مندرجات کا رخ کریں

تذکرۃ الخواص من الامۃ فی ذکر خصائص الائمۃ (کتاب)

ویکی شیعہ سے
تذکرۃ الخواص من الامۃ فی ذکر خصائص الائمۃ
شرح حال و فضائل خاندان نبوت، محمدرضا عطائی
مشخصات
مصنفسبط ابن جوزی (متوفای 654ق)
سنہ تصنیفقرن ہفتم ہجری قمری
موضوعمناقب ائمہ اطہار
زبانعربی
مذہبحنبلی
ترجمہفارسی
طباعت اور اشاعت
ناشرآستان قدس رضوی
مقام اشاعتقم، مشہد
سنہ اشاعت1426ق 1379ش


"تذکرۃ الخواص من الامۃ فی ذکر خصائص الائمۃ" یوسف بن قزاوغلی، معروف بہ سبط ابن جوزی کی تصنیف ہے جو عربی زبان میں حضرت علی علیہ السلام اور ان کی اولاد کے فضائل اور خصائص پر مبنی ہے۔ سبط ابن جوزی ساتویں صدی ہجری کے معروف اہل سنت عالم دین اور ابن جوزی کے پوتے تھے۔ اس کتاب میں مصنف نے حضرت علی (ع) اور ان کی اولاد کی حالات زندگی کو 12 ابواب میں تحریر کیا ہے۔ اس کتاب کا فارسی زبان میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔

مؤلف کا تعارف

سبط ابن جوزی جن کا پورا نام شمس الدین ابوالمظفر یوسف بن قز اوغلی تھا، 581ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ وہ اہل سنت کے مفسر اور فقیہ ابوالفرج ابن الجوزی کا نواسا ہے۔ سبط ابن جوزی نے اپنی تعلیم کا آغاز اپنے نانا ابو الفرج ابن جوزی سے کیا اور اپنے نانا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فن خطابت میں اعلی مقام حاصل کیا۔ 20 سال کی عمر میں اعلی تعلیم کے لئے دمشق کا سفر کیا اور مختصر مدت کے لئے مصر میں بھی حصول تعلیم میں مشغول رہا۔[1] سبط ابن جوزی ابتدائی طور پر حنبلی تھے لیکن بعد میں ان کا رجحان مذہب ابو حنیفہ کی طرف ہوا،[2] کچھ لوگوں نے انہیں شیعہ اور رافضی بھی قرار دیا ہے۔[3] ذہبی کہتے ہیں کہ انہوں نے سبط ابن جوزی کا ایک تحریر دیکھا ہے جو ان کے شیعہ ہونے پر دلالت کرتی ہے، چنانچہ ابن رافع سلامی(متوفی: 774ھ) بھی کہتے ہیں کہ سبط ابن جوزی کی کتاب "ریاض الافہام" جسے انہوں نے اہل بیت کی فضیلت میں تحریر کی ہے، ان کے شیعہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔[4]

سبط ابن جوزی کو اہل تشیع کی طرف نسبت دینے کی وجہ اہل بیت کی فضیلت اور صحابہ کے درمیان موجود اختلافات کے بارے میں ان کی تحریریں ہیں۔ خاص کر ان کے دور میں فاطمیوں اور حمدانیوں کی طرف سے اسلامی مملکت کے مغربی حصوں میں اہل بیت کے فضائل کی ترویج ہو رہی تھی۔ اسی طرح شیعہ مذہب کی طرف ان کے تمائل میں دمشق کے ایوبی حکومت کے گورنر ابوالمظفر کی ہم نشینی کا بھی عمل دخل ہو سکتا ہے، جو اہل بیت کے ساتھ والہانہ محبت و مودت کا اظہار کرتے تھے۔ اہل بیت پیغمبر کے ساتھ ابن جوزی کی محبت اور خلوص کا یہ عالم تھا کہ عاشورا کے دن حلب کے لوگوں نے انہیں ممبر پر جا کر امام حسینؑ کی شہادت کے بارے میں خطاب کرنے کا کہا، لیکن وہ ممبر پر جا کر غم کی شدت کے باعث خطاب نہ کر سکا اور امام کی مصیبت میں صرف ایک شعر کہہ کر ممبر سے نیچے اتر آیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود وہ سنی المذہب تھے اور ایمان ابوطالب پر اعتقاد نہیں رکھتا تھا اور خلفائے ثلاثہ کے ساتھ اظہار محبت اور ان کی مدح و سرائی کیا کرتا تھا۔ ان کا انتقال 654ھ میں دمشق میں ہوا اور وہ وہاں جبل قاسیون کے قریب دفن ہوئے۔[5]

کتاب کا نام

اس کتاب کو مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے:

  • تذکرۃُ الخواصّ من الاُمّۃ بذکر خصائص الائمّۃ
  • تذکرۃ الخواص من الامۃ فی ذکر خصائص الائمّۃ
  • تذکرۃُ خواص الاُمّۃ فی مَعرفَۃ الائمّۃ
  • مناقب
  • مناقبُ عَلی(ع)۔[6]

تصنیف کا مقصد

سبط ابن جوزی نے اس کتاب کی تصنیف کا مقصد اللہ اور اس کے رسول (صلى اللہ عليہ وسلم) کی رضا حاصل کرنا ذکر کیا ہے۔[7] وہ ایک اہل سنت عالم دین ہونے کے باوجود اہل بیت کے فضائل کو نہایت اچھے انداز میں بیان کیا ہے، اگرچہ بعض اقوال اور نظریات کو نقل کرنے میں تعصب کی بو آتی ہے۔[8]

کتاب کے مندرجات

اس کتاب کے 12 ابواب ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:

  1. حضرت علیؑ کی شخصیت، نسب، مناقب، خلافت کے دوران پیش آنے والے اہم واقعات اور آپ کے والدین اور بہن بھائیوں کی حالات زندگی۔
  2. حضرت علیؑ کے فضائل اور ان سے مربوط احادیث جن میں حدیث غدیر، حدیث طیر، مدینۃ العلم، قضیب احمر اور رد الشمس وغیرہ شامل ہیں۔
  3. حضرت علیؑ کے فرزندان کی شخصیت اور ان کے کردار۔
  4. حضرت علیؑ کی خلافت، طلحہ و زبیر کا قصہ، خوارج اور جنگ صفین۔
  5. حضرت علیؑ کی عبادت، زہد اور تقویٰ و پرہیزگاری۔
  6. حضرت علیؑ کی منتخب احادیث جیسے خطبہ منبریہ، بالغہ، شقشیہ، رسول اکرمؐ کی تعریف میں ایک خطبہ اور اسی طرح کمیل اور اپنی اولاد کے لئے کی گئی آپ کی وصیتیں، حضرت علی کے مناظرے اور دیگر احادیث۔
  7. اس باب میں حضرت علیؑ کی شہادت اور آپ کی ازواج، کنیزوں اور جعفر کی اولاد کا تذکرہ ہوا ہے۔
  8. حضرت امام حسنؑ کی حالات زندگی، آپ کی امامت اور شہادت کے واقعات
  9. حضرت امام حسینؑ کی حالات زندگی، شہادت، سیرت اور آپ کی متقل کا مختصر تذکرہ۔ اس باب کے آخر میں [یزید بن معاویہ]] اور اس پر لعنت کے جائز ہونے، قیام مختار اور خدا کا قاتلان امام حسینؑ سے انتقام لینے کی بحث آئی ہے۔
  10. محمد بن حنفیہ اور ان کی اولاد اور کلام
  11. حضرت خدیجہ(س) اور حضرت فاطمہ(س) کے فضائل اور حضرت خدیجہ کی پیغمبر اکرمؐ سے شادی اور پیغمبر اکرمؐ کی رحلت پر ان کا نوحہ۔
  12. ائمہ معصومینؑ کی حالات زندگی اور ان کی اولاد میں سے ہر ایک کی سیرت۔

مصنف نے اس کتاب کے آخر میں ائمہ معصومینؑ کی اولاد کے بارے میں بعض حکایت اور ان کے بعض شائستہ اخلاق و اوصاف کا تذکرہ کیا ہے۔[9]

ترجمہ

کتاب تذکرۃ الخواص کا فارسی ترجمہ محمدرضا عطایی کے قلم سے

کتاب "تذکرہ الخواص" کا فارسی ترجمہ محمد رضا عطائی نے کیا ہے، جسے 1379ہجری شمسی کو مشہد میں آستان قدس رضوی کی طرف سے "شرح حال اور فضائل خاندان نبوت" کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔[10]

نسخہ جات

سید عبدالعزیز طباطبایی کے مطابق کتاب "تذکرہ الخواص من الامۃ فی ذکر خصائص الائمہ" کے مختلف نسخے اور اشاعت کی تفصیل درج ذیل ہے:

  1. ایک نسخہ کتابخانہ سلیمانیہ، استانبول ترکی میں موجود ہے۔
  2. ایک نسخہ کتابخانہ خدابخش، ہندوستان میں موجود ہے۔
  3. ایک نسخہ کتابخانہ آستان قدس رضوی میں محفوظ ہے۔
  4. ایک نسخہ کتابخانہ مرکزی تہران یونیورسٹی میں موجود ہے۔
  5. ایک نسخہ دارالکتب ظاہریہ، دمشق میں رکھا گیا ہے۔
  6. نویں صدی ہجری کا ایک خطی نسخہ کتابخانہ مجلس شورای اسلامی ایران میں موجود ہے۔
  7. ایک نسخہ کتابخانہ بوہار، کلکتہ میں بھی موجود ہے۔[11]

اشاعت

  1. ایران میں 1285ھ میں سنگی نسخہ شائع ہوا۔
  2. نجف میں 1369ھ میں حروفی نسخہ شائع ہوا، جس کا مقدمہ عبدالمولی طریحی نے لکھا۔
  3. نجف میں 1369ھ میں ایک اور حروفی نسخہ شائع ہوا، جس کا مقدمہ سید محمدصادق بحرالعلوم نے لکھا اور اس میں سنگی نسخہ کا مقدمہ بھی شامل تھا۔
  4. بیروت میں 1401ھ میں حروفی نسخہ شائع ہوا، جس کا مقدمۃ سید محمدصادق بحرالعلوم نے لکھا۔
  5. ایران میں منشورات الشریف الرضی، قم نے 1418ھ میں اس کا ایک نسخہ شائع کیا۔
  6. ایک اور نسخہ 1426ھ میں مجمع جہانی اہل بیت کی جانب سے شائع ہوا۔

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں:‌ رنجبر، «معرفی و بررسی کتاب تذکرہ الخواص نگاشتہ سبط ابن جوزی»، ص102و103۔
  2. رنجبر، «معرفی و بررسی کتاب تذکرہ الخواص نگاشتہ سبط ابن جوزی»، ص103۔
  3. رنجبر، «معرفی و بررسی کتاب تذکرہ الخواص نگاشتہ سبط ابن جوزی»، ص104۔
  4. رنجبر، «معرفی و بررسی کتاب تذکرہ الخواص نگاشتہ سبط ابن جوزی»، ص104۔
  5. داداش‌نژاد، سیمای دوازدہ امام در میراث مکتوب اہل‎سنت، 1395ہجری شمسی، ج1، ص160-164۔
  6. خوش‌نژادیان، تذکرۃ الخواص، 1417ھ۔
  7. ابن جوزی، تذکرۃ الخواص،تذکرۃ الخواص، 1418ھ، ص14۔
  8. ابن جوزی، شرح‌حال و فضائل خاندان نبوت، ترجمہ کتاب، 1379ہجری شمسی، ص14۔
  9. ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، 1418ھ، فہرست ترجمہ کتاب۔
  10. «کتابشناسی شرح‌حال و فضائل خاندان نبوت»، سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران۔
  11. طباطبایی، اہل البیت فی المکتبۃ العربیۃ، 1417 ھ، ص87 و 88۔

مآخذ

  • خوش‌نژادیان، صدیقہ، تذکرۃ الخواص، کتاب‌ہای اسلامی، شمارہ 22 و 23، پاییز و زمستان 1384ہجری شمسی۔
  • داداش‌نژاد، منصور، سیمای دوازدہ امام در میراث مکتوب اہل‎سنت، قم، بوستان کتاب، 1395ہجری شمسی۔
  • رنجبر،‌ محسن، «معرفی و بررسی کتاب تذکرۃ الخواص نگاشتہ سبط ابن جوزی»، فصلنامہ تاریخ اسلام در آینہ پژوہش، ش35، پاییز و زمستان 1392ہجری شمسی۔
  • سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، شرح حال و فضائل خاندان نبوت، ترجمہ محمدرضا عطائی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1379ہجری شمسی۔
  • سبط ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص من الأمّۃ فی ذکر خصائص الأئمۃ، قم، منشورات الشریف الرضی، 1418ھ۔
  • طباطبایی، عبدالعزیز، أہل البیت فی المکتبۃ العربیۃ، قم، آل البیت، 1417ھ۔
  • «کتابشناسی شرح‌حال و فضائل خاندان نبوت»، سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران، تاریخ مشاہدہ: 8 دی 1400ہجری شمسی۔