فطحیہ

ویکی شیعہ سے
فطحیہ
ایک شیعہ فرقہ
عمومی معلومات
بانیعبد اللہ افطح
مبداءامام کاظمؑ کی امامت کے زمانے سے
علل پیدائشامام صادقؑ کے فرزند عبد اللہ کی جانب سے امامت کا دعوا
مذہبی معلومات
از فرقشیعہ
رہبران/ائمہعبد اللہ افطح


فَطَحیّہ یا أفطَحیہ امام جعفر صادقؑ کے فرزند عبد الله کے پیروکاروں کو کہا جاتا ہے جو اَفطَح کے نام سے مشہور تھا۔ شیعوں کے چھٹے امام، امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے بعد آپ کے بڑے بیٹے عبد اللہ نے آپ کی جانشینی کا دعوا کیا۔ انہوں نے اپنے والد ماجد امام جعفر صادقؑ سے ایک حدیث نقل کرتے ہوئے کہ ہر امام کی امامت اس کے بڑے بیٹے کی طرف منتقل ہوتی ہے، بعض لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کیا۔

اس کا یہ ادعا زیادہ دیر قائم نہیں رہا اور عبد اللہ امام صادقؑ کی شہادت کے 70 دن بعد اس دنیا سے چلا گیا۔ چونکہ اس کا کوئی بیٹا یا جانشین نہیں تھا اس بنا پر اس کی موت کے ساتھ ان کے ماننے والے حیران و پریشان رہ گئے، ان میں سے اکثر امام کاظمؑ کی امامت کی طرف واپس آ گئے یوں اس فرقے کی عمر اپنے ظہور کے ابتدائی ایام میں ہی ختم ہو گئی۔

بعض شیعہ بزرگان جیسے بنی فضّال بھی عبد اللہ افطح کی امامت کے قائل ہوگئے تھے؛ لیکن ان میں سے بہت ساروں نے عبد اللہ کی موت سے پہلے یا موت کے بعد اس عقیدے سے ہاتھ اٹھا لیا تھا۔

وجہ تسمیہ

ان لوگوں کو فطحیہ یا افطحیہ کہنے کے بارے میں درج ذیل دو وجوہات ذکر کی گئ ہیں:

  • عبداللہ کی افطح سے شہرت اس کے سر کی جسامت (افتح الراس) یا پاؤں کی جسامت (افتح الرجلین) کی وجہ سے ہے۔
  • بعض لوگ اس جماعت پر اہل کوفہ میں سے عبداللہ بن فطیح نامی شخص کی قیادت کو اس فرقہ کو فطحیہ کا نام دینے کی وجہ سمجھتے ہیں۔[1]

عبد اللہ افطح کا انجام

عبداللہ امام صادقؑ کے بیٹے تھے اور اسماعیل کے بعد ان کا بڑا بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ ان کی والدہ فاطمہ بنت حسین بن علی بن حسین تھی۔[2]

بعض تاریخی منابع کے مطابق عبد اللہ کا جھکاؤ مرجئہ اور حشویہ [یادداشت 1] کی طرف تھا یہاں تک کہ امام صادقؑ انہیں مرجئہ کبیر کہہ کر پکارتے کرتے تھے۔ اسی وجہ سے عبد اللہ اپنے والد امام صادقؑ کی طرف سے مسترد ہو چکا تھا۔[3]

امام صادقؑ کی شہادت کے بعد عبد اللہ نے اپنے آپ کو اپنے والد کے جانشین کے طور پر تعارف کرایا اور اپنے والد کے غسل، کفن اور دفن کی ذمہ داری سنبھالی اور امام صادقؑ کی انگوٹھی بھی اپنے ہاتھ میں پہن لیا۔[4] انہوں نے امام صادقؑ سے ایک حدیث نقل کرتے ہوئے کہ: «ہر امام کی امامت اس کے بڑے بیٹے کی طرف منتقل ہوتی ہے»، کچھ لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کیا۔

عبد اللہ امام صادقؑ کی شہادت کے 70 دن بعد کوئی اولاد یا جانشین کے بغیر اس دنیا سے چلا گیا۔[5] جس کے نتیجے میں عبد اللہ افطح کی امامت پر مبنی عقیدہ بھی اختتام کو پہنچا اور ان کے ماننے والوں میں سے اکثر افراد امام کاظمؑ کی امامت کی طرف واپس آگئے۔[6]

مشاہیر فطحیہ

عبد اللہ کی دعائے امامت کے ابتدائی ایام میں امام صادقؑ کے اصحاب میں سے بعض بڑے بڑے اصحاب نے بھی ان کی اس ادعا کو قبول کرتے ہوئے ان کو امام صادقؑ کا حقیقی جانشین سمجھ لیا تھا، ان میں سے مشہور افراد درج ذیل ہیں:

تاریخی قرائن و شواہد کے مطابق ان میں سے اکثر افراد عبد اللہ افطح کی امامت کے عقیدے سے پلٹ گئے تھے جبکہ ان میں سے بعض افراد کے بارے میں تاریخی کتابوں میں کوئی شواہد موجود نہیں ہے کہ یہ لوگ اس عقیدے پر باقی تھے یا اس سے پلٹ گئے تھے۔[حوالہ درکار]


فطحیہ سے مروی احادیث کی وثاقت

رجالی منابع سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ عقیدے کے باوجود شیعہ امامیہ علماء کے نزدیک فطحیہ فرقے کے راوی موثق اور قابل اعتماد راویوں میں سے ہیں۔ بعنوان نمونہ جب امام عسکریؑ سے بنی فضال جو کہ فطحیہ مذہب تھے، سے منقول احادیث کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

خُذوا ما رَوَوا و ذَروا ما رَأوا: ان سے منقول احادیث پر عمل کرو؛ لیکن ان کے عقیدے پر عمل نہ کرو بلکہ اسے ترک کرو۔»[15]

اسی طرح شیخ طوسی کتاب العدۃ میں کہتے ہیں کہ اگر راوی شیعہ فرقوں جیسے فطحیہ، ناووسیہ اور واقفہ میں سے ہو اور امانت کے لحاظ سے مورد اطمینان ہو اور ان سے منقول احادیث کے خلاف کوئی اور حدیث بھی نہ ہو اور امامیہ نے ان خلاف عمل نہ کیا ہو تو ان سے منقول احادیث پر عمل ہونا چاہئے اسی بنا پر امامیہ، فطحیہ مذہب کے عبداللہ بن بکیر وغیرہ، واقفہ مذہب کے سماعۃ بن مہران، علی بن ابی‌حمزہ، عثمان بن عیسی رواسی وغیرہ اور بنی فضال سے منقول احادیث پر عمل کرتے ہیں۔[16]

علامہ حلی[17] اور ابن داود حلی[18] نے عمار بن موسی ساباطی کو رجالی کتابوں میں ضعیف راویوں کے باب میں ذکر کئے ہیں جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ کام عمر کی انتہاء تک ان کے فطحی مذہب پر باقی رہنے کی وجہ سے تھا۔[19] شیخ طوسی کہتے ہیں کہ عمار ساباطی فطحی مذہب ہونے کے فرض کے ساتھ بھی نقل حدیث میں ان کی وثاقت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے۔[20]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. طوسی، اختیار معرفہ الرجال، ج 2، ص524۔
  2. شہرستانی، ملل و نحل، ج 1، ص148۔
  3. مفید، الفصول المختارۃ، ص312۔
  4. شہرستانی، ملل و نحل، ج1، ص148۔
  5. شہرستانی، ملل و نحل، ج 1، ص148۔
  6. طوسی، اختیار معرفہ الرجال، ج 2، ص525۔
  7. طوسی، الفہرست، ص173۔
  8. طوسی، الفہرست، ص189۔
  9. طوسی، الفہرست، ص54۔
  10. طوسی، اختیار معرفہ الرجال، ج 2، ص853۔
  11. طوسی، اختیار معرفہ الرجال، ج 2، ص682۔
  12. طوسی، اختیار معرفہ الرجال، ج 2، ص840۔
  13. نجاشی، رجال، ص35
  14. طوسی، الفہرست، ص67۔
  15. طوسی، الغیبۃ، ص390۔
  16. طوسی، العدۃ، 1417ھ، ج1، ص150۔
  17. علامہ حلی، رجال العلامۃ الحلی، 1402ھ، ص244-243۔
  18. ابن داود، الرجال، الشریف الرضی، ص289۔
  19. خویی، معجم رجال الحدیث، 1410ھ، ج12، ص263۔
  20. طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج7، ص101۔

نوٹ

  1. یہ فرقہ سنی انتہا پسندوں پر مشتمل ہے جو فکری رائے سے لاتعلق ہیں اور ان آراء کو بدعت سمجھتے ہیں۔ (معتزلی، ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، قم، انتشارات کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی، 1404ھ، ج 6، ص436۔)

مآخذ

  • ابن داوود حلی، حسن بن علی، الرجال، منشورات الشریف الرضی، بی‌تا۔
  • خویی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، قم، مرکز نشر آثار شیعہ، 1410ھ/1369ہجری شمسی۔
  • شہرستانی، الملل و النحل، مکتبہ الانجلو المصریہ، افست منشورات الشریف الرضی، قاہرہ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی)، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث۔
  • طوسی، محمد بن حسن، العدۃ فی اصول الفقہ، قم، ستارہ، 1417ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، بہ تحقیق طہرانی، عباداللہ ناصح، علی احمد، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، قم، 1411ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، نشرالفقاہۃ، 1417ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تحقیق حسن موسوی خرسان، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، رجال العلامۃ الحلی، تحقیق محمدصادق بحرالعلوم، قم، الشریف الرضی، 1402ھ۔
  • محدث نوری، مستدرک الوسائل، مؤسسہ آل البیت علیہم‌السلام قم، 1408ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الفصول المختارۃ، تحقیق سید علی میرشریفی، دارالمفید، بیروت، 1414ھ۔
  • نباطی بیاضی، علی بن یونس، الصراط المستقیم، کتابخانہ حیدریہ، نجف، 1384ھ۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال‌النجاشی، مؤسسہ نشر اسلامی، 1424ھ۔