بداء

ویکی شیعہ سے
(بدا سے رجوع مکرر)
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


بَداء علم کلام کی ایک اصطلاح ہے جس کے معنی خدا کی طرف سے بندوں کے توقع کے برخلاف کسی چیز کا ظاہر اور آشکار ہونا ہے۔ امامیہ علماء کے مطابق تکوینی امور میں بداء تشریعی امور میں نسخ کی طرح ہے۔ بداء شیعہ اعتقادات میں خاص مقام کا حامل ہے؛ یہاں تک کہ شیعہ احادیث میں بداء پر عقیدہ رکھنے کو شیعوں کے اہم اعتقادات میں شمار کیا گیا ہے۔ بداء کو مذہب تشیع کے مخصوص اعتقادات بھی شمار کیا جاتا ہے۔

بعض اہل‌ سنت علماء کہتے ہیں کہ بداء پر عقیدہ رکھنے کا لازمہ خدا کی طرف جہل اور پشیمانی کی نسبت دینا ہے۔ ان کے مطابق بداء کا مطلب یہ ہے کہ خدا پہلے کسی چیز کے بارے میں ایک طرح علم رکھتا تھا پھر اسے اس کا برعکس ظاہر ہو جاتا ہے۔ ان کے مقابلے میں امامیہ علماء اپنے عقیدے میں بداء کے اس معنی کو مسترد اور شیعہ ائمہ کی احادیث سے استناد کرتے ہوئے اہل سنت کے مورد نظر معنی کو خدا کی طرف نسبت دینے کو کفر قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کی طرف بداء کی نسبت دینے کا مطلب یہ ہے کہ خدا اپنی قدرت اور ارادے کے ساتھ متوقع چیز کو محو کر کے اس کی جگہ کسی نئی چیز کو ظاہر کرتا ہے اور خدا دونوں چیزوں سے آگاہ اور واقف ہیں۔

احادیث میں بداء پر اعتقاد رکھنے کے کچھ آثار ذکر کی گئی ہیں جن میں مؤمنین کے دلوں میں خدا پر امید پیدا ہونا، بعض اعمال جیسے دعا و توسل وغیرہ کا اہتمام کرنا نیز توبہ اور گناہوں کی بخشش پر ایمان لانا وغیرہ شامل ہیں۔

تعریف اور اہمیت

«بِداء» علم کلام کی ایک اصطلاح ہے جس کے معنی خدا کی طرف سے بندوں کے توقع کے برخلاف کسی چیز کا ظاہر ہونا ہے۔ بداء میں خدا پہلی چیز کو محو کر کے دوسری چیز کو تحقق بخشتا ہے جبکہ خدا دونوں چیزوں پر عمل رکھتا ہے۔[1] شیخ مفید کے مطابق خدا کی طرف سے عام طور پر لوگوں کی توقع کے برخلاف کسی چیز کے ظاہر ہونے کو بداء کہا جاتا ہے۔[2]

بداء کو شیعوں کے مخصوص عقائد میں شمار کیا جاتا ہے۔[3]

بداء اور نسخ

میرداماد اپنی کتاب نبراس الضّیاء میں کہتے ہیں کہ تکوینی امور میں بداء تشریعی امور میں نسخ کی طرح ہے۔[4] کتاب اصل الشیعہ و اصولہا میں محمد حسین کاشف‌ الغطاء کے مطابق جس طرح خدا بعض مصلحتوں کی بنا پر شرعی احکام میں سے کسی حکم کو نسخ کر کے اس کی جگہ کسی نئے حکم کو وضع کرتا ہے اسی طرح تکوینی اور خارجی امور میں بعض اوقات کسی تکوینی حقیقت کا ارادہ کرتا ہے اور چہ بسا اس کے بارے میں مقرب ملائکہ یا انبیاء میں سے کسی نبی کو اس چیز کے واقع ہونے کی خبر دی جاتی ہے اور وہ پیغمبر بھی اپنی امت کو اس چیز کی خبر دیتے ہیں؛ لیکن بعد میں بعض مصلحتوں اور علل و اسباب کی بنا پر جس سے خدا کے سوا کوئی واقف نہیں ہوتا، وہ واقعہ یا وہ چیز رونما نہیں ہوتی یا اس کی جگہ کوئی اور واقعہ یا چیز واقع ہو جاتی ہے اور یہ وہی بداء ہے۔[5]

اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ احادیث میں بداء کا مفہوم بہت وسیع ہے جس میں تکوینی امور بھی شامل ہیں جیسے صلہ رحم کی وجہ سے کسی کی موت کا مؤخر ہونا یا کسی گناہ کی وجہ سے اس کی موت جلدی واقع ہونا اسی طرح تشریعی امور کو بھی شامل کرتا ہے جیسے گذشتہ ادیان یا ان کے بعض احکام کا نسخ ہونا جیسے تغییر قبلہ۔[6]

شیعوں کے یہاں بداء کی اہمیت

بداء شیعہ اعتقادات میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔[7]آیت الله جعفر سبحانی کے مطابق شیعوں کی کوئی کلامی یا فلسفی کتاب ایسی نہیں ملے گی جس میں بداء کے بارے میں بحث نہ ہوئی ہو اسی بنا پر اس موضع پر شیعہ علماء کی طرف سے متعدد کتابیں اور رسالہ جات تحریر کئے گئے ہیں۔[8] آقا بزرگ تہرانی الذریعہ میں تقریبا 25 مدوّن کتابوں یا رسالہ جات کا نام لیتے ہیں جنہیں بداء کے بارے میں تحریر کئے گئے ہیں۔[9]

شیعہ حدیثی منابع میں بداء سے مربوط احادیث کو مستقل ابواب میں ذکر کی گئی ہیں۔ مثلا کلینی نے کتاب الکافی میں «باب البداء» کے نام سے ایک مستقل باب متخص کر کے اس میں بدائ کے بارے میں موجود 16 احادیث کو ذکر کیا ہے۔[10] شیخ صدوقنے کتاب التوحید میں بداء کے بارے میں ایک مستقل باب معین کر کے اس سلسلے میں موجود 11 احادیث کو نقل کیا ہے۔[11] اسی طرح علامہ مجلسی نے کتاب بحار الانوار میں 70 احادیث کو اس باب میں ذکر کیا ہے جن میں لفظ بداء پر تصریح کی گئی ہے اس کے علاوہ اس باب میں ان احادیث کو بھی نقل کیا ہے جو استجابت دعا اور صدقہ کی اہمیت میں صادر ہونے والی احادیث کو بھی اس باب میں نقل کیا ہے اور بداء کے اثبات کے لئے ان سے بھی استناد کیا جاتا ہے۔[12]

بداء ان مسائل میں سے ہے جن کے بارے میں عقیدہ رکھنا انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے اس کی سفارش کی گئی ہے۔ زرارہ کے توسط سے امام باقرؑ یا امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ : «مَا عُبِدَاللَّہُ بِشَيْ‌ءٍ مِثْلِ الْبَدَاءِ؛ بداء کی طرح کسی اور چیز کے ذریعے خدا کی عبادت نہیں کی گئی ہے۔»[13] اسی طرح ہِشام بن سنہم نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ: «مَا عُظِّمَ اللَّہُ بِمِثْلِ الْبدَاءِ؛ بداء کی طرح کسی چیز کے ذریعے خدا کی عظمت اور بزرگی بیان نہیں کی گئی ہے۔»[14]

عقیدۂ بداء پر ہونے والے اعترضات

مذہب معتزلہ کے متکلم اور مفسر عبد اللہ بن احمد کعبی بلخی[15] (متوفی: 319ھ) اور فخر رازی[16] نے بداء پر شیعہ عقیدے کو خدا کی طرف جہل کی نسبت دینے اور خدا کے علم اور ارادے میں تبدیلی آنے کا لازمہ قرار دیا ہے۔ اس بنا پر بعض وہابی علماء نے اسی عقیدے کی بنا پر شیعوں پر لعن طعن کیا ہے۔[17] ان کے مطابق شیعہ امامیہ کے یہاں بداء کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے نظریے کی بنیاد پر کوئی کام انجام دینا چاہتا ہے لیکن بعد میں اس کا نظریہ تبدیل ہوتا ہے جس کے سبب اس کام کو انجام دینے کا عزم و ارادہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے، یہ تبدیلی اس چیز کی مصلحت کے بارے میں متعلقہ شخص کی لا علمی یا اس کام کی انجام دہی سے متعلق اس کی پشیمانی اور منصرف ہونے کی بنا پر وجود میں آتی ہے۔[18]

شیعہ امامیہ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ بداء کا یہ مفہوم انسان پر تو قابل صدق ہے لیکن خدا کی طرف اس کی نسبت‌ دینا کفر کا موجب بنے گا۔[19] شیعہ ائمہ سے منقول احادیث کے مطابق بداء کے اس مفہوم کو خدا کی طرف نسبت دینے سے منع کیا گیا ہے[20] مثلا امام صادقؑ سے منقول ہے کہ:

  • «جو شخص یہ گمان کرے کہ خدا کے یہاں کوئی چیز پشیمانی کی وجہ سے آشکار ہوا ہے، یہ شخص ہمارے نیزدیک سب سے بڑا کافر ہے۔»
  • «خدا کے لئے کوئی چیز آشکار نہیں ہوتی، مگر یہ کہ وہ چیز پہلے سے خدا کے علم میں موجود ہوتی ہے»۔[21]
  • «خدا کے لئے کوئی چیز اس کی بنسبت جہالت کی وجہ سے آشکار نہیں ہوتی۔»[22]

بداء پر اسلامی مذاہب کے درمیان اختلاف صرف لفظی ہے

شیخ مفید اس بات کے متعقد ہیں کہ «بداء» کے مسئلے میں امامیہ کے ساتھ دوسرے اسلامی مذاہب کا اختلاف صرف اور صرف لفظی اختلاف ہے؛ کیونکہ کوئی بھی اسلامی مذہب یا فرقہ اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ خدا نے مختلف ادیان اور احکام کی تشریع کے بعد انہیں نسخ کرتا ہے، اسی طرح خدا کسی زندہ شخص کو موت دے دیتا ہے یا یہ کہ خدا کسی امیر شخص کو جسے دولت سے نوازا گیا ہے فقیر اور نادار بنا دیتا ہے۔[23] شیخ مفید کہتے ہیں کہ یہ مذکورہ امور وہی بداء ہے جس کی طرف آیات اور احادیث میں اشارہ کیا گیا ہے جس سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہے۔[24] علامہ طباطبائی بھی اس اختلاف کو صرف لفظی اختلاف قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر اس مسئلہ میں دقت اور غور و فکر کی جائے تو کوئی نزاع یا اختلاف باقی نہیں رہتا ہے۔[25]

اہل‌ سنت حدیثی منابع میں بعض احادیث بھی نقل ہوئی ہیں جن میں بداء کے مسئلے پر بھی تصریح کی گئی ہے[26] اور صلہ رحم اور استجابت دعا کے بارے میں بھی احادیث نقل ہوئی ہیں جو بداء کے مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہیں۔[27]

بداء اور خدا کے علم میں تبدیلی کا شبہہ

امام صادقؑ:

إِنَّ لِلَّہِ عِلْمَیْنِ: عِلْمٌ مَکْنُونٌ مَخْزُونٌ لَا یَعْلَمُہُ إِلَّا ہُوَ، مِنْ ذَلِکَ یَکُونُ الْبَدَاءُ و عِلْمٌ عَلَّمَہُ مَلَائِکَتَہُ وَ رُسُلَہُ وَ أَنْبِیَاءَہُ فَنَحْنُ نَعْلَمُہُ؛ خدا کے لئے دو علم ہے: ایک علم مخزون جس سے خدا کے سوا کوئی واقف نہیں اور بداء علم کی اسی قسم سے مربوط ہے، دوسرا وہ علم جسے خدا ملائکہ اور انبیاء کو تعلیم دیتا ہے اور ہم انسان بھی اس سے آگاہ ہوتے ہیں۔

کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص147۔

امامیہ کے مطابق خدا کی طرف بداء کی نسبت دینا خدا کے علم میں تبدیلی آنے کا سبب نہیں بنتا ہے۔[28] بعض امامیہ علماء جیسے علامہ مجلسی اور علامہ طباطبائی سورہ رعد آیت نمبر 39[یادداشت 1] اسی طرح اس آیت کے ذیل میں ائمہ معصومینؑ سے نقل ہونے والی احادیث[29] سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا نے دو قسم کے لوح کو خلق کیا ہے اور کائنات میں رونما ہونے والی ہر چیز کو ان میں درج کرتا ہے: ان میں سے ایک لوح محفوظ ہے جس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی؛ اور دوسرا لوح محو و اثبات ہے جس میں خدا کوئی چیز درج کرتا ہے لیکن بعد میں مختلف مصلحتوں کی بنا پر اسے محو کر کے اس کی جگہ کوئی اور چیز ثبت کرتا ہے اور خدا ان تمام چیزوں سے آگاہ ہے۔ بطور مثال ممکن ہے خدا کسی مصلحت کی بنا پر جس کے بارے میں وہ خود جانتا ہے، کسی شخص کے لئے 50 سال عمر لکھ دیتا ہے اور جب یہ شخص صلہ رحم انجام دیتا ہے یا صدقہ دیتا ہے تو اس کے 50 سالہ عمر کو محو کر کے اس میں اضافہ کر دیتا ہے یا اس کے برعکس۔ امامیہ اس لوح میں آنے والی تبدیلی کو جس میں خدا پہلی اور بعد والی چیز دونوں سے آگاہ ہیں، بداء کہتے ہیں۔[30]

شیعہ مفسیر قرآن اور فلسفی آیت اللہ جوادی آملی کہتے ہیں کہ خدا کے ذاتی علم میں بداء واقع نہیں ہوتا؛ بلکہ بداء خدا کے فعلی علم میں واقع ہوتا ہے۔[31] ان کے مطابق علم ذاتی ازلی اور ابدی ہے جس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی جبکہ علم فعلی فعل اور حادث اور قابل تبدیل ہے۔[32]

بداء خدا کی طرف جہل کی نسبت نہیں ہے

شیعہ عالم دین ملا صالح مازندرانی کہتے ہیں کہ خدا کا علم ازلی ہے اور شروع سے خدا کے علم میں تھا کہ فلان چیز ایک معینہ مدت میں اس کی مصلحت ختم ہونے کی بنا پر ختم ہوگی یا اگر اس کی مصلحت دوبارہ واپس آئے تو اس چیز بھی دوبارہ وجود میں لائی جائے گی، اور جو شخص اس مطلب کے خلاف عقیدہ رکھے مثلاً کہے کہ خدا آج کسی چیز کے بارے میں علم رکھتا ہے جس کے بارے میں پہلے علم نہیں رکھتا تھا، تو یہ شخص خدا کا منکر اور کافر شمار ہوگا۔[33]

آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق خداوند عالم تمام اشیاء پر ازل سے ابد تک علم شہودی رکھتا ہے اور اس کائنات میں رونما ہونے والے تمام واقعات اور حوادث اور ان میں آنے والی تبدیلیوں سے بھی خدا آگاہ ہیں اور خدا جانتا ہے کہ کس وقت کونسا واقعہ رونما ہونا ہے اور کونسا واقعہ ختم ہونا ہے۔ بنابراین خدا کے یہاں بداء نامی کوئی چیز ہے ہی نہیں ہے؛ بلکہ خدا کے یہاں ابداء ہے؛ یعنی جو چیز انسانوں کے یہاں آشکار نہیں ہے خدا اسے آشکار اور ابداء کرتا ہے۔[34]

تاریخ میں بداء کے نمونے

تاریخ میں بداء کے کچھ نمونے جن کی طرف بعض قرآنی آیات اور احادیث میں اشارہ ہوا ہے درج ذیل ہیں:

  • سورہ یونس آیت نمبر 98 کے مطابق قوم یونس کی نافرمانی ان پر خدا کے عذاب کا سبب بنا اور حضرت یونس نے جب ان کو غیر قابل ہدایت اور عذاب کا مستحق پایا تو ان کو چھوڑ کر چلے گئے؛ لیکن جب ان کی قوم میں سے ایک دانشور نے خدا کے عذاب کے آثار کا مشاہدہ کیا تو ان کو جمع کر کے توبہ کرنے کی دعوت دی۔ قوم یونس نے بھی ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے توبہ کیا جس پر وہ عذاب جس کے آثار نمایاں ہو گئے تھے، برطرف ہوگیا۔[35]
  • سورہ صافات آیت نمبر 102 سے 107 کے مطابق جب حضرت ابراہیم کو ان کے بیٹے حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو حضرت ابراہیم نے خدا کے حکم کی تعمیل کے لئے حضرت اسماعیل کو قربان گاہ پر لے گیا؛ لیکن جب حضرت ابراہیم نے بیٹے کی قرآنی دینے پر آمادگی کا اظہار کیا تو بداء حاصل ہوا اور آشکار ہوگیا کہ یہ خدا کی طرف سے ایک امتحان تھا تاکہ حضرت ابراہیم کی اطاعت اور حضرت اسماعلی کی فرمانبرداری کا امتحان لیا جائے۔[36]
  • سورہ اعراف آیت نمبر 142 کے مطابق حضرت موسی کو شروع میں 30 دن اپنی قوم کو ترک کرنے اور خدا سے الواح دریافت کرنے کے لئے وعدہ گاہ پر حاضر رہنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن بعد میں 10 کا اضافہ کیا گیا اور بنی‌ اسرائیل کی آرامش کے لئے 30 دن سے زیادہ وعدہ گاہ پر باقی رہا۔[37]
  • تاریخ امامیہ میں بداء کے موضوع پر پیش آنے والے واقعات میں سے ایک امام صادقؑ کے بڑے بیٹے اسماعیل کی موت[38] اور دوسرا واقعہ امام ہادیؑ کے بڑے بیٹے محمد کی موت ہے[39] جن کے بارے میں یہ گمان تھا کہ امام صادقؑ کے بعد آپ کے بیٹے اسماعیل اور امام ہادیؑ کے بعد آپ کے بیٹے محمد شیعوں کے امام ہوںگے؛ لیکن ان کے والد ماجد کی زندگی میں ان کی موت سے بداء حاصل ہوا اور مشخص ہوگیا کہ مذکورہ ائمہ کے بعد ان کی دوسری اولاد امام ہیں۔[40]

بداء پر اعتقاد کے فوائد

بداء پر اعتقاد رکھنے کے کچھ فوائد ذکر کئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • بداء پر اعتقاد رکھنے کا سب سے اہم فائدہ یا اثر خدا کی قدرت مطلقہ کا اقرار اور اس عقیدے کی مضبوطی ہے۔ اس طرح کہ اگر کسی خاص وقت میں کوئی خاص واقعہ رونما ہونا خدا کی مشیت میں ہو تو پھر بھی خدا اس کو تغییر دے سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ واقعہ یا اس معینہ وقت میں رونما ہی نہ ہو یا اس کی جگہ کوئی اور واقعہ رونما ہو۔ [41]
  • بداء پر اعتقاد رکھنے سے مؤمنین کے دلوں میں امید کی روشنی پھیلنے کا سبب بنتا ہے اور دعا کی قبولیت اور دوسری حاجتوں کے لئے صرف خدا پر امید رکھنے اور غیر خدا سے قطع امید کا سبب قرار پاتا ہے۔[42]
  • بداء سے انکار کا لازمہ تقدیر پر سو فیصد ایمان رکھنے اور جو کچھ تقدیر میں لکھا گیا ہے بغیر کسی استثناء کے واقع ہونے پر اعتقاد رکھنے کا موجب بنتا ہے جس سے یہ غلط تصور پیدا ہو سکتا ہے کہ جب جو کچھ تقدیر میں ہے رونما ہونا ہے تو پھر دعا، توسل، تضرع اور استغفار وغیرہ کا کیا فائدہ؟؛[43] حالانکہ کوئی بھی مسلمان ان امور کے بے فائدہ ہونے کا قائل نہیں ہے۔[44]
  • بداء پر اعتقاد رکھنا خدا کی طرف سے توبہ اور شفاعت کی قبولیت اور گناہان کبیرہ سے اجتناب کی صورت میں صغیرہ گناہوں سے عفو و درگزر کئے جانے کے عقیدے میں تقویت کا موجب بنتا ہے۔[45]

بداء کے بارے میں بعض شیعہ علماء کا متفاوت نظریہ

خواجہ نصیر طوسی فخر رازی کے جواب میں جو بداء کو شیعوں کے ابتکارات میں سے مانتا تھا،[46] کہتے ہیں کہ بداء شیعوں کے اعتقادات میں سے نہیں ہے اور اس کے بارے میں صرف ایک خبر واحد موجود ہے اور شیعوں کے یہاں اس طرح کی احادیث حجیت اور معتبر نہیں ہے۔[47] ملاصدرا اصول کافی پر اپنی شرح میں اور علامہ مجلسی اپنی کتاب مرآۃ العقول میں خواجہ نصیر الدین طوسی کے اس نظریے کو شیعہ احادیث کی نسبت ان کی معلومات میں کمی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔[48]

اس کے باوجود سید محمد صادق روحانی اس بات کے معتقد ہیں کہ خواجہ نصیر کا یہ نظریہ فخر رازی کی بداء کی تفسیر سے مربوط ہے جس سے خدا کی طرف جہل اور پشیمانی کی نسبت دینا لازم آتا ہے، اور خواجہ نصیر بداء کے اس معنی کو شیعوں کی طرف سے انکار کرتا ہے۔[49] البتہ شیعہ فقیہ اور متکلم فاضل مقداد (متوفی: 826ھ) بھی بداء کے منشاء کو خبر واحد قرار دیتے ہیں اگر اسے مان بھی لیا جائے تو یہ نسخ پر حمل ہوگا۔[50] وہ بداء پر عقیدہ رکھنے کو زیدیہ کی طرف نسبت دیتے ہیں۔[51]

کتابیات

«آموزہ بداء و کتابشناسی آن» نامی مقالے میں «بداء» کے موضوع پر علماء اور محققین کی جانب سے 60 سے زیادہ کتابیں معرفی کی گئی ہے۔[52] ان میں سے بعض آثار درج ذیل ہیں:

  • رسالہ «اِجابۃُ الدّعاء فی مسألۃِ الْبَداء»، تحریر، سید محمد کاظم عصار: یہ رسالہ جو کہ استجابت دعا اور اس سے مربطو موضوعات یعنی بداء کے بارے میں فلسفی مباحث پر مشتمل ہے، دو اور رسالوں کے ساتھ «ثلاثُ رسائل فی الْحکمۃِ الْالہیہ» کے نام سے ایک مجموعے کی صورت میں تدوین اور شایع ہوا ہے۔[53]
  • کتاب «البداءُ عِندِ الشَیعۃ»، تحریر، سید علی علامہ فانی اصفہانی (1333-1409ھ)، شیعہ فقیہ اور سید ابو الحسن اصفہانی کے شاگردوں میں سے: اس کتاب کا «بداء از نظر شیعہ» کے عنوان سے فارسی بھی ترجمہ ہوا ہے۔
  • کتاب «رسنہتانِ فی البداء»: این کتاب مشتمل بر دو رسنہہ مختصر دربارہ مسئلہ بداء از دو فقیہ و قرآن‌پژوہ شیعہ، محمدجواد بلاغی و سید ابوالقاسم خوئی است۔
  • کتاب «البداءُ عِندَ الشّیعۃِ الْامامیہ»، تألیف، سید محمد کلانتر: یہ کتاب سنہ 1975ء میں انتشارات جامعۃُ النَّجفِ الدَینیہ سے نجف اشرف میں شایع ہوئی ہے۔
  • کتاب البداءُ علیٰ ضَوءِ الْکتابِ و السُّنہ، تألیف جعفر سبحانی۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج11، ص381۔
  2. شیخ مفید، تصحیح الاعتقاد، 1413ھ، ص65-67۔
  3. روحانی، الجبر و الاختیار، 1426ھ، ص169۔
  4. میرداماد، نبراس الضیاء، 1374ہجری شمسی، ص55-56۔
  5. کاشف‌الغطاء، اصل الشیعہ و اصولہا، 1413ھ، ص152۔
  6. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، التوحید، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ص335-336؛ شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ص41۔
  7. سبحانی، البداء على ضوء الكتاب و السنّۃ، 1392ہجری شمسی، ص9۔
  8. سبحانی، البداء على ضوء الكتاب و السنّۃ، 1392ہجری شمسی، ص9۔
  9. آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، 1408ھ، ج3، ص53-57۔
  10. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص146-149۔
  11. شیخ صدوق، التوحید، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ص331-336۔
  12. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج4، ص94-122؛ زادہوہجری شمسی، «آموزہ بداء و کتابشناسی آن»، ص68۔
  13. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص146۔
  14. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص146۔
  15. کعبی بلخی، تفسیر ابی‌القاسم الکعبی البلخی، 1428ھ، ج2، ص40۔
  16. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج19، ص52۔
  17. ملاحظہ کریں: الہی‌ظہیر، الشیعۃ و السنۃ، 1396ھ، ص63۔
  18. کاشف الغطاء، اصل الشیعہ و اصولہا، 1413ھ، ص151؛ مظفر، عقائد الامامیۃ، 1429ھ، ص48۔
  19. مظفر، عقائد الامامیۃ، 1429ھ، ص48۔
  20. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص148۔
  21. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص148۔
  22. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص148۔
  23. شیخ مفید، أوائل المقالات في المذاہب و المختارات‏، 1413ھ، ص80۔
  24. شیخ مفید، أوائل المقالات في المذاہب و المختارات‏، 1413ھ، ص80۔
  25. طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج11، ص381-382۔
  26. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج4، ص171؛ احمد، مسند احمد، 1421ھ، ج32، ص423۔
  27. برای نمونہ ملاحظہ کریں: بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج8، ص5 و 73۔
  28. طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج11، ص381۔
  29. برای نمونہ ملاحظہ کریں: بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، 1415ھ، ج3، ص270۔
  30. علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج2، ص132؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج11، ص381۔
  31. جوادی‌آملی، تفسیر تسنیم، 1389ہجری شمسی، ج6، ص110۔
  32. جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1388ہجری شمسی، ج7، ص358-361۔
  33. مازندرانی، شرح اصول الکافی، 1429ھ، ج4، ص246۔
  34. جوادی‌آملی، تفسیر تسنیم، 1389ہجری شمسی، ج6، ص109-110۔
  35. طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج17، ص166؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج10، ص247۔
  36. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج10، ص248؛ سبحانی، البداء علی ضوء الکتاب و السنۃ، 1392ہجری شمسی، ص134۔
  37. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج10، ص248؛ سبحانی، البداء علی ضوء الکتاب و السنۃ، 1392ہجری شمسی، ص134۔
  38. صدوق، کتاب التوحید، النشر الاسلامی، ص336۔
  39. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج50، ص240۔
  40. فانی اصفہانی، بداء از نظر شیعہ، 1394ہجری شمسی، ص140-141۔
  41. علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج2، ص127 و 131-132۔
  42. سبحانی، البداء على ضوء الكتاب و السنۃ، 1392ہجری شمسی، ص59۔
  43. سبحانی، البداء على ضوء الكتاب و السنۃ، 1392ہجری شمسی، ص59۔
  44. سبحانی، البداء على ضوء الكتاب و السنۃ، 1392ہجری شمسی، ص60۔
  45. سبحانی، البداء على ضوء الكتاب و السنۃ، 1392ہجری شمسی، ص59۔
  46. فخر رازی، المحصل، 1411ھ، ص602۔
  47. خواجہ نصیرالدین طوسی، تلخیص المحصل، 1405ھ، ص421۔
  48. ملاصدرا، شرح اصول الکافی، ج3، ص179؛ علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج2، ص123-124۔
  49. روحانی، الجبر و الاختیار، 1426ھ، ص169۔
  50. فاضل مقداد، اللوامع اللہیۃ، 1422ھ، ص377۔
  51. فاضل مقداد، اللوامع اللہیۃ، 1422ھ، ص377۔
  52. زادہوہجری شمسی، «آموزہ بداء و کتابشناسی آن»،‌ ص76-78۔
  53. عصار، ثلاث رسائل فی الحکمۃ اللہیۃ، ص48-49۔

نوٹ

  1. «یَمْحُو اللَّہُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہُ أُمُّ الْکِتَابِ؛ اللہ جو چاہتا ہے وہ (لکھا ہوا) مٹا دیتا ہے اور (جو چاہتا ہے) برقرار رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب (اصل کتاب یعنی لوح محفوظ) ہے۔» (محمد حسین نجفی، اردو ترجمہ قرآن، ص254۔)

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، قم، اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • ابن الاثیر، ابوالسعادات، النہایہ فی غریب الحدیث والاثر، بیروت، المكتبۃ العلمیۃ، 1399ھ۔
  • ابن فارس، ابوالحسین، معجم مقاییس اللغہ، بیروت، دار الفكر، 1399ھ۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب،‌ بیروت،‌ دار صار، 1414ھ۔
  • احمد بن حنبل، ابوعبداللہ، مسند احمد، بی‌جا، مؤسسۃ الرسنہۃ، 1421ھ۔
  • اشعری، ابوالحسن، مقالات الاسلامیین، بیروت، 1405ھ۔
  • الہی‌ظہیر، احسان، الشیعۃ و السنۃ، لاہور، إدارۃ ترجمان السنۃ، 1396ھ۔
  • بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسۃ البعثۃ، 1415ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تصحیح محمد زہیر بن ناصر الناصر، بی‌جا، دار طوق النجاۃ، چاپ اول، 1422ھ۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، قم، مرکز نشر اسرا، 1388ہجری شمسی۔
  • رازی، فخر الدین محمد، محصل افکار المتقدمین و المتأخرین، قاہرہ، مکتبۃدارالتراث‌، 1411ھ۔‌
  • رازی، فخر الدین محمّد، التفسیر الکبیر، داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1420ھ۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، دمشق، دار القلم، 1412ھ۔
  • زادہوہجری شمسی، محمدرضا، «آموزہ بداء و کتابشناسی آن»، کتاب ماہ و دین، شمارہ 68 و 69، خرداد و تیر 1382ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، البداء على ضوء الكتاب و السنّۃ، قم، مؤسسہ امام صادقؑ، 1392ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بی‌تا۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، أوائل المقالات في المذاہب و المختارات‏، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، تصحیح الاعتقاد، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، التوحید، تصحیح سید ہاشم حسینی، قم، النشرالاسلامی، بی‌تا۔
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، نشر اسماعیلیان، 1363ہجری شمسی۔
  • طوسی، خواجہ نصیرالدین، تلخیص المحصل، تصحیح عبداللہ نورانی، تہران، 1359ہجری شمسی۔
  • عصار، سید محمدکاظم، ثلاث رسائل فی الحکمۃ اللہیۃ، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، اللوامع اللہیۃ فی المباحث الکلامیۃ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1422ھ۔
  • فانی اصفہانی، سید علی، بداء از نظر شیعہ، ترجمہ سیدمحمدباقر بنی سعید لنگرودی، انتشارات امام علی بن ابی‌طالبؑ، 1394ہجری شمسی۔
  • فانی اصفہانی، سیدعلی، بداء از نظر شیعہ، ترجمہ سید محمدباقر بنی سعید لنگرودی، قم، انتشارات امام علی بن ابی طالبؑ، 1394ہجری شمسی۔
  • فضلی، عبد الہادی، خلاصۃ علم الکلام، قم، دارالکتاب الاسلامی، 1414ھ۔
  • کاشف‌الغطاء، محمدحسین، اصل الشیعہ و اصولہا، بیروت، المكتبۃ العلمیۃ، چاپ چہارم، 1413ھ۔
  • کعبی بلخی، عبداللہ بن احمد، تفسیر ابی‌القاسم الکعبی البلخی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1428ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
  • مازندرانی، ملاصالح، شرح اصول الکافی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1429ھ۔
  • متقی ہندی، علاء الدین علی بن حسام الدین، کنز العمال، بیروت، مؤسسۃ الرسنہۃ، 1401ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسولؐ، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، 1404ھ۔
  • مظفر، محمدرضا، عقائد الامامیۃ، قم، انصاریان، 1429ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
  • میرداماد، محمدباقر، نبراس الضیاء، قم، انتشارات ہجرت، 1374ہجری شمسی۔