علی ولی اللہ
علی ولی اللہ (علیؑ خدا کے ولی ہیں)، امام علیؑ کی امامت اور ولایت پر شیعوں کے عقیدے کا نعرہ ہے۔ شیعہ پیغمبرؐ کی رحلت کے بعد امام علیؑ کی خلافت کو خدا کا حکم سمجھتے ہیں۔
شیعہ اذان اور اقامت میں خدا کی وحدانیت اور حضرت محمدؐ کی رسالت کی گواہی یعنی شہادتین کے بعد "علی ولی اللہ" کی گواہی بھی دیتے ہیں۔ اگرچہ وہ اسے اذان اور اقامت کا حصہ نہیں سمجھتے۔
تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم مرزا قمی نے "لا اله الا الله، محمد رسول الله" کے بعد "علی ولی اللہ" کہنے کو مستحب مانا ہے۔ اسی طرح سید محمد حسین حسینی تہرانی کے مطابق یہ چند جملے لازم و ملزوم ہیں کیونکہ جس دن پیغمبرؐ نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تو آپ نے امام علی علیہ السلام کی پیروی کا حکم بھی دیا تھا۔
آل بویہ، اسماعیلہ، فاطمیہ اور صفویہ جیسی شیعہ حکومتوں میں جاری کئے گئے"علی ولی اللہ" والے سکے اب بھی پائے جاتے ہیں جن میں سے سب سے قدمی سکے چوتھی صدی کے وسط سے مربوط ہیں۔ یہ جملہ فاطمیوں کے دور حکومت میں فن تعمیر میں بھی استعمال ہوتا تھا۔ مثلا سنہ 478 ہجری (1094ء) میں قاہرہ کی ابن طولون مسجد میں شامل کی گئی محراب پر یہ جملہ درج ہے۔
مفہوم اور اہمیت
"علی ولی اللہ"، امام علیؑ کی امامت اور ولایت پر شیعوں کے عقیدے کے اظہار کا نمایاں نعرہ ہے جو آیہ ولایت، حدیث ولایت اور خطبہ غدیر سے ماخوذ ہے۔[3] شیعہ حضرات کے مطابق علی ولی اللہ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علیؑ کو اللہ کی جانب سے تمام مسلمانوں کے سرپرست[4] معین کئے گئے ہیں۔ [5] اسی طرح شیعہ پیغمبر کی رحلت کے بعد خلافت امام علی کو خدا کا حکم سمجھتے ہیں۔[6] اس کے مقابلے میں اہل سنت خلفائے ثلاثہ کے بعد حضرت علیؑ کو چوتھا خلیفہ مانتے ہوئے[7] حضرت علیؑ کی خلافت کو بھی دوسرے خلفاء کی طرح منصوص من اللہ نہیں مانتے۔
جملہ "علی ولی اللہ" کتب اربعہ میں سے الکافی[8] اور من لا یحضرہ الفقیہ میں[9] ذکر ہوا ہے۔ نیز، ان کتابوں میں مذکور بعض زیارت ناموں میں امام علی علیہ السلام کو "ولی اللہ" کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔[10] شیعہ حدیثی منابع کی بعض روایات میں "علی ولی اللہ" کے بعد "وصی رسول اللہ" (اللہ کے رسول کے جانشین ہیں)[11] اور بعض کتابوں میں "خلیفةُ بعدِ رسولِ الله" (رسول اللہ کے بعد خلیفہ ہیں) کا ذکر ہے۔[12] بعض سنی صوفیاء نے بھی اپنے آثار میں جملہ "علی ولی اللہ" ذکر کیا ہے۔[13]
عید غدیر کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب میں شیعہ "علی ولی اللہ" کی عبارت کے پوسٹر اور جھنڈیاں لگاتے ہیں۔[14] اسی طرح انگوٹھیوں پر بھی یہ عبارت کندہ کراتے ہیں۔ [15] گاڑیوں کے عقبی شیشوں پر اس جملے کو لکھوانا ایران کے بعض شیعوں کی دینی ثقافت کا حصہ ہے۔[16]
شہادت ثالثہ
تفصیلی مضمون: شہادت ثالثہ
شیعہ اذان اور اقامت میں حضرت محمدؐ کی رسالت کی گواہی دینے کے بعد "علی ولی اللہ" کی گواہی بھی دیتے ہیں۔[17] شیعہ فقہاء اسے اذان اور اقامت کا حصہ نہیں سمجھتے۔[18] البتہ بہت سے فقہاء ثواب کی نیت سے اسے کہنا جائز سمجھتے ہیں۔ [19] اس کے علاوہ شیعہ؛ شہادتین میں توحید اور پیغمبرؐ کی رسالت کی گواہی دینے کے بعد "علی ولی اللہ" کی گواہی بھی دیتے ہیں۔[20] حالانکہ شیعہ فقہاء نے اسلام قبول کرنے کے لئے اس کو ضروری نہیں سمجھا ہے۔[21]
شیعہ حدیثی منابع میں منقول احادیث میں "لا اِلٰهَ اِلّا الله" اور "محمدٌ رسولُ الله" کے بعد "علی ولی اللہ" ذکر کیا گیا ہے۔[22] اور شہادتین کے بعد "علی ولی اللہ" کہنا گناہوں کی مغفرت کا باعث سمجھا جاتا ہے۔[23] شیعہ مجتہد میرزائے قمی نے احادیث سے استناد کرتے ہوئے "محمد رسول اللہ" کے بعد "علی ولی اللہ" کہنے کو مستحب قرار دیا ہے،[24] اسی طرح سید محمد حسین حسینی تہرانی نے «لا اله الا اللہ، محمد رسول اللہ، علی ولی اللہ» کو ایک دوسرے کا لازم و ملزوم قرار دیا ہے۔ انہوں نے حدیث یَومُ الدّار سے استدلال کیا ہے کیونکہ پہلے دن جب پیغمبر نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی اور شہادتیں پڑھوائی تو امام علی علیہ السلام کی پیروی کا حکم بھی دیا تھا۔[25]
بعض روایات کے مطابق قیامت کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم [26] اور امام علیؑ کے سر کے تاج پر [27] «لا اله الا اللہ، محمد رسول اللہ، علی ولی اللہ» لکھا ہوا ہوگا۔ [یادداشت 1]
اسی طرح شیعہ منابع کی بعض دیگر روایات میں بھی اس طرح کی تصریحات کا ذکر ہے۔[28]
فاطمیوں کے دور حکومت میں کپڑوں پر بنر کی شکل میں لکھے جانے والی تعبیروں میں سے ایک "بسم اللہ الرحمن الرحیم، لا اله الا اللہ، محمد رسول اللہ، علی ولی اللہ" کی تعبیر تھی۔[29]
علی ولی اللہ درج شدہ سکے
بعض شیعہ حکومتوں[31] جیسے اسماعیلیہ [32] اور فاطمیوں کے دور حکومت [33] میں "علی ولی اللہ" درج شدہ سکے رائج کئے گئے ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
- چوتھی صدی ہجری کے وسط میں طبرستان میں باوندیوں کی حکومت[34]
- گیلان میں دیلمیوں کی حکومت[35]
- آل بویہ کے دور میں بَساسیری (وفات 451ھ) کی حکومت قائم ہونے کے بعد[36]
- ایلخانان کے آٹھویں سلطان اولجایتو کے شیعہ ہونے کے بعد[37]
- سربداران کی حکومت (حکومت: 736-788ھ)[38]
- اَلَموت کے اسماعیلیوں کی حکومت (حکومت: 483-654ھ)[39]
- صفویوں کی حکومت (حکومت: 907-1135ھ)[40]
غیر شیعہ حکمرانوں کی طرف سے بھی سکوں پر «علی ولی الله» درج کرانے کا ذکر ملتا ہے۔ جیسے ایلخانوں کے چوتھے حاکم اَرغون (حکومت 683-690ھ)،[41] اور آققویونلو (حکومت 872-908ھ) وغیرہ[42] بعض تاریخی محققین مذکورہ حکمرانوں کی شیعہ مذہب کی طرف رجحان[43] یا شیعوں کی حمایت حاصل کرنا اس اقدام کے علل و اسباب قرار دیتے ہیں.[44]
تاریخی اور مذہبی مقامات میں اس جملے کا استعمال
"علی ولی اللہ" کا جملہ شیعہ[46] اور فاطمیوں کے دور کے فن تعمیر میں استعمال ہوا ہے۔[47] مثال کے طور پر، 478 ہجری (1094 عیسوی) میں قاہرہ کی ابن طولون مسجد میں شامل ہونے والے محراب پر «لا اله الا الله، محمد رسول الله، علی ولی الله» تحریر کی ہوئی ہے[48] یہ محراب فاطمیوں کے دور (427-487ھ) میں اسماعیلیوں کے اٹھارہویں امام معاذ مستنصر کی حکومت کے دوران تعمیر کی گئی ہے۔[49]
زنجان کے قریب سلطانیہ شہر میں واقع "گنبد سلطانیہ" پر "علی ولی اللہ" کا کتیبہ موجود ہے جس کا تعلق 710 صدی ہجری سے ہے۔ گنبد سلطانیہ ایلخانیوں کے آٹھویں بادشاہ الجائیتو کے شیعہ ہونے کے بعد اس کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا۔[50] اسی طرح مسجد کبود تبریز کی دیواروں پر بھی علی ولی اللہ" کا فقرہ کندہ ہے جو تعلق 870 صدی ہجری میں قَراقویونْلو کے بادشاہوں میں سے ایک "جہان شاہ" کے زمانے میں تعمیر کی گئی تھی۔[51]۔ 770 صدی ہجری سے متعلق کاشان میں امامزادہ حبیب بن موسیٰ کے مزار کی محراب پر «لا اله الا اللہ، محمد رسول اللہ، علی ولی اللہ» لکھا ہوا ہے۔[52]
"علی ولی اللہ" کا جملہ بعض شیعہ ائمہ اور امام زادوں کے حرموں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ مثلا حرم امام علی علیہ السلام کی ضریح،[53] ضریح امام رضا علیہ السلام اور [54] حرم حضرت عباسؑ کے مینار پر۔[55]
اردو، عربی و فارسی ادب میں
تقریباً سنہ 1779ء میں دہلی میں پیدا ہونے والے حکیم آغا جان عیش دہلوی[56] نے ایک نظم میں حمد و ثنائے الٰہی اور ذکر نبی کریمؐ کے بعد حضرت علیؑ کا تذکرہ علی ولی اللہ کی تعبیر کے ساتھ کیا ہے:[57]
|
27 دسمبر 1797ء کو پیدا ہونے والے [58] اردو ادب کے معروف شاعر اسد اللہ خان، عرف غالب دہلوی نے اس فقرے کو اس طرح اپنے شعر میں استعمال کیا ہے کہ خود ان کے نام اسد اللہ بھی اس میں آگیا ہے[59]:
|
اردو مرثیہ نگار میر ببر علی انیس ( 1803- 1874ء) نے اپنے مرثیہ "خدا کے وصف کہاں تک رقم کروں" میں لفظ "اللہ" کے بغیر، علی ولی کی تعبیر کئی مقام پر استعمال کی ہے۔ منجملہ:[60]:
|
اردو کے مشہور شاعر اور میر انیس کے ساتھ مرثیہ نگاری کے بانیوں میں شمار ہونے والے مرزا سلامت علی دبیر (1875-1803ء) اپنے مرثیہ "بلقیس پاسباں ہے یہ کس کی جناب ہے" کے ایک بند میں "علی ولی" استعمال کرتے ہیں[61] :
|
مرزا دبیر دوسرے مرثیہ "روشن کیا جو حق نے چراغ انتقام کا" میں اسی تعبیر کو لے کر آتے [62]:
|
فقرہ "علی ولی اللہ" کی جھلکیاں عربی اشعار میں بھی دکھائی دیتی ہیں؛ عثمان کے مادری بھائی ولید بن عقبة بن ابیمُعَیْط نے اپنے بھائی کے قتل کے سوگ میں بنی ہاشم کے خلاف کچھ شعر کہے تھے تو بنی ہاشم کے شاعر فضل بن عباس لَهَبی نے اس کے جواب میں جو شعر کہا اس میں «علی ولی الله» کو استعمال کیا ہے۔[یادداشت 2][63]
اسی طرح چھٹی صدی ہجری کے شیعہ عالم ابن شہر آشوب[یادداشت 3][64] اور مالک اشتر کے پوتوں میں سے ایک شاعر جمالالدین محمد نجفی مالکی (وفات: 1086ھ کے بعد)[یادداشت 4][65] نے بھی «علی ولی الله» کو اپنے شعر میں استعمال کیا ہے۔ فارسی ادب میں بھی "علی ولی اللہ" کے حامل فقروں کے نقش ملتے ہیں۔ آٹھویں صدی ہجری کے صوفی شاعر، سید علی عمادالدین نسیمی، نے یوں کہا ہے:
|
نویں صدی ہجری کے صوفی، اسیری لاهیجی نوربخشی نے «علی ولی الله» کی ردیف کے ساتھ ایک غزل کہی ہے جس کے شروع کے دو شعر اس طرح ہیں:
|
دسویں صدی ہجری کے شاعر، عرفی شیرازی[یادداشت 5][68] گیارہویں صدی ہجری کے شاعر، محمد قلی سلیم تهرانی [یادداشت 6][69] اور دوره قاجار کے شاعر، محمدکاظم آشفته شیرازی[یادداشت 7] [70] نے بھی جملہ «علی ولی اللہ» کو اپنے اشعار میں استعمال کیا ہے۔
تصاویر
-
ضریح امام علی کا ایک فوقانی کتبہ۔[71]
-
حرم امام علی علیہ السلام میں علی ولیالله کی عبارت[72]
-
حرم حضرت عباس کے مینار پر خط کوفی میں نقش "علی ولی اللہ" [74]
-
ثلث رسم الخط میں علی ولی اللہ کی خطاطی، خطاط: محمد المشرفاوی (1439ھ)۔[75]
-
شاه اسماعیل اول صفوی کے دور کا ایک سکہ جس پر "لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ" نقش ہے (929ھ شیراز میں)[76]
-
ایلخانی بادشاہ اولجایتو کے دور کا ایک سکہ جس پر عبارت "علی ولیاللہ" نقش ہے (703 تا 716ھ) [77]
-
رستم بن شروین کے دور کے ایک سکہ پر عبارت "علی ولیالله" (365ھ طبرستان میں)[78]
-
انگوٹھی پر "علی ولی الله" کی حکاکی
نوٹ
- ↑ تفسیر قمی میں ان تین جملوں کے علاوہ (الْمُفْلِحُونَ هُمُ الْفَائِزُونَ بِاللَّهِ) کا بھی ذکر ہے، لیکن "امالی" میں کہا گیا ہے کہ تاج مربع شکل کا ہے جس کے ہر کونے پر یہ تین جملے «لا اله الا اللہ، محمد رسول اللہ، علی ولی اللہ» لکھے ہوئے ہیں۔ ان روایات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعات جنت میں جانے اور جنت کی کنجیاں حاصل کرنے سے پہلے کے ہیں۔
- ↑ و کان ولیّ العهد بعد محمد/ علی و فی کل المواطن صاحبه/ علی ولی الله اظهر دینه/ و انت مع الاشقین فیما تحاربه
- ↑ اَلا اِن خیر الناس بعد نبینا/ علی ولی الله و ابن المهذَّبِ/ به قام للدین الحنیف عموده/ و صار رفیعاً ذا رواق مطنبِ
- ↑ بها قاتل القرنین عمرو و مرحب/ مروی المواضی فی حنین و فی بدر/ علی ولی الله صنو محمد/ ابو ولدیه زوج فاطمة
- ↑ شه سریر ولایت امام خطه شرع/محیط عالم دانش علی ولی الله
- ↑ فروغ صبح امامت، علی ولی الله/صفای آینه دین، امیر کل امیر
- ↑ امام مشرق و مغرب امیر کل امیر/شفیع عرصه محشر علی ولی الله
حوالہ جات
- ↑ «Mirror image of 'Ali wali Allah»، Library of Congress.
- ↑ «گنبد حرم علوی تمیز شد/ نصب پرچم علی ولیالله»، پایگاه خبری تحلیلی 361 درجه ایران.
- ↑ محدثی، فرهنگ غدیر، 1386ہجری شمسی، ص422-423.
- ↑ ملاحظہ کریں: حسینی میلانی، جواهر الکلام فی معرفة الامامة و الامام، 1389ہجری شمسی، ج2، ص294.
- ↑ طباطبایی و شاهی، بررسی های اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج1، ص150.
- ↑ ملاحظہ کریں: طبری صغیر، دلائل الامامة، 1413ھ، ص18.
- ↑ ملاحظہ کریں: عبدالله بن احمد بن حنبل، السنة، 1408ھ، ج2، ص573؛ قیروانی، عقیدة السلف، دار العاصمة، ص61.
- ↑ کلینی، الکافی، 1429ھ، ج8، ص99.
- ↑ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، 1413ھ، ج2، ص604.
- ↑ ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1429ھ، ج9، ص295 و 296؛ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، 1413ھ، ج2، ص586، 589، 590، 592؛ شیخ طوسی، تهذیب الاحکام، 1407ھ، ج6، ص26، 27، 28.
- ↑ ملاحظہ کریں: راوندی، الدعوات، 1407ھ، ص211.
- ↑ قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، ص208.
- ↑ ملاحظہ کریں: کشفی ترمذی، مناقب مرتضوی، 1380ہجری شمسی، ص140 و 319؛ مظهری، التفسیر المظهری، 1412ھ، ج7، ص256؛ قندورزی، ینابیع المودة، 1422ھ، ج1، ص250، 288 و 249.
- ↑ ملاحظہ کریں: «حضور میلیونی مردم تهران در مهمانی 10 کیلومتری غدیر»، تابناک خبررساں ایجنسی. عقیق خطی علی-ولی-اللہ کی انگوٹھی]"۔
- ↑ ملاحظہ کریں:«انگشتر عقیق خطی علی ولی الله»، جواهرات پرچمی.
- ↑ ملاحظہ کریں: «شابلون پشتنویسی ماشین طرح علی ولی الله»، خدمتگزاران.
- ↑ سراوی، القطوف الدانیة فی المسائل الثمانیة، 1997ء، ج1، ص55.
- ↑ سبحانی، شیعه شناخت، 1397ہجری شمسی، ص352؛ یزدی، محمدکاظم، العروة الوثقی، 1429ھ، ج1، ص532.
- ↑ غزی، الشهادة الثالثة المقدسة، 1423ھ، ص361-384.
- ↑ ملاحظہ کریں: ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالبؑ، 1379ھ، ج2، ص52؛ ابنشاذان، الروضة فی فضائل امیرالمؤمنینؑ، 1423ھ، ص196.
- ↑ ملاحظہ کریں: نجفی، جواهر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص630؛ شهید ثانی، زینالدین بن علی، مسالک الافهام الی تنقیح شرائع الاسلام، قم، مؤسسة المعارف الاسلامیة، ج15، ص36.
- ↑ ملاحظہ کریں: قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، جلد 2، صفحہ 325؛ شیخ صدوق، الامالی، 1376ہجری شمسی، صفحہ 670۔
- ↑ ابن شاذان قمی، الروضة فی فضائل امیرالمؤمنین، 1423ھ، ص23.
- ↑ میرزای قمی، غنائم الایام، 1375ہجری شمسی، ج2، ص423.
- ↑ حسینی طهرانی، امامشناسی،1402ھ، ج1، ص95.
- ↑ قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، ص325.
- ↑ شیخ صدوق، الامالی، 1376ہجری شمسی، ص670.
- ↑ ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1429ھ، ج8، ص99؛ شیخ صدوق، الخصال، 1362ہجری شمسی، ج1، ص324؛ طبری آملی صغیر، دلائل الامامة، 1413ہجری شمسی، ص413؛ ابن شاذان، مائة منقبة من مناقب امیرالمؤمنین و الائمة، 1407ھ، ص49.
- ↑ زکی محمد حسن، «المنسوجات الاسلامیةالمصریة و معرض جوبلان بباریس»، ص29.
- ↑ «FATIMID, AL-MUSTANSIR»، NumisBids.
- ↑ ملاحظہ کریں: ابنجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، 1412ھ، ج16، ص37؛ فسایی، فارسنامه ناصری، 1382ہجری شمسی، ج1، ص288.
- ↑ سرافرازی، «شعائر شیعی بر سکههای اسلامی تا شگلگیری حکومت صفویان»، ص13.
- ↑ عودی، «کاوشی نوین در تاریخ فاطمیات مصر»، ص35.
- ↑ مودت، «تحلیلی بر روند ضرب عبارت "علی ولی الله" بر سکههای باوندیان کیوسیه»، ص219.
- ↑ جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1387ہجری شمسی، ص361.
- ↑ ابنجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، 1412ھ، ج16، ص37.
- ↑ فسایی، فارسنامه ناصری، 1382ہجری شمسی، ج1، ص288.
- ↑ جان ماسون، خروج و عروج سربداران، 1361ہجری شمسی، ص83.
- ↑ سرافرازی، «شعائر شیعی بر سکههای اسلامی تا شگلگیری حکومت صفویان»، ص13.
- ↑ اندامی و سلیمانی، «برگی از سکهشناسی (روند تشیع در ایران)»، ص83 و 84.
- ↑ جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1387ہجری شمسی، ص691.
- ↑ سرافرازی، «شعائر شیعی بر سکههای اسلامی تا شگلگیری حکومت صفویان»، ص23.
- ↑ جان ماسون، خروج و عروج سربداران، 1361ش، ص83؛ جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1387ہجری شمسی، ص361.
- ↑ سرافرازی، «شعائر شیعی بر سکههای اسلامی تا شگلگیری حکومت صفویان»، ص15.
- ↑ «Molana Imam Mustansirbillah»، The Bohras.
- ↑ محدثی، فرهنگ غدیر، 1386ہجری شمسی، ص423.
- ↑ ملاحظہ کریں «Molana Imam Mustansirbillah»، The Bohras.
- ↑ فؤاد سید، «القاهرة»، ص8044.
- ↑ «Molana Imam Mustansirbillah»، The Bohras.
- ↑ جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1387ہجری شمسی، ص737.
- ↑ سرافرازی، «شعائر شیعی بر سکههای اسلامی تا شکلگیری حکومت صفویان»، ص22.
- ↑ جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1387ہجری شمسی، ص850.
- ↑ «الضریح المقدس»، شبکة الامام علیؑ میدیا.
- ↑ «عکس با کیفیت: ضریح مطهر امام رضاؑ»، پایگاه عکس رضوی.
- ↑ «گنبد حرم حضرت عباسؑ»، پایگاه کربوبلا (پایگاه تخصصی امام حسینؑ).
- ↑ https://www.rekhta.org/Poets/aish-dehlvi/profile?lang=ur
- ↑ https://www.rekhta.org/ghazals/sivaa-khudaa-ke-nahiin-koii-dast-giir-apnaa-hakeem-aagha-jan-aish-ghazals?lang=ur
- ↑ https://ur.m.wikipedia.org/wiki/مرزا_غالب
- ↑ https://www.rekhta.org/unpublished-ghazal/mirza-ghalib-unpublished-ghazal-218?lang=ur
- ↑ https://www.urduweb.org/mehfil/threads/شیرِ-خدا-کے-وصف-کہاں-تک-رقم-کروں-میر-انیس-مرثیہ.66228/
- ↑ https://www.rekhta.org/marsiya/bilqiis-paasbaan-hai-ye-kis-kii-janaab-men-mirza-salaamat-ali-dabeer-marsiya?lang=ur
- ↑ https://www.rekhta.org/marsiya/raushan-kiyaa-jo-haq-ne-charaag-intiqaam-kaa-mirza-salaamat-ali-dabeer-marsiya?lang=ur
- ↑ مسعودی، مروج الذهب، 1409ھ، ج2، ص347 و 348.
- ↑ ابنشهرآشوب، مناقب آل ابیطالبؑ، 1379ھ، ج1، ص323.
- ↑ عبدالرحمن بن درهم، الطهر نزهة الابصار بطرائف الاخبار الاشعار، دار العباد، ص225.
- ↑ نسیمی، زندگی و اشعار عمادالدین نسیمی، 1372ہجری شمسی، ص355.
- ↑ اسیری لاهیجی، دیوان اشعار و رسائل، 1357ہجری شمسی، ص371.
- ↑ تقیالدین کاشی، خلاصة الاشعار و زبدة الافکار، 1392ہجری شمسی، ص200.
- ↑ رحیم، «محمدقلی سلیم تهرانی»، ص225.
- ↑ آشفته شیرازی، «غزلیات، شماره 1009»، سایت گنجور.
- ↑ «الضریح المقدس»، شبکة الامام علیؑ میدیا.
- ↑ «معالم عمرانیة»، شبکة الامام علیؑ میدیا.
- ↑ «عکس با کیفیت: ضریح مطهر امام رضاؑ»، پایگاه عکس رضوی.
- ↑ «گنبد حرم حضرت عباسؑ»، پایگاه کربوبلا (پایگاه تخصصی امام حسینؑ).
- ↑ «علی ولیالله»، صفحه محمد المشرفاوی در پینترس.
- ↑ «Safavid Shah Ismail I 907-930AH AV»، NumisBids.
- ↑ «سکه سلطان محمد خدابنده(الجایتو) ایلخانی»، کتابخانه و موزه ملی ملک.
- ↑ «سکه باوندیان، رستم بن شروین»، سایت البیان.
مآخذ
- آشفته شیرازی، «غزلیات، شماره 1009»، سایت گنجور (دردانههای ادب پارسی)، تاریخ بازدید: 16مهر 1401ہجری شمسی.
- ابن شهر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل ابیطالبؑ، قم، علامه، 1379ھ.
- ابنجوزی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، به تحقیق محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1412ھ/1992ء.
- ابنشاذان قمی، شاذان بن جبرئیل، الروضة فی فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابیطالبؑ، به تحقیق و تصحیح علی شکرچی، قم، مکتبة الامین، 1423ھ.
- ابنشاذان، محمد بن احمد، مائة منقبة من مناقب امیرالمؤمنین و الائمة، به تحقیق و تصحیح مدرسه امام مهدیؑ، قم، مدرسة الامام المهدیؑ، 1407ھ.
- اسیری لاهیجی، محمد، دیوان اشعار و رسائل شمسآلدین محمد اسیری لاهیجی، تحقیق مهدی محقق و چارلز آدامز، به اهتمام برات زنجانی، تهران، مؤسسه مطالعات اسلامی دانشگاه مکگیل، 1357ہجری شمسی.
- اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة و الافتاء، فتاوی اللجنة الدائمة (المجموعة الاولی)، ریاض، رئاسة ادارة البحوث العلمیة و الافتاء، بیتا.
- اندامی، پریسا و سعید سلیمانی، «برگی از سکهشناسی (روند تشیع در ایران)»، در مجله کتاب ماه هنر، شماره 31 و 32، فروردین و اردیبهشت 1380ہجری شمسی.
- «انگشتر عقیق خطی علی ولی الله»، جواهرات پرچمی، تاریخ بازدید: 13مهر1401ہجری شمسی.
- ایجی، المواقف فی علم الکلام، بیروت، عالم الکتب، بیتا.
- تستری، قاضی نورالله، احقاق الحق و ازهاق الباطل، قم، مکتبة آیةالله المرعشی النجفی، 1409ھ.
- تقیالدین کاشی، محمد بن علی، خلاصة الاشعار و زبدة الافکار، تهران، مرکز پژوهشی میراث مکتوب، 1392ہجری شمسی.
- جان ماسون، اسمیت، خروج و عروج سربداران، ترجمه یعقوب آژند، تهران، دانشگاه تهران، 1361ہجری شمسی.
- جعفریان، رسول، تاریخ تشیع در ایران، تهران، نشر علم، 1387ہجری شمسی.
- حسینی طهرانی، سید محمدحسین، امامشناسی، مشهد، مؤسسه ترجمه و نشر دوره علوم و معارف اسلام، 1422ھ.
- حسینی میلانی، علی، جواهر الکلام فی معرفة الامامة و الامام، قم، مرکز حقایق اسلام، 1389ہجری شمسی.
- «حضور میلیونی مردم تهران در مهمانی 10 کیلومتری غدیر»، خبرگزاری تابناک، تاریخ درج: 27 تیر 1401ہجری شمسی، تاریخ اخذ: 9 مهر 1401ہجری شمسی.
- راوندی، قطبابدین سعید بن هبةالله، الدعوات (سلوة الحزین)، قم، انتشارات مدرسه امام مهدیؑ، 1407ھ.
- رحیم، رضا، «محمدقلی سلیم تهرانی»، در مجله دانشکده ادبیات و علوم انسانی دانشگاه تهران، تهران، بهمن 1346ہجری شمسی.
- زکی محمد حسن، «المنسوجات الاسلامیة المصریة و معرض جوبلان بباریس»، در مجلة الرسالة، شماره 102، 17ژوئیه 1935ء.
- سبحانی، جعفر و جمعی از محققان، شیعه شناخت (تاریخ، عقائد، احکام، آداب و علوم)، قم، امام علی بن ابیطالبؑ، 1397ہجری شمسی.
- سرافرازی، «شعائر شیعی بر سکههای اسلامی تا شگلگیری حکومت صفویان»، در مجله شیعهشناسی، شماره 51، پاییز 1394ہجری شمسی.
- سراوی، عبدالمحسن، القطوف الدانیة فی المسائل الثمانیة، مقدمه عبدالله عدنان منتفکی، بیجا، دار المودة، 1997ء.
- «سکه باوندیان، رستم بن شروین»، سایت البیان (مؤسسة البیان للتواصل و التأصل)، تاریخ درج: 24 آذر 1399ش، تاریخ اخذ: 11 تیر 1401ہجری شمسی.
- «سکه سلطان محمد خدابنده(الجایتو) ایلخانی»، کتابخانه و موزه ملی ملک، تاریخ اخذ: 6 تیر 1401ہجری شمسی.
- «شابلون پشتنویسی ماشین طرح علی ولی الله»، خدمتگزاران، تاریخ اخذ: 13 مهر 1401ہجری شمسی.
- شهید ثانی، زینالدین بن علی، مسالک الافهام الی تنقیح شرائع الاسلام، قم، مؤسسة المعارف الاسلامیة، 1413ھ.
- شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، تهران، کتابچی، 1376ہجری شمسی.
- شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تحقیق و تصحیح علیاکبر غفاری، قم، جامعه مدرسین، 1362ہجری شمسی.
- شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیه، تحقیق و تصحیح علیاکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، 1413ھ.
- «الضریح المقدس»، شبکة الامام علیؑ میدیا، تاریخ اخذ: 16 خرداد 1401ہجری شمسی.
- طباطبایی محمدحسین، و هادی خسرو شاهی، بررسیهای اسلامی، قم، بوستان کتاب قم (انتشارا دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم)، 1388ہجری شمسی.
- طبری آملی صغیر، محمد بن جریر، دلائل الامامة، تحقیق و تصحیح قسم الدراسات الاسلامیة مؤسسة البعثة، قم، بعثت، 1413ھ.
- عبدالرحمن بن درهم، عبدالرحمن بن عبدالله، نزهة الابصار بطرائف الاخبار الاشعار، بیروت، دار العباد، بیتا.
- عبدالله بن احمد بن حنبل، شیبانی بغدادی، السنة، بیجا، دار ابن القیم، 1408ھ.
- عودی، ستار، «کاوشی نوین در تاریخ فاطمیات مصر»، در مجله کتاب ماه، بهمن و اسفند 1382ہجری شمسی.
- غزی، عبدالحلیم، الشهادة الثالثة المقدسة معدن الاسلام الکامل و جوهر الایمان الحق، بیروت، دارالقاری، 1423ھ.
- فؤاد سید، «القاهرة»، در دانشنامه موجز دائرة المعارف الاسلامیة، بیجا، مرکز الشارقة للابداع الفکری، 1418ھ/1998ء.
- قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر القمی، به تحقیق و تصحیح طیب موسوی جزائری، قم، دار الکتاب، 1404ھ.
- قندوزی، سلیمان به ابراهیم، ینابیع المودة لذوی القربی، قم، دار الاسوه، 1422ھ.
- قیروانی، ابن ابیزید، عقیدة السلف (مقدمة ابی زید القیروانی لکتابه الرسالة)، بیجا، دار العاصمة، بیتا.
- کشفی ترمذی، محمدصالح بن عبدالله، مناقب مرتضوی، تهران، روزنه، 1380ہجری شمسی.
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح دار الحدیث، قم، دار الحدیث، 1429ھ.
- «گنبد حرم علوی تمیز شد/ نصب پرچم علی ولیالله»، پایگاه خبری تحلیلی 361 درجه ایران، 21 بهمن 1400ہجری شمسی، تاریخ اخذ: 24 خرداد 1401ہجری شمسی.
- محدثی، جواد، فرهنگ غدیر، قم، نشر معروف، 1386ہجری شمسی.
- مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الهجرة، 1409ہجری شمسی.
- مظهری، محمد ثناءالله، التفسیر المظهری، به تحقیق غلام نبی التونسی، پاکستان، مکتبة الرشیدیة، 1412ھ.
- مقریزی، تقیالدین احمد بن علی، الموعظ و الاعتبار بذکر الخطط و الآثار، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1418ھ.
- مکارم شیرازی، ناصر، ترجمه قرآن، قم، دفتر مطالعات تاریخ و معارف اسلامی، 1373ہجری شمسی.
- «معالم عمرانیة»، شبکة الامام علیؑ میدیا، تاریخ بازدید: 16 خرداد 1401ہجری شمسی.
- مودت، لیدا، «تحلیلی بر روند ضرب عبارت علی ولی الله بر سکههای باوندیان کیوسیه»، در مجله تاریخنامه ایران بعد از اسلام، شماره 25، زمستان 1399ہجری شمسی.
- میرزای قمی، ابوالقاسم بن محمدحسن، غنائم الایام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، 1375ہجری شمسی.
- نجفی، محمدحسن، جواهر الکلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1362ہجری شمسی.
- نسیمی، سید علی عمادالدین، زندگی و اشعار عمادالدین نسیمی، به کوشش یدالله جلالی پندری، تهران، نشر نی، 1372ہجری شمسی.
- ورام بن ابی فراس، مسعود بن عیسی، مجموعة ورام، قم، مکتبه فقیه، 1410ھ.
- یزدی، محمدکاظم، العروة الوثقی مع حاشیة سید صادق الحسینی الشیرازی، قم، دار الانصار، 1429ھ.
- «Mirror image of 'Ali wali Allah»، Library of Congress، تاریخ اخذ: 13 خرداد 1401ہجری شمسی.
- «FATIMID, AL-MUSTANSIR»، NumisBids، تاریخ درج: 2 مه 2019ء، تاریخ اخذ: 1 مهر 1401ہجری شمسی.
- «Molana Imam Mustansirbillah»، The Bohras، تاریخ اخذ: 4 تیر 1401ہجری شمسی.
- «Safavid Shah Ismail I 907-930AH AV»، NumisBids، تاریخ درج: 4 دسامبر 2020م، تاریخ اخذ: 5 تیر 1401ہجری شمسی.