تابوت عہد

ویکی شیعہ سے

"تابوت عہد" ایک صندوق ہے جو صدیوں سے بنی اسرائیل کے پاس تھا اور ان کے لیے بہت اہمیت اور تقدس کا حامل تھا۔ قرآن نے اس تابوت کو بنی اسرائیل کے لیے سکون اور آرامش کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ یہ صندوق اہم اور قیمتی چیزوں پر مشتمل ہے جن میں الواح موسی، عصائے موسی اور بعض دوسری چیزیں شامل ہیں۔ بعض شیعہ احادیث کے مطابق یہ تابوت امامت کے اسرار اور ودایع میں سے ہے جو اسوقت امام زمانہؑ کے پاس موجود ہے۔

تعارف

تابوت عہد، ایک صندوق ہے جسے سکون یا شہادت کا صندوق بھی کہا جاتا ہے۔ یہ صندوق صدیوں سے بنی اسرائیل کے پاس موجود ہے اور ان کے لیے نہایت اہمیت اور تقدس کا حامل ہے۔[1] آج کل تابوت اس صندوق کو کہا جاتا ہے جس میں مردوں کو رکھ کر قبرستان کی طرف دفنانے کے لئے لے جایا جاتا ہے۔[2]

تابوت کا لفظ قرآن میں دو بار استعمال ہوا ہے:

  • حضرت موسی کی والدہ نے اپنے بچے کو تابوت میں رکھ کر دریائے نیل کے حوالے کیا۔[3]
  • طالوت کو بادشاہ منتخب کرنے اور تابوت کو نشانی کے طور پر دئے جانے کی داستان۔ یہ تابوت خدا کی طرف سے سکون ور آرامش کا حامل تھا جس میس حضرت موسی اور حضرت ہارون کے خاندان کی وراثت تھی جسے آسمانی فرشتے حمل کرتے تھے۔ [4] کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں مذکور تابوت سے مراد یہی تابوت عہد ہے۔[5]

حقیقت

اس تابوت کی اصل حقیقت کے بارے میں اسلامی اور غیر اسلامی منابع میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں:

  • قرآن میں ایک جگہ تابوت کا لفظ اس صندوق کے لئے استعمال کیا ہے جس میں حضرت موسی کی والدہ نے اپنے بچے کو رکھ کر دریائے نیل کے حوالے کر دیا تھا: «أَنِ اقْذِفیہِ فِی التَّابُوتِ فَاقْذِفیہِ فِی الْیمِّ فَلْیلْقِہِ الْیمُّ بِالسَّاحِلِ؛ کہ اس (موسیٰ) کو صندوق میں رکھ اور پھر صندوق کو دریا میں ڈال دے پھر دریا اسے کنارہ پر پھینک دے گا»۔[6]امام باقرؑ سے مروی ہے کہ جس صندوق میں حضرت موسی کی والدہ نے حضرت موسی کو رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دیا تھا وہ بعد میں بنی اسرائیل کے پاس پہنچ گیا تھا اور ان کے لیے خاص اہمیت اور تقدس کا حامل بن گیا تھا اور مصر سے نکلنے کے بعد بھی یہ صندوق ان کے پاس تھا جس میں موسیٰ کی تختیاں اور دیگر مقدس چیزوں کو اس میں رکھی گئی تھیں۔[7] اور دوسرے الفاظ میں یہ صندوق وہی تابوت عہد ہے۔ بعض شیعہ مفسرین نے اس نظریے کو قبول کیا ہے۔[8]
  • بعض اہل سنت مفسرین کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو ایک تابوت دیا تھا اور یہ تابوت انبیاء پاس یکے بعد دیگری موجود تھا اور تابوت عہد سے مراد بھی یہی صندوق ہے۔[9]
  • تورات کے مطابق بنی اسرائیل نے مصر سے خارج ہونے بعد کے تابوت عہد کو بنایا تھا۔[10]

تابوت عہد کب اور کہاں بنایا گیا تھا اس سلسلے میں قرآن میں کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن اس تابوت کے بارے میں بہت سی احادیث موجود ہیں جنہیں بعض مفسرین نے اسرائیلیات یعنی جعلی احادیث کے زمرے میں شامل کیا ہے، جن پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے۔[11] قرآن کے برعکس تورات میں تابوت عہد کی بناوٹ کے بارے میں بہت تفصیل سے بات کی ہے۔[12]

داستان

تابوت عہد کو بنی اسرائیل کے مصر سے خارج ہونے کے بعد بڑی شہرت اور تقدس حاصل ہوا۔ صحرا میں بنی اسرائیل کی سرگردانی کے دوران اس تابوت کو مقدس خیمہ میں رکھا گیا تھا اور اس کے بارے میں بہت سخت قوانین وضع کئے گئے تھے۔[13] حضرت موسی اور صحرا میں بنی اسرائیل کی چالیس سالہ سرگردانی کے خاتمے کے بعد بنی اسرائیل حضرت یوشع کے ساتھ مقدس سرزمین کی طرف روانہ ہوئے۔

عہد کا صندوق ایک اہم اور مؤثر علامت کے طور پر بنی اسرائیل کے پاس موجود تھا۔ مختلف جنگوں میں وہ اس تابوت کو اپنے لشکر کے آگے آگے رکھتے اور اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل کرتے تھے۔ لیکن جب انہوں نے اپنے انبیاء کی مخالفت اور حکم الٰہی کی نافرمانی کرنا شروع کیا تو انہیں شکست سے دوچار ہونے لگی۔[14] اور بعض ناکامیوں میں عہد کا یہ صندوق ان کے دشمنوں کے پاس پہنچ جاتے۔[15]اور کچھ مدت بعد مختلف وجوہات کی بنا پر یہ صندوق دوبارہ بنی اسرائیل کے پاس واپس پہنچ جاتا تھا۔[16]

قرآن میں ان واقعات میں سے ایک کا تذکرہ کیا گیا ہے اور عہد کے صندوق کی موجودگی کو طالوت کی بادشاہت کی علامت قرار دی گئی ہے: «وَ قالَ لَہُمْ نَبِیہُمْ إِنَّ آیۃَ مُلْکہِ أَنْ یأْتِیکمُ التَّابُوتُ؛ اور ان کے نبی نے ان سے یہ بھی کہا کہ اس کے بادشاہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا۔»۔[17] اس آیت کے مطابق خدا ایک بادشاہ کے لئے کوئی علامت قرار دیتا ہے اور وقت کے پیغمبر کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو اس علامت کے بارے میں بتا دیں اور ان میں اختلاف پیدا ہونے سے بچائیں۔

آخرکار یروشلیم پر بُخْتُنَّصَّر کے حملے اور معبد سلیمانی کی نابودی کے بعد تابوت عہد مفقود ہو جاتا ہے۔[18] بعض احادیث کے مطابق امام زمانہؑ اپنے ظہور کے بعد تابوت عہد کو انطاکیہ کے ایک غار سے اٹھائیں گے[19] اور یہ تابوت امامت کے ودایع اور امانتوں میں سے ہوگا۔

تابوت کے مشتملات

قرآن میں تابوت عہد کے مندرجات کے بارے میں کلی طور یوں اشارہ کیا گیا ہے: «وَ بَقِیۃٌ مِمَّا تَرَک آلُ مُوسی وَ آلُ ہارُونَ؛ اور موسیٰ (ع) و ہارون (ع) کے خاندان کے بچے کچھے تبرکات و متروکات بھی»۔[20] مفسرین اس سلسلے میں متعدد اشیاء کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جن میں حضرت موسی کی تختیاں، حضرت موسی کا عصا اور دوسرے انبیاء کے کچھ وسائل شامل ہیں۔[21] عیسائیوں کی دوسری بڑی شخصیت پال کی طرف سے عبرانیوں کو لکھے گئے خط (یہ خط عیسائی بائبل میں موجود ہے) میں اس صندوق کے مندرجات میں حضرت موسی کی تختیاں ہیں، "من"(وہ کھانا جسے خدا صحرا میں ہر روز بنی اسرائیل کو دیا کرتا تھا) کا ایک سنہری برتن اور اسی طرح حضرت ہارون کا عصا جس پر ایک دفعہ پھول کھلے تھے، شامل ہیں۔[22]

اثرات اور معجزات

قرآن تابوت عہد کی اس طرح تعریف کرتا ہے: فیہِ سَکینَۃٌ مِنْ رَبِّکم؛ جس میں تمہارے پروردگار کی جانب سے سکون کا سامان ہو گا»۔[23] اس مطلب کی تفسیر میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں۔[24] بہر حال قرآن کی یہ تعبیر اس قلبی اطمینان اور اعتماد کی طرف اشارہ کرتی ہے جو اس تابوت سے بنی اسرائیل کے لئے حاصل ہوا کرتی تھی[25] اور ان کے لئے سکون قلب کا باعث بنتی تھی۔[26]

یہودیوں کی مقدس کتاب میں بھی اس تابوت کی طرف مختلف معجزات کی نسبت دی گئی ہے:

  • حضرت موسی کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل دریائے اردن کو پار کرنا چاہتے تھے تو انہوں نے پہلے کی طرح تابوت عہد کو آگے کیا اور دریا میں اتر پڑے، تو اس تابوت کے معجزے سے دریا کے پانی میں شگاف پیدا ہو گیا اور پانی رک گیا یوں بنی اسرائیل خشکی پر قدم رکھتے ہوئے دریا پار کر گئے۔[27]

حوالہ جات

  1. حسینی، «تابوت عہد از منظر قرآن و تورات»، ص55-51۔
  2. دہخدا،‌ لغت‌نامہ، واژہ تابوت۔
  3. سورہ طہ، آیہ39۔
  4. سورہ بقرہ، آیہ248۔
  5. ابن عاشور، التحریر و التنویر، ج8، ص304۔
  6. سورہ طہ، آیہ 39۔
  7. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص81۔
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج2، ص240۔
  9. بغوی، معالم التنزیل، 1420ھ، ج1، ص334۔
  10. تورات، سفر خروج، باب25، آیات10-22۔
  11. مناہج جامعۃ المدینۃ العالمیۃ، الدخیل فی التفسیر، ج1، ص114۔
  12. تورات، سفر خروج، باب25، آیات10-22۔
  13. کتاب مقدس،‌ سِفر خروج، فصل 28۔
  14. طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 1412ھ، ج2، ص382۔
  15. کتاب مقدس، اول سموئیل، باب4۔
  16. کتاب مقدس، اول سموئیل، باب6۔
  17. سورہ بقرہ، آیہ 248۔
  18. رشید رضا، تفسیر المنار، 1990م، ج3، ص131۔
  19. سید بن طاووس، التشریف بالمنن، 1416ھ، ص142۔
  20. سورہ بقرہ، آیہ248۔
  21. بحرانی، البرہان، 1416ھ، ج1، ص510۔
  22. عہد جدید،‌ نامہ بہ عبرانی‌ہا (مسیحیان یہودی‌نژاد)، باب 9، آیہ4۔
  23. سورہ بقرہ، آیہ248۔
  24. بلاغی نجفی، آلاء الرحمن، 1420ھ، ج1، ص222۔
  25. سبزواری نجفی، إرشاد الأذہان، 1419ھ، ص45۔
  26. ابن عربی،‌ تفسیر ابن عربی، 1422ھ، ج1، ص82۔
  27. کتاب مقدس،‌ کتاب یوشع، باب 3، آیات 14-17۔

مآخذ

  • ابن طاووس، علی بن موسی، التشریف بالمنن فی التعریف بالفتن المعروف بالملاحم و الفتن، قم، مؤسسۃ صاحب الأمر(عج)، چاپ اول، 1416ھ۔
  • ابن عاشور، محمد بن طاہر، التحریر و التنویر، بیروت، مؤسسہ التاریخ، چاپ اول، بی‌تا۔
  • ابن عربی، ابو عبداللہ محیی الدین محمد، تفسیر ابن عربی، تحقیق: رباب، سمیر مصطفی،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، 1422ھ۔
  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، چاپ اول، 1416ھ۔
  • بغوی، حسین بن مسعود، معالم التنزیل فی تفسیر القرآن، تحقیق: المہدی، عبدالرزاھ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، 1420ھ۔
  • بلاغی نجفی، محمد جواد، آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن، قم، بنیاد بعثت، چاپ اول، 1420ھ۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، انوار التنزیل و اسرار التأویل، تحقیق: المرعشلی، محمد عبد الرحمن،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، 1418ھ۔
  • حسینی، سید عبد‌الہادی، «تابوت عہد از منظر قرآن و تورات»، در مجلہ معرفت، شمارہ 242، بہمن 1396ہجری شمسی۔
  • دہخدا، لغت‌نامہ، سایت واژہ‌یاب۔
  • ‌رشید رضا، تفسیر المنار، مصر، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1990ء۔
  • ‌سبزواری نجفی، محمد بن حبیب اللہ، ارشاد الاذہان الی تفسیر القرآن،‌ بیروت، دار التعارف للمطبوعات، چاپ اول، 1419ھ۔
  • طبری، ابو جعفر محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار المعرفۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: موسوی جزائری، سید طیب، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔