آیت مُباہلہ؛ سورہ آل عمران کی 61ویں آیت ہے جس میں مباہلہ کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو پیغمبر اکرمؐ اور نجران کے عیسائیوں کے درمیان پیش آیا۔ شیعہ اور بعض اہل سنت مفسرین اس آیت کو اصحاب کساء یعنی پنچتن پاک خصوصا امام علیؑ کے فضائل میں شمار کرتے ہیں۔ اس آیت نے امام علیؑ کو پیغمبر اکرمؐ کا نَفْس اور جان قرار دیا ہے۔ امام رضاؑ اس آیت کو قرآن کریم میں امام علیؑ کی سب سے بڑی فضیلت قرار دیتے ہیں۔

آیت مباہلہ
آیت کی خصوصیات
آیت کا ناممباہلہ
سورہسورہ آل عمران
آیت نمبر61
پارہ3
صفحہ نمبر57
شان نزولنجران کے عیسائیوں کا پیغمبر اکرمؐ سے مناظرہ
محل نزولمدینہ
موضوععقائد
مضمونپیغمبر اکرمؐ کا نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ
مربوط آیاتآیت تطہیر


آیت کا متن اور ترجمہ

فَمَنْ حَاجَّک فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَک مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل‌لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَی الْکاذِبِینَ


(اے پیغمبرؐ) اس معاملہ میں تمہارے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو آپ سے حجت بازی کرے تو آپ ان سے کہیں کہ آؤ! ہم اپنے اپنے بیٹوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر مباہلہ کریں (بارگاہِ خدا میں دعا و التجا کریں) اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ (یعنی ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو۔ پھر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں)۔ [1]



سورہ آل عمران: آیت 61


شأن نزول

شیعہ اور اہل سنت مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اکرمؐ کے ساتھ نجران کے نصارٰی کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ عیسائی حضرت عیسی کو "اقنوم ثلاثہ" (خدا، مسیح اور روح القدس) میں سے ایک مانتے ہوئے انکو معبود کے درجے تک لے جاتے تھے اور حضرت عیسیؑ کے بارے میں قرآن کریم کی وحیانی توصیف سے متفق نہیں تھے جس میں انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی قرار دیا گیا ہے۔ جب پیغمبر اکرمؐ کی گفتگو اور دلائل عیسائیوں پر مؤثر ثابت نہ ہوئے تو آپؐ نے ان کو مباہلے کی دعوت دی۔[2]

مباہلہ کا واقعہ سنہ 9 ہجری (عام الوفود) 24 ذی الحجہ کو پیش آیا[یادداشت 1] اس سلسلے میں پیغمبر اکرمؐ نے ایک خط کے ذریعے نجران کے عیسائیوں کو مباہلے کی دعوت دی تھی۔[3]

زمخشری،[4] فخر رازی،[5] اور بیضاوی[6] جیسے اہل سنت کے مفسرین کہتے ہیں کہ "ابناءنا" [ہمارے بیٹوں] سے مراد امام حسنؑ اور امام حسینؑ ہیں، "نسا‏‏ءنا" سے مراد حضرت زہراءعلیہا السلام اور "انفسنا" [ہمارے نفس اور ہماری جانوں] سے مراد حضرت علیؑ ہیں۔ یعنی وہ چار افراد جو آنحضرتؐ کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا اصحاب کساء کو تشکیل دیتے ہیں۔

بہر حال رسول اللہؐ نے آیت مباہلہ کے نزول کے بعد نجران کے نصارٰی کو مباہلے کی دعوت دی اور آپؐ حکم پروردگار کے مطابق علی، فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کو ساتھ لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوئے۔

نصارائے نجران نے جب رسول اللہؐ اور آپؐ کے ساتھ آنے والے افراد کے دلیرانہ صدق و اخلاص کا مشاہدہ کیا تو اللہ کی عقوبت اور عذاب کے خوف سے مباہلہ کے لئے تیار نہيں ہوئے اور آپؐ کے ساتھ صلح کرلی اور جزیہ لے کر انہیں اپنے دین پر باقی رہنے دینے کی درخواست کی جسے آنحضرتؐ نے منظور کرلی۔[7]

تفسیر

اگرچہ پہلے مرحلے میں مباہلہ رسول خداؐ اور عیسائیوں کے درمیان تھا لیکن فرزندوں اور خواتین کو بھی بیچ میں لایے گئے تاکہ معلوم ہوجائے کہ مباہلہ کی دعوت دینے والا اپنی سچائی سے اس حد تک مطمئن ہیں کہ اپنے عزیز ترین اور قریب ترین افراد کو میدان مباہلہ میں لائے ہیں۔[حوالہ درکار]

علاوہ ازیں علامہ طباطبائی خاندان کو میدان مباہلہ میں لانے کی ایک اور وجہ بیان کرتے ہیں: "گویا اس عمل کے ذریعے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک جماعت دوسری جماعت کو بد دعا کریں اور دونوں جماعتیں جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں تاکہ لعن و عذاب جانوں، اولاد اور خواتین سب کو شامل کریں اور دشمنوں کی جڑیں روئے زمین سے اکھڑ جائیں"[8]

اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ ابناء، نساء اور انفس دو سے زیادہ ہوں تاکہ کہا جائے کہ ان پر صیغہ جمع کا اطلاق صحیح ہے؛ کیونکہ مذکورہ بالا بیان کے مطابق، صیغہ جمع سے مقصود یہ ہے کہ نزاع کے فریقین میں سے ایک اپنے تمام اعزاء و اقارب، چھوٹے بڑوں اور مردوں اور عورتوں کے ہمراہ، سب نیست و نابود ہوجائیں؛ اور تمام مفسرین اور مؤرخین کا اتفاق ہے اور تاریخی حوالے بھی اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ رسول خداؐ علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کے سوا کسی کو بھی اپنے ساتھ نہیں لائے تھے؛ چنانچہ انفس یا جانیں دو (رسول خداؐ اور علیؑ)، فرزند دو (حسن اور حسین علیہما السلام) اور خواتین صرف ایک (حضر زہراءؑ) تھیں اور ان افراد کی شرکت سے اللہ کے فرمان کی مکمل تعمیل ہوئی ہے۔[9] قرآن میں دیگر مقامات پر بھی آیت اپنے شان نزول کے حوالے سے ایک فرد کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صیغہ جمع کا استعمال کیا گیا ہے؛ جس کی مثال سورہ مجادلہ میں آیات ظہار میں دیکھی جاسکتی ہے۔[10]

زمخشری اپنی تفسیر الکشاف میں عائشہ سے نقل کرتے ہیں: رسول اللہؐ روز مباہلہ باہر آئے جبکہ سیاہ اون کی عبا کاندھوں پر ڈالی ہوئی تھی اور جب امام حسن آئے تو آپؐ نے انہیں اپنی عبا میں جگہ دی؛ اس کے بعد امام حسینؑ آئے جنہیں آپؐ نے اپنی عبا میں جگہ دی اور اس کے بعد حضرت فاطمہؑ آئیں اور بعد میں علیؑ آئے اور پھر آپؐ نے فرمایا:

"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہُ لِيُذْہِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً (ترجمہ: اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر پلیدی اور گناہ کو دور رکھے اور تم کو پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے"۔)

اہل سنت کے یہ عالم مزید کہتے ہیں: مباہلہ میں بیٹوں اور خواتین کو شامل کرنا وثوق و اعتماد کی بڑی دلیل ہے بجائے اس کے کہ انسان اکیلے میں مباہلہ کرے۔ آپؐ نے انہیں مباہلے میں شامل کر کے جرات کی ہے کہ اپنے عزیزوں، اپنے جگر کے ٹکڑوں اور لوگوں میں اپنے نزدیک اور محبوب ترین افراد کو نفرین اور ہلاکت کے سامنے حاضر کریں اور آپؐ نے صرف اپنی حاضری کو کافی نہیں سمجھا۔ لہذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپؐ اپنے مخالفین کے جھوٹے ہونے پر یقین کامل رکھتے تھے یہاں تک کہ آپ نے اپنے جگر گوشوں کو ہلاکت و تباہی میں ڈالا بشرطیکہ مباہلہ واقع ہوجائے۔ بیٹوں اور خواتین کو اس عمل کے لئے مختص کرنے کا سبب یہ تھا کہ وہ عزیز ترین "اہل" ہیں اور دوسروں سے کہیں زیادہ دل میں جگہ رکھتے ہیں اور شاید انسان خود کو ہلاکت میں ڈال دے اس لئے کہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے؛ چنانچہ جنگجو اپنی خواتین اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے تاکہ دشمن کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کریں اور میدان سے فرار نہ کریں۔ اسی بنا پر آیت مباہلہ میں خداوند متعال نے ان [ابناء و انفس] کو انفس [جانوں] پر مقدم رکھا تاکہ واضح کردے کہ وہ [بیٹے اور خواتین] جانوں پر مقدم ہیں۔ اس کے بعد زمخشری کہتے ہیں:

"یہ دلیل ہے اصحاب کساء کی فضیلت کی جس سے بالاتر کوئی دلیل نہیں ہے"۔[11]

آیات برائت کا ابلاغ مباہلہ کے ساتھ رابطہ

مشرکینِ مکہ تک سورہ برائت کی ابتدائی آیات پہنچانے کی ذمہ داری پیغمبر اکرمؐ نے شروع میں ابوبکر کے سپرد کی تھی لیکن خدا کی طرف سے جبرئیل کے ذریعے پیغام آیا کہ یہ آیات یا خود پیغمبر اکرمؐ یا ایک ایسے شخص کے ذریعے پہنچایا جائے جو پیغمبر اکرمؐ کی طرح ہو: لایؤَدّی عَنْکَ اِلّا اَنْتَ اَوْ رَجُلٌ مِنْکَ۔[12] اس کے بعد رسول خدا نے اس کام کی ذمہ داری حضرت علیؑ کے سپرد کی۔ چونکہ آیت مباهلہ میں حضرت علیؑ کو پیغمبر اکرمؐ کی جان اور نفس قرار دیا گیا ہے۔[13]

قرآن میں حضرت علیؑ کی سب سے بڑی فضیلت

مأمون نے امام رضاؑ سے سؤال کیا کہ قرآن کی رو سے امام علیؑ کی سب سے بڑی فضلیت کیا ہے؟ امامؑ نے فرمایا: مباہلہ میں رسول اللہؐ نے خدا کے حکم سے امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو اپنے بیٹوں کے عنوان سے، حضرت فاطمہ(س) کو خواتین کے اعتبار سے جبکہ امیرالمؤمنینؑ کو اپنی جان اور نفس کے عنوان سے اپنےہمراہ لے آئے۔ کائنات میں پیغمبر اکرم سے برتر کوئی مخلوق نہیں ہے؛ پس خدا کے حکم کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی جان اور نفس سے زیادہ برتر اور بافضیلت کوئی شخص نہیں ہے۔[14]

متعلقہ مضامین

نوٹ

  1. بعض مفسرین اور مؤرخین نجران کے عیسائیوں کو اصحاب اخدود کی نسل سے قرار دیتے ہیں۔ (طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ہجری شمسی، ج۱۰، ض۷۰۷۔)

حوالہ جات

  1. ترجمہ محمد حسین نجفی
  2. قرآن کریم، توضیحات و واژہ نامہ از بہاء الدین خرمشاہی، 1376.ذیل آیہ مباہلہ، ص 57۔
  3. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۱۶۶-۱۷۱۔
  4. الزمخشری، تفسیر الکشاف، ذیل آیہ 61 آل عمران۔
  5. الرازی، التفسیر الکبیر، ذیل آیہ 61 آل عمران۔
  6. البیضاوی، تفسیر انوار التنزیل واسرار التأویل، ذیل آیہ 61 آل عمران۔
  7. قرآن کریم، توضیحات و واژہ نامہ از بہاءالدین خرمشاہی، 1376شمسی ہجری، ذیل آیہ مباہلہ، ص 57۔
  8. الطباطبائی، المیزان، ج3، ذیل آیہ مباہلہ۔
  9. الطباطبایی، وہی ماخذ، 1391ھ، ج 3، ص223۔
  10. الطباطبائی، محمدحسین، المیزان، ذیل آیہ مباہلہ
  11. زمخشری، وہی ماخذ، ج1، صص: 369-370۔
  12. ابن حنبل، احمد، الموسوعہ الحدیثیہ مسند الاما‌م‌ احمدبن‌ حنبل‌، ۱۴۲۰ھ، ج۲، ص۴۲۷۔
  13. واقدی، المغازی، ۱۴۰۵ھ، ج۳، ص۱۰۷۷؛ مفید، ارشاد، ۱۳۷۲ھ،ص۳۳۔
  14. مفید، الفصول المختاره، ۱۴۱۴ھ، ص۳۸۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ، توضیحات و واژہ نامہ از بہاءالدین خرمشاہی، تہران، جامی، نیلوفر، چاپ سوم، تابستان ۱۳۷۶ہجری شمسی۔
  • ابن‌ حنبل‌، احمدبن‌ محمد، الموسوعہ‌ الحدیثیہ‌ مسند الاما‌م‌ احمدبن‌ حنبل‌، المحقق: شعیب الأرنؤوط - عادل مرشد، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۲۰ھ۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، تفسیر البیضاوی : المسمی انوار التنزیل و اسرار التاویل، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۲۹ھ۔
  • الزمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، قم، نشر البلاغہ، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۴۱۵ھ۔
  • فخر رازی‌, محمد بن‌ عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۵ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۳، قم، اسماعیلیان، الطبعۃ الثالثۃ، ۱۳۹۱ہجری شمسی۔
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق موسسہ آل البیت(ع) للتحقیق التراث، بیروت، دارالمفید، ۱۳۷۲ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارہ، التحقیق السید میرعلی شریفی، بیروت،‌ دار المفید، الطعبۃ الثانیۃ، ۱۴۱۴ھ۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، قم، نشر دانش اسلامی، ۱۴۰۵ھ۔