سامرا

غیر سلیس
ویکی شیعہ سے
سامرا
شہر سامرا
مشہور نامسامرا
محلی نامسامَرّۃ
صوبہصلاح الدین
ملکعراق
شہر بننے کا سال221 ہجری قمری
آبادی۳۰۰٬۰۰۰ نفر
زبانعربی عراقی

سامرا عراق کے زیارتی شہروں میں سے ایک ہے جہاں اہل تشیع کے دو امام، امام علی النقیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے ضریح مطہر واقع ہیں۔ یہ شہر صوبہ صلاح الدین کے مرکز میں تکریت اور بغداد کے درمیان واقع ہے۔ سامرا سنہ ۲۲۱ ہجری قمری میں معتصم عباسی کے دور خلافت میں مرکز خلافت تھا۔ یہ شہر شیعوں کے دو امام امام علی النقیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے حرم مطہر کی موجودگی کی وجہ سے "عسکریین" کے نام سے بھی مشہور ہے۔ شیعہ تاریخی منابع کے مطابق امام زمانہ(عج) کا محل ولادت بھی اسی شہر میں ہے۔

وجہ نامگزاری

یاقوت حموی نے نقل کیا ہے کہ اس شہر کو "سام بن نوح" نے تعمیر کیا تھا اس بنا پر اس کا نام "سام راہ" یعنی سام فرزند نوح کے عبور و مرور کی جگہ۔[1]

ابن بطوطہ اس نام کو "سام را" سے ماخوذ جانتے ہیں جس کی معنی وہ شہر جسے "سام" کیلئے بنایا گیا ہو، ہے۔[2] ایک اور قول کے مطابق اس کا نام "شام راہ"؛ یعنی عراق کا شام جانے کا راستہ اس جگہے سے تھا اسلئے یہ نام رکھا گیا تھا۔ بعض لوگ اسے قدیم رومی لفظ "سومرا" سے مشتق جانتے ہیں۔[3] تاریخی شواہد کے مطابق یہ شہر ساسانیوں کے دور میں ایران کے زیر کنٹرول تھا اور وہاں کے لوگ ایرانی پادشاہوں کو مالیات ادا کرتے تھے۔ مورخین اس شہر کے نامگزاری کی ایک علت کو "ساءمرہ" (محل حساب) قرار دیتے ہیں۔[4]

بعض مورخین اس بات کے قائل ہیں کہ اسلام سے پہلے ساسانیوں کے دور میں "شاپور" "ذوالاکتاف" نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ [5]

سامرا کے دیگر ناموں میں، سامراہ، سامرہ، سراء، سُرَّ من رأی، سرور من رأی، ساء من رأی، عسکر اور تیرہان کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں[6]

محل وقوع

شہر سامرا دریائے دجلہ کے مشرق اور بغداد کے شمال میں واقع ہے۔ یہ شہر صلاح الدین صوبے کا دار الخلافہ ہے اور بغداد سے ۱۲۴ کیلومٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سامرا مشرق میں کرکوک، شمال میں نینوا مغرب میں الانبار اور جنوب میں بغداد سے جا ملتی ہے۔

تاریخچہ

سنہ 221 ہجری قمری میں عباسی خلیفہ ہارون رشید کے فرزند معتصم عباسی نے دارلخلافہ کو بغداد سے سامرا منتقل کیا یوں یہ شہر سنہ276 ہجری قمری تک عراق میں عباسی حکومت کا دارالخلافہ رہا۔ درالخلافہ کی اس منتقلی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ معتصم کے دور میں عباسی حکومت کے اکثر سپاہی ترکوں کی تھی اور بغداد ان تمام سپاہیوں کیلئے مناسب نہیں تھا، دوسری طرف سے لوگوں کیلئے بھی سپاہیوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے مزاحمت ایجاد ہو رہی تھی یوں اس نے فیصلہ کیا کہ ایک مناسب جگہ تلاش کی جائے اور اس حوالے سے "سامرا" کو موضون اور مناسب پایا اسلئے دارالخلافہ کو بغداد سے "سامرا" منتقل کیا۔ سامرا نے "معتصم" عباسی کے دور میں بہت زیادہ ترقی کی اور ہر حوالے سے یہ شہر ایک آباد شہر کہلانے کے قابل ہو گیا تھا جگہ جگہ قلعہ جات تعمیر ہوئی، تفریح گاہیں بنائی گئی، بازار، مساجد اور مختلف قسم کے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ سامرا کی یہ عظمت اور شان و شوکت معتمد عباسی (دوران حکومت سنہ 256 ہجری قمری سے سنہ 279 ہجری قمری) تک جاری رہی یہاں تک کہ اس نے دارالخلافہ کو دوبارہ بغداد منتقل کر دیا۔[7]

شیعوں کے دو اماموں کا اس شہر میں قیام

متوکل عباسی نے  سنہ 233 ہجری قمری میں امام علی نقیؑ کو مدینہ سے سامرا بلایا اور کیونکہ اس کے جاسوس اسے یہ رپورٹ دے رہے تھے کہ لوگ روز بروز امامؑ کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی تناظر میں حکومت وقت امامؑ کی طرف سے حکومت کے خلاف قیام کرنے سے خوف محسوس کرتے تھے اسلئے امامؑ کو مدینہ سے سامرا بلایا تاکہ اپنی زیر نگرانی میں رکھا جائے اور امامؑ سے لوگوں کی رفت و آمد پر بھی نظر رکھی جا سکے۔ [8] متوکل نے امام علی نقیؑ کو مدینہ سے بغداد پھر وہاں سے سامرا لے آیا اور 20 سال 9 ماہ تک امامؑ کو وہاں رکھا گیا یہاں تک کہ معتز عباسی کے دور حکومت میں اس نے امامؑ کو زہر سے مسموم کیا اور اسی سے امامؑ شہید ہوئے اور اسی شہر میں ہی دفن ہوئے جہاں آج حرم عسکریین کے نام سے امام علی نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ کا روضہ مبارکہ شیعیان جہاں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ [9]

امام حسن عسکریؑ کو بھی اپنے والد ماجد امام علی نقیؑ کے ساتھ سامرا لایا گیا اور اپنے پدر گرامی کی شہادت تک ان کے ہمراہ وہیں پر مقیم رہے۔[10] امام حسن عسکریؑ 1 ربیع‌ الاول سنہ 260 ہجری قمری کو بیمار ہوئے اسی مہینے کی آٹھویں تاریخ کو ۲۸ سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور اسی گھر میں جہاں امام علی نقیؑ مدفون تھے دفن ہوئے جو آج حرم عسکریین سے معروف ہے۔[11] طبرسی (متوفای سال ۵۴۸ ہجری قمری) لکھتے ہیں: ہمارے علماء کی اکثریت اس بات کے معتقد ہیں کہ امام حسن عسکریؑ کی شہادت کی وجہ بھی زہر سے مسموم ہونا ہے۔ یعنی انہیں بھی زہر دی گئی تھی جس کی وجہ سے آپ شہید ہوئے۔[12]


حوزہ علمیہ سامرا

شعبان سنہ 1290 ہجری قمری کو شیعہ مرجع تقلید میرزائے شیرازی نے شہر سامرا کوچ کیا اور وہاں ایک حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی۔ اس حوزہ میں بڑے بڑے علماء نے تعلیم حاصل کی منجملہ ان میں سید حسن صدر، سید محسن امین، محمد جواد بلاغی اور آقا بزرگ تہرانی شامل ہیں۔ تحریم تنباکو کا فتوا مرزائے شیررازی نے سامرا میں اقامت کے دوران صادر کیا تھا۔

شیعوں کا سامرا کو ترک کرنا

سنہ 1312 ہجری قمری میں میرزائے شیرازی کی سامرا میں رحلت کے بعد شیعوں نے آہستہ آہستہ سامرا کو ترک کرنا شروع کیا اور عراق کے دوسرے شیعہ نشین شہروں خاص طور پر عراق کے جنوب میں واقع کربلائے معلی اور نجف اشرف کا رخ کیا یوں سامرا رفتہ رفتہ ایک سنی نشین شہر میں تبدیل ہو گیا۔ عراق میں بعث پارٹی کی حکومت کے کئی دہائیوں کے دوران سامرا میں شیعوں کی آبادی تقریبا ختم ہو گئی۔

سامرا میں عباسی حکمران

شہر سامرا کی پرانی تصویر

نصف صدی کے عرصے میں تقریبا 8 عباسی خلفاء نے سامرا پر حکومت کی جو درج ذیل ہیں:

  • معتصم عباسی (سال ۲۱۸ ہجری قمری - سال ۲۲۷ ہجری قمری)
  • واثق عباسی (سال ۲۲۷ ہجری قمری- سال ۲۳۲ ہجری قمری)
  • متوکل عباسی (سال ۲۳۲ ہجری قمری- سال ۲۴۷ ہجری قمری)
  • منتصرعباسی (سال ۲۴۷ ہجری قمری- سال ۲۴۸ ہجری قمری)
  • مستعین عباسی (سال ۲۴۸ ہجری قمری- سال ۲۵۲ ہجری قمری)
  • معتز عباسی (سال ۲۵۲ ہجری قمری- سال ۲۵۵ ہجری قمری)
  • مہتدی عباسی (سال ۲۵۵ ہجری قمری- سال ۲۵۶ ہجری قمری)
  • معتمد عباسی (سال ۲۵۶ ہجری قمری- سال ۲۷۹ ہجری قمری)

سامرا کے تاریخی آثار

مسجد جامع سامرا کا مینار ملویہ
  • مسجد جامع سامرا جو "جامع المتوکل" کے نام سے معروف ہے عراق کے قدیمی ترین مساجد میں شمار ہوتا ہے جس کی تعمیر متوکل عباسی کے دور حکومت میں ہوئی ۔
  • سرداب مقدس امام حسن عسکریؑ کے گھر کا تہ خانے کو کہا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ امام مہدی(عج) کو اپنے پدر گرامی کی حیات میں اور انکی رحلت کے بعد کئی بار اس جگہ پر دیگھا کیا ہے۔ اور اس جگہ کو سرداب غیبت بھی کہا جاتا ہے جسکی علت بھی یہی ہے کہ یہاں پر امام زمانہ(عج) خدا کے حکم سے لوگوں کی نظروں سے غائب ہوئے تھے۔
  • میناره ملویہ مسجد جامع سامرا کے شمالی گوشے میں ایک مینار ہے جو کئی صدیوں کے بعد ابھی تک موجود ہے اور ہر دیکھنے والے کی آنکھوں کو دور سے اپنی جانب جلب کرتی ہے۔
  • "متوکلیہ" سامرا کا قدیمی شہر جو متوکل عباسی کے ہاتھوں تعمیر ہوئی تھی آجکل اس کے کھنڈرات سامرا کے شمال میں موجود ہے۔
  • "جامع ابی دُلَف" نامی مسجد جس کا نام عباسی دور حکومت کے شیعہ کمانڈر ابودلف قاسم بن عیسی کے نام پر رکھی گئی ہے۔
  • سامرا کے قلعے جو عباسی خلفاء کے ہاتھوں تعمیر ہوئی تھی اور آجکل ان کی فقط دیواریں اور ستونیں باقی ہیں۔[13]

سامرا کے زیارتی اماکن

حرم عسکریین

امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے ضریح مقدس سامرا کے اہم ترین زیارتی مقامات میں سے ہیں۔

  • تخریب حرم عسکریین

حرم امامین عسکریینؑ دو دفعہ دہشتگردوں کے ہاتوں تخریب ہوئی۔ پہلی دفعہ۳ اسفند سال ۱۳۸۴ ہجری شمسی کو جبکہ دوسری دفعہ 16 ماہ بعد ۲۳ خرداد سال ۱۳۸۶ ہجری شمسی کو۔

پہلی تخریب میں تقریبا 200 کلوگرام سے بھی زیادہ مواد کے ذریعے گنبد اور مینار کا کچھ حصہ خراب ہوا جبکہ دوسرے حملے میں میناریں خراب ہوئیں۔

ان حملوں کے بعد ان دو اماموں کے ضریح مقدس کی دوبارہ تعمیر نو شروع ہوئی جو ابھی تقریبا انہائی مراحل میں ہے اور خدا کے فضل و کرم اور مومنین کی مدد سے یہ ضریح مقدس پہلے سے بھی بہتر اور شان و شوکت کے ساتھ تعمیر ہوئی ہے انشاء اللہ تمام مومنین کو اس ضریح مقدس کی زیارت نصیب فرما۔

مقدس سرداب

سرداب غیبت، امام حسن عسکریؑ کے گھر کے تہ خانے کو کہا جاتا ہے جو اسوقت حرم عسکریین کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جگہ گرمیوں میں امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ کی عبادت گاہ تھی ۔ بعض تاریخی شواہد کی بنا پر امام مہدی(عج) بھی اپنے پدر بزرگوار کی حیات میں اور ان کی رحلت کے بعد کئی دفعہ اسی جگہ پر دیکھا گیا ہے۔

سامرا میں مدفون شخصیات

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. معجم البلدان، ج۳، ص۱۷۲ و ۱۷۳.
  2. الرحلہ، ج۱، ص۱۴۷.
  3. الرحلہ، ج۱، ص۱۴۷.
  4. معجم البلدان، همان.
  5. موسوعہ العتبات المقدسہ، ج۹، ص۱۹.
  6. معجم البلدان، ہمان.
  7. مأثر الکبراء فی تاریخ سامرا، ج۱، ص۳۱ بہ بعد. موسوعۃ العتبات ج۱۲، ص۸۰ بہ بعد.
  8. ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج۲ ص۴۹۳.
  9. الخطیب البغدادی، تاریخ بغداد، ج۱۲، تحقیق: مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۷ق. /۱۹۹۷م.، ص۵۶.
  10. جعفریان، حیات فکری سیاسی امامان شیعہ، ص۵۰۰.
  11. شیخ مفید، الارشاد، ص۵۱۰.
  12. طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج۲، ص۱۳۱ـ۱۳۲.
  13. اماکن زیارتی و سیاحتی عراق، ص ۷۳ - ۷۵. عتبات عالیات عراق.
  14. صحتی سردرودی، گزیدہ سیمای سامرا سینای سہ موسی، ص ۱۱۶
  15. عتبات عالیات عراق.
  16. ابن‌بابویہ، ص ۴۹۴
  17. ابن‌حزم ص:۶۱
  18. احسان مقدس، ص۳۱۲

مآخذ

  • ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا، قم ۱۳۸۴/ ۱۴۲۶.
  • ابن‌ حزم، جمہرۃ انساب‌العرب، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
  • احسان مقدس؛ راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق،،نشر مشعر، ص۳۱۲.
  • جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہؑ، قم، انصاریان، چ۵، ۱۳۸۱ش.
  • موسوعہ العتبات المقدسہ.
  • معجم البلدان.
  • الرحلہ، ابن بطوطہ.
  • مأثر الکبراء فی تاریخ سامرا.
  • اماکن زیارتی و سیاحتی عراق.
  • عتبات عالیات عراق.
  • صحتی سردرودی، محمد، گزیدہ سیمای سامرا سینای سہ موسی، مشعر، تہران، ١٣٨٨ش.