جُنْدَب بْن جُنادَہ غفاری (متوفی 32 ھ)، ابوذر غفاری کے نام سے مشہور پیغمبر اکرمؐ کے بزرگ صحابی اور امام علیؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ آپ کے بارے میں شیعہ و اہل سنت دونوں فرقوں کے علماء بہت سارے صفات و فضائل و مناقب بیان کرتے ہیں۔ علمائے علم رجال انہیں ارکان اربعہ شیعہ میں شمار کرتے ہیں۔ تیسرے خلیفہ عثمان کی کارکردگی پر معترض ہونے کی وجہ سے آپ کو شام جلا وطن کیا گیا اور پھر وہاں سے ربذہ بھیجا گیا اور وہیں پر دنیا سے چل بسے۔

ابوذر غفاری
کوائف
مکمل نامجندب بن جنادہ غفاری
کنیتابوذر
لقبابوذر غفاری
تاریخ پیدائشسنہ 33 قبل ہجرت
محل زندگیمدینہ، شام، ربذہ
مہاجر/انصارمہاجر
نسب/قبیلہقبیلہ بنی غفار بن ملیل
وفاتسنہ 32 ہجری، ربذہ
مدفنربذہ
دینی معلومات
اسلام لاناسب سے پہلے اسلام لانے والوں میں
وجہ شہرتارکان اربعہ شیعہ
نمایاں کارنامےاصحاب امام علی علیہ السلام
دیگر فعالیتیںخلفاء کی مخالفت: خاض طور پر واقعہ سقیفہ، منع کتابت حدیث اور عثمان کے دور میں بیت المال کی تقسیم کے سلسلہ میں۔
ابوذر کا ربذہ کی جانب جلا وطنی کے وقت امام علیؑ کا خطاب

اے ابوذر! تمہارا غم و غصہ خدا کی خاطر تھا، لہذا اسی ذات پر امید رکھو۔ یہ لوگ اپنی دنیا میں تم سے خوفزدہ ہیں، اور تم کو اپنے دین کی خاطر ان سے ڈر ہے۔ لہذا جس چیز کی خاطر وہ تم سے ڈرتے ہیں، وہ چیز ان کے لئے چھوڑ دو۔ اور جس وجہ سے تم ان سے ڈرتے ہو اس کو ان سے دور لے جاؤ۔ تم نے جس کام سے انکو روکا ہے، انکو اسکی کتنی ضرورت ہے، اور تم کتنے بے نیاز ہو اس سے جس سے وہ تمہیں روکتے ہیں۔ تمہیں بہت جلد پتا چل جائے گا کہ کل اس کا نفع کس کو ملے گا، اور جس کو اس کا زیادہ نقصان ملے گا، وہ کون ہو گا۔ اگر آسمانوں اور زمین کو کسی انسان کے لئے بند کیا جائے، لیکن وہ خدا سے ڈرے، اس کے لئے وہ دونوں کھلے ہیں۔ خدا خود تمہارا مونس اور مددگار ہے، اور سوائے باطل کے تمہیں نہیں ڈرا سکے گا۔ اگر تم ان کی دنیا کو قبول کرتے وہ تم سے دوستی کرتے، اور اگر ان کی خاطر قرض لیتے تو ان کو سکون ملتا۔

ترجمہ شہیدی، نہج البلاغہ، ، خطبہ130، ص128-129

زندگی نامہ

ابوذر غفاری ظہور اسلام سے بیس سال پہلے متولد ہوئے۔[1] آپ کے والد جنادہ غفار کے فرزند تھے جبکہ آپ کی والدہ رملہ بنت الوقیعہ کا تعلق بنی غفار بن ملیل خاندان سے تھا۔[2] آپ کے والد کے لئے یزید، عشرقہ، عبداللہ اور سکن جیسے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔[3]

علماء علم رجال اور صحابہ کے بارے میں لکھنے والے مورخین نے کہا ہے کہ ابوذر لمبے قد، گندمی رنگ، نحیف جسم،[4] سفید بال اور داڑھی،[5] اور بعض کے مطابق صحت مند جسم کے مالک تھے۔[6]


پیغمبر اکرمؐ کا فرمان ہے

"اللہ تعالی نے مجھے چار لوگوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے اللہ خود بھی انہیں بہت چاہتا ہے: علی، مقداد، ابوذر اور سلمان۔"

علامہ امینی، الغدیر، 1397ھ، ج 9، ص 117.

نام اور القاب

آپ کے اصلی نام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اور تاریخی کتابوں میں ان کے مختلف نام ذکر ہوئے ہیں جیسے کہ «بدر بن‌ جندب»، «بریر بن‌ عبداللہ»، «بریر بن جنادہ»، «بریرہ بن‌ عشرقہ»، «جندب بن‌ عبداللہ»، «جندب بن‌ سکن» اور «یزید بن‌ جنادہ»۔[7] لیکن الاستیعاب میں جندب بن جنادہ زیادہ رائج اور صحیح قرار دیا گیا ہے۔[8]

زوجہ اور اولاد

جو کچھ منابع میں ذکر ہوا ہے اس کے مطابق آپ کا "ذر" نامی ایک بیٹا تھا اور اسی وجہ سے آپ کی کنیت ابوذر بن گئی اور اسی کنیت سے اکثر و بیشتر پہچانے جاتے ہیں۔[حوالہ درکار] کلینی باب وفات ذَر میں ایک روایت بھی بیان کرتے ہیں۔[9] آپ کی زوجہ کو بھی «ام ذر» کہا گیا ہے۔[10]

اسلام قبول کرنا

ابوذر سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں۔[11] بعض کا کہنا ہے کہ ابوذر اسلام سے پہلے بھی ایک خدا کو مانتے تھے اور حضرت پیغمبرؐ کی بعثت سے تین سال پہلے بھی خدا کی عبادت کرتے تھے۔[12] ابن حبیب بغدادی کہتا ہے کہ ابوذر جاہلیت کے زمانے میں بھی شراب اور ازلام کو حرام سمجھتے تھے۔[13] اور اسلام کے ظہور کے بعد رسول اکرمؐ پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے تھے۔ روایت ہے کہ ابوذر نے کہا کہ میں اسلام لانے والوں میں سے چوتھی فرد تھا۔ میں حضرت پیغمبر(ص) کے پاس گیا اور کہا: آپ پر سلام ہو اے اللہ کے رسول؛ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کا بندہ اور بھیجا ہوا پیغمبر ہے۔ پھر آپؐ کے چہرے پر خوشی اور مسرت دیکھی تھی۔[14]

ابن عباس نے ابوذر کے اسلام لانے کے بارے میں یوں روایت کی ہے کہ جب ابوذر کو مکہ میں حضرت پیغمبرؐ کی بعثت کی خبر ملی، تو آپ نے اپنے بھائی انیس سے کہا کہ اس سر زمین پر جاؤ اور مجھے اس مرد کے علم کے بارے میں خبر لے آو جس کا دعوی ہے کہ اسے آسمان سے خبریں آتی ہیں، ان کی باتوں کو سن کر میرے پاس واپس آجاو۔ اس کا بھائی مکہ پہنچا، اور حضرت پیغمبرؐ کی باتوں کو سن کر واپس ابوذر کے پاس پہنچا۔ پھر ابوذر مکہ گئے اور حضرت پیغمبرؐ کی تلاش میں نکلے۔ ابوذر کہتے ہیں: جب صبح ہوئی تو میں امام علی (ع) کے ہمراہ حضرت پیغمبرؐ کے گھر گیا[15] اور اسلامی رسم کے مطابق کہا: آپ پر سلام ہو اے رسول خداؐ اور میں پہلا فرد تھا جو آپؐ پر اس طرح سلام بھیجتا تھا ۔۔۔ اور پھر رسول خداؐ نے مجھے اسلام کی پیشکش دی اور میں نے شہادتین اپنی زبان پر جاری کیا۔[16] ابوذر کے اسلام لانے کا ماجرا شیعہ کتابوں میں کسی اور طریقے سے بیان ہوا ہے اور کلینی نے ابوذر کے اسلام لانے کے ماجرا کو امام صادق ؑ سے منقول ایک روایت میں بیان کیا ہے۔[17]

فضائل اور مناقب

پیغمبر اکرمؐ انہیں یوں خطاب فرماتے تھے: مرحبا اے ابوذر! تم ہمارے اہل بیت میں سے ہو۔[18] اور ایک اور جگہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: ابوذر سے زیادہ سچے آدمی پر نہ آسمان کا سایہ پڑا ہے اور نہ ہی زمین نے کسی ایسے شخص کو اپنے اندر جگہ دی ہے۔[19] ایک اور روایت میں رسول خداؐ نے ابوذر کو زہد اور انکساری میں حضرت عیسی بن مریمؐ سے تشبیہ دی ہے۔[20]

امام علیؑ سے ابوذر کے بارے میں سوال کیا گیا تو امامؑ نے فرمایا: ان کے پاس ایسا علم ہے جس سے لوگ محروم ہیں اور وہ ایسے علم سے مستفید ہو رہا ہے جو کبھی کم نہیں ہوتا۔[21] امیرالمومنینؑ ابوذر کا شمار ان افراد میں کرتے تھے جن کی جنت مشتاق ہے۔[22]

امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں: رسول خداؐ کے بعد سب لوگ امام علیؑ کو چھوڑ گئے اور آپ کا انکار کیا سوائے تین لوگوں کے، سلمان، ابوذر اور مقداد۔ عمار نے بھی آپؑ کو چھوڑا لیکن دوبارہ آپؑ کی جانب واپس پلٹ آئے۔[23] امام جعفر صادقؑ نے ابوذر کی عبادت کے بارے میں فرمایا کہ ابوذر کی بیشتر عبادت غور و فکر تھی ... خدا کے خوف سے اس قدر روئے کہ آنکھیں زخمی ہو گئیں۔[24] امام جعفر صادقؑ نے ایک اور روایت میں فرمایا ہے کہ ابوذر کہتے ہیں کہ مجھے تین ایسی چیزیں ملیں جنہیں لوگ ناپسند کرتے ہیں، میں ان کو پسند کرتا ہوں، موت، غربت، بیماری۔ امامؑ نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ابوذر کا مطلب یہ ہے کہ موت خدا کی اطاعت میں اس زندگی سے بہتر ہے جس میں خدا کی معصیت ہو اور بیماری خدا کی اطاعت میں اس صحت سے بہتر ہے جس میں خدا کی نافرمانی ہو اور غربت خدا کی اطاعت میں اس امیری سے بہتر ہے جس میں خدا کی معصیت ہو۔[25] شیعہ کتابوں میں، سلمان، مقداد اور عمار کے ساتھ ابوذر غفاری کو اسلام میں موجود چار ارکان میں سے ایک قرار دیا ہے۔[26] شیخ مفید، امام موسی کاظم علیہ السلام سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ قیامت کے دن، ایک ندا آئے گی کہ کہاں ہیں رسول خداؐ کے وہ حواری جنہوں نے عہد نہیں توڑا تھا؟ تو اس وقت سلمان، مقداد اور ابوذر اپنی جگہ سے اٹھیں گے۔[27]

آقا بزرگ تہرانی نے ابوذر کے حالات زندگی اور فضائل کے بارے میں دو کتابیں، ابو منصور ظفر بن حمدون بادرائی کی کتاب اخبار ابی ذر،[28] اور شیخ صدوق کی کتاب، اخبار ابی ذر الغفاری و فضائلہ[29] کا ذکر کیا ہے۔ سید علی خان مدنی ابوذر کے بارے میں یوں لکھتے ہیں: وہ بڑے عالم، عبادت گزار و بلند مرتبہ تھے، اور سال میں چار سو دینار غرباء میں تقسیم کرتے تھے اور کوئی چیز ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔[30]

بحر العلوم ابوذر کو ان حواریوں میں شمار کرتے ہیں جو سید المرسلین کی راہ پر چلے اور اہل بیتؑ کے فضائل بیان کرنے اور ان کے دشمنوں کے عیوب اور نقص بیان کرنے میں بڑے سخت تھے۔[31] ابو نعیم اصفہانی کہتے ہیں: ابوذر نے حضرت پیغمبرؐ کی خدمت کی اور اصول سیکھے اور باقی سب کچھ ترک کیا۔ ابوذر نے اسلام اور اللہ کی شریعت کے نازل ہونے سے پہلے بھی کبھی سود نہیں لیا تھا۔ حق کی راہ میں الزام لگانے والے کبھی ان پر کوئی الزام نہیں لگا سکے اور حکومتی طاقت کبھی انہیں ذلیل و خوار نہ کر سکی۔[32]

امام علیؑ سے دوستی

اربلی ایک روایت نقل کرتا ہے کہ ابوذر نے امام علیؑ کو اپنا وصی بنایا اور کہا: خدا کی قسم میں نے برحق امیرالمومنینؑ کو وصیت کی ہے۔ خدا کی قسم وہ ایسی بہار ہے کہ جس کے ساتھ سکون ملتا ہے اگرچہ لوگ ان سے جدا ہو گئے اور ان سے خلافت کا حق چھین لیا گیا۔[33] ابن ابی الحدید لکھتا ہے: ابوذر نے ربذہ میں ابن رافع سے کہا کہ بہت جلد ایک فتنہ ایجاد ہوگا، پس خدا سے ڈرو اور علی بن ابی طالبؑ کی حمایت کرو۔[34] ان کی حضرت علیؑ سے دوستی اور محبت کی یہ حد تھی کہ رات کی تاریکی میں حضرت فاطمہؑ کے جنازے کی تشییع میں شرکت کی۔[35]

خلفاء کا دور

ابوذر نے امام علیؑ کو ولایت کا حق دار سمجھنے ہوئے اس کے دفاع میں ابو بکر کی بیعت سے انکار کیا۔[36] اور دوسرے خلیفہ کے دور میں ابوذر کا ان لوگوں میں سے شمار ہوتا تھا جنہوں نے خلیفہ کی طرف سے دیا ہوا تدوین حدیث کی ممنوعیت کے حکم کو ماننے سے انکار کیا اور کہتا تھا خدا کی قسم اگر میری زبان پر تلوار رکھیں اور اور کہیں کہ میں پیغمبر اکرمؐ کی حدیث نقل نہ کروں تو میں اپنی زبان کٹوانے کو رسول اللہؐ کی احادیث بیان نہ کرنے پر ترجیح دیتا ہوں۔[37] اور اسی حدیث نقل کرنے کی وجہ سے عمر کے زمانے میں ابوذر دوسرے چند افراد کے ساتھ زندان میں رہا۔[38]

شام جلا وطنی

ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ عثمان کی طرف سے مروان بن حکم، زید بن ثابت اور چند دوسرے لوگوں کو بیت المال سے مال دینے اور اس پر ابوذر کی مخالفت اور احتجاج باعث بنا کہ انہیں شام جلا وطن کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابوذر گلی کوچوں میں علنی طور اعتراض کرتے تھے اسی وجہ سے عثمان نے انہیں مدینہ سے شام جلاوطن کر دیا۔[39]

ابوذر شام میں معاویہ کے کاموں پر اعتراض کرتے تھے اور ایک دن معاویہ نے 300 دینار ابوذر کے لیے بھیج دیا تو ابوذر نے دینار لانے والے سے کہا: اگر یہ بیت المال سے میرا اس سال کا حصہ ہے جو اب تک نہیں دیا تھا تو میں اسے رکھ دیتا ہوں لیکن اگر ہدیہ ہے تو اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے اور اسے واپس کر دیا۔ جب معاویہ نے دمشق میں قصر خضراء بنایا تو ابوذر نے کہا: اے معاویہ! اگر اس قصر کو بیت المال کے پیسوں سے بنایا ہے تو خیانت ہے اور اگر اپنے پیسوں سے بنایا ہے تو اسراف ہے۔

اس طرح سے ہمیشہ معاویہ سے کہتا تھا: خدا کی قسم تم نے ایسے کام انجام دیا ہے جنہیں میں نہیں جانتا ہوں؛ اور خدا کی قسم! ایسے کام نہ تو اللہ کی کتاب میں ہیں اور نہ ہی پیغمبر اکرمؐ کی سنت میں؛ میں ایسے حق کو دیکھ رہا ہوں جو بجھا جا رہا ہے اور ایسے باطل کو دیکھ رہا ہوں جو زندہ ہو رہا ہے، سچ کو دیکھ رہا ہوں جسے جھٹلایا جا رہا ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ ابوذر کی انہی باتوں کی وجہ سے ایک دن معاویہ نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا اور انہیں اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ٹھہرایا۔ ابوذر نے بھی جواب میں کہہ دیا: میں نہ تو اللہ کا دشمن ہوں اور نہ ہی اللہ کے رسول کا، اللہ اور اس کے رسول کے دشمن تو تم اور تمہارا باپ ہے جنہوں نے دکھاوے کے طور پر اسلام قبول کیا لیکن دل میں کفر چھپا رکھا اور اللہ کے رسول نے یقینا تم پر لعنت کی اور کئی بار تمہیں بد دعا کی کہ تمہارا پیٹ کبھی نہ بھرے۔ معاویہ نے کہا: وہ شخص میں نہیں ہوں۔ تو ابوذر نے کہا: کیوں نہیں تم ہی وہ شخص ہو؛ میں رسول اللہ کے پاس تھا آپ نے مجھ سے ہی کہا اور میں نے خود سنا ہے کہ فرماتے تھے: یا اللہ اس (معاویہ) پر لعنت بھیج اور اس کا پیٹ کبھی نہ بھرے مگر مٹی سے۔ یہ سن کر معاویہ نے ابوذر کو جیل بھیجنے کا حکم دیا۔[40]

اسی طرح کہا گیا ہے کہ ابوذر شام میں لوگوں کو پیغمبراکرمؐ اور اہل بیتؑ کے فضائل بیان کرنے کی تلقین کرتا تھا۔ اسی لیے معاویہ نے لوگوں کو اس کی محفل میں شرکت کرنے سے منع کر دیا، اور عثمان کو خط لکھ کر ابوذر کے کاموں سے آگاہ کیا اور عثمان کے جواب ملنے کے بعد معاویہ نے ابوذر کو مدینہ کی جانب روانہ کر دیا۔[41]

ربذہ جلاوطنی

ابوذر نے مدینہ میں عثمان سے ملاقات کی لیکن خلیفہ کی طرف سے دیے گئے دینار کو قبول نہیں کیا اور عثمان سے بھی ابوذر برداشت نہ ہوا اور بدترین حالت میں ربذہ کی جانب جلا وطن کر دیا۔ ابوذر اور عثمان کے درمیان گفتگو اور اس کی ربذہ جلاوطنی کی تفصیل بہت سی تاریخی کتابوں میں ذکر ہوئی ہے۔[42]

عثمان نے ابوذر کو ربذہ بھیجتے وقت حکم دیا کہ کوئی ان کی ہمراہی نہ کرے اور مروان بن حکم کو حکم دیا کہ وہ ابوذر کو مدینے سے خارج کرے۔ اس طریقے سے، کسی نے اس کے ساتھ جانے کی جرات نہ کی، ایسے میں، امام علیؑ اور آپ کے بھائی عقیل اور امام حسن و حسینؑ اور عمار یاسر ان سے خدا حافظی کے لئے آئے اور انہیں الوداع کیا۔[43]

وفات

پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا

اے ابوذر! تم اکیلے زندگی گزارو گے اور تمہیں اکیلے میں موت آئے گی اور اکیلے مبعوث ہو گے اور اکیلے جنت میں داخل ہوگے۔ عراق کے وہ لوگ تمہاری وجہ سے خوش قسمت ہوں گے جو تمہیں غسل و کفن اور دفن کریں گے

تفسیر قمی، ج1، ص295

ابوذر ذی الحجہ سنہ 32 ہجری اور عثمان کے دور خلافت میں ربذہ میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔[44] ابن کثیر لکھتا ہے: وفات کے وقت ان کی بیوی اور بچوں کے علاوہ کوئی ان کے پاس موجود نہ تھا۔[45] خیر الدین زرکلی کہتا ہے: «ابوذر اس حال میں دنیا سے گئے کہ گھر میں انہیں کفن دینے کے لئے کچھ نہ تھا۔»[46] مہران بن میمون بیان کرتا ہے: «جو کچھ میں نے ابوذر کے گھر میں دیکھا اس کی قیمت دو درہم سے زیادہ نہ تھی۔»[47]
بیان ہوا ہے کہ ابوذر کی بیوی ام ذر روتے ہوئے کہتی تھیں:

تم جنگل میں مر جاؤ گے اور میرے پاس تمہیں کفن دینے کے لئے کوئی کپڑا تک نہیں، تو ابوذر کہتے تھے: تم رونا مت بلکہ تم خوش رہو کیونکہ ایک دن رسول خداؐ نے لوگوں کے درمیان جہاں میں بھی موجود تھا، فرمایا: تم میں سے ایک فرد جنگل میں اس دنیا سے جائے گا اور مومنین کی ایک جماعت اسے دفن کرے گی۔ اور اب وہ تمام لوگ جو میرے اس وقت میرے ہمراہ اس محفل میں تھے وہ شہر میں اور تمام لوگوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے جو کچھ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا تھا وہ میرے بارے میں فرمایا ہے۔[48]

پھر اس کے بعد عبداللہ بن مسعود اور اس کے بعض دوسرے ساتھیوں کا وہاں سے گزر ہوا جس میں حجر بن ادبر، مالک اشتر اور انصار کے بعض دوسرے جوان بھی تھے انہوں نے غسل اور کفن دیا اور عبداللہ بن مسعود نے نماز جنازہ پڑھائی۔[49] تاریخ یعقوبی کے مطابق جلیل القدر حذیفہ بن یمانی بھی تدفین کرنے والوں میں شامل تھے۔[50] اور تمام منابع کے مطابق، ابوذر کی قبر ربذہ میں ہے۔[51] تیسری صدی کے حنبلی عالم حربی نے اپنی کتاب المناسک میں ذکر کیا ہے کہ ربذہ میں ایک مسجد پیغمبر اکرمؐ کے صحابی ابوذر کے نام تھی اور کہا گیا ہے کہ ابوذر کی قبر بھی اسی مسجد میں ہے۔[52]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. امین عاملی، اعیان الشیعۃ، دار التعارف، ج4، ص225
  2. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج 1، ص 252۔
  3. ابن حبان، مشاہیر علماء الامصار، ص 30۔ الثقات، ج 3، ص 55۔ تقریب التہذیب، ج 2، ص 395۔
  4. عسقلانی، الاصابہ، ج 7، ص 107۔
  5. ابن سعد، طبقات کبری، ج4، ص 23۔
  6. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1413ھ، ج 2، ص 47۔
  7. ابن اثیر، اسد الغابۃ، دار الکتاب العربی، ج5، ص186؛ مزی، تہذیب الکمال، 1406ق، ج33، ص294؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1413ق، ج2، ص49؛ امین عاملی، اعیان الشیعۃ، دار التعارف، ج4، ص225.
  8. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج4، ص1652.
  9. کافی، ج 3، ص 25۔
  10. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1378ھ، ج 15، ص 99۔
  11. ذہبی، تاریخ الاسلام، 1407ق، ج 3، ص 406؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج 1، ص 252.
  12. شوشتری، قاموس الرجال، 1419ق، ج 11، ص 322.
  13. بغدادی، المُحبَّر، 1361ھ، ص237.
  14. ابن حبان، الصحیح، 1414ق، ج16، ص83.
  15. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج4، ص1654.
  16. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ح 4، ص 1654۔
  17. کلینی، کافی، 1363ش، ج8، ص297 و 298.
  18. طوسی، امالی طوسی، 1414ق، ص525؛ طبرسی، مکارم الاخلاق، 1392ق، ص 256.
  19. مجلسی، بحار الانوار، ج 22، ص404۔
  20. مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج22، ص420.
  21. ابن عبد البر، احمد، الاستیعاب، ج 1، ص 255۔
  22. صدوق، الخصال، 1403ق، ص303.
  23. مفید، الاختصاص، 1414ق، ص10.
  24. صدوق، الخصال، 1403ق، ص40 و 42.
  25. کلینی، کافی، ج 8، ص 22۔
  26. طوسی، رجال طوسی، 1415ق، ص598؛ مفید، الاختصاص، 1414ق، ص6 و 7.
  27. مفید، الاختصاص، ص 61۔
  28. تہرانی، الذریعہ، ج 1، ص 316۔
  29. تہرانی، الذریعہ، ج 1، ص 317۔
  30. مدنی، الدرجات الرفیعہ، 1397ھ، ص 226۔
  31. بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، 1363ش، ج2، ص49.
  32. اصفہانی، حلیہ الاولیاء، ج 1، ص 156 و 157۔
  33. اربلی، کشف الغمہ، 1405ھ، ج 1، ص 353۔
  34. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1378ھ، ج 13، ص 228۔
  35. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص115.
  36. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ آیتی، ج1، ص524۔
  37. ابن سعد، طبقات کبری، ج 2، ص 354۔
  38. ابن حیان، المجروحین، ج 1، ص 35۔
  39. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 8، ص 256۔
  40. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1378ق، ج8، صص 256-258.؛ امین، اعیان الشیعہ، ج4، ص237.
  41. امین، اعیان الشیعہ، ج 4، ص 237۔
  42. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج1، ص171 و 172؛ ابن سعد، طبقات ابن سعد، ج4، ص226 - 229؛ طبری، تاریخ طبری، 1403ق، ج3، ص336.
  43. مسعودی، مروج الذہب، ج1، ص698۔
  44. طبری، تاریخ طبری، ج 3، ص 354۔
  45. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1986م، ج7، 165.
  46. زرکلی، الاعلام، 1980م، ج 2، ص 140.
  47. امین عاملی، اعیان الشیعۃ، دار التعارف، ج4، ص229.
  48. امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج 4، ص 241۔
  49. ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ق، ج1، ص253.؛ ابن خیاط، طبقات خلیفہ، 1414ق، ص71.؛ ابن حبان، الثقات، 1393ق، ج3، ص55.
  50. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ آیتی، ج2، ص68.
  51. حموی، معجم البلدان، 1399ھ، ج3، ص24؛ طریحی، مجمع البحرین، 1367ش، ج2، ص131.
  52. حربی، المناسک، 1969ء، ص327.

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ‌دار إحیاء الکتب العربیہ، 1378ھ۔
  • ابن اثیر، علی، اسد الغابہ، بیروت، ‌دار الکتاب العربی.
  • ابن حبان، محمد، الثقات، مؤسسة الکتب الثقافیہ، 1393ھ۔
  • ابن حبان، محمد، صحیح ابن حبان، بیروت، مؤسسة الرسالہ، 1414ھ۔
  • ابن حبان، محمد، کتاب المجروحین، تحقیق: محمود إبراہیم زاید، مکہ، دار الباز، بی‌ تا.
  • ابن حبان، محمد، مشاہیر علماء الأمصار، دار الئفاء، 1411ھ۔
  • ابن خیاط، خلیفہ، طبقات خلیفہ، بیروت، ‌دار الفکر، 1414ھ۔
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، ‌دار صادر.
  • ابن عبد البر، احمد، الاستیعاب، بیروت، دار الجیل، 1412ھ۔
  • ابن کثیر، اسماعیل، البدایة و النہایة، بیروت، دار الفکر، 1986ء.
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ، بیروت، دار الأضواء، 1405ھ۔
  • الأمینی، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج9، بیروت، دار الکتب العربی، 1397-1977ء.
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف.
  • بحر العلوم، محمد مہدی، الفوائد الرجالیہ، تہران، مکتبة الصادق، 1363شمسی ہجری۔
  • بغدادی، محمد بن حبیب، المحبر، مطبعة الدائرة، 1361ھ۔
  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، بیروت، دار الاضواء.
  • حربی، ابو اسحاق، المناسک و أماکن طرق الحج و معالم الجزيرة، ریاض، منشورات دار الیمامة للبحث والترجمة والنشر، 1969ء.
  • حموی، یاقوت، معجم البلدان، بیروت، ‌دار إحیاء التراث العربی، 1399ھ۔
  • ذہبی، محمد، تاریخ الاسلام، بیروت، ‌دار الکتاب العربی، 1407ھ۔
  • ذہبی، محمد، سیر أعلام النبلاء، بیروت، مؤسسة الرسالہ، 1413ھ۔
  • زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت، ‌دار العلم، 1980ء.
  • شوشتری، محمد تقی، قاموس الرجال، قم، جامعہ مدرسین، 1419ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، الخصال، قم، جامعہ مدرسین، 1403ھ۔
  • طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، رضی، 1392ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، مؤسسة الأعلمی، 1403ھ۔
  • طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، وزارت ارشاد، 1367شمسی ہجری۔
  • طوسی، محمد بن حسن، امالی، قم، دار الثقافہ، 1414ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، جامعہ مدرسین، 1415ھ۔
  • عسقلانی، ابن حجر، الاصابہ، بیروت، ‌دار الکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • عسقلانی، ابن حجر، تقریب التہذیب، بیروت، ‌دار الکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • قمی، علی بن إبراہیم، تفسیر القمی، قم، مؤسسہ دار الکتاب، 1404ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، تہران، ‌دار الکتب الإسلامیہ، 1363شمسی ہجری۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسة الوفاء، 1403ھ۔
  • مدنی، سید علی خان، الدرجات الرفیعہ، قم، بصیرتی، 1397ھ۔
  • مزی، یوسف، تہذیب الکمال، بیروت، مؤسسة الرسالہ، 1406ھ۔
  • مفید، محمد بن نعمان، الاختصاص، بیروت، دارالمفید، 1414ھ۔
  • نہج البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی، تہران، علمی و فرہنگی، 1377شمسی ہجری۔
  • یعقوبی، ابن واضح احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران، علمی و فرہنگی، 1378شمسی ہجری۔
  • یعقوبی، ابن واضح، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ‌دار صادر.
  • یوسفی، محمد رضا، در جستجوی آرمان‌ شہر نبوی: رویکرد اقتصادی ـ سیاسی ابوذر، قم، مؤسسہ انتشارات دانشگاہ مفید، 1386شمسی ہجری۔