کمیت بن زید اسدی

ویکی شیعہ سے
کمیت بن زید اسدی
شاعر اہل بیتؑ
کوائف
نام:ابومُستَہَل کُمَیْت بن زید اَسَدی
پیدائشسنہ 60 ہجری
مقام سکونتکوفہ عراق
وفاتسنہ 126 ہجری
مقام دفنکوفہ، قبرستان بنی‌اسد
اصحابامام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے معاصر
سماجی خدماتاہل بیت کی مدح میں شاعری
مذہبشیعہ


کُمَیت بن زید اَسَدی (60-126ھ) جو امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے ہم عصر ایک شیعہ عربی شاعر تھے۔ قصائد «ہاشمیات» ان کی اہم ترین تصانیف میں سے ایک ہے جس میں بنی ہاشم کے فضائل، غدیر کا واقعہ، امام حسین علیہ السلام کی شہادت، اور اموی حکومت سے مربوط مسائل اور اس کے نتائج ذکر ہوئے ہیں۔ یہ اشعار واقعہ عاشورا کے پندرہ سے بیس سال بعد لکھے گئے۔

انہی اشعار کی وجہ سے کمیت نے شیعوں کے چوتھے اور پانچویں امام حضرت زین العابدین اور امام محمد باقرؑ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی اور ان ائمہ سے ان کے حق میں دعا کرنے کے بارے میں بعض روایات بھی ملتی ہیں۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی جان بچانے کے لیے بنی امیہ کی تعریف میں ایک قصیدہ پڑھا ہے۔

اہمیت

ابوالفراج اصفہانی کے مطابق، ابو مُستَہَل کمیت بن زید اسدی ایک معروف شاعر، عربی زبان اور لغت کے ماہر، عرب کے زمانے کے بارے میں جاننے والے اور قحطانیوں کے بارے میں جنونی اور متعصب، اور دوسرے عرب شاعروں کے ساتھ شاعرانہ مقابلہ کرنے والے شاعر بھی تھے۔[1] ان کی قصائد ہاشمیات بہترین شاعری میں شمار ہوتے ہیں۔[2] نیز ان کے اشعار کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ مصرعے ذکر ہوئے ہیں[3] جن میں سے اکثر دستیاب نہیں ہیں۔[4]

کہا گیا ہے کہ وہ اپنی نظموں میں عدنانیوں کے خلاف خاص تعصب رکھتے تھے اور یمنی شاعروں کے خلاف اشعار لکھتے تھے اور یہ رویہ زندگی بھر جاری رہا۔[5] تاہم ابوالفراج اصفہانی نے ایک اقتباس پر اعتبار کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ کیمیت کی طرف سے اہل یمن کے طنز کی وجہ دراصل یہ تھی کہ حکیم بن عیاش کلبی نامی ایک یمنی شاعر نے علی بن ابی طالب اور بنی ہاشم پر طنز کیا تھا اس لئے کمیت نے خود کو بنی امیہ کے عتاب سے بچاتے ہوئے اس کے جواب میں، اس نے اپنی نظم یمن کے لوگوں پر طنز کیا، اور براہ راست امام علی اور بنی ہاشم کا دفاع کرنے سے گریز کیا۔[6]

کمیت بن زید بن خنیس بن مخالد اسدی، سنہ 60 ہجری میں پیدا ہوئے۔[7] وہ بنی امیہ کے دور کے ہم عصر شاعر فرزدق کے بھانجے اور شیعہ متعصب شاعر سید حمیری کے معاصر تھے[8] اور آخری اموی خلیفہ مروان بن محمد کی خلافت کے دوران 126ھ میں کوفہ میں وفات پاگئے۔[9] وہ پہلے شخص تھے جنہیں بنی اسد قبرستان میں دفن کیا گیا۔[10]

اہل بیت سے رابطہ

امام حسینؑ کے بارے میں کمیت کے قصیدے کے چند مصرعے:

و من أكبر الأحداث كانت مصيبۃعلينا قتيل الأدعياء الملحّب
قتيل بجنب الطف من آل ہاشمفيا لك لحما ليس عنہ مذبب
و منعفر الخدين من آل ہاشمألا حبّذا ذاك الجبين المتّرب
و من عجب لم أقضہ أن خيلہملأجوافہا تحت العجاجۃ أزمل
ہماہم بالمستلئمين عوابسكحدءان يوم الدّجن تعلو و تسفل
يحلئن عن ماء الفرات و ظلّہحسينا و لم يشہر عليہن منصل
كأنّ حسينا و البہاليل حولہلأسيافہم ما يختلي المتقبّل
يخضن بہ من آل أحمد في الوغىدما طلّ منہم كالبہيم المحجّل
و غاب نبي اللّہ عنہم و فقدہعلى الناس رزء ما ہنالك مجلل
فلم أر مخذولا أجلّ مصيبۃو أوجب منہ نصرۃ حين يخذل
يصيب بہ الرّامون عن قوس غيرہمفيا آخرا أسدى لہ الغيّ أول
تہافت ذبّان المطامع حولہفريقان شتى: ذو سلاح و أعزل
إذا شرعت فيہ الأسنۃ كبّرتغواتہم من كل أوب و ہللوا
فما ظفر المجرى إليہم برأسہو لا عذل الباكي عليہ المولول
فلم أر موتورين أہل بصيرۃو حقّ لہم أيد صحاح و أرجل
كشيعتہ، و الحرب قد ثفيت لہمأمامہم قدر تخيش و مرجل
فريقان: ہذا راكب في عداوۃو باك على خذلانہ الحق معول
فما نفع المستأخرين نكيصہمو لا ضرّ أہل السابقات التعجّل

موجودہ روایات کے مطابق، بنی امیہ کے دور میں پیغمبر اکرمؐ کے خاندان کی تعریف کرنے والے شاعر کے طور پر، کمیت کو [[امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کی توجہ حاصل تھی اور ان ائمہ کی طرف سے کیمت کے حق میں دعا کرنے کے بارے میں کچھ روایات بھی ذکر ہوئی ہیں۔[11]

یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اہل بیت کی مدح میں پڑھے جانے والے اشعار کی وجہ سے ان کو ملنے والے مادی تحفے قبول نہیں کرتے تھے اور بعض اوقات امام سجاد یا امام باقر سے تبرک کے طور پر قمیص مانگتے تھے۔[12]

قصائد ہاشمیات

قصائد ہاشمیات جو کمیت بن زید اسدی نے واقعہ عاشورا کے کے بعد 15 سے 20 سال کے درمیان لکھے تھے، ان کی اہم ترین تصانیف میں شمار ہوتے ہیں۔[13] یہ اشعار آٹھ قصیدوں پر مشتمل ہیں جن میں بنی ہاشم اور پیغمبر اسلام کے خاندان کے فضائل، غدیر خم کا واقعہ، خلافت پر قبضے اور امام علیؑ کی صداقت، امام حسینؑ کی شہادت، ظالم حکمرانوں کی حکومت، بنی امیہ کے کرتوت اور مظالم، زید بن علی کا قتل اور ہاشمیوں کے مصائب کا تذکرہ ہوا ہے۔[14] تاہم کہا جاتا ہے کہ اپنی جان بچانے کے لیے کمیت نے بنی امیہ کی تعریف میں ایک نظم لکھی اور اس بارے میں امام باقر علیہ السلام سے اجازت طلب کی۔[15]

حوالہ جات

  1. ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، 1994م، ج17، ص5.
  2. ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، 1994م، ج17، ص5.
  3. ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، 1994م، ج17، ص30.
  4. عبدالعظیم‌زادہ، «ہاشمیات»، ص131.
  5. ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، 1994م، ج17، ص5.
  6. ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، 1994م، ج17، ص28.
  7. ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، 1994م، ج17، ص30.
  8. مرزبانى، اخبار شعراء الشیعہ، 1413ق، ص71 و 178.
  9. ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، 1994م، ج17، ص30.
  10. ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، 1994م، ج17، ص30.
  11. امینی، الغدیر، 1368ش، ج4، ص33 و 36.
  12. امین، اعیان الشیعہ، 1403ش، ج9، ص34؛ امینی، الغدیر، 1368ش، ج4، ص32.
  13. المرزبانی خراسانی، اخبار شعراء الشیعہ، 1347ش، ص71.
  14. «ہاشمیات: جہادی از جنس قلم»،‌ مجلہ ادب عربی، ص230.
  15. امینی، الغدیر، 1368ش، ج4، ص34، بہ نقل از الاغانی، ج15،  ص126.

مآخذ

  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، الاغانی، بیروت، دار احیاء‌ التراث العربی، چاپ اول، 1415ق/1994ء۔
  • امین، سید محسن، أعيان الشيعۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1403ق/1983ء۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، ترجمۂ محمدتقی واحدی، تہران، بنیاد بعثت، 1368ش.
  • امینی، عبدالحسین، موسوعۃ الغدیر فی الکتاب والسنۃ والادب، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، 1430ق/2009ء۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، بیروت، انتشارات الثقافۃ الاسلامیہ، 1413ھ۔
  • داود، سلوم، شعر الکمیت بن زید الأسدی، بیروت، عالم الکتاب، 1417ق/1997ء۔
  • شبر، جواد، أدب الطف: أو شعراء الحسین علیہ‌السلام من القرن الأول الہجری حتی القرن الرابع عشر، بیروت، دار المرتضی، بی‌تا.