سکینہ بنت امام حسین

ویکی شیعہ سے
(سکینہ بنت امام حسینؑ سے رجوع مکرر)
سکینہ بنت الحسینؑ
نامسکینہ بنت امام حسینؑ
وجہ شہرتامام حسینؑ کی بیٹی
وفات117 ھ
مدفنسیریا، قبرستان باب الصغیر
سکونتمدینہ
والدامام حسینؑ
والدہرباب
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


سکینہ بنت الحسین واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور والد کی شہادت کے بعد اسراء کربلا کے ساتھ آپ کوفہ اور شام اسیر بنا کر لے جائی گئیں۔ آپ نے اپنے والد سے روایت بھی نقل کی ہے۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق سکینہ بعض عرب شاعروں کے اشعار کی اصلاح کرتی تھیں اور حضرت امام حسینؑ کے لئے بعض مرثیے بھی آپ نے پڑھے ہیں۔

آپ کی شادی اور جہاں وفات پائی ہیں اس جگہ کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپ کی جائے دفن کو مدینہ، مصر اور دمشق لکھا گیا ہے۔ اسی طرح بعض شیعہ فقہاء نے آپ کی مصعب بن زبیر سے شادی کو دلیل بنا کر شیعہ عورتوں کا دیگر مسلمانوں سے شادی کرنا جائز قرار دیا ہے۔ بعض منابع میں غزل خوانی اور شاعری کی نسبت آپ کی طرف دی ہے البتہ ایسی نسبت کو جعلی اور دشمن اہل بیت کی طرف سے لگائی گئی الزام قرار دیا ہے اور اسی طرح سے آپ اور سکینہ بنت خالد کے درمیان اشتباہ کو ایسے الزام کا باعث قرار دیا ہے۔

حالاتِ زندگی

سکینہ بنت امام حسینؑ، رباب بنت امرؤ القیس سے تھی۔[1] آپ کا نام آمنہ، امینہ اور امیمہ ذکر ہوا ہے اور کہا گیا ہے کہ سکون، آرامی اور وقار کی مالک تھی اس لئے ماں نے انہیں سکینہ کا لقب دیا تھا۔[2] تاریخی کتابوں میں آپ کی تاریخ ولادت معین نہیں ہے لیکن انہیں اپنی بہن فاطمہ سے چھوٹی ہونے کا کہا گیا ہے۔[3] تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جب امام حسینؑ نے کربلا یک جانب حرکت کی تو آپ بالغ اور شادی کے عمر میں تھیں کیونکہ اس سے پہلے حسن مثنی نے امام حسینؑ کی ایک بیٹی کا رشتہ مانگا اور امام نے اسے سکینہ اور فاطمہ میں سے ایک کو انتخاب کرنے کا اختیار دیا تھا۔[4]

امام حسین (ع) سکینہ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے بعض مآخذ میں ان کی اس محبت کی عکاسی کرتے ہوئے منقول ہے کہ امامؑ نے حضرت سکینہ کی محبت میں درج ذیل اشعار کہے ہیں:

لعمرک انّنی لاُحبّ داراًتکون بها سکینه و الرّباب
أحبّهما و أبذل جلّ مالیو لیس لعاتب عندی عتاب
ترجمہ: تمہاری جان کی قسم! میں اس گھر کو زیادہ چاہتا ہوں جسمیں سکینہ اور رباب ہوں، ان دونوں کو چاہتا ہوں اور اپنے مال کو اس راستے پر خرچ کرتا ہوں اور کوئی اس میں میری سرزنش نہیں کرسکتا ہے۔[5]

ازدواج

محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


آپ کی شادی کے بارے میں بھی مورخین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ امام حسینؑ نے آپ کی شادی آپ کے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن حسن سے کی لیکن؛[6] لیکن شیخ مفید نے عبد اللہ بن حسن کو واقعہ کربلا میں ایک نابالغ اور شادی کی عمر تک نہ پہنچا ہوا بچہ کے طور پر بیان کیا ہے۔[7]

جبکہ بعض مآخذ سکینہ کے شوہر کا نام ابو بکر (عبد اللہ) بن حسن لکھتے ہیں۔ اور انہی منابع کے مطابق گویا ابوبکر، عبداللہ بن حسن کی کنیت تھی۔[8] بعض کا کہنا ہے کہ سکینہ کی شادی عبد اللہ بن حسن سے ہوئی لیکن شب زفاف سے پہلے ہی عبد اللہ بن حسن کربلا میں شہید ہو گئے۔[9] ریاحین الشریعہ میں آپ کا شوہر عبداللہ بن مسلم بن عقیل لکھا گیا ہے۔[10]

بعض مآخذ میں مصعب بن زبیر کا نام ذکر ہوا ہے۔[11] کتاب الطبقات الکبری و الاعلام میں آیا ہے کہ مصعب قتل ہونے کے بعد سکینہ نے عبداللہ بن عثمان سے شادی کی اور عبداللہ مرنے کے بعد زید بن عمر بن عثمان بن عفان نے ان سے شادی کی۔ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ سکینہ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں اصبغ بن عبدالعزیز سے شادی کی ہے۔[12] بعض شیعہ فقہاء نے سکینہ کی مصعب سے شادی یہ استفادہ کیا ہے کہ شیعہ لڑکی غیر شیعہ مسلمانوں سے شادی کر سکتی ہیں۔[13]

اہل سنت کی کتابوں میں سکینہ سے جو بہت ساری شادیوں کی نسبت دی ہے انہیں بعض مورخین نے رد کیا ہے؛ کیونکہ ان میں سے بعض ایسے افراد کے نام ذکر ہوئے ہیں جو اہل بیت کے دشمن تھے اور ایسے شخص سے سکینہ کا شادی کرنا بعید ہے۔ ان کتابوں میں آیا ہے کہ سکینہ نے عبداللہ بن حسن سے شادی کے بعد کسی اور سے شادی نہیں کی ہے۔[14] اسی طرح سکینہ کی متعدد شادیوں کے بارے میں کہا ہے کہ صدرِ اسلام میں یہ رسم تھی کہ شوہر مرنے کے بعد عورتیں بغیر شوہر کے نہیں رہتی تھیں اور دوبارہ سے شادی کرنا ایک فطری اور عام سی بات تھی۔[15] بعض نے سکینہ کا حسب ونسب اور سماجی حیثیت کو متعدد شادیوں کی علت قرار دیا ہے۔[16] اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ امام حسینؑ کی بیٹیوں کے شوہر وفات ہونے کے بعد بنی امیہ کے حکمران ان کا رشتہ مانگتے تھے اور دشمنِ اہل بیت کا رشتہ ٹھکرانے کے لئے کسی اور سے شادی کرتی تھیں۔[17]

کربلا میں موجودگی

مقاتل کی کتابوں کے مطابق سکینہ واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور انہی منابع کے مطابق روز عاشورا، امام حسین (ع) میدان جنگ سے آخری مرتبہ خدا حافظی کیلئے آئے اور ان سے وداع کیا پھر سکینہ کے پاس گئے جو خیمہ کے ایک کونے میں گریہ کر رہی تھیں آپ نے ان سے صبر کرنے کو کہا اور گود میں لیا ان کی آنکھوں سے آنسوں صاف کئے اور یہ اشعار پڑھے:

سیطول بعدی یا سکینة فاعلمیمنک البکاء اذا الحمام دهانی
لا تحرقی قلبی بدمعک حسرةمادام منی الروح فی جثمانی
فاذا قتلت فانت اولی بالذیتبکینه یا خیرة النسوان
ترجمہ: اے سکینہ! جان لو کہ میرے بعد تمہارا گریہ زیادہ طولانی ہوگا۔ پس جب تک تمہارے باپ کے جسم میں جان ہے اپنی ان حسرت بھری آنکھوں کے آنسؤں سے ان کا دل مت جلاؤ۔ اے خیر النساء! میرے مرنے کے بعد اب رونا تمہارے لئے شایستہ ہے۔[18]

اسیری کے ایام

واقعۂ عاشورا کے بعد حضرت سکینہ بھی دیگر اسرائے آل محمد کے ساتھ اسیر ہو کر کربلا سے کوفہ اور شام گئیں۔ صحابی پیغمبر اسلامؐ سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہوئی ہے کہ جب اسراء شام میں باب الساعات پر پہنچا تو ایک بچی کو دیکھا جو بے کجاوہ اونٹ پر سوار تھی؛ اس نے اپنے کو سکینہ بنت الحسین سے معرفی کیا اور مجھے کسی خاندان رسالت کی حرمت کی پاسداری کے لیے کچھ کروں تاکہ شہدائے کربلا کے سروں کو نیزوں پر اٹھائے ہوئے نیزہ بردار، اسراء سے کچھ دور جائیں۔ سہل کہتا ہے کہ میں نے کچھ دینار دیکر ان کو کچھ دور کیا۔[19] بعض منابع میں سکینہ سے دمشق ایک خواب نقل ہوا ہے کہ جس میں پیغمبر اکرمؐ بعض دیگر انبیاءؑ کے ہمراہ اور فاطمہ زہراؑ کچھ بہشتی خواتین کے ہمراہ امام حسینؑ کا خونی قمیص ہاتھ میں لئے ہوئے کربلا جا رہے ہیں۔[20]

سماجی، علمی اور معنوی خصوصیات

حضرت سکینہ کو اپنے زمانے کی سب سے نیک، عاقل، خوبصورت، متقی، عقلمند، خوش اخلاق اور بزرگ خاتون شمار کی جاتی ہے۔[21] فضل و کمال میں اس حد تک پہنچی ہوئیں تھیں کہ امام حسینؑ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا وہ اکثر ذات حق میں غرق رہتی ہے [22]
سکینہ کی سخاوت کا بھی بعض تاریخی کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے بھائی علی ابن الحسینؑ کے حج کے پورے اخراجات آپ نے دیئے۔[23]
احادیث اور رجال کی کتابوں میں انہیں موثق راوی کے طور پر جانا گیا ہے، کوفہ والے آپ سے روایت نقل کرتے تھے۔[24] سکینہ اور ان کی بہن فاطمہ دونوں ان کے والد گرامی امام حسینؑ سے روایت نقل کرنے والے راویوں میں سے شمار ہوتی ہیں۔[25] اور عبیداللہ بن ابی‌ارفع، فائد مدنی، سکینہ دختر اسماعیل بن ابی‌ خالد اور سکینہ دختر قاضی ابی‌ذر نے آپ سے روایت نقل کی ہیں۔[26]
اسی طرح عربی ادب اور اشعار پر بھی آپ کو کمال کا عبور حاصل تھا اور گزارشات میں آیا ہے کہ آپ نے واقعہ کربلا کو شعر کے قابل میں اور امام حسینؑ کے بارے میں مرثیے آپ کے مشہور ہیں اور مندرجہ ذیل اشعار بھی انہی اشعار میں سے ہیں:

لا تعذلیه فهم قاطع طرقهفغینه بدموع ذرف غدفه
ان الحسین غداة الطف یرشقهریب المنون فما ان یخطی الحدقه
بکف شر عبادالله کلهمنسل البغایا و جیش المرق الفسقه
یا امة السوء هاتوا ما احتجاجکمغذا و جلکم بالسیف قد صفقه
ترجمہ: جو راستے سے بھٹک گیا ہے اس کی مذمت نہ کرنا، کیونکہ آنکھوں سے اشک بہت جاری ہوتے ہیں۔ عاشورا کے دن ایک تیر امام حسینؑ کی جانب چلا جو کبھی خطا نہ کر جاتا اور امام سجادؑ کی انکھوں سے کبھی دور نہیں ہوتا۔ یہ کام ان لوگوں کے ہاتھوں انجام پایا جو بدترین لوگ، حرام زادے اور دین سے خارج تھے۔ اے بدترین لوگ قیامت میں دلیل قائم کرو جبکہ تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں کیونکہ تم سب نے تلوار سے اس قتل کیا ہے۔[27]

عربی ادب پر آپ کو اتنا تسلط حاصل تھا کہ عربی معروف شاعر فرزدق، جریر، کثیر، نصیب اور جمیل اپنے اشعار کو پرکھنے کے لیے آپ کے پاس لے آتے تھے تاکہ اصلاح ہوسکے۔[28]
بعض اہل سنت کی کتابوں میں سکینہ بن الحسینؑ کے بارے میں کچھ ایسی باتیں نسب دی گئی ہیں کہ دوسری طرف کے مورخین انہیں رد کرتے ہیں۔ ابوالفرج اصفہانی کہتا ہے کہ سکینہ غزل اور اشعار پڑھتی تھی۔[29]
ابوالفرج اصفہانی نے ان ناروا نسبتوں کو زبیر بن بکار کے توسط سے نقل کیا ہے جو بنی ہاشم سے دشمنی میں مشہور تھا۔[30] اسی طرح اس روایت کی سلسلہ سند میں عم سخت عداوت رکھتا تھا۔ نقل ہوا ہے کہ متوکل کے زمانے میں جب لوگوں نے اہل بیت سے متعلق اس طرح کی جھوٹی حکایتیں منسور کرنے والے کو قتل کرنا چاہا تو وہ مکہ سے فرار ہو کر بغداد میں سکونت اختیار کر لی۔ اس کے علاوہ ان روایات کے سلسلۂ سند میں عمر بن ابی بکر مؤملی بھی موجود ہے جو روایات نقل کرنے میں اس حد تک ضعیف ہے کہ بعض اہل سنت علما بھی اسکی روایات قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔[31] یہاں تک کہ اسے فتنوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔[32]

اس کے علاوہ آپ کی طرف نسبت دیئے جانے والے بہت سے اشعار حقیقت میں سکینہ بنت خالد بن مصعب زبیری کے ہیں۔ جس کی عمر بن ابی ربیعہ سے ملاقاتیں اور بلوائے عام میں شعر و شاعری کا چرچا مشہور و معروف ہے۔ یوں صرف نام ایک جیسا ہونے کی وجہ سے بعض نے غلطی یا جان بوجھ کر بہت سے اشعار آپ کی جانب منسوب کر دیئے گئے ہیں حالانکہ وہ حقیقت میں سکینہ بنت خالد بن مصعب زبیری کے تھے۔ اسی طرح بہت سارے عمومی اجتماعات جن کی نسبت آپ کی طرف دی گئی ہیں وہ بھی حقیقت میں مصعب بن زبیر کی بیوی عائشہ بنت طلحہ بن عبید اللہ کی سرپرستی میں برقرار ہوتی تھیں جو عمر بن ربیعہ کے ہمراہ شعر و شاعری اور غزل سرائی میں شہرت رکھتی تھی۔[33]

وفات

آپ اسراء کے کاروان کے ساتھ مدینے لوٹ آئی اور وفات تک مدینے میں رہی، تاریخی منابع میں اس بارے کوئی خاص بات ذکر نہیں صرف بعض علمی مناظروں کا ذکر آیا ہے۔[34] آپ کی وفات اور مقام وفات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض منابع کے مطابق 5 ربیع الاول 117 ھ کو مدینہ میں وفات پائی۔[35] بعض منابع کے مطابق خالد بن عبد اللہ (وقت کے حاکم) نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔[36] اور بعض نے کہا ہے کہ اصبغ بن عبد العزیز سے شادی کے بعد مصر جاتے ہوئے دمشق میں فوت ہوئیں[37] اس لحاظ سے باب الصغیر نامی قبرستان میں ایک قبر سکینہ کے نام سے منسوب ہے [38]۔ لیکن بعض نے کہا ہے کہ اصبغ بن عبدالعزیز سے شادی کر کے مصر گئی اور وہاں پر مدفون ہیں اور قاہرہ میں ایک مزار سکینہ بنت الحسین کے نام سے منسوب ہے۔[39]

مونوگراف

آپ کے بارے میں مختلف زبانوں میں مختلف کتابوں میں مطالب لکھے گئے ہیں اور مستقل کتاب کی شکل میں عربی زیان میں «سکینہ بنت الامام‌الحسین (ع)» بقلم علی محمد علی دخیل، انتشارات موسسہ اہل‌ البیت (ع) سے 1979ء کو بیروت لبنان سے چھپی۔ اور اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے 1363 ش میں طبع ہوئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۱۹۲؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۹۶۵م، ج۴، ص۹۴.
  2. ابن خلکان، وفیات الاعیان، ۱۳۶۴ش، ج۲، ص۳۹۷؛ ابن جوزی، المنتظم، ۱۹۹۲م، ج۷، ص۱۷۵؛ اصفہانی، الاغانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۶، ص۳۶۰.
  3. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۶۴؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۹۶۵م، ج۴، ص۸۶.
  4. اصفہانی، الاغانی، ۱۴۱۵ق، ج۲۱، ص۷۹؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۳۸۰ش، ص۳۶۶؛ ابن عنبہ، عمدة الطالب، ۱۴۱۷ق، ص۹۰؛ ابن صباغ، الفصول المہمہ، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۷۵۱.
  5. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۱۱ ص۵۲۰؛ اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۹۴
  6. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۹۵؛ اصفہانی، الاغانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۶، ص۳۶۶.
  7. مفید، الارشاد، ۱۳۸۰ش، ص۴۶۵
  8. ابن صوفی، المجدی فی انساب الطالبیین، ۱۴۲۲ق، ص۲۰۱؛ ابن حزم، جمہرة انساب العرب، ۱۹۸۳م، ص۱۰۵.
  9. مغربی، شرح الاخبار، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص ۱۸۰-۱۸۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۶۹، ص۲۰۵؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ج۱، ص۴۱۸.
  10. محلاتی، ریاحین‌ الشریعة، ۱۳۷۰ش، ج۴، ص۲۵۵.
  11. قمی، تاریخ قم، ۱۳۶۱ش، ص۱۹۶.
  12. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۳۴۷؛ زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۳، ص۱۰۶.
  13. خوانساری، جامع المدارک، ۱۴۰۵ق، ج۴، ص۲۵۹؛ روحانی، فقہ الصادق، ۱۴۱۲ق، ج۲۱، ص۴۷۷.
  14. حلو، عقیلہ قریش آمنہ بنت الحسین الملقبہ بسکینہ، ۱۳۸۲ش، ص۱۴۵.
  15. ذاکری، «سکینہ دختر امام حسین (ع) بانوی ادب و شجاعت»، ۱۳۸۸ش.
  16. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۲، ص۹۲؛ قمی، منتہی الامال، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۳۱.
  17. ابن اثیر، الکامل، ۱۹۶۵م، ج۵، ص۱۱۳؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۷۷م، ج۲، ص۴۷.
  18. سید بن طاوس، اللہوف، ۱۳۸۰ش، ص۱۳۴؛ بحرانی، العوالم الامام الحسین، ۱۴۰۷ق، ص۳۰۳.
  19. خوارزمی، مقتل الحسین علیہ السلام، ۱۴۱۸ق، ص۶۰- ۶۱؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۱۲۷-۱۲۸؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۱۶۶؛ بحرانی، العوالم الامام الحسین، ۱۴۰۷ق، ص۳۹۵.
  20. ابن نما حلی، مثیر الاحزان، ۱۴۰۶ق، ص۱۰۵-۱۰۶.
  21. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۳، ص۱۰۶؛ ابن خلکان، وفیات الاعیان، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۳۹۴؛ صفدی، الوافی بالوفیات، ۲۰۰۰م، ص۱۸۲؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۲۰ق، ج۱۱، ص۲۵۷.
  22. المقرم، مقتل الحسین علیہ السلام، ۱۹۷۹م، ص۳۴۹.
  23. صفدی، الوافی بالوفیات، ۲۰۰۰م، ج۱۵، ص۱۸۳.
  24. ابن حبان، الثقات، ج۴، ص۳۵۲.
  25. طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۱۳۲؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ۱۴۱۵ق، ص۲۰۶
  26. طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۱۳۲؛ ابن ماکولا، الاکمال، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۳۱۶؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۶۹ ص۲۰۶-۲۰۷.
  27. ابن صوفی، المجدی فی انساب الطالبیین، ۱۴۲۲ق، ص۵۸۲-۵۸۳؛ شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ق، ج۲۷، ص۴۹۲.
  28. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۷، ص۱۷۸.
  29. اصفہانی، الاغانی، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۵۷۰، ۵۷۷-۵۷۸؛ ج۱۶، ص۳۷۴-۳۷۵، ۳۷۹-۳۸۰.
  30. الحلو، عقیلہ قریش آمنہ بنت الحسین الملقبہ بسکینہ، ۱۳۸۲ش، ص۵۳-۵۵.
  31. ابن حجر، تہذیب التہذیب9/102۔ابن عساکر، تاریخ دمشق،42/552
  32. ابن عساکر تاریخ دمشق42/552
  33. ابو الفرج اصفہانی، الاغانی،1 صص281.282.
  34. اصفہانی، الاغانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۶، ص۳۶۲.
  35. ابن عساکر، ایضا، ج۶۹، ص۲۱۸ و ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۲، ص۳۹۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۷۴م ج۲، ص۱۹۷؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۷، ص۱۰۷.
  36. ابن سعد، ایضا ص۳۴۷ و ابن عساکر، ایضا ص۲۱۷
  37. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۶۹، ص۴۲۱
  38. اہل بیت فی مصر، ص۲۱۶
  39. خسرو شاہی، اہل البیت فی مصر، ۱۴۲۷ق، ص۲۱۶

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر-دار، بیروت، ۱۹۶۵ء
  • ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ
  • ابن صباغ، الفصول المہمہ فی معرفۃ الائمہ، تحقیق سامی الغریری،‌ قم، دار الحدیث، ۱۴۲۲ھ
  • ابن حبان، محمد، الثقات، حیدرآباد، چاپخانہ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، ۱۹۷۳ء
  • ابن حزم، جمہرۃ انساب العرب، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۹۸۳ء
  • ابن خلکان، احمد بن محمد، وفیات الاعیان و أنباء أبناء الزمان، تحقیق احسان عباس، قم، الشریف الرضی، ۱۳۶۴ش.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۹۹۰ء
  • ابن شہر آشوب، مناقب آل ابیطالب، قم، انتشارات علامہ، ۱۳۷۶ھ
  • ابن صوفی نسابہ، علی بن محمد، المجدی فی انساب الطالبیین، قم، کتابخانہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۹ھ
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵ھ
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دارالفکر، ۱۹۸۶ء
  • ابن ماکولا، سعد الملک، الإكمال في رفع الارتياب عن المؤتلف والمختلف في الأسماء والكنى والأنساب، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ھ
  • ابن نما حلی، جعفر بن محمد، مثیر الاحزان، قم، مدرسہ امام مہدی، ۱۴۰۶ھ
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، بیروت، دارالفکر للطباعۃ و النشر، ۱۴۰۴ھ
  • ابوالفرج اصفہانی الاصفہانی، علی بن الحسین، الاغانی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۱۵ھ
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت، دارالمعرفہ، ۱۴۱۹ھ
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، تحقیق حسن امین، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، ۱۴۲۰.
  • بحرانی، عبداللہ، العوالم الامام الحسین(ع)، تحقیق مدرسہ الامام المہدی(عج)، قم، مدرسہ الامام المہدی(عج)، ۱۴۰۷ھ
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق محمد باقر محمودی، بیروت، دارالتعارف، چاپ اول، ۱۹۷۷ء
  • شوشتری، قاضی نوراللہ، احقاق الحق و ازہاق الباطل، قم، کتابخانہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۹ھ
  • حسنی، ابن عنبہ، عمدۃ الطالب فی انساب آل ابیطالب، قم، انصاریان، ۱۴۱۷ھ
  • حلو، محمد علی السید یحیی، عقیلہ قریش آمنہ بنت الحسین الملقبہ بسکینہ، قم، مؤسسہ السبطین العالمیہ، ۱۳۸۲ش.
  • خسروشاہی، سیدہادی، اہل البیت فی مصر، تہران، مجمع جہانی تقریب مذاہب، ۱۴۲۷ھ
  • خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین(ع)، تحقیق محمد سماوی، قم، انوارالمہدی، ۱۴۲۳ھ
  • خوانساری، سیداحمد، جامع المدارك في شرح مختصر النافع‌، مصحح على اكبر غفارى‌، قم، اسماعیلیان، ۱۴۰۵ھ
  • ذاکری، علی اکبر، «سکینہ دختر امام حسین بانوب ادب و شجاعت»، مجلہ پیام زن، شمارہ ۲۰۹، ۱۳۸۸ش.
  • روحانی، سید صادق، فقہ الصادق، قم، دارالکتاب، ۱۴۱۲ھ
  • زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت، دار العلم للملابین، ۱۹۸۹ء
  • سید بن طاوس، سید الرضی الدین، اللہوف على قتلى الطفوف، تہران، جہان، ۱۳۴۸ش.
  • صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، ۱۳۷۶ش.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، تہران، انتشارات اسلامیہ، ۱۳۸۰ش.
  • صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی بالوفیات، تحقیق احمد ارنؤوط و ترکی مصطفی، بیروت، داراحیاء التراث، ۲۰۰۰ء
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق: حمدي بن عبد المجيد، قاہرہ،‌ مكتبۃ ابن تيميۃ، ۱۴۱۵ھ
  • طبرسی، اعلام الوری بأعلام الہدی، تہران، اسلامیہ، ۱۳۹۰ھ
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، ۱۹۶۷ء
  • فتال نیشابوری، محمد بن حسن، روضۃ الواعظین، قم، دلیل ما، ۱۳۸۱ش.
  • قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودہ لذوی القربی، تحقیق سید علی جمال اشرف حسینی، قم، اسوہ، ۱۴۱ھ
  • قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، تہران، توس، ۱۳۶۱ش.
  • قمی، عباس، منتہی الامال، تہران، نقش نگین، ۱۴۰۸ھ
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت، دار إحياء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ
  • محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعۃ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۳۷۳ش.
  • مغربی، قاضی نعمان، شرح الاخبار، تحقیق محمد حسینی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۴ھ
  • موسوی المقرم، عبد الرزاق، مقتل الحسین(ع)، بیروت، دارالکتاب الاسلامیہ، ۱۹۷۹ء