تائیہ دعبل
تائیّۀ دِعْبِل، اہل بیتؑ کے بارے میں دِعْبل خُزاعی کا ایک عربی قصیدہ ہے۔ یہ قصیدہ اہل بیتؑ کی شأن میں لکھے گئے بہترین قصائد میں سے ایک ہے۔ اس قصیدے کے 120 مصرعے ہیں جو امام علیؑ کی خلافت و امامت اور اہل بیتؑ کے فضائل و مصائب پر مشتمل ہے۔
دِعْبل نے ان اشعار کو پہلی مرتبہ مَرْو میں امام رضاؑ کی خدمت میں پیش کیا جسے امامؑ نے بہت پسند کیا۔ اس قصیدے کے عوض امام رضاؑ نے اپنے نام رائج سونے یا چاندی کے سکے اور اپنی قمیص دعبل کو عطا کیا اور چند مصروں کو اضافہ کرنے کے ذریعے اس کے مضامین کو مکمل کیا۔ اس قصیدے کی مختلف شروحات لکھی گئی ہیں منجملہ ان میں علامہ مجلسی کی کتاب «شرح و ترجمہ قصیدہ تائیہ دعبل» کا نام لیا جا سکتا ہے۔
اہمیت
قصیدہ تائیہ امام رضاؑ کے صحابی دِعْبِل بن علیّ خُزاعی کا اہل بیتؑ کی شأن میں لکھے گئے بہترین قصائد میں سے ایک ہے۔[1] شیعہ مورخ اور مرجع تقلید آیت اللہ جعفر سبحانی اس قصیدے کو ایک زندہ تاریخی سند قرار دیتے ہیں جس میں اہل بیتؑ کے ساتھ بنی امیہ اور بنی عباس کے برتاؤ کو بیان کیا گیا ہے۔[2] کتاب اَعیانُ الشیعہ میں سید محسن امین کہتے ہیں کہ یہ شعر اس قدر مشہور ہے کہ تمام مورخین نے اسے نقل کیا ہے اور شعراء نے اپنے اشعار میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔[3]
موضوع اور وجہ تسمیہ
یہ قصیدہ اہل بیتؑ کے فضائل اور ان پر ڈھائے گئے مظالم کے بارے میں ہے۔ امام علیؑ کی امامت و ولایت، آل محمدؑ سے اظہار مودت، پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد امام علیؑ اور آپ کی آل پر ڈھائے گئے مظالم، واقعہ کربلا اور بنی امیہ اور بنی عباس کی خلافت وغیرہ اس قصیدے کے موضوعات میں سے ہیں۔[4]
ادبیات عرب میں اہم قصیدوں کا نام ان کے قافیہ کے آخری حرف کے مطابق رکھا جاتا ہے۔ اس بنا پر اس قصیدے کا نام تائیہ دعبل رکھا گیا ہے۔[5] یہ قصیدہ «مَدارس آیات» (قرآنی آیات کو سیکھنے کی جگہ) کے نام سے بھی مشہور ہے[6] اسی طرح «اَلتّائیۃُ الکبری» اور «اَلتّائیۃُ الْخالدہ» (جاویداں تائیہ) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔[7] دعبل نے اس قصیدے کو ایک کپڑے پر لکھا تھا جسے اس نے بطور احرام بھی باندھا اور اسے اپنے کفن میں رکھنے کی وصیت بھی کی تھی۔[8]
مختلف نسخے
کتاب الغدیر میں علامہ امینی کہتے ہیں کہ مختلف تاریخی ماخذ کے مطابق اس قصیدے کے مصرعوں کی تعداد 120 ہیں۔[9] البتہ چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے مورخ یاقوت حَمَوی اس قصیدے کے مختلف نسخوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ممکن ہے بعض شیعہ حضرات نے اس قصیدے کے مصرعوں میں کمی بیشی کی ہو۔[10] سید محسن امین یاقوت حموی کے اس احتمال کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قصیدے کے نسخوں میں اختلاف در حقیقت لوگوں کے سلائق میں اختلاف کی وجہ سے وجود میں آیا ہے۔ کیونکہ قصیدہ تائیہ ایک طولانی قصیدہ ہے اور بعض لوگوں نے اسے نقل کرتے وقت اس کے بعض مصرعوں کو حذف کر کے نقل کئے ہیں جبکہ دوسروں نے اسے مکمل طور پر بغیر کسی حذف و اضافے کے نقل کیا ہے۔[11]
امام رضاؑ کا ردعمل
دعبل نے قصیدہ تائیہ کو مکمل کرنے کے بعد یہ عہد کیا تھا کہ اسے امام رضاؑ کی خدمت میں پیش کرنے سے پہلے کسی اور کو نہیں سنائے گا۔ اس بنا پر اس نے مرو کا سفر کیا اور وہاں جاکر امامؑ کی خدمت میں اسے پیش کیا۔[12] امام رضاؑ کو یہ قصیدہ بہت پسند آیا۔[13] جب دعبل نے قصیدہ تائیہ کو امام رضاؑ کے سامنے پیش کیا تو امامؑ نے بہت گریہ کیا۔[14] آپ نے دعبل سے اسے دو یا تین بار پڑھنے کی درخواست کی اور دعبل نے ایسا ہی کیا۔[15]
جب دعبل نے اپنے اشعار میں گذشتہ ائمہ کی شہادت اور محل دفن کی طرف اشارہ کیا تو امام رضاؑ نے درج ذیل دو بیت اس میں اضافہ کیا:
|
امامؑ نے ان دو ابیات میں اس بات کی نشاندہی کی ہیں کہ آپ شہر طوس میں دفن ہونگے اور شہر طوس شیعوں کی آمدورفت کی جگہ قرار پائے گی۔ اسی طرح آپ نے اس بات کی بشارت بھی دی ہے کہ جو بھی شہر طوس میں آپ کی زیارت کرے گا روز قیامت اس کی بخشش ہوگی اور وہ بہشت میں خود امام کے ساتھ محشور ہوگا۔[17]
جب دعبل نے اس قصیدے میں امام مہدیؑ کے قیام کی طرف اشارہ کیا تو امام رضاؑ نے ان دو ابیات کو روح القُدُس کا کلام قرار دیا جو دعبل کی زبان پر جاری ہوا ہے:
|
دعبل کو امامؑ کا تحفہ
امام رضاؑ نے قصیدہ تائیہ کے بدلے میں اپنے نام رائج سونے یا چاندی کے سکے اور اپنی قمیص دعبل کو بطور ہدیہ عطا کیا۔[19] کتاب امالی میں شیخ طوسی نے امام رضاؑ سے نقل کیا ہے کہ امام نے اس قمیص میں 1000 راتوں میں 1000 رکعت نماز ادا کی تھی۔ اسی طرح اس قمص میں آپ نے ہزار مرتبہ ختم قرآن کئے تھے۔[20] اہل قم نے دعبل سے اس قمیص کو 30 ہزار درہم میں فروخت کرنے کی درخواست کی؛ لیکن دعبل نے اسے قبول نہیں کیا اور صرف اس کا ایک آستین ان کو دے دیا اور باقی ماندہ حصے کو اپنے کفن میں رکھنے کی وصیت کی۔[21] بعض تاریخی شواہد کے مطابق شیعوں نے امام کی طرف سے دئے گئے ہر سکے کو دعبل سے اس کے دس برابر قیمت پر خرید لیا۔[22]
شروحات
مختلف افراد نے تائیہ دعبل کی شروحات تحریر کی ہیں۔[23] منجملہ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- «شرح و ترجمہ قصیدہ تائیہ دعبل»: یہ کتاب فارسی زبان میں علامہ مجلسی کی تألیف ہے۔ محمد لطف زادہ نے اس کتاب کی تصحیح اور انتشارات دارالمجتبی(ع) قم نے اسے شایع کیا ہے، یہ کتاب سنہ 1394ہجری شمسی کو 200 صفحات کے ساتھ منظر عام پر آ گئی ہے۔[24] سنہ 1359ہجری شمسی میں یہ کتاب ایک بار پھر علی محدث کی تصحیح کے ساتھ تہران سے شایع ہوئی ہے؛[25]
- «شرح قصیدۃ دعبل التائیۃ» تألیف: محمد بن محمد بن فسوی (علامہ مجلسی کا داماد): اس کتاب کو مؤسسہ اَلبلاغ بیروت نے سنہ 1436ھ کو 487 صفحات کے ساتھ منتشر کیا ہے؛[26]
- «شرح قصیدۃ دعبل» تحریر: سید نعمت اللہ جزایری۔[27]
حوالہ جات
- ↑ ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، 1415ھ، ج20، ص294۔
- ↑ سبحانی، اضواء علی عقائد الشیعۃ، 1421ھ، ص52۔
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج6، ص401۔
- ↑ ملاحظہ کریں: اربلی، کشف الغمہ، 1381ھ، ج2، ص318-327۔
- ↑ چوبین، دعبل شاعر امام رضا(ع)، 1377ہجری شمسی، ص228-229۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج29، ص244۔
- ↑ چوبین، دعبل شاعر امام رضا(ع)، 1377ہجری شمسی، ص228-229۔
- ↑ ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، 1415ھ، ج20، ص295۔
- ↑ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص512۔
- ↑ حموی، معجم الادباء، 1414ھ، ج3، ص1285۔
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج6، ص418۔
- ↑ شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص263۔
- ↑ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص497۔
- ↑ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص497۔
- ↑ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص497۔
- ↑ شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص263-264۔
- ↑ شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص264۔
- ↑ شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص265-266۔
- ↑ شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص264؛ ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، 1415ھ، ج20، ص294۔
- ↑ شیخ طوسی، امالی، 1414ھ، ص359۔
- ↑ ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، 1415ھ، ج20، ص294۔
- ↑ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص497۔
- ↑ حمر، «مقدمہ»، در شرح قصیدۃ دعبل التائیۃ، 1436ھ، ص8؛ لطفزادہ، «مقدمہ»، در کتاب شرح و ترجمہ قصیدہ تائیہ دعبل، 1394ہجری شمسی، ص16-18۔
- ↑ مجلسی، شرح و ترجمہ قصیدہ تائیہ دعبل، تصحیح: محمد لطفزادہ، 1394ہجری شمسی، شناسنامہ کتاب۔
- ↑ مجلسی، شرح تائیہ دعبل خزاعی، تصحیح علی محدث، 1359ہجری شمسی، شناسنامہ کتاب۔
- ↑ فسوی، شرح قصیدۃ دعبل التائیۃ، 1436ھ، شناسہ کتاب۔
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج14، ص12۔
مآخذ
- آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، قم، اسماعیلیان، 1408ھ۔
- ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، الأغانی، بیروت، دار الحیاء التراث العربی، 1415ھ۔
- امین، سید محسن، اَعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
- امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الأدب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، 1416ھ۔
- اِربِلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، تبریز، بنیہاشمی، 1381ھ۔
- چوبین، حسین، دعبل شاعر امام رضا(ع)، دزفول، مرکز انتشارات علمی دانشگاہ آزاد اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
- حاجی مشہدی، عزیزاللہ، قصیدہ تائیہ دعبل خزاعی، تہران، بعثت، 1363ہجری شمسی۔
- حموی، یاقوت، معجم الادباء ارشاد الاریب الی معرفۃ الادیب، بیروت، دار الغرب الاسلامی، 1414ھ۔
- حُمْر، عبداللہ، «مقدمہ»، در شرح قصیدۃ دعبل التائیۃ، تألیف محمد بن محمد فسوی، بیروت، مؤسسۃ البلاغ، 1436ھ۔
- زوارہای، علی بن حسین، شرح و ترجمہ کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمہ، تہران، اسلامیہ، 1382ہجری شمسی۔
- سبحانی، جعفر، اضواء علی عقائد الشیعۃ الإمامیۃ و تاریخہم، قم، مشعر، 1421ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا(ع)، تہران، نشر جہان، 1378ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، قم، دار الثقافہ، 1414ھ۔
- فسوی، محمد بن محمد، شرح قصیدۃ دعبل التائیۃ، تحقیق عبداللہ حُمْر، بیروت، مؤسسۃ البلاغ، 1436ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بِحارُ الأنوارُ الجامِعَۃُ لدُرَر اَخبارِ الأئمۃِ الأطہار، بیروت، دار اِحیاء التراث العربی، 1403ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، شرح و ترجمہ قصیدہ تائیہ دعبل، قم، دار المجتبی(ع)، 1394ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدتقی، شرح تائیہ دعبل خزاعی، تصحیح علی محدث، تہران، بینا، 1359ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدتقی، شرح و ترجمہ قصیدہ تائیہ دعبل، تصحیح: محمد لطفزادہ، قم، دار المجتبی(ع)، 1394ہجری شمسی۔