رجعت

ویکی شیعہ سے

رَجعَت کے معنی ہیں قیامت سے پہلے بعض فوت شدہ انسانوں کا زندہ ہونا۔ رجعت شیعہ مذہب سے مخصوص عقائد میں سے ہے اور اس کے اثبات کے لئے قرآنی آیات اور روایات سے استناد کیا جاتا ہے۔ رجعت شیعہ مکتب میں ضروریات مذہب میں سے شمار ہوتی ہے اور اس کی حقانیت کے سلسلے میں اجماع پایا جاتا ہے۔ شیعہ علماء کی اکثریت کے مطابق رجعت امام مہدی(عج) کے قیام اور آپ(عج) کے ظہور کے ساتھ رونما ہوگی۔

بعض علما کا عقیدہ ہے کہ رجعت کرنے والے اسی بدن کے ساتھ رجعت کریں گے جس بدن کے ساتھ وہ دنیا میں زندگی کرتے تھے۔ بعض دیگر علما کے مطابق وہ بدن مثالی کے ساتھ دنیا میں پلٹ آئیں گے۔ کچھ دیگر علما کا نظریہ ہے کہ خود رجعت کے واقع ہونے پر سب کا اتفاق ہے لیکن اس کی کیا کیفیت ہوگی؟ اس کی تفصیل معلوم نہیں، اس کا علم صرف خدا اور اس کے اولیاء کے پاس ہے۔

بعض احادیث کے مطابق سب سے پہلے رجعت کرنے والا شخص امام حسینؑ ہونگے۔ نیز دوسری بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد(ص)، امام علی ؑ اور باقی ائمہ معصومینؑ، مؤمنین، شہداء، اصحاب کہف، حضرت یوشع، مؤمن آل فرعون رجعت کرنے والوں میں سے ہونگے اسی طرح صنف نسواں میں سے ام‌ ایمن، حبابہ والبیہ، سمیہ اور صیانۃ ماشطۃ رجعت کریں گی۔ بعض دیگر روایات کے مطابق دشمنان اہل بیتؑ، انبیاء کے دشمنان نیز منافقین بھی رجعت کریں گے اور ان سے ناحق خون کا انتقام لیا جائے گا۔

رجعت کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ شیخ حر عاملی کی کتاب "الإیقاظ من الہجعۃ بالبرہان علی الرجعۃ" اور محمد رضا طبسی کی کتاب "الشیعۃ و الرجعۃ" ان قلمی آثار میں سے ہیں۔

مفہوم شناسی اور اہمیت

"رجعت" کے معنی ہیں بعض لوگوں کا مرنے کے بعد قیامت سے پہلے دنیا میں پلٹ کر آنا۔[1] شیخ مفید کے مطابق شیعہ مذہب میں رجعت کا مطلب یہ ہے کہ امام مہدی(عج) کی شہدا کے بعد امام علیؑ اور باقی ائمہؑ کا دنیا میں واپس آنا۔ ائمہؑ کی واپسی کے بعد وہ بغیر کسی رکاوٹ اور اختلاف کے روئے زمین پر ایک عادلانہ حکومت قائم کریں گے۔[2] رجعت کے لغوی معنی لوٹنے اور پلٹنے کے ہیں[3] اور احادیث میں "الکرّۃ" کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔[4]

رجعت ان عقیدتی امور میں سے ہے جن کا تعلق ایک طرف سے امامت اور مہدویت کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور دوسری طرف سے قیامت پر یقین پیدا ہونے اور ثواب و عقاب پر باور کرنے کا زمینہ فراہم کرتا ہے، اسی لیے کلام اسلامی میں اس کے اثبات و حقانیت کے سلسلے میں بحث کی جاتی ہے۔[5] رجعت ان موضوعات میں سے ہے جس کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت آپس میں اختلاف نظررکھتے ہیں۔[6]

عقیدہ رجعت کی ایک صورت یہودیت اورعیسائیت کی طرف بھی نسبت دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر توریت میں آیا ہے کہ بنی اسرائیل کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا، حضرت داؤد زندہ ہوکر حکومت کریں گے اور آخر الزمان میں بہت سے لوگ زندہ ہوجائیں گے۔ اسی طرح انجیل میں آیا ہے کہ حضرت عیسیؑ کے پیروکار رجعت کریں گے اور (دوسری) قیامت برپا ہونے سے پہلے، پہلی قیامت میں وہ لوگوں پر حکومت کریں گے۔[7]

عقیدہ رجعت تشیع کی نشانی

شیخ حر عاملی کے مطابق رجعت کا عقیدہ شیعہ مذہب کی خصوصیات میں سے ہے اور یہ شیعوں کی نشانی ہے۔[8] شیخ صدوق اپنی کتاب الاعتقادات میں لکھتے ہیں: شیعہ عقیدہ کے مطابق رجعت ایک برحق مسئلہ ہے۔[9] شیخ مفید[10] اور سید مرتضی[11] جیسے علماء نے رجعت کو ایک درست اور صحیح عقیدہ قرار دیتے ہوئے اس پر اجماع قائم ہونے کا دعوا کیا ہے۔

بعض شیعہ علما رجعت کو شیعہ مذہب کا مسلمہ عقیدہ اور اسے مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے قرار دیتے ہیں، بعض دیگر علماء بھی اگرچہ اسے ضروریات مذہب میں سے تو قرار نہیں دیتے لیکن اس کے انکار کو بھی جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[12] چنانچہ علامہ مجلسی نے اپنی کتاب حق الیقین مین رجعت کو ان مسائل میں سے مانتے ہیں جن پر شیعہ علما کا اجماع ہے اور اسے ضروریات مذہب شیعہ میں سے گردانتے ہیں[13] اور اس کے منکر ہونے کو مذہب شیعہ سے خارج ہونے کا سبب قرار دیتے ہیں۔[14] سید عبد اللہ شبر بھی رجعت کو ضروریات مذہب میں سے مانتے ہیں اور اس کے انکار کرنے کو مذہب شیعہ سے خارج ہونے کا سبب قرار دیتے ہیں۔[15] حر عاملی کے مطابق رجعت کا عقیدہ علمائے امامیہ کے نزدیک مسلمہ عقیدہ اور ضروریات مذہب میں سے ہے شیعہ مشہور علما میں سے کسی نے اس کے انکار میں نہ کوئی بات کہی ہے اور نہ کہیں تحریر ملتی ہے۔[16] لطف اللہ صافی گلپائیگانی لکھتے ہیں: رجعت کا عقیدہ مجموعی طور پر شیعوں کے نزدیک ایک مسلمہ عقیدہ ہے اور اس کا انکار قرآن اور متاوتر منابع حدیثی میں وارد شدہ احادیث متواترہ کو رد کرنے کے مترادف ہے۔[17]

البتہ بعض شیعہ علماء؛ جیسے سید محسن امین، محمد جواد مغنیہ اور محمد رضا مظفر رجعت کے عقیدہ کو شیعہ مذہب کی ضروریات میں سے نہیں گردانتے۔ ان علما کا خیال ہے کہ شیعہ اماموں کی روایات کی رو سے رجعت ثابت ہوتی ہیں لہذا ان روایات کی سند کو ماننے والوں کے لیے ضروری ہےکہ وہ اس پر رجعت پر عقیدہ رکھیں۔[18] رجعت کے سلسلے میں امام خمینی کا عقیدہ ہے کہ رجعت بذات خود ایک مسلمہ امر ہے لیکن اس کی خصوصیات اور کیفیت کے بارے میں عقیدہ رکھنا ضروری نہیں کیونکہ ہمارے پاس اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔[19]

رجعت کی کیفیت کے بارے میں مختلف آراء

شیخ مفید کہتے ہیں کہ علمائے مذہب امامیہ رجعت کے اثبات پر متفق القول ہیں۔ لیکن اس کے معنی اور کیفیت کے بارے میں ان کی مختلف آراء ہیں۔[20] سید عبد اللہ شبر کا کہنا ہے کہ اصل رجعت پر ایمان لانا واجب ہے لیکن ہم اس کی تفصیلات کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔ اس کا علم خدا اور اس کے اولیاء کے پاس ہے۔[21] بعض محدثین اور متکلمین کا خیال ہے کہ رجعت میں قیامت کی طرح، اللہ تعالیٰ مردہ جسموں کو دوبارہ زندہ کرے گا اورانہیں محشور کرے گا۔[22] مرتضی مطہری نے رجعت کی کیفیت کے بارے میں فیض کاشانی کے نقطہ نظر کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ررجعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مردے اسی دنیوی بدن کے ساتھ اس دنیا میں لوٹیں گے، بلکہ ان کی روحیں ایک خاص اور لطیف جسم کے ساتھ رجعت کریں گی؛ جیسا کہ اہل مکاشفہ اس طرح کی چیزوں کے مشاہدے کا دعا کرتے ہیں۔کا دعویٰ کرتے ہیں۔[23]

امام خمینی کا عقیدہ ہے کہ رجعت کرنے والوں کے نفوس بدن مُلکی (دنیاوی جسم) کے قالب میں رجعت کریں گے اور اسی بدن کے ساتھ دنیا میں ظاہر ہوجائیں گے۔[24] محمد علی شاہ آبادی کا کہنا ہے کہ رجعت کرنے والے بدن مثالی کے ساتھ دنیا میں آئیں گے۔[25] ایک شیعہ مصححِ حدیث محمد باقر بہبودی (1928-2014ء) کے نظریے کے مطابق رجعت ہر ایک پر ظاہر ہونے والی چیز نہیں ہے۔ رجعت کا یہ معنی کرنا کہ مردوں کو قبروں سے اٹھایا جائے گا؛ یہ ایک عامیانہ تصور ہے جو عقل اور قرآن کی منطق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ انسانوں کی رجعت موجودہ تکوینی نظام کی بنیاد پر واقع ہوگی۔ یعنی انسانی نطفے صلب پدر سے رحم مادر میں داخل ہونگے اور پیدائش کے بعد وہ ماضی کی یادوں کو بھول جائیں گے۔[26]

بعض علماء نے رجعت کے بارے میں وارد شدہ روایات کی تاویل کرتے ہوئے کہا کہ رجعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شیعہ ائمہؑ اپنے دنیوی بدن کے ساتھ دنیا میں واپس آجائیں، بلکہ رجعت کا مطلب یہ ہے حضرت مہدیؑ کے ظہور کے دور میں اماموں کی حکومتیں، قوانین، احکام اور اوامر و نواہی لوٹ آئیں گی۔[27] سید مرتضی نے اس قول کو مذہب امامیہ کی ایک قلیل تعداد سے منسوب کیا ہے اور اسے رد کیا ہے۔[28]

رجعت کب واقع ہوگی؟

مذہب امامیہ کے اکثر علماء کے نزدیک رجعت کا تعلق حضرت مہدی(عج) کے قیام اور ظہور سے ہے لیکن ظہور امام کب واقع ہوگا؟ اس سلسلے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔[29] شیعہ علماء کی اکثریت کا کہنا ہے کہ رجعت قیام امام مہدی(عج) اور آپؑ کے ظہور کے وقت وقوع پذیر ہوگی۔[30]

شیخ مفید نے اپنی کتاب الارشاد میں رجعت کو ظہور امامؑ کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے۔[31] تاہم بعض علماء نے ان روایات سے جن میں امام علیؑ کی متعدد رجعتوں کا ذکر کیا گیا ہے،[32] یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ رجعت، ظہور امام مہدی(عج) کے بعد واقع ہوگی۔[33] ایک روایت میں حضرت مہدی(عج) کے ظہور سے پہلے امام حسینؑ کی رجعت کا ذکر آیا ہے۔[34] کسی دوسری روایت میں حضرت مہدی(عج) کی وفات کے بعد امام حسینؑ کی رجعت کا ذکر ملتا ہے۔[35]

تفسیر قمی میں حضرت امام علیؑ سے ایک روایت منقول ہے کہ جس وقت حضرت محمد(ص) نے لوگوں کے درمیان رجعت کے بارے میں گفتگو کی تو اصحاب نے آپ(ص) سے اس کے واقع ہونے والے زمانے کے بارے میں سوال کیا تو آپ(ص) پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورہ جن آیت 25 نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا: «قُلْ إِنْ أَدْرِی أَ قَرِیبٌ ما تُوعَدُونَ أَمْ یَجْعَلُ لَہُ رَبِّی أَمَداً؛ "آپ(ص) کہہ دیجیے! کہ میں نہیں جانتا کہ جس چیز (عذاب) کا تم لوگوں سے وعدہ وعید کیا جارہا ہے کہ آیا وہ قریب ہے یا میرا پروردگار اس کیلئے کوئی طویل مدت مقرر کرتا ہے۔" [36]

رجعت کرنے والے

بعض روایات رجعت کرنے والے افراد کا تذکرہ آیا ہے:[37]

  • شیعہ ائمہؑ: امام جعفر صادقؑ سے مروی ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے رجعت کرنے والا شخص امام حسینؑ ہونگے جو اپنی رجعت کے بعد روئے زمین پر 40 سال حکومت کریں گے۔[38] نیز پیغمبرخدا(ص)، امام علیؑ[39] اور دیگر ائمہ معصومینؑ[40] کی رجعت کے بارے میں روایات ملتی ہیں۔
  • اصحاب ائمہؑ: بعض روایات کے مطابق ائمہ معصومینؑ کے اصحاب اور ان کے شیعوں کے ایک گروہ بھی رجعت کرنے والوں میں ہے۔[41] بعض روایات میں سلمان، مقداد، ابو دجانہ انصاری اور مالک اشتر بھی رجعت کرنے والوں میں سے ہیں۔[42]

ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ امام حسینؑ کے اصحاب میں سے 70 افراد آپ کے ساتھ رجعت کریں گے۔[43]

رجعت کے دلائل

رجعت کی حقانیت کے اثبات کے لیے درج ذیل دلائل پیش کیے جاتے ہیں:

قرآنی آیات سے استناد

علمائے امامیہ نے رجعت کی حقانیت کے اثبات کے سلسلے میں قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیتوں سے استدلال کیا ہے:

  • آیہ «وَ يَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ أُمَّۃٍ فَوْجًا مِمَّنْ يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا؛ اور (اس دن کو یاد کرو) جس دن ہم ہر امت میں سے ایک ایسا گروہ محشور (جمع) کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتا تھا»[48] آیت کی دلالت یہ ہے کہ اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ لوگوں کا ایک گروہ جمع کرے گا، سب کو نہیں، اور اس طرح کا جمع کرنا قیامت والے دن نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ قرآن کی ایک اور آیت کے مطابق جس میں ارشاد خداوندی ہے: «وَحَشَرْنَاہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ أَحَدًا؛»،[49] "اور ہم اس طرح سب لوگوں کو جمع کریں گے کہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے" اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام انسانوں کو محشور کرے گا اس بنا پر یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ سورہ نمل آیت 83 میں موجود لفظِ "حشر" سے مراد قیامت کے دن مُروں کو زندہ کرنا نہیں، بلکہ اس کا تعلق دنیا سے ہے اور یہی رجعت ہے۔[50] تفسیر قمی میں اسی آیت کے ذیل میں امام جعفر صادقؑ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے جس سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ حشر سے مراد رجعت ہے۔[51]
  • وہ آیات جو قیامت سے پہلے پچھلی قوموں کو زندہ کیے جانے پر دلالت کرتی ہیں۔ جیسے سورہ بقرہ کی 73ویں، 243ویں اور 259ویں آیت۔[52] تورات میں بھی لوگوں کی رجعت کی مثالیں ملتی ہیں: جیسے الیشع نبی کے ہاتھ سے ایک بچے کا زندہ ہونا[53] اور بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے حضرت الیاس کے ہاتھ سے ایک لڑکے کا زندہ ہونا۔[54]

سورہ نمل کی آیات 82، قص کی 85، آل عمران کی 157، سجدہ کی 21، غافر کی 20، مائدہ کی 20، نساء کی 159 اور انبیاء کی 95 جیسی آیات شامل روایات کی مدد سے واپسی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان کی تشریح میں [55]

رجعت کے بارے میں منقول متواتر احادیث

کہتے ہیں کہ رجعت کے بارے میں منقول روایات تواتر معنوی کی حد تک ہیں۔[56] علامہ مجلسی نے اپنی کتاب حق الیقین میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے 40 سے زائد شیعہ مصنفین کے 50 مستند منابع سے 200 سے زائد احادیث اخذ کی ہیں جن میں سے کچھ احادیث کو بحار الانوار میں باب الرجعہ[57] کے عنوان سے نقل کی گئی ہیں۔[58] علامہ مزید لکھتے ہیں: اگر رجعت کے بارے میں منقول روایتوں کا تواتر ثابت نہ ہوں تو کسی چیز میں تواتر کا دعویٰ ممکن نہیں ہے۔ [59] سید عبد اللہ شبر نے بھی امام علیؑ کی رجعت سے متعلق احادیث کو متواتر معنوی اور دیگر ائمہؑ کی رجعت کے بارے میں منقول احادیث کو تواتر کے قریب سمجھا ہے۔[60] بعض دعاؤں اور زیارتوں میں بھی ایسے مطالب پائے جاتے ہیں جو رجعت واقع ہونے پر دلالت کرتے ہیں؛ دعائے عہد، دعائے دحو الارض، زیارت جامعہ کبیرہ، زیارت مطلقہ امام حسینؑ، زیارت آل یاسین اور زیارت امام زمانؑ۔[61]

کیا عقلی طور پر رجعت ممکن ہے؟

مذہب امامیہ کے نزدیک عقلی طور پر رجعت ممکن ہے اور واقع بھی ہوچکی ہے۔[62] ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کے لیے ایسا کرنا ناممکن نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اپنے بعض بندوں کو موت کے بعد اور قیامت سے پہلے زندہ کرنے اور دنیا میں واپس لانے پر قدرت رکھتا ہے اور قرآن کی بعض آیات کے مطابق[63]، گذشتہ بعض قوموں میں بھی ایسا ہوا ہے۔[64] تاہم، بعض نے رجعت کے امکان اور واقع ہونے کو قبول نہیں کیا ہے[65] اور بعض نے صرف اس کے واقع ہونے پر شک کیا ہے۔[66]

رجعت کا فلسفہ

بعض وہ مطالب جن کو روایات اور علماء کے قول کے مطابق فلسفہ رجعت کے طور پر بیان کیا گیا ہے، درج ذیل ہیں:

  • ظالموں سے انتقام اور مومنین کی تشفی خاطر: کہا جاتا ہے کہ رجعت کرنے والوں کی دق قسمیں ہیں: ایک وہ گروہ ہے جن کا ایمان بلند مرتبہ ہوگا اور خدا انہیں دنیا میں لوٹا دیتا ہے تاکہ حکومت حق ان کو دکھائے اور انہیں عزیز بنائے اور دوسرے گروہ ظالمین ہونگے جن سے انتقام لیا جائے گا تاکہ مظلوموں کی تسلی خاطر ہوجائے۔[67]
  • نیک لوگوں کی جزا اور مجرموں کی سزا: بعض روایات کے مطابق منافقین اور ظالموں کے ایک گروہ کو قیامت کے دن اپنی خاص سزا کے علاوہ اس دنیا میں بھی ایسی ہی سزائیں ملنی چاہئیں، جیسے فرعونی سرکش قومیں، قوم عاد، قوم ثمود اور قوم لوط وغیرہ، ان کو اس دنیا میں سزا دینے کا واحد راستہ رجعت ہے۔[68]
  • نصرت الہی: ان روایات کی بنیاد پر جو اس آیت کے تحت نقل ہوئی ہیں «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْہَادُ؛ بے شک ہم اپنے رسولوں(ع) کی اور ایمان والوں کی اس دنیاوی زندگی میں بھی مدد کرتے رہتے ہیں اور اس دن بھی کریں گے جب گواہ (گواہی دینے کیلئے) کھڑے ہوں گے۔»،[69] روایت میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت برپا ہونے سے پہلے اور قیام امام مہدی(عج) کے وقت انبیاء، ائمہؑ اور مومنین کی مدد کا وعدہ پورا کرے گا ہے۔[70]
  • ارتقائے نفوس: مولفِ تفسیر نمونہ کے مطابق، خالص مومنین کا ایک گروہ جنہوں نے اپنی زندگی میں روحانی ارتقاء کی راہ میں رکاوٹوں کا سامنا کیا ہے اور ان کا ارتقاء نامکمل رہ گیا ہے، حکمت الہی کا تقاضا ہے کہ وہ دوبارہ اس دنیا میں واپس آ کر اپنے ارتقاء کو جاری رکھیں نیز عدل و انصاف کی عالمی حکومت کا مشاہدہ کریں اور اس حکومت کی تعمیر و ترقی میں حصہ دار ہوجائیں۔[71]
  • منتظرین کی امید اور تیاری کو تقویت دینا: رجعت لوگوں کو یہ امید دلاتی ہے کہ اگر وہ مر بھی جائیں تو امام مہدی(عج) کی حکومت میں دوبارہ زندہ ہوں گے اور ظہور کے وقت کو پالیں گے۔ یہ امید لوگوں کو خالص مومنین میں شامل ہونے کی کوشش کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔[72]


رجعت کے موضوع پر لکھی گئی کتب

رجعت کے موضوع پر لکھی گئی کتاب "الایقاظ من الہجعۃ بالبرہان علی الرجعۃ در موضوع رجعت"

علمائے امامیہ نے رجعت کے موضوع پر بہت سی تصانیف لکھی ہیں۔ "منبع شناسی موضوعی رجعت" کے عنوان سے لکھے گئے ایک مضمون میں ان تصنیفات کی تعداد 127 بتائی گئی ہے۔[73] "رجعت" کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:

  • کتاب «الایقاظ من الہجعۃ بالبرہان علی الرجعہ»، تالیف: شیخ محمد بن حسن حرّ عاملی۔ اس کتاب میں حر عاملی نے متعدد آیات و روایات کا حوالہ دے کر مذہب امامیہ کے نقطہ نظر سے عقیدہ رجعت کے صحیح ہونے کو ثابت کیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب کی تالیف کا مقصد شیعوں کی تین قسم لے لوگوں کو رجعت کے سلسلے میں جواب دیا ہے: وہ لوگ جنہوں نے رجعت کے حوالے سے توقف اختیار کیا ہے، وہ لوگ جنہوں نے رجعت کا انکار کیا ہے اور وہ لوگ جنہوں نے رجعت کے سلسلے میں آمدہ روایات کی تاویل کی ہے۔[74]
  • کتاب «رجعت»، تالیف: محمد باقر مجلسی (متوفی سنہ 1111 ہجری)۔ علامہ مجلسی نے یہ کتاب فارسی میں تالیف کی ہے اور اس میں ظہور امام مہدی(عج) اور موضوع رجعت کے بارے میں 14 احادیث نقل کی ہیں۔[75]
  • کتاب «الشیعـۃ والرجعۃ»: تالیف: محمد رضا طبسی نجفی۔ مصنف نے اس کتاب میں قرآن، احادیث، زیارات اور اجماع فقہاء کی روشنی میں مسئلۂ رجعت کے مقام و مرتبے پر مفصل بحث کی ہے۔
  • کتاب «الرجعۃ أو العودۃ إلی الحیاۃ الدنیا بعد الموت»: تألیف علی‌ موسی کعبی۔ مصنف نے اس کتاب میں رجعت کے قرآنی دلائل کے ساتھ اس کے واقع ہونے کے امکان اور وقوع کو بیان کیا ہے۔[76]
  • کتاب «بازگشت بہ دنیا در پایان تاریخ (تحلیل و بررسی مسئلہ رجعت)»: اس کتاب کے مصنف خدا مراد سلیمیان ہیں۔ یہ کتاب 10 ابواب پر مشتمل ہے۔ لفظ رجعت کے معانی، رجعت اسلامی مذاہب کی نظر میں، زمان رجعت، امکان وقوع رجعت، آخرالزمان میں رجعت، اعتراضات اور ان کے جوابات، زمان رجعت میں ذمہ داریاں، رجعت کے دوران جزا و سزا کی نوعیت وغیرہ اس کے کتاب کے مندرجات میں شامل ہیں۔[77]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. حر عاملی، الإیقاظ من الہجعۃ، 1386شمسی، ص423۔
  2. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1414ھ، ص324۔
  3. ابن‌ منظور، لسان العرب، ذیل واژہ «رجع»۔
  4. ملاحظہ کیجیے: طبری، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص542.
  5. رضوانی، موعود شناسی و پاسخ بہ شبہات، 1388شمسی، ص661۔
  6. مظفر، بدایۃ المعارف الالہیۃ، 1417ھ، ج2، ص169.
  7. کیانی‌ فرید، «رجعت»، ص593۔
  8. حر عاملی، الإیقاظ من الہجعۃ، 1386شمسی، ص101۔
  9. شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ص60۔
  10. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1414ھ، ص48۔
  11. سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1405ھ، ج1، ص125۔
  12. سلیمیان، بازگشت بہ دنیا در پایان تاریخ، 1387شمسی، ص39۔
  13. علامہ مجلسی، حق الیقین، انتشارات اسلامیہ‌، ج2، ص335۔
  14. علامہ مجلسی، حق الیقین، انتشارات اسلامیہ‌، ج2، ص354۔
  15. شبر، حق الیقین، 1418ھ، ج2، ص337۔
  16. حر عاملی، الإیقاظ من الہجعۃ، 1386شمسی، ص96۔
  17. صافی گلپایگانی، مجموعۃ الرسائل، 1404ھ، ج2، ص406۔
  18. امین، نقض الوشیعۃ، 1403ھ، ص376؛ مغنیہ، الجوامع و الفوارق، 1414ھ، ص300-302؛ مظفر، عقاید الشیعۃ، 1429ھ، ص84۔
  19. موسوی اردبیلی، تقریرات فلسفہ (تقریرات درس فلسفہ امام خمینی)، 1381شمسی، ج3، ص197.
  20. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1414ھ، ص46۔
  21. شبر، حق الیقین، 1418ھ، ج2، ص337۔
  22. ملاحظہ کیجیے: حر عاملی، الایقاظ الہجعۃ، 1386شمسی، ص95؛ مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج4، ص562۔
  23. مطہری، مجموعہ آثار، 1390شمسی، ج4، ص562۔
  24. موسوی اردبیلی، تقریرات فلسفہ (تقریرات درس فلسفہ امام خمینی)، 1381شمسی، ج3، ص197۔
  25. محمدی، «فلسفہ رجعت از منظر آیۃاللہ شاہ آبادی»، ص85۔
  26. «رجعت در قرآن و اندیشہ شیعیان»، وبگاہ آثار استاد محمدباقر بہبودی.
  27. سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1405ھ، ج1، ص125؛ حر عاملی، الایقاظ الہجعۃ، 1386شمسی، ص94۔
  28. سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1405ھ، ج1، ص125.
  29. محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ امام مہدی(ع) براساس قرآن، حدیث و تاریخ، 1393شمسی، ج8، ص77۔
  30. ملاحظہ کیجیے: شیخ مفید، اوائل المقالات، 1414ھ، ص77؛ سید مرتضی، الرسائل الشریف، 1405ھ، ج1، ص125؛ طبرسی، مجمع البیان، 1414ھ، ج7، ص367؛ حر عاملی، ایقاظ الہجعۃ، 1386شمسی، ص38.
  31. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ص369-370۔
  32. ملاحظہ کیجیے: حلی، مختصر البصائر، 1421ھ، ص120-122۔
  33. ملاحظہ کیجیے: کعبی، الرجعۃ و العودۃ، 1426ھ، ص55۔
  34. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص281۔
  35. شیخ مفید، الاختصاص، 1413ھ، ص257-258؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص326.
  36. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، ص391۔
  37. کعبی، الرجعۃ أو العودۃ، 1426ھ، ص53-54.
  38. حلی عاملی، مختصر البصائر، 1421ھ، ص91؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج53، ص64۔
  39. ملاحظہ کیجیے: قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، ص147۔
  40. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص25؛ حر عاملی، الایقاظ من الہجعۃ، 1386شمسی، ص345؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج53، ص108-109۔
  41. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص50-51۔
  42. ملاحظہ کیجیے:عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص32؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج53، ص68۔
  43. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج51، ص56.
  44. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص112-113؛ حلی عاملی، مختصر البصائر، 1421ھ، ص93.
  45. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج2، ص112-113؛ حلی عاملی، مختصر البصائر، 1421ھ، ص93.
  46. طبری، دلائل الامامۃ، 1413ق، ص484.
  47. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص385؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج53، ص24.
  48. سورہ نمل، آیہ 83۔
  49. سورہ کہف، آیہ 47۔
  50. ملاحظہ کیجیے: شیخ مفید، اوائل المقالات، 1414ھ، ص325؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج7، ص405-406؛ شبر، حق الیقین، 1418ھ، ج2، ص298-299؛ مغنیہ، الجوامع و الفوارق، 1414ھ، ص300-301۔
  51. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص24.
  52. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1414ق، ص324-325۔
  53. عہد عتیق، کتاب دوم پادشاہان، بند 32-38۔
  54. عہد عتیق، کتاب اول پادشاہان، بند17 و 24.
  55. ملاحظہ کیجیے: شبر، حق الیقین، 1418ھ، ج2، ص299-304.
  56. حر عاملی، الایقاظ من الہجعۃ، 1386شمسی، ص73-74؛ شبر، حق الیقین، 1418ھ، ج2، ص305۔
  57. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج53، ص39۔
  58. علامہ مجلسی، حق الیقین، انتشارات اسلامیہ، ج2، ص336۔
  59. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج53، ص123۔
  60. شبر، حق الیقین، 1418ھ، ج2، ص337۔
  61. ملاحظہ کیجیے: طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص494؛ قمی، کلیات مفاتیح الجنان، انتشارات اسوہ، ص249 و 325 و 524 و 540 و 548.
  62. ملاحظہ کیجیے: طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج7، ص405۔
  63. رجوع کیجیے: سورہ بقرہ، آیات 56 و 73 اور 259.
  64. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج7، ص405۔
  65. سلیمیان، بازگشت بہ دنیا در پایان تاریخ، 1387شمسی، ص59۔
  66. ملاحظہ کیجیے: آلوسی، تفسیر روح المعانی، 1415ھ، ج10، ص237.
  67. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1414ھ، ص78؛ شیخ مفید، الفصول المختارۃ، 1413ھ، ص153؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج53، ص39 و 126.
  68. شیخ مفید، الفصول المختارۃ، 1413ھ، ص155؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج53، ص126-127؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج15، ص559.
  69. سورہ غافر، آیہ 51۔
  70. حر عاملی، الایقاظ من الہجعۃ، 1386شمسی، ص345-346۔
  71. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج15، ص559.
  72. محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ امام مہدی، 1393شمسی، ج8، ص50.
  73. زادہوش، «منبع‌شناسی موضوعی رجعت»، ص72-80۔
  74. حر عاملی، الایقاظ من الہجعۃ، 1386شمسی، ص44-45.
  75. علامہ مجلسی، رجعت، 1386شمسی، ص50.
  76. کعبی، الرجعۃ أو العودۃ إلی الحیاۃ الدنیا بعد الموت، 1426ھ، ص105.
  77. سلیمیان، بازگشت بہ دنیا در پایان تاریخ، 1387شمسی، ص7-12.

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • تورات۔
  • آلوسی، محمود بن عبداللہ، تفسیر روح المعانی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
  • ابن‌ منظور، محمد بن مكرم، لسان العرب، بیروت، دار الصادر، 1414ھ۔
  • امین، سیدمحسن، نقض الوشیعۃ، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1403ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، الإیقاظ من الہجعۃ بالبرہان علی الرجعۃ، قم، انتشارات دلیل ما، 1386ہجری شمسی۔
  • حلی عاملی، حسن بن سلیمان بن محمد، مختصر البصائر، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ اول، 1421ھ۔
  • «رجعت در قرآن و اندیشہ شیعیان»، وبگاہ آثار استاد محمدباقر بہبودی۔
  • رضوانی، علی‌اصغر، موعود شناسی و پاسخ بہ شبہات، قم، مسجد مقدس جمکران، 1388ہجری شمسی۔
  • زاد ہوش، محمدرضا، «منبع‌ شناسی موضوعی رجعت»، کتاب ماہ دین، شمارہ 62، آذر1381ہجری شمسی۔
  • سلیمیان، خدامراد، بازگشت بہ دنیا در پایان تاریخ (تحلیل و بررسی مسئلہ رجعت)، قم، بوستان کتاب، 1387ہجری شمسی۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، رسائل الشریف المرتضی، قم، دار القرآن الکریم، 1405ھ۔
  • شبر، عبد اللہ، حق الیقین فی معرفۃ اصول الدین، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1418ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، كنگرہ شیخ مفید، 1414ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، أوائل المقالات فی المذاہب و المختارات، بیروت، دار المفید، 1414ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارۃ، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • صافی گلپایگانی، لطف‌ اللہ، مجموعۃ الرسائل، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1404ھ۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، تصحیح محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضى‌، 1403ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، انتشارت الاعلمی للمطبوعات، 1414ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامۃ، قم، مؤسسۃ البعثۃ، چاپ اول، 1413ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، حق الیقین، قم، انتشارات اسلامیہ، بی‌تا۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، رجعت، قم، انتشارات دلیل ما، 1386ہجری شمسی۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تصحیح سیدہاشم رسولی محلاتی، تہران، چاپ اول، 1380ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، کلیات مفاتیح الجنان، قم، انتشارات اسوہ، بی‌تا۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تصحیح طیب موسوی جزائری، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • کعبی، علی‌ موسی، الرجعۃ أو العودۃ إلی الحیاۃ الدنیا بعد الموت، قم، مرکز الرسالۃ، 1426ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح محمد آخوندی و علی‌اکبر آخوندی، تہران، دار الكتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
  • کیانی‌ فرید، مریم، «رجعت»، در دانشنامہ جہان اسلام، جلد 19، تہران، بنیاد دائرۃ المعارف اسلامی، 1393ہجری شمسی۔
  • محمدی ری شہری، محمد، دانشنامہ امام مہدی(ع) براساس قرآن، حدیث و تاریخ، قم، انتشارات دار الحدیث، 1393ہجری شمسی۔
  • محمدی، بہزاد، «فلسفہ رجعت از منظر آیۃاللہ شاہ آبادی»، اندیشہ نوین، شمارہ 41، تابستان 1394ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، قم، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
  • مظفر، محمدرضا، بدایۃ المعارف الالہیۃ فی شرح عقاید الامامیۃ، تعلیقہ سید محسن خرازی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1417ھ۔
  • مظفر، محمدرضا، عقاید الشیعۃ، قم، انصاریان، 1429ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، الجوامع و الفوارق، بیروت، مؤسسۃ عزالدین، 1414ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
  • موسوی اردبیلی، عبدالغنی، تقریرات فلسفہ (تقریرات درس فلسفہ امام خمینی)، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینى، 1381ہجری شمسی۔