بُرَید بن مُعاویہ عِجْلی (متوفی تقریبا 148 ھ) امام باقر (ع) و امام صادق (ع) کے صحابی اور دوسری صدی کے شیعہ فقہا میں سے ہیں۔ ان سے منقول روایات کی تعداد 206 ہے۔ امام باقر اور امام صادق علیہما السلام سے ان کی مدح میں روایات بھی منقول ہیں۔

برید بن معاویہ
کوائف
نام:برید بن معاویہ عجلی
لقب:افقہ الاولین
وفاتسنہ 148 یا 150 ھ (تقریبا)
اصحابامام باقر و امام صادق علیہما السلام
سماجی خدماتاصحاب اجماع، شیعہ راوی، شیعہ فقیہ

نام و کنیت

ابن حجر عسقلانی نے ان کا نام حاتم اور کنیت‌ ابو القاسم لکھی ہے [1] پیدائش کا سال معلوم نہیں ہے۔

منزلت

وہ امام باقر (ع) اور امام صادق (ع) کے برجستہ اور معتمد اصحاب میں تھے۔[2] کشّی کے بقول وہ اپنے زمانے کے چھ نامی گرامی فقہا میں سے تھے کہ جن کا تبلیغ تشیع میں نہایت مؤثر کردار رہا ان چھ فقہا کو افقہ الاوّلین کہا جاتا تھا[3] طبقۂ اول کے اصحاب اجماع میں سے بھی شمار ہوتے تھے۔

ابن غَضائری نے انکی اس کتاب کو دیکھا تھا کہ جسے علی بن عُقْبہ نے روایت کیا تھا۔ [4] برید امام باقر (ع) اور امام صادق (ع) سے کسی واسطے کے بغیر اور کبھی محمد بن مسلم کے واسطے سے روایات نقل کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے محدثین نے ان سے روایت نقل کی ہے 206 روایتیں کتب شیعہ میں ان سے منقول ہیں۔[5]

اصحاب اجماع

اصحاب امام باقرؑ
1. زُرارَۃ بن اَعین
2. مَعروفِ بنِ خَرَّبوذ
3. بُرَید بن معاویہ
4. ابوبصیر اَسَدی یا (ابوبصیر مرادی)
5. فُضَیل بن یسار
6. محمد بن مُسلِم

اصحاب امام صادقؑ
1. جَمیل بن دَرّاج
2. عبداللہ بن مُسکان
3. عبداللہ بن بُکَیر
4. حَمّاد بن عثمان
5. حماد بن عیسی
6. اَبان بن عثمان

اصحاب امام کاظمؑ و امام رضاؑ
1. یونس بن عبد الرحمن
2. صَفوان بن یحیی
3. اِبن اَبی عُمَیر
4. عبداللہ بن مُغَیرِہ
5. حسن بن محبوب یا (حسن بن علی بن فَضّال، فَضالَۃ بن ایوب و عثمان بن عیسی)
6. احمد بن ابی نصر بزنطی


نگاہ ائمہ (ع) میں مقام و منزلت

امام صادق (ع) و امام کاظم (ع) سے انکی مدح میں برید اور دیگر چند افراد سے روایات نقل ہوئی ہیں کہ جن انہیں آثار نبوت کو زندہ کرنے والے، محافظ دین، اُمَنائے خداوند بر حلال و حرام پر امنائے خداوند،[6] امام صادق (ع) کے نزدیک محبوب ترین، بہشت کی بشارت پانے والے اور امام باقر و امام صادق کے حواریوں جیسی تعبریں ان کے لئے آئی ہیں۔[7]ابن حجرعسقلانی نے بھی ائمہ شیعہ (ع) کے نزدیک انکی منزلت کو بیان کیا ہے۔[8]

مذمت

کشّی نے ان کی مذمت میں تین روایتیں نقل کی ہیں۔ جن کا جواب رجال کے علما نے دیا ہے اور ان روایات کو قبول نہیں کیا ہے؛ کیونکہ ان کی اسناد میں غیر موثق راویوں کے ساتھ ساتھ ان میں تقیہ کی علامات پائی جاتی ہیں۔ تنقیح المقال، اعیان الشیعہ اور معجم رجال الحدیث کے مؤلفین نے ان روایات کے متعلق تفصیل سے بحث کی ہے۔[9]

وفات

نجاشّی نے برید کی تاریخ وفات امام صادق (ع) کی زندگی میں یعنی سنہ 148 ھ سے قبل لکھی ہے [10] بعض ان کی وفات کا سال 150 ھ سمجھتے ہیں۔[11]

حوالہ جات

  1. ابن حجر عسقلانی، ج ۲، ص ۱۰.
  2. شیخ طوسی، ص ۱۲۸ و ۱۷۱.
  3. کشّی، ص ۲۳۳ ؛ نوری، ج ۳، ص ۷۵۷.
  4. خوئی، ج ۳، ص ۲۸۵.
  5. خوئی، ج ۳، ص ۲۹۰.
  6. کشّی، ص ۱۳۷.
  7. علامہ حلّی، ص ۲۶ ـ ۲۷؛ امین، ج ۳، ص ۵۵۸.
  8. ابن حجر عسقلانی، ج ۲، ص ۱۰.
  9. مامقانی، تنقیح المقال ۱، ص ۱۶۶؛ خوئی، معجم رجال الحدیث ج ۳، ص ۲۸۸ ـ ۲۹۰؛ امین، اعیان الشیعہ ج ۳، ص ۵۵۹.
  10. تستری، ج ۲، ص ۲۸۱.
  11. تستری، ج ۲، ص ۲۸۲؛ نجاشی، ص ۱۱۲؛ علامہ حلّی، ص ۲۷.

مآخذ

  • ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، بیروت، ۱۳۹۰ق.
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، چاپ حسن امین، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • تستری، محمد تقی، قاموس الرجال، قم، ۱۴۱۰ق.
  • خوئی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • شیخ طوسی، رجال الطوسی، نجف، ۱۳۸۰ق.
  • علامہ حلّی، رجال العلامہ الحلّی، چاپ محمد صادق بحر العلوم، نجف، ۱۳۸۱ق.
  • کشّی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، (تلخیص) محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ش.
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، چاپ سنگی، نجف، ۱۳۵۲ق.
  • نجاشی، احمد بن علی، فہرست اسماء مصنفّی الشیعہ المشتہر برجال النجاشی، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم، ۱۴۰۷ق.
  • نوری، حسین، مستدرک الوسائل، چاپ محمد رضا نوری نجفی، تہران، ۱۳۲۱ش.

بیرونی روابط