شیعتی ما ان شربتم ماء عذب فاذکرونی

ویکی شیعہ سے
شعر "شیعتی ما ان شربتم..." خط ثلث میں، سید محمد زاہدی کے قلم سے

شِیعَتِی مَا إِنْ شَرِبْتُمْ ماءَ عَذْبٍ فَاذْکُرُونِی (میرے شیعو! جب بھی ٹھنڈا پانی پیو تو میری پیاس کو یاد کرو) امام حسینؑ کی طرف نسبت دی جانے والی مشہور شعر کا ایک مصرع ہے۔ یہ شعر کربلا میں امام حسینؑ کو پیاسے شہید کئے جانے کی یاد دلاتی ہے۔ اس شعر کے ابتدائی مصرعے میں شیعوں سے یہ سفارش کی جا رہی ہے کہ جب بھی ٹھنڈا پانی پیئے تو امام حسینؑ کو یاد کیا کریں۔[1] بعض شیعہ علماء اس شعر اور اہلبیتؑ سے نقل ہونے والی بعض احادیث کی روشنی میں پانی پیتے وقت امام حسینؑ کو یاد کرنا واجب[2] اور بعض مستحب[3] قرار دیتے ہیں۔

شِیعَتِی مَا إِنْ شَرِبْتُمْ ماءَ عَذْبٍ فَاذْکرُونِی أَوْ سَمِعْتُمْ بِغَرِیبٍ أَوْ شَہِیدٍ فَانْدُبُونِی[4]
اے میرے شیعو! جب بھی ٹھنڈا پائی پیو تو مجھے یاد کرو اور جب بھی کسی غریب کی غربت یا شہادت سے با خبر ہو تو مجھ پر گریہ کرو۔[5]

فاضل دربندی کتاب اسرار الشہادۃ میں کہتے ہیں کہ یہ شعر خود امام حسینؑ کی ہے۔[6] بعض منابع اس شعر کو اس وقت کے ساتھ ربط دیتے ہیں جب امام حسینؑ کی شہادت کے بعد آپ کی بیٹی سکینہ(س) میدان کربلا میں آپ کی لاش پر پہنچی تھی۔[7] نویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین کَفْعَمی حضرت سکینہ(س) سے نقل کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں... امام حسینؑ کی شہادت کے بعد جب میں نے اپنے بابا کا جنازہ گود میں لیا تو مجھ پر غشی طاری ہوئی اسی حالت میں میں نے سنا کہ میرے بابا یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔[8] ان تمام باتوں کے باوجود شیخ عباس قمی کتاب نَفَس المَہموم اور مُنْتَہی الآمال[9] میں اور مُقَرَّم کتاب مَقْتَل الحُسَین[10] میں مذکورہ شعر کو نقل کرنے کے باوجود اس کے لئے کوئی مآخذ ذکر نہیں کئے ہیں۔ سید محمد صدر (متوفی: 1377ہجری شمسی) امام حسینؑ کی شہادت اور اس کے بعد کی حالات اور واقعات کو بیان کرنے والی اشعار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اشعار یقینا خود امام حسینؑ کی نہیں ہیں؛[11] وہ اور بعض دیگر علماء یہ احتمال دیتے ہیں کہ ممکن هے یہ اشعار امام حسینؑ کا زبان حال ہے۔[12]

حوض‌ انبار رجب خراسان کا کتیبہ

مذکورہ شعر خاص کر اس کا پہلا مصرع واقعہ عاشورا میں امام حسینؑ کی تشنہ لبی کی یاد میں سقا خانوں پانی کے منابع اور مَشکوں پر لکھے جاتے ہیں۔[13] بعض شیعہ ذاکرین جیسے باسم کربلائی اور محمود کریمی ان اشعار کو مرثیوں اور تعزیوں میں پڑھتے ہیں۔[14]

بعض کتابوں میں یہ شعر "شیعتی مہما شَربتُم عَذْبَ ماءٍ" یا "شیعتی ما ان شِربتُم رَیَّ عَذْبٍ..." کی شکل میں اور اور دوسرا مصرع "او سَمِعتُم بشہیدٍ أو قَتیلٍ" یا "أو سَمعتُم بقتیلٍ أو جریحٍ" کی شکل میں نقل ہوئی ہے کہ سب کے سب تقریبا ایک جیسے معانی دیتے ہیں۔[15] بعض کتابوں میں اس شعر کے دیگر مصرعے بھی نقل ہوئے ہیں جن کی مجموعی تعداد 5 مصرعے بن جاتے ہیں۔[16] شیخ عباس قمی اس بات کے معتقد ہیں کہ باقی مصرعے دوسرے شاعروں نے اضافہ کئے ہیں اور ان کو امام حسینؑ کی طرف نسبت دینا مشکل ہے۔[17] بقیہ مصرعے در ذیل ہیں:

وَ أَنا السِّبْطُ الَّذی مِنْ غَیرِ جُرْمٍ قَتَلُونی وَ بِجُرْد الخَیلِ بَعْدَ القَتْلِ عَمْداً سَحِقُونی
لَیتَکُم فی یوْمِ عاشُورا جمیعاً تَنْظُرونی کَیفَ أَسْتَسْقی لِطِفْلی فَاَبَوْا أَن یرْحَمُونی
و سَقَوہُ سَہْمَ بَغْی عِوَضَ الماءِ المَعینِ یا لَرُزْءٍ وَ مُصابٍ ہَدَّ أرْکانَ الحَجِونِ
وَیلَہُم قَدْ جَرَحُوا قَلْبَ رَسُولِ الثَّقَلَینِ فَالْعَنُوہُم مَا اسْتَطَعْتُم شِیعَتِی فِی کُلِّ حِینٍ[18]
میںرسول خدا کا نواسا ہوں، مجھے بے جرم و خطا قتل کرنے کے بعد میرے جسم پر گھوڑے دوڑا کر میرے بدن کو پایمال کیا گیا۔‌ اے کاش تم روز عاشورا کربلا میں ہوتے اور دیکھتے کہ میں کیسے اپنے شیر خوار بیٹے کے لئے پانی مانگ رہا تھا اور کسی کو مجھ پر کوئی رحم نہ آیا۔ پانی کی جگہ میرے شیرخوار بچے پر ستم کے تیر برسائے گئے۔ اتنی عظیم اور دردناک مصیبتیں جن پر کوہ حجون (مکہ کا ایک پہاڑ) کو بھی زلزلہ آیا۔ وای جن و انس کے پیغبمر کے قلب مبارک کو کس طرح زخمی کیا گیا! پس‌ اے میرے شیعو! ہمیشہ اور جنتا بھیج سکتے ہو ان پر لعنت بھیجو۔[19]

حوالہ جات

  1. شوشتری، الخصائص الحسینیہ، 1414ھ، ص116و184۔
  2. حائری، معالی السبطین، 1389ہجری شمسی، ص452۔
  3. محدث نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج17، ص26۔
  4. کفعمی، المصباح، 1405ھ، ص741۔
  5. ربّانی خلخالی، سیمای درخشان حسین بن علی(ع)، 1385ہجری شمسی، ص8۔
  6. فاضل‌ دربندی، اکسیر العبادات، 1415ھ، ج1، ص257۔
  7. کفعمی، المصباح، 1405ھ، ص741۔
  8. کفعمی، المصباح، 1405ھ، ص741۔
  9. قمی، منتہی الآمال، 1379ہجری شمسی، ج3، ص787؛ قمی، نفس المہموم، 1379ہجری شمسی، ج1، ص344۔
  10. مقرم، مقتل الحسین، 1426ھ، ص322۔
  11. صدر، أضواء علی ثورۃ الحسین علیہ‌السلام، 1430ھ، ج1، ص145۔
  12. صدر، أضواء علی ثورۃ الحسین علیہ‌السلام، 1430ھ، ج1، ص145؛ یعقوبی، فی ثقافۃ الرفض و إصلاح المجتمع، ‌1435ھ، ص260۔
  13. عنانی، محمدیان، شریف‌کاظمی، «سیمای وقفنامہ در آب‌انبارہای سرایان در خراسان جنوبی»، ص152و153۔
  14. کربلایی، مداحی «شیعتی مہما شربتم»؛ کریمی، مداحی «شیعتی مہما شربتم ماء عذب فاذکرونی»۔
  15. ملاحظہ کریں: تبریزی، الشعائر الحسینیہ، 1433ھ، ص380؛ صدر، أضواء علی ثورۃ الحسین علیہ‌السلام، 1430ھ، ج1، ص145؛ مدرسی، امتداد حرکۃ الانبیاء، 1407ھ، ص131۔
  16. جمعی از نویسندگان، موسوعۃ شہادۃ المعصومین علیہم السلام، 1380ہجری شمسی، ج2، ص325۔
  17. قمی، منتہی الآمال، 1379ہجری شمسی، ج3، ص787۔
  18. جمعی از نویسندگان، موسوعۃ شہادۃ المعصومین علیہم السلام، 1380ہجری شمسی، ج2، ص325۔
  19. ربّانی خلخالی، سیمای درخشان حسین بن علی(ع)، 1385ہجری شمسی، ص8۔

مآخذ

  • تبریزی، جعفر، الشعائر الحسینیہ، قم، دارالصدیقہ، 1433ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، موسوعۃ شہادۃ المعصومین علیہم السلام، قم، نورالسجاد، 1380ہجری شمسی۔
  • حائری مازندرانی، مہدی، معالی السبطین (مترجم: رضا کوشاری و یوسف اسدزادہ)، قم، تہذیب، 1389ہجری شمسی۔
  • ربّانی خلخالی، علی، سیمای درخشان حسین بن علی(ع)، قم، مکتب الحسین(ع)، 1385ہجری شمسی۔
  • شوشتری، جعفر بن حسین، الخصائص الحسینیۃ، بیروت، دار السرور، 1414ھ۔
  • شیروانی الحائری، آقا بن عابد (فاضل دربندی)، إکسیر العبادات فی أسرار الشہادات، بحرین، شرکۃ المصطفی للخدمات الثقافۃ، 1415ھ۔
  • صدر، سید محمدباقر، أضواء علی ثورۃ الحسین علیہ‌السلام، عراھ، ہیئۃ التراث السید الشہید الصدر، 1430ھ۔
  • عنانی، بہرام و محمدیان، فخرالدین و شریف کاظمی، خدیجہ، «سیمای وقفنامہ در آب انبارہای سرایان در خراسان جنوبی»، در وقف میراث جاویدان، شمارہ90، 1394ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، منتہی الآمال، قم، دلیل، 1379ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، نفس المہموم فی مصیبۃ سیدنا الحسین المظلوم، قم، المکتبۃ الحیدریہ، 1379ہجری شمسی۔
  • کربلایی، باسم، مداحی «شیعتی مہما شربتم»، در موکب شہداء الحشد الشعبی ہیئۃ جواد الائمہ العزیزیہ عراھ، شب شہادت امام علی(ع) 1422ھ۔
  • کریمی، محمود، مداحی «شیعتی مہما شربتم ماء عذب فاذکرونی»، ہیئت رایۃ العبّاس تہران، شب اول محرم الحرام 1397ہجری شمسی۔
  • کفعمی، ابراہیم بن علی، المصباح، دارالرضی(زاہدی)، 1405ھ۔
  • محدث نوری، حسین، مستدرک الوسائل، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، بی‌تا۔
  • مدرسی، محمدتقی، امتداد حرکۃ الانبیاء، تہران، مکتبۃ العلّامہ مدرسی، 1407ھ۔
  • مقرم، سید عبدالرزاھ، مقتل الحسین(ع)، بیروت، مؤسسۃ الخرسان للمطبوعات، 1426ھ۔
  • یعقوبی، محمد، فی ثقافۃ الرفض و إصلاح المجتمع، نجف، دار الصادقین، ‌1435ھ۔