خلافت ایک دینی اور سیاسی اصطلاح ہے۔ جس کے معنی سیاست، حکومت اور دینی امور میں پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کے ہیں۔

شیعہ تعلیمات میں خلافت سے مراد تمام دنیوی اور اخروی امور میں پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی ہے۔ شیعوں کے ہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلفاء آپ (ص) کے اہل بیت میں سے بارہ معصوم امام (ع) ہیں اور پیغمبر اکرم اور ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ ان پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے۔ آنحضرت کی رحلت کے بعد (امام علی (ع) اور امام حسن مجتبی (ع)) کے دو مختصر دور حکومت کے علاوہ خلافت عملی طور پر غیر معصومین کے ہاتھ رہی ہے اور تقریبا تیرہ صدیوں تک مختلف خاندان اور اشخاص نے پورے جہان اسلام میں خود کو پیغمبر اکرم کا خلیفہ بنا کر پیش کیا ہے۔

لیکن تاریخ اسلام میں خلافت‌ اس حکومتی ‎ڈھانچے کا نام ہے جس نے پیغمبر(ص) کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے لی اور اس منصب کے حامل اشخاص، یعنی خلفاء خود کو صرف حکومتی امور میں پیغمبر اکرم کا جانشین قرار دیتے تھے۔

خلافت کا مفہوم

خلافت، ایک عربی لفظ ہے جسکا معنی جانشین بنانا، اور خلیفہ کا لفظ ( جس کی جمع خلفاء اور خلائف ہے) جانشین، وکیل اور قائم‌مقام کے معنی میں ہے۔[1] لفظ خلیفہ[2]، خلفاء[3] و خلائف[4] قرآن میں بھی اسی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔

خلافت اور خلیفہ، ان دو الفاظ کا سب سے زیادہ استعمال انکا اصطلاحی معنی ہے جو پیغمبر(ص) کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے میں سیاسی تغییر و تحولات کے لیے استعمال ہوا پہلا لفظ حکومت اور مطلق حاکمیت میں جانشینی کے معنی میں ہے اور دوسرا لفظ حکومت میں پیغمبر اکرم کے جانشین کے معنی میں ہے

مذکورہ اصطلاحات کا بہت زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے یہ دونوں الفاظ مسلمانوں کے سیاسی کلچر میں کلیدی مفاہیم اور الفاظ میں بدل گئے ہیں یہاں تک کہ بعد میں مسلمانوں کے کچھ گروہ نظام خلافت کی مشروعیت کیلئے اس خلیفہ کے لفظ کو قرآن میں استعمال ہونے سے مستند کیا ہے ۔[5] اسی معنی میں، امامت اور امام کے دو لفظ بھی بار بار ابتدایی مسلمان مولفین کی کتابوں میں استعمال ہویے ہیں جو شیعہ امامت کے مفہوم سے کوسوں دور ہے۔

تاریخ اسلام میں خلافت‌ اس حکومتی ‎ڈھانچے کا نام ہے جس کے تحت پیغمبر کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے کا نظم و نسق چلایا جاتا تھا اور اس کے متصدی افراد یعنی خلفاء، اسلامی حکومت میں پیغمبر اکرم کے جانشین شمار کیے جاتے تھے۔

تاریخچہ

خلافت کا آغاز، سقیفہ بنی ساعدہ کے حادثے سے ہوتا ہے۔ بعض صحابہ نے پیغمبر اکرم کی رحلت کے فورا بعد آپ کے لیے جانشین معین کیا۔

خلفائے راشدین

  • ابوبکر بن ابی قحافہ

خلافت کا نظام ابو بکر بن ابی قحافہ کو پیغمبر اکرم کے جانشین بنانے سے متحقق ہوگیا؛ لیکن بعض صحابہ، بنی ہاشم اور بالخصوص پیغمبر اکرم کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے متعدد مخالفتوں کا سامنا ہوا لیکن آخرکار مختلف حربوں کے زریعے سے مخالفوں کو خاموش کردیا [6] اور اس کے بعد رسول اللہ کا خلیفہ کہا گیا۔[7] ابوبکر خلفای راشدین میں پہلا خلیفہ ہے کہ جس کے انتخاب کا طریقہ کار بعد میں اہل سنت کے فقہ سیاسی میں اہل حلّ و عقد کے نظریے کیلئے مبنا بن گیا۔ [8]

  • عمر بن خطاب

ابوبکر نے اپنی وفات سے کچھ پہلے (سال ۱۳ق)، عمر بن خطاب کو اپنا جانشین منصوب کیا اور مسلمانوں پران کی بیعت کرنے کو لازمی قرار دیا۔[9] کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے اس اقدام کی علت کو فتنہ ایجاد ہونا قرار دیا۔۔[10] عمر بن خطاب کو ابوبکر کے خلافت کے عنوان کی پیروی کرتے ہو‎ئے، رسول‌اللّہ کے خلیفے کا خلیفہ نام دیا لیکن انہوں نے اس لمبی عبارت کے بجایے اپنے آپ کو امیر المومنین کہہ کر پکارنے کو ترجیح دی۔[11] یہ لقب بعد میں عصر خلافت ختم ہونے تک خلفاء کیلئے تک مہمترین اور رایج ترین لقب تھا۔ عمر خلیفہ کے حدود اور اختیارات کو پیغمبر اکرم(ص) کے اختیارات کے ساتھ برابر سمجھتے تھے۔[12] انکی بعض حکومتی پالیسیاں خلافت کے ساختار کو اس دور کے را‎ئج حکومتی ڈھانچے کے قریب لانے میں بہت موثر تھیں؛ ان میں سے بعض اہم اقدامات؛ عرب کو دیگر اقوام(اصطلاحاً عجم) پر برتری کو ترویج دینا جو کہ پیغمبر اسلام کی قوم پرستی کے مخالف پالیسی کی معارض تھی، بیت المال (جسکو اللہ کا مال نام دیا تھا) کی تقسیم بندی میں مسلمانوں کے لیے برتری کا قایل ہونا؛ غنایم کو مساوی تقسیم کرنے کے طریقے کو ختم کرنا اہم مثالیں ہیں۔[13]

  • عثمان بن عفان

عمر، نے اپنے جانشین معین کرنے کی ذمہ داری کو پیغمبر اکرم(ص) کے صحابہ میں سے چھ رکنی شورای کے سپرد کیا۔عثمان بن عفان ۲۳ہ ق کوتیسرے خلیفہ کے طور پر مسند قدرت پر بیٹھ گئے۔ چھ رکنی شورای کا انکی بیعت کیلئے سب سے اہم شرط اللہ کی کتاب اور پیغمبر کی سنّت، کے علاوہ پہلے دو خلیفوں کی پیروی(شیخین کی سیرت) تھی؛ جسکو حضرت علی بن ابی طالب نے ماننے سے انکار کیا [14]۔ لیکن تاریخی منابع کے مطابق عثمان مذکورہ شرط پرپابند نہیں رہے جسکی اہم مثالیں پیغمبر اکرم(ص) کی طرف سے طرد شدہ افراد کو اہم اور کلیدی پوسٹوں پر رکھنا بنی امیہ کو حکومتی امور پر مسلط کرنا اور کسی ضابطہ اور قانون کے بغیر بعض لوگوں اور اپنے اموی رشتہ داروں کو بیت المال سے بذل کرنا ہیں۔[15]

  • علی ابن ابیطالب (ع)

علی(ع) کی مسجد میں لوگوں کے اجتماع میں اللہ کی کتاب اور پیغمبر کی سنّت پر عمل کرنے کی شرط سے بیعت ہو‎ئی۔[16] آپ نے زبردستی بیعت لینے کو مناسب نہیں سمجھا اور اسی وجہ سے بیعت ایک اختیاری امر قرار پا‌یی اور لوگوں کو بیعت کرنے کی دعوت دینے کو اپنے ذمہ داری سمجھتے تھے لیکن اجباری بیعت کو نہیں مانتے تھے[17] آپ دین کی تعلیم کو حاکم کی اصلی ذمہ داری سمجھتے تھے۔[18] اسی وجہ سے ایمان کے پرچم کو لوگوں کے درمیان گاڈا اور انکو حلال اور حرام سے آگاہ کیا۔[19]

  • حسن بن علی (ع)

۴۰ہ ق کو امام علی کی شہادت کی وجہ سے خلافت کے بحرانی حالات مزید پیچیدہ ہوگئے۔ با وجود اس کے کہ لوگ حسن بن علی کی خلافت کو انکے والد گرامی کے بعد چاہتے تھے، لیکن امام علی نے اپنے بیٹے کے انتخاب میں لوگوں کو آزاد رکھا۔ امام حسن(ع) اپنے ایک خطبے میں خلافت کو ملوکیت سے جدا کرتے ہو‎ئے خلیفہ کے عمل کو ظلم ستم سے دور رہتے ہو‎ئے مذکورہ مبانی کے مطابق ہونے کی تاکید کرتے ہیں۔۔[20] شام میں معاویہ بن ابی سفیان کی حکمرانی خلافت کے ساتھ ساتھ تھی اور امام علی(ع) کے دور خلافت تک کسی بھی قسم کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا لیکن امام علی نے خلافت کے ابتدا‎ئی دنوں میں ہی اسے عزل کیا۔[21] امام حسن نے معاویہ سے مقابلہ کرنے کا عزم کیا، لیکن آخرکار معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کے علاوہ اور کو‎ئی چارہ نہیں رہا۔۔ اسی وجہ سے چھ مہینے خلاف کرنے کے بعد حکومت سے دستبردار ہو‎گئے اور معاویہ کے ساتھ صلح کیا بلاذری کی روایت کے مطابق،[22] صلحنامہ میں امام حسن کی شرا‎ئط میں سے ایک‌‎‎‎ شرط معاویہ کوجانشین معین کرنے سے اجتناب کرنا اور اپنے بعد خلیفہ کے چنا‎‎‎ؤ کو مسلمانوں کے حوالے کرنا تھی۔ کہا جاتا ہے کہ امام نے معاویہ کی طرف سے انکے بعد خلافت کے چنا‎‎‎ؤ میں انکی تجویز کو رد کر دیا۔[23]

امام حسن خلافت اسلامی کے پہلے دور کے آخری خلیفہ تھے جسکو بعد میں راشدین کی کارسمیٹک شناخت مل گئی۔ اس بات کو سنی مذہب کے مختلف صدیوں کے مولفین کی کتابوں میں کثرت سے مشاہدہ کرسکتے ہیں،[24] چند اہم خصوصیات کے حامل ہونے جیسے پیغمبر(ص) کے نامورصحابہ میں شمار ہونا، پیغمبر اکرم سے نسبی یا سببی رشتہ داری ہونا، اسلام میں پہل کرنا، پیغمبر اکرم اور انکے اہداف سے یاری، اور آخر میں سیرہ علمی (اس مورد میں تیسرا خلیفہ کو استثناء کرنا ہوگا) نے وہ اور بعد والے خلیفوں کے درمیان تفاوت ایجاد کیا بلکہ اسلامی معاشرے میں صاحبان قدرت کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کے لیے ایک معیار میں تبدیل ہوگیا۔ آراء اہل حل و عقد، اہل استخلاف، اصل شورا،[25] خلیفہ کاقریشی ہونا، خلافت کے اثبات، یا وفاداری اور موافقت کا اظہار کیلئے بیعت ایک سبب بننا، [26]، امت کی وحدت کو محفوظ رکھنے کے لیے حاکم کی اطاعت ضروری ہونا، خروج سے ممانعت، [27]، خلیفہ کو خلافت سے خلع کرنے کا امکان یا عدم امکان،[28]، باغیوں کے ساتھجہاد وغیرہ، سب خلفای راشدین کے انتصاب اور انکی کارکردگی سے ماخوذ تھے جو ایک آیڈیل حکومت کے طور پر استناد کیا جاتا تھا

امویوں کی خلافت

معاویہ بن ابی سفیان نے 41 ہ ق کو اموی حکومت تشکیل دیکر اسلامی خلافت کو مشروعیت کے بحران سے دوچار کردیا۔ معاویہ کو نہ تو مسلمان گزشتہ خلفاء کی طرح سمجھتے تھے اور نہ ہی نیک شہرت کے مالک تھے بلکہ اس نے خود اس بات کی تصریح کی تھی کہ خلافت کو رضایت سے نہیں بلکہ زبردستی حاصل کیا ہے۔ [29] اور خود کہ پہلا بادشاہ کا نام دیکر خلافت کے زوال کی خبر دے دی۔۔[30] اس نے حکومت کو اپنی خاندان کے لیے ایک الہی برتری سمجھا۔[31] آخری مورد ایک ایسے غالب نظریے میں تبدیل ہوگیا کہ خلافت بنی امیہ میں موروثی ہونے علاوہ اسلامی خلافت کو ایک مذہبی لبادہ میں رکھ کر اسلامی سلطنت میں تبدیل کردیا، اور بعد میں پیغمبر اکرم سے ایک منسوب حدیث « خلافت تیس سال کی ہے اور اس کے بعد بادشاہت ہے»،[32] کے ذریعے تأکید بلکہ ایک قسم کی تا‎ئید کی گئی۔ جب 60 ہجری کو یزید خلافت پر پہنچا تو اسلامی اقدار کو پامال کرنے کے علاوہ، اپنے خلاف ہونے والی تمام مخالفتوں کو سنگدلی کے ساتھ سرکوب کیا۔ امام حسین (ع) سے نبرد آزمایی اور واقعہ حرہ انہی میں سے ہیں۔[33] اس کے بعد ، خلافت کی مشروعیت کا معیار حق پر ثابت قدم ہونا نہیں بلکہ وہ خود حق اور باطل کا معیار تھا۔[34] مخالفوں کے مختلف قیام اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس قسم کی خلافت اگرچہ مسلط تھی لیکن سب کو شامل نہیں کرتی تھی اور پیغمبر اکرم کی خاندان کے علاوہ کہ جنہوں نے کربلا میں قیام کر کے اپنا موقف بیان کیا، مسلمانوں کے دیگر چند گروہ خاص کر (مکہ، مدینہ) اور عراق کے لوگوں نے بھی انہیں تحمل نہیں کیا۔[35]

خلافت کے دعویداروں میں سے ایک عبداللہ بن زبیر تھا جو یزید کی موت کے بعد 64 ہجری کو اللہ کی کتاب، رسول کی سنّت اور سیرہ خلفای صالح» پر عمل کرنے کو اساس بنا کر لوگوں کو اپنی بیعت کی طرف بلایا۔[36] ان کی اس دعوت کا اصل ہدف خلاف کی ابتدا‎ئی شکل کی طرف لوٹنا تھا، معاویہ ابن یزید کی اموی پرتنش خلافت سے دستبرداری کے بعد، آہستہ آہستہ حجاز (ابن زبیر کی تحریک کا محل آغاز) سے دیگر علاقوں کی طرف پھیلنے لگا مروانیوں کی خلافت 64 ہجری سے شروع ہو‎ئی اور دس خلیفوں کے ذریعے 132 ہجری تک باقی رہی۔ مروانیوں نے خلافت میں اپنی بادشاہتی نظر کو دوام بخشا اور خلیفہ کے معنوی مقام کو پہلے سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کی اور اس کے لیے قدسی معنی ایجاد کیا۔[37] امویوں کی وسیع تبلیغات اور سیاسی تسلط کی وجہ سے خلافت اور خلیفہ کا مفہوم اکثر مسلمانوں کے ذھن میں یہاں تک کہ امویوں کی حکومت کے بعد بھی انکا ترویج کیا ہوا مفہوم تھا۔ اس کے باوجود خاندان پیغمبر کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور رفتار کی وجہ سے انکی حکومت کا چہرہ مسخ اور ناقابل ترمیم باقی رہا۔۔[38] اسی وجہ سے تاریخ میں بہت سارے مسلم مولفین نے امیر المومنین کی اصطلاح یا حتی خلیفہ کی اصطلاح کو امویوں کے لیے استعمال کرنے سے اجتناب کیا ہے یہاں تک کہ اموی دو اصلاح کرنے والے خلیفے، عمر بن عبدالعزیز اور یزید بن ولید کا انکے درمیان موجود ہونا، یا بعض مولفین کی امویوں کی کارکردگی کی توجیہ کرنے کی کوششیں[39]، بھی انکے منفی چہرے کی تطہیر کے لیے مفید واقع نہیں ہو‎‎ئیں۔

عباسیوں کی خلافت

اسلامی خلافت کا تیسرا دور بنی عباس والوں کا ہے جنہوں نے 37 خلیفوں کے زریعے پانچ صدیوں(۱۳۲ـ۶۵۶ھ) سے زیادہ مملکت اسلامی پر حکومت کیا۔ «الرضا من آل محمد (ص)» کے نعرے سے یہ خلافت تشکیل پا‎ئی، اہل بیت کو حقوق دلانے اور الہی میراث یعنی پیغمبر (ص)کی (جانشینی) انکے خاندان کو واپس کرنے کے لیے سفاح کی بیعت کی۔[40] وراثت بنی عباس کی خلافت کے ڈھانچے میں ایک لازمی رکن شمار ہوتی تھی۔ اس دورے میں خلیفہ کی بیعت خاص آداب اور رسومات کے ساتھ انجام دی جاتی تھی۔[41] تیسری صدی سے ہی خلفاء کے دربار کی آداب و رسوم کے آثار تدوین ہوگئے اور ‎تشریفات، تزین اور ڈیکوریشن خلیفہ اور اس کے دربار کی لوازمات میں سے شمار ہونے لگیں [42] عباسی خلفاء کی ابتدا‎ئی نسل مذہبی اور سیاسی مقتدر شان و شوکت رکھتے تھے اور انکی دینی اقتدار، سیاسی طاقت کی بنیاد سمجھی جاتی تھی [43] لیکن خلیفہ کی سیاسی اقتدار آہستہ آہستہ کمزور ہونے لگی؛ اور خلیفہ کا عزل و نصب اور حکومت کی بقاء یہاں تک کہ خلیفہ کی موت و زندگی کا اختیار بھی پورے طور پر ترک فوج، آل بویہ اور سلجوقیوں کے ہاتھ میں تھی۔[44]

656ھ کو مغل کے ہلاکوخان کی بغداد پر حملے کی وجہ سے عباسی خلافت سرنگون ہوگئی اور خلافت کی یہ سرنگونی ایک طرف سے ان لوگوں کے لیے جو اس کو مقدس نگاہ سے دیکھتے تھے، مایوسی کا باعث بنی،[45] تو دوسری طرف بعض اہل سنّت کو جہان اسلام کے مختلف گوشوں میں خلافت کے ادعا کرنے پر ترغیب کا باعث بنی۔

فاطمیوں کی خلافت

فاطمیوں نے چودہ خلیفوں کے ذریعے 270 سال (۲۹۷ـ۵۶۷ ہ۔ق) مصر، مراکش اور شام کے اکثر علاقوں پر حکومت کی اور بعض دفعہ تو حکومت دیار بکر، دیار ربیعہ، حجاز اور یمن تک بھی پھیل گئی۔[46] فاطمی خلافت کا فکری نظام ایک قوی اور پیچیدہ سیسٹم پر مشتمل تھا جو نہ فقط خلافت کو بچانے کے درپے تھا بلکہ اپنے مذہبی نقطہ نظر(اسماعیلی شیعہ) کو بھی پوری اسلامی دنیا میں ترویج دے رہے تھے اسی وجہ سے فاطمی خلیفہ، خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ امام برحق بھی تھے اور اس امام یا خلیفے کی معنوی شان و منزلت عباسی خلیفہ سے کئی گنا زیادہ معرفی ہوتی تھی۔[47] امیر المومنین یا ہر خلیفہ سے مخصوص القابات کے علاوہ، ولی خدا، موقف نبی، حجت خدا، خلیفہ خدا، برہان خدا، اور نبوت کے نا‎ئب اور وارث جیسے عناوین بھی رسمی طور پر استعمال ہوتے تھے۔[48] مستنصر کی موت (۴۸۷) کے بعد، اس کے جانشین کے انتخاب میں فاطمی دربار دو گروہ مستعلوی اور نزاری میں بٹ گئی اور یہ (دوسرے عوامل کے ساتھ) فاطمیوں کے زوال کا باعث بنا؛ اس طرح سے کہ فاطمی آخری خلیفہ، العاضد مکمل طور پر سنی سلطان اور عباسیوں کے طرفدار صلاح‌الدین ایوبی کے اختیار میں آگیا اور 567 ھ کو اس کی موت کے ساتھ فاطمی خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔[49]

عثمانی حکومت

عثمانی حکومت، جس کے قبضے میں روس کے صحراوں کے وسیع حصوں سے لیکر بحیرہ اسود تک، یورپ اور افریقہ کے کچھ علاقے اور عراق، حجاز اور شام تھے، ایک طاقتور اور تازہ دم حکومت شمار ہوتی تھی 923ھ کو مصر پر قبضہ کرنے کے بعد اسے رسمی طور پر خلافت کا عنوان دیا گیا۔ عثمانی بادشاہ عباسی خلیفہ سے متصل ہو‎ئے بغیر اپنی مذہبی مشروعیت کو میسر ہوتے نہیں دیکھتا تھا [50] یہاں تک کہ عثمانی خلافت کا موجد، سلیم اول، بھی خلافت کا ادعا کرنے سے پہلے کوشش کرتا تھا کہ عباسی خلیفہ سے متوسل ہوکر ان کے ذریعے اپنی ساکھ بنا‎ئے۔[51] سلیم کی ایشیا‎ئے صغیر، حجاز، شام و شمالی افریقہ میں فتوحات کی وجہ سے عثمانی حکومت کی بڑھتی ہوتی سرزمین نے عثمانیوں کو پورے جہان اسلام کی حکمرانی حاصل کرنے کی طرف دھکیل دیا۔920ھ کوچالدران کی جنگ کے بعد کہ جسمیں سلیم کو فتح ملی تو اس کو « خدا کا خلیفہ اور پیغمبر» سے خطاب کیا۔[52] عثمانی خلافت کسی بھی وقت ایک معنوی مرکز کے عنوان سے جانی نہیں گئی۔ خلفاء کا غیر عرب اور غیر قریشی ہونا اور انکی پیغمبر کی خاندان سے کو‎ئی نسبت نہ ہونا اس کی اہم وجہ تھی جیسا کہ عثمانی خلافت کے اعلان کی پہلی صدی میں ہی ایک عثمانی اہم شخصیت نے ایک رسالہ لکھ کر غیر قریشی خاص کر عثمانی بادشاہوں کیلئے خلیفہ اور امام کا لقب استعمال کرنے کو مشروعیت دینے کی کوشش کی۔[53] اور اس کام نے عثمانی خلافت کو انکی اصلی سلطنت کے اندر مورد سوال ٹھہرایا ۔[54] ۱۳۰۱ش/ ۱۹۲۲ کو انقرہ کی قومی اسمبلی کے اراکین نے ووٹ کے ذریعے عثمانی خلافت کو ایک روحانی مقام تک محدود کردیا اور بادشاہت سے جدا کیا۔ اس کے ایک سال بعد بادشاہی نظام ختم ہوکر ترکی جمہوریہ وجود میں آ‎یی جسے خلافت پسند مسلمانوں کے عکس العمل کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ بعض شخصیات جیسے سید امیرعلی ہندی شیعہ امامی میں سے اور آغاخان ( اسماعیلی سربراہ)کو اتنا پریشان کردیا کہ تحریک خلافت کی نمایندگی میں ترکی چلے گئے اور ترکی کے صدر اور وزیر اعظم سے ملاقات میں انکی تصمیم میں تجدید نظر کا مطالبہ کیا لیکن ان اقدامات کا کو‎ئی نتیجہ نہیں نکلا اور ۱۳۰۳ ہ۔ش/ ۱۹۲۴ م، کو ترکوں نے نظام خلافت کو ہمیشہ کے لیے لغو کرنے کی رای دی۔

خلافت کے بارے میں جدید نظریے

انیسویں اور بیسویں صدی میں مسلمان علما نے خلافت کے بارے میں مختلف نظریے پیش کئے ہیں عبدالرحمن کواکبی(متوفی ۱۳۲۰ ہ۔ق): ایک مصری عالم تھے اگرچہ وہ قومی نقطہ نظر کی وجہ سے عربوں کی خلافت کی بازگشت چاہتے تھے لیکن کلی طور پر اس کا رویہ نظام خلافت کی جانبداری نہیں بلکہ اس حکومت کی جانبداری کر رہے تھے جس کے اردگرد تقدس کا حلقہ نہ ہواور مطلق العنان طاقت نہ بنے اور اسی لیے خلیفہ کے اختیارات کو دینی رہبر کی حد تک کم کردیا۔۔[55]

سید جمال الدین اسدآبادی(۱۲۵۴ـ۱۳۱۴ ہ۔ق): خلافت اور خاص کر عثمانی خلافت کی نسبت مثبت نظر رکھتے تھے۔[56] اس طرح کے طرز تفکر کا انکے اہداف اور محرکات؛ یعنی جہان اسلام، کا اتحاد، مسلمانوں کو پسماندگی سے نجات، استعمار کے مقابلے میں مسلمانوں کی شان و شوکت اور طاقت کا دوبارہ حصول، سے مستقیم رابطہ تھا۔ آپ خلافت کے اقتدار کو(اسلامی دنیا میں اتحاد کے محور کے عنوان سے) احیاء کرنا چاہتے تھے لیکن سنتی روش میں نہیں بلکہ ایک جدید شکل میں (جس میں شہریوں کے حقوق اور حکومت و عوام کے متقابل حقوق پر توجہ دے) آپکا یہ مثبت اور امیدوار کنندہ رویہ آپ کی عمر کے آخری ایام میں استانبول کی خلافت کے ذمہ داروں اور خود عبدالحمید دوم (وقت کے خلیفہ) کی غلط اقدامات کی وجہ سے نا امیدی میں بدل گیا۔[57] محمد رشیدرضا (۱۲۸۲ـ۱۳۵۴ ہ۔ق/ ۱۸۶۵ـ۱۹۳۵م): آپ نظام خلافت کے سخت مدافع سمجھے جاتے تھے اور ابتدا‎ئی موقف میں عثمانی خلافت کی حمایت پر تمرکز کیا۔[58] اس طرح کا موقف،۱۳۰۱ش/ ۱۹۲۲ کوعثمانی خلافت، سلطنت سے جدا ہونے اور عربی نیشنلیزم پھیلنے کے بعد (جسکو وہ فساد اور نظام خلافت سے انحراف کا باعث سمجھتے تھے) عثمانی خلافت کی مخالفت میں تبدیل ہوگیا اور رشید رضا نے کواکبی کی طرح عربی خلافت کو مطرح کیا۔۔[59]

عبدالرزاق احمد سَنْہوری (۱۳۱۳ـ۱۳۹۱ ہ۔ق/ ۱۸۹۵ـ۱۹۷۱ م): آپ نے نظام خلافت اور مسلمان ممالک کے استقلال کو ملانے کا نظریہ دیا جسمیں اسلامی بین الاقوامی تنظیمیں بنانے کی تاکید کی گئی ۔ یہ تنظیمیں مسلمان ملتوں کے مابین ثقافتی تعلقات اور ثقافتی و اعتقادی وحدت ایجاد کر کے خلافت کےمتبادل بن جاتیں۔ اس نظریے میں، خلیفہ تمام اسلامی ممالک کا تشریفاتی صدر اور صرف مذھبی اختیارات کا حامل تھا اور سیاسی کو‎ئی بھی اختیارات نہیں تھے۔۔[60]

ابوالکلام آزاد (۱۳۰۵ـ۱۳۷۷ ہ۔ق / ۱۸۸۸ـ ۱۹۵۸ م): آپ نے نظام خلافت کو قرآن، پر مبنی ایک حکومت کے طور پر بیان کرتے ہو‎ئے اور نظام خلافت کی شد و مد کے ساتھ دفاع کرتے ہو‎ئے خلیفہ کو اھل حل و عقد کی رای سے معین کرنے پر تاکید کی ہے۔[61] وہ عثمانی خلافت لغو ہونے کے بعد وطن پرست نظریات کی طرف مایل ہوگیا یہاں تک کہ اتاتورک کی غیر مذھبی سیاستوں کی توجیہ کرنے لگا۔[62]

ابوالاعلی مودودی (۱۳۲۱ـ۱۳۹۹ ہ۔ق/ ۱۹۰۳ـ۱۹۷۹ م): خلافت کے آرمانی نظریہ کے بنا پر اس نظریے کا دفاع کیا اور آپ کسی قوم یا گروہ حتی قریش کے ساتھ خلافت کے انحصار کا قایل نہیں تھا اور خلیفہ کیلئے مشروط اور محدود اختیارات کا قا‎ئل تھے۔ آپ ان خلافت پسند افراد میں سے تھے جو سیاسی ساختار میں اداروں کو تقسیم اور استقلال پر تاکید کرنے کے ساتھ ساتھ خلیفہ کی ولایت کو عوامی نمایندوں (حقیقت میں عوام) کی طرف سے ایک قسم کی وکالت سمجھتے تھے اور رشید رضا کے اہل حل عقد کے برخلاف مردم‌سالاری [63] کی طرف ما‎ئل تھے۔[64]

دوسرے نظر‎ئے: جزا‎ئری عالم مالک بن نبی کے نظریے کے مطابق آرمانی خلافت وہ عوامی حکومت تھی جو جنگ صِفّین سے پہلے تھی اور انہیں امید تھی کہ مسلمان اصل اسلامی عوامی حکومت (جسمیں اظہار رائے اور عقیدہ کی آزادی اور مطلق العنانیت سے رہایی ہو) کی طرف لوٹیں۔[65] اس کے باوجود انکے نظریات میں نظام خلافت کی دوبارہ احیاء کا کہیں اشارہ نہیں ملتا ہے۔ جبکہ اخوان‌المسلمین مصر کے سربراہ حسن البنّا (۱۳۲۴ـ۱۳۶۸/ ۱۹۰۶ـ۱۹۴۹)، کے نظریات میں کسی دوسری شکل میں نظر آتا ہے۔ حسن البنا اگرچہ خلافت کو ارکان دین اسلام اور وحدت اسلامی کی اساس سمجھتے تھے، اس لیے نظام خلافت کے دینی کردار کے احیاء کی تاکید کرتے تھے۔[66]

اسلامی خلافت کا احیاء

عثمانی خلافت کے ختم ہونے کے بعد، بعض افراد اور تحریکیں دوبارہ سے اسلامی خلافت کو زندہ کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ بنگلہ دیش میں «حافظی حضور» نے اپنی وسیع سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تحریک خلافت سے مشابہ اسی نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھ کرخلافت کو احیاء کرنے کے درپے ہو‎ئے۔۱۳۶۰ہ۔ش/ ۱۹۸۰م کی دہا‎ئی میں «مشترک مجلس عمل» کے نام سے ایک یونین تشکیل ہو‎ئی جسمیں چند اسلامی گروہ شامل تھے، بنگلہ دیش کی سیاست میں اس فعال تحریک کا حضور، حافظی حضور اور اس کے حامیوں اور بنگلہ دیش کی حکومت وقت کے ساتھ داخلی وسیع تنازعات کا باعث بنا اور اس تحریک کے سرگرم کارکنوں کی گرفتاری اور خود حافظی حضور گھر میں محبوس ہوگئے اور تنظیم کی سرگرمیوں میں محدودیت کا باعث بن گیا۔[67] ایک اور تحریک، ۱۳۷۰ہ۔ش/۱۹۹۰م کی دہا‎ئی میں ترکی کے عالم دین جمال‌الدین بن رشید کابلان (خوجا اوغلو) کی طرف سے حکومت خلافت کی تشکیل کا اعلان تنہاترین اسلامی مشروع حکومت کے عنوان سے تھا یہ حکومت اہل سنّت کی فقہ کے خلافت کے بارے میں قدیمی مبانی کے مطابق عصر جدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر تشکیل دیا تھا۔[68] کابلان کا نظریہ تقریباً سنہوری کا نظریہ ہی تھا اس فرق کے ساتھ کہ وہ سنہوری کے برخلاف خلیفہ کو نہ صرف ایک تشریفاتی منصب سمجھتے تھے بلکہ مقام عمل میں جہان اسلام کا عالیترین منصب بھی سمجھتے تھے۔ اور بیعت کی سنت کو دوبارہ زندہ کرنا، اور اسلامی آثار جیسے میلادی تاریخ کے بجا‎ئے تاریخ ہجری اور اسلامی احکام کو جاری کرنے پر تاکید کرتے تھے۔ اس کے علاوہ خلافت کے معنوی مرکز کو استانبول میں ہونے پر اصرار بھی کرتے تھے۔[69] داعش کا گروہ اسلامی خلافت کو ایجاد کرنے کے جدیدترین داعویداروں میں سے ہے۔

حوالہ جات

  1. مراجعہ کریں:ابن منظور، «خَلَفَ» کے ذیل میں؛ زبیدی، ج ۲۳، ص ۲۶۳ـ۲۶۵۔
  2. رجوع کریں: بقرہ: ۳۰۔
  3. اعراف: ۶۹، ۷۴؛ نمل: ۶۲۔
  4. انعام:۱۶۵؛ یونس: ۱۴، ۷۳؛ فاطر: ۳۹۔
  5. ماوردی، ۱۴۰۹، ص ۴؛ قلقشندی، مآثرالأنافۃ فی معالم الخلافۃ (بیروت)، ج ۱، ص ۸ـ۱۲، ۱۴ـ۱۶۔
  6. مراجعہ کریں: ابن قتیبہ، ج۱، ص ۱۲ـ۱۴؛ طبری، ج ۳، ص ۲۰۲ـ۲۰۳۔
  7. ابن سعد، ج ۳، ص ۸۳؛ احمد بن حنبل، ج۱، ص ۲۰۔
  8. مراجعہ کریں: ماوردی، الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ، ص ۶ـ۹۔
  9. مراجعہ کریں: بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۱۰، ص ۸۸ـ۸۹، ۳۰۵؛ طبری، ج ۳، ص ۴۲۸ـ۴۳۴ ۔
  10. ابن سعد، ج ۳، ص ۲۰۰۔
  11. بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج۱۰، ص۳۲۱۔
  12. مراجعہ کریں:جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص۱۰۱۔
  13. مراجعہ کریں: مالک بن انس، ص ۳۰۸؛ ابن سعد، ج ۳، ص ۲۷۶؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص ۴۴۸ـ ۴۶۱؛ ماوردی، نصیحۃ الملوک، ص ۳۵۳۔
  14. ابن شبّہ نمیری، ج ۳، ص ۹۳۰؛ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۶۲؛ طبری، ج ۴، ص ۲۳۳؛قس ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۲۶ـ۲۷
  15. ابن تیبہ، ج ۱، ص ۳۲؛ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۶۸، ۱۷۴؛ طبری، ج ۴، ص ۳۴۷ـ ۳۴۸؛ اس حوالے سے زیادہ توضیح اور تشریح کے لیے مراجعہ کریں جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج ۲، ص ۳۴۴ـ ۳۴۹۔
  16. یعقوبی، ج ۲، ص ۱۷۸ـ۱۷۹؛ طبری، ج ۴، ص ۴۲۷، ۴۳۵؛ ابن اعثم کوفی، ج ۲، ص ۴۳۵ـ۴۳۶۔
  17. مراجعہ کریں: نہج‌البلاغہ، خط ۱؛ اسکافی، ص ۵۲، ۱۰۵ـ۱۰۶؛ طبری، ج ۴، ص ۴۲۷۔
  18. نہج‌البلاغہ، خطبہ ۳۴؛ طبری، ج ۵، ص ۹۱۔
  19. نہج‌البلاغہ، خطبہ ۸۷۔
  20. مراجعہ کریں:ابوالفرج اصفہانی، ص۔۴۷
  21. مراجعہ کریں: یعقوبی، ج ۲، ص ۱۷۹ـ۱۸۰۔
  22. بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۳، ص ۲۸۷۔
  23. مراجعہ کریں: بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۳، ص ۲۸۶ـ۲۸۷۔
  24. اسفراینی، ج۲، ص۵۰۱؛ غزالی، ص۲۷ـ۲۸، ۱۴۸؛ سجاسی، ص۳۴ـ۳۹
  25. مراجعہ کریں:حاتم قادری، تحول مبانی مشروعیت خلافت، ص ۸۳ـ۸۴، ۸۷؛ جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۹۹
  26. ماوردی، الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ، ص ۶ـ۷؛ مراجعہ کریں: جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۹۰ـ۹۳
  27. ابن ابی شیبہ، ج ۷، ص ۵۶۶ـ۵۶۷
  28. ابن فرّاء، ص ۲۰ـ۲۳
  29. ابن عبد ربّہ، ج ۴، ص ۷۵ـ۷۶
  30. مراجعہ کریں: ابن عساکر، ج ۵۹، ص ۱۵۱، ۱۷۷
  31. ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۱۸۳، ۱۸۷؛ ابن عساکر، ج ۵۹، ص ۱۵۰
  32. نعیم بن حمّاد، ص ۵۷؛ احمد بن حنبل، ج ۶، ص ۲۸۹
  33. مراجعہ کریں: طبری، ج ۵، ص ۴۶۱ـ۴۶۲ و ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۲۱۴؛ یعقوبی، ج ۲، ص ۲۵۰
  34. مراجعہ کریں: طبری، ج ۵، ص ۴۹۷
  35. مراجعہ کریں:خلیفۃ بن خیاط، ص ۱۵۷؛ ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۱۷۳ـ۱۷۴؛ طبری، ج ۵، ص ۴۹۲
  36. بلاذری، ج ۶، ص ۳۴۱
  37. مراجعہ کریں: جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۲۳۶ـ۲۴۷
  38. مراجعہ کریں: جاحظ، رسائل الجاحظ: الرسائل الکلامیۃ، ص ۲۴۲ـ۲۴۵؛ غزالی، ص ۱۱۹؛ ہندوشاہ بن سنجر، ص ۵۷؛ تحفہ: در اخلاق و سیاست، ص ۱۵۴
  39. مراجعہ کریں: خطیب اسکافی، ص ۱۲؛ طرطوشی، ص ۱۲۶ـ۱۲۷
  40. مراجعہ کریں: یعقوبی، ج ۲، ص ۳۵۰ـ۳۵۱
  41. ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص ۱؛ ابن فرّاء، ص ۲۴؛ بلعمی، ج ۲، ص ۱۱۶۹؛ ثعالبی، ص ۷۶؛ گردیزی، ص ۱۵۳؛ ابن جوزی، ج ۹، ص ۲۱۹؛ قلقشندی، صنع الاعشی فی صناعۃ الانشا، ج ۹، ص ۲۷۶ـ۲۷۹
  42. جاحظ، التاج فی اخلاق الملوک، ص۱۵ـ۲۱، ۲۴ـ ۳۲، ۵۳ـ۸۷؛ ثعلبی، ص۳۷ـ۱۰۱
  43. ابن مقفع، ص ۱۹۲؛ ابویوسف، ص ۵؛ بلک، ص ۳۶ـ۳۹
  44. مجمل التواریخ و القصص، ص ۳۶۲ـ ۳۶۵، ۳۷۴ـ۳۷۵؛ ہندوشاہ بن سنجر، ص ۱۸۵؛ تحفہ: در اخلاق و سیاست، ص ۱۳۳ـ۱۳۴
  45. ابن اثیر، ج ۱۲، ص ۳۵۸ـ۳۶۰؛ سعدی، ص ۷۰۳ـ۷۰۸
  46. مراجعہ کریں: رشیدالدین فضل اللّہ، جامع التواریخ: بخش اسماعیلیان و فاطمیان، ص ۳۱ـ۳۴
  47. مراجعہ کریں: بلک، ص ۷۱ـ۷۲؛ جان احمدی، ص ۲۰۵ـ۲۰۶
  48. مراجعہ کریں: قلقشندی، صبح الاعشی فی صناعہ الانشا، ج ۶، ص ۴۴۲، ۵۲۲ـ۵۲۳، مراجعہ کریں: صفحہ ۴۳۴ـ۴۳۵ ہ۔ق
  49. مراجعہ کریں: عمادالدین کاتب، ص ۴۲ـ۴۳، ۵۸ـ۵۹؛ رشیدالدین فضل‌اللّہ، جامع التواریخ: قسمت اسماعیلیان و فاطمیان، ص ۷۴ـ۷۵
  50. ابن سباط، ج ۲، ص ۷۵۰
  51. مراجعہ کریں: ابن ایاس، ج ۵، ص ۲۷۲؛ بارتولد، ص ۶۷
  52. مراجعہ کریں: فریدون‌بیگ‌پاشا، ج ۱، ص ۴۱۶
  53. مراجعہ کریں: لطفی‌پاشا، ص۳۸ـ۴۸، ۶۲
  54. مراجعہ کریں: لطفی‌پاشا، ص ۶۸، جس میں اس مسئلے کے منکروں کی طرف اشارہ کیا ہے۔
  55. مراجعہ کریں: علیخانی، ص۴۶ـ۴۷
  56. مراجعہ کریں: جمال‌الدین اسدآبادی، ص ۱۴۸ـ۱۴۹
  57. مراجعہ کریں: جمال الدین اسدآبادی، ص۱۴۷ـ۱۵۱
  58. مراجعہ کریں: گل‌محمدی، ص۱۶۹ـ۱۷۰
  59. مراجعہ کریں: گل محمدی، ص۱۷۰ـ۱۷۳، ۱۸۸
  60. مراجعہ کریں: سنہوری، ص۳۳۷ـ ۳۷۴
  61. مراجعہ کریں: قندیل عباس، ص۳۷۱ـ۳۷۲
  62. مراجعہ کریں: قندیل عباس، ص ۳۷۲ـ۳۷۴
  63. مراجعہ کریں: فیرحی، ص۱۴۷ـ۱۴۹
  64. مراجعہ کریں:مودودی، ص۲۷۸ـ۲۸۴
  65. مراجعہ کریں: ابن نبی، ص۲۶ـ۲۹، ۳۹ـ۴۳، ۵۱ـ۵۲
  66. مراجعہ کریں: بنّا، ص۲۲۷ـ۲۴۳
  67. مراجعہ کریں: یوسف امین، ص۱۵۰ـ۱۵۳
  68. مراجعہ کریں: کابلان، ص۹۳ـ۹۴، ۱۰۳ـ۱۰۴، ۱۱۰، ۱۱۵ـ۱۲۲، ۱۴۴ـ۱۶۵
  69. مراجعہ کریں:کابلان، ص۲۵ـ۳۰، ۵۹

مآخذ

  • قرآن
  • نہج البلاغہ، ترجمہ جعفر شہیدی، تہران، ۱۳۷۰ش۔
  • ابن ابی شیبہ، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، چاپ سعید محمد لحّام، بیروت ۱۴۰۹/۱۹۸۹۔
  • ابن اثیر، ج ۱۲، ص ۳۵۸ـ۳۶۰
  • ابن اعثم کوفی، کتاب الفتوح، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۱/۱۹۹۱۔
  • ابن ایاس، بدائع الزہور فی وقائع الدہور، چاپ محمد مصطفی، قاہرہ ۱۴۰۲ـ۱۴۰۴/۱۹۸۲ـ۱۹۸۴۔
  • ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، چاپ محمد عبدالقادر عطاو مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
  • ابن سباط، صدق الاخبار، تاریخ ابن سباط، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، طرابلس ۱۴۱۳/۱۹۹۳۔
  • ابن سعد (بیروت)۔
  • ابن شبّہ نمیری، کتاب تاریخ المدینۃ المنورۃ: اخبار المدینۃ النبویۃ، چاپ فہیم محمد شلتوت، جدہ، ۱۳۹۹/۱۹۷۹، چاپ افست قم ۱۳۶۸ش۔
  • ابن عبدربّہ، العقدالفرید، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۰۸ـ۱۴۱۱/۱۹۸۸ـ۱۹۹۰۔
  • ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۵ـ۱۴۲۱/۱۹۹۵ـ۲۰۰۱۔
  • ابن فرّاء، الاحکام السلطانیۃ، چاپ محمدحامد فقی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
  • ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، المعروف بتاریخ الخلفاء، قاہرہ ۱۳۸۸/ ۱۹۶۹، چاپ افست قم ۱۳۶۳ش؛
  • ابن مقفع، المجموعۃ الکاملۃ مؤلفات عبداللّہ بن المقفع، بیروت ۱۹۷۸۔
  • ابن منظور، لسان العرب،
  • ابن نبی، مالک، دموکراسی در اسلام، ترجمہ عبدالعزیز مولودی، بوکان ۱۳۸۱ش۔
  • ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، چاپ کاظم مظفر، نجف ۱۳۸۵/ ۱۹۶۵، چاپ افست قم ۱۴۰۵۔
  • ابویوسف، یعقوب بن ابراہیم، کتاب الخراج، بیروت ۱۳۹۹/۱۹۷۹۔
  • احمدبن حنبل، مسندالامام احمدبن محمدبن حنبل، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
  • اسفراینی، شہفوربن طاہر، تاج التراجم فی تفسیرالقرآن للأعاجم، چاپ نجیب مایل ہروی و علی اکبر الہی خراسانی، ج۲، تہران ۱۳۷۵ش؛
  • اسکافی، محمدبن عبداللّہ، المعیار و الموازنۃ فی فضائل الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (صلوات اللّہ علیہ)، چاپ محمدباقر محمودی، بیروت ۱۴۰۲/۱۹۸۱۔
  • بارتولد، واسیلی ولادیمیروویچ، خلیفہ و سلطان، و مختصری دربارہ برمکیان، ترجمہ سیروس ایزدی، تہران ۱۳۵۸ش۔
  • بلاذری، احمدبن یحیی، کتاب جُمَل من انساب الاشراف، چاپ سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت ۱۴۱۷/۱۹۹۶۔
  • بلاذری، احمدبن یحیی، کتاب فتوح البلدان، چاپ دخویہ، لیدن ۱۸۶۶، چاپ افست فرانکفورت ۱۴۱۳/۱۹۹۲۔
  • بلعمی، محمدبن محمد، تاریخنامہ طبری، چاپ محمد روشن، تہران ۱۳۶۶ش۔
  • بلک، آنتونی، تاریخ اندیشہ سیاسی اسلام: از عصر پیغمبر تا امروز، ترجمہ محمدحسین وقار، تہران ۱۳۸۵ش۔
  • بنّا، حسن، مجموعۃ رسائل الامام الشہید حسین البنا، اسکندریہ ۱۴۲۳/۲۰۰۲۔
  • تحفہ: در اخلاق و سیاست، از متون فارسی قرن ہشتم، چاپ محمدتقی دانش پژوہ، تہران ۱۳۴۱ش
  • ثعالبی، عبدالملک بن محمد، آداب الملوک، چاپ جلیل عطیہ، بیروت ۱۹۹۰۔
  • ثعلبی، محمدبن حارث، اخلاق الملوک، چاپ جلیل عطیہ، بیروت ۱۴۲۴/۲۰۰۳۔
  • جاحظ، عمروبن بحر، کتاب التاج فی اخلاق الملوک، چاپ فوزی عطوی، بیروت ۱۹۷۰۔
  • جاحظ، عمروبن بحر، رسائل الجاحظ: الرسائل الکلامیۃ، چاپ علی ابوملحم، بیروت ۲۰۰۴۔
  • جان احمدی، فاطمہ، ساختار نہاد دینی فاطمیان در مصر، تہران ۱۳۸۸ش۔
  • جعفریان، رسول، تاریخ تحول دولت و خلافت: از برآمدن اسلام تا برافتادن سفیانیان، قم ۱۳۷۷ش۔
  • جعفریان، رسول، تاریخ سیاسی اسلام، ج۲، تہران ۱۳۷۲ش۔
  • جمال الدین اسدآبادی، نامہ ہا و اسناد سیاسی ـ تاریخی، تہیہ، تنظیم، تحقیق و ترجمہ ہادی خسروشاہی، تہران ۱۳۷۹ش۔
  • حاتم قادری، تحول مبانی مشروعیت خلافت: از آغاز تا فروپاشی عباسیان، با رویکردی بہ آراء اہل سنّت، بی جا، بنیان، ۱۳۷۵ش۔
  • خطیب اسکافی، محمدبن عبداللّہ، کتاب لطف التدبیر، چاپ احمد عبدالباقی، بغداد ۱۹۶۴۔
  • خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، چاپ مصطفی نجیب فوّاز و حکمت کشلی فوّاز، بیروت ۱۴۱۵/۱۹۹۵۔
  • رشیدالدین فضل اللّہ، جامع التواریخ: قسمت اسماعیلیان و فاطمیان و نزاریان و داعیان و رفیقان،چاپ محمدتقی دانش پژوہ و محمد مدرسی زنجانی، تہران ۱۳۸۱ش۔
  • زبیدی، محمدبن محمد، تاج العروس من جواہر القاموس، ج۲۳، چاپ عبدالفتاح حلو، کویت ۱۴۰۶/۱۹۸۶۔
  • سجاسی، اسحاق بن ابراہیم، فرائدالسلوک، چاپ نورانی وصال و غلامرضا افراسیابی، تہران ۱۳۶۸ش۔
  • سعدی، مصلح بن عبداللّہ، کلیات سعدی، چاپ بہاءالدین خرمشاہی، تہران ۱۳۷۹ش۔
  • سنہوری، عبدالرزاق احمد، فقہ الخلافۃ و تطورہا لتصبح عصبۃ امم شرقیۃ، ترجمتہ عن الفرنسیۃ نادیہ عبدالرزاق سنہوری، چاپ توفیق محمد شاوی، قاہرہ، ۱۹۸۹۔
  • طبری، محمدبن جریر، تاریخ، بیروت
  • طرطوشی، محمدبن ولید، سراج الملوک، بیروت ۱۹۹۵۔
  • علیخانی، علی اکبر، «درآمدی بر اندیشہ سیاسی در جہان اسلام»، در اندیشہ سیاسی در جہان اسلام،
  • عمادالدین کاتب، محمد بن محمد، سناالبرق الشامی: ۵۶۲ـ۵۸۳ہ /۱۱۶۶ـ۱۱۸۷م، اختصار فتح بن علی بنداری، چاپ فتحیہ نبراوی، قاہرہ، ۱۹۷۹۔
  • غزالی، محمد بن محمد، نصیحۃ الملوک، چاپ جلال الدین ہمایی، تہران ۱۳۶۷ش۔
  • فریدون بیگ پاشا، احمد، منشآت السلاطین، استانبول، ۱۲۷۴ـ۱۲۷۵۔
  • فیرحی، داود، نظام سیاسی و دولت در اسلام، تہران ۱۳۸۲ش۔
  • قلقشندی، احمدبن علی، صبح الاعشی فی صناعۃ الانشا، قاہرہ ۱۹۱۰ـ۱۹۲۰، چاپ افست ۱۳۸۳/۱۹۶۳۔
  • قلقشندی، احمدبن علی، مآثرالأنافۃ فی معالم الخلافۃ، چاپ عبدالستار احمد فراج، کویت ۱۹۶۴، چاپ افست بیروت ۱۹۸۰۔
  • قندیل عباس، سید، «ابوالکلام آزاد»، در اندیشہ سیاسی در جہان اسلام
  • کابلان، جمال الدین بن رشید(خوجا اوغلو)، الخلافۃ و الخلیفۃ، کلن ۱۴۱۶/۱۹۹۵۔
  • گردیزی، عبدالحی بن ضحاک، تاریخ گردیزی، چاپ عبدالحی حبیبی، تہران ۱۳۶۳ش۔
  • گل محمدی، علی، «محمد رشیدرضا»، در اندیشہ سیاسی در جہان اسلام، ہمان، ج۱۔
  • لطفی پاشا، احمد لطفی بن عبدالمعین، خلاص الامۃ فی معرفۃ الائمۃ، چاپ ماجدہ مخلوف، قاہرہ ۱۴۲۲/۲۰۰۱؛
  • مالک بن انس، المُوَطَّأ، چاپ طہ عبدالرؤوف سعد، قاہرہ، ۲۰۰۶۔
  • ماوردی، علی بن محمد، الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ، چاپ احمد مبارک بغدادی، کویت ۱۴۰۹/۱۹۸۹۔
  • ماوردی، علی بن محمد، کتاب نصیحۃ الملوک، چاپ محمدجاسم حدیثی، بغداد، ۱۴۰۶/ ۱۹۸۶۔مجمل التواریخ و القصص، ص ۳۶۲ـ ۳۶۵، ۳۷۴ـ۳۷۵
  • مودودی، ابوالاعلی، نظریۃ الاسلام و ہدیہ فی السیاسۃ و القانون و الدستور، بیروت ۱۳۸۹/۱۹۶۹۔
  • نعیم بن حمّاد، کتاب الفتن، چاپ سہیل زکار، مکہ، ۱۹۹۱ چاپ افست دمشق، بی تا۔
  • ہندوشاہ بن سنجر، تجارب السلف، چاپ عباس اقبال آشتیانی، تہران ۱۳۵۷ش۔
  • یعقوبی، تاریخ،
  • یوسف امین، «جنبش خلافت 'حافظی حضور، در بنگلادش»، ترجمہ محسن مدیرشانہ چی، مشکوۃ،ش ۱۱ (تابستان ۱۳۶۵)۔