حرم حضرت زینب شام کے شہر دمشق کے جنوب میں واقع شیعوں کا مشہور زیارتی مقام ہے۔ تاریخی اعتبار سے مشہور یہی ہے کہ حضرت زینب‌ؑ اسی مقام پر مدفون ہیں جبکہ مصر میں مقام حضرت زینب اور مدینہ میں قبرستان بقیع دوسرے دو مقام ہیں جہاں پر حضرت زینب‌ؑ کے مدفون ہونے کا احتمال دیا جاتا ہے۔

حرم حضرت زینبؑ
ابتدائی معلومات
استعمالزیارتگاہ
محل وقوعدمشق (علاقہ زینبیہ)
مشخصات
معماری
طرز تعمیراسلامی - ایرانی
تعمیر نوسنہ 768ھ (پہلی بار سید حسین بپ موسوی حسینی)، 1302ھ، 1354ھ اور 1370ھ

دمشق کا وہ علاقہ جس میں حضرت زینب‌ؑ کا حرم واقع ہے، "شہرک السیدۃ زينب" یا "زینبیہ" کے نام سے مشہور ہے۔ تأسیس سے اب تک متعدد بار حرم حضرت زینب‌ؑ کی تعمیر و توسیع ہوتی رہی ہے۔

سنہ 2013ء سے شام کے حالات خراب ہونے کے بعد اس ملک میں مختلف تکفیری دہشت گردوں کی موجودگی کی وجہ سے حضرت زینب کا حرم کئی دفعہ راکٹ حلموں کا نشانہ بنا جس کے نتیجے میں حرم کے کچھ حصے کو نقصان پہنچا ہے۔ انہی حالات کے پیش نظر دنیا کے مختلف ممالک سے اہل بیت کے ماننے والے مختلف گروہوں کی شکل میں حرم کی حفاظت کے لئے شام روانہ ہوئے جو مدافعان حرم کے نام سے مشہور ہیں جن کی کوششوں سے اب تک دہشت گروہوں کو منطقہ زینبیہ کی طرف بڑھنے میں ناکامی کا سامنا ہوتا رہا ہے اور حضرت زینبؑ کا حرم ان کی شر سے محفوظ ہیں۔

حضرت زینب کے محل دفن میں اختلاف

حضرت زینب‌ؑ کے محل دفن کے بارے میں تین اقوال موجود ہیں۔ مشہور قول کے مطابق آپ شام کے شہر دمشق کے جنوب میں منطقہ زینبیہ میں دفن ہیں۔[1] بعض مورخین کے مطابق آپ مصر میں مدفون ہیں اور اس وقت یہ جگہ قاہرہ میں "منطقہ سیدۃ الزینب" میں مقام السیدۃ زینب کے نام سے مشہور ہے۔[2] تیسرے قول کے مطابق آپ مدینہ میں قبرستان بقیع میں دفن ہیں۔ سید محسن امین اس قول کو قبول کرتے ہوئے پہلے والے دو قول کے رد میں دلائل پیش کرتے ہیں۔[3]

تاریخ کے آئینے میں

تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی تاریخی منابع میں پانچویں صدی ہجری تک حضرت زینب‌ؑ کے مقبرے پر گنبد ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ صرف ایک تاریخی منبع میں حرم کے موجودہ جگہے پر دوسری صدی ہجری میں زیارتگاہ ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ اس یادداشت کے مطابق علوی خاندان سے منسوب ایک خانون، سیدہ نفیسہ بنت حسن الانور جو حضرت علیؑ کی ذریہ میں سے تھی، نے سنہ 193ھ کو دمشق میں منطقہ راویہ میں حضرت زینب‌ؑ کی زیارت کے لئے گئی تھی۔[4] اس کے بعد تاریخ میں آیا ہے کہ حلب کے رہنے والے ایک شخص نے سنہ 500ھ میں حضرت زینب‌ؑ کی زیارتگاہ کی جگہ ایک مسجد تعمیر کی۔[5]

لیکن ساتویں صدی ہجری کے بعد اس زیارتگاہ پر گنبد اور بارگاہ تعمیر کی گئی۔ اس کے مطابق عالم اسلام کے معروف سیاح ابن‌جبیر(متوفی 614ھ) دمشق میں منطقہ راویہ جہاں پر اس وقت حرم حضرت زینب‌ؑ واقع ہے، سے عبور کیا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریر میں اس مزار کو ام کلثوم بنت امام علیؑ سے منسوب کیا ہے۔البتہ یہ احتمال ہے کہ ابن جبیر کی مراد امام علیؑ کی چھوٹی بیٹی زینب صغری ہو نہ کہ حضرت زینب‌ؑ جو زینب کبری کے نام سے معروف ہے۔[6]

ابن جبیر اپنی یادداشت میں دمشق سے ایک فرسخ کے فاصلے پر راویہ نامی گاؤں میں حضرت زینب‌ؑ کے حرم کے واقع ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس پر ایک بہت بڑی مسجد بنائی ہوئی ہے اور اس کے باہر گھر بنائے گئے ہیں جو سب کے سب وقف شدہ ہیں۔ یہاں کے لوگ اس مقبرے کو ام‏‌کلثوم سے منسوب کرتے ہیں۔ اس رپورٹ کے آخر میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے وہاں قیام کیا ہے اور حرم حضرت زینب‌ؑ کی زیارت کے لئے گئے ہیں۔ ابوبکر ہروی متوفی ۶۱۱ھ نے بھی حرم حضرت زینب‌ؑ کی زیارت کی ہے اور اس حوالے سے انہوں نے بھی اپنی یادداشت تحریر کی ہیں۔[7]

محل وقوع اور مشخصات

حرم حضرت زینب‌ؑ دمشق کے جنوب میں منطقہ "السیدہ زینب" میں واقع ہے۔

حرم کی عمارت ایک وسیع اور مربع صحن پر مشتمل ہے جس کے درمیان میں حرم واقع ہے۔ حرم ایک گنبد اور دو بلند میناروں پر مشتمل ہے۔ میناروں اور صحن اور رواقوں کے دیواروں پر ایرانی معماروں کے توسط سے کاشی کاری کی گئی ہے اسی طرح حرم کی چھت اور داخلی دیواروں پر شیشہ کاری کی گئی ہے اور گنبد کے بیرونی حصے پر سونے کی ملمع کاری کی گئی ہے۔

صحن کے مشرقی حصے میں مصلائے زینبیہ ایک چھوٹے صحن کے ساتھ تعمیر کی گئی ہے جس میں نماز جمعہ، نماز یومیہ اور دیگر مذہبی آداب و رسوم ادا کی جاتی ہے۔ ان آخری سالوں میں حرم کے شمالی حصے میں ایک اور صحن بھی تعمیر کی گئی ہے۔

حرم حضرت زینب‌ؑ اور اس کے اطراف میں موجود قبرستان‌ کے درمیان کئی علماء اور شیعہ مشاہیر مدفون ہیں۔ من جملہ ان میں ضریح کے داخلی راستے کے مغربی حصے میں سید محسن امین عاملی اور سید حسین یوسف مكی عاملی کی قبر ہے جو شام کے شیعہ علماء میں سے تھے۔ اسی طرح حرم کے شمالی حصے میں واقع قبرستان میں علی شریعتی اسی طرح جنوبی حصے کے قبرستان میں معاصر عراقی شاعر سید مصطفی جمال‌الدین کی قبر موجود ہے۔[8]

تکفیری گروہوں کی دہشت گردانہ حملے

سنہ 2012ء کے بعد شام میں شروع ہونے والی جنگ میں تکفیری دہشت گردوں کی جانب سے حضرت زینب‌ؑ کے حرم کو کئی دفعہ راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں حرم کے گنبد، صحن اور مین دروازے کو نقصان پہنچا۔ یہ حملے چونکہ حرم کے اطراف اور نزدیک انجام پائے جس کی وجہ سے بہت سارے زائرین اور ان علاقوں کے مکین بھی ان حملوں میں شہید ہو گئے ہیں۔[9][10]

مدافعان حرم

شام میں تکفیری دہشتگروں کی آمد اور مختلف مناطق پر مسلط ہونے کے بعد یہاں موجود مختلف زیارتی اور مذہبی مقامات ان دہشتگروں کے ہاتھوں مسمار ہوئے۔ حرم حضرت زینب‌ؑ نیز کئی دفعہ ان دہشتگروں کے راکٹ حملوں کا نشانہ بنا۔ تکفیری دہشتگردوں نے کئی بار حرم کے نزدیک تک پیش قدمی کی لیکن وہاں کے ساکنین اور شیعوں کی مقاومت کے نتیجے میں حرم تک پہنچنے میں ناکام رہے۔

داعش کی طرف سے اہل‌ بیتؑ کے حرموں خاص کر حرم حضرت زینب‌ؑ کو تخریب کرنے کی دھمکی کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک خاص کر ایران، عراق، لبنان، افغانستان اور پاکستان سے شیعہ جوان حرم حضرت زینب‌ؑ اور دیگر مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے شام روانہ ہو گئے۔ ابوالفضل العباس برگیڈ میں عراقی اور لبنانی، لشکر فاطمیون میں افغانستان جبکہ زینبیون برگیڈ میں پاکستانی جنجگو شامل ہیں جو شام میں موجود مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے رضاکارانہ طور پر شامل چلے گئے ہیں۔[11] ان کے علاوہ ایران سے بھی مختلف گروہ جن میں فوجی افسران بھی شامل تھے، شام چلے گئے ہیں۔[12]

تعمیر اور ترقیاتی منصوبہ جات

تاریخی اسناد کے مطابق حرم حضرت زینب‌ؑ کی پہلی بار سنہ ۷۶۸ھ میں توسیح و تعمیر ہوئی۔ یہ اقدام سید حسین بن موسی موسوی حسینی جو دمشق کے سادات اور اشراف نیز شام میں سادات آل مرتضی کے جد امجد تھے، کے توسط سے انجام پایا۔ اسی سال سے مربوط ایک وقفنامہ میں صاحب قبر کا نام تصریحا زینب کبری بنت امام علیؑ لکھا گیا ہے۔ اس وقفنامے کے مطابق شام میں سادات آل مرتضی کے جد امجد نے زیارتگاہ کی تعمیر کے ساتھ بہت سارے اپنے باغات اور املاک کو حرم کے لئے وقف کئے ہیں۔ اس وقفنامے پر دمشق کے سات قاضیوں کے دستخط ہیں۔[13]

چودہویں صدی ہجری میں حرم کی توسیع

 
حرم حضرت زینب‌ؑ کی پرانی تصویر جو سنہ ۱۹۵۵ء میں لی گئی ہے۔

چودہویں صدی ہجری کو حرم حضرت زینب‌ؑ کی تین بار توسیع کی گئی۔ اس بنا پر سنہ ۱۳۰۲ھ کو سلطان عبدالعزیزخان عثمانی نے تاجروں کی مدد سے حرم کی تعمیر و توسیع کی اسی طرح سنہ ۱۳۵۴ھ کو سادات آل نظام نے حرم حضرت زینب‌ؑ کی توسیع کی۔ آخری بار سنہ ۱۳۷۰ھ کو سید محسن امین نے تاجروں کی مدد سے حرم کی توسیع کی اس بار حرم کی پرانی عمارت کو توڑ کر نئی عمارت تعمیر کی گئی۔[14]

پندرہویں صدی ہجری میں حرم کی توسیع

پندرہویں صدی ہجری میں حرم حضرت زینب‌ؑ کی توسیع کا کام مصلی زینبیہ کی تعمیر کے ساتھ جاری رہی۔ یہ کام شام میں ولی فقیہ کے نمایندے سید احمد فہری زنجانی کے توسط سے انجام پایا۔ حرم میں مصلی کی تعمیر کے بعد نماز جماعت، دعائے کمیل اور نماز جمعہ اسی مصلے میں انجام پاتے ہیں۔ آخری سالوں میں حرم حضرت زینب‌ؑ کے شمالی حصے میں ایک صحن بھی تعمیر کیا گیا ہے۔[15]

تکفیری دہشتگردوں کے حملے کے بعد حرم کی مرمت

شام میں موجود تکفیری دہشتگردوں کے مختلف راکٹ حملوں میں حرم حضرت زینب‌ؑ کے گنبد، صحن‌ اور مین دروازے کو نقصان پہنچا۔ اس بنا پر مقدس مقامات کی تعمیر و توسیع کے ادارے نے حرم کے نقصان دیدہ حصوں کی مرمت کا کام شروع کیا۔ اس سلسلے میں گنبد کے نقصان دیدہ مقامات کو خوزستان کے لوگوں کی طرف سے اہدا شدہ سونے کی ملمع کاری کی گئی۔[16]

حوالہ جات

  1. شریف القرشی، السیدہ زینب رائدہ الجہاد فی الاسلام عرض وتحليل، بیروت، ۱۴۲۲ق/۲۰۰۱م، ص۲۹۸-۳۰۳؛السابقی، آرامگاہ عقیلہ بنی ہاشم؛ پژوہشی تحلیلی-تاریخی، مترجم حسین طہ نیا، ۱۳۹۴ش۔
  2. بررسی تحلیلی سیر مقتل نگاری عاشورا
  3. امین، اعیان الشیعۃ، ج۷، ص۱۴۰-۱۴۱۔
  4. احمد فہمی محمد، کریمۃ الدارین الشریفہ الطاہرہ السیدہ نفیسہ بنت الحسن الانور، ص۲۵، توفيق أبو عَلَم،السيّدۃ نفيسۃ رضي اللہ عنہا،تحقیق: شوقی محمّد، ص۱۱۴۔
  5. تاريخچہ مزار عقیلہ بنی‎ہاشم
  6. محمد بن أحمد بن جبير كنانی اندلسی، رحلۃ ابن جبیر، ص۲۲۸۔
  7. ابوبکر ہروی، الاشارات الی معرفۃ الزیارات، ص۱۲۔
  8. حوزہ نمایندگی ولی فقیہ در حج و زیارت۔
  9. حملہ خمپارہ ای تروریست‌ہا بہ حرم حضرت زینب‌ؑ
  10. حملہ خمپارہ ای بہ حرم حضرت زینب در عاشورای ۱۳۹۴
  11. فاطمیون؛ لشکر سرداران بی‌ادعای مدافع حرم، پایگاہ اینترنتی مشرق نیوز.
  12. معرفی گردان بزرگ ابوالفضل العباس(ع)
  13. سابقی، محمد حسنین، مرقد العقیلۃ زینب، ص ۱۴۵-۱۵۰۔
  14. حضرت زينب (سلام اللہ عليہا)
  15. پایگاہ اینترنتی حوزہ نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارت
  16. خبرگزاری حج و زیارت

مآخذ

  • سابقی، محمد حسنین، مرقد العقیلۃ زینب، بیروت، دارالولاء لطباعۃ و النشر و التوزيع، ۲۰۱۱م۔
  • شریف القرشی، باقر، السيدہ زينب رائدہ الجہاد في الاسلام عرض و تحليل، بیروت، دارالمحجۃ البیضاء، ۱۴۲۲ق/۲۰۰۱م۔
  • فہمی محمد، احمد، کریمۃ الدارین الشریفہ الطاہرہ السیدہ نفیسہ بنت الحسن الانور، قاہرہ، مطبعہ حجازی، ۱۹۲۵م۔
  • توفيق ابو عَلَم،السيّدہ نفيسہ رضی اللہ عنہا، تحقیق: شوقی محمّد، تہران، مجمع جہانی تقريب مذاہب، معاونت فرہنگی، چاپ دوم، ۱۴۲۸ق/۲۰۰۸م۔
  • محمد بن احمد بن جبير كنانی اندلسی، رحلۃ ابن حبیر، بيروت، داربيروت للطباعۃ والنشر۔
  • ہروی، علی بن ابی بكر، الاشارات الی معرفہ‌ الزیارات، تحقیق: جانین سوردیل طومین، دمشق، ۱۹۵۳م۔
  • خبرگزاری فارس
  • خبرگزاری حج و زیارت