قیام خراسانی

ویکی شیعہ سے

قِیامِ خُراسانی، امام مہدیؑ کے ظہور کی نشانیوں میں سے ہے۔ جس کے مطابق سفیانی کے خروج اور قیام یمانی کے ساتھ خراسان کا ایک شخص بھی قیام کرے گا۔ بعض محققین کے مطابق خراسانی کالا پرچم لے کر آئے گا جس کی لشکر شعیب بن صالح کی قیادت میں سفیانی کو شکست دے گی۔

البتہ کالے پرچم کے بارے میں مہدویت پر تحقیق کرنے والے محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اس سے مراد ابومسلم خراسانی کا پرچم لیتے ہیں جس نے بنی امیہ کے خلاف قیام کیا تھا جبکہ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ اس سے مراد ایک اور قیام ہے جو امام زمانہ کے ظہور کے وقت وقوع پذیر ہو گا۔

سید خراسانی

ظہور کی نشانیوں سے مربوط روایات میں سید خراسانی کا قیام، امام مہدی(عج) کے ظہور کی نشانیوں سے ایک نشانی ہے۔[1] خراسانی کا عنوان خراسان سے مربوط روایات، مشرق کی سرزمین اور اہل خراسان کے ساتھ قیام کرنے والے سے اخذ کیا گیا ہے۔[2]

مذکورہ روایات میں یوں خراسانی کا سید ہونا ذکر نہیں ہوا ہے۔[3] اس کے باوجود علی کورانی اپنی کتاب عصر الظہور میں لکھتے ہیں کہ اہل سنت مآخذ[4] اور بعض شیعہ متأخر مآخذ میں خراسانی کو امام حسنؑ یا امام حسینؑ کی نسل سے قرار دیا گیا ہے اور خراسانیِ ہاشمی سے یاد کیا گیا ہے۔[5] اسی لئے خراسانی کو سید خراسانی بھی کہا گیا ہے۔[6] اسی طرح ان مآخذ میں بعض دیگر خصوصیات بھی ذکر ہوئی ہیں، جیسے دائیں رخسار اور دائیں ہاتھ پر خال کا ہونا۔[7]

قیامِ خراسانی ظہور کی نشانی؟

خراسانی کا قیام، ندائے آسمانی، قتل نفس زکیہ، خروج سفیانی اور خسف بیداء کی طرح ظہور کی ایک نشانی قرار دیا ہے۔[8] امام صادقؑ سے منسوب ایک روایت کے مطابق خراسانی، سفیانی اور یمانی تینوں ایک ہی سال، ایک ہی مہینہ اور ایک ہی دن ایک ساتھ قیام کریں گے۔[9] روایات میں آیا ہے کہ خراسانی کا قیام مشرق (مشرقی اسلامی ممالک) سے ہوگا اور عراق کی طرف پیش قدمی کرے گا۔[10]دانشنامہ امام مہدی میں اس روایت کی سند کے بارے میں شک و تردید کیا ہے۔[11]

کالے پرچم اور سید خراسانی

کالے پرچم کو حرکت دینا ایسے قیام کی طرف اشارہ جو مشرق زمین سے شروع ہوگا اور بعض روایات میں اسے امام زمانہ کے ظہور کی نشانی قرار دی گئی ہے۔[12] بعض روایات کے مطابق یہ کالے پرچم خراسان کے بنی ہاشم کے ایک جوان کے متعلق ہے اور اس قیام میں "شعیب بن صالح" ان کے ہمراہ ہونگے۔[13]

بعض شیعہ محققین کا کہنا ہے کالے پرچم سے مراد ابومسلم خراسانی کا قیام ہے جس نے بنی امیہ کی حکومت کے خلاف قیام کیا تھا جس کے نتیجے میں بنی عباس کی حکومت تشکیل پائی۔[14] [15]جبکہ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ اس سے مراد ایک اور قیام ہے جو امام زمانہ کے ظہور سے پہلے وقوع پذیر ہوگا۔[16]

کتاب عصر الظہور کے مؤلف کے مطابق کالے پرچم سید خراسانی سے متعلق ہیں جس کی لشکر کی سپہسالاری شعیب بن صالح کریں گے اور ان کی سفیانی سے جنگ ہوگی جس میں سفیانی کی لشکر کو شکست ہوگی۔[17]وہ امام مہدی(عج) کی بیعت کریں گے۔[18]

اس بات پر اعتراض ہوا ہے کہ کتاب عصرالظہور نے اپنے مدعا کے اثبات کے لئے ان احادیث سے استناد کیا ہے جو ابن حَمّاد کی کتاب الفِتَن میں ذکر ہوئی ہیں جس میں خراسانی کا کوئی نام نہیں ہے اور اسی طرح یہ کتاب شیعوں کے ہاں معتبر نہیں ہے کیونکہ اس میں ذکر شدہ بہت ساری احادیث معصوم سے نقل نہیں ہوئی ہیں۔[19]

جدید تطبیقات

سنہ ١٣٨٩ش میں "ظہور بسیار نزدیک است" (ظہور بہت نزدیک ہے) کے عنوان سے ایک "سی ڈی" منتشر کی گئی جو ایک مستند فیلم پر مشتمل تھی. اس فیلم کو بنانے والے معتقد تھے کہ جمہوری اسلامی ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای، سید خراسانی اور حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ، وہی یمانی ہے. اور ایران کے اس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد کو شعیب بن صالح کہا تھا. اس فیلم کے منتشر ہونے پر بہت اعتراضات ہوئے اور مہدویت کے موضوع کے اہل تحقیق چند افراد نے اسے بی دلیل اور نادرست کہا۔[20]

حوالہ جات

  1. نعمانی، الغیبہ، 1397ھ، ص290.
  2. کورانی، عصر الظہور، 1408ھ، ص243؛ محمدی ری شہری و دیگران، دانشنامہ امام مہدی، ج7، 1393شمسی، ص447.
  3. کورانی، عصر الظہور، 1408ھ، ص242.
  4. ملاحظہ کریں: ابن حماد، کتاب الفتن، دارالکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص214.
  5. کورانی، عصر الظہور، 1408ھ، ص242.
  6. ملاحظہ کریں: کورانی، عصرالظہور، 1408ھ، ص234، 205، 147.
  7. کورانی، عصر الظہور، 1408ھ، ص242.
  8. نعمانی، الغیبہ، 1397ھ، ص290.
  9. نعمانی، الغیبہ، 1397ھ، ص255-256؛ طوسی، الغیبہ، 1411ھ، ص446-447.
  10. نعمانی، الغیبۃ، 1397ھ، ص256-255.
  11. ملاحظہ کریں: محمدی ری شہری و دیگران، دانشنامہ امام مہدی، ج7، 1393شمسی، ص445-447.
  12. ملاحظہ کریں: نعمانی، الغیبۃ، 1397ھ، ص251.
  13. ابن حماد، کتاب الفتن، دارالکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص214 و216؛ ابن طاووس، التشریف بالمنن، 1416ھ، ص120.
  14. ملاحظہ کریں: محمدی ری شہری و دیگران، دانشنامہ امام مہدی، ج6، 1393شمسی، ص64، 65؛ صدر، تاریخ الغیبۃ الکبری، 1412ھ، ص453.
  15. نگاہ کنید بہ کورانی، عصر الظہور، 1408ھ، ص242و243.
  16. ملاحظہ کریں: کورانی، عصر الظہور، 1408ھ، ص242و243.
  17. کورانی، عصرالظہور، 1408ھ، ص242.
  18. کورانی، عصرالظہور، 1408ھ، ص137.
  19. محمدی ری شہری و دیگران، دانشنامہ امام مہدی، ج7، 1393شمسی، ص448.
  20. پیشگر، شعیب بن صالح کیست؟، تبیان.

مآخذ

  • ابن حماد، نعیم بن حماد، کتاب الفتن، تصحیح مجدی بن منصور شوری، بیروت، دارالکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، بی تا.
  • ابن طاووس، علی بن موسی، التشریف بالمنن فی التعریف بالفتن، قم، مؤسسہ صاحب الامر، چاپ اول، 1416ھ۔
  • پیشگر، امید، شعیب بن صالح کیست؟، تبیان، درج مطلب: 22 تیر 1390شمسی، 9 تیر 1400ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ، تحقیق، تہرانی عباداللہ، ناصح، علی احمد، قم، دارالمعارف الاسلامیہ، چاپ اول، 1411ھ۔
  • صدر، سید محمد، تاریخ الغیبۃ الکبری، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، بیروت، 1412ھ۔
  • کورانی، علی، عصر الظہور، مرکز النشر مکتب الاعلام الاسلامی، الطبعۃ الاولی، 1408ھ۔
  • محمدی ری شہری، محمد، دانشنامہ امام مہدی(عج)، قم، دار الحدیث، 1393ہجری شمسی۔
  • نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبۃ، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، نشر صدوق، چاپ اول، 1397ھ۔