آیت صادقین

غیر معتبر مآخذ سے کاپی شدہ
جانبدار
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(آیہ صادقین سے رجوع مکرر)
آیت صادقین
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامصادقین
سورہتوبہ
آیت نمبر119
پارہ11
صفحہ نمبر206
موضوععقائد
مضمونامامت کے دلائل، اہل بیتؑ


آيت صادقِين، سورہ توبہ کی آیت نمبر ۱۱۹ ہے جس میں مؤمنوں کو صادقین کے ساتھ رہنے اور ان کی پیروی کرنے کا حکم دیا جارہا ہے ۔ شیعہ اعتقادات کے مطابق صادقین سے مراد ائمہ اہل بیت(ع)‌ ہیں جو یقینی دلائل کے ساتھ معصوم ہیں۔

یہ آیت ائمہ اہل بیت(ع) کی امامت اور ولایت پر قرآنی دلائل میں سے ایک ہے۔[1]

آیت کا متن اور ترجمہ

يا أَيُّها الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقوا اللّه وَ كُونُوا مَعَ الصّادقين
ایمان والواللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔

صدق کے معنی

صادقین مادہ "ص-د-ق" سے لفظ "صادق" کا جمع ہے۔ لغوی اعتبار سے کسی حکم کا واقع کے مطابق ہونے کو صدق کہا جاتا ہے۔[2] اور کسی گفتاری کو جو واقع کے مطابق ہو، گفتار صادق کہا جاتا ہے۔ عقیدہ، نیت اور عزم و ارادے کو بھی قول کہا جاتا ہے، اس بنا پر یہ بھی صدق اور سچائی سے متصف ہوتے ہیں۔ پس جس کا عقیدہ واقع اور حقیقت کے مطابق ہو یعنی حق ہو یعنی اس کا ظاہر اور باطن ایک ہو وہ اپنے عقیدے میں صادق اور سچا ہے۔[3] زمخشری جو کہ اہل سنت مفسرین میں سے ہے کہتے ہیں: صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کے دین میں عقیدہ، گفتار اور رفتار کے لحاظ سے صادق اور سچے ہیں۔[4]

مصداق صادقین

صادقین کون ہیں اور انکی کیا خصوصیات ہیں؟ اس بارے میں مفسرین اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۷۷ میں مذکور صفات [5] پائے جاتے ہوں۔ [6] یا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی صفات سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 [7] میں مذکور ہیں؛ [8] یا ان سے مراد مہاجرین‌ ہیں جنہیں سورہ حشر کی آیت نمبر 8 میں صادقین کہا گیا ہے۔ [9]

بعض مفسرین ابن مسعود کی قرائت کی پیروی کرتی ہوئے جو اس آیت میں لفظ "مع‌" (ساتھ) کو "من" (میں سے) کے معنی میں لیتے ہیں یعنی مومنوں اور پرہیزگاروں کو صادقین اور سچوں میں سے ہونے چاہئے کا معنا لیتے ہیں۔ [10]

شیعہ - سنی احادیث میں آیا ہے کہ صادقین سے مراد حضرت علی(ع) یا علی اور آپ کے اصحاب یا علی و آپ کی اہل بیت [11] یا محمد(ص) اور آپ کی اہل بیت ہیں۔ [12] درحالیکہ شیعہ منابع میں موجود بہت ساری احادیث کے مطابق صادقین سے مراد ائمہ اہل بیت(ع) لیا گیا ہے۔[13]

شیخ صدوق نے امیر المومین حضرت علی(ع) سے نقل کیا ہے کہ:

«‌جب آیت صادقین نازل ہوا تو ایک شخص نے پیغمبر اکرم(ص) سے سوال کیا: آیا صادقین سے مراد عام ہے یا خاص؟ پیغمبر اکرم(ص) جواب دیا: جن لوگوں کو صادقین کے ساتھ هونے کا حکم دیا گیا هے وه عام هیں جس میں تمام مومنین شامل ہیں لیکن خود صادقین خاص ہیں اور یہ مختص ہے میرے بھائی علی اور اس کے بعد قیامت تک میرے جانشینوں کے ساتھ۔[14]

اہل‌ بیت‌ اطہار

شیعوں کے عقیدے میں مورد نظر آیت میں صادقین سے مراد پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومین(ع) ہیں۔ اور بعض احادیث میں صرف حضرت علی(ع) کا نام آنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ(ع) پیغمبر اکرم(ص) کے بعد پہلا معصوم ہے اس وجہ سے آپ کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا گیا ہے ورنہ اس حوالے سے آپ(ع) اور باقی ائمہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔

شیعہ دوسرے نظریات کا جواب یوں دیتے ہیں کہ اگرچہ قرآن میں صادقین کا لفظ بعض اوقات عام مومنین کیلئے بھی استعمال ہوا ہے لیکن مودر نظر آیت میں صادقین سے مراد یہ لوگ نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں صادقین سے مراد صرف اور صرف وہ لوگ ہیں جو صدق اور سچائی کے آخری اور کاملترین منزل پر فائز ہوں اور یہ مقام سوائے عصمت کے حامل افراد کے کوئی اور نہیں ہو سکتے ہیں اور قرآن کی رو سے عصمت صرف اور صرف اہل بیت کے ساتھ مختص ہیں لاغیر۔ عبداللّہ بن مسعود کی قرائت کے حامل نظریے کا جواب یہ ہے کہ درست ہے لفظ "مع" کبھی کبھار "من" کے معنی میں آتا ہے لیکن یہ ہمیشہ اور رائج عربی زبان کے قانون کے مطابق نہیں ہے بلکہ غیر قانونی طور پر بعض اوقات کسی خاص دلیل کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے اور اس مقام پر کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جس پر اعتماد کرکے ہم کہہ سکیں کہ "مع" "من" کے معنی میں آیا ہے۔ دوسری طرف سے خود یہ قرأت ایک رائج قرأت نہیں بلکہ شاذ ہے اس حوالے سے بھی یہ قابل اعتماد نہیں ہے۔[15]

شیعوں کے نظریے کی دلیل

شیعہ اپنے عقیدے پر جو دلیل لاتے ہیں وہ دو طرح کے ہیں:

  1. علامہ حلی، محقق طوسی کے آیت صادقین "وَکونُوا مَعَ الصّادِقین" کے بارے میں دی گئی توضیح کے متعلق کہ یہ آیت امام علی(ع) کی امامت پر دلیل ہے، کہتے ہیں:
"خداوند متعال صادقین‌ کے ساتھ ہونے اور ان کی پیروی کا حکم دیا ہے اور یہاں صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے صادق اور سچا ہوتا یقینی طور پر معلوم ہو اور وہ صرف اور صرف معصومین کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتے کیونکہ کسی غیر معصوم کی صداقت اور سچائی کے بارے میں یقین پیدا کرنا محال ہے دوسری طرف سے تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے اصحاب میں حضرت علی(ع) کے سوا کوئی معصوم نہیں ہے۔[16]
  1. فخر رازی اہل سنت کے مایہ ناز مفسرین میں سے ہے مورد بحث آیت کو صادقین کی عصمت پر دلیل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
"یا أیها الّذینَ آمنوا اتَّقُوا اللّه" کا جملہ مومنین کو تقوا اختیار کرنے کا حکم دیتی ہے اور ان سے صادقین کے ساتھ ہونے کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ مومنین معصوم نہیں ہیں اور خطا سے محفوظ رہنے کیلئے ضروری ہے ایسے افراد کی پیروی کریں جو خود خطا سے محفوظ ہو اور وہ صادقین ہیں۔ اور مومنین کا خطا پذیر ہونا ہر زمانے میں ہے اس بنا پر ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی معصوم کا ہونا ضروری ہے تاکہ مومنین ان کی پیروی کر سکیں۔"

فخر رازی مزید کہتا ہے:

"معصوم کی پیروی کرنا صرف اور صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ انسان معصوم کو پہچان لے ورنہ انسان کے اوپر معصوم کی پیروی کرنے کا حکم گویا ایسا ہے خدا نے انسان کے اوپر اس کی استطاعت سے باہر کوئی حکم لاگو کیا ہو کیونک جب ہم کسی خاص انسان کو بعنوان معصوم نہیں پہچانیں گے تو پوری امت صادقین کا مصداق بن جاتا ہے جن کی پیروی کرنا مومنین پر واجب ہے۔"[17]

فخر رازی کی یہ بات کہ صادقین‌ سے مراد معصوم‌ کے سوا کوئی اور نہیں درست ہے؛ لیکن اس کے مصداق کو امت کا اجماع قرار دینا درست نہیں ہے کیونکہ اولا جن مسائل میں پوری امت اجماع کرتے ہیں وہ بہت ہی کم ہیں اور یہ چیز احکام دینی پر عمل پیرا ہونے میں مسلمانوں کیلئے کافی نہیں ہے۔ ثانیا؛ اگر امت کے اجماع میں معصوم بھی شامل نہ ہو تو پھر بھی یہ احتمال موجود رہتا ہے کہ یہی اجماع بھی خطا ہو۔ ثالثا؛ بعض آیات جیسے آیت تطہیر اور روایات جیسے حدیث ثقلین، حدیث سفینہ وغیرہ کی طرف مراجعہ کرتے ہیں تو پیغمبر اکرم(ص) کی اہل بیت(ع) کا معصوم ہونا واضح اور آشکار ہے۔

جو چیز صادقین کے مصوم ہونے پر زیادہ تاکید کرتی ہے وہ یہ ہے کہ "کونوا مع الصادقین" میں صادقین کے ساتھ ہونے اور انکی پیروی کرنے کا حکم بغیر کسی قید و شرط کے آیا ہے جس سے دو نکتے ہماری سمجھ میں آتے ہیں: ایک یہ کہ صادقین ایسے لوگ ہیں جو اپنے عقیده، اخلاق، گفتار اور رفتار سب میں صادق‌ اور سچے ہیں ورنہ انکی مطلقا پیروی کا حکم نہیں دے سکتا۔ دوسری بات یہ کہ یہ لوگ اپنی زندگی کی حالات میں سے ہر حالت میں صادق اور سچے ہیں اور ایسا ہونا سوای معصومین کے کسی اور سے ممکن ہی نہیں ہے۔ پس نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صادقین سے مراد وہی لوگ ہیں جنہیں شیعہ بہ عنوان ائمہ معصومین اپنا امام مانتے ہیں کیونکہ انکے سوا امت محمدی میں کوئی بھی عصمت کے مقام پر فائز نہیں ہیں۔

حوالہ جات

  1. بُرَید کہتے ہیں: میں نے امام باقر(ع) خدا کے اس قول کے متعلق سوال کیا جس میں ارشاد خداوندی ہے: اتَّقُوا اللَّهَ وَ کونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ‌ تو حضرت امام محمد باقر(ع) نے فرمایا: اس سے مراد ہم اہل بیت(ع) ہیں۔کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۲۰۸.
  2. جرجانی، التعریفات، ص۹۵.
  3. طباطبایی، المیزان، ج۹، ص۴۰۲.
  4. زمخشری، الکشاف، ج۲، ص۲۲۰.
  5. نیکی یہ نہیں ہے کہ اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف کرلو بلکہ نیکی اس شخص کا حصّہ ہے جو اللہ اور آخرت ملائکہ اور کتاب پر ایمان لے آئے اورمحبت خدا میں قرابتداروں ً یتیموںً مسکینوں ً غربت زدہ مسافروںً سوال کرنے والوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے مال دے اور نماز قائم کرے اور زکوِٰ ادا کرے اور جو بھی عہد کرے اسے پوراکرے اور فقر وفاقہ میں اور پریشانیوں اور بیماریوں میں اور میدانِ جنگ کے حالات میں صبرکرنے والے ہوںتویہی لوگ اپنے دعوائے ایمان و احسان میں سچے ہیں اور یہی صاحبان تقویٰ اور پرہیزگار ہیں۔
  6. طبرسی، مجمع البیان، ج۳، ص۸۱.
  7. " اور اپنے گھر میں بیٹھی رہو اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگھار نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوِٰادا کرو اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو - بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
  8. طوسی، التبیان، ج۵، ص۳۱۸.
  9. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، ج۸، ص۲۸۸.
  10. رشید رضا، المنار، ج۱۱، ص۷۲؛ طوسی، التبیان، ج۵، ص۳۱۸.
  11. سیوطی، الدرّ المنثور، ج۴، ص۲۸۷؛ آمدی، غایۃ المرام، ج۳، ص۵۰ـ۵۱؛ امینی، الغدیر، ج۲، ص۳۰۶.
  12. حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، ج۱، ص۲۶۲.
  13. کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۲۰۸؛ آمدی، غایۃ المرام، ج۳، ص۵۲.
  14. صدوق، اکمال الدین، ص۲۶۲؛ مجلسی، بحارالأنوار، ج۳۳، ص۱۴۹؛ قندوزی، ینابیع الموده، ص۱۱۵.
  15. طبری، تفسیر طبری، ج۱۱، ص۷۶.
  16. حلی، کشف المراد، ص۵۰۳.
  17. رازی، مفاتیح الغیب، ج۱۶، ص۲۲۱.

مآخذ

  • آمدى، سيف‌الدين، غايۃ المرام فى علم الكلام، قاہرہ، المجلس الأعلى لشؤون الاسلاميہ، ۱۳۹۱ق.
  • امينى، عبدالحسين، الغدير، قم، مركز الغدير للدراسات الاسلاميہ، ۱۴۲۱ق.
  • جرجانى، سيدشريف على بن‌محمد، التعريفات، بيروت، دارالفكر، ۱۴۱۹ق.
  • حاكم حسكانى، عبداللہ بن‌احمد، شواہد التنزيل، تہران، مؤسسۃ الطبع والنشر، ۱۴۱۱ق.
  • حلى، حسن بن‌يوسف، كشف المراد، قم، مؤسّسۃ النشرالاسلامى، ۱۴۱۹ق.
  • رازى، فخرالدين، مفاتيح الغيب (التفسير الكبير)، بیروت، داراحياء التراث العربى.
  • رشيد رضا، محمد، المنار، دارالفكر للطباعۃ والنشر والتوزيع.
  • زمخشرى، محمود بن‌عمر، الكشاف، نشر الأدب الحوزۃ.
  • سيوطى، جلال‌الدين، الدر المنثور، بیروت، دار احياء التراث العربى، ۱۴۲۱ق.
  • صدوق، محمد بن‌على بن‌الحسين، اكمال الدين، قم، جامعہ مدرسين، مؤسسۃ النشر الاسلامى، ۱۴۱۶ق.
  • طباطبايى، سیدمحمدحسين، الميزان، بیروت، مؤسسہ الاعلمى، ۱۳۹۳ق.
  • طبرسى، فضل بن‌حسن، مجمع البيان، بیروت، دار احياء التراث العربى، ۱۳۷۹ش.
  • طبرى، ابوجعفر محمد بن‌جرير، جامع البيان فى تفسير القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۴۱۲ق.
  • طبرى، محمد بن‌جرير، تفسير طبرى، با ضبط و تعليق محمود شاكر، بیروت، داراحياء التراث العربى.
  • طوسى، محمد بن‌حسن، التبيان فى تفسير القرآن، قم، مكتب الاعلام الاسلامى، ۱۴۰۱ق.
  • عياشى، ابوالنضر محمد بن‌مسعود بن‌عياش سلمى، تفسير عياشى، تہران، مكتبۃ العلميۃ الاسلاميۃ.
  • قرطبى، محمد بن‌احمد، الجامع لأحكام القرآن، بہ تحقيق عبدالرزاق المہدى، بیروت، دارالكتاب العربى، ۱۴۲۳ق.
  • قندوزى، سليمان بن‌ابراہيم، ينابيع المودّۃ لذوى القربى، دارالأسوۃ للطباعۃ والنشر، ۱۴۱۶ق.
  • كلينى، محمد بن‌يعقوب، اصول كافى، بیروت، دارالتعارف، ۱۴۰۱ق.
  • مجلسى، محمدباقر، بحار الأنوار، تہران، المكتبۃ الاسلاميۃ، ۱۳۹۶ق.