکو تو کم از کم اس کے ساتھ انصاف سے کام لو اور جسطرح وہ تمہارا احترام و اکرام کرتا ہے اسی طرح تم بھی اس کا احترام و اکرام کرو، جس طرح وہ تمہاری حفاظت کی کوشش کرتا ہے اسی طرح تم بھی اس کی حفاظت کی کوشش کرو کسی بھی اچھے کام میں اسے تم سے آگے نہیں جانا چاہطے اور اگر وہ تمہارے اوپر سبقت لے گیا تو تم اسکی تلافی کرو اور اسے اتنی محبت دینے میں دریغ نہ کرو کہ جتنی کا وہ مستحق ہے، تم اپنے اوپر یہ لازم کرلو کہ اس کا خیرخواہ محافظ اور اپنے رب کی طاعت میں اس کے مددگار رہو گے اور اس سلسلہ میں اس کی مدد کروگے کہ وہ اپنے پروردگار کی معصیت کا ارادہ بھی نہیں کروگے پھر تمہیں اس کے لیے محبت کا سرمایہ ہونا چاہئے نہ کہ عذاب کا۔ ولاقوۃ الا باللہ
وَ أَمَّا حَقُّ الشَّرِيكِ فَإِنْ غَابَ كَفَيْتَہُ وَ إِنْ حَضَرَ سَاوَيْتَہُ لَا تَعْزِمْ عَلَى حُكْمِكَ دُونَ حُكْمِہِ وَ لَا تَعْمَلْ بِرَأْيِكَ دُونَ مُنَاظَرَتِہِ تَحْفَظُ عَلَيْہِ مَالَہُ وَ تَنْفِي عَنْہُ خِيَانَتَہُ فِيمَا عَزَّ أَوْ ہَانَ فَإِنَّہُ بَلَغَنَا أَنَّ يَدَ اللَّہِ عَلَى الشَّرِيكَيْنِ مَا لَمْ يَتَخَاوَنَا وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

34. شریک کا حق

شریک کا حق یہ ہے کہ اگر وہ موجود نہ ہو تو تم اس کے امور کو انجام دو اور اگر موجود ہو تو اسے اپنے برابر قرار دو اور اس سے مشورہ کے بغیر کوئی ارادہ و منصوبہ نہ بناؤ اور اس کے لیے اس کے مال کی حفاظت کرو اور اس کے ساتھ کم و زیادہ خیانت نہ کرو کیونکہ ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ دو شریکوں کے اوپر اس وقت تک خدا کا ہاتھ ہے جب تک انہوں نے خیانت نہیں کی ہے۔ ولاقوۃ الا باللہ

وَ أَمَّا حَقُّ الْمَالِ فَأَنْ لَا تَأْخُذَہُ إِلَّا مِنْ حِلِّہِ وَ لَا تُنْفِقَہُ إِلَّا فِي حِلِّہِ وَ لَا تُحَرِّفَہُ عَنْ مَوَاضِعِہِ وَ لَا تَصْرِفَہُ عَنْ حَقَائِقِہِ وَ لَا تَجْعَلَہُ إِذَا كَانَ مِنَ اللَّہِ إِلَّا إِلَيْہِ وَ سَبَباً إِلَى اللَّہِ وَ لَا تُؤْثِرَ بِہِ عَلَى نَفْسِكَ مَنْ لَعَلَّہُ لَا يَحْمَدُكَ وَ بِالْحَرِيِّ أَنْ لَا يُحْسِنَ خِلَافَتَكَ فِي‏ تَرِكَتِكَ وَ لَا يَعْمَلَ فِيہِ بِطَاعَةِ رَبِّكَ فَتَكُونَ مُعِيناً لَہُ عَلَى ذَلِكَ أَوْ بِمَا أَحْدَثَ فِي مَالِكَ أَحْسَنَ نَظَراً لِنَفْسِہِ فَيَعْمَلُ بِطَاعَةِ رَبِّہِ فَيَذْہَبُ بِالْغَنِيمَةِ وَ تَبُوءُ بِالْإِثْمِ وَ الْحَسْرَةِ وَ النَّدَامَةِ مَعَ التَّبِعَةِ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

35. مال کا حق

مال کا حق یہ ہے کہ اسے حلال طریقہ ہی سے حاصل کرو اور حلال راہ میں ہی خرچ کرو اور بیجا خرچ نہ کرو، صحیح راستہ سے منتقل کرو اور جو مال تمہارے پاس ہے وہ خدا کا مال ہے اسے راہِ خدا میں خرچ کرو اور اس چیز میں صَرف کرو جو خدا تک رسائی کا سبب ہو اور جو تمہارا شکرگزار نہیں ہے اسے اپنے اوپر مقدم نہ کرو، تمہارے حق میں یہی بہتر ہے کہ اس سلسلہ میں طاعت ترک نہ کرو کہ وہ دوسروں کے لئے تمہاری میراث بن جاطے اور تم وارث کے معاون قرار پاؤ اور وہ اس کو تم سے بہتر راستہ میں اور طاعت خدا میں خرچ کرے، اسے اس کا فائدہ ہو اور گناہ و افسوس تمہارے حصہ میں آئے، اور خدا کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ الْغَرِيمِ الطَّالِبِ لَكَ فَإِنْ كُنْتَ مُوسِراً أَوْفَيْتَہُ وَ كَفَيْتَہُ وَ أَغْنَيْتَہُ وَ لَمْ تَرُدَّہُ وَ تَمْطُلْہُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّہِ ص قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ وَ إِنْ كُنْتَ مُعْسِراً أَرْضَيْتَہُ بِحُسْنِ الْقَوْلِ وَ طَلَبْتَ إِلَيْہِ طَلَباً جَمِيلًا وَ رَدَدْتَہُ عَنْ نَفْسِكَ رَدّاً لَطِيفاً وَ لَمْ تَجْمَعْ عَلَيْہِ ذَہَابَ مَالِہِ وَ سُوءَ مُعَامَلَتِہِ فَإِنَّ ذَلِكَ لُؤْمٌ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

36. قرض خواہ کا حق

تمہارے قرض خواہ کا حق یہ ہے کہ اگر تمہاری استطاعت میں ہے تو اس کا قرض ادا کردو اور اس کا کام چلادو اور اسے بےنیاز کردو، ٹال مٹول کر کے اسے پریشان نہ کرو کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے: ثروتمند کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور اگرتم ننگ دست ہو تو اس سے نرم لہجہ میں بات کرو، مہلت طلب کرو اور سلیقہ سے واپس کردو کہ تم نے اس کا مال لے رکھا ہے اس سے بدسلوکی نہ کرو کیونکہ یہ پست اور گری ہوئی بات ہے، خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ الْخَلِيطِ فَأَنْ لَا تَغُرَّہُ وَ لَا تَغُشَّہُ وَ لَا تَكْذِبَہُ وَ لَا تُغْفِلَہُ وَ لَا تَخْدَعَہُ وَ لَا تَعْمَلَ فِي انْتِقَاضِہِ عَمَلَ الْعَدُوِّ الَّذِي لَا يَبْقَى عَلَى صَاحِبِہِ وَ إِنِ اطْمَأَنَّ إِلَيْكَ اسْتَقْصَيْتَ لَہُ عَلَى نَفْسِكَ وَ عَلِمْتَ أَنَّ غَبْنَ الْمُسْتَرْسِلِ رِبًا وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

37. معاشر کا حق

تمہارے اوپر معاشرے کا حق یہ ہے کہ اسے فریب نہ دو، اس سے دغا نہ کرو، اس سے چھوٹ نہ بولو، اس کو غافل نہ کرو اور اس کے ساتھ دشمن جیسا سلوک نہ کرو کہ جو مدّمقابل کا کوئی پاس و لحاظ نہیں کرتا ہے اگر وہ تم پر اعتماد کرتا ہے تو جہاں تک ہوسکے اس کے لیے کوشش کرو اور یہ بات تم جانتے ہو کہ اعتماد کرنے والے کو دھوکا دینا سود کی مانند ہے اور خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ الْخَصْمِ الْمُدَّعِي عَلَيْكَ فَإِنْ كَانَ مَا يَدَّعِي عَلَيْكَ حَقّاً لَمْ تَنْفَسِخْ فِي حُجَّتِہِ وَ لَمْ تَعْمَلْ فِي إِبْطَالِ دَعْوَتِہِ وَ كُنْتَ خَصْمَ نَفْسِكَ لَہُ وَ الْحَاكِمَ عَلَيْہَا وَ الشَّاہِدَ لَہُ بِحَقِّہِ دُونَ شَہَادَةِ الشُّہُودِ وَ إِنْ كَانَ مَا يَدَّعِيہِ بَاطِلًا رَفَقْتَ بِہِ وَ رَوَّعْتَہُ وَ نَاشَدْتَہُ بِدِينِہِ وَ كَسَرْتَ حِدَّتَہُ عَنْكَ بِذِكْرِ اللَّہِ وَ أَلْقَيْتَ حَشْوَ الْكَلَامِ وَ لَفْظَةَ السُّوءِ الَّذِي لَا يَرُدُّ عَنْكَ عَادِيَةَ عَدُوِّكَ بَلْ تَبُوءُ بِإِثْمِہِ وَ بِہِ يَشْحَذُ عَلَيْكَ سَيْفَ عَدَاوَتِہِ لِأَنَّ لَفْظَةَ السُّوءِ تَبْعَثُ الشَّرَّ وَ الْخَيْرُ مَقْمَعَةٌ لِلشَّرِّ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

38. مدعی کا حق

جس شخص نے تم پر دعوی کیا ہے اس کا تم پر یہ حق ہے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچا ہے تو اس کی دلیل کو باطل نہ قرار دو اور اس کے دعوے پر خط تنسیخ نہ کھینچو بلکہ اس موقع ر تم اپنے مخالف بن جاؤ اور اس کے حق میں اپنے خلاف فیصلہ کرو اور گواہوں کی گواہی کے بغیر اس کے حق کے گواہ بن جاؤ کیونکہ یہ تمہارے اوپر خدا کا حق ہے اور اگر اس نے تمہارا اوپر جھوٹا دعوی کیا ہے تو اس کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ، اس کو ڈراؤ، اسے اس کے دین کی قسم دو اور خدا کو یاد دلا کر اس کی شدت و تندی کو گھٹاؤ، اس کے ساتھ سخت کلاس یے پیش نہ آؤ کیونکہ یہ کام دشمن کے ظلم کو تم سے نہیں ہٹا سکتا، بلکہ اس سے تم گناہ کے مرتکب ہوگے اور اس کے باعث دشمن کی تلوار تمہارے لئے اور زیادہ تیز ہوجائے گی کیونکہ بری بات شرانگیز ہوتی ہے جبکہ نیک اور اچھی بات برائی کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ اور خدا کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔

وَ أَمَّا حَقُّ الْخَصْمِ الْمُدَّعَى عَلَيْہِ فَإِنْ كَانَ مَا تَدَّعِيہِ حَقّاً أَجْمَلْتَ فِي مُقَاوَلَتِہِ بِمَخْرَجِ الدَّعْوَى فَإِنَّ لِلدَّعْوَى غِلْظَةً فِي سَمْعِ الْمُدَّعَى عَلَيْہِ وَ قَصَدْتَ قَصْدَ حُجَّتِكَ بِالرِّفْقِ وَ أَمْہَلِ الْمُہْلَةِ وَ أَبْيَنِ الْبَيَانِ وَ أَلْطَفِ اللُّطْفِ وَ لَمْ تَتَشَاغَلْ عَنْ حُجَّتِكَ بِمُنَازَعَتِہِ بِالْقِيلِ وَ الْقَالِ فَتَذْہَبَ عَنْكَ حُجَّتُكَ وَ لَا يَكُونَ لَكَ فِي ذَلِكَ دَرَكٌ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

39. مدعی علیہ کا حق

لیکن جس پر تم نے دعوی کیا ہے اس کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ اگر تم اس دعوے میں حق بجانب ہو تو اس سے حق لینے کے لیے تحمل اور صبر سے کام لو کیونکہ مدعا علیہ کیلیے دعوی شدید جھٹکا ہے اسے آرام کے ساتھ اپنی دلیل سمجھاؤ اسے مہلت دو اور واضح و روشن بیان کے ذریعہ اس سے پوری مہربان کے ساتھ پیش آؤ اور اس کے ساتھ قیل و قال سے جو جھگڑا ہوجاتا ہے اس کے سبب اپنی دلیل سے دست کشی اختیار نہ کرو کہ تمہارے ہاتھ سے دلیل نکل جائے اور پھر تم اس کی تلافی نہ کرسکو۔ خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔

وَ أَمَّا حَقُّ الْمُسْتَشِيرِ فَإِنْ حَضَرَكَ لَہُ وَجْہُ رَأْيٍ جَہَدْتَ لَہُ فِي النَّصِيحَةِ وَ أَشَرْتَ عَلَيْہِ بِمَا تَعْلَمُ أَنَّكَ لَوْ كُنْتَ مَكَانَہُ عَمِلْتَ بِہِ وَ ذَلِكَ لِيَكُنْ مِنْكَ فِي رَحْمَةٍ وَ لِينٍ فَإِنَّ اللِّينَ يُونِسُ الْوَحْشَةَ وَ إِنَّ الْغِلَظَ يُوحِشُ مِنْ مَوْضِعِ الْأُنْسِ وَ إِنْ لَمْ يَحْضُرْكَ لَہُ رَأْيٌ وَ عَرَفْتَ لَہُ مَنْ تَثِقُ بِرَأْيِہِ وَ تَرْضَى بِہِ لِنَفْسِكَ دَلَلْتَہُ عَلَيْہِ وَ أَرْشَدْتَہُ إِلَيْہِ فَكُنْتَ لَمْ‏تَأْلُہُ خَيْراً وَ لَمْ تَدَّخِرْہُ نُصْحاً وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

40. مشورہ لینے والے کا حق

جو تم سے مشورہ لیتا ہے اس کا حق یہ ہے کہ اگر اس کے کام کے بارے میں تمہارے پاس کوئی رائے ہے تو اس کی نصیحت و خیرخواہی کے لیے کوشش کرو اور تم جو کچھ جانتے ہو وہ اسے سمجھاؤ اور اس سے یہ کہو کہ اگر تم اس کی جگہ ہوتے تو اس پر عمل کرتے یہ اس لیے ہے تاکہ تمہاری طرف سے اس پر مہربانی ہو کیونکہ نرمی و مہربانی وحشت کو ختم کردیتی ہے سختی وحشت پیدا کرتی ہے اور اگر تم اسے کوئی مشورہ نہیں دے سکتے لیکن تمہاری نظر میں کوئی ایسا آدمی ہو جس پر تمہیں اعتماد ہے اور اس سے مشورہ لینے کو پسند کرتے ہو تو اس کی طرف اس کی راہنمائی کردو اور اسے اس کا پتا بتادو اس کے بارے میں کوئی کوتاہی نہ کرو اور اس کو نصیحت کرنے میں دریغ نہ کرو، خدا کی پناہ کے علاوہ کوئی پناہ نہیں اور اس کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ الْمُشِيرِ عَلَيْكَ فَلَا تَتَّہِمْہُ فِيمَا يُوَافِقُكَ عَلَيْہِ مِنْ رَأْيِہِ إِذَا أَشَارَ عَلَيْكَ فَإِنَّمَا ہِيَ الْآرَاءُ وَ تَصَرُّفُ النَّاسِ فِيہَا وَ اخْتِلَافُہُمْ فَكُنْ عَلَيْہِ فِي رَأْيِہِ بِالْخِيَارِ إِذَا اتَّہَمْتَ رَأْيَہُ فَأَمَّا تُہَمَتُہُ فَلَا تَجُوزُ لَكَ إِذَا كَانَ عِنْدَكَ مِمَّنْ يَسْتَحِقُّ الْمُشَاوَرَةَ وَ لَا تَدَعْ شُكْرَہُ عَلَى مَا بَدَا لَكَ مِنْ إِشْخَاصِ رَأْيِہِ وَ حُسْنِ وَجْہِ مَشُورَتِہِ فَإِذَا وَافَقَكَ حَمِدْتَ اللَّہَ وَ قَبِلْتَ ذَلِكَ مِنْ أَخِيكَ بِالشُّكْرِ وَ الْإِرْصَادِ بِالْمُكَافَاةِ فِي مِثْلِہَا إِنْ فَزِعَ إِلَيْكَ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

41. مشاور کا حق

لیکن جو تمہارا مشیر ہے اور تمہیں مشورہ دیتا ہے اس کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ اگر اس کی رائے تمہارے موافق نہ ہو تو تم اسے متہم نہ کرو، کیونکہ نظریات اور رایوں کے لحاظ سے لوگ مختلف ہوتے ہیں پھر اگر اس کی رائے میں تمہیں کوئی خرابی نظر آئے تو تمہیں اختیار ہے لیکن اسے متہم کرنا جائز نہیں ہے خصوصاً جب تمہارے نزدیک اس میں مشورت کے شرائط پائے جاتے ہوں۔ اور اگر وہ تمہیں نیک مشورہ دے تو اس کے شکریہ اور خدا کی حمد و ثناء کو فراموش نہ کرو اور اس انتظار میں رہو کہ اگر وہ کبھی تم سے مشورہ کرے تو تم اسے اسکی جزاء ایسی ہی دو۔ خدا کے علاہ کوئی طاقت نہیں۔
وَ أَمَّا حَقُّ الْمُسْتَنْصِحِ فَإِنَّ حَقَّہُ أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَيْہِ النَّصِيحَةَ عَلَى الْحَقِّ الَّذِي تَرَى لَہُ أَنْ يَحْمِلَ وَ يَخْرُجَ الْمَخْرَجَ الَّذِي يَلِينُ عَلَى مَسَامِعِہِ وَ تُكَلِّمَہُ مِنَ الْكَلَامِ بِمَا يُطِيقُہُ عَقْلُہُ فَإِنَّ لِكُلِّ عَقْلٍ طيقة [طَبَقَةً مِنَ الْكَلَامِ يَعْرِفُہُ وَ يُجِيبُہُ وَ لْيَكُنْ مَذْہَبُكَ الرَّحْمَةَ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

42. نصیحت طلب کرنے والے کاحق

جو تم سے نصیحت چاہتا ہے اس کا حق یہ ہے کہ اسے اتنی نصیحت کرو جتنا اس کا استحقاق ہے اور جتنی کو وہ برداشت کرسکتا ہے اور اس انداز میں نصیحت کرو کہ اس کے کان کو بھلی لگے، اس سے اس کی عقل کے مطابق بات کرو کیونکہ ہر عقل کے لیے ایک مخصوص انداز سخن ہوتا ہے وہ اسی کو سمجھتی ہے اور تمہارا انداز و چلن نرم ہونا چاہئے۔
وَ أَمَّا حَقُّ النَّاصِحِ فَأَنْ تُلِينَ لَہُ جَنَاحَكَ ثُمَّ تَشْرَئِبَّ لَہُ قَلْبَكَ وَ تَفْتَحَ لَہُ سَمْعَكَ حَتَّى تَفْہَمَ عَنْہُ نَصِيحَتَہُ ثُمَّ تَنْظُرَ فِيہَا فَإِنْ كَانَ وُفِّقَ فِيہَا لِلصَّوَابِ حَمِدْتَ اللَّہَ عَلَى ذَلِكَ وَ قَبِلْتَ مِنْہُ وَ عَرَفْتَ لَہُ نَصِيحَتَہُ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ وُفِّقَ لَہَا فِيہَا رَحِمْتَہُ وَ لَمْ تَتَّہِمْہُ وَ عَلِمْتَ أَنَّہُ لَمْ يَأْلُكَ نُصْحاً إِلَّا أَنَّہُ أَخْطَأَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ عِنْدَكَ مُسْتَحِقّاً لِلتُّہَمَةِ فَلَا تَعْنِي بِشَيْ‏ءٍ مِنْ أَمْرِہِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

43. نصیحت کرنے والے کا حق

نصیحت کرنے والے کا حق یہ ہے کہ اس سے نرمی و خاکساری کے ساتھ پیش آؤ قلبی طور پر اس کی طرف جھک جاؤ اور اس کی طرف کان لگاؤ تاکہ اس کی بات کو سمجھ جاؤ، پھر اس کی نصیحت کے بارے میں غور کرو اگر اس کی بات صحیح ہے تو اس پر خدا کا شکر داد کرو اور اس کو قبول کرلو اور اس کی نصیحت کی قدر کرو اور اگر اس کی بات صحیح نہیں ہے تو اس پر مہربان رہو اور اس کو متہم نہ کرو، تمہیں یہ معلوم ہوناچاہئے کہ اس نے تمہاری خیرخواہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے ہاں اس سے غلطیہ ہوطِ ہے، اگر وہ تمہارے نہزدیک تہمت کا مستحق ہو تو پھر کسی بھی حال میں اس کی بات پر اعتماد نہ کرو خدا کی عنایت و قدرت کے علاوہ کوئی طاقت و قدرت نہیں ہے۔
وَ أَمَّا حَقُّ الْكَبِيرِ فَإِنَّ حَقَّہُ تَوْقِيرُ سِنِّہِ وَ إِجْلَالُ إِسْلَامِہِ إِذَا كَانَ مِنْ أَہْلِ الْفَضْلِ فِي الْإِسْلَامِ بِتَقْدِيمِہِ فِيہِ وَ تَرْكُ مُقَابَلَتِہِ عِنْدَ الْخِصَامِ لَا تَسْبِقُہُ إِلَى طَرِيقٍ وَ لَا تَؤُمُّہُ فِي طَرِيقٍ وَ لَا تَسْتَجْہِلُہُ وَ إِنْ جَہِلَ عَلَيْكَ تَحَمَّلْتَ وَ أَكْرَمْتَہُ بِحَقِّ إِسْلَامِہِ مَعَ سِنِّہِ فَإِنَّمَا حَقُّ السِّنِّ بِقَدْرِ الْإِسْلَامِ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

44. بزرگ کا حق

بزرگ کا حق یہ ہے کہ ان کی عمر کی وجہ سے ان کا احترام کرو اور اسلام کی وجہ سے اسے کا احترام کرو کیونکہ اسلام لانے میں تم سے سبقت لینے کی وجہ سے کوئی فضیلت ملی ہو۔ اگر وہ تم سے اختلاف کریں تو ان کا مقابلہ نہ کرو۔ اور اگر ساتھ چلنے کا موقع ملے تو ان پر سبقت نہ لو اور ان سے آگے نہ چلو۔ اگر وہ کسی بات سے ناواقف ہوں تو ان کی نادانی کو ان کے سامنے بیان نہ کرو اور اگر انہوں نے تمہیں نادان کہہ دیا تو برداشت کرو۔ کیونکہ اسلام کے ساتھ ساتھ عمر میں بھی تم سے بڑا ہے کیونکہ عمر کی قدر قیمت اسلام کی وجہ سے ہے ۔ لاقوۃ الا باللہ
وَ أَمَّا حَقُّ الصَّغِيرِ فَرَحْمَتُہُ وَ تَثْقِيفُہُ وَ تَعْلِيمُہُ وَ الْعَفْوُ عَنْہُ وَ السَّتْرُ عَلَيْہِ وَ الرِّفْقُ بِہِ وَ الْمَعُونَةُ لَہُ وَ السَّتْرُ عَلَى جَرَائِرِ حَدَاثَتِہِ فَإِنَّہُ سَبَبٌ لِلتَّوْبَةِ وَ الْمُدَارَاةُ لَہُ وَ تَرْكُ مُمَاحَكَتِہِ فَإِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى لِرُشْدِہِ‏

45. چھوٹے کا حق

چھوٹوں کا بزرگوں پر حق یہ ہے کہ وہ ان پر مہربانی کریں اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے کوشش کریں۔ ان کی غلطیوں کو نظرانداز کریں، ان کی خطاؤں پر پردہ ڈالیں، ان سے رواداری برتیں اور مشکلات میں ان کی مدد کریں۔ اگر جوانی کی وجہ سے ان سے کوئی نادانی ہوجائے تو اس کو پوشیدہ رکھیں کیونکہ یہ عمل ان کے توبہ کرنے کا سبب بنے گا۔ ان سے تکرار نہ کریں کیونکہ یہ ان کی ترقی میں رکاوٹ بنے گا۔
وَ أَمَّا حَقُّ السَّائِلِ فَإِعْطَاؤُہُ إِذَا تہبأت [تَہَيَّأَتْ صَدَقَةٌ وَ قَدَرْتَ عَلَى سَدِّ حَاجَتِہِ وَ الدُّعَاءُ لَہُ فِيمَا نَزَلَ بِہِ وَ الْمُعَاوَنَةُ لَہُ عَلَى طَلِبَتِہِ وَ إِنْ شَكَكْتَ فِي صِدْقِہِ وَ سَبَقَتْ إِلَيْہِ التُّہَمَةُ لَہُ لَمْ تَعْزِمْ عَلَى ذَلِكَ وَ لَمْ تَأْمَنْ أَنْ يَكُونَ مِنْ كَيْدِ الشَّيْطَانِ أَرَادَ أَنْ يَصُدَّكَ عَنْ حَظِّكَ وَ يَحُولَ بَيْنَكَ وَ بَيْنَ التَّقَرُّبِ إِلَى رَبِّكَ وَ تَرَكْتَہُ بِسَتْرِہِ وَ رَدَدْتَہُ رَدّاً جَمِيلًا وَ إِنْ غَلَبَتْ نَفْسُكَ فِي أَمْرِہِ وَ أَعْطَيْتَہُ عَلَى مَا عَرَضَ فِي نَفْسِكَ مِنْہُ فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ

46. سائل کا حق

سائل کا حق یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس صدقہ تیار ہے تو اسے دیدو اور اس کی ضرورت کو پورا کردو اور اس کی ناداری کے برطرف ہونے کی دعا کرو اور اس کی طلب میں اس کی مدد کرو اور اگر تمہیں اس کی صدق بیانی میں شک ہو اور اس سلسلہ میں اس پر پہلے تمہت لگائی جاچکی ہو اور تمہیں اس کا یقین نہ ہو تو اس تہمت کی پروا نہ کرو ہوسکتا ہے تمہیں تمہارے حصہ سے محروم کرنا چاہتا ہو اور وہ تمہارے اور تمہارے رب کے تقرّب میں حائل ہونا چاہتا ہو۔ لہذا اسے اس کے حال پر چھوڑ دو اور اسے شائستہ جواب دو اور اس صورت میں بھی اگر اسے کچھ دیدو تو یہ بہت اچھا ہے۔

وَ أَمَّا حَقُّ الْمَسْئُولِ إِنْ أَعْطَى فَاقْبَلْ مِنْہُ مَا أَعْطَى بِالشُّكْرِ لَہُ وَ الْمَعْرِفَةِ لِفَضْلِہِ وَ اطْلُبْ وَجْہَ الْعُذْرِ فِي مَنْعِہِ وَ أَحْسِنْ بِہِ الظَّنَّ وَ اعْلَمْ أَنَّہُ إِنْ مَنَعَ مَالَہُ مَنَعَ وَ أَنْ لَيْسَ التَّثْرِيبُ فِي مَالِہِ وَ إِنْ كَانَ ظَالِماً فَ إِنَّ الْإِنْسانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ

47. مسئول کا حق

جس سے سوال کیا جاتا ہے، جس سے طلب کیا جاتا ہے اس کا حق یہ ہے کہ اگر اس نے کچھ دیا ہے تو اسے شکریہ کے ساتھ قبول کرلو اور اسکی قدر کرو اور اگر وہ کچھ نہ دے سکے تو اسے معاف کردے اور اس کے بارے میں حسن ظن رکھے اور یہ جان لو کہ اگر منع کیا ہے تو اپنے ہی ضرر میں منع کیا ہے اس میں اس کا کوئی نقصان نہیں ہے خواہ وہ ظالم ہی ہو کیونکہ انسان ظالم ہے اور حق کو چھپانے والا ہے۔

وَ أَمَّا حَقُّ مَنْ سَرَّكَ اللَّہُ بِہِ وَ عَلَى يَدَيْہِ فَإِنْ كَانَ تَعَمَّدَہَا لَكَ حَمِدْتَ اللَّہَ أَوَّلًا ثُمَّ شَكَرْتَہُ عَلَى ذَلِكَ بِقَدْرِہِ فِي مَوْضِعِ الْجَزَاءِ وَ كَافَأْتَہُ عَلَى فَضْلِ الِابْتِدَاءِ وَ أَرْصَدْتَ لَہُ الْمُكَافَاةَ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ تَعَمَّدَہَا حَمِدْتَ اللَّہَ وَ شَكَرْتَہُ وَ عَلِمْتَ أَنَّہُ مِنْہُ تَوَحَّدَكَ بِہَا وَ أَحْبَبْتَ ہَذَا إِذْ كَانَ سَبَباً مِنْ أَسْبَابِ نِعَمِ اللَّہِ عَلَيْكَ وَ تَرْجُو لَہُ بَعْدَ ذَلِكَ خَيْراً فَإِنَّ أَسْبَابَ النِّعَمِ بَرَكَةٌ حَيْثُ مَا كَانَتْ وَ إِنْ كَانَ لَمْ يَتَعَمَّدْ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

48. خوش کرنے والے کا حق

جس شخص کے ذریعہ خدا نے تمہیں خوش و مسرور کیا ہے اس کا حق یہ ہے کہ اگر اس کا ارادہ تمہیں خوش کرنا تھا تو پہلے اس کا شکریہ ادا کرو اور پھر اسے اتنی جزاء دو کہ جتنا اس نے تمہیں خوش کیا ہے اور ہمیشہ اس کے احسان کا بدلہ چکانے کی فکر میں رہو اور اگر اس کا ارادہ تمہیں خوش کرنا نہیں تہآ تو خدا کی حمد اور اس کا شکر ادا کرو اور یہ جان لو کہ یہ خوشی اسی کی طرف سے ہے اور چونکہ وہ تمہارے لئے خدا کی نعمتوں کا سبب بنا ہے اس لئے اس سے محبت کرو اور اس کے لیے خیرخواہ رہو۔ کیونکہ نعمتوں کے اسباب بھی نعمت ہیں چاہے کہیں ابھی ہوں اور وہ اس کا قصد بھی نہ رکھتا ہو۔

وَ أَمَّا حَقُّ مَنْ سَاءَكَ الْقَضَاءُ عَلَى يَدَيْہِ بِقَوْلٍ أَوْ فِعْلٍ فَإِنْ كَانَ تَعَمَّدَہَا كَانَ الْعَفْوُ أَوْلَى بِكَ لِمَا فِيہِ لَہُ مِنَ الْقَمْعِ وَ حُسْنِ الْأَدَبِ مَعَ كَبِيرِ أَمْثَالِہِ مِنَ الْخَلْقِ فَإِنَّ اللَّہَ يَقُولُ وَ لَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہِ فَأُولئِكَ ما عَلَيْہِمْ مِنْ سَبِيلٍ إِلَى قَوْلِہِ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ وَ قَالَ عَزَّ وَ جَلَّ وَ إِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِہِ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ ہَذَا فِي الْعَمْدِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عَمْداً لَمْ تَظْلِمْہُ بِتَعَمُّدِ الِانْتِصَارِ مِنْہُ فَتَكُونَ قَدْ كَافَأْتَہُ فِي تَعَمُّدٍ عَلَى خَطَاءٍ وَ رَفَقْتَ بِہِ وَ رَدَدْتَہُ بِأَلْطَفِ مَا تَقْدِرُ عَلَيْہِ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

49. تمہارے ساتھ برائی کرنے والے کا حق

لیکن اس کا حق کہ جس نے قول و فعل سے تمہارے ساتھ برائی کی ہے اگر اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو بہتر یہ ہے کہ اس سے درگزر کرو تاکہ کدورت کی جڑ کٹ جائے اور خلقِ خدا میں سے اس جیسے بہت سے لوگوں کے ساتھ شائستہ طریقہ سے پیش آؤ کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد ہے: جس نے اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد انتقام لے لیا تو اس پر کوئی الزام نہیں ہے۔۔۔۔۔ نیز ارشاد ہے: یہ کام صحیح ہے پھر فرمایا: اگر سزا دو تو ویسی ہی سزا دو جیسی تمہیں دی گئی تھی لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ صابروں کے لیے بہتر ہے یہ تو عمدی صورت میں ہے۔ لیکن اگر جان بوجھ کر بدی کی ہو تم تم جان بوجھ کر اس پر ظلم نہ کرو اگر تم جان بوجھ کر اس کے ساتھ بدی کرو گے تو خطاکار قرار پاؤ گے۔ جہاں تک ہوسکے اس کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ اور اس کے ساتھ محبت آمیز سلوک کرو۔

وَ أَمَّا حَقُّ أَہْلِ بَيْتِكَ عَامَّةً فَإِضْمَارُ السَّلَامَةِ وَ نَشْرُ جَنَاحِ الرَّحْمَةِ وَ الرِّفْقُ بِمُسِيئِہِمْ وَ تَأَلُّفُہُمْ وَ اسْتِصْلَاحُہُمْ وَ شُكْرُ مُحْسِنِہِمْ إِلَى نَفْسِہِ وَ إِلَيْكَ فَإِنَّ إِحْسَانَہُ إِلَى نَفْسِہِ إِحْسَانُہُ إِلَيْكَ إِذَا كَفَّ عَنْكَ أَذَاہُ وَ كَفَاكَ مَئُونَتَہُ وَ حَبَسَ عَنْكَ نَفْسَہُ فَعُمَّہُمْ‏ جَمِيعاً بِدَعْوَتِكَ وَ انْصُرْہُمْ جَمِيعاً بِنُصْرَتِكَ وَ أَنْزِلْہُمْ جَمِيعاً مِنْكَ مَنَازِلَہُمْ كَبِيرَہُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ وَ صَغِيرَہُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ وَ أَوْسَطَہُمْ بِمَنْزِلَةِ الْأَخِ فَمَنْ أَتَاكَ تَعَاہَدْتَہُ بِلُطْفٍ وَ رَحْمَةٍ وَ صِلْ أَخَاكَ بِمَا يَجِبُ لِلْأَخِ عَلَى أَخِيہِ

50. ہم مذہب کا حق

عام طور سے تمہارے ہم مذہب کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تہہ دل سے ان کی خیریت و سلامتی طلب کرو اور ان کے لئے رحم و مہربانی کے پر پھیلاؤ اور ان کی خاطر تواضع کرو ان سے انس و الفت پیدا کرو، ان کی اصلاح کرو اور اس کا شکریہ ادا کرو کہ جس نے اپنے، ان کے اور تمہارے اوپر احسان کیا ہے کیونکہ اس کا اپنے اوپر احسان کرنا ایسا ہی ہے جیسا تمہارے اوپر احسان کیا ہو اس لئے کہ تہیں اذیت و تکلیف نہیں دی ہے اور اپنے خرچ سے تمہیں بےنیاز رکھا ہے اور اپنے کو تم سے باز رکھا ہے پس تم ان سب کے لیے دعا کرو اور اپنی نصرت سے ان سب کی مدد کرو اور ان میں سے ہر ایک کیلئے ایک مخصوص مقام و مرتبہ قرار دو۔ ان کے بزرگ کو اپنے والد کی جگہ سمجھو اور ان کے بچوں کو اپنی اولاد کے برابر سمجھو اور درمیانی عمر والے کو اپنا بھائی قرار دو جو بھی تمہارے پاس آئے، لطف و مہربانی سے اس کی دل جوئی کرو اور اپنے بھائی کو بھائی کے حق سے مالا مال کردو۔

وَ أَمَّا حَقُّ أَہْلِ الذِّمَّةِ فَالْحُكْمُ فِيہِمْ أَنْ تَقْبَلَ مِنْہُمْ مَا قَبِلَ اللَّہُ وَ تَفِيَ بِمَا جَعَلَ اللَّہُ لَہُمْ مِنْ ذِمَّتِہِ وَ عَہْدِہِ وَ تُكَلِّمَہُمْ إِلَيْہِ فِيمَا طُلِبُوا مِنْ أَنْفُسِہِمْ وَ أُجْبِرُوا عَلَيْہِ وَ تَحْكُمَ فِيہِمْ بِمَا حَكَمَ اللَّہُ بِہِ عَلَى نَفْسِكَ فِيمَا جَرَى بَيْنَكَ وَ بَيْنَہُمْ مِنْ مُعَامَلَةٍ وَ لْيَكُنْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَ ظُلْمِہِمْ مِنْ رِعَايَةِ ذِمَّةِ اللَّہِ وَ الْوَفَاءِ بِعَہْدِہِ وَ عَہْدِ رَسُولِہِ ص حَائِلٌ فَإِنَّہُ بَلَغَنَا أَنَّہُ قَالَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاہَداً كُنْتُ خَصْمَہُ فَاتَّقِ اللَّہَ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ

51. اہل کتاب کا حق

لیکن اہل ذمہ یعنی اسلام کی پناہ میں رہنے والوں کا حق یہ ہے کہ ان کی اس چیز کو قبول کرلو جس کو خدا نے قبول کیا ہے اور اس عہد و ذمہ داری کو پورا کرو جو خدا نے ان کے لیے مقرر کی ہے اور اگر وہ مجبور ہوں یا اسے چاہیں تو وہ انہیں دو ارو ان سے معاملہ میں خدا کے حکم پر عمل کرو اور چونکہ وہ اسلامی کی پناہ میں ہیں لہذا خدا اور رسول اللہؐ کے عہد و پیمان کو وفا کرنے کے لیے ان پر پلم نہ کرو کیونکہ ہم تک یہ بات پہنچتی ہے کہ فرمایا: جس نے اس شخص پر ظلم کیا جس سے معاملہ کیا ہے میں اس کا دشمن و مخالف ہوں، اللہ سے ڈر خدا کی طاقت و قوت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔

فَہَذِہِ خَمْسُونَ حَقّاً مُحِيطَةً بِكَ لَا تَخْرُجْ مِنْہَا فِي حَالٍ مِنَ الْأَحْوَالِ يَجِبُ عَلَيْكَ رِعَايَتُہَا وَ الْعَمَلُ فِي تَأْدِيَتِہَا وَ الِاسْتِعَانَةُ بِاللَّہِ جَلَّ ثَنَاؤُہُ عَلَى ذَلِكَ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ وَ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعالَمِين‏ یہ پچاس حق ہیں جو تمہارے پورے وجود کو ڈھانکے ہوئے ہیں اور زندگی کے کسی موڑ پر بھی تم ان کے احاطہ سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ان کی رعایت کرنے اور ان کو ادا کرنے کی کوشش کرنا تمہارے اوپر واجب ہے اور خدا سے مدد طلب کرو تاکہ وہ تمہیں ان حقوق کو ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قدرت نہیں ہے۔ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جو عالمین کا پروردگار ہے۔

نوٹ

  1. اگرچہ یہ حق تحف العقول کی روایت میں ذکر نہیں ہوا ہے لیکن خصال شیخ صدوق میں اس کو بھی ذکر کیا ہے۔

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: ابن‌شعبہ حرانی، تحف‌ العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۵۵تا۲۷۲؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴تا۵۷۰؛ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸تا۶۲۵؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸تا۳۷۵۔
  2. صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴۔
  3. حسینی جلالی، جہاد امام سجاد، ۱۳۸۲ش، ص۲۹۳۔
  4. نجاشی، رجال‌النجاشی، ۱۳۶۵ق، ص۱۱۵۔
  5. ابن ‌شعبہ حرانی، تحف‌ العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۵۵تا۲۷۲۔
  6. صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴تا۵۷۰۔
  7. صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸تا۶۲۵۔
  8. صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸تا۳۷۵۔
  9. محدث نوری، مستدرک‌ الوسایل، ۱۴۰۸ق، ج۱۱، ص۱۶۹۔
  10. ملاحظہ کریں: محدث نوری، مستدرک ‌الوسایل، ۱۴۰۸ق، ج۱۱، ص۱۶۹ (پانویس)۔
  11. حسینی جلالی، جہاد امام سجاد، ۱۳۸۲ش، ص۲۸۹۔
  12. ملاحظہ کریں: ابن ‌شعبہ حرانی، تحف‌ العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۵۵و۲۵۶؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴و۵۶۵۔
  13. ملاحظہ کریں: صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸۔
  14. ملاحظہ کریں: صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸۔
  15. ملاحظہ کریں: ابن‌شعبہ حرانی، تحف‌ العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۵۵؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴؛ من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸۔
  16. ملاحظہ کریں: ابن‌ شعبہ حرانی، تحف‌العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۷۲.
  17. صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۷۰؛‌ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۲۵؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۷۵.
  18. ملاحظہ کریں: صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴.
  19. حسینی جلالی، جہاد امام سجاد، ۱۳۸۲ش، ص۲۹۴.
  20. حسینی جلالی، جہاد امام سجاد، ۱۳۸۲ش، ص۲۹۴.
  21. حسینی جلالی، جہاد امام سجاد، ۱۳۸۲ش، ص۲۹۴تا۲۹۷.
  22. حسینی جلالی، جہاد امام سجاد، ۱۳۸۲ش، ص۳۰۵تا۳۰۷.

مآخذ

  • ابن ‌شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف‌ العقول عن آل‌ الرسول، تحقیق علی‌ اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، ۱۴۰۴ھ۔
  • حبیبی، سلمان و مختار شمس‌ الدینی مطلق، کتاب‌ شناسی امام سجاد، صحیفہ سجادیہ و رسالہ حقوق، تہران، مجمع جہانی اہل ‌بیت، چاپ اول، ۱۳۹۴ش۔
  • حسینی جلالی، سید محمد رضا، جہاد امام سجاد، ترجمہ موسی دانش، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۲ش۔
  • حسینی جلالی، سید محمد رضا، «رسالۃالحقوق»، دانشنامہ جہان اسلام، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۳ش۔
  • سپہری، محمد، ترجمہ و شرح رسالۃالحقوق امام سجاد، قم، دار العلم، چاپ ہشتم، ۱۳۸۴ش۔
  • صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، ۱۳۷۶ش۔
  • صدوق، محمد بن علی،الخصال، تحقیق علی‌ اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، ۱۳۶۲ش۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تحقیق علی‌ اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال ‌النجاشی، قم، جامعہ مدرسین، چاپ ششم، ۱۳۶۵ش۔
  • محدث نورى، حسين بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل‏، مؤسسہ آل‌ البیت علیہم‌ السلام، چاپ اول، ‏۱۴۰۸ھ۔

مزید مطالعہ

رسالۃ الحقوق امام سجاد اردو ترجمہ مجمع جہانی اہل بیت