الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنۃ
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم Hakimi (حصہ · شراکت) نے 9 مہینے قبل کی۔ |
حدیث کے کوائف | |
---|---|
موضوع | امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی برتری |
صادر از | پیغمبر اکرمؐ |
اصلی راوی | امام علیؑ، ابوبکر اور عُمَر سمیت 25 صحابہ |
اعتبارِ سند | حدیث متواتر |
شیعہ مآخذ | قرب الاِسناد، من لا یحضرہ الفقیہ، امالی شیخ مفید، اَمالی شیخ طوسی |
اہل سنت مآخذ | سنن تِرمذی، سنن ابن ماجہ، مسند احمد، مصنف ابن ابی شیبہ |
مشہور احادیث | |
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل |
اَلْحَسَنُ و اَلْحُسَینُ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی دیگر بہشتیوں پر برتری کے بارے میں ایک حدیث نبوی ہے۔ بعض شیعہ علما اس حدیث سے یہ مفہوم نکالتے ہیں کہ یہ دو ائمہ دنیا میں بھی دوسروں سے افضل ہیں اور ان کی اطاعت کی جائے۔ بعض اہل سنت علما کے مطابق وہ روایات جو بہشت والوں کو جوان بتاتی ہیں اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ حسنینؑ تمام اہلِ بہشت کے سردار ہیں؛ البتہ اس عمومیت سے رسول اللہؐ اور امام علیؑ جیسی شخصیات استثنا ہیں۔
یہ حدیث اَمالی شیخ طوسی، من لایحضرہ الفقیہ اور سنن تِرمذی جیسی کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔ اسی طرح صحابہ پیغمبر اکرمؐ میں سے بشمول امام علیؑ، ابوبکر اور عُمَر بن خطاب 25 صحابہ نے نقل کیا ہے۔ بعض شیعہ اور سنی علما نے اسے متواتر جانا ہے۔ بعض اہل سنت مآخذ میں اسی جیسی حدیث ابوبکر اور عمر کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہے جو انھیں بہشت کو بوڑھوں کے سردار بتاتی ہیں؛ لیکن علم رجال کے بعض ماہرین اس حدیث کو ضعیف اور جعلی سمجھتے ہیں۔
اہمیت اور تعارف
حدیث سیدا شباب اہل الجنہ والی روایت پیغمبر اکرمؐ کی مشہور حدیث ہے،[1] جو حسنینؑ کی دیگر اہل بہشت پر برتری ثابت کرنے کے لئے استفادہ ہوئی ہے۔[2] کتاب بحارالانوار کے مطابھ، امام حسینؑ نے واقعہ کربلا میں دشمن کے سامنے اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لئے اس حدیث کو بیان کیا۔[3]
حدیث کا متن یوں ہے: «اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَینُ سَیدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃ؛ حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔»[4] یہ حدیث شیعہ اور سنی مصادر میں دوسری عبارتوں کے ساتھ بھی نقل ہوئی ہے۔ جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: «الْحَسَنُ وَ الْحُسَینُ سَیدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ وَ أَبُوہُمَا خَیرٌ مِنْہُمَا»؛ (حسن اور حسین دونوں، اہل بہشت کے جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد (امام علیؑ) ان دونوں سے بہتر ہیں۔[5] اور «الْحَسَنَ وَ الْحُسَینَ سَیدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ وَ أَنَّ فَاطِمَۃَ سَیدَۃُ نِسَاءِ أَہْلِ الْجَنَّۃ»؛ (حسن اور حسین دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور فاطمہ جنت کی خواتین کی سردار ہیں۔)[6]
اہل بہشت پر حسنینؑ کی برتری
بعض احادیث میں تمام اہل بہشت کو جوان کہا گیا ہے۔[7] بعض اہل سنت علما نے اس طرح کی روایات سے استناد کرتے ہوئے شباب کا اہل الجنۃ کی طرف اضافہ ہونے کو اضافہ بیانیہ اور توضیح قرار دیا ہے؛[8] یعنی حسن اور حسین(ع) تمام اہل بہشت کے سردار ہیں۔[9] البتہ پیغمبر اکرمؐ اور حضرت علیؑ اس سے استثناء ہیں۔[10] ایک اور حدیث میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہؐ، حضرت عیسی، اور حضرت یحیی بھی اس حدیث سے استثنا ہوئے ہیں،[11] لیکن شیعہ عالم دین محمد حسن مظفر نے یہ احتمال دیا ہے کہ شاید روایت میں کسی نے تصرف کیا ہے اور یہ استثنا قابل قبول نہیں ہے؛ کیونکہ حضرت یحیی سے افضل انبیاء جیسے، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسیؑ استثناء نہیں ہوئے ہیں۔[12]
حسنینؑ کی امامت کے لئے ایک مستند
جس روایت میں اہل محشر کے سرداروں کو اہل دنیا کے سردار کہا ہے[13] اس روایت سے استناد کرتے ہوئے شیعہ عالم دین، علی بحرانی (متوفی: 1340ھ) امام حسن اور امام حسینؑ کو دنیا میں بھی برتر اور ان کی اطاعت کو واجب قرار دیتے ہیں۔؛[14] اسی وجہ سے یہ حدیث ان دونوں ائمہ کی امامت کی دلیل ہے۔[15]
«سَید» کا لفظ اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو سرپرست، بزرگ اور شرافتمند ہو۔[16] اسی طرح جو شخص نیک صفات میں باقی سب پر برتر ہو اسے سید کہا گیا ہے۔[17]
حدیث کا تواتر
شیعہ حدیث شناس، علامہ مجلسی، سیدا شباب اہل الجنہ والی حدیث کو شیعہ اور سنی علما کے ہاں متواتر سمجھتے ہیں۔[18] سُیوطی اور ناصرالدین اَلبانی جیسے بعض اہل سنت علما نے بھی حدیث متواتر ہونے کی تصریح کی ہے۔[19] اہل سنت حدیث شناس ابونُعَیم اصفہانی اس حدیث کے اعتبار کے بارے میں احمد بن حنبل سے کنایہ پر مشتمل ایک عبارت کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر اس حدیث کی سند کو پاگل پر دَم کیا جائے تو اسے افاقہ ہوگا۔[20]
اس حدیث کو نقل کرنے والے مشہور افراد میں سے شیخ طوسی نے کتاب امالی[21] میں، شیخ صدوق نے کتاب من لا یحضرہ الفقیہ[22] نقل کیا ہے۔ اہل سنت کے علما تِرمذی اور ابن اَبی شیبہ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔[23] حدیث سیدا شباب اہل الجنۃ کے بارے میں بعض محققین کا کہنا ہے کہ 25 اصحاب نے اس حدیث کو مختلف سند سے نقل کیا ہے ان میں امام علیؑ، ابوبکر اور عمَر بھی شامل ہیں۔[24]
ابوبکر اور عمر کی شان میں مشابہ جعلی حدیث
حدیثِ سیدا شباب اہل الجنہ جیسی ایک حدیث ابوبکر اور عمر کے بارے میں بھی ذکر ہوئی ہے جس میں ان دونوں کو اہلِ بہشت کے بوڑھوں کے سردار کہا گیا ہے۔[25] اہل سنت علما میں سے ہیثمی اور ابن جوزی نے اس روایت کو ضعیف اور جعلی قرار دیا ہے۔[26]
طبرسی اپنی کتاب احتجاج میں نقل کرتے ہیں کہ امام جواد کا یحیی بن اکثم سے مناظرہ میں یحیی نے امام سے پوچھا: روایت، «ابوبکر اور عمر اہل بہشت کے سردار ہیں» کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ امامؑ نے ایسی کوئی بات پیغمبر اکرمؐ سے صادر ہونے کو ناممکن سمجھا اور فرمایا: اس کو بنی امیہ نے اسے، حدیث «حسن اور حسین اہل بہشت کے سردار ہیں» کے مقابلے میں گھڑی ہے۔[27]
حوالہ جات
- ↑ فتحی، «حدیث سیدا شباب أہل الجنہ و مسألہ افضلیت امام»، ص61۔
- ↑ فتحی، «حدیث سیدا شباب أہل الجنہ و مسألہ افضلیت امام»، ص82۔
- ↑ بحارالانوار، 1403ھ، ج45، ص6۔
- ↑ شیخ طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص312؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج4، ص179؛ ترمذی، سنن الترمذی، 1395ھ، ج5، ص656؛ ابن ابی شیبہ، المصنّف، 1409ھ، ج6، ص378، ح32176۔
- ↑ حِمیری، قرب الإسناد، 1413ھ، ص111؛ ابن ماجۃ، سنن ابن ماجہ، دار إحیاء الکتب العربیۃ، ج1، ص44۔
- ↑ شیخ مفید، الأمالی، 1413ھ، ص23؛ أحمد بن حنبل، مسند أحمد، 1421ھ، ج38، ص353، ح2329۔
- ↑ شیخ مفید، الإختصاص، 1413ھ، ص358؛ ترمذی، سنن الترمذی، 1395ھ، ج4، ص679؛ بحارالانوار، 1403ھ، ج43، ص292۔
- ↑ مناوی، فیض القدیر، 1356ھ، ج6، ص151۔
- ↑ سِندی، حاشیۃ السِندی، دار الجیل، ج1، ص57۔
- ↑ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج6، ص463؛ فتحی، «حدیث سیدا شباب أہل الجنہ و مسألہ افضلیت امام»، ص59۔
- ↑ بحارالانوار، 1403ھ، ج43، ص316۔
- ↑ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج6، ص461-462۔
- ↑ ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، 1404ھ، ج7، ص64۔
- ↑ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص582۔
- ↑ بازوند، «بازخوانی سندی و دلالی حدیث سیدا شباب اہل الجنۃ»، مرکز حقایق اسلامی۔
- ↑ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص582۔
- ↑ سمعانی، تفسیر القرآن، 1418ھ، ج1، ص316؛ خازن، لباب التأویل، 1415ھ، ج2، ص242۔
- ↑ مجلسی، حق الیقین، انتشارات اسلامیہ، ص287۔
- ↑ مناوی، التیسیر بشرح الجامع الصغیر، 1408ھ، ج1، ص507؛ البانی، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، 1415ھ، ج2، ص431۔
- ↑ اصفہانی، تاریخ اصفہان، 1410ھ، ص73۔
- ↑ شیخ طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص312۔
- ↑ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج4، ص179۔
- ↑ ترمذی، سنن الترمذی، 1395ھ، ج5، ص656؛ ابن ابی شیبہ، المصنّف، 1409ھ، ج6، ص378، ح32176۔
- ↑ فتحی، «حدیث سیدا شباب أہل الجنہ و مسألہ افضلیت امام»، ص62۔
- ↑ ترمذی، سنن الترمذی، 1395ھ، ج5، ص611؛ أحمد بن حنبل، مسند أحمد، 1421ھ، ج2، ص40، ح602۔
- ↑ ہیثمی، مجمع الزوائد، 1414ھ، ج9، ص53؛ ابن جوزی، الموضوعات، 1386ھ، ج1، ص398۔
- ↑ طبرسی، الإحتجاج، 1403ھ، ج2، ص447۔
مآخذ
- ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغۃ، قم، مکتبۃ آیۃاللہ المرعشی النجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
- ابن ابی شیبہ، عبداللہ بن محمد، المصنّف فی الأحادیث و الآثار، تحقیق: کمال یوسف الحوت، ریاض، مکتبۃ الرشد، چاپ اول، 1409ھ۔
- ابن جوزی، جمال الدین، الموضوعات، تحقیق: عبدالرحمن محمد عثمان، مدینہ، المکتبۃ السلفیہ، چاپ اول، 1386ھ۔
- ابن ماجۃ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، بی جا، دار إحیاء الکتب العربیۃ، بی تا.
- احمد بن حنبل، ابو عبداللہ، مسند أحمد بن حنبل، تحقیق: شعیب الأرنؤوط و عادل مرشد، بی جا، مؤسسۃ الرسالۃ، چاپ اول، 1421ھ۔
- اصفہانی، ابونعیم، تاریخ اصفہان، تحقیق حسن کسروی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ھ۔
- اَلبانی، محمد ناصرالدین، سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ و شیء من فقہہا و فوائدہا، الریاض، مکتبۃ المعارف للنشر و التوزیع، 1415ھ۔
- بازوند، رضا، «بازخوانی سندی و دلالی حدیث سیدا شباب اہل الجنۃ»، مرکز حقایق اسلامی، تاریخ بازدید: 20 دی 1402ہجری شمسی۔
- بحرانی، علی، منار الہدی فی النص علی إمامۃ الأئمۃ الإثنی عشر(ع)، تحقیق عبد الزہراء خطیب، بیروت، دار المنتظر، 1405ھ۔
- ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، تحقیق و تعلیق: أحمد محمد شاکر، مصر، مکتبۃ و مطبعہ، چاپ دوم، 1395ھ۔
- حِمیری، عبداللہ بن جعفر، قرب الإسناد، قم، مؤسسۂ آل البیت، چاپ اول، 1413ھ۔
- خازن، علاء الدین، لباب التأویل فی معانی التنزیل، تصحیح: محمدعلی شاہین، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1415ھ۔
- سمعانی، منصور بن محمد، تفسیر القرآن، تحقیق: یاسر بن ابراہیم، ریاض، دار الوطن، چاپ اول، 1418ھ۔
- سِندی، نور الدین، حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجہ، بیروت، دار الجیل، بی تا.
- شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن الحسن، الأمالی، قم، دارالثقافۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الأمالی، تصحیح: حسین استادوَلی، علی اکبر غفاری، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، الإختصاص، علی اکبر غفاری، قم، الموتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، چاپ اول، 1413ھ۔
- طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج علی أہل اللجاج، مشہد، نشر مرتضی، چاپ اول، 1403ھ۔
- فتحی، علی، «حدیث سیدا شباب أہل الجنہ و مسألہ افضلیت امام» در مجلہ کلام اسلامی، دورہ 21، شمارہ 82، قم، شہریور 1391ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
- مجلسی، محمد باقر، حق الیقین، تہران، انتشارات اسلامیہ، بی تا.
- مظفر، محمد حسن، دلائل الصدق، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1422ھ۔
- مناوی، عبدالرؤوف، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، مصر، المکتبۃ التجاریۃ الکبری، چاپ اول، 1356ھ۔
- مناوی، عبدالرؤوف بن تاج، التیسیر بشرح الجامع الصغیر، الریاض، مکتبۃ الامام الشافعی، 1408ھ۔
- ہیثمی، نور الدین، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، تحقیق: حسام الدین القدسی، قاہرۃ، مکتبۃ القدسی، 1414ھ۔