آیت ولایت
| آیت کی خصوصیات | |
|---|---|
| آیت کا نام | آیت ولایت |
| سورہ | مائدہ |
| آیت نمبر | 55 |
| پارہ | 6 |
| صفحہ نمبر | 117 |
| محل نزول | مدینہ |
| موضوع | عقائد |
| مضمون | امامت امام علی علیہ السلام |
| مربوط آیات | آیت تبلیغ و آیت اکمال |
آیت ولایت، سورہ مائدہ کی 55ویں آیت کو کہا جاتا ہے جس میں خدا، پیغمبر اکرمؐ اور ان مؤمنین کی ولایت و رہبری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو نماز کے رکوع کی حالت میں انفاق کرتے ہیں۔ شیعہ اور اہل سنت مفسرین کے مطابق اس آیت کا سبب نزول وہ واقعہ ہے جس میں امام علیؑ نے حالت رکوع میں ایک سائل کے لئے اپنی انگوٹھی بطور صدقہ عطا کی۔ اسی بنا پر شیعہ حضرت علیؑ کی امامت اور جانشینی کو ثابت کرنے کے لئے اس آیت سے استناد کرتے ہیں اور اس باب میں اس آیت کو سب سے مضبوط دلیل قرار دیتے ہیں۔
اہل سنت علماء کی اکثریت لفظ "ولیّ" کو "دوست" کے معنی میں لیتے ہیں اور شیعہ مکتب کے اس استدلال کو قبول نہیں کرتے جس میں اس آیت کو حضرت علیؑ کی امامت و ولایت پر دلیل قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں شیعہ علماء کہتے ہیں کہ آیت کے سبب نزول اور ولی کے مصداق کو مذکورہ موارد میں محصور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس آیت میں لفظ ولی کا معنی دوست نہیں بلکہ ولایت و سرپرستی ہی ہے۔
یہ آیت تفسیری، کلامی اور فقہی کتابوں میں موضوع بحث رہی ہے۔ فقہاء اس آیت سے بعض احکام بھی استنباط کرتے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ نماز کی حالت میں معمولی اور جزوی حرکات و سکنات سے نماز باطل نہیں ہوتی۔
آیت کا متن اور ترجمہ
إِنّما وَلیکُمُ اللہُ و رَسولُہُ والّذینَ ءَامَنوا الَّذینَ یقِیمُونَ الصَّلوۃَ و یؤتُونَ الزَّکوۃ و ہُم راکِعونَ
ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
سورہ مائدہ: آیت 55
حضرت علیؑ کی ولایت پر استدلال
سورہ مائدہ کی 55ویں آیت جو آیۂ ولایت کے نام سے مشہور ہے،[1] شیعہ مسلمانوں کے نزدیک امام علیؑ کی ولایت اور پیغمبر اسلامؐ کے بعد اُن کی جانشینی کو ثابت کرنے والے دلائل میں سے ایک ہے،[2] بلکہ بعض علما نے اسے امام علیؑ کی امامت پر سب سے مضبوط دلیل قرار دیا ہے۔[3]
اس آیت کے مطابق، لوگوں پر ولایت و سرپرستی صرف اللہ، رسولؐ اور اُن مؤمنوں کی ہے جو نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکات دیتے ہیں۔[4] اس آیت کے شانِ نزول کے مطابق رکوع میں انفاق کرنے والے مؤمنین کی واحد مثال امام علیؑ ہیں۔[5]
شیعہ علما کے مطابق یہ آیت لفظ «اِنَّما» سے شروع ہوتی ہے، جو عربی زبان میں حصر اور انحصار کا مفہوم رکھتا ہے۔[6] یعنی اس آیت میں ولایت کو صرف اللہ، رسولؐ، اور اُن مؤمنین تک محدود کیا گیا ہے جو رکوع میں انفاق کرتے ہیں۔[7]
شیعہ ائمہ طاہرینؑ نے ہمیشہ اس آیت کو اولیاء خدا کی امامت اور اطاعت کے وجوب پر بطور دلیل پیش کی ہیں۔ منجملہ ان میں امام علیؑ،[8] امام حسن مجتبیؑ،[9] امام سجادؑ،[10] امام باقرؑ،[11] امام صادقؑ،[12] امام رضاؑ،[13] امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ[14] شامل ہیں۔
یہ آیت خاتم بخشی کے واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور امام علیؑ کے ان فضائل میں شمار ہوتی ہے جن کی طرف قرآن میں اشارہ کیا گیا ہے۔ شیخ طوسی[15]، شیخ طبرسی[16]، محمد بن جریر طبری[17] اور دیگر شیعہ علماء سے منقول ہے کہ امام علیؑ نے چھ رکنی شوریٰ میں اپنی حقانیت کے ثبوت میں اس آیت کے شأن نزول سے استدلال کی ہیں۔
یہ آیت کلامی،[18] تفسیری[19] اور فقہی[20] کتابوں میں موضوع بحث چلی آر رہی ہے۔
- مزید معلومات کے لئے ملاحظہ کیجئے: ولایت امام علیؑ
شأن نزول
شیعہ مفسرین[21] اس آیت کے شان نزول کو امام علیؑ کی جانب سے نماز میں رکوع کی حالت میں فقیر کے لئے انگوٹھی صدقہ دینے کا واقعہ قرار دیتے ہیں۔ اہل سنّت مفسرین بھی امام محمد باقرؑ، مجاہد بن جبر، سدی اور عتبۃ بن حکیم سے یہی قول نقل کرتے ہیں۔[22] ان احادیث کے مطابق ایک دن مسجد نبوی میں ایک فقیر داخل ہوا اور مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے اسے کچھ نہ دیا۔ اتنے میں اس نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے کہا: "خدایا تو گواہ رہنا میں نے تیرے رسول کی مسجد میں مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے مجھے کچھ نہ دیا۔" اسی اثنا میں حضرت علیؑ نے جو اس وقت نماز میں رکوع کی حالت میں تھے، اپنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ فقیر آپؑ کے پاس گیا اور آپؑ کی انگلی سے انگوٹھی نکال لی اسی دوران یہ آیت نازل ہوئی۔[23] شیخ مفید نے اس واقعے اور آیت ولایت کے نزول کی تاریخ 24 ذیالحجہ قرار دی ہے[24]

شأن نزول کے راویوں کی توثیق
«اگر اس آیت کی شأن نزول میں موجود احادیث سے چشم پوشی کریں تو تفسیر قرآن سے مکمل طور پر ہاتھ اٹھانا پڑے گا؛ کیونکہ جب اتنی ساری احادیث پر اعتماد نہ کی جائے تو دوسری آیات کی تفسیر میں نقل ہونے والی ایک یا دو احادیث پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟»
جلال الدین سیوطی اس آیت کے شان نزول میں نقل ہوئے والی بعض احادیث کی سند کو ذکر کرنے کے بعد جو ثابت کرتی ہیں کہ یہ آیت امام علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے، قاعدہ «یقوی بعضہا بعضا» سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "یہ قرائن و شواہد ایک دوسرے کی تقویت کرتے ہیں» اور یہ قبول کرتے ہیں کہ یہ آیت علیؑ ابن أبی طالبؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[25]
آیہ ولایت کی شأن نزول میں نقل ہونے والی احادیث کو امام علیؑ[26] سمیت بعض صحابہ جیسے ابن عباس،[27] عمار یاسر،[28]ابوذر غفاری،[29] عبد اللہ بن سلام،[30]جابر بن عبد اللہ انصاری، [31] مقداد بن أسود، [32] اَنَس بن مالک،[33] ابو رافع مدنی[34] اور تابعین کی ایک جماعت منجملہ عتبہ بن حکیم،[35] مجاہد بن جبر،[36] سلمہ بن کہیل،[37] محمد حنفیہ، [38] عطاء بن سائب، [39] اور عبد العزیز بن جریج[40] وغیرہ سے نقل کی ہیں۔ اہل سنت مفسر شہاب الدین آلوسی کے مطابق اکثر اہل سنت محدثین کا کہنا ہے کہ یہ آیت حضرت علیؑ کی شأن میں نازل ہوئی ہے۔[41] تاہم ابن تیمیہ،[42] ابن کثیر[43] اور فخر رازی[44] اس آیت سے مربوط احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح اہل سنت کی بعض تفاسیر میں اس آیت کے شأن نزول کے بارے میں چار اشخاص کی طرف اشارہ ملتا ہے ان میں: امام علیؑ، عبادۃ بن صامِت، ابوبکر بن ابیقحافہ اور تمام مسلمان۔[45]
ابنشُعبہ حَرّانی کتاب تُحَفُالعقول میں آیت ولایت کی شأن نزول میں نقل ہونے والی احادیث کو صحیح اور ان احادیث میں سے قرار دیتے ہیں جن پر علما کا اجماع ہے۔[46] تفسیر المیزان میں علامہ طباطبایی کے مطابق اس آیت کے شأن نزول میں نقل ہونے والی احادیث قرآن کے موافق ہیں۔[47] ان کے مطابق علم تفسیر اور علم حدیث کے بڑے بڑے علماء نے ان احادیث کو نقل کیا ہے اور ان کی مخالفت نہیں کی ہے جبکہ ابن تیمیہ جیسے بعض افراد نے مخالفت کی ہے جو در اصل ان کی اہل بیت کے ساتھ دشمنی کی انتہاء ہے۔[48]
لفظ "ولیّ" کے مفہوم میں شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اختلاف
لفظ «ولیّ» کے معنی کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت مکتب فکر کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں آیۂ ولایت کی تفسیر میں مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔ اہلِ سنت کے بہت سے علما اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علیؑ کے بارے میں نازل ہوئی، لیکن ان کے نزدیک «ولیّ» کا مطلب "دوست" اور "مددگار" ہے، نہ کہ "سرپرست" یا "صاحبِ اختیار"۔[49] اس کے برعکس، شیعہ علما کے مطابق «ولیّ» یہاں "سرپرست" اور "صاحب اختیار" کے معنی میں ہے۔[50] آیتاللہ مکارم شیرازی کے مطابق دوستی ایسی صفت نہیں جو صرف اُن لوگوں کے ساتھ مختص ہو جو رکوع میں زکات دیتے ہیں؛ بلکہ یہ حکم عام ہے اور تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔ لیکن چونکہ آیہ ولایت کے شان نزول کے مطابق اس آیت میں «ولیّ» کا مصداق صرف حضرت علیؑ ہیں، لہٰذا یہاں «ولیّ» سے مراد صرف دوستی نہیں بلکہ ولایت اور سرپرستی ہے—خاص بات یہ کہ اس ولایت کو قرآن نے اللہ اور رسولؐ کی ولایت کے ساتھ ایک ہی درجے میں ذکر کیا ہے۔[51]
فقہی استعمالات
- نماز میں معمولی حرکات و سکنات سے نماز باطل نہیں ہوتی: بعض شیعہ فقہا نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ بدن کی معمولی حرکتیں نماز کو باطل نہیں کرتیں، حضرت علیؑ کے رکوع کی حالت میں انگوٹھی عطا کرنے (خاتم بخشی) کے واقعے سے استدلال کیا ہے۔[52] اسی مفہوم کو بعض اہل سنت مفسرین اور فقہا نے بھی بیان کیا ہے، جیسے فخر الدین رازی،[53] ابو البرکات نسفی،[54] ابو عبد اللہ قرطبی،[55] ناصر الدین بیضاوی،[56] اور ابوبکر جصاص[57]۔
- زکات کا اطلاق مستحب صدقہ پر بھی ہوتا ہے: اس آیت میں حضرت علیؑ کے انفاق کو "زکات" کہا گیا ہے؛ اس سے بعض فقہا نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زکات کا اطلاق مستحب صدقہ پر بھی ہوسکتا ہے۔[58]
- نیت ایک قلبی اور باطنی عمل ہے: بعض فقہا نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ نیت ایک قلبی اور باطنی عمل ہے اور اسے زبان پر جاری کرنا ضروری نہیں۔[59]
- نماز میں انفاق حضور قلب سے منافات نہیں: علامہ مجلسی کے مطابق نماز کے دوران کسی دوسری عبادت کی طرف توجہ کرنا، نماز کی روحانیت یا حضورِ قلب کے منافی نہیں ہے۔[60] کیونکہ حضرت علیؑ کا انفاق بھی اور اُن کی نماز بھی خالصتاً خدا کی رضا کے لیے تھی؛ اس لیے یہ ممکن ہے کہ امام نماز میں ہوں اور ساتھ ہی کسی ضرورتمند کی صدا سن کر رضائے الٰہی کے لیے انفاق کریں۔[61]مزید برآں، کتاب عللالشرایع میں منقول ایک روایت کے مطابق رسول خداؐ بھی جب نماز میں بچے کے رونے کی آواز سنتے، تو نماز کو معمول سے پہلے ختم کر دیتے تاکہ بچے کی ماں اُس کی طرف جا سکے۔[62]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ شرفالدین، المرجعات، 1426ھ، ص309۔
- ↑ شیخ مفید، الافصاح فی الامامۃ، المؤتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، ص134؛ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج3، ص559۔
- ↑ طوسی، تلخیص الشافی، 1382شمسی، ج2، ص10۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج4، ص423-424۔
- ↑ شوشتری، احقاقالحق، 1409ھ، ج2، ص400؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص209-239۔
- ↑ ابنہشام، مغنیاللبیب، 1410ھ، ج1، 39۔
- ↑ سید مرتضی، الذخیرہ، 1431ھ، ص439۔
- ↑ شیخ صدوق، محمد بن علی، كمال الدين وتمام النعمۃ، 1405ھ، ص274- 277۔
- ↑ ابن بطريق، خصائص الوحي المبين، 1417ھ، ص72-83۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص427۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص289۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص513-514۔
- ↑ شیخ صدوق، محمد بن علی، عيون أخبار الرضا عليہ السلام، 1404ھ، ج2، ص207-215
- ↑ مشہدی، المزار الکبیر، 1419ھ، ص272۔
- ↑ شیخطوسي، الأمالی، 1414ھ، ص549۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، ج1، ص202۔
- ↑ طبری، المسترشد، 1415ھ، ص353۔
- ↑ ملاحظہ کریں:سید مرتضی، الذخیرہ، 1431ھ، ص439۔
- ↑ ملاحظہ کریں:المیزان، 1390ھ، ج6، ص8۔
- ↑ ملاحظہ کریں:فاضل مقداد، کنز العرفان، 1425ھ، ج1، ص158۔
- ↑ ملاحظہ کریں:طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج3، ص324؛ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج3، ص558ـ559؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج2، ص44؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج6، ص8۔
- ↑ جصاص، أحکام القرآن، 1405ھ، ج4، ص102
- ↑ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص209-239؛ قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص170؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج1، ص327، ح137۔
- ↑ شیخ مفید، مسار الشیعہ، 1414ھ، ص41۔
- ↑ سیوطی، لباب النقول، دار إحیاء العلوم، ج1، ص93۔
- ↑ حاکم نیشابوری، معرفۃ علوم الحديث، 1397ھ، ج1، ص102
- ↑ بلاذري، جمل من أنساب الأشراف، 1417ھ، ج2، ص150؛ فخر رازی، التفسير الكبير، 1420ھ، ج12، ص383۔
- ↑ طبرانی، المعجم الاوسط، دار الحرمین، ج6، ص218۔
- ↑ فخر رازی، التفسير الكبير، 1420ھ، ج12، ص383۔
- ↑ طبری، الرياض النضرۃ في مناقب العشرۃ، دار الكتب العلميۃ، ج3، ص208۔
- ↑ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص243۔
- ↑ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص210۔
- ↑ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص225۔
- ↑ طبرانی، المعجم الکبیر، بیتا، ج1، ص320-321، ح9559۔
- ↑ طبری، جامع البيان في تأويل القرآن، 1420ھ، ج10، ص426؛ ابن أبیحاتم، تفسير القرآن العظيم، 1419ھ، ج4، ص1162۔
- ↑ طبری، جامع البيان في تأويل القرآن، 1420ھ، ج10، ص426۔
- ↑ ابن أبیحاتم، تفسير القرآن العظيم، 1419ھ، ج4، ص1162۔
- ↑ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص208۔
- ↑ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص208۔
- ↑ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص208۔
- ↑ آلوسی، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 1415ھ، ج3، ص352۔
- ↑ ابنتیمیہ، منہاج السنہ، 1406ھ، ج7، ص9-7۔
- ↑ ابنکثیر، تفسیر القرآن العظیم، دار الکتب العلمیۃ، ج3، ص125-127۔
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج12، ص383-385۔
- ↑ ابنجوزی، زاد المسیر، دارالکتاب العربی، ج1، ص561۔
- ↑ ابنشعبہ حرانی، تحفالعقول، 1404ھ، ص459۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج6، ص20۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج6، ص25۔
- ↑ ایجی، المواقف، عالم الکتاب، ج1، 405۔
- ↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج6، ص8؛ فیومی، المصباح المنیر، 1414ھ، ج2، ص672؛ شوشتری، احقاقالحق، 1409ھ، ج2، ص408۔
- ↑ مکارم، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج4، ص423۔
- ↑ راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج1، ص116؛ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1425ھ، ج1، ص158۔
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج6، ص93۔
- ↑ نسفی، مدارك التنزيل وحقائق التأويل، 1419ھ، ج1، ص456۔
- ↑ قرطبی، الجامع لأحكام القرآن، 1384ھ، ج6، ص221۔
- ↑ بیضاوی، أنوار التنزيل وأسرار التأويل، 1418ھ، ج2، ص132۔
- ↑ جصاص، أحکام القرآن، 1405ھ، ج4، ص102۔
- ↑ فاضل مقداد، کنزالعرفان، 1425ھ، ج1، ص158۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج81، ص281۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج81، ص281۔
- ↑ طبسی، «نشان ولایت و جریان خاتمبخشی»، ص49۔
- ↑ صدوق، علل الشرایع، منشورات المکتبۃ الحیدریۃ و مطبعتہا فی النجف، ج2، ص344۔
مآخذ
- آلوسی، سید محمود، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، بہ کوشش: علي عبد الباري عطيۃ، بیروت، دار الكتب العلميۃ، اول، 1415ھ۔
- ابنبطريھ، يحيى بن حسن، خصائص الوحي المبين، بہ کوشش: شيخ مالك محمودی، قم، دار القرآن الكريم، اول، 1417ھ۔
- ابنتیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعہ، تحقیق رشاد سالم، ریاض، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلاميۃ، 1406ھ۔
- ابنجوزی، عبدالرحمن بن علی، زاد المسیر فی علم التفسیر، تحقیق عبدالرزاق مہدی، بیروت، دار الکتاب العربی، بیتا.
- ابنشعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، تصحیح و تحقیق علیاکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، 1404ھ۔
- ابنکثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق محمدحسین شمسالدین، بیروت، دار الکتب العلمیہ، بیتا.
- ابنہشام، عبداللہ بن یوسف، مغنیاللبیب عن کتاب الاعاریب، تحقیق محمد محیی الدین عبدالحمید، قم، مکتبۃ آیتاللہ المرعشی، 1410ھ۔
- ایجی، عبدالرحمن، المواقف فی علم الکلام، بیروت، عالم الکتب، بیتا.
- بلاذري، أحمد بن يحيى، جمل من أنساب الأشراف، بہ کوشش: سہيل زكار ورياض الزركلي، بيروت، دار الفكر، اول، 1417ق - 1996م.
- بیضاوی، عبد اللہ بن عمر، أنوار التنزيل وأسرار التأويل، بہ کوشش: محمد عبد الرحمن المرعشلی، بیروت، دار إحياء التراث العربي، اول، 1418ھ۔
- جصاص، احمد بن علی، أحکام القرآن، بہ کوشش: محمد الصادق قمحاوی، بیروت، دار إحياء التراث العربی، اول، 1405.
- حاکم حسکانی، عبیداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر المحمودی، قم، مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیۃ، چاپ دوم،1411ھ۔
- حاکم نیشابوری، معرفۃ علوم الحديث، بہ کوشش: السيد معظم حسين، بیروت، دار الکتب العلمیہ، دوم، 1397ق-1977م.
- راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، فقہ القرآن، بہ کوشش: سید احمد حسینی، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی، اول، 1405ھ۔
- سید مرتضی، علی بن حسین، الذخیرۃ فی علم الکلام، تحقیق سید احمد حسینی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1431ھ۔
- سیوطی، عبد الرحمن بن أبیبکر، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، بیروت، دار الفکر، 1403ھ۔
- سیوطی، عبد الرحمن بن أبیبکر، لباب النقول، بیروت، دار إحیاء العلوم، بیتا.
- شرفالدین، عبدالحسین، المرجعات، قم، المجمع العالمی لاہل البیت(ع)، 1426ھ۔
- شوشتری، نوراللہ بن شریفالدین، إحقاق الحق و إزہاق الباطل، قم، مکتبۃ آیت اللہ المرعشی، 1409ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، عللالشرائع، مقدمہ سید محمدصادق بحرالعلوم، قم، مکتبۃ الداوری، بیتا.
- شیخ صدوق، محمد بن علی، عيون أخبار الرضا عليہ السلام، بہ کوشش: شيخ حسين الأعلمی، بيروت، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، 1404ق - 1984م.
- شیخ صدوق، محمد بن علی، كمال الدين وتمام النعمۃ، بہ کوشش علی أكبر غفاری، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1405ق - 1363ہجری شمسی۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الافصاح فی الامامۃ، قم، المؤتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، بیتا.
- شیخ مفید، محمد بن محمد، مسار الشیعہ، بیروت، دار المفید، 1414ق/1993م.
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
- طبرانی، سليمان بن أحمد، المعجم الأوسط، بہ کوشش: طارق بن عوض اللہ بن محمد و عبدالمحسن بن إبراہيم الحسيني، قاہرہ، دار الحرمین، بیتا.
- طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبد المجید السلفی، بیروت، دار احیاء التراث، چاپ دوم، بیتا.
- طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، بہ کوشش: سيد محمد باقر خرسان، نجف، دار النعمان، 1386ق - 1966م
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح فضلاللہ یزدی طباطبایی و ہاشم رسولی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
- طبری، أحمد بن عبد اللہ، الرياض النضرۃ في مناقب العشرۃ، بیروت، دار الكتب العلميۃ، دوم، بیتا.
- طبری، محمد بن جریر، المسترشد فی امامۃ علی بن ابیطالب(ع)، تصحیح: احمد محمودی، قم، کوشانپور، چاپ اول، 1415ھ۔
- طبری، محمد بن جرير، جامع البيان في تأويل القرآن، بہ کوشش: أحمد محمد شاكر، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، اول، 1420ق ـ 2000م.
- طبسی، محمدجواد، «نشان ولایت و جریان خاتمبخشی»، فرہنگ کوثر، ش48، اسفند 1379ہجری شمسی۔
- طوسی، محمد بن حسن، الأمالي، قم، دار الثقافۃ، اول، 1414ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق احمد حبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا.
- طوسی، محمد بن حسن، تلخیص الشافی، قم، انتشارات المحبین، 1382ہجری شمسی۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تحقیق: ہاشم رسولی، تہران، مکتبۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، چاپ اول، 1380ھ۔
- فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، کنزالعرفان فی فقہ القرآن، قم، انتشارات مرتضوی، 1425ھ۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر او مفاتیح الغیب، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، الطبعۃ الثالثۃ، 1420ھ۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، التفسير الكبير، بيروت، دار إحياء التراث العربي، سوم، 1420ق
- فیض کاشانی، محمد بن شاہمرتضی، تفسیر الصافی، مقدمہ و تصحیح: حسین اعلمی، تہران، مکتبۃ الصدر، چاپ دوم، 1415ھ۔
- فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، قم، مؤسسۃ دار الہجرۃ، 1414ھ۔
- قرطبی، محمد بن أحمد، الجامع لأحكام القرآن، بہ کوشش: أحمد البردوني وإبراہيم أطفيش، قاہرہ، دار الكتب المصريۃ، دوم، 1384ق - 1964م.
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تصحیح و تحقیق: طیّب موسوی جزائری، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحار الأنوار، تحقیق علیاکبر غفاری و دیگران، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1386ش/1403ھ۔
- مشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، بہ کوشش: جواد قيومی اصفہانی، قم، نشر القيوم، اول، 1419ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1374ہجری شمسی۔
- نسفی، عبد اللہ بن أحمد، مدارك التنزيل وحقائق التأويل، بہ کوشش: يوسف علی بديوی، بيروت، دار الكلم الطيب، اول، 1419ق - 1998م.