مندرجات کا رخ کریں

معتمد عباسی

ویکی شیعہ سے
معتمد عباسی
کوائف
ناماحمد بن جعفر متوکل
لقبمعتمد علی‌اللہ
تاریخ پیدائش229ھ (سامرا)
والدمتوکل عباسی
والدہفتیان رومی
اولادجعفر بن معتمد
مذہباسلام
وفات279ھ (بغداد)
مدفنسامرا
حکومت
سلسلہبنی عباس
آغاز256ھ
انجام279ھ
معاصرامام حسن عسکریؑ
مرکزبغداد
اہم اقداماتامام حسن عسکریؑ کو شہید کیا جانا
قبل ازمعتضد عباسی
بعد ازمہتدی عباسی


معتمد عباسی یا المُعْتَمِد علی‌اللہ(229 - 279 ہجری)، بنی عباسی کے پندرہویں خلیفہ تھے جنہوں نے امام حسن عسکریؑ کے قتل کا حکم دیا۔ وہ متوکل عباسی کے بیٹے تھے اور 256 ہجری میں مہتدی عباسی کے بعد خلافت پر پہنچا۔ معتمد کی حکومت کا تقریباً چار سال امام حسن عسکریؑ کی امامت اور 19 سال امام مہدی (عج) کی امامت کے ساتھ ہمزمان تھی۔

معتمد کے دور میں متعدد علویوں کو قید کیا گیا اور کئی کو قتل کر دیا گیا۔ بعض احادیث کے مطابق امام حسن عسکری ؑ کو معتمد کے دور میں قید کیا گیا اور رہائی کے بعد زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ امام عسکری ؑ کی شہادت کے بعد معتمد نے آپ کے فرزند امام مہدی (عج) کو گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ تاریخی مصادر میں معتمد کے دور میں متعدد شیعہ تحریکوں کا ذکر ملتا ہے جن میں مصر میں محمد بن حنفیہ کی اولاد میں سے ابراہیم بن محمد کی تحریک اور کوفہ میں علی بن زید علوی کی تحریک شامل ہیں۔ صاحب زنج کی تحریک اور قرامطہ کا ظہور بھی معتمد کے دور خلافت کے اہم واقعات میں سے ہیں۔

معتمد نے اپنے بھائی موفق عباسی کے ساتھ مل کر خلافت کا مرکز سامرا سے بغداد منتقل کیا اور عربوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ترکوں کو بغاوت کرنے والوں کے خلاف جنگ میں استعمال کر کے حکومت کو ترک سرداروں کے ممکنہ خطرات سے بچایا۔ معتمد ایک عیاش شخص تھا اور کہا جاتا ہے کہ نااہلی اور عیاشی کی وجہ سے اس نے اپنی سلطنت کو اپنے بیٹے جعفر اور بھائی موفق کے درمیان تقسیم کر دیا۔ کچھ عرصے بعد تمام طاقت اس کے بھائی کے ہاتھ میں آ گئی اور معتمد کے پاس صرف خلیفہ کا نام رہ گیا۔ معتمد کے بعد اس کے بھائی موفق کا بیٹا معتضد عباسی اقتدار میں آیا۔

بنی‌عباس
خلفا
نام مدت سلطنت
ابو العباس سفاح ۱۳۲-۱۳۶
عبداللہ منصور ۱۳۶-۱۵۸
مہدی عباسی ۱۵۸-۱۶۹
ہادی عباسی ۱۶۹-۱۷۰
ہارون رشید ۱۷۰-۱۹۳
محمد امین ۱۹۳-۱۹۸
مامون عباسی ۱۹۸-۲۱۸
معتصم عباسی ۲۱۸-۲۲۷
واثق عباسی ۲۲۷-۲۳۲
متوکل عباسی ۲۳۲-۲۴۷
منتصر عباسی ۲۴۷-۲۴۸
مستعین عباسی ۲۴۸-۲۵۲
معتز عباسی ۲۵۲-۲۵۵
مهتدی عباسی ۲۵۵-۲۵۶
معتمد عباسی ۲۵۶-۲۷۸
معتضد عباسی ۲۷۸-۲۸۹
مکتفی ۲۸۹-۲۹۵
مقتدر ۲۹۵-۳۲۰
قاهر ۳۲۰-۳۲۲
راضی ۳۲۲-۳۲۹
متقی ۳۲۹-۳۳۳
مستکفی ۳۳۴-۳۳۳
مطیع ۳۳۴-۳۶۳
طائع ۳۶۳-۳۸۱
قادر ۳۸۱-۴۲۲
عبدالله قائم ۴۲۲-۴۶۷
مقتدی ۴۶۷-۴۸۷
مستظهر ۴۸۷-۵۱۲
مسترشد ۵۱۲-۵۲۹
منصور راشد ۵۲۹-۵۳۰
مقتفی ۵۳۰-۵۵۵
مستنجد ۵۵۵-۵۶۶
مستضی ۵۶۶-۵۷۵
الناصر لدین الله ۵۷۵-۶۲۲
ظاهر ۶۲۲-۶۲۳
مستنصر ۶۲۳-۶۴۰
مستعصم ۶۴۰-۶۵۶
وزرا و امرای سرشناس
ابومسلم خراسانیابوسلمہ خلالیحیی بن خالد برمکیفضل بن یحیی برمکیجعفر بن یحیی برمکیحمید بن قحطبہ طائیعلی بن عیسی بن ماہانفضل بن ربیعفضل بن سہلطاہر بن حسین
ہم عصر شخصیات
جعفر بن محمدصادقموسی بن جعفر کاظمعلی بن موسی رضامحمد بن علی جوادعلی بن محمد ہادیحسن بن علی عسکریم ح م د بن الحسن المہدی
اہم واقعات
محمد نفس زکیہ کا قیامواقعہ فخ

اجمالی تعارف

احمد بن جعفر بن محمد بن ہارون الرشید، جو ترکوں[1] کی طرف سے المُعْتَمِد علی‌اللہ کے لقب سے ملقب،[2] اور اسی نام سے مشہور ہوا۔[3] وہ پندرہواں عباسی خلیفہ[4] اور متوکل عباسی کی اولاد میں سے تھا۔ ان کی کنیت ابوالعباس تھی[5] اور ان کی ماں فتیان ایک رومی لونڈی تھی،[6] جس کی وجہ سے وہ ابن فتیان کے نام سے بھی مشہور تھا۔[7] وہ مہتدی باللہ کے بعد خلیفہ بنا[8] اور 23 سال تک حکومت کی۔[9]

معتمد معتز اور مہتدی کے بعد امام حسن عسکریؑ کے معاصر خلفائے بنی عباس میں سے تیسرا خلیفہ تھا،[10] ان کی حکومت کا 4 سال امام حسن عسکریؑ کی امامت کے ساتھ[11] اور 19 سال امام مہدی (عج) کی امامت[12] اور غیبت کے ساتھ ہمزمان تھا۔[13]

معتمد 229ھ کو سامرا میں پیدا ہوا[14] اور 50 سال کی عمر میں [15] یعنی 11[16] یا 19 رجب[17]سنہ 279ھ کو بغداد میں انتقال کر گیا اور انہیں سامرا میں دفن کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں شربت یا کھانے میں زہر دے کر قتل کیا گیا تھا۔[18] ان کے بعد ان کے بھتیجے احمد بن موفق (معتضد) خلیفہ بنا۔[19]

معتمد کے دور میں فضل بن شاذان نیشابوری[20] اور احمد بن محمد بن خالد برقی[21] جیسے علماء اور محدثین گزرے ہیں۔ اہل سنت کے مشہور علماء جیسے بخاری، مسلم بن حجاج، ابوداود سجستانی، محمد ترمذی، ابن‌ماجہ، محمد بن عبدالحکم، مورخ معروف مصر، قاضی بکار[22] اور دوسرے علماء[23] ان کے دور میں وفات پائے ہیں۔ معتمد کے شاعر ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے۔[24]

حکومت

معتمد 14 رجب[25] یا 18 رجب سنہ 256ھ[26] کو 25 سال کی عمر میں خلیفہ منتخب ہوا۔[27] وہ خلیفہ سابق مہتدی کے دور میں قید میں تھا لیکن مہتدی کے قتل کے بعد ترکوں نے انہیں رہا کر کے بطور خلیفہ ان کی بیعت کی۔[28]

معتمد نے اپنے بیٹے جعفر کو ولی عہد مقرر کیا اور اسے المفوّض الی‌اللہ کا لقب دیا جبکہ اس کے بھائی موفق کو جعفر کے بعد ولی عہد بنایا۔[29] موفق جعفر کی ولی عہدی سے ناخوش تھا اور اسے اس منصب کے لائق نہیں سمجھتا تھا۔[30]

معتمد نے مرکز خلافت کو سامرا سے بغداد منتقل کیا،[31] یوں ان کے بعد بھی بغداد عباسی خلافت کا دارالحکومت کے طور پر باقی رہا۔[32] معتمد نے حکومت کو بغداد منتقل کرنے کے بعد عربوں کی حمایت حاصل کر کے[33] ترکوں کے اثر و رسوخ کو کم کیا۔[34] کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حکومت پر پہنچنے کے بعد ابتداء میں ترکوں کے ساتھ نرمی سے پیش آیا اور موسی بن بغا کی قیادت میں انہیں صاحب زنج کے خلاف جنگ پر بھیجا،[35] یوں حکومت کو ترکوں کے ممکنہ خطرات سے بچایا لیا۔[36] ان سے پہلے کے خلفاء معتز[37] اور مہتدی[38] نے بھی ترکوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی اور آخر کار ترک سرداروں کے ہاتھوں قتل قتل ہوئے تھے۔

عیاشی اور سیاست سے بیگانہ

معتمد کو ایک عیاش اور لذت پرست شخص کے طور پر یاد کیا گیا ہے[39] جو اکثر اوقات عیاشی اور شراب نوشی میں گزارتا تھا۔[40] وہ سیاست سے ناواقف[41] اور ایک نا اہل حکمران تھا۔[42] کتاب الاعلام کے مصنف زرکلی کے مطابق معتمد ایک آشفتہ، منزوی اور دوسروں کے اشارے پر ناچنے والا شخص تھا۔[43] معتمد نے اپنی اقتدار اور حکومت کو اپنے بیٹے اور بھائی کے درمیان تقیسم کیا[44] اور اپنے بھائی کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کرنے کے علاوہ اسلامی حکومت کا ایک اہم حصہ بھی اس کے حوالے کیا اور خود عیاشی میں مصروف ہو گیا۔[45]

کہا جاتا ہے کہ اس کا بھائی موفق ایک دانا اور ہوشیار شخص تھا اور انہوں نے مشکلات کو برطرف کرنے کے لئے بہت کوشش کیا۔ موفق نے لشکریوں کو منظم کر کے حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کا مقابلہ کیا۔[46] دوسری طرف معتمد کی عیاشی اور حکومت کو اپنے بھائی کے سپرد کئے جانے کی وجہ سے لوگوں کے دل میں اس کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا اور لوگ کی توجہ اس کے بھائی موفق کی جانب مبزول ہونا شروع ہوا۔[47]

حکومت کو موفق کے سپرد کرنا

موفق نے اپنے بھائی کی ناکامی کی وجہ سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔[48] کہا جاتا ہے کہ خطبہ دینا، سکوں پر نام درج کرنا اور امیرالمومنین کا لقب معتمد کے پاس تھا جبکہ حکومتی امور میں عزل و نصب اور حکم دینے کا اختیار موفق کے پاس تھا۔[49] مورخین کے مطابق حکومت پر موفق کا تسلط اس قدر تھا کہ معتمد کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا اور وہ صرف نام کا خلیفہ رہ گیا۔[50] یہاں تک کہ بعض اوقات وہ مالی اعتبار سے بھی اپنے موفق کا محتاج تھا۔[51] آخر کار معتمد مصر کے حکمران احمد بن طولون کی دعوت پر مصر کی طرف حرکت کی لیکن حاکم موصل نے انہیں گرفتار کر کے بغداد لوٹا دیا۔[52] موفق نے اس کے دارالخلافہ میں داخلہ پر پابندی لگا دی اور اس کے خلاف سخت احکامات جاری کیا۔[53]

موفق کے بعد اس کا بیٹا معتضد برسر اقتدار آیا[54] اور معتمد کے حوالے سے اس نے بھی سختی سے کام لیا۔[55] معتمد نے مجبور ہو کر ولیعہدی کے لئے اپنے بیٹے پر معتضد کو مقدم کیا۔[56]

امام حسن عسکری ؑ اور شیعیوں کے ساتھ سلوک

بعض محققین کے مطابق امام حسن عسکریؑ کے اکثر پیروکار سخت حکومتی نگرانی میں تھے اور اپنے امام سے براہ راست رابطہ کرنے سے محروم تھے۔[57] وہ علماء اور فقہاء جو امام حسن العسکریؑ سے ملاقات کرنا چاہتے تھے، انہیں زیر نظر رکھا جاتا تھا۔[58] امام کے وکلاء کی آمد و رفت کو بھی سخت کنٹرول کیا جاتا تھا۔[59] ایک رپورٹ کے مطابق حسین بن روح معتمد کی حکومت کی سخت نگرانی میں زندگی گزارنے کی وجہ سے چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔[60] حکومت کا شیعیوں پر دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ امام نے اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتے تھے کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے راستے میں انہیں سلام کرنے سے گریز کریں۔[61] امام حسنؑ کی اولاد میں سے احمد بن محمد بن عبداللہ، امام سجادؑ کی اولاد میں سے محمد بن احمد بن محمد، جعفر بن ابی طالب کی اولاد میں سے حمزہ بن حسین، امام حسنؑ کی اولاد میں سے حمزہ بن عیسیٰ، اور امام سجادؑ کی اولاد میں سے محمد اور ابراہیم کو طبرستان میں قتل کیا جانا اور اسی طرح سامرا کی جیل میں امام حسنؑ کی اولاد میں سے محمد بن حسین اور موسیٰ بن موسیٰ کو بھی قتل کیا جانا، یہ سب معتمد حکومت کی طرف سے شیعیوں کے خلاف سخت اقدامات کی مثالیں ہیں۔[62]

امام حسن عسکریؑ کو قید کرنا

امام حسن عسکریؑ کو عباسی حکمرانوں کی طرف سے سخت پابندیوں کا سامنا تھا۔[63] معتمد عباسی نے امام کو سخت سیکیورٹی نگرانی میں رکھا[64] اور ان کے اردگرد جاسوس مقرر کر کے ان پر کئی پابندیاں عائد کیں۔ اس کی وجہ سے امام کے اکثر پیروکار ان سے آزادانہ رابطہ کرنے سے محروم ہو گئے۔[65] امام کے بارے میں معتمد کی پریشانی اس حد تک تھی کہ اس نے امام کو ہر پیر اور جمعرات کو دربار میں حاضر ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔[66] لیکن امام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے دربار کی طرف ان کی آمد و رفت کے راستے پر لوگوں کی بھیڑ جمع ہو جاتی تھی۔[67]

امام حسن عسکریؑ کو مہتدی کے علاوہ معتمد کے دور میں بھی قید کیا گیا۔[68] ایک رپورٹ کے مطابھ، امام کو 259 ہجری میں، شہادت سے کچھ مہینے پہلے، معتمد کے حکم پر قید کر دیا گیا۔[69] علی بن جرین[70] یا علی بن اوتامشمسی، جو اہل بیتؑ کے سخت دشمنوں میں سے تھے، کو امام کا زندان بان مقرر کیا گیا۔[71] معتمد نے زندان بان کو ہدایت کی تھی کہ وہ امام پر سخت گیری کرے اور ان کی روزانہ کی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کرے۔ تاہم، جب معتمد کو رپورٹ دی گئی کہ شیعوں کے امام قید خانے میں ہمیشہ روزہ اور عبادت میں مصروف رہتے ہیں، تو اس نے 260 ہجری میں آپ کو رہا کر دیا۔[72]

سخت گیری کی وجوہات

امام حسن عسکریؑ کی قیادت میں شیعوں کی بڑھتی ہوئی طاقت، اہل بیت کی نسبت عباسیوں کی حسد اور کینہ، امام کی وسیع عوامی حمایت، عباسیوں کے خلاف علویوں کی بغاوتیں اور امام حسن عسکریؑ کا امام مہدی کے والد ہونے کی بنا پر پر مہدویت کی خبروں نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ شیعوں کے گیارہویں امام کو مسلسل دباؤ اور سخت نگرانی میں رکھے۔[73]

امام حسن عسکریؑ کی شہادت

کہا جاتا ہے کہ امام حسن عسکریؑ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور شیعوں کی سرگرمیوں کو روکنے میں حکومتی کڑی نگرانی، قید و بند اور دھونس دھمکیوں سے کوئی نتیجہ نہ نکلنے کی وجہ سے معتمد نے امام کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔[74] آخر کار امام حسن عسکریؑ کو خفیہ طور پر زہر دے دیا گیا یوں 8 ربیع الاول سنہ 260ھ کو آپ شہادت کے درجے پر فائز ہو گئے۔[75] کہا جاتا ہے کہ حکومت نے امام کی موت کو طبیعی موت ظاہر کرنے کی کوشش کی۔[76] لیکن طبرسی کا کہنا ہے کہ اکثر شیعہ علماء کا ماننا ہے کہ امام کو معتمد کی طرف سے زہر دے کر شہید کیے گئے۔[77] تاہم، شیخ مفید نے اپنی کتاب "الارشاد" میں امام حسن عسکریؑ کی موت کو بیماری کی وجہ سے بتایا ہے اور معتمد کے قتل میں ملوث ہونے کا ذکر نہیں کیا۔[78]

امام حسن عسکریؑ کی طرف سے اپنی شہادت کی طرف اشارہ کرنا،[79] آپ کی زندگی میں اس سے پہلے کسی بیماری کی شکایت کا نہ پایا جانا، قید سے رہائی کے مختصر عرصے میں آپ کی موت واقع ہونا[80] اور خلیفہ کی طرف سے امام کی موت کو طبیعی موت ظاہر کرنے کی کوششمسی،[81] نیز یہ حدیث کہ تمام امام شہید ہوئے ہیں (ما منا الا مقتول شہید[82] یہ سب معتمد کی طرف سے امام حسن العسکریؑ کو قتل کرنے کی سازش کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مزید برآں شیعہ تاریخی تجربے اور شیعہ ائمہ کے خلاف خلفاء کے رویے کو دیکھتے ہوئے، امام کی شہادت شیعوں کے لیے واضح تھی۔[83]

بعض مصادر میں یہ بھی ذکر ہے کہ امام ہادیؑ کو بھی معتمد کے حکم سے شہید کیا گیا تھا۔[84] کہا جاتا ہے کہ امام ہادیؑ کو معتز، سابق عباسی خلیفہ، کے حکم پر اور معتمد کے توسط سے زہر دے کر شہید کیا گیا تھا۔[85]

امام مہدی (عج) کے خلاف اقدامات

حکومت کی طرف سے امام حسن عسکریؑ کے بیٹے کو رسائی کی کوششوں نے امام کو اپنے نور نظر یعنی امام مہدی (عج) کی پیدائش اور رہائش کو خفیہ رکھنے پر مجبور کیا۔[86] کہا جاتا ہے کہ حکومت نے کئی بار امام مہدی (عج) کو گرفتار کرنے کے لیے آپ کے گھر کی تلاشی لی اور آپ کی زندگی کے آخری ایام میں آپ کے دولت سرا کو کڑی نگرانی میں رکھا تاکہ اگر آپ کے فرزند گرامی کے بارے میں کوئی اطلاع مل جائے تو حکومت کو اطلاع دی جا سکے۔[87] معتمد کے حکم پر حکومتی کارندوں نے امام عسکریؑ کی شہادت کے بعد بھی امام مہدی (عج) کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔ انہوں نے گھر کی تلاشی لی اور گھر کے تمام کمروں کو بند کر کے[88] امام حسن عسکریؑ کی تمام لونڈیوں کو قید کر لیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ حاملہ نہیں ہیں۔[89]

تحریکیں اور جنگیں

معتمد کا دور خلافت ایک پرتشدد دور تھا جس میں حکومت کے خلاف کئی تحریکیں چلیں۔[90] کہا جاتا ہے کہ اس دور میں اسلامی سرزمین کا ہر حصہ کسی نہ کسی گروہ کے کنٹرول میں تھا۔[91]

معتمد کے دور میں علی بن محمد صاحب زنج کی قیادت میں زنگیوں کی تحریک شروع ہوئی،[92] جو آخر کار حکومت کی طرف سے سکوب کی گئی۔[93] اس دوران یعقوب لیث صفاری نے طاقت حاصل کی۔[94] وہ معتمد کی فوجوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بعد اسلامی سرزمین کے کچھ حصوں پر قابض ہو گئے،[95] لیکن آخر میں بیماری کی وجہ سے جندی شاپور میں انتقال کر گئے۔[96]

سنہ 278ھ کو کوفہ میں قرامطیوں کا ظہور،[97] اسی طرح اسماعیلیوں،[98] طبرستان کے علوی،[99] اور صفاریوں کی تحریکیں، نیز احمد بن عبداللہ خجستانی کی خراسان اور کرمان میں بغاوت،[100] اور رومیوں کے خلاف جنگ (صوائف)[101] معتمد کے دور کے دیگر اہم واقعات میں سے تھے۔

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: قیام صاحب زنج اور اسماعیلیہ

علویوں کی تحریک

معتمد کے دور میں کچھ شیعہ گروہوں کی طرف سے تحریکیں شروع ہوئیں۔ ان میں سے ایک علی بن زید بن حسین کی تحریک تھی، جنہوں نے کوفہ میں قیام کیا اور پہلے مرحلے میں عباسیوں کو شکست دی، لیکن کوفہ والوں کی حمایت نہ ملنے کی وجہ سے وہ صاحب زنج کے ساتھ مل گئے۔ علی بن زید نے صاحب زنج کے علوی ہونے کے جھوٹے دعوے سے با خبر ہونے کے بعد اس کے کمانڈروں کو اپنی طرف بلانے کی کوشش کی، لیکن آخر کار وہ صاحب زنج کے ہاتھوں مارے گئے۔[102]

معتمد کے دور میں مصر میں محمد بن حنفیہ کی اولاد میں سے ابراہیم بن محمد،[103] کوفہ میں علی بن زید علوی،[104] اور شہر ری میں حسین بن زید الطالبی[105] نے قیام کیا۔ سیوطی نے اپنی کتاب "تاریخ الخلفاء" میں عبیداللہ بن عبید نامی شخص کا ذکر کیا ہے، جس نے یمن میں مہدویت کا دعویٰ کیا تھا۔[106]

حوالہ جات

  1. خواندمیر، تاریخ حبیب السیر، 1380شمسی، ج‌2، ص279۔
  2. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج‌4، ص280؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، 1415ھ، ج‌71، ص51؛ صفدی، الوافی بالوفیات، 1401ھ، ج‌6، ص292۔
  3. طبری، تاریخ‌ الطبری، 1387ھ، ج‌9، ص474۔
  4. ابی‌الفداء، تاریخ أبی‌الفداء، 1417ھ، ج1، ص366؛ قمی، نگاہی بر زندگی چہاردہ معصوم(ع)، 1380شمسی، ص503؛ حسینی خانون آبادی، وقایع السنین و الاعوام، 1352شمسی، ج1، ص180۔
  5. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج‌4، ص280؛ خواندمیر، تاریخ حبیب السیر، 1380شمسی، ج‌2، ص279؛ زامباور، نسب نامہ خلفا، 2536شمسی، ج 1، ص3۔
  6. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج‌4، ص280؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، 1415ھ، ج‌71، ص71و51؛ صفدی، الوافی بالوفیات، 1401ھ، ج‌6، ص292۔
  7. طبری، تاریخ‌ الطبری، 1387ھ، ج‌9، ص474۔
  8. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج‌4، ص280؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، 1415ھ، ج‌71، ص51؛ ابن‌فوطی، مجمع الآداب، 1416ھ، ج‌5، ص323۔
  9. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج‌4، ص281؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، 1415ھ، ج‌71، ص51؛ صفدی، الوافی بالوفیات، 1401ھ، ج‌6، ص292۔
  10. جمعی از نویسندگان، فرہنگ شیعہ، 1386شمسی، ص125۔
  11. معروف الحسنی، زندگانی دوازدہ امام(ع)، 1382شمسی، ج‌2، ص503۔
  12. محدث نوری، نجم الثاقب، 1384شمسی، ج‌1، ص82۔
  13. حسن، تاریخ سیاسی اسلام، 1376شمسی، ج‌3، ص379۔
  14. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج‌4، ص280؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، 1415ھ، ج‌71، ص51؛ صفدی، الوافی بالوفیات، 1401ھ، ج‌6، ص292۔
  15. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، 1415ھ، ج‌71، ص51-52؛ خواندمیر، تاریخ حبیب السیر، 1380شمسی، ج‌2، ص279۔
  16. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج‌4، ص281؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، 1415ھ، ج‌71، ص51-52؛ صفدی، الوافی بالوفیات، 1401ھ، ج‌6، ص292۔
  17. ابن‌شاکر کتبی، فوات الوفیات، بیروت، ج‌1، ص64۔
  18. صفدی، الوافی بالوفیات، 1401ھ، ج‌6، ص292؛ ابن‌عماد حنبلی، شذرات الذہب، 1406ھ، ج‌3، ص326۔
  19. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، 1415ھ، ج‌71، ص52؛ صفدی، الوافی بالوفیات، 1401ھ، ج‌6، ص292؛ ابن‌شاکر کتبی، فوات الوفیات، بیروت، ج‌1، ص65۔
  20. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، 1404ھ، ج‌2، ص821۔
  21. نجاشی، الرجال، 1365شمسی، ص77۔
  22. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص434؛ حسن، تاریخ سیاسی اسلام، 1376شمسی، ج‌3، ص382۔
  23. خواندمیر، تاریخ حبیب السیر، 1380شمسی، ج‌2، ص280۔
  24. صفدی، الوافی بالوفیات، 1401ھ، ج‌6، ص292-293۔
  25. یعقوبی، تاریخ‌ الیعقوبی، بیروت، ج‌2، ص507؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج‌4، ص281؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، 1415ھ، ج‌71، ص51۔
  26. ابی‌الفداء، تاریخ أبی الفداء، 1417ھ، ج1، ص366؛ عبدالحسین خاتون‌آبادی، وقایع السنین والاعوام، 1352شمسی، ج1، ص180؛ زامباور، نسب‌نامہ خلفا، 2536، ج1، ص3۔
  27. قرشی، زندگانی امام حسن عسکری(ع)، 1375شمسی، ص266۔
  28. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص430؛ ابی‌الفداء، تاریخ أبی الفداء، 1417ھ، ج1، ص366۔
  29. ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج7، ص277؛ حسن، تاریخ سیاسی اسلام، 1376شمسی، ج‌3، ص378۔
  30. حسن، تاریخ سیاسی اسلام، 1376شمسی، ج‌3، ص378۔
  31. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج7، ص455؛ ابن‌خلدون، تاریخ‌ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج‌3، ص432۔
  32. زرکلی، الأعلام، 1989م، ج‌1، ص107۔
  33. خضری، تاریخ خلافت عباسی از آغاز تا پایان آل‌بویہ، 1394شمسی، ص123۔
  34. خواندمیر، تاریخ حبیب السیر، 1380شمسی، ج‌2، ص279۔
  35. حسن، تاریخ سیاسی اسلام، 1376شمسی، ج‌3، ص379۔
  36. خضری، تاریخ خلافت عباسی از آغاز تا پایان آل‌بویہ، 1394شمسی، ص123۔
  37. ابن‌شداد، الأعلاق الخطیرۃ، 1953م، ج‌3، ص700؛ صفدی، الوافی بالوفیات، 1401ھ، ج‌2، ص292؛ ابن‌تغری بردی، مورد اللطافۃ، 1977شمسی، ج‌1، ص164۔
  38. ابن‌خلدون، تاریخ‌ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج‌3، ص379؛ خواندمیر، تاریخ حبیب السیر، 1380شمسی، ج‌2، ص279؛ ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج‌11، ص22۔
  39. قرشی، زندگانی امام حسن عسکری(ع)، 1375شمسی، ص266۔
  40. خواندمیر، تاریخ حبیب السیر، 1380شمسی، ج‌2، ص279۔
  41. سلوی، الکوکب الثاقب، 1427ھ، ج‌3، ص811۔
  42. ابن‌الطقطقی، الفخری، 1418ھ، ص245؛ ابن‌خلدون، تاریخ‌ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج‌3، ص432۔
  43. زرکلی، الأعلام، 1989م، ج‌1، ص106۔
  44. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص430؛ حسن، تاریخ سیاسی اسلام، 1376شمسی، ج‌3، ص378۔
  45. حسن، تاریخ سیاسی اسلام، 1376شمسی، ج‌3، ص378۔
  46. خضری، تاریخ خلافت عباسی از آغاز تا پایان آل‌بویہ، 1394شمسی، ص123۔
  47. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص430؛ زرکلی، الأعلام، 1989م، ج‌1، ص107۔
  48. صفدی، الوافی بالوفیات، 1401ھ، ج‌6، ص292؛ ابن‌شاکر کتبی، فوات الوفیات، بیروت، ج‌1، ص65۔
  49. حسن، تاریخ سیاسی اسلام، 1376شمسی، ج‌3، ص378۔
  50. خواندمیر، تاریخ حبیب السیر، 1380شمسی، ج‌2، ص279؛ حسن، تاریخ سیاسی اسلام، 1376شمسی، ج‌3، ص378۔
  51. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج‌11، ص65۔
  52. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص432؛ ابن‌خلدون، تاریخ‌ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج‌3، ص393۔
  53. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، 432۔
  54. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص434۔
  55. ابن‌خلدون، تاریخ‌ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج‌3، ص432۔
  56. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص434؛ ابن‌خلدون، تاریخ‌ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج‌3، ص432۔
  57. حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم(عج)، 1385شمسی، ص101؛ قرشی، زندگانی امام حسن عسکری(ع)، 1375شمسی، ص269۔
  58. قرشی، زندگانی امام حسن عسکری(ع)، 1375شمسی، ص268۔
  59. معروف الحسنی، زندگانی دوازدہ امام(ع)، 1382شمسی، ج‌2، ص569۔
  60. معروف الحسنی، زندگانی دوازدہ امام(ع)، 1382شمسی، ج‌2، ص573۔
  61. منتظرالقائم، تاریخ امامت، 1386شمسی، ص255-256۔
  62. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، بیروت، ص536-540۔
  63. جمعی از نویسندگان، فرہنگ شیعہ، 1386شمسی، ص125۔
  64. قرشی، زندگانی امام حسن عسکری(ع)، 1375شمسی، ص268۔
  65. حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم(عج)، 1385شمسی، ص101۔
  66. منتظرالقائم، تاریخ امامت، 1386شمسی، ص255۔
  67. منتظرالقائم، تاریخ امامت، 1386شمسی، ص255۔
  68. قرشی، زندگانی امام حسن عسکری(ع)، 1375شمسی، ص267۔
  69. ابن‌طاووس، مہج الدعوات، 1411ھ، ص275۔
  70. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ(ع)، قم، ص544-545۔
  71. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ(ع)، قم، ص544-545۔
  72. مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384شمسی، ص253۔
  73. قرشی، زندگانی امام حسن عسکری(ع)، 1375شمسی، ص270۔
  74. احمدی، تاریخ امامان شیعہ، 1389شمسی، ص246۔
  75. طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص131۔
  76. احمدی، تاریخ امامان شیعہ، 1389شمسی، ص246۔
  77. طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص131-132۔
  78. شیخ مفید،‌ الإرشاد، 1413ھ، ج‌2، ص336۔
  79. مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384شمسی، ص253۔
  80. منتظرالقائم، تاریخ امامت، 1386شمسی، ص256-257۔
  81. تصویر امامان شیعہ در دایرۃ المعارف اسلام، ص443
  82. تصویر امامان شیعۃ در دایرۃ المعارف اسلام، ص443-444
  83. احمدی، تاریخ امامان شیعہ، 1389شمسی، ص246۔
  84. مناقب و مراثی اہل‌بیت، ص274؛ منتہی الآمال، ج‌3، ص1887؛ ابن‌شہرآشوب، مناقب آل‌ابی‌طالب، 1379ھ، ج4، ص401۔
  85. تقی‌زادہ داوری، تصویر امامان شیعہ، 1385شمسی، ص427۔
  86. احمدی، تاریخ امامان شیعہ، 1389شمسی، ص247۔
  87. احمدی، تاریخ امامان شیعہ، 1389شمسی، ص247 بہ نقل از کلینی۔
  88. مدرسی، امامان شیعہ و جنبشہای مکتبی، 1369شمسی، ص363۔
  89. مدرسی، امامان شیعہ و جنبشہای مکتبی، 1369شمسی، ص362۔
  90. سلوی، الکوکب الثاقب، 1427ھ، ج‌3، ص811۔
  91. ابن‌خلدون، تاریخ‌ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج‌3، ص423۔
  92. ابن‌خلدون، تاریخ‌ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج‌3، ص382۔
  93. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص430؛ خواندمیر، تاریخ حبیب السیر، 1380شمسی، ج‌2، ص279۔
  94. خواندمیر، تاریخ حبیب السیر، 1380شمسی، ج‌2، ص279۔
  95. بیہقی، تاریخ بیہقی، 1374شمسی، ج‌2، ص555۔
  96. حسن، تاریخ سیاسی اسلام، 1376شمسی، ج‌3، ص431۔
  97. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص434۔
  98. حسن، تاریخ سیاسی اسلام، 1376شمسی، ج‌3، ص379۔
  99. ابن‌خردادبہ، المسالک و الممالک، بیروت، ص15۔
  100. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص431-432۔
  101. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص431؛ ابن‌خلدون، تاریخ‌ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج‌3، ص421۔
  102. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، بیروت، ص528۔
  103. ابن‌خلدون، تاریخ‌ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج‌3، ص381۔
  104. ابن‌خلدون، تاریخ‌ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج‌3، ص381۔
  105. ابن‌خلدون، تاریخ‌ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج‌3، ص381۔
  106. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ھ، ص433۔

مآخذ

  • ابن‌اثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت،‌ دار بیروت، 1385ھ۔
  • ابن‌الطقطقی، محمد بن علی بن طباطبا، الفخری فی الآداب السلطانیۃ و الدول الاسلامیۃ، تحقیق عبدالقادر محمد مایو، بیروت، دارالقلم العربی، 1418ھ۔
  • ابن‌تغری بردی، یوسف، مورد اللطافۃ فی من ولی السلطنۃ و الخلافۃ، قاہرہ، دارالکتب المصریۃ، 1977م۔
  • ابن‌خردادبہ، عبیداللہ بن عبداللہ، المسالک و الممالک، ترجمہ، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا۔
  • ابن‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الأکبر، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • ابن‌شاکر کتبی، محمد بن شاکر، فوات الوفیات و الذیل علیہا، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا۔
  • ابن‌شداد، محمد بن علی، الأعلاق الخطیرۃ فی ذکر أمراء الشام و الجزیرۃ، دمشھ، المعہد العلمی الفرنسی للدراسات العربیۃ، 1953م۔
  • ابن‌شہرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، المناقب، قم، علامہ، 1379ھ۔
  • ابن‌طاووس، علی بن موسی، مہج الدعوات و منہج العبادات، قم، دارالذخائر، 1411ھ۔
  • ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق و ذکر فضلہا و تسمیۃ من حلہا من الأماثل أو اجتاز بنواحیہا من واردیہا و أہلہا، بیروت، دارالفکر، 1415ھ۔
  • ابن‌عماد حنبلی، عبدالحی بن احمد، شذرات الذہب فی أخبار من ذہب، دمشھ،‌ دار ابن‌کثیر، 1406ھ۔
  • ابن‌فوطی، عبدالرزاق بن احمد، مجمع الآداب فی معجم الألقاب، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، سازمان چاپ و انتشارات، 1416ھ۔
  • ابن‌کثیر الدمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ۔
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا۔
  • ابی‌الفداء، اسماعیل بن علی، تاریخ أبی‌الفداء، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1417ھ۔
  • احمدی بیرجندی، احمد، مناقب و مراثی اہل‌بیت(ع)، مشہد، آستان قدس رضوی، چاپ سوم، 1384ہجری شمسی۔
  • احمدی، حمید، تاریخ امامان شیعہ، قم، دفتر نشر معارف، 1389ہجری شمسی۔
  • بیہقی، محمد بن حسین، تاریخ بیہقی با معنی واژہ‌ہا و شرح جملہ‌ہای دشوار و برخی نکتہ‌ہای دستوری و ادبی، تہران، مہتاب، چاپ چہارم، 1374ہجری شمسی۔
  • تقی‌زادہ داوری، محمود، تصویر امامان شیعہ در دایرۃ المعارف اسلام، قم، موسسہ شیعہ شناسی، 1385ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ(ع)، قم، انصاریان، چاپ ششم، بی‌تا۔
  • جمعی از نویسندگان، فرہنگ شیعہ، قم، زمزم ہدایت، چاپ دوم، 1386ہجری شمسی۔
  • حسن، ابراہیم، تاریخ سیاسی اسلام، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ، تہران، جاویدان، چاپ نہم، 1376ہجری شمسی۔
  • حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم(عج)، ترجمہ سید محمدتقی آیت‌اللہی، تہران، امیرکبیر، چاپ سوم، 1385ہجری شمسی۔
  • حسینی خاتون آبادی، عبدالحسین، وقایع السنین و الاعوام، تہران، اسلامیہ، 1352ہجری شمسی۔
  • خضری، سید احمدرضا، تاریخ خلافت عباسی از آغاز تا پایان آل‌بویہ، تہران، سمت، 1394ہجری شمسی۔
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، منشورات محمد علی بیضون، 1417ھ۔
  • خواندمیر، غیاث الدین بن ہمام الدین، تاریخ حبیب السیر: از حملہ مغول تا مرگ شاہ اسمعیل اول، تہران، خیام، چاپ چہارم، 1380ہجری شمسی۔
  • زامباور، ادوارد، نسب نامہ خلفا و شہر یاران و سیر تاریخی حوادث اسلام، ترجمہ محمدجواد مشکور، تہران، کتابفروشی خیام، 2536ہجری شمسی۔
  • زرکلی، خیرالدین، الأعلام(قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین)، بیروت، دارالعلم للملایین، چاپ ہشتم، 1989م۔
  • سلوی، عبدالقادر بن عبدالرحمن، الکوکب الثاقب فی أخبار الشعراء و غیرہم من ذوی المناقب، مغرب، وزارۃ الأوقاف و الشؤون الإسلامیۃ، 1427ھ۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، تاریخ الخلفاء، دمشھ، دارالبشائر، 1417ھ۔
  • شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی بالوفیات، بیروت، دارالنشر فرانز شتاینر، چاپ دوم، 1401ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، قم، آل‌البیت، 1417ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر بن یزید، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دارالتراث، 1387ھ۔
  • قرشی، باقر شریف، زندگانی امام حسن عسکری(ع)، ترجمہ سید حسن اسلامی، قم، جامعہ مدرسین، 1375ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، منتہی الآمال، قم، دلیل ما، 1379ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، نگاہی بر زندگی چہاردہ معصوم(ع)، قم، ناصر، چاپ سوم، 1380ہجری شمسی۔
  • کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، قم، موسسۃ آل‌البیت(ع) لإحیاء التراث، 1404ھ۔
  • محدث نوری، حسین، نجم الثاقب فی احوال الامام الغائب، قم، مسجد جمکران، 1384ہجری شمسی۔
  • مدرسی، محمدتقی، امامان شیعہ و جنبش‌ہای مکتبی، مشہد، آستان قدس رضوی، چاپ سوم، 1369ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین، إثبات الوصیۃ للإمام علی بن أبی طالب، قم، انصاریان، چاپ سوم، 1384ہجری شمسی۔
  • معروف الحسنی، ہاشم، زندگانی دوازدہ امام(ع)، ترجمہ محمد مقدس، تہران، امیرکبیر، چاپ چہارم، 1382ہجری شمسی۔
  • منتظرالقائم، اصغر، تاریخ امامت، قم، دفتر نشر معارف، 1386ہجری شمسی۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ بقم، چاپ ششم، 1365ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا۔