عمرو بن حمق خزاعی

ویکی شیعہ سے
عمرو بن حمق خزاعی
کوائف
مکمل نامعمرو بن حمق خزاعی
تاریخ پیدائشہجرت سے کم سے کم 30 سال پہلے
اقاربآمنہ بنت شرید
دینی معلومات
اسلام لاناصلح حدیبیہ کے بعد
ہجرتشام کی طرف جلا وطنی اور کوفہ کی طرف ہجرت
نمایاں کارنامےراوی


عَمرو بن حَمِق خُزاعی (متوفی سنہ 50 ہجری) صحابی پیغمبرؐ اور حضرت علیؑ و امام حسنؑ کے ساتھیوں میں سے تھے۔ انہوں نے جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں حضرت علیؑ کی حمایت میں شرکت کی۔ عمرو بن حمق معاویہ کے کارندوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور وہ پہلے اسلام کے شہید تھے جن کا سر شہر بہ شہر پھرایا گیا۔ ان کا نام پیغمبر اکرمؑ کے راویوں میں شمار ہوتا تھا اور حدیث غدیر کے راوی بھی تھے۔

اسلام سے پہلے

عمرو بن حمق بن کاہن بن حبیب خزاعی کا تعلق قبیلہ خزاعہ سے تھا۔ اسلام سے پہلے ان کی زندگی کے بارے میں کچھ خاص اطلاعات نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شہادت کے وقت اسّی سال کے تھے[1] تو اس لحاظ سے اگر ان کی شہادت 50 ہجری میں ہوئی ہے تو کم سے کم سال ہجرت سے تیس سال پہلے ان کی ولادت ہوئی ہوگی۔

پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ

ابن اثیر کے مطابق، عمرو صلح حدیبیہ کے بعد خدمت پیغمبر اکرمؐ میں آکر مشرف بہ اسلام ہوئے البتہ اس نے دوسرا قول بھی نقل کیا ہے جس کی بنا پر وہ حجۃ الوداع کے بعد مسلمان ہوئے لیکن پہلا والا قول زیادہ صحیح ہے۔[2] وہ صحابی پیغمبر بھی تھے اور آنحضرتؐ کی حدیثوں کو حفظ بھی کر رکھا تھا اور جبیر بن نُفَیر، رفاعہ بن شداد اور دوسرے لوگ نے بھی ان سے حدیث کو نقل کیا ہے۔[3] اور اسی طرح حدیث غدیر کے راویوں میں سے بھی ہیں۔[4] نقل ہوا ہے کہ ایک دن عمرو نے پیغمبر اکرمؐ کو پانی پلایا تو انحضرتؐ نے ان کے حق میں اس طرح دعا کی: «اَللّهُمَّ مَتِّعهُ بِشَبابِه» پروردگارا! اس کی جوانی اس کے لئے مفید قرار دے۔ اسی دعا کی برکت سے 80 سال تک عمرو کے سر کا کوئی ایک بال بھی سفید نہیں ہوا۔[5]

تینوں خلفاء کے زمانے میں

پیغمبر اکرمؐ کے بعد عمرو نے کچھ متد تک شام[6] اور ایک نقل کے مطابق مصر[7] میں زندگی بسر کی، اس کے بعد کوفہ آ گئے اور وہیں مستقل اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔[8] وہ عثمان کے مخالف تھے۔ محمد بن جریر طبری کے مطابق، عمرو بن حمق خزاعی و دیگر افراد نے کوفہ میں عثمان بن عفان کی مخالفت میں ایک جلسہ کیا جس کی شکایت سعید بن عاص نے عثمان سے کی جس کے نتیجہ میں عثمان نے انہیں شام کی طرف جلا وطن کر دیا۔[9] ابو عمر نے الاستیعاب میں یہ نقل کیا ہے کہ عمرو ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے مدینہ کا سفر (عثمان کے رویہ اور سنت سے انحراف کے لئے) کیا اور ان چار لوگوں میں سے تھے جنہوں نے عثمان کے گھر پر حملہ کیا۔[10] بعض لوگوں نے انہیں عثمان کا قاتل بھی بتایا ہے جس نے نو (9) ضرب اس کے سر پر لگائی۔[11]

حضرت علیؑ کی حکومت کے ساتھ

حضرت علیؑ کو خلافت ملنے کے بعد، عمرو آنحضرت کے قریبی شیعوں میں سے ہو گئے تھے۔ کشی نے انہیں حضرت علیؑ کے حواریوں میں شمار کیا ہے۔[12] اس نقل کی بنا پر عمرو بن حمق حضرت علیؑ کی نسبت ویسے ہی تھے جیسے سلمان فارسی پیغمبر اکرمؐ کی نسبت تھے۔[13]

انہوں نے جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں شرکت کی تھی۔[14] امامؑ نے عمرو سے فرمایا: کاش میرے لشکر میں 100 سپاہی تمہارے جیسے ہوتے، اور ان کے لئے اس طرح دعا فرمائی «خدایا! اس کے قلب کو تقوی سے روشن فرما اور اپنے راستے کو اس پر نمایاں کر»[15]

جنگ صفین میں جب لشکر معاویہ نے قرآن کو نیزوں پر اٹھا لیا تو عمرو بن حمق نے حضرت علیؑ کا دفاع کیا اور اس لشکر کی مخالفت کرتے ہوئے حضرت علیؑ سے کہا: اے امیر المؤمنین! خدا کی قسم، ہم نے آپ کا دفاع اور مدد باطل کے خلاف تعصب کی وجہ سے نہیں کیا، ہم نے خدا کے سوا کسی کو لبیک نہیں کہا اور حق کے سوا کچھ مانگا نہیں۔ اور اگر آپ کے علاوہ کسی اور نے بھی ہمیں دعوت دی ہوتی جیسے آپ نے ہمیں دعوت دی تو تنازعہ اور بات چیت شدت اختیار کر لیتی اور حق نابود ہو جاتا۔[16] عمرو، امامؑ کے ان ساتھیوں میں سے ایک تھے جو حکمیت کے سلسلے میں حسن بن علیؑ، حسین بن علیؑ، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن جعفر اور مالک اشتر نے معاویہ کے نمائندے کے ساتھ امام علیؑ کی ملاقات میں ان شرائط کے بارے میں گواہی دی جو امام علیؑ نے حکمیت کے لئے طے کیا تھا۔[17]

شہادت

عمرو کا شمار امام حسن کے ساتھیوں میں بھی ہوتا ہے۔[18] امام حسنؑ کی صلح کے بعد اور معاویہ کی حکومت آنے پر زیاد، کوفہ کا گورنر منصوب ہو گیا اور اس نے نامی گرامی شیعوں کا قتل عام شروع کر دیا اسی وجہ سے عمرو بن حمق کوفہ سے فرار کر گئے۔ لیکن سنہ 50 ہجری میں معاویہ کے آلہ کاروں کے ذریعہ شہید ہو گئے۔[19] ان کی شہادت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے: بعض کا خیال ہے کہ معاویہ کے امان نامہ دینے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ امام حسینؑ کا معاویہ کو خط اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے: کیا تم وہ نہیں جس نے عمرو بن حمق خزاعی کو کہ جس کا جسم اور چہرہ عبادت کے اثر سے رنجور ہو گیا تھا شہید کر دیا؟ اور وہ بھی امان نامہ دینے اور پیمان باندھنے کے بعد؟ وہی امان و پیمان کہ اگر صحرائی ہرن کو بھی دیتے تو وہ بھی پہاڑوں سے اطمینان کے ساتھ نیچے آتے۔[20]

بعض نے کہا ہے کہ عمرو کو معاویہ کے والی بلتعہ بن عبداللہ نے گرفتار کیا تھا۔ بلتعہ نے عمرو کی گرفتاری کے بعد ان کو موصل کے گورنر عبد الرحمن بن عبداللہ ثقفی کے پاس بھیج دیا۔ عبدالرحمن نے معاویہ کو خط لکھا اور عمرو کی گرفتاری کی اسے اطلاع دی، معاویہ نے عمرو کو قتل عثمان میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے یہ لکھا: «عمرو خود ہی یہ جانتا ہے کہ اس نے اپنے ہاتھ کے نیزے سے نو ضربت عثمان کے سر پہ لگائی تھی۔ ہم بھی اس سے زیادہ اسے اذیت نہیں دینا چاہتے، تم بھی 9 ضرب اس پر لگاؤ» عبدالرحمن انہیں باہر لایا اور اس پر معاویہ کا فرمان جاری کرنے کا حکم دیا۔ عمرو پہلی یا دوسری ضربت میں شہید ہو گئے۔[21]

ابن عبد البر نے عمرو بن حمق کے قتل ہونے کی وجہ یہ بتائی کہ جس غار میں وہ پناہ لئے تھے وہاں انہیں ایک سانپ نے کاٹ لیا تھا۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ زیاد کے ایجنٹ نے پیچھا کیا اور جب مردہ پایا تو ان کا سر تن سے جدا کر کے زیاد کے پاس بھیج دیا اور زیاد نے معاویہ کے پاس۔[22]

سرِ عمرو کو شہر شہر پھرانا

معاویہ نے عمرو کی شہادت کے بارے میں یہ حکم دیا تھا کہ ان کے سر کی مختلف شہروں میں نمائش کی جائے۔[23] اس کے بعد معاویہ نے حکم دیا کہ عمرو کے سر کو اس کی زوجہ آمنہ بنت شرید کے پاس بھیجا جائے جو دمشق کے قید خانہ میں ہے۔ عمرو کی زوجہ نے معاویہ پر لعنت کی۔ معاویہ نے دارالخلافہ میں انہیں حاضر کرنے کا حکم دیا[24] پھر ان دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔[25]

عمرو بن حمق کی آرام گاہ

ابن اثیر (متوفی 630ھ) نے عمرو بن حمق کی زیارت گاہ کو موصل شہر سے باہر جانا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اسے سیف الدولہ اور ناصر الدولہ حَمدانی کے چچا زاد بھائی سعید بن حمدان نے شعبان سنہ 336 ہجری میں بنایا تھا۔[26]

حوالہ جات

  1. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص ۳۶۷۔
  2. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۳۶۷
  3. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، ص۲۵۷
  4. امینی، الغدیر، مترجم واحدی، ج۱، ص۱۵۰
  5. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص ۳۶۷
  6. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، ص۲۵۷؛ دیکھئے: ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج۲، ص۵۲۶
  7. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۳۶۷
  8. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۳۶۷
  9. طبری، تاریخ طبری، مترجم پایندہ، ج۶، ص۲۱۹۹
  10. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، ص۲۵۸
  11. ابن کثیر،‌ البدایہ و النہایہ، ج۷، ص۱۸۸
  12. رجال الکشی، إختیار معرفۃ الرجال، ص۲۱۰
  13. مجلسی، بحار الأنوار، ج۳۴، ص۲۷۴
  14. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۳، ص۲۵۸
  15. قرشی، زندگی حسن بن علی، ج۲، ص۴۵۸
  16. نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص۴۸۲
  17. ابن قتیبہ دینوری، الاخبار الطوال، ص۱۹۶
  18. طوسی، رجال طوسی، ص۶۹
  19. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، ص۲۵۸
  20. الامامہ و السیاسہ، دینوری، ص۱۵۶
  21. قرشی، زندگی حسن بن علی، ج۲، ص۴۵۹
  22. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۳، ص۲۵۸
  23. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۳، ص۲۵۸
  24. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۳۶۸
  25. قرشی، زندگی حسن بن علی، ج۲، ص۴۶۲-۴۵۹
  26. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۳۶۸

۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ فی معرفہ الصحابہ، دارالمعرفہ، بیروت، ۲۰۰۱ء۔
  • ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، دارالکتاب العربی، بیروت، بی‌تا۔
  • ابن‌ عبدالبر، یوسف‌ بن‌ عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، درالکتب العلمیہ، بیروت ۱۹۹۵ء۔
  • ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، تحقیق: طہ محمد الزینی، موسسۃ الحلبی و شرکاہ، بی‌جا، بی‌تا۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، بیروت،‌ دارالفکر، ۱۴۰۷ق-۱۹۸۶ء۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، ترجمہ: واحدی، محمد تقی، انتشارات بنیاد بعثت، ۱۳۹۰ء۔
  • دینوری، احمد بن داوود، الاخبار الطوال، منشورات الشریف الرضی، قم، ۱۴۱۲ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال طوسی، منشورات رضی، قم، افست از چاپ مکتبۃ الحیدریہ، نجف، ۱۹۶۱ء۔
  • قرشی، باقر شریف، زندگی حسن بن علی(ع)، ترجمہ: حجازی، فخرالدین، موسسہ انتشارات بعثت، تہران، ۱۳۵۳ش۔
  • کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی اختیار معرفۃ الرجال، محقق: طوسی، محمد بن حسن / مصطفوی، حسن، مؤسسہ نشر دانشگاہ مشہد، مشہد، ۱۴۰۹ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الأنوار،‌ دار إحیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۳ھ۔
  • محمد بن جبیر، طبری، تاریخ الامم و الرسل و الملوک، مترجم: ابوالقاسم، پایندہ، انتشارات بنیاد فرہنگ ایران، تہران، ۱۳۵۲ش۔
  • مفید، محمد بن محمد، الإختصاص، تصحیح غفاری، علی ‌اکبر و محرمی زرندی، محمود، الموتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، قم، ۱۴۱۳ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارۃ، محقق: میر شریفی، علی، کنگرہ شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ھ۔
  • نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، محقق: ہارون، عبد السلام محمد، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ھ۔