جزیرہ خضراء
جزیرہ خضراء یا الجزیرۃ الخضراء ایک جزیرے کا نام ہے ۔ بعض مصادر کے مطابق زمانہ غیبت کبری میں شیعوں کے بارہویں امام حضرت مہدی علیہ السلام اور ان کی فیملی اس جزیرے میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس داستان کا صحیح ہونا محل تأمل ہے اور واقعے کی نفی میں بہت سارے شیعہ علما نے کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان علما میں سے آقابزرگ تہرانی، شیخ جعفر کاشف الغطاء، سید محمد علی قاضی طباطبائی، محمد تقی تستری، سید محمد صدر اور جعفر مرتضی عاملی ہیں کہ جنھوں نے اس واقعے کی نفی کی ہے۔
داستان جزیرہ خضرا
واقعے کے مآخذ
ظاہری طور پر اس جزیرے کا نام پہلی مرتبہ فضل بن یحیی طیبی کے ایک رسالے میں واسط کے لوگوں اور علی بن عیسی اربلی[1] کے شاگروں کی زبانی ذکر ہوا ہے۔ اس رسالے کو آقا بزرگ تہرانی نے خود مؤلف کے دستخط میں دیکھا اور اس سے نسخہ برداری کی۔ [2] علامہ مجلسی نے اسے کسی کمی یا زیادتی کے بغیر بحارالانوار [3] میں درج کیاہے۔
علامہ مجلسی سے پہلے قاضی نوراللہ شوشتری (متوفی ۱۰۱۹) نے بعض اماکن کی مناسبت سے جزیرہ خضراء اور اس کی داستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: شہید اول نے اس حكایت کو اپنی تحریر کے ساتھ زین الدین کے حوالے سے لکھ کر روایت کیا ہے۔ قاضی نوراللّہ اس کے بعد کہتے ہیں کہ شہید اول کے ایک معاصر شمسالدین محمدبن اسداللّہ شوشتری نے شاہطہماسب صفوی کے حکم سے امام زمانہؑ کی غیبت اور مصلحت کے متعلق ایک کتاب لکھی اور اس کتاب میں رسالہ جزیرۃ الخضراء کو بھی زبان فارسی میں نقل کیا ۔[4] آقا بزرگ طہرانی[5] نے یہ احتمال دیا ہے کہ یہ ترجمہ شاید ہندوستان میں محقق کرکی (متوفی۹۴۰ھ) کے نام سے چھپنے والا ترجمہ ہے۔[6]
واقعہ کی تفصیل
پہلی حکایت
رسالہ جزیرہ خضراء کے مطابق فضل بن یحیی نے سنہ ۶۹۹ ہجری میں عراق کے شہر حلّہ میں زینالدین علی بن فاضل مازندرانی سے اندلس کی جانب اس کے سفر کی روداد کو سنا۔ زینالدین نے اس سفر کو دمشق سے آغاز کیا اور مصر میں کجھ دیر توقف کے بعد اندلس کی طرف رونہ ہوا۔ راستے میں اس کے ساتھ کچھ واقعات بھی پیش آنے کے بعد ایک سرزمین کی طرف چلا جاتا ہے جسے شیعوں کے جزائر (جزائر الرافضہ) کہا جاتا تھا۔ وہاں کچھ مدت توقف کرنے کے دوران اس جزیرے کے لوگوں کیلئے کھانے پینے کی اشیاء لانے والی کشتیوں کے ساتھ وہ جزیرہ خضراء کی طرف روانہ ہوا ،یہ ایک ایسا جزیرہ تھا جسے چاروں طرف سے بحر ابیض نے گھیرا ہوا تھا اور دشمنوں کا وہاں جانا ناممکن تھا۔ زین الدین جزیرہ خضراء کو اب تک دیکھی جانے والی سب سے زیادہ خوبصورت سرزمین بیان کرتا ہے اور وہاں کے لوگوں کی نیک اوصاف کے ساتھ توصیف بیان کرتا ہے۔ زین الدین وہاں ایک عالم دین بنام سید شمسالدین محمد سے ملاقات کرتا ہے کہ جس کا نسب پانج پشتوں کے واسطے سے امام زمانہ سے جا ملتا ہے اور وہ اس وقت آپ کا نمائندہ ہے اور اس کے درس میں شرکت کرتا ہے۔
سید شمس الدین خود امام زمانہ سے مستقیم رابطہ نہیں رکھتا لیکن ہر صبح جمعہ ایک نہایت خوبصورت جگہ پر جاتا ہے اور وہاں وہ امام کی زیادرت کرتا ہے۔ صبح کی دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد وہاں پر ایسے کاغذ کے ٹکروں کو پاتا ہے جن پر لوگوں کو پیش آنے والے روزمرہ کے مسائل لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ علیبن فاضل عصر غیبت میں حکم نماز جمعہ، کیفیت نزول اور قرآن کی جمعآوری، قرآن کی بعض آیات کا اس سے پہلے اور بعد والی آیات سے کوئی ربط نہ ہونا، عصر غیبت میں امام کی روئیت اور آنحضرت کے ظہور کی نشانیوں جیسے مسائل کے متعلق سیدشمسالدین سے سوالات کرتا ہے اور ان کے جوابات کو الفوائدالشمسیۃ نامی کتاب میں جمع کرتا ہے۔ علی بن فاضل تصریح کرتا ہے یہ کتاب صرف خالص شیعوں کیلئے لکھی گئی ہے۔ سید شمسالدین، علیبن فاضل کے اس سوال کہ میں امام زمانہ کے مخلص شیعوں میں سے ہوں لیکن پھر بھی امام کو نہیں دیکھ سکا ہوں، کے جوا ب میں کہتا ہے کہ تم نے اس سفر کے دوران امام کو پہچانے بغیر دو مرتبہ امام کو دو مرتبہ دیکھا ہے پھر اس دیدار کا زمان اور مکان علی بن فاضل کو بتاتا ہے اور علی بن فاضل اسے اس وقت اور مقام کی یاد دلاتا ہے۔
علی بن فاضل سرانجام آخر کار سید شمسالدین کے حکم سے انہی کشتیوں میں واپس لوٹ آتا ہے جن میں وہاں گیا تھا۔ حج کیلئے مکہ اور عتبات کی زیارت کیلئے عراق سے ہوتا ہوا نجف میں مقیم ہو جاتا ہے۔
دوسری حکایت
ایک اور داستان کمالالدین انباری نے ۵۴۳ہجری میں ایک بیاض[7] سے نقل کی ہے جو بعض جہات سے جزیرہ خضراء والی پہلی داستان سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس داستان کا خلاصہ یوں ہے: عباسی خلیفے المقتفی باللّہ کے وزیر عونالدین یحیی بن ہبَیرہ نے ایک مجلس میں انباری کی موجودگی کے دوران مذہب شیعہ کی مذمت میں کوئی بات کی۔ حاضرین مجلس میں ایک موثق شیعہ شخص نے حکایت بیان کرنے کی اجازت مانگی جس کا وہ خود چشم دید گواہہ تھا۔اس شخص نے کہا: میں اور میرے والد تجارت کے ارادے سے ایک بڑے شہر باہیہ سے کشتی میں سوار ہو کر عازم سفر ہوئے۔ سفر کے دوران ایسے سرسبز و شاداب جزائر پر پہنچے کہ جنھیں ناخدا نے بھی اب تک نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اس کے نام سے واقف تھا۔ اس جزیرے کے لوگ بہترین معاشرتی آداب و رسوم کے حامل، سچائی، امانتداری اور دیانت جیسی صفات میں یہ لوگ بے مثال تھے۔
اس داستان کے راوی نے ان جزائر کے کئی شہروں کا سفر کیا اور ان جزائر کے بادشاہوں کے نام ترتیب وار طاہر، قاسم، ابراہیم اور ہاشم بتاتے نیز یہ سب اپنے آپ کو صاحبالامر کے فرزند بتاتے تھے۔[8]
جزیرہ خضرا اور مثلث برمودا
مثلث برمودا بحر اوقیانوس میں ایک علاقے کو کہا جاتا ہے کہ جو بیسویں صدی میں واقعیت سے دور ایک افسانے کی صورت مشہور ہوا۔ اس علاقے میں بحری کشتیاں غرق اور ہوائی جہاز تباہ ہو جاتے ہیں۔ بحر اوقیانوس میں موجود برمودا کے علاقے کا مدیترانہ میں موجود جزیرے خضرا کا باہمی ارتباط بعید نظر آتا ہے۔
واقعہ کا تنقیدی جائزہ
اس واقعے کو بہت سے اعتراضات کا سامنا ہے جن میں سے چند ایک ذکر کئے جاتے ہیں:
- گیارھویں صدی کی کتب میں مذکور داستانوں کا چھٹی یا ساتویں صدی میں ذکر ہونے والی داستانوں کا واسطوں کے ذکر کے بغیر ثابت کرنا ممکن نہیں ہے۔ واقعہ کے نقل کرنے والے اور کتابیں دونوں مجہول ہیں۔ گیارھویں صدی کی صرف بحار الانوار ایک ایسی کتاب ہے جس کا نام لیا جا سکتا ہے لیکن اس کے مؤلف کہتے ہیں: میں نے اس داستان کو کسی معتبر کتاب میں نہیں دیکھا ہے اور انھوں نے اس واقعے کو نوادر کے حصے میں نقل کیا ہے۔[9]
- ان واقعات میں تحریف قرآن،[10] امام زمان (عج) سے ہمیشہ ارتباط کے امکان[11] جیسے ایسے مطالب ہیں جو شیعہ اعتقادات کے مخالف ہیں لیکن امام زمان (عج) کی اولاد کا ہونا ایک اختلافی مسئلہ ہے۔[12]
- جزیره خضرا کو مثلث برمودا پر منطبق کرنے کی صورت میں امام زمان (عج) کا یہ پہلو اجاگر ہوتا ہے کہ غیبت کے زمانے میں وہ ایک معلوم مقام پر رہائش پذیر ہیں کہ جہاں کشتیوں کے غرق اور جہازوں کے تباہ ہونے سے لوگوں کی جانیں تلف ہوتی ہیں اور یہ شیعوں کے اعتقادات کے ساتھ سازگا نہیں ہے۔
- بعض روایات کے ظاہر کے مطابق کہا جا سکتا ہے کہ امام زمان (عج) غالبا مدینه اور مکہ میں موجود ہیں۔[13]
رد میں لکھی گئی کتابیں
دراسۃ فی علامات الظہور و الجزیرۃ الخضراء
معاصرین میں سے ایک عراقی مؤلف بنام ناجی نجار نے جزیرہ خضراء کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اسے مثلث برمودا پر منطبق کیا۔ علیاکبر مہدی پور نے اس کتاب کو جزیرہ خضراء و تحقیقی پیرامون مثلث برمودا کے عنوان سے کچھ اضافات کے ساتھ فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ جعفر مرتضی عاملی نے اس کتاب پر لکھی گئی تنقید میں اس روایت کے سند اور مضامین پر نقد کرنے کے ساتھ ساتھ جزیرہ خضراء کو مثلث برمودا پر منطبق کرنے کو ایک ناروا عمل قرار دیا ہے۔[14]
جزیرہ خضرا: افسانہ یا حقیقت
ابو الفضل طریقہ دار کی کتابہے جس میں جزیرہ خضراء کے داستان کی سند اورمضامین کو زیادہ تفصیل سے تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کتاب پر وارد اعتراضات کو برملا کرتے ہوئے جزیرہ خضراکے مثلث برمودا پر منطبق کرنے پرتنقید کرنے کے علاوہ کتاب کے مؤلف نے محمد تقی شوشتری، جعفر مرتضی عاملی، ابراہیم امینی وغیرہ کے نظریات کی جانچ پڑتال کی ہے اور اسے جزیرہ خضرا: افسانہ یا واقعیت؟ کے نام سے شائع کیا ہے۔ [15]
دیگر آثار
جعفر کاشف الغطا[16] نے اس داستان کو افسانہ نگاروں کی تخلیق قرار دیتے ہوئے کہا: بعض اخباریوں نے اس واقعہ کو متروک اور جعلی کتب سے نقل کیا ہے۔ مؤلف نے اس حکایت کی سند اور واقعہ کے مضمون کو شیعوں کے مسلمہ اصول اور گفتار علما کے خلاف قرار دیا ہے۔[17] بعض معاصر مصنفین جیسے آقا بزرگ طہرانی،[18] سید محمد علی قاضی طباطبائی،[19] محمد تقی تستری[20] اور سید محمد صدر[21] نے نیز اس حکایت کی سند اور مضمون پر تنقید کی ہے۔
علی اکبر غفاری[22] حکایت جزیرہ خضرا کو امام صادق علیہالسلام کی اولاد میں سے فرزندان اسماعیل کے اس ایک بیٹے سے مربوط سمجھتے ہیں کہ جو امام زمانہ کا ہم لقب تھا اور اس کا نسب بارہ پشتوں کے بعد امام علی علیہالسلام سے جا ملتا تھا۔[23] شاید جن عراقیوں نے اس سرزمین کو دیکھا ہے انھوں نے لقب، نام، اور کنیہ وغیرہ میں حضرت مہدی(عج) کے ساتھ تشابہ رکھنے کی وجہ سے یہ خیال ک کیا ہو کہ یہ وہی مہدی ہیں جن کے متعلق احادیث میں آیا ہے اور ان جزائر کے سلاطین ان کی اولاد میں سے ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ اس کے حالات زندگی کیلئے دیکھیں: حرّعاملی، ص۲۱۷ ۲۱۸
- ↑ ج۵، ص۱۰۶
- ↑ ج۵۲، ص۱۵۹ ۱۷۴
- ↑ مجالس المؤمنین، ج ۱، ص ۷۸۷۹
- ↑ ج۵، ص۱۰۶
- ↑ رک: آقابزرگ طہرانی، ج۱، ص۱۰۹؛ ج۴، ص۹۳۹۴
- ↑ الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم،ج ۲، ص ۲۶۴۲۶۶
- ↑ نوری، جنۃ المأوی فی ذکر من فاز بلقاء الحجۃ علیہالسلام، أو، معجزتہ فی الغیبۃ الکبری، ص ۲۱۳ ۲۲۰
- ↑ محمدی ری شهری، دانش نامہ امام مهدی (عج)، ج۳، ص۷۳
- ↑ خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ص۲۰۰.
- ↑ محمدی ریشهری، دانشنامه امام مهدی (ع)، ج۵، ص۱۷۹
- ↑ محدث نوری، نجم الثاقب، ص۴۰۲؛ محمدی ری شهری، دانشنامه امام مهدی (عج)، ج۳، ص۵۲
- ↑ مجلسی، بحار، ج۵۲، ص۱۵۷، ح۲۰ و غیبة نعمانی، باب ۱۰، چهارمین فصل، ح۳۰، ص۱۸۲
- ↑ عاملی، دراسۃ فی علامات الظہور و الجزیرۃ الخضراء، ص ۲۲۱۲۳۶
- ↑ تفصیل کیلئے دیکھیں:طریقہدار، جزیرہ خضرا: افسانہ یا واقعیت ؟، ص ۴۷۱۰۹، ۱۶۳۱۷۴
- ↑ الحقّ المبین فی تصویب رأی المجتہدین و تخطئۃ الاخباریین،ص ۶۹
- ↑ الحقّ المبین فی تصویب رأی المجتہدین و تخطئۃ الاخباریینہمان، ص۷۰
- ↑ ج ۵، ص ۱۰۵
- ↑ جزائری، ج ۲، ص ۶۹، تعلیقہ قاضی طباطبائی،
- ↑ الاخبار الدخیلۃ، ص ۱۴۶۱۵۲
- ↑ تاریخ الغیبۃ الکبری، ص ۷۶ ۸۸
- ↑ تصحیح و تحقیق متون حدیثی،ص ۱۱۴
- ↑ حسنزادہ آملی، ج ۲، نکتہ ۹۹۰
مآخذ
- آقابزرگ طہرانی، محمدمحسن، الذريعۃ الى تصانيف الشيعۃ، چاپ علىنقى منزوى و احمد منزوى، بيروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
- علیبن محمد بیاضی، الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم، چاپ محمدباقر بہبودی، تہران، ۱۳۸۴.
- محمدتقی تستری، الاخبار الدخیلۃ، چاپ علیاکبر غفاری، تہران ۱۳۹۰.
- نعمتاللّہبن عبداللّہ جزائری، الانوار النعمانیۃ، بیروت ۱۴۰۴/۱۹۸۴.
- محمدبن حسن حرّعاملی، امل الا´مل، چاپ احمد حسینی، بغداد (۱۹۶۵)، چاپ افست قم ۱۳۶۲ ش.
- حسن حسنزادہ آملی، ہزارویک نکتہ،تہران، ۱۳۶۴ ش.
- نوراللّہبن شریفالدین شوشتری، مجالس المؤمنین، تہران ۱۳۵۴ ش.
- محمد صدر، تاریخ الغیبۃ الکبری، بیروت ۱۴۰۲/۱۹۸۲.
- ابوالفضل طریقہدار، جزیرہ خضرا: افسانہ یا واقعیت ؟، قم ۱۳۷۷ ش.
- جعفر مرتضی عاملی، دراسۃ فی علامات الظہور و الجزیرۃ الخضراء، قم ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
- علیاکبر غفاری، «تصحیح و تحقیق متون حدیثی»، علوم حدیث، سال ۵،ش ۱ (بہار ۱۳۷۹).
- جعفربن خضر کاشفالغطاء، الحقّ المبین فی تصویب رأی المجتہدین و تخطئۃ الاخباریین، چاپ محمدکاظم روحانی، در گنجینہ بہارستان: مجموعہ ۱۱ رسالہ در فقہ و اصول، بہکوشش حسنعلی علیاکبریان، تہران: کتابخانہ، موزہ و مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی، ۱۳۸۱ ش.
- مجلسی، محمدباقربن محمدتقى، بحارالانوار، بيروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
- حسینبن محمدتقی نوری، جنۃ المأوی فی ذکر من فاز بلقاء الحجۃ علیہالسلام، أو، معجزتہ فی الغیبۃ الکبری، در مجلسی، ج ۵۳.
بیرونی روابط
مآخذ مقالہ: دانشنامہ جہان اسلام